Super User

Super User

پیغام سنه 1409

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1410

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1411

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1412

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1413

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1414

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1415

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1416

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1417

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1418

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1419

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1420

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1421

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1422

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1423

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1424

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1425

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1426

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1427

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1428

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1429

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1430

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1431

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1432

ڈاؤنلوڈ

پیغام سنه 1433

ڈاؤنلوڈ

ایرانی اہلسنت عالم دین :

اخبارات کے مطابق،ایران کے صوبہ خراسان شمالی کے مانہ و سملقان شہر کی مسجد ابوبکرصدیق کے امام جماعت "سید نفس آخوند یزدانی"نے گفتگو کرتے ہوئے اسلام دشمن طاقتوں کا عالم اسلام اور ایران میں حاکم اسلامی نظام کو کسی نہ کسی طرح نقصان پہچانے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:امت اسلامی کو چاہئے کہ نہایت ہوشیاری اور احتیاط کے ساتھ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھیں اور تفرقہ بازی کی ہر حرکت پر کڑی نظر بنائے رکھیں اور اسے ناکام بنا دیں۔

آخوند یزدانی نے کہا: دشمن نے مسلمانوں میں اتحاد کو نشانہ بنا رکھا ہے تاکہ اسے تفرقہ میں تبدیل کرسکے، اسلئے اتحاد و یکجہتی کی حفاظت اور مضبوط بنائے رکھنا ہر دور سے زیادہ اہم اور ضروری بن گیا ہے۔

انہوں نے مذید کہا :قرآن کی روح بخش تعلیمات اور رسول مکرم اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت پر عمل اور آنحضرت کی آسمانی رہنمای کی روشنی میں امت اسلامی میں حقیقی اتحاد و یکجہتی ممکن ہے۔

اس اہلسنت عالم دین نے وحدت کے مختلف معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : مسلمانوں کے درمیان دوری کو نزدیکی میں تبدیل کرنا ، نظریے اور طرز عمل میں اختلاف کو فروعی تسلیم کرنا ،ماضی کے پیش نظر حال اور مستقل کو مخدوش نہ کرنا ، یکجہتی اختیار کرنا،انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف آنا یہ سبھی اتحاد کے معنی ہیں اور مجموعی طور اس سے پتہ چلتا ہے کہ عالم اسلام اور عالم انسانیت میں مسلمان ایک ہاتھ کے مانند متحد ہیں جو کہ قرآن کی تعلیم اور حکم ہے اور ہم سب کو اسلام کی تبلیغ اور ترویج میں جڑے رہنا ہے۔

آخوند یزدانی نے مذید کہا: قرآن میں وحدت کی سفارش موجود ہے اور خدا نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو رحمت اور وحدت کے ساتھ بھیجا ہے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ رہ کر محبت اور اتحاد کی حفاظت کرتے رہیں۔

انہوں نے مذید کہا: ہم سب کو حقیقی اسلام اور رسول مکرم اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عملی سیرت اور حضرت امام خمینی (رہ) کے طریقہ کار اور امام خامنہ ای کی رہنمائی میں آگے بڑھنا ہوگا۔

ایران کے صوبہ خراسان شمالی کے مانہ و سملقان شہرکی مسجد ابو بکر صدیق کے امام جماعت نے کہا: آج ہم عالم اسلام اور مسلمان سماج میں جو اتحاد اور یکجہتی کو مشاہدہ کررہے ہیں یہ سب حضرت امام خمینی (رہ) اور حضرت امام خامنہ ای کی قیادت کا ثمرہ ہے ۔

آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے قومی سیکریٹری:

دنیا بھر میں مساجد و مقابر کی بے حرمتی اور انہیں مسمار کرنے کا جو سلسلہ جاری ہے وہ بہت ہی خطرناک بات ہے اگر اس پر فوری طور پر روک نہیں لگائی گئی تو دنیا بھر میں مقامات مقدسہ کو ان شدت پسندوں سے خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

اس خدشہ کا اظہار آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے قومی سیکریٹری سید بابر اشرف کچھو چھوی نے اپنے بیان میں کیا۔

سید بابر اشرف نے کہا کہ مزارات اور بزرگان دین کے آثار و باقیات کو مٹانے کا یہ سلسلہ سعودی عربیہ نے شروع کیا اور آج وہ پیٹرو ڈالر کے ذریعہ ساری دنیا میں اپنے کارندے بھیج کر امن و امان کے علمبردار بزرگان دین کے مزارات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

 

انہوں نے حال ہی میں افریقی ملک مالی میں عظیم بزرگان دین کے مزارات کو بم سے اڑا دئے جانے کے واقعات کی سخت مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ مزارات و دیگر مقدس مقامات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات کریں۔

 

مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آف انڈیا کے قومی جنرل سیکریٹری شاہنواز وارثی نے کہا کہ وہ شدت پسند اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور جہاں بھی جاتے ہیں وہاں مسلمانوں کو اور ان سے جڑی ہوئی عقیدت و محبت کی نشانیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

 

انہوں نے کہا کہ افغانستان ، پاکستان کے بعد لیبیا، مصر اور صومالیہ میں مزارات کے توڑنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بہت قابل مذمت فعل ہے جس پر فوری طور سے روک لگائی جائے۔

 

جس زمانہ میں آپ نجف اشرف میں تعلیمی مراحل تیزی سے طے کر رہے تھے ان ایام میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت اما م خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ بھی نجف میں جلا وطنی کے دن کاٹ رہے تھے۔ آپ مدرسہ آیت اللہ بروجردی میں نماز مغربین کی امامت فرماتے اور چند لوگ آپ کی اقتداء میں نماز بجا لاتے تھے۔ پاکستانی طلباء میں سید عارف حسین الحسینی واحد طالب علم تھے جو باقاعدگی سے امام خمینی کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے۔ نماز کے بعد امام خمینی کے دروس کو انتہائی انہماک سے سنتے اور ذہن کی لوح پر نقش کر لیتے۔ آپ واپس اپنے ہاسٹل لوٹتے تو ہاں پر موجود تمام احباب کو امام خمینی کے درس کا خلاصہ پیش کرتے اورانہیں امام خمینی کے دروس میں شرکت کی اپیل کرتے۔

یہ وہ دور تھا جب امام خمینی پر سامراج کی نظریں لگی ہوئی تھیں اور لمحہ بہ لمحہ آ پ کی کاروائیاں جاسوس ادارے نوٹ کررہے تھے۔ حکومت عراق اور حکومت ایران دونوں کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ امام خمینی کے پیروکاروں میں اضافہ نہ ہونے پائے اور آپ کے افکار کو پھیلنے کا موقع نہ ملے۔ لہذا حکومت عراق آپ اور آپ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے والوںپر کڑی نظررکھتی تھی اور اسی ضمن میں آپ کے رفقاء کوآپ سے جدا کرنے کا ہر طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ علماء اور اکثر طلباء امام خمینی کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے سے گریز کرتے تھے ۔ مگر سید عارف حسین الحسینی کے عشق کی یہ حد تھی کہ آپ امام خمینی کی جماعت کی پہلی صف میں بیٹھتے ، ذہن کے دریچوں کو کھول کر امام خمینی کا ہر فرمان سنتے اور امام خمینی کے چہرے پر نظریں جما کر مہتاب انقلاب کی شعاعوں سے آنکھوں کومنور اور دل کو تازگی بخشتے۔ جب کبھی وقت اور حالات کی نزاکتوں میں شدت آتی تو آپ اپنے رفقاء سے التجا کرتے کہ امام خمینی کی درازی عمر کی دعا کریں اور خود روضہ حضرت علی علیہ السلام پر حاضری دیتے اور گڑ گڑا کر امام خمینی کے لئے دعائیں مانگتے۔

ایک بار کسی دوست نے آپ سے کہا کہ ہم پاکستانی طلباء یہاں اپنی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں لہذا ہمیں ایران عراق اور یہاں کی سیاسی متنازعہ شخصیات سے کوئی سروکار نہیںہوناچاہیے۔ ایک تو یہ غیر ملکی معاملات ہیں اور دوسرا یہاں کے امور میں مداخلت سے ہمارے لئے مشکلات پید اہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ سنتے ہی آپ کاچہرہ جلال سے سرخ ہو گیا اور دیگر احباب کے سامنے اسی دوست سے فرمایا'' اے دوست آپ کا مذہبِ شیعہ پاکستان سے تخلیق نہیں ہوا۔ یہ چشمہ ہدایت بھی عراق سے رواں ہوا تھا اور نواسہ رسول پاکستانی نہیں تھے۔ ہم حق کے متلاشی اور ہر فرزند زہراء (س) کی صدائے ھل من ناصر پر لبیک کہنے والے ہیں لہذا ہم حق کی خاطر اٹھنے والی ہر صدا، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے سے کیوں نہ اٹھے اس کا ساتھ دینا اور حق کے راستے میں صعوبتیں برداشت کرنا بھی ہماری ذمہ داريوں میں شامل ہے۔ دعا کرو کہ فرزند زہراء خمینی دشمنوں کی نظر بد سے محفوظ رہیں اور کوشش کرو کہ آپ کے افکار کاچرچا عام ہو۔ یاد رکھو کہ اگر خدا نخواستہ اس رہبر کو کچھ ہوگیا تو پھر کئی برس تک کوئی عالم دین صدائے حق بلند نہیں کرسکے گا اور اگر بفضل خدا انہیں کامیابی حاصل ہو گئی تو پھر اسلام سرخرو اور علماء سربلند ہوں گے لہذا توبہ کرو اور اپنے دل سے ان وسوسوں کو نکال دو''۔

آپ کے جذبات اور خلوص سے تمام طلباء بے حد متاثر ہوئے اور ان میں سے بعض امام خمینی کی اقتداء میں نماز مغربین میں شرکت کرنے لگے۔ کربلا کی زمین پر سید الشہداء کے مجاہد فرزند امام خمینی کی محبت بھی پروان چڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ آپ احباب کی محفل کے درمیان امام خمینی کا ایک جملہ نقل فرماتے ہی اشکبار ہوگئے کہ آج امام خمینی نے شاہ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ'' میرا دل تیرے نیزوں سے چھلنی ہونے کے لئے حاضر ہے لیکن تیرے ظلم و ستم کو تسلیم کرنے کے لئے نہیں''۔

اس وقت جب امام خمینی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی خطرناک ہوا کرتا تھا۔ آپ امام خمینی کے پیچھے ایسے چلتے جیسا ان کے ذاتی محافظ ہوں۔ آپ کی یہ حالت دیکھ کر آپ کے کسی دوست نے بھری محفل میں کہہ دیا تھا کہ سید عارف حسین الحسینی نے انگیٹھی کو سینے سے لگایا ہوا ہے'' آپ صرف امام خمینی سے عقیدت تک محدود نہ رہے بلکہ امام خمینی سے عقیدت رکھنے والے افراد بھی آپ کی محبوب شخصیات بن گئے جن میں اقا علی نائینی، آقا سید رضا برقعی، آقا دعائی اور آقا سید حسین یزدی سرفہرست ہیں۔

زمانہ طالب علمی میں آپ اپنے استاد آیت اللہ شہید مدنی سے بے حد متاثر تھے کیونکہ شہید مدنی بلند پایہ عالم دین ہونے کے علاوہ امام خمینی کے عاشق بھی تھے۔ آپ مدرسہ دارالحکمت میں آیت اللہ مدنی سے شرح لمعہ پڑھتے تھے اور درس ختم ہونے کے بعد انہی کے ساتھ سیدھا مدرسہ بروجردی جا کر امام خمینی کے پیچھے نماز مغربین ادا کرتے اور نمازظہرین بھی اکثر اوقات مسجد شیخ انصاری میں امام خمینی کی اقتداء میں ادا کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔

امام خمینی سے آپ کی عشق کی مثال کچھ یوں بھی سامنے آئی ہے کہ ١٩٧١ء میں جب ایران میں ڈھائی ہزار سالہ جشن شہنشاہی منایا جا رہا تھا تو امام خمینی نے نجف اشرف میں اس کے خلاف تقریر کی۔ یہ شاہ ایران کے آباواجداد کا جشن شہنشاہی تھا جس پر اربوں روپے خرچ کئے گئے تھے جس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔

اس بار ے میں امام خمینی نے فرمایا تھا کہ '' اے شہنشاہ ایران یہ ملک تمہارے باپ کی جاگیر نہیں ہے بلکہ امام زمانہ کاملک ہے۔ اس کے اربوں روپے تمہارے خاندانی جشن کے لیے نہیں بلکہ غریب و مظلوم عوام کے لئے ہیں'' امام خمینی کی اس پرجوش تقریر کے بعد امام کے طرفدار طلباء اور علماء نے شاہ کو مذمتی ٹیلی گرام بھیجے۔ پاکستانی طلاب میں صرف سید عارف حسین الحسینی ہی تھے جنہوں نے شاہ کو پاکستانی طلباء کی جانب سے ٹیلی گرام بھیجا تھا۔ جب اس بات کا علم پاکستانی طلباء کو ہوا تو وہ ایک گروپ کی صورت میں نماز مغربین کے بعد صحن مطہر حضرت علی علیہ السلام میں اپ سے ملے اور اعتراض کیا ''آپکو کیا حق پہنچتا ہے کہ آپ تمام پاکستانی طلباء کی طرف سے شاہ کو مذمتی ٹیلی گرام ارسال کریں، ہمارا ان باتوں سے کیا تعلق ہے، ہم پاکستانی ہیں۔ ہم کسی ایرانی شخصیت کی حمایت اور ایرانی حکومت کی مذمت کیوں کریں؟ ہمیں تو ایران کے راستے پاکستان آنا جانا ہوتا ہے، اس طرح حکومت ایران ہمیں تنگ کرے گی''۔

پاکستانی احباب کی یہ باتیں سن کر آپ نے کافی دلائل دئیے مگر وہ بضد رہے۔ جب بات دلائل سے نہ بنی تو پھر متحمل مزاج عارف کے چہرے پر جلال نمودار ہوا اور آپ نے انتہائی سخت الفاظ میں انہیں باز رہنے کی تاکید کی۔ نوجوانی کے عالم میں غصہ پر قابو پانا آ پ کی صفات کا ایک حصہ تھا لیکن امام خمینی یا کسی مقتدر علمی شخصیات کی توہین برداشت کرنا آپ کے لئے مشکل ہوتا تھا۔''

ایک اہم واقعہ جو ١٩٧٣ء میں نجف اشرف کی سرزمین پر پیش آیا وہ یوں تھا کہ حسن البکر کی بعثی عراقی حکومت نے آقا محسن الحکیم کی انقلابی سرگرمیوں سے خائف ہو کر انہیں کوفہ میں نظر بند کر دیا اور ان کی ملاقات پر پابندی عائد کر دی۔ وفد آقا محسن الحکیم سے ملاقات کرنے کوفہ پہنچا جہاں طلباء کے جلوس اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا۔ اس جلوس میں سید عارف حسین الحسینی اور سید شبر حسن آف پاراچنار بھی موجود تھے۔ ان دونوں جوانوں نے پولیس سے خوب ہاتھاپائی کی اور چند پولیس والوں کو زخمی کردیا ۔ اس تصادم میں سیدعارف حسین کی عباء بھی پھٹ گئی۔ پھر آپ مسجد کوفہ پہنچے مگر پولیس نے مسجد میں گھس کر آپ کو گرفتار کر لیا۔

اس زمانہ میں امام خمینی کی حقیقی معرفت بہت کم افراد کو تھی اور بعض اوقات طلباء آپ سے اختلاف بھی کر لیتے تھے مگر سید عارف حسین الحینی کے سامنے کسی کو امام خمینی کی شان کے منافی ایک حرف کہنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ دل کو دل سے راہ ہونے کے مصداق شہيد حسيبی نے اگر امام خمینی جیسے گوہر یکتا کو اپنی باطنی بصیرت سے کشف کر لیاتھا تو امام خمینی کی روحانیت نے بھی آپ کا انتخاب فرمالیاتھا۔ لہذا جب آپ ١٩٧٣ء میں نجف اشرف سے پاکستان بغرض ترویج انقلاب آنے لگے تو امام خمینی نے آپ کو اپنا وکالت نامہ دیا جو ایران کی سرحد پر دوران تلاشی چھین لیا گیا۔

حزب اللہ لبنان کے جنرل سکریٹری نے تاکید کی : دنیا کا کوئی شخص علم، حکمت، دانائی، شجاعت اور مدیریت میں حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے ھم پلہ نہیں جو امت مسلمہ کی قیادت کا صلاحیت رکھتا ہو۔

 

رپورٹ کے مطابق ، حزب اللہ لبنان کے جنرل سکریٹری حجت الاسلام سید حسن نصراللہ نے اسلامی جمہوریہ ایران ٹی وی کے چوتھے چائنل کو انٹرویو میں کہا : ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلامی دنیا اور حتی پوری دنیا میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جو علم، حکمت، دانائی، شجاعت اور مدیریت میں قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا ہمتا ہو اور امت مسلمہ کی قیادت کی صلاحیت رکھتا ہو۔

 

انہوں نے مزید کہا : میری نظر میں حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای ، امام خمینی (رہ ) کے بعد سب سے بڑی اسلامی شخصیت ہیں ۔

 

حزب اللہ لبنان فقط شیعوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا دفاع کر رہی ہے ۔

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہماری تنظیم کا منشور خطے کی تمام اقوام کے دفاع پر مشتمل ہے کیونکہ حزب اللہ لبنان اپنی پوری تاریخ میں امت مسلمہ کی حامی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم ہر روز لبنان کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے اور لبنان کے دریایی پانی پر اپنا حق جتاتا ہے لہذا ہمیں ہمیشہ اپنے دفاع کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ بنت جبیل میں امن و امان کا راز اسلامی مزاحمت ہے جسکی وجہ سے دشمن اس خطے پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرتا، اگر چہ آج لبنان میں جنگ کی صورتحال نہیں لیکن حزب اللہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور آمادگی رکھتی ہے۔

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا یہ دعوی درست ہے کہ حزب اللہ لبنان تشیع کی ترویج کرنے میں مصروف ہے؟ کہا کہ حزب اللہ لبنان ایک اسلامی تنظیم ہے جو اسلامی اصولوں کی پابند ہے۔ حزب اللہ لبنان ایسے افراد کا مجموعہ ہے جو مکتب اہلبیت علیھم السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور اہل تشیع ہیں لیکن اس تنظیم کی سرگرمیاں لبنان کے تمام عوام کیلئے ہیں چاہے وہ مسلمان ہوں یا عیسائی۔

 

حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت کا نشانہ اسرائیل ہے :

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ یہ تنظیم تمام لبنانی عوام کی نمایندہ تنظیم ہے، حزب اللہ لبنان کی کوشش ہے کہ وہ ایک اسلامی تحریک کا اچھا اور ترقی یافتہ نمونہ پیش کرے لہذا اسکی شکل اسلامی مزاحمت اور جہاد والی ہے اور وہ اسلامی قوانین و اصول اور اسلامی اخلاقیات کی پابند تنظیم ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت کبھی بھی ملک کے اندر استعمال نہیں کی جائے گی اور ہم ہر گز لبنان آرمی یا سیکورٹی اداروں کے مقابلے میں نہیں آئیں گے، آپ لوگ کبھی بھی کسی کو جنوب لبنان میں مسلح حالت میں نہیں دیکھیں گے کیونکہ حزب اللہ لبنان کی طاقت خفیہ ہے اور جب تک اسرائیل ہم پر حملہ آور نہیں ہوتا ہم اپنی فوجی طاقت کا اظہار نہیں کرتے۔

 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ قومی مفادات کو اپنے تنظیمی مفادات پر ترجیح دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1982 میں اپنی تنظیمی فعالیت کے آغاز سے ہی ہم نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے ملک کا دفاع کرے لیکن اس نے ایسا نہ کیا لہذا لبنانی عوام کی ایک تعداد مسلح ہو گئی تاکہ یہ کام خود انجام دے سکیں۔

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ قومی حکومت ملک میں استحکام کا باعث ہے، موجودہ حکومت ہر قسم کے فتنے کو روکنے کا باعث بنی ہے اور ملک میں امن و امان کی فضا قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔

 

اسرائیل کے مقابلے میں حزب اللہ کی فتح ایک معجزہ سے کم نہ تھی:

 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسرائیل نے 1982 میں لبنان پر حملہ کیا اور دارالحکومت بیروت پر بھی قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا، اسی وقت اس کے خلاف اسلامی مزاحمت کی تحریک معرض وجود میں آئی اور اسرائیل پر کاری ضربیں لگانے میں کامیاب ہوئی، اسلامی مزاحمت نے اسے عقب نشینی پر مجبور کر دیا، اگر صرف لبنان کی فوج ہوتی تو اسرائیل لبنان میں باقی رہتا لیکن جب اس نے دیکھا کہ یہاں حزب اللہ جیسی تنظیم بھی موجود ہے اور اسکے خلاف ملٹری آپریشنز اور گوریلا جنگ کر رہی ہے تو فورا لبنان سے بھاگنے پر مجبور ہو گیا کیونکہ اسے ہمارے آپریشنز اور بم دھماکوں سے شدید نقصان پہنچ رہا تھا۔

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کے درمیان 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی فتح کا باعث اسرائیل کی کمزوری تھی یا حزب اللہ کی طاقت؟ کہا کہ یہ فتح خداوند کریم کی جانب سے ایک عظیم نصرت تھی اور ایک معجزہ سے کم نہیں تھی، اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیلی فوج خطے کی ایک طاقتور ترین فوج سمجھی جاتی ہے اور ہماری اصلی جنگ ہوائی مقابلے کی صورت میں تھی۔

 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ تعداد، اسلحہ اور دیگر وسائل کے اعتبار سے حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان بالکل موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن مجاہدین کے ایک گروہ نے اپنے شرعی وظیفے کا احساس کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی کوشش کی اور خدا نے انہیں فتح اور کامیابی عطا کی، ہم روزمرہ اور معمولی قوانین کی روشنی میں بالکل سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان 33 دنوں میں کیا گزرا کیونکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس کیا ہے اور ہمارے پاس کیا ہے۔

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اس سوال کے جواب میں کہ اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ میں آپ کی کامیابی کا راز کیا تھا ؟ کہا کہ خداوند اس وقت انسانوں کی مدد کرتا ہے جب وہ امتحان کے مرحلے سے گزر چکے ہوں، لبنان میں جو کچھ گذشتہ کئی عشروں خاص طور پر 1982 کے بعد انجام پایا وہ ان مخلص افراد کی مزاحمتی تحریک تھی جنہوں نے بڑی تعداد میں شہید اور زخمی پیش کئے اور اپنی فداکاری اور ایثار کے ذریعے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ خدا پر ان افراد کا یقین ان چند سالوں کے بعد ایمان میں تبدیل ہو گیا اور انہوں نے ایثار کا عظیم مظاہرہ کیا، ان 33 دنوں میں اسرائیل نے ہمارے مجاہدوں پر اتنی مقدار میں بم اور میزائل گرائے جو اس نے عرب ممالک کے ساتھ اپنے تمام گذشتہ جنگوں میں گرائے تھے لیکن ہمارے ایک مجاہد نے بھی میدان خالی نہیں کیا اور ڈٹ کر اسرائیل کا مقابلہ کیا، یہ معنوی آمادگی گذشتہ 20 یا 30 سال کی مزاحمت کا نتیجہ تھی۔

 

حزب اللہ کی میزائل طاقت دنیا کے 90 ممالک کے پاس نہیں:

 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ آج اسرائیل خود یہ اعتراف کرتا ہے کہ حزب اللہ 2006 کی نسبت کئی گنا طاقتور ہو چکی ہے، حزب اللہ لبنان کی طاقت پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے اور اسرائیل اس کو مان چکا ہے۔

 

سید حسن نصراللہ نے اس سوال کے جواب میں کہ آج کی حزب اللہ اور 2006 کی حزب اللہ میں کیا فرق ہے؟ کہا کہ حزب اللہ کی عوام میں مقبولیت باعث بنی ہے کہ وہ ماضی کی نسبت زیادہ طاقتور ہو جائے، ہمارے مجاہدین کی تعداد بھی پہلے سے زیادہ ہے اور ہمارا اسلحہ بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے میزائل مقبوضہ فلسطین کے کسی بھی حصے کو نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت کے حامل ہیں، حزب اللہ کی فوجی طاقت ماضی کی طاقت سے قابل موازنہ نہیں۔

 

اسلامی جمہوریہ ایران اسلامی مزاحمت کی مضبوط تکیہ گاہ ہے:

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ لبنان اور خطے میں جو بات مشہور ہے وہ یہ کہ 2006 میں ہونے والی جنگ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان انجام پائی لیکن پشت پردہ بہت سی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران میں نماز جمعہ کے خطبے میں کہا تھا کہ ہم خطے میں اسرائیل مخالف تحریکوں کی مدد اور حمایت کرتے ہیں، یہ ایک واقعیت ہے۔ حزب اللہ ایک لبنانی تنظیم ہے اور اسکے رہنما بھی لبنانی ہیں، حزب اللہ لبنان کی خاطر جنگ لڑ رہی ہے اور ایران خدا کی خاطر ہماری مدد کر رہا ہے، ہمیں ایران کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، اسلامی جمہوریہ ایران اسلامی مزاحمت کی ایک مضبوط تکیہ گاہ ہے۔

 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اگر اسرائیل کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا وہ کمزور ہوتا ہے تو اس میں لبنان، فلسطین، مصر، ایران اور تمام اسلامی ممالک کا فائدہ ہے، ہم اس مسئلے کو اس نظر سے دیکھتے ہیں، یہ ایک خالصانہ سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ اعتقادی، دینی اور سیاسی مسئلہ ہے۔

 

ایران روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے:

 

سید حسن نصراللہ نے اس سوال کے جواب میں کہ آپکی نظر میں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کا کس قدر امکان ہے کہا لبنان میں اسرائیل کی شکست اور عراق اور افغانستان میں امریکہ کی شکست کے پیش نظر اسکا امکان بہت کم ہے، دوسری طرف ایران روز بروز طاقتور ہوتا چلا جا رہا ہے اور خطے میں اسکے طاقتور دوست موجود ہیں۔

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران کے ساتھ کسی قسم کی جنگ ان کیلئے انتہائی مہنگی ثابت ہو سکتی ہے، جنگ کی دھمکیاں صرف اور صرف ایک نفسیاتی حربہ ہے جسکا مقصد ایران کے ساتھ مذاکرات میں اپنے مطالبات منوانا ہے۔ انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا ایران خطے کیلئے ایک خطرہ ہے؟ کہا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بعض ممالک کی جانب سے یہ منفی پروپیگنڈہ کیا گیا لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں۔

 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ کیونکہ ایران اسرائیل کیلئے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے لہذا عالمی سطح پر ایران کے خلاف دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ کوشش 1979 سے جاری ہے۔ گذشتہ کئی سالوں کے دوران جب بھی خطے میں سروے انجام دیا گیا تو لوگوں نے امریکہ اور اسرائیل کو اپنا دشمن نمبر ون قرار دیا اور ایران کو اپنا دوست ظاہر کیا، یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل اپنے منصوبوں میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوا ہے، انہوں نے اس منصوبے پر بہت زیادہ اخراجات کئے ہیں لیکن انہیں اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

 

خطے میں جنم لینے والی تحریکیں اسلامی بیداری کی تحریکیں ہیں:

 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ خطے میں پیدا ہونے والی عوامی تحریکیں ایک ناقابل انکار حقیقت ہیں جنہوں نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کو اپنا رول ماڈل بنا رکھا ہے، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد خطے میں سیاسی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں جو بعد میں فسلطینی انتفاضہ، 33 روزہ جنگ، 22 روزہ جنگ اور عراق میں عوامی مزاحمت کے نتیجے میں امریکہ کی شکست کی صورت میں ظاہر ہوئیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اگر قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای ان تحریکوں کو اسلامی بیداری کا نام دیتے ہیں تو یہ بالکل صحیح اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسکے پٹھو ان تحریکوں کو اغوا کرنا چاہتے ہیں اور انکی ان کوششوں کو لیبیا، تیونس اور مصر میں آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

سالہا سال کے انتظارکے بعد فرانس کے مسلمانوں نے اس ملک کے شہرسرگی کی مسجد میں پہلی مرتبہ نماز قائم کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق فرانس کے شہر سرگی کے مسلمان باشندوں نے کئی سالوں کے انتظارکے بعد پہلی مرتبہ اس شہرکی جامع مسجد میں نمازجماعت قائم کی ہے۔

یاد رہے کہ اس شہر اور اطراف کے دیگر علاقوں کے باشندوں نے اس مسجد میں نمازجعمہ قائم کی ہے جن میں پانچ ہزارمرد اور ایک ہزار خواتین تھیں۔

قابل ذکرہے کہ فرانس کی چھ کروڑ کی آبادی میں سے ساٹھ لاکھ مسلمان ہیں اور اس مسجد میں اس وقت تقریبا ۱۵۰مساجد کو تعمیرکیا جارہا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس سالوں کے دوران اس ملک میں مساجد کی تعداد دوگنی ہو کر دو ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔

 

 

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے درس اخلاق میں بیان فرمایا:

اخلاقی بحثوں میں ہم اس حصے تک پہنچے کہ اخلاق اس شخص کا وسطی اوردرمیانی مرحلہ ہے کہ جو سیر الی اللہ کا خواہاں ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم سب خواہ نخواہ ذات اقدس الٰہی کی طرف لوٹ کر جائیں گے «یا أَیهَا الْإِنسَانُ إِنَّک کادِحٌ إِلَی رَبِّک کدْحاً فَمُلاَقِیهِ» یہ پہلی اصل تھی ۔

دوسری اصل یہ ہے کہ ہم اگر اس راہ پر نہ بھی چلیں تب بھی ہمیں لے جایا جائے گا ۔ اگر اس راہ پر گامزن ہوں تو ہمیں روح و ریحان نصیب ہو گی اور اگر ہمیں لے جایا گیا تو «خُذُوهُ فَغُلُّوهُ» کا سامنا کرنا پڑے گا ؛ کتنا بہتر ہے کہ اس راہ پر ہم خود چلیں۔ تیسری اصل یہ ہے کہ آخر کار ہر راہ کے لیے زادہ راہ ، رفیق اور ہمراہ کی ضرورت ہے ۔ اس طولانی اور ابدی راہ کو ان وسائل کے بغیر طے نہیں کیا جا سکتا ۔ زادہ راہ قرآن نے مقرر کر دیا ہے ؛ رفقاء کی تعیین بھی قرآن کریم نے فرما دی ہے ؛ لیکن مرکب اور سواری اہل بیت ( علیھم السلام ) نے مشخص فرمائی ہے ۔ زادہ راہ کے بارے ذات اقدس الٰہی نے فرمایا : «تَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیرَ الزَّادِ التَّقْوَی» رفقاء کے باب میں سورہ مبارکہ نساء میں مشخص فرمایا : «وَ مَن یطِعِ اللّهَ وَ الرَّسُولَ فَأُولئِک مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَیهِم مِنَ النَّبِیینَ وَ الصِّدِّیقِینَ وَ الشُّهَدَاءِ وَ الصَّالِحِینَ وَ حَسُنَ أُولئِک رَفِیقاً.» اگر کوئی خدا اور پیغمبر (ص) کا مطیع ہو ، تو اس کے اعتقادی ، اخلاقی اور عملی حوالے سے اچھے رفقاء ہوں گے ، ایسا شخص انبیاء ، صدیقین ، صلحاء اور شہداء کے ہمراہ ہو گا ۔ یہ لوگ ہمارے ہمراہ ہیں اور ان کی اچھی رفاقت یہ ہے کہ یہ راستے میں نہیں ٹھہرنے دیں گے ۔ اگر ہمارا زاد راہ کم ہو ، تو پورا کریں گے ؛ ہماری سواری کے فقدان کا ازالہ کریں گے اور اگر ہم تھک گئے اور پیچھے رہ گئے تو یہ ہماری مدد کریں گے۔ یہ لوگ اچھے رفقاء ہیں۔ ایک شخص کو گھر فروخت کرنے کی ضرورت پڑ گئی ، ڈیلرز نے اس کے مکان کی ایک قیمت مقرر کی لیکن اس نے دوگنی سے زیادہ قیمت کہی ۔ اسے کہا گیا : یہ گھر اتنے کا نہیں ہے ! ، اس نے کہا : مجھے معلوم ہے کہ گھر کی قیمت یہ نہیں ہے اور ڈیلرز نے فلاں قیمت معین کی ہے لیکن اس گھر کو ایک ترجیح حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ میں امام کاظم سلام اللہ علیہ کا ہمسایہ ہوں ؛ اس بنا پر اس گھر کی قدر و قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ غرضیکہ وہ اپنے ساتھیوں کا دھیان رکھنے والے ہیں ۔ اگر انبیاء ، صلحاء ، صدّیقین اور شہداء ہمارے ہمراہ ہوں تو ہم راستے ہی میں سرگرداں نہیں رہیں گے اورپھر کوئی بھٹکا ہوا مسافرنہیں ہوگا۔ پس زاد راہ مشخص ، راہ مشخص ، ہمراہ اور سواری بھی مشخص ہے ۔

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے نماز شب کے بارے گیارہویں امام (ع) کی حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

گزشتہ ہفتے وجود مبارک امام عسکری (ع) کے پربرکت میلاد کی مناسبت سے اس نورانی حدیث کو نقل کیا گیا کہ فرمایا : «إنّ الوصولَ إلی الله عزّ و جلّ سفرٌ لایدرک الاّ بِامْتطاءِ اللیل» یعنی اس طولانی راستے کو سواری اور مرکب کے بغیر طے کرنا دشوار ہے ؛ اس راہ کی سب سے اہم سواری نماز شب ہے ۔ "امتطاء"، کا معنی أخذ المطیة یعنی سواری اخذ کرنا ہے ؛ "امتَطَأ" یعنی "أَخَذَ المطیة" اس نے سواری اخذ کی ، فرمایا : جو لوگ اہل تہجّد نہیں ہیں ، وہ پیدل راستہ طے کریں گے لیکن مشقت کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچیں گے لیکن اگر سوار ہو کر جائیں تو زیادہ آسانی سے منزل تک پہنچیں گے اور یہ سوار ہو کر جانا نماز شب کے ہمراہ ہونے کی صورت میں ہے «إنّ الوصولَ إلی الله عزّ و جلّ سفرٌ لایدرک الاّ بِامْتطاءِ اللیل.» راہ مشخص ہے ، ہمراہی ، زاد راہ اور سواری بھی مشخص ہے ۔ یہ باتیں بہت سی کتابوں میں ہیں ۔ اخلاقی کتب کی طرف رجوع کریں تو بیشتر کتابوں میں یہی باتیں مذکور ہیں ؛ لیکن جو مطلب ہمارے بعض اساتذہ(رضوان اللہ علیھم ) نے فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی تقاریر اور گفتگو میں باتقویٰ رہنے کی کوشش کریں ، لوگوں کو تقویٰ کی دعوت دیں ۔ یہ باتقوٰی رہنا اور لوگوں کو تقویٰ کی دعوت دینے کا مطلب زاد راہ مہیا کرنے کے لیے سرگرم رہنا ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ امر ہمیں اصل چیز سے روک دے ۔

اگر آپ مشہد جانا چاہیں تو کس قدر زادہ راہ مہیا کریں گے ؟ خوراک کا ایک کارٹن آپ کے لیے اور آپ کے بال بچوں کے لیے کافی ہو گا ؛ آپ ایک ٹرک بھر خواراک تو نہیں لے جائیں گے ، اگر ٹرک بھر لے جائیں تو کچھ آپ خود کھائیں گے اور کچھ دوسرے زائرین کو دے کر ثواب حاصل کریں گے ۔ اگر کوئی شخص زندگی بھر تقویٰ کی فکر میں رہے یعنی واجبات کو انجام دے اور محرمات کو ترک کرے ، نوافل ادا کرے ، نیک کام اور مستحبات انجام دے ، صدقہ دے ، تو وہ صرف زاد راہ جمع کرنے میں مشغول ہے ۔ اس ہفتہ جشن نیکو کاری ہے اگر کوئی ان تقریبات میں اس طرح کے کاموں میں شریک ہو ، فقیروں کا دھیان رکھے تو وہ تقویٰ میں مشغول ہے ۔ یہ تمام چیزیں تقویٰ ہیں ۔ لیکن یہ کام اگر ایک بزرگ اخلاقی عالم کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ کہے گا اس شخص نے اپنی عمر زاد راہ مہیّا کرنے میں خرچ کر دی ہے لیکن خدا کون ہے ؟ خدا جو ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے اور ہم سے بھی زیادہ ہمارے نزدیک ہے ، ہم اسے کیوں نہیں دیکھ پاتے ؟ یہ ہدف ہے ؛ نہ وہ زاد راہ کہ جو ہم جمع کر رہے ہیں ۔ آپ متواتر زاد راہ مہیا کرتے رہیں ؛ تو آپ کو بہشت عطا کر دی جائے گی ۔ آپ اور دوسروں کے درمیان فرق یہ ہو گا کہ اگر دوسروں کو دس سجے سجائے کمرے عطا ہوں گے تو آپ کو سو مل جائیں گے ، دوسروں کو دس نہریں ملیں تو آپ کو سو نہریں مل جائیں گی ؛ یہاں تک آپ«فِی جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ» کا مصداق ٹھہرے ہیں لیکن آپ کو «فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ»کا مقام نصیب نہیں ہو گا ۔ چونکہ آپ نے زاد راہ کے حوالے سے کام کیا ہے لیکن منزل اور ہدف کی شناخت حاصل نہیں کی ۔ خدا کا ایک مفہوم ہم سب کے ذہنوں میں ہے ۔ یہ کیسی ذات ہے کہ جو ہم سے بھی زیادہ ہمارے نزدیک ہے ؟ حتی کہ ہماری ذات سے بھی زیادہ ہمارے نزدیک ہے ؟ ہمیں اس امر کی خبر نہیں ہے ! ہم نہیں دیکھ رہے ؛ کیوں ؟ چونکہ ہماری باطنی نگاہ نہیں ہے کہ اسے دیکھ سکیں ۔ یہی وہ بات ہے جو ہم سے کہی گئی ہے کہ دیکھیں ! سورہ حج میں فرمایا : «لاَتَعْمَی الأبْصَار وَ لکن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِی فِی الصُّدُور» قرآن کریم کا یہ نورانی بیان اسی مطلب سے مربوط ہے ۔ یعنی ہم میں سے بعض کی باطنی آنکھیں بند ہیں ۔ ان باطنی نابیناؤں کو دس کمرے اور باغ تو عطا کر دئیے جائیں گے اور وہ لذّت بھی حاصل کرے گا ۔ سورہ مبارکہ قمر کے اس آخری حصے میں فرمایا : «إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ» یہ آیت جسمانی لذتوں سے متعلّق ہے ؛ ہمارا جسم اور بدن اپنی لذّتیں حاصل کر لے گا؛ لیکن «فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ» سے دور رہیں گے اور قرب الہی کے مقام سے بہرہ مند نہیں ہوں گے ۔ آپ اس آیہ مبارکہ «عَلی سُرُرٍ مُتَقَابِلِینَ» میں یہ پیغام حاصل کرتے ہیں کہ تمام بہشتی کرسیوں پر جلوہ فگن ہیں ان کے سامنے میز سجے ہوئے ہیں ، یہ سب کے سب ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں ؛ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کروڑوں انسان ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں ؟ چونکہ (اتنی زیادہ بھیڑ میں ) آخر کار ایک صف کی شکل بن جاتی ہے کہ جس میں بمشکل ہر دو ، تین افراد ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو سکتے ہیں ؛ ورنہ وہ آخری ، داہنے ہاتھ والے اور باہنے ہاتھ والے تو ایک دوسرے کے روبرو نہیں ہیں ۔ یہ کہاں ملے گا کہ سب کے سب ایک دوسرے کے روبرو ہوں ؟ فرماتے ہیں جب «عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ» کے مقام پر فائز ہو جائیں تو وہاں غیبت ، غیاب اور سِتر نہیں ہے ؛ سب کے سب ایک دوسرے کے روبرو ہیں اور سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں ۔ ان نکات کے نہ مفہوم کا پتہ ہے اور نہ ہی مصداق کا ۔

اخلاق کا ہدف یہ ہے کہ انسان توشہ آخرت مہیا کرے اس نکتہ کوبیان کرتےہوئے حضرت استاد نے فرمایا :

اخلاق اس لیے ہے کہ ہم زاد راہ مہیا کریں ؛ لیکن اخلاق سے بالاتر امور بھی ہیں ۔ اخلاق ایک دوسری چیز کے لیے ہے ۔ اخلاق اس لیے ہے کہ «لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیقِینِ ٭ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیمَ» کی بنیاد پر ابھی اور اسی جگہ بیٹھے بیٹھے جہنم کو دیکھا جائے ۔ ہم اس وقت گپ شپ میں مشغول ہیں ؛ جو بہشت یا جہنم پر عقلی یا نقلی دلیل قائم کرتا ہے اس کا سخن حق ہے ؛ "مما لا ریب فیہ"( اس میں کوئی شک نہیں) ہے ؛ لیکن جو منزل تک پہنچ چکے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ تم لوگ گپیں ہانک رہے ہو ، مولوی کے بقول :

خود هنر دان دیدن آتش عیان ٭٭٭ نی گپ دلّ علی النار الدخان

ہنر یہ ہے کہ انسان خود آگ کو دیکھے۔ فرمایا : «کلاَّ لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیقِینِ ٭ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیمَ» اس سےمراد موت کے بعد دیکھنا نہیں ہے ؛ موت کے بعد تو کافر بھی دیکھ لیں گے اور کہیں گے «رَبَّنَا ابْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا» اللہ تعالیٰ انہیں جہنم دکھلائے گا اور فرمائے گا : «أَفَسِحْرٌ هذَا أَمْ أَنتُمْ لاَتُبْصِرُونَ» اور وہ عرض کریں گے : «رَبَّنَا ابْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا» اگر ایسا ہے کہ فرمایا : «لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیقِینِ ٭ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیمَ» یعنی ابھی جہنم کو دیکھ رہے ہو ۔ یہ ہنر ہے اور «خود هنر دان دیدن آتش عیان» اگر تم چاہو تو دوسروں کے لیے عقلی یا نقلی دیل قائم کرو کہ جہنم ہے ۔ جی ہاں ! ہے ؛ یہ "ممّا لاریبَ فیه" بھی ہے ؛ لیکن یہ گپ ہے ۔ یہ اس طرح ہے کہ کوئی شخص دور سے دھواں دیکھ کر کہے کہ دھواں ہے لہٰذا آگ بھی ہے ۔ جو شخص آگ نہیں دیکھتا ، دھواں دیکھتا ہے اور دھویں سے آگ کا اندازہ لگاتاہے وہ گپ مار رہا ہے ، دھواں دیکھ رہا ہے اور دھویں سے آگ کا پتہ چلا رہا ہے ؛ وہ گپ مار رہا ہے «نی گپ دلّ علی النار دخان». حضرت امیر (ع) کا خطبہ ھمام میں نورانی بیان یہ ہے کہ فرمایا : «فَهُمْ وَ الْجَنَّةُ کمَنْ قَدْ رَآهَا فَهُمْ فِیهَا مُنَعَّمُونَ وَ هُمْ وَ النَّارُ کمَنْ قَدْ رَآهَا فَهُمْ فِیهَا مُعَذَّبُونَ» یہ گویا ابھی جہنّم کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ وجود مبارک امام رضا ( سلام اللہ علیہ) نے فرمایا : «لا هم منّا» کہ وہ شخص ہم سے نہیں ہے کہ جو یہ یقین نہ رکھے کہ بہشت اور جہنم ابھی موجود ہیں ؛ ایسا نہیں ہے کہ یہ بعد میں پیدا کیے جائیں گے ۔ وجود مبارک پیغمبر (علیہ و علی آلہ آلاف التحیۃ و الثناء) نے معراج کے موقع پر بہشت اور جہنم کو نزدیک سے دیکھا ۔ یہ ہنر ہے اور اخلاق اس امر کا مقدمہ ہے کہ انسان اس مقام پر فائز ہو ۔

اخلاق راہ کا اختتام نہیں ہے بلکہ میان اور وسط ہے ۔ اسی رو سے آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ منازل السائرین میں تحریر ہے (خواہ خواجہ عبد اللہ انصاری ہوں اور خواہ وہ لوگ ہوں کہ جنہوں نے سابق سے یا لاحق سے اس کی شرح کی ہے ) کہ اخلاق ایک صد درجے کے میدان میں وسطی اور میانی مراتب کا حامل ہے ۔ اس کے بعد اصول کی نوبت آتی ہے اور اس کے بعد احوال کی ۔ اسی احوال کے مرحلے میں انسان ایسا حال پیدا کرتا ہے کہ ساری صورتحال کا ابھی مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے ۔ اس وقت وہ مطمئن ہو جاتا ہے بہت سے لوگ"کأنّ" (گویا) کے مقام پر فائز ہوئے لیکن وجود مبارک اھل بیت (علیھم السلام ) "أنّ" (عینیت) کے مقام پر پہنچے ہیں یہ جو فرمایا : «ما کنتُ أعبدُ ربّاً لم أرَهُ» یہ مبدأ کے لیے ہے ، یہ جو فرمایا : «لو کشِفَ الغطاءُ ما ازددتُ یقینا» یہ معاد کے لیے ہے ۔ ایسا شخص مفہوم کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتا (ایک) "کأنّ" کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتا ( دو) "أنّ" اور "إنّ" (خارجی حقیقت ) کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے (تین) ہر چیز دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ اگر ہم اس مقام پر فائز نہیں ہو سکتے تو کم از کم "کأنّ" کے مقام پر ضرور فائز ہوں ۔

فریقین نے احسان کی تفسیر میں وجود مبارک پیغمبر (علیه و علی آله آلاف التحیة و الثناء) سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ فرمایا : «الإحسان أن تَعبد الله کأنّک تراه فإن لم تَکن تراه فإنّه یراک» آپ کہتے ہیں : «إِیاک نَعْبُدُ»؛مفہوم کو خطاب کر رہے ہیں یا مصداق کو ؟ مفہوم کو کہہ رہے ہیں : «إِیاک»؟! اگر مصداق کو خطاب کر رہے ہیں تو ضروری ہے کہ اسے دیکھ رہے ہوں ۔ فقط جانتے ہیں کہ یہ مفہوم ایک مصداق رکھتا ہے ۔ اس کی مثال اس شخص کی مانند ہے کہ جو مشہد جا رہا ہے اور غذا کا ایک ٹرک بھر کر لے جا رہا ہے ۔ اس کے پاس صرف زاد راہ ہے اور زاد راہ ! فرماتے ہیں کہ کچھ مقدار عقل بھی ہمراہ لو ، کچھ معرفت بھی حاصل کرو ۔ ائمہ (ع) نے ابوذر رضوان اللہ علیہ کے بارے فرمایا ہے : «کان أکثر عبادة أبی ذر التفکر» یہ کیسی ذات ہے کہ جو میرے ساتھ ہے اور میں اسے نہیں دیکھ رہا ؟ روح و ریحان ایسے آدمی کو نصیب ہوتی ہے پھر اسے کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوتا جب وجود مبارک پیغمبر علیہ و علی آلہ آلاف التحیۃ و الثناء سے کہا گیا کہ وہ آ رہے ہیں ! تو آپ (ص) نے غار کے دہانے پر فرمایا : «لاَتَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا» خدا ہمارے ساتھ ہے «هُوَ مَعَکمْ أَینَ مَا کنتُمْ» پس ہم اس سے کیوں خوفزدہ ہیں ! پس کیوں فقر ، مرض اور بیرونی حملے سے خوف کھاتے ہیں ! وہ تو ہمارے ساتھ ہے اور ہر کام اس کے ہاتھ میں ہے ،«جُنُودُ السَّماوَاتِ و الْأَرْضِ»اس کے لیے ہیں ، پس اسے کیوں نہیں دیکھ پاتے ؟! اگر دیکھ لیں تو پھر ہمیں کوئی خوف نہیں ہو گا ۔ وجود مبارک موسیٰ کلیم (ع) نے دو خطروں کے درمیان کیا فرمایا ؟ سامنے غرق ہونے کا خطرہ تھا اور پیچھے فرعون کا انتہائی عظیم لشکر تھا ۔ جب قوم کے آدمیوں نے حضرت موسیٰ کی خدمت میں عرض کیا کہ سامنے دریا ہے اور پیٹھ پیچھے فرعون کا لشکر پہنچنے والا ہے ؛ یہ آپ نے ہمیں کہاں پھنسا دیا ہے ؟ فرمایا : «کلّا إِنَّ مَعِی رَبِّی» یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟! خدا کرے یہ سخن ہم سب کے شامل حال ہو جائے اور ہم صرف اسی اخلاق کو حاصل کرنے کے درپے ہیں وہ بھی اگر انشاء اللہ حاصل ہو جائے !

یہ بھی پیغمبر اکرم (صلّی الله علیه و آله و سلّم) کے نورانی بیانات میں سے ہے کہ فرمایا : «إنّ الله سبحانه و تعالی یحبّ مَعالی الامور و یکره سَفسافها» اللہ تعالیٰ بلند ہمتوں اور افکار کو پسند کرتا ہے ۔ علوم اس قدر فراوان ہیں کہ انسان کبھی بھی منہ شگافی کرتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں فارغ التحصیل ہو چکا ہوں ! جب تک ہماری سانسوں میں سانس ہے ہمیں کتاب کے ساتھ رہنا چاہیے ، یا درس کہیں یا درس پڑھیں ؛ کیا ممکن ہے کہ ایک اہل حوزہ یا اہل دانشگاہ کتاب ایک طرف رکھ دے ؟! ہمیں بتایا گیا ہے : «إنّ الله سبحانه و تعالی یحبّ مَعالی الامور و یکره سَفسافها» پست فکر و ہمت اور جاہلانہ طور طریقے خدا کو پسند نہیں ہیں علوم اس قدر فراوان ہیں کہ انسان ہر لحظے ان سے استفادہ کر سکتا ہے ۔

اس بنا پر اخلاقی مسائل اس امر کا پیش خیمہ ہیں کہ انسان اس سے بالاتر مراتب پر فائز ہو ۔ اخلاق کا کم سے کم اثر یہ ہے کہ یہ معاشرے کو نورانی اور معطّر کرتا ہے ؛ ایک معاشرے کو آئیڈیل معاشرہ بناتا ہے ۔ اب کسی کو یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ صاحب ! گمراہی کے راستے پر نہ چلیں ، کسی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہ کرو ! یہ ان لوگوں کے لیے ہے کہ جو اہل بیت ( ع) سے آشنا نہیں ہیں ۔ ان سب نورانی روایات ( کلامکم نور) کے باوجود ہم سے یہ کہا جائے : فلاں معصیت اور گناہ مت کرو ؟! یہ گزشتہ مطالب کا ایک خلاصہ تھا اور ہمیں امید ہے کہ خدائے سبحان ہم سب کو ان معارف کے حصول کی توفیق مرحمت فرمائے !

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے اپنی گرانقدر فرمائشات کے دوسرے حصے میں امیر المومنین (ع) کے امام حسن (ع) کے نام خط کے اختتامی حصے میں فرمایا :

وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) کا خط ایک مفصل نامہ ہے اور سید رضی ( رضوان اللہ علیہ ) نے اس نامے کی کانٹ چھانٹ نہیں کی ہے ۔ وہ نامہ جو وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) نے اپنے فرزند بزرگوار کے لیے تحریر کیا ہے اور معروف یہی ہے کہ یہ نامہ امام مجتبی ( ع ) کے لیے مرقوم فرمایا ، بعض نے کہا ہے کہ کسی اور فرزند کے نام ہے ۔ یہ نامہ انتہائی مفصل ہے اور اس کے متعدد حصے ہیں ۔ ہم اس خط کے آخری اقتباس تک پہنچ گئے ہیں کہ فرمایا : «إِیاک أَنْ تَذْکرَ مِنَ الْکلاَمِ مَا یکونُ مُضْحِکاً وَ إِنْ حَکیتَ ذلِک عَنْ غَیرِک»؛ فرمایا : مبادا اپنی محفلوں میں ایسی بات کہو کہ دوسرے ہنسیں اگرچہ اپنے غیر سے ہی کیوں نہ نقل کرو ! کیا تم لوگوں کے ہاتھوں کا کھلونا ہو کہ تم لب کھولو اور بات کرو کہ جس پر کچھ لوگ ہنسیں ! کیا یہ چیز تمہاری قدروقیمت نہیں گھٹاتی؟! اچھا ! یہ خاندانی تربیت ہے ۔ فرمایا : مبادا ! تم ایسا کام کرو کہ جگت بازی کرو اور دوسرے ہنسیں ۔ آخر تم انسان ہو اور تمہاری ایک قدر و قیمت ہے ۔ خود کو اس طرح رائیگاں ہنسی مذاق کا مورد بناتے ہو ؟ فرمایا : «إِیاک أَنْ تَذْکرَ مِنَ الْکلاَمِ مَا یکونُ مُضْحِکاً وَ إِنْ حَکیتَ ذلِک عَنْ غَیرِک»؛ اس کے بعد اس اقتباس تک پہنچے تھے کہ «إِیاک وَ مُشَاوَرَةَ النِّسَاءِ فَإِنَّ رَأیهُنَّ إِلَی أَفَنِ» ؛ "آفن" ہمزہ کے ساتھ ضعف کے معنی میں ہے اور یہ عفن (عین کے ساتھ) کا غیر ہے کہ جس کا معنی عفونت(بدبواورگندگی) ہے ۔ . «وَ عَزْمَهُنَّ إِلَی وَهْنِ وَ اکفُفْ عَلَیهِنَّ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ بِحِجَابِک إِیاهُنَّ» گزشتہ ہفتے عورتوں سے مشورے کے بارے تفصیلی گفتگو کی گئی تھی ۔ اس میں اشارہ کیا گیا کہ ہر ملک منجملہ ہمارے ملک میں آدھی آبادی مردوں اور آدھی عورتوں پر مشتمل ہے ( یہ پہلی اصل) ؛ مردوں کو تعلیم و تزکیے اور انتظامی کاموں کی ضرورت ہے ، خواتین بھی اسی طرح ہیں ( یہ دوسری اصل ) جس طرح مردوں کو حج و عمرے کے لیے فوٹو گرافی اور ہسپتالوں میں سارے بدن کے ایکسرے کی ضرورت ہوتی ہے ، خواتین کو بھی یہ ضروریات درپیش ہیں( تیسری اصل ) جہاں تک ممکن ہو سکے انسان خود کو اضطرار سے دوچار نہ کرے ؛ اگر آپ مراجع کا فتویٰ ملاحظہ کرتے ہیں کہ اضطرار کی صورت میں مرد، خواتین کی فوٹو بنا سکتے ہیں ۔ ہم کیوں مضطرّ (مجبور) ہوں معاشرے کی آدھی آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے ، کے لیے ضروری ہے کہ اپنی تمام ضروریات برطرف کریں تاکہ عورتوں کے لیے مرد اساتذہ ، ڈاکٹرز اور عہدیداروں کی احتیاج ہی پیدا نہ ہونے پائے ۔ ضروری ہے کہ یہ کثیر آبادی خود اپنی ضروریات پوری کر سکے تاکہ عورتوں کے لیے مرد اساتذہ ، ڈاکٹرز اور مرد عہدیدار کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو ، اس عظیم آبادی کو اپنا نظام چلانے کے لیے حوزوی اور دانشگاہی نظام کی ضرورت ہے ، انہیں اداری نظام کی بھی ضرورت ہے سوائے ضروری موارد کے کہ جب محتاج ہو جائیں اور نامحرم ان کی مشکلات برطرف کریں ۔

انہوں نے نتیجے کے طور پر فرمایا :

اس بنا پر خواتین کو بھی حوزوی اور یونیورسٹی کے نظام کی ضرورت ہے ؛ انہیں تدریس اور تعلیم کی ضرورت ہے ۔ تمام امور جو مردوں کے لیے ہیں ، خواتین کے لیے بھی ضروری ہیں تاکہ اپنی مشکلات خود حل کریں ۔ البتّہ انتظامی کاموں کے حوالے سے مرد بعض کاموں میں زیادہ قوی ہیں اور بعض کاموں کے لیے عورت ؛ علمی اور ثقافتی شعبہ جات میں زن و مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے کہ مرد اس قدر علم حاصل کرے اور عورت اتنی مقدار بلکہ اس کا تعلق استعداد اور صلاحیت کے ساتھ ہے ، اخلاقی حوالے سے بھی کوئی فرق نہیں ہے ۔ اخلاق کے اعلیٰ ترین مدارج کہ جو عرفانی شہود سے متعلّق ہیں، میں بھی عورت اور مرد کے مابین کوئی فرق نہیں ہے ۔ البتہ بعض انتظامی کاموں میں جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ مرد انتظامی کاموں کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے اور ضروری ہے کہ وہ انجام دے ۔ اس طرح کے امور کو عورت انجام نہیں دے سکتی اور اسے انجام دینے بھی نہیں چاہییں ۔ نبوت ، رسالت اور امامت اسی قبیل سے ہے ۔ محاذ جنگ اور جنگ کی سپہ سالاری بھی ایسے ہی ہے ، یہ انتظامی کام ہیں لیکن ان تمام کاموں کی اساس اور بنیاد ولایت کا بلند و بالا مقام ہےاور ولایت، زن و مرد کے لیے یکساں ہے ۔ نبوت ، رسالت ، امامت اور خلافت انتظامی کام ہیں کہ جن کا تعلق لوگوں اور معاشرے سے ہے ؛ مرجعیت اور جمعہ و جماعت کی امامت ، انتظامی کام ہیں ؛ لیکن فقاہت سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا فقاہت اور اجتہاد میں مرد ہونے کی شرط ہے ؟ نہیں ! آیا ولایت میں مرد ہونا شرط ہے ؟ نہیں ۔ کیا نبوت ، رسالت اور امامت کی تمام قدر و قیمت ولایت کی بدولت نہیں ہے ؟ جی ہاں ! چونکہ وہ شخص ولی اللہ ہے ، نبوت ، رسالت یا امامت کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے ۔ ان کی بنیاد یہی ہے ۔ وہاں آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ صدّیقۀ کبرٰی (سلام الله علیها) اور مریم (سلام الله علیها) پوری آب و تاب سے حاضر ہیں ۔

ممکن ہے کہ فتوٰی یہ ہو کہ عورت قاضی نہیں بن سکتی ؛ لیکن عورت لاء کالج کی استاد بن سکتی ہے کہ اس کے شاگرد قاضی ہوں ۔ قاضی بننا کمال نہیں ہے بلکہ کمال اس مجتہد کا ہے کہ جو قاضیوں کی تربیت کر سکے ۔ اس کمال میں عورت اور مرد یکساں ہیں ۔ ممکن ہے کہ مرد کے ہاتھ میں محاذ جنگ اور جنگ کے انتظامی معاملات ہوں لیکن عورت جنگی قوانین کی اچھی طرح تعلیم حاصل کرے، ان کا گہرائی سے جائزہ لے کر دوسروں کو تعلیم دے اور اس کے شاگرد ایک لشکر کے امیر بن جائیں ۔ جہاں کمال ہے ، عورت ہے ۔ جہاں انتظامی کام ہیں ، وہاں مرد اور اس طرح سے کاموں کی تقسیم کر دی گئی ہے ۔

لیکن عورت کا پاک ترین ، طیب ترین اور اصلی ترین فریضہ ماں بننا ہے ۔ یہ امر کسی کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔ اب آپ یہاں تشریف فرما ہیں تو آپ کی بہت قدر و قیمت ہے لیکن آپ لوگوں نے ماں کے مکتب میں پرورش پائی ہے ۔ اگر عورت اس فرض کو چھوٹا سمجھے تو اس نے اپنے آپ اور معاشرے پر جفا کی ہے ۔ مبادا یہ کہے : کیا ہمیں اولاد کی پرورش کے لیے پیدا کیا گیا ہے ؟ ہرگز ایسا مت کہیں ، اصل یہ ہے کہ تم ماں بن سکو ، ایک تعلیم یافتہ ماں تعلیم یافتہ بچے کی تربیت کرتی ہے ۔ وہ چھ ، سات سال کہ جب یہ بچہ ماں کے ہاتھوں میں ہے ، کالج ، یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ کے ہر کورس سے قوی تر ہیں، وہ تمام خصوصیات کہ جو شیر خوارگی کے زمانے میں اور مادری محبت کے ساتھ اس بچے کو تلقین اور تعلیم دی جاتی ہیں ۔ ہرگز کسی دوسری جگہ پر اس بچے کو نصیب نہیں ہوں گی ۔ اس بنا پر ایک عورت کا اہم ترین ، اصلی ترین فریضہ ماں بننا ہے ؛ لیکن اسے تعلیم حاصل کرنا چاہئیے اور اس اعلی تعلیم کی روشنی میں بچے کی تربیت اور دیکھ بھال کرے ۔

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے ماؤں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : مبادا ایسا ہو کہ بہت زیادہ سماجی مصروفیات وغیرہ اس امر کا باعث بنیں کہ انسان بچے کو ڈے کئیر سنٹر کے رحم و کرم پر چھوڑ دے اور پھر کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ۔ آپ کیوں ملاحظہ کرتے ہیں کہ جن شہروں میں عاطفہ ، لطف اور محبت ہے ، وہاں اولڈ ہاؤسز کا نام و نشان نہیں ہے ۔ گزشتہ ہفتے بھی ہم نے نقل کیا کہ ایک بزرگ سید نے ایک علاقے میں بہت زیادہ خدمات انجام دیں ؛ مسجد ، حمام اور امامبارگاہ کی تعمیر کی ، اس کے بعد ایک مرتبہ میرے پاس گلہ کر رہے تھے کہ میں نے ان لوگوں کو بہت تشویق دلائی ہے کہ ایک اولڈ ہاؤس بھی تعمیر کریں ، لیکن انہوں نے اس معاملے میں میری کوئی مدد نہیں کی ، میں نے ان سے کہا : ان مردوں کا شکریہ ادا کرو کہ انہوں نے آپ کو پیسے نہیں دیے ، کوئی شخص آمادہ نہیں ہے کہ اپنے ماں باپ کو اولڈ ہاؤس کے حوالے کر دے لہٰذا ان لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے ۔

وہ بچے کہ جنہیں ڈے کئیر سنٹر کے حوالے کیا جاتا ہے وہ محبت وپیار کا ادراک نہیں کر پاتے اور جوں ہی ان کے ماں باپ بوڑھے ہو جاتے ہیں ، وہ انہیں اولڈ ہاؤس چھوڑ آتے ہیں ، بوڑھوں کو اولڈ ہاؤس کے حوالے کرنے کا مطلب ماں باپ کی تدریجی موت ہے ۔

قرآن کریم نے فرمایا : «وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ»؛ فرمایا : اپنے پر پھیلاؤ اور انہیں ان پروں کی آغوش میں لو ! یہ بات کون قبول کرتا ہے ؟ وہی جس نے بچپن کے سات سال ماں کے دودھ اور محبت کے سائے میں گزارے ہوں لیکن ڈے کئیر میں پلنے والا بچہ جونہی بڑا ہوتا ہے ، ماں باپ کو اولڈ ہاؤس روانہ کر دیتا ہے ۔ اس نے پیارومحبت کو درک نہیں کیا اور محبت کا درس نہیں لیا ۔ اس بنا پر اگر قرآن ہے ، دینی احکام ہیں ، تو تحصیل اور علم اپنی جگہ پر محفوظ ہیں ، معاشرے کی آدھی آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے وہ اپنے تمام امور خود انجام دیں تاکہ ضرورت ہی نہ رہے کہ کوئی نامحرم ان کے کام میں مداخلت کرے اور یاد رہے کہ ان کا اصلی ترین کام ماں بننا ہے ۔ اس امر کا بالکل امکان نہیں ہے کہ معاشرے کو ڈے کئیر سنٹر کے رحم و کرم پر چلایا جا سکے ۔ معاشرے کو ماں اور پاکیزہ دودھ چلا سکتا ہے ۔ جب وہ نماز ادا کرتی ہے تو بچے کو اپنے جائے نماز کے پاس بٹھا دیتی ہے ؛ یہی کہ جو ان چھ یا سات سالوں میں اس کی تسبیح اور سجدہ گاہ سے کھیلتا ہے ، تسبیح اور سجدہ گاہ سے آشنا ہوتا ہے ، وہ خود ذکر کرتی ہے اور بچے کو بھی ذکر سکھاتی ہے ۔ یہ جو فرمایا کہ اپنے بچوں کو تعلیم دو اس لیے ہے کہ یہ اسلام میں نووارد ہیں ۔ خدا رحمت نازل کرے ہمارے عظیم استاد علامہ طباطبائی پر وہ نورانی حدیث جو مرحوم صدوق کی کتاب "توحید" میںموجود ہے اور انہوں نے اس حدیث کو نقل کر کے اس کی اتنہائی خوبصورت تشریح اور عقلی تحلیل فرمائی ہے ۔ اصل حدیث یہ ہے کہ بچہ جب روتا ہے تو اس کو مت مارا جائے چونکہ پہلے چار ماہ اس کا گریہ خدائے سبحان کی وحدانیت کی شہادت ہے ، دوسرے چار ماہ کا گریہ وجود مبارک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہادت ہے ، تیسرے چار ماہ کا گریہ ماں اور باپ کے لیے دعا ہے ۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟ کیا بچہ توحید کے بغیر پیدا ہوتا ہے ؟! کیا خدائے سبحان نے بچے کو بغیر سرمائے کے خلق کیا ہے ؟! فرمایا : «وَ نَفْسٍ وَ مَا سَوَّاهَا ٭ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَ تَقْوَاهَا» میں نے اسے بہت کچھ سکھایا ہے ، «فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِی» خدا نے سورہ روم اور سورہ شمس میں فرمایا ہے: بچہ علمی سرمائے کے ساتھ دنیا میں آتا ہے ۔ جی ہاں ! حوزہ اور یونیورسٹی کا علم اسے نصیب نہیں ہے ؛ اس مطلب کو سورہ نحل میں فرمایا ہے : «وَ اللَّهُ أَخْرَجَکم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِکمْ لاَتَعْلَمُونَ شَیئاً.» یہ تمام چیزیں جو ہم حوزہ اور یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں ، ہمیں بھول جاتی ہیں ، بہت سے علماء بڑھاپے میں ایک سادہ توضیح المسائل کا ایک صفحہ جو انہوں نے خود تحریر کیا ہے ، نہیں پڑھ سکتے ۔ سعدی کے بقول :

من هر چه خوانده ام همه از یاد من برفت ٭٭٭ الاّ حدیث دوست که تکرار می کنم

فقط ایک حدیث دوست باقی رہتی ہے ، ان حوزوی اور یونیورسٹی کے دروس پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ الٰہی سرمایہ ساتھ رہتا ہے ۔ فرمایا : میں نے اسے سرمائے کے ساتھ خلق کیا ہے اور اس کے پاس یہ سرمایہ موجود ہے کہ جس سے وہ استفادہ کر رہا ہے : پہلے چار ماہ کے دوران خدا اور مخلوق میں سے خدا کی وحدانیت کی ستائش کرتا ہے ، دوسرے چار ماہ میں پیغمبر (ص) اور اپنی ذات میں سے پیغمبر (ص) کی عظمت کا اقرار کرتا ہے اور تیسرے چار ماہ میں ماں باپ کی تعریف کرتا ہے ۔ یہ جو فرمایا : «إِن مِن شَی‏ءٍ إِلَّا یسَبِّحُ بِحَمْدِهِ» اس کا مطلب یہی ہے ۔ فرمایا : بچہ جس قدر گریہ کرے ، یہ صادقانہ ہے یہ فضول گریہ نہیں کرتا ۔ اگر مسکراتا ہے تو یہ بھی صادقانہ ہے مگر یہ کہ کوئی راستے سے ہٹا دے ۔ فرمایا : ہم نے اسے پاک و پاکیزہ تمہارے حوالے کیاہے ۔ یہ اسلام میں نووارد ہے «کلُّ مولودٍ یولَدُ علی الفطرة» ، یہ الٰہی امانت ہے ۔ اس امر کی مائیں حفاظت کرتی ہیں ۔ اس بنا پر ملکی معاملات میں صلاح و مشورہ ایک مطلب ہے ؛ مردوں کے انتظامی مسائل میں مشورہ دوسرا مطلب اور خود خواتین سے ان کے اپنے کاموں میں مشورہ ایک علیٰحدہ چیز ہے ۔

پھر فرمایا : حجاب و پاکدامنی میں ان کی عظمت ہے ۔ کیوں مرد کا کافر عورت کی جانب نگاہ کرنا (البتہ شائبے کے بغیر) جائز ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی کوئی حرمت نہیں ہے ۔ چند مرد ایک گھر میں رہ رہے ہیں ؛ باوجود اس کے کہ نامحرم نہیں ہیں لیکن ان کے کمروں میں جھانکنا جائز نہیں ہے ؛ کیوں ؟ کیا نگاہ کے احکام صرف نامحرم کے لیے ہیں ؟! انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی کی پرائیویٹ زندگی میں دخل اندازی کرے ۔ کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ وہ کمرہ طلبہ کا ہے اور وہ مرد ہیں لہٰذا میں چھپ کر کھڑکی سے جھانک لوں کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ، دوسرے لوگ کیا کر رہے ہیں ؟! عورت کی جانب نگاہ خصوصی حریم شکنی کے مترادف ہے اگرچہ نامحرم نہ ہو ، عورت کے بدن اور بالوں کی جانب نگاہ نہیں کی جا سکتی اگرچہ لذت کے ارادے سے نہ ہو ، لذّت کا قصد تمام جگہوں پر اشکال رکھتا ہے ، چونکہ یہ حرام کے ساتھ مخلوط ہے ۔ آپ یہی نگاہ کافر عورت پر ڈالتے ہیں؛ کیوں ؟ اس لیے کہ اس کی نہ حرمت ہے اور نہ احترام ۔ اس نے اپنا احترام ختم کر دیا ہے ۔ اس بنا پر عورت کی طرف نگاہ کرنا اس کی کرامت اور خصوصی حریم میں ورود کے مترادف ہے اور اس کا حجاب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عورت پر خود کو ڈھانپنا واجب ہے ، مبادا اس پر کوئی غیر ارادی نگاہ پڑ جائے ، یہ عورت کی عظمت اور جلال ہے کہ وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) نے اس نامے میں فرمایا : ان کے حجاب کا خیال رکھو «وَ إِنِ اسْتَطَعْتَ أَلاَّ یعْرِفْنَ غَیرَک فَافْعَلْ»؛ جو کام تم خود انجام دے سکتے ہو وہ اپنی زوجہ پر کیوں موقوف کرتے ہو ، «وَ لاَتُمَلِّک الْمَرْأَةَ مِنْ أَمْرِهَا مَا جَاوَزَ نَفْسَهَا» وہ اپنے کام انجام دے سکتی ہے ، وہ گرلز کالج چلا سکتی ہے ؛ جامعہ زہراء کا انتظام سنبھال سکتی ہے ۔ زنانہ کلاسیں منعقد کر سکتی ہے ، وہ استاد بن سکتی ہے ، تدریس ، تالیف اور تقریر کر سکتی ہے ۔ آدھا ملک ان کے زیر اختیار ہے ، ان کا نظم و انتظام سنبھالنا معمولی کام نہیں ہے ۔ «فَإِنَّ الْمَرْأَةَ رَیحَانَةٌ وَ لَیسَتْ بِقَهْرَمَانَةٍ وَ لاَتَعْدُ بِکرَامَتِهَا نَفْسَهَا» مبادا اسے کام کا ذریعہ قرار دو ، اگر کسی کو اداری کام ہو تو وہ تمہاری بیوی کے ذریعے تمہیں کہے ۔ یہ کام مت کرو ! «وَ لاَتُطْمِعْهَا فِی أَنْ تَشْفَعَ لِغَیرِهَا» اسے کہو کہ ٹیلیفون کرے یا فلاں ٹیلیفون کا جواب دے ، اسے کہو کہ فلاں کیس کا مطالعہ کرو اور وہ دخل اندازی کرے ؛ یہ کام مت کرو! چونکہ خدائے سبحان نے انہیں عاطفہ کے ساتھ خلق کیا ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مناجات کی تاثیر خواتین میں مردوں سے زیادہ ہے ۔ موطأ مالک کا مطالعہ کیجیے ؛ یہ کتاب قدیم ترین اسلامی کتاب ہے ؛ یہ مطلب مالک نے موطّا میں نقل کیا ہے کہ صدر اسلام میں ابھی بہت سے مرد ہاتھوں میں تلواریں لیے اسلام کے خلاف لڑ رہے تھے لیکن ان کی عورتیں مسلمان ہو چکی تھیں ۔ الٰہی مواعظ سے خواتین کی تاثیر پذیری اگر مردوں سے زیادہ نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے۔ ابھی شوہر اسلام کے خلاف جنگ کر رہا تھا لیکن بیوی مسلمان ہو چکی تھی اور پیغمبر (ص) کی پیروکار تھی ۔ «وَ إِیاک وَ التَّغَایرَ فِی غَیرِ مَوْضِعِ غَیرَةٍ» ہم نے گزشتہ بحثوں میں ذکر کیا کہ غیرت نمایاں ترین اخلاقی فضیلت ہے ۔ غیرت کے تین بنیادی عنصر ہیں : ماہیت اورحقیقت شناسی ( ایک ) غیر کے حریم میں داخل نہ ہونا ( دو) غیر کو اپنی حریم میںداخل ہونے کی اجازت نہ دینا ( تین ) اسے کہا جاتا ہے غیرت ۔ غیرت یعنی غیر کو دفع کرنا اور یہ کہ انسان نہ غیر کی حریم میں داخل ہو اور نہ ہی غیر کو اپنی حریم میں داخل ہونے کی اجازت دے ؛ چونکہ دیاثت بے غیرتی (عورت کی بدکاری پر چشم پوشی) کی بازگشت بھی غیرت کے ترک کی طرف ہوتی ہے ۔ حضرت امیر (ع) کا یہ نورانی بیان جو پہلے پڑھا گیا کہ فرمایا : «ما زَنیٰ غیورٌ قطُّ» ہر گز ایک غیرت مند، نامحرم کے ساتھ تعلقات نہیں بناتا ۔ کوئی بھی غیرت مند انسان یہ کام نہیں کرتا ہے اور جس نے بھی ایسا کیا وہ بے غیرت ہے ، کیوں ؟ اس لیے کہ غیرت کا معنی یہ ہے کہ غیر کو اپنی حریم میں داخلے کی اجازت نہ دے ( ایک) اور دوسرے کی حریم میں داخل نہ ہو ( دو) یہ دو عنصر کہ جو دفعِ غیر ہیں خود شناسی کی فرع ہے ، انسان جب تک خود کو نہ پہچانے اس وقت تک ان دو طرفوں کو ترک نہیں کر سکتا ۔ فرمایا : «فَإِنَّ ذلِک یدْعُو الصَّحِیحَةَ إِلَی السَّقَمِ وَ الْبَرِیئَةَ إِلَی الرِّیبِ» ان پر زیادتی اور بدگمانی بد ہے ، افراط و تفریط بد ہیں ؛ یہ اقتباس خواتین اور خاندان سے مربوط تھا ۔

پھر فرمایا : «وَ اجْعَلْ لِکلِّ إِنْسَانٍ مِنْ خَدَمِک عَمَلاً تَأْخُذُهُ بِهِ» وجود مبارک امام مجتبی (ع) کہ جن کے پاس کوئی ظاہری منصب نہیں ہے ؛ فرمایا : اگر آپ عہدیدار اور مدیر بن گئے تو ضروری ہے کہ ہر ہر فرد کے لیے کسی ذمہ داری کا تعین کرو اور منصوبہ بندی کے ساتھ چلو ( ایک) ذمہ داری طلب کرو ( دو ) اسے کام کی تلقین کرو ( تین ) تم کنٹرول اور نگرانی کرو ( چار ) اس سے جواب طلبی کرو (پانچ) ایسا نہ ہو کہ نظام مملکت کو اسی طرح چھوڑ دو یا اپنے تحت کام کرنے والے عملے کو اپنے حال پر چھوڑ دو ۔ «وَ اجْعَلْ لِکلِّ إِنْسَانٍ مِنْ خَدَمِک عَمَلاً تَأْخُذُهُ بِهِ فَإِنَّهُ أَحْرَی أَنْ لاَیتَوَاکلُوا فِی خِدْمَتِک» جب حساب کتاب سے کام نہ لیا جائے تو ہر شخص اپنا کام دوسرے پر چھوڑ دیتا ہے ، یہ تواکل ہے ، متقابل تواکل یعنی یہ اسے وکیل قرار دیتا ہے اور وہ اسے وکیل قرار دیتا ہے ، اس صورت میں تمام کام بکھر اور ضائع ہو جاتے ہیں ۔

«وَ أَکرِمْ عَشِیرَتَک» قوم ، قبیلے اور اپنے اہل خانہ کا احترام کرو چونکہ تم خالی ہاتھ کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔ خدا نے تجھے اس خاندان کے ساتھ قرار دیا ہے ۔ انہیں اذیت دینے کی کیا وجہ ہے !«وَ أَکرِمْ عَشِیرَتَک فَاِنَّهُمْ جَنَاحُک الَّذِی بِهِ تَطِیرُ» تم اگر پرواز کرنا چاہو تو اپنی فیملی اور قوم کے سہارے پرواز کر سکتے ہو ۔ «وَ أَصْلُک الَّذِی إِلَیهِ تَصِیرُ» آخرکار تم اگر کبھی پلٹنا چاہو تو اسی اصل ، قبیلے اور خاندان کی طرف ہی پلٹو گے ۔ «وَ یدُک الّتِی بِهَا تَصُولُ» اگر کبھی دشمن تم پر حملہ کرے اور تم اپنی شجاعت اور ہیبت دکھانا چاہو تو وہ اپنے قبیلے کے ذریعے ہی کر سکو گے ۔

اس خط کے آخر میں فرماتے ہیں : : «اسْتَوْدِعِ اللَّهَ دِینَک وَ دُنْیاک وَ اسْأَلْهُ خَیرَ الْقَضَاءِ لَک فِی الْعَاجِلَةِ وَ الْآجِلَةِ وَ الدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ» فرمایا : تمہارا دین اور دنیا ان سب کو خدا کے حوالے کرتا ہوں ۔ خدائے سبحان سے دنیا و آخرت کی خیر کا سوال کرتے ہیں ، اسے وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) نے اپنے نامے کے آخر میں تحریر فرمایا ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ حضرت کی یہ اختتامی دعا تمام حوزوی ، دانشگاہی اور بسیجی خواتین و حضرات کے شامل حال ہو ؛ ذات اقدس الٰہی ہم سب کو یہ توفیق مرحمت فرمائے کہ ہم ان معارف کو سمجھیں ، ان پر یقین رکھیں، ان پر عمل پیرا ہوں اور ان کی اشاعت کریں ۔

Sunday, 08 July 2012 07:13

سب سے پہلى نماز جمعہ

جمعه مسجد – مدينه النبي (ص)

پہلا جمعہ جو حضرت رسول اللہ (ص) نے اپنے اصحاب كے ساتھ پڑھا وہ اس وقت پڑھا گيا جب آپ نے مدينہ كى طرف ہجرت فرمائي _ جب آپ (ص) مدينہ ميں وارد ہوئے تو اس دن پير كا دن بارہ ربيع الاول اور ظہر كا وقت تھا_ حضرت چار دن تك ''قبا '' ميں رہے اور مسجد قبا كى بنياد ركھى، پھر جمعہ كے دن مدينہ كى طرف روانہ ہوئے (قبا اور مدينہ كے درميان فاصلہ بہت ہى كم ہے اور موجودہ وقت ميں قبا مدينہ كا ايك داخلى محلہ ہے)

اور نماز جمعہ كے وقت آپ (ص) محلہ''بنى سالم'' ميں پہنچے وہاں نماز جمعہ ادا فرمائي اور يہ اسلام ميں پہلا جمعہ تھا جو حضرت رسول اللہ (ص) نے ادا كيا_ جمعہ كى نماز ميں آپ (ص) نے خطبہ بھى پڑھا_ جو مدينہ ميں آنحضرت (ص) كا پہلا خطبہ تھا۔

 

 

قصص القرآن

منتخب از تفسير نمونه

تاليف : حضرت آيت الله العظمي مکارم شيرازي

مترجم : حجة الاسلام و المسلمين سيد صفدر حسين نجفى مرحوم

امام خمینی (رہ) نے فرمایا : " آقای خامنہ ای اسلام کے سچے وفادار اور خدمتگذار ہیں اسلام کی خدمت ان کی دلی تمنا اور آرزو ہے وہ اس سلسلے میں بے مثل اورمنفرد شخصیت کے حامل ہیں میں ان کو عرصہ دراز سے اچھی طرح جانتا ہوں "

ولادت سے مدرسہ تک

رہبر معظیم انقلاب اسلامي حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای ، حجۃ الاسلام والمسلمین مرحوم حاج سید جواد حسینی خامنہ ای کے فرزند ہیں ، آپ تیر مہینے کی ۲۴ تاریخ سن ۱۳۱۸ھ ش مطابق ۲۸ صفر ۱۳۵۸ ھ ق کو مشہد مقدس میں پیدا ہوئے ، آپ اپنے والدین کی دوسری اولاد ہیں ، آپ کے والد سید جواد خامنہ ای اکثر علماء اور دینی مدرسین کی طرح قناعت پسند اور سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے، انکی سادہ زندگی کے مثبت اثرات ان کے اہل و عیال پر بھی مرتب ہوئے اور وہ بھی ان کی طرح قناعت پسنداور سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی ہوگئے

رہبر عظیم الشان اپنی زندگی کی پہلی یاد داشت بیان کرتے ہوئے اپنی اور گھر والوں کی زندگی کے حالات کو اس طرح بیان فرماتے ہیں :

" میرے والد ، مشہور و معروف عالم دین اور بہت ہی متقی و پرہیزگارتھے وہ اکثرخلوت پسند اور گوشہ نشیں رہتے تھے ہماری زندگی بہت سخت گزرتی ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بعض اوقات ہمارے گھر رات کا کھانا نہیں بنتا تھا ! میری والدہ بڑی مشقت سے ہمارے لئے رات کا کھانا مہیا کرتیں اور یہ رات کا کھانا” روٹی اور کشمش “ہوتا تھا "

لیکن وہ گھر کہ جس میں آقای سید جواد کے اہل و عیال زندگی بسر کرتےتھے ، اس کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی اس طرح بیان فرماتے ہیں :

” میرے والد کا مکان جہاں میں پیدا ہوا اور میری زندگی کے ابتدائی چار، پانچ سال وہیں گزرے وہ ساٹھ یا ستر میٹر مربع جگہ پر مشتمل تھاجو مشہد کے ایک ایسے محلہ میں واقع تھا ، جہاں غریب لوگ رہتے تھے ، اس مکان میں صرف ایک کمرہ اور ایک تاریک تہہ خانہ تھا ، جس میں گھٹن محسوس ہوتی تھی !

والد بزرگوار کے پاس اکثرمہمان (ایک عالم دین کی حیثیت سے ملاقات اور مسائل پوچھنے کے لئے) آتے جاتےتھےاور جب تک مہمان ان کے پاس رہتے تھے اس وقت تک ہم سب اس تاریک تہہ خانے میں چلے جاتے تھے بعدمیں میرے والد کے کچھ عقیدتمندوں نےہمارے مکان سے ملحقہ چھوٹا سا زمین کا قطعہ خرید کر ہمارے مکان میں اضافہ کردیااور اس طرح ہمارے مکان میں تین کمرے ہوگئے “

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا بچپن ایک غریب لیکن روحانی اور معنوی خاندان اور صاف و ستھرے ماحول میں گزرا ، قرآن مجید کی تعلیم کے لئے آپ چار سال کی عمر میں اپنے بڑے بھائی سید محمد کے ہمراہ مکتب بھیج دئیے گئے ، اس کے بعد ان دونوں بھائیوں کے داخلے ایک ایسے اسلامی مدرسہ ” دارالتعلیم دیانتی “میں کرائے گئے جو نیا تاسیس ہوا تھا ، اور ان دونوں بھائیوں نے ابتدائی تعلیم اسی مدرسہ میں حاصل کی.

حوزہ علمیہ میں

آپ نے انٹر کالج میں تعلیم کے ساتھ ہی ( عربی گرائمر پر مشتمل کتاب جامع المقدمات ) اور صرف و نحو کی تعلیم کا آغاز کردیا تھا ، اس کے بعد آپ حوزہ علمیہ میں وارد ہوئے اور اپنے والد محترم اور دیگر اساتذہ سے ادبیات اور مقدمات کی تعلیم حاصل کی ، آپ حوزہ علمیہ میں داخلے اور روحانیت کے راستے کو انتخاب کرنے کی وجہ اس طرح بیان فرماتے ہیں :

" اس معنوی اورنورانی راستے کو انتخاب کرنے کا اصلی سبب میرے والد ماجد تھے اورمیری والدہ ماجدہ بھی اس سلسلہ میں میری بہت تشویق کیا کرتی تھیں اور یہ راستہ انھیں بہت پسند تھا "

آپ نے”جامع المقدمات “ ” سیوطی “ ” مغنی“ جیسی(عربی ) ادبیات کی کتابوں کومدرسہ " سلیمان خان " اور " نواب " کے مدرسین کے پاس حاصل کیا ، آپ کے والد ماجد بھی اپنے بیٹوں کے دروس پر نظارت کیا کرتے تھے آپ نے” کتاب معالم “بھی اسی دور میں تمام کرلی تھی ، اس کے بعد ”شرائع الاسلام “اور ” شرح لمعہ“ کو اپنے والد ماجد سے اور ان کا کچھ حصہ ” مرحوم آقای میرزا مدرس یزدی“ سے حاصل کیا ، رسائل و مکاسب کو مرحوم حاج شیخ ہاشم قزوینی کے پاس پڑھا اور سطح میں فقہ و اصول کے باقی دروس اپنے والد ماجد کے پاس تمام کئے اور اس طرح آپ نےمقدمات اور سطح کے دروس کوحیرت انگیز طور پر ساڑھے پانچ سال کی مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچادیا

آپ کے والد ماجد مرحوم سید جواد نے ان تمام مرحلوں میں اپنے بیٹے کی ترقی اور پیش رفت میں اہم اور نمایاں کردار ادا کیا ، رہبر عظیم الشان نے منطق و فلسفہ کے موضوع پر کتاب ” منظومہ سبزواری“ کوپہلے مرحوم آیت اﷲ میرزا جواد آقا تہرانی اور اس کے بعد ” شیخ رضا ایسی“ کے پاس حاصل کیا

حوزہ علمیہ نجف اشرف میں

آیت اﷲ العظمی خامنہ ای (مدظلہ)نے مشہد مقدس میں عظیم مرجع آیت اﷲ العظمیٰ میلانی کے پاس ۱۸ سال کی عمر سے فقہ و اصول کے دروس خارج کا آغاز کردیا تھا ، آپ ۱۳۳۶ھ ش میں عتبات عالیات کی زیارت کی غرض سے نجف اشرف پہنچ گئے اور حوزہ علمیہ نجف کے عظیم مجتہدین جیسے سید محمد محسن حکیم ، سید محمود شاہرودی ، میرزا باقر زنجانی ، سید یحییٰ یزدی اور میرزا حسن بجنوردی کے دروس خارج سے کسب فیض کیا آپ نے حوزہ علمیہ نجف اشرف کے درس و تدریس اور تحقیق کے ماحول کوبہت پسند کیا لیکن آپ کے والد ماجد آپ کے وہاں رہنے پر راضی نہ ہوئے جس کی بنا پرآپ نجف اشرف سےکچھ ہی عرصے کےبعد اپنے والد کی مرضی کےمطابق انکے پاس مشہد واپس تشریف لے آئے

حوزہ علمیہ قم میں

آیت اﷲ العظمی خامنہ ای فقہ و اصول اور فلسفہ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ۱۳۳۷ ھ ش سے ۱۳۴۳ ھ ش تک حوزہ علمیہ قم میں مشغول رہے اور آیت اﷲ العظمیٰ بروجردی (رہ) ، امام خمینی(رہ) ، شیخ مرتضیٰ حائری یزدی (رہ) اور علامہ طباطبائی(رہ) جیسے بزرگ علماء کے محضر سےکسب فیض کیا

۱۳۴۳ھ ش میں رہبر انقلاب کو اپنے والد ماجد کے خط کے ذریعہ معلوم ہوا کہ آپ کے والد کی ایک آنکھ کی بینائی ” موتیا بندھ“ کی وجہ سے زائل ہوگئی ہے آپ اس خبر سے بہت افسردہ اورغمگین ہوئے اور ”قم میں تعلیم جاری رکھنے یا مشہد واپس جا کر والد ماجد کی خدمت کرنے “ کے درمیان پس و پیش میں پڑ گئے ، غور و فکر کرنے کے بعدآپ اس نتیجے پر پہنچے گئےکہ خدا کی خاطر قم سے مشہد کے لئے ہجرت اختیارکریں اور اپنے والد ماجد کی وہاں جاکر خدمت اوردیکھ بھال کریں ، آپ اس بارے میں فرماتے ہیں :

” میں باپ کی خدمت کرنےمشہد چلا گیا اور خدا وند عالم نے مجھے بہت زیادہ توفیقات عطا فرمائیں ، بہرحال میں اپنا فریضہ اور ذمہ داری ادا کرنے میں مشغول ہوگیا ، اگر میں زندگی میں کامیاب ہوا ہوں اور مجھے توفیق حاصل ہوئی ہے تواس بارے میں میرا عقیدہ یہ ہے کہ یہ اسی نیکی کی وجہ سے ہے کہ جو میں نے اپنے والد ماجد ، بلکہ ماں باپ دونوں کے ساتھ کی تھی “

آیت اﷲ العظمی خامنہ ای نے ان دو راستوں ( ١- قم میں تحصیل علم ، ٢- مشہد میں والدین کی خدمت ) میں صحیح راستے (مشہد میں والدین کی خدمت ) کو انتخاب کیا ، بعض اساتذہ اور ملنے جلنے والوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ آپ نے اتنی جلدی قم کیوں چھوڑ دیا ، اگر رہ جاتے تو مستقبل میں ایسے بن جاتے اور ویسے ہوجاتے لیکن آپ کے تابناک اور روشن مستقبل نے بتادیا کہ آپ کا انتخاب صحیح تھا اور تقدیر الٰہی نےآپ کے لئے بہترین انجام رقم کردیا تھا ، کیا اس وقت کوئی تصور کرسکتا تھا کہ ایک ۲۵ سالہ بااستعداد جوان عالم کہ جو خدا کی رضا اور والدین کی خدمت کی خاطر قم سے مشہد روانہ گیا ، ۲۵ سال بعد مسلمانوں کے رہبر اور ولی امر ایسے بلند مقام اور منزلت پر فائز ہوجائےگا ؟ !

آپ نے مشہد مقدس میں درس سے ہاتھ نہیں کھینچا اورتعطیلات کے ایام یا سیاسی جد و جہدو فعالیت ، جیل اور سفر کے علاوہ اپنی فقہ واصول کی تعلیم کو ۱۳۴۷ ھ ش تک مشہد کے بزرگ علماء بالخصوص آیت اللہ العظمی میلانی کے محضر میں پابندی کے ساتھ جاری رکھا ، اسی طرح آپ جب ۱۳۴۳ ھ ش میں مشہد میں مقیم ہوگئے تو آپ نے تحصیل علم اورضعیف و بیمار باپ کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ فقہ و اصول اور دینی تعلیم سے جوان طالب علموں اور اسٹوڈینٹس کو آگاہ اور روشناس کرانا شروع کردیا تھا

سیاسی جد و جہد

آیت اﷲ العظمی خامنہ ای خود فرماتے ہیں کہ " میں امام خمینی (رہ) کا فقہی ، اصولی ، سیاسی اور انقلابی شاگرد ہوں " لیکن مجاہد اعظم اور شہید راہ خدا ” سید مجتبیٰ نواب صفوی “ کے ذریعہ آپ کے پہلے سیاسی ، جہادی مرحلےاور طاغوتی طاقت کے ساتھ مقابلہ اور جد وجہد کا آغاز ہوا ، جس وقت نواب صفوی چند فدائیان اسلام کے ہمراہ ۱۳۳۱ھ ش میں مشہد گئے اور مدرسہ سلیمان خان میں اسلام کے احیاء و بقا اور الٰہی احکام کی حاکمیت “ کے موضوع پر ولولہ انگیز اور پرجوش تقریر کی جس میں ایرانی عوام کو برطانوی سامراج کے مکر وفریب اورشاہ کی خیانتوں سے آگاہ کیا اس وقت آیت اﷲ خامنہ ای جو مدرسہ سلیمان خان کے جوان طالب علم تھے ، نواب کی شعلہ بیانی سے بہت متاثرہوئے ، آپ فرماتے ہیں :

”اسی وقت انقلاب اسلامی کی چنگاری نواب صفوی کی شعلہ بیانی کے ذریعہ میرے وجود میں آگئی تھی اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ میرے دل میں پہلی آگ مرحوم صفوی نے روشن کی تھی “

 

امام خمینی (رہ) کی تحریک کے ہمراہ

آیت اﷲ خامنہ ای نے ۱۳۴۱ھ ش میں اس وقت میدان سیاست میں قدم رکھا کہ جب آپ قم میں مقیم تھے اور محمدرضا شاہ پہلوی کی اسلام دشمن پالیسی اور امریکہ نواز سیاست کے خلاف امام خمینی (رہ) کی انقلابی تحریک کاآغاز ہوا آپ اس وقت سیاسی جدو جہد کے میدان میں وارد ہوگئے اور پورے سولہ سال تک بہت سے نشیب و فراز ، شکنجے ، شہر بدری اور جیل جانے کے باوجود آپ نے جد و جہد کا سفر جاری رکھا اور اس راستے میں پیش آنے والے کسی بھی خطرے سے آپ ہراساں نہیں ہوئے آپ پہلی بار محرم ۱۳۸۳ھ ق میں امام خمینی(رہ) کی جانب سے آیت اﷲ میلانی اور خراسان کے دیگر علماءتک پیغام پہنچانے پر مامور ہوئے

اس پیغام میں علماءکے لئے محرم الحرام میں تبلیغ کرنے کا طریقہ کار ، شاہ کی امریکہ نواز پالیسیوں کو فاش کرنا ، ایران کے حالات اور قم میں رونما ہونے والے حوادث جیسے اہم موضوعات شامل تھے

آپ نے اس ماموریت کو بحسن و خوبی انجام دیا اور خود بھی تبلیغ کے لئے شہر ” بیرجند“ کی جانب روانہ ہوگئے اور امام خمینی (رہ) کا پیغام پہنچانے کے ساتھ ساتھ ، تبلیغ اور شاہ کی امریکہ نوازپالیسیوں کو فاش کرنا شروع کردیا ، لہٰذا ۹ محرم مطابق ۱۲ خرداد۱۳۴۲ ھ ش کو آپ گرفتار کر لئے گئے اور ایک رات قید میں رہنے کے بعد اگلے روز مجلس نہ پڑھنے ، تقریر نہ کرنے اور زیرنظر رہنے کی شرط پر رہا کر دئیے گئے ، ۱۵ خرداد کا حادثہ پیش آنے پر آپ کودوبارہ بیر جند سے مشہد لاکر فوجی قید خانہ میں بند کردیا گیا اور یہاں پر آپ نے دس دن شکنجہ اور آزار کے ساتھ قید با مشقت میں گزارے

دوسری گرفتاری

بہمن ۱۳۴۲ھ ش مطابق رمضان المبارک ۱۳۸۳ ھ ق میں آیت اﷲ خامنہ ای اپنے چند دوستوں کے ساتھ ایک منظم پروگرام کے تحت ( شہر) کرمان کی جانب روانہ ہوئے ، کرمان میں دوتین دن قیام کے دوران تقریریں کیں ، شہر کے علماءاورطلاب سے ملاقات کی ، اس کے بعد آپ زاہدان کے لئے روانہ ہوگئے ، یہاں پر آپ نےعوامی اجتماعات میں پُر جوش تقریریں کیں اور ( شاہ کی امریکہ نواز پالیسیوں ) کو برملا کرنےاور بالخصوص شاہ کے ذریعہ چھٹی بہمن کومنعقد کیئے جانے والے جعلی ریفرنڈم کے سلسلے میں کی جانے والی تقریروں کولوگوں نے بہت پسند کیا ، پندرہ رمضان المبارک ، امام حسن مجتبیٰ کی تاریخ ولادت کے موقع پر پہلوی شہنشاہی حکومت کی شیطانی اور امریکہ نواز سیاست کےمتعلق آپ کی بے باک انداز میں تقریریں اورآپ کی شجاعت و انقلابی جوش و ولولہ اپنے عروج کو پہنچ گیا لہذا ساواک ( شاہ کی خفیہ ایجنسی) نے آپ کو گرفتار کرکے ہوائی جہاز کے ذریعہ تہران روانہ کردیا ، رہبر عظیم الشان تقریباً دو مہینے تک ( تنہائی کے عالم میں ) ” قزل قلعہ “ نامی جیل میں قیدی بناکر رکھے گئے اور آپ نے اس جیل میں انواع و اقسام کی توہین اور شکنجے برداشت کئے

تیسری اور چوتھی گرفتاری

مشہد اور تہران میں انقلابی اور پر جوش جوانوں کے درمیان آپ کی تفسیر و حدیث اور اسلامی تفکر پر مبنی مذہبی کلاسیں بہت مقبول ہوئیں آپ کی یہ مذہبی سرگرمیاں ساواک کے غم وغصہ کا باعث بنیں اورساواک نے آپ کا پیچھا کرنا شروع کردیا ، اسی وجہ سے آپ نے ۱۳۴۵ ھ ش کا سال تہران میں مخفی طور پر گزارااور ایک سال بعد ( ۱۳۴۶ھ ش ) آپ گرفتار کرکے جیل بھیج دئے گئے ،آپ کی انھیں علمی سرگرمیوں ، جلسے اور کلاسیں منعقد کرنے ، عالمانہ اور مصلحانہ انداز میں عوام کے سامنے بیان کرنے کی بنا پرآپ کودوبارہ پہلوی ساواک نے ۱۳۴۹ ھ ش میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا

پانچویں گرفتاری

حضرت آیت اﷲ خامنہ ای (مدظلہ)ساواک کے ذریعہ اپنی پانچویں گرفتاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

” ۱۳۴۸ ھ ش سے ایران میں مسلح تحریک کا احساس ہو گياتھا ، میرے بارے میں اُس وقت کی حکومتی کی ایجنسیوں کی حساسیت اور شدت عمل میں اضافہ ہوگیاتھا ، کیوں کہ انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ ایسی تحریکوں سے میرے جیسے افراد کا منسلک ہونا ناگزیر ہے لہٰذا ۱۳۵۰ ھ ش میں مجھے پانچویں مرتبہ جیل ڈال دیا گیا ،جیل میں ساواک کا تشدد آمیز سلوک آشکارا طور پر بتارہا تھا کہ یہ ایجنسی ،اسلامی فکر رکھنے والےمراکز کے مسلح تحریک سے ملحق ہونے پر کس قدر فکر مند ہے اور یہ ایجنسی اس بات سے بھی خوب واقف تھی کہ مشہد اور تہران میں میری تبلیغاتی سرگرمیاں ، ان مسلح تحریکوں سے علیحدہ نہیں ہیں لہذا آزادی کے بعد تفسیر کے عمومی دروس اور آئیڈیالوجک مخفی کلاسوں کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا “

چھٹی گرفتاری

۱۳۵۰ ھ ش سے ۱۳۵۳ ھ ش کے درمیان آیت اﷲ خامنہ ای کے تفسیر اور اسلامی و انقلابی آئیڈیالوجک پر مشتمل دروس مشہد مقدس کی تین مسجدوں ” مسجد کرامت “ ” مسجد امام حسین (ع) “ اور” مسجد میرزا جعفر “ میں تشکیل پاتے اور ہزاروں مشتاق افراد آپ کے ان دروس میں شرکت کرکے فیض یاب ہوتے تھے بالخصوص ان تین مرکزوں پر اسلام اور انقلاب کے معتقد طالب علم اور آگاہ و روشن خیال جوان آپ کے دروس میں شرکت کرکے خالص اسلامی نظریات سے آشنا ہوتے تھے

آپ کا نہج البلاغہ کا درس ایک نئے جوش و ولولے کے ساتھ برقرارہوتا تھا فوٹو کاپی کئے ہوئے کتابچے” پرتوی از نہج البلاغہ “ کے عنوان سےایک دوسرے کے ہاتھوں میں رہتے ،وہ انقلابی نوجوان طالب علم کہ جنھوں نے جد و جہد اور حقیقت کا درس آپ سے سیکھا تھا ، ایران کے دور و نزدیک شہروں میں جاتے اور وہاں کے لوگوں کو ان نورانی حقائق سے آشنا کرکے عظیم اسلامی انقلاب کے لئے زمینہ ہموار کرتے تھے، ان سرگرمیوں کی وجہ سے بے رحم ساواک نے ”دی ماہ “ ۱۳۵۳ ھ ش میں آیت اﷲ خامنہ ای کے مشہد میں واقع مکان پر حملہ کرکے آپ کوگرفتار کرلیااور آپ کی بہت سی یادداشتوں اور تحریروں کو ضبط کرلیا

آپ کی یہ چھٹی اور شدید ترین گرفتاری تھی اور ۱۳۵۴ھ ش کے موسم خزاں تک سول پولیس کی ایک مشترک کمیٹی کی قید میں رہے ، اس مدت میں آپ ایسے وارڈ میں رکھےگئے جس میں سخت اذیت و آزار دیا جاتا تھا ، آپ نے اس گرفتاری میں سخت تکلیفیں برداشت کیں ،خود آپ کے بقول : " ان تکالیف کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنھوں نے برداشت کی ہیں "

جیل سے رہا ہونے کے بعد آپ مشہد مقدس تشریف لے گئے اور پھر انقلابی کوششوں اور علمی و تحقیقاتی پروگرام کوجاری رکھا ، لیکن اس بار آپ کو سابقہ طریقے پر کلاسیں تشکیل دینے کی اجازت نہیں دی گئی

شہر بدری

ظالم پہلوی حکومت نے آیت اﷲ خامنہ ای کو ۱۳۵۶ھ ش کے آخر میں گرفتار کرنے کے بعد شہر بدر کرکے تین سال کی مدت کے لئے ” ایران شہر “ بھیج دیا ، ۱۳۵۷ ھ ش کے وسط میں ایران کے انقلابی مسلمانوں کی جدو جہد جب عروج کو پہنچی تو آپ ” ایران شہر “ سے آزاد ہوکر مشہد مقدس واپس تشریف لے آئے اور پہلوی سفاک حکومت کے خلاف عوامی سطح پر ہونے والی جد و جہد میں لوگوں کے ساتھ اگلی صفوں میں شامل ہوگئے اور آپ نے پندرہ سال تک ، راہ خدا میں مردانہ اور دلیرانہ جد و جہد ، قیام و پائداری اورتمام سختیوں اور تلخیوں کو برداشت کرنے کے بعد انقلاب اسلامی کی شاندار کامیابی اور شاہی حکومت کے ظالمانہ نظام کے ذلت آمیز زوال اور ایران کی سرزمین پر اسلام کی حاکمیت کے شیریں پھل کو مثمر ثمر ہوتے دیکھا

کامیابی کے نزدیک

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے نزدیک ، امام خمینی (رہ) کی پیرس سے تہران واپسی سے پہلے امام خمینی(رہ) کی جانب سے ایران میں شہید مطہری ، شہید بہشتی ، ہاشمی رفسنجانی جیسی مجاہد شخصیتوں کی شرکت سے ” شورای انقلاب اسلامی “ تشکیل پائی اور آیت اﷲ خامنہ ای بھی امام خمینی(رہ) کے حکم سے اس شورایٰ کے ممبر بنائے گئے ، امام خمینی (رہ) کا پیغام شہید مطہری کے ذریعہ آپ تک پہنچا ، رہبر کبیر انقلاب کا پیغام دریافت کرتے ہی آپ مشہد سے تہران تشریف لے آئے

کامیابی کے بعد

آیت اﷲ خامنہ ای ، اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی اسی طرح جوش و ولولے کے ساتھ گرانقدر اسلامی فعالیت اور انقلاب اسلامی کے مقاصد سے نزدیک تر ہونے کے لئے کوششیں کرتے رہے جو سب کی سب اپنی نوع اور حالات کے اعتبارسے بے نظیر اور بہت ہی اہم تھیں ، یہاں پر ہم صرف اہم سرگرمیوں کا ذکر کررہے ہیں:

٭ آپ نے شہید بہشتی ، شہید باہنر اورہاشمی رفسنجانی جیسے ہم خیال اور ہمفکر اور مجاہد علماء کی مدد سے ۱۳۵۷ھ ش میں اسفند کے مہینے میں حزب جمہوری اسلامی کی بنیاد رکھی

٭ ۱۳۵۸ ھ ش میں وزارت دفاع میں معاونت کے عہدے پر فائز ہوئے

٭ ۱۳۵۸ ھ ش میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سرپرست مقررہوئے

٭ ۱۳۵۸ ھ ش میں تہران کے امام جمعہ منتخب ہوئے

٭ ۱۳۵۹ ھ ش میں اعلی دفاعی کونسل میں حضرت امام خمینی (رہ) کے نمائندہ مقرر ہوئے

٭ ۱۳۵۹ ھ ش میں عراق کی جانب سے ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ کےشروع ہونے اور امریکہ اور سابق روس جیسی شیطانی قوتوں کے اشاروں پر صدام کی ظالم فوج کے ہاتھوں ایرانی سرحدوں پر عام تباہی مچانےکے ساتھ ، آپ نے لباس جنگ پہن لیا اور مخلصانہ طور پر میدان جنگ میں پہنچ کر اسلامی انقلاب کے دفاع اور ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لئے دفاعی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے

٭ ۱۳۶۰ ھ ش میں تیر مہینے کی چھٹی تاریخ میں تہران کی مسجد ابوذر میں منافقین نےآپ پر ناکام قاتلانہ حملہ کیا جس میں آپ زخمی ہوگئے

٭ صدارت : ایران کے دوسرے صدر ، محمد علی رجائی کی شہادت کے بعد آیت اﷲ خامنہ ای ۱۳۶۰ ھ ش میں مہر کے مہینے میں ۱۶ملین سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے امام خمینی (رہ) کے حکم پر اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر منتخب ہوئے

٭ ۱۳۶۰ھ ش میں انقلاب کی ثقافتی کونسل کے سربراہ منتخب ہوئے

٭۱۳۶۶ ھ ش میں مجمع تشخیص مصلحت نظام کے سربراہ منتخب ہوئے

٭ ۱۳۶۸ ھ ش میں بنیادی آئین میں تجدید نظر کرنے والی کمیٹی کے سربراہ مقررہوئے

٭ امت کی رہبری اور ولایت : ۱۳۶۸ ھ ش میں خرداد مہینےکی 14 تاریخ کو رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد ، مجلس خبرگان رہبری نے آپ کوامت کی رہبری اور ولایت کے عظیم منصب اور ذمہ داری کے لئے منتخب کیا اور یہ انتخاب کتنااچھا اور مبارک انتخاب تھا کہ امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد آپ ایرانی عوام بلکہ امت اسلامیہ کی رہبری کی ذمہ داری بڑی خوش اسلوبی اور ذمہ داری کے ساتھ نبھارہے ہیں ۔

 

قلمی آثار

اس مختصر تحریر کے آخر میں بہتر ہے کہ رہبر عظیم الشان کے قلمی آثار پر نگاہ ڈالتے چلیں :

تالیف و تحقیق :

٭ طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن

٭ از ژرفای نماز

٭ گفتار ی در باب صبر

٭ چہار کتاب اصلی علم رجال

٭ ولایت

٭ گزارش از سابقہ تاریخی و او ضا ع کنونی حوزہ علمیہ مشہد

٭ زندگی نامہ آئمہ تشیع ( غیر مطبوعہ )

٭ پیشوای صادق

٭ وحدت و تحزب

٭ ہنر از دیدگاہ آیت اﷲ خامنہ ای

٭ درست فہمیدن دین

٭ حدیث ولایت - آپ کے پیغامات اور گفتگو کا مجموعہ ہے کہ جو اب تک ٩ جلدوں میں شائع ہو چکا ہے و۔۔۔

ترجمے

٭ صلح امام حسن ، تالیف راضی آل یاسین

٭ آئندہ در قلمرو اسلام ، تالیف سید قطب

٭ مسلمانان در نہضت آزادی ہندوستان ، تالیف عبد المنعم نمری نصری

٭ ادعا نامہ علیہ تمدن غرب ، تالیف سید قطب

 

 

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جو شخص نماز پڑھ تا ہے لیکن زکات ادا نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں ، چہ جائے کہ اس کا کوئی عمل اس کے لئے مفید ہو

پنجم سارے اموال

< خذ من اموالھم صدقة تطھرھم و تزکیھم بھا۔۔۔ >

پیغمبر آپ ان کے اموال میں سے زکات لیجئے کہ اس کے ذریعہ یہ پاک و پاکیزہ ہو جائیں۔(سورہ توبہ / ۱۰۳ )

< و فی اموالھم حق للسائل و المحروم>

اور ان کے اموال میں مانگنے والے اور محروم افراد کے لئے ایک حق تھا ۔

یہ پانچویں قسم عام ہے اور اس میں مال زراعت و مال صناعت اور مال تجارت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔

۴۔ زکات حدیث اور فقہ کی کتابوں میں

الف:۔ زکات اہل سنت کی فقہی اور حدیثی کتابوں میں

ان کتابوں میں زکات کے سلسلہ میں صراحة بہت سی حدیثیں موجود ہیں لیکن ہم چند واضح حدیث کے بیان پر اکتفاء کرتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : اسلامی یعنی شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرو اور زکات ادا کرو ، ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھو اور جب مستطیع ہو جاؤ تو حج کرو ۔۱

عبداللہ بن مسعود رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں :

ہم سب کو نماز قائم کرنے اور زکات ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جو بھی زکات ادا نہیں کرے گا اس کی کوئی بھی نماز قبول نہ ہوگی ۔ ۲

اصبہانی نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جو شخص نماز پڑھ رہا ہے لیکن زکات ادا نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں ، چہ جائے کہ اس کا کوئی عمل اس کے لئے مفید ہو ۔ ۳

----------------------------------------------

۱۔ الجامع الصغیر فی احادث البشیر النذیر ، ج /۱ ص / ۴۷۴، ح / ۳۰۵۹ سیوطی ، دار الفکر ، بیروت ۱۴۰۱ ء ھ

۲،۳، الترغیب والترغیب فی حدیث الشریف ، ج / ۱ ص / ۵۴۰ ، ح / ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲، حافظ ابو محمد منذری ، بیروت دا احیاء التراث العربی ۱۳۸۸ ء ھ

براز نے علقمہ سے نقل کیا ہے کہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا-: تمھارا اسلام اس وقت کامل ہوگا جب تم لوگ زکات ادا کروگے ۔۱

فقہائے اہل سنت کہتے ہیں : جو کوئی زکات کے واجب ہونے کا معتقد ہو اور زکات ادا نہ کرے اس سے زبر دستی زکات وصولی جائے گی ، اگر کوئی شخص سر زمین اسلام اہل علم کے درمیان زندگی بسر کررہا ہو اور زکات سے انکار کرے وہ مرتد ہے اور اس پر مرتد کے احکام جاری ہوں گے ، تین مرتبہ توبہ کرنے کے لئے کہا جائے گا اور نہیں کرے گا تو قتل کر دیا جائے گا اور حاکم پر واجب ہے کہ زکات کی ادائیگی سے انکار کرنے والے سے جنگ کرے یہاں تک کہ وہ زکات ادا کرے ۔ ۲

اس رو سے اہل سنت کے نزدیک صاحب نصاب پر زکات کے واجب ہونے کے علاوہ حکومت کی طرف سے زکات کا جمع کرکے اسے مستحق کے درمیان تقسیم کرنا بھی واجب ہے اور اس سے اجتناب نہیں کیا جا سکتا ۔

اس حکم کے نافذ کرنے کے لئے بعض اسلامی ممالک نے لازمی طور پر زکات ادا کرنے کا طریقہ اپنایا ہے اور کچھ دیگر اسلامی ممالک نے آزادانہ رویہ اپنا رکھا ہے ۔

ب :۔ زکات پیروان اہلبیت (علیهم السلام) کی حدیثی اور فقہی کتابوں میں

وجوب زکات کے سلسلہ میں عبد اللہ بن سنان امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں جب آیت زکات ۳ ماہ رمضان میں نازل ہوئی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منادی کو حکم دیا کہ لوگوں میں یہ اعلان کردے کہ پرور دگار عالم نے جس طرح تم پر نماز واجب قرار دی ہے اسی طرح زکات بھی واجب کی ہے ۔ ۴

----------------------------------------------

۱ ۔لترغیب والترغیب فی حدیث الشریف ، ج / ۱ ص / ۵۴۰ ، ح / ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲، حافظ ابو محمد منذری ، بیروت دا احیاء التراث العربی ۱۳۸۸ ء ھ

۲۔ ابن قدامہ ، المغنی ، ( بیروت دار الکتاب العربی ) ج / ۲ ص / ۴۳۵، محمد بن الشربینی مغنی المحتاج فی شرح المنھاج (بیروت دار احیاء التراث العربی ) ۱۳۷۷ ئھ ج / ۱ ص / ۳۶۸ ، سید سابق ، فقہ السنة دار الکتاب العربی ( بیروت ) ج / ۱ ص/ ۳۶۸۔

۳۔ سورہ توبہ / ۱۰۳

۴۔ محمد بن حسن حر عاملی ، وسائل الشیعہ الیٰ مسائل الشریعة ( موسسة آل البیت (علیهم السلام) لاحیاء التراث ۱۴۱۳ء ھ ج/۹ ص /۹ح /۱

دوسری روایت میں عبد اللہ بن سنان امام علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ” پر وردگار عالم نے جس طرح نماز کو واجب قرار دیا ہے اسی طرح زکات بھی واجب قرار دی ہے لہٰذا اگر کوئی شخص زکات کا مال حمل کرے اور علی الاعلان ادا کرے تو کوئی مضائقہ نہیں اس لئے کہ پروردگار عالم نے امیروں کے اموال میں اس مقدار میں فقراء کے لئے حق قرار دیا ہے جو ان کے لئے کافی ہو اور اگر اللہ کی نگاہ میں فقراء کو اس سے زیادہ کی ضرورت ہو تی تو یقینا خدا وند عالم اس سے زیادہ واجب قرار دیتا اور یقینا فقیروں کا فقر ان کے حق کو ادا کرنے سے منع کرنے والوں کے سبب ہے نہ کہ وظیفہ کی وجہ سے ۔ ۱

کتاب ” وسائل الشیعہ “ میں ، نماز قبول نہیں ہوگی مگر زکات کی ادائیگی کے بعد کے باب میں سولہ روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔

من جملہ شیخ طوسی معروف بن خر بوذ کے حوالہ سے امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ” بیشک اللہ نے زکات کو نماز کے ساتھ ساتھ قرار دیا ہے اور فرماتا ہے : و اقیموا الصلاة و آتوا الزکاة “ یعنی اگر کوئی شخص نماز قائم کرے اور زکات ادا نہ کرے تو گویا اس نے نماز قائم ہی نہیں کی ۔ ۲

زکات کی ادائےگی سے منع کرنا حرام ہے اور اس سلسلہ میں کتاب وسائل الشیعہ میں ۲۹ روایتیں نقل ہوئی ہیں انھیں روایات میں سے ایک روایت شیخ طوسی محمد بن مسلم کے حوالہ سے امام محمد باقر سے نقل کرتے ہیں ” جو شخص بھی زکات میں ذرا بھی کمی کرے گا تو پرور دگار عالم روز قیامت آگ کا ایک اژدہا اس کی گردن میں قرار دے گا اور وہ اس کا گوشت نوچے گا یہاں تک کہ وہ حساب و کتاب سے فارغ ہو جائے اور اس کی دلیل اللہ کا وہ قول ہے جس میں ارشاد فرماتا ہے ” سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیامة “ ۳ یعنی جو کچھ زکات میں کنجوسی کریں گے عنقریب وہ مال ان کی گردن میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا ۔ ۴

صاحب وسائل الشیعہ ، زکات کے منکر اور زکات کی ادائیگی سے منع کرنے والے کے کفر و ارتداد اور اس کے قتل کے جائز ہونے کے ثبوت میں نو روایتیں نقل کرتے ہیں ۔

----------------------------------------------

۱۔ حوالہ گزشتہ ، ج/۹ ص / ۱۰ ح / ۳

۲۔ وسائل میں الشیعہ، باب تحریم منع الزکات ، ص / ۲۲ ، ح / ۲

۳۔سورہ آل عمران/۱۸۰

۴۔ وسائل الشیعہ، باب تحریم منع زکات ، ص / ۲۲ ، ح / ۳

شیخ طوسی ابان بن تغلب کے حوالہ سے امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں : ” پرور دگار عالم کی جانب سے دو لوگوں کا خون بہانا جائز ہے اور کوئی بھی انسان اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کر ے گا یہاں تک کہ خدا وند عالم قائم آل محمد عجل اللہ فرجہ شریف کو ظاہر کرے اور جب آپ کا ظہور ہوگا تو آپ اللہ کے حکم سے ان دو مسئلہ میں فیصلہ کریں یعنی زانی محصنہ کا سنگسار اور زکات کی ادائیگی سے منع کرنے والوں کی گردن اڑانا۔ ۱

شیعہ فقہا متفق علیہ طور سے زکات کے وجوب کو ضروریا ت دین میں شمار کرتے ہیں اور جان بوچھ کر انکار کرنے والے کو کافر سمجھتے ہیں ۔ ۲

امام خمینی فرماتے ہیں ” اصل وجوب زکات فی الجملہ ضروریات دین میں ہے اور بیشک جیسا کہ کتاب طہارت میں گزر چکا ہے اس کا انکار کرنے والا کفار کی جماعت میں ہے ، اہل بیت علیہم السلام سے روایت ہے کہ ” ایک قیراط زکات منع کرنے والا نہ مومن ہے اور نہ ہی مسلمان “ اور اگر وہ چاہے تو یا یہودی مرے یا نصرانی مرے “ اور ” کوئی بھی درخت یا زراعت یا انگور کا مالک اگر زکات ادا کرنے منع سے کرے گا تو روز قیامت پرور دگار عالم اسے اس کی گردن میں آگ کا سانپ بنا ڈال دے گا جو حساب و کتاب سے فارغ ہو نے تک اس کے گوشت کو

کاٹتا رہے گا۔

اس کے علاوہ دوسری روایتیں بھی ہیں جو عقل بشری کو حیران کر دیتی ہیں ، مگر ہاں زکات کی فضیلت بھی بہت زیادہ ہے اور اس کا ثواب بہت عظیم ہے ۔صدقہ دینے جو زکات کو بھی شامل ہے کے بارے میں روایت میں آیا ہے کہ ” خدا وند عالم صدقہ کو ویسے ہی بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے لوگ اپنے بچے کو پروان چڑھاتے ہیں تاکہ روز قیامت جب انسان کو صدقہ ملے تو اس حالت میں کہ وہ کوہ احد کے برابر ہو گیا ہو “

نیز روایت میں ہے کہ ” صدقہ بری موت سے بچاتا ہے ۔ چھپ کر دیا جانے والا صدقہ پرور دگار عالم کے غضب اور عذاب کو ختم کر دیتا ہے “ اس کے علاوہ اور بھی روایتیں ہیں ۔ ۳

----------------------------------------------

۱۔ گزشتہ حوالہ ، ص / ۳۳ ، ح /۶

۲۔محقق حلی ، المعتبر فی شرح المختصر ، قم موسسہ ، سید الشہداء ، ج / ۲ ص/ ۴۸۵ ، شیخ مفید ، المقنعہ ، قم جامعہ مدرسین ، ۱۴۱۰ ء ھ ، ج / ۱ ص / ۳۲ ۔سید محمد کاظم طبا طبائی یزدی ، العروة الوثقیٰ ، ج / ۴ ص / ۶ ۔ روح اللہ موسوی خمینی ، تحریر الوسیلہ ( قم ، دفتر انتشارات اسلامی ) ج / ۲ ص / ۱۱ سید ابو القاسم خوئی الزکات ( قم العلمیة ۱۴۱۳ ء ھ ص / ۹ ، سید محمد رضا گلپائگانی ، مختصر الاحکام ( قم دار القرآن الکریم ) ص / ۹۴ )

۳۔ تحریر الوسیلہ ، روح اللہ موسوی خمینی ، ج / ۲ ص/ ۱۱

معلوم ہوا کہ اسلام کے مذاہب پنجگانہ ، زکات کے وجوب اور اس کے ضروریات دین میں ہونے نیز جان بوجھ کر زکات سے انکار کرنے والے کے کفر ہے پر متفق ہیں اور سب کا نظریہ ایک ہے مگر فقہی نقطہ نظر سے فقر کو دور کرنے میں جو چیز زکات سے فائدہ اٹھانے میں موثر ہے وہ زکات میں شامل افراد اور اموال کی وسعت اور تنگی ہے اور اس سلسلہ میں مذاہب پنجگانہ کے فقہاکے نظریات مختلف ہیں اس لحاظ سے فقہی رائے کا انتخاب زکات کے وظیفہ کے کم یا زیادہ ہونے پر خاص اثر ڈال سکتا ہے ، نتیجہ میں ضرورت اس بات کی پڑتی ہے کہ مذاہب پنجگانہ کا ، زکات میں شامل افراد و اموال کی وسعت و تنگی کے لحاظ سے مطالعہ کیا جائے اور بحث و تحقیق کی جائے۔

۵۔ مذاہب پنجگانہ میں زکات میں شامل افراد و اموال کی تقابلی تحقیقی ، اور اہل سنت کی جدید فقہ

الف)۔ وہ افراد جن پر زکات مال ادا کرنا واجب ہے

اگر کوئی شخص بالغ ، عاقل اور مسلمان ہے تو تمام مذاہب کے فقہا اس کے اس مال میں زکات کو واجب سمجھتے ہیں جب وہ مال حد نصاب تک پہنچ جائے اور اس سلسلہ میں سب کا اتفاق نظر ہے ، لیکن اگر ایک یا دو شرط نہ پائی جائے تو ان کے درمیان اختلاف نظر ہے جس کی تفصیل ذیل میں مذکور ہے ۔

حنبلی ، مالکی ،اور شافعی مذہب کا کہنا ہے ہے کہ عقل اور بلوغ شرط نہیں ہے لہٰذا بچہ اور مجنون کے مال میں بھی زکات واجب ہے اور ان دونوں کے سرپرست پر واجب ہے کہ ان کے مال سے زکات ادا کرے ۔ ۱

لیکن حنفی مذہب تفصیل کے قائل ہیں اور غلات اربعہ میں بلوغ و عقل کی شرط کے قائل نہیں ہیں لہٰذا بچے اور دیوانے کے خرما ، کشمش اور کاشت میں زکات کے وجوب کے قائل ہیں مگر دیگر اموال میں بلوغ و عقل کی شرطوں کے قائل ہیں ۔ ۲ اہل سنت کی جدید فقہ کے مطابق غیر مکلف کے مال میں زکات واجب ہے ۔۳مگر فقہائے امامیہ

----------------------------------------------

۱۔عبد الرحمن جزیری ، الفقہ علی المذاہب الاربعة ، ( بیروت دار احیاء التراث العربی ، ۱۴۰۶ ء ھ ۱۹۸۶ء ء ) ج / ۱ ص / ۵۹۰ و السید سابق فقہ السنة ( بیروت دار الکتاب العربی ، ۱۴۰۷ ء ھ / ۱۹۸۷ ء ء ) ج / ۱ ص / ۲۹۴۔

۲۔ عبد الرحمن جزیری ، الفقہ علی المذاہب الاربعة ، ( بیروت دار احیاء التراث العربی ، ۱۴۰۶ ء ھ ۱۹۸۶ء ء ) ج / ۱ ص / ۵۹۰ و ابن عابدین ، رد المختار علی در المختار ، ( دار الفکر ، ۱۴۱۵ ء ھ ) ج / ۲ ص / ۲۷۹ و ۲۸۰ ۔

۳۔ محمد سلیمان اشقر و دیگران ، قرارات الموتمر الثانی لمجمع الاسلامیة بالقاہرہ فی ابحاث فقہیة فی قضایا الزکاة المعاصرة( اردن ، دار النفائس ، ۱۴۱۸ ء ھ / ۱۹۹۸ ء ء ) ج / ۲ ص / ۸۶۶۔

کی اس مسئلہ میں دو جماعت ہے ایک قدیم علماء جیسے شیخ مفید ، شیخ طوسی جو اس بات کے معتقد ہیں کہ بچے اور دیوانے کے غلات اربعہ اور انعام ثلاثہ پر زکات واجب ہے اور سونے چاندی پر واجب نہیں ہے مگر اس صورت میں کہ اس سونے چاندی سے تجارت کی جائے تو شیخ مفید کا نظریہ یہ ہے کہ زکات واجب ہے اور شیخ طوسی کے نظریہ کے مطابق زکات مستحب ہے اور یہی نظریہ محقق حلی کا بھی ہے ۔۱

دوسرا گروہ جدید اور معاصر علماء کاہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ بلوغ و عقل زکات کے وجوب کی شرط ہے لہٰذا بچے اور دیونے کے مال میں زکات واجب نہیں ہے ۔ ۲

وجوب زکات کے شرایط میں سے ایک شرط اسلام ہے ، حنفی ، شافعی اور حنبلی مذہب کے نظریہ کے مطابق کافر پر زکات واجب نہیں چاہے کافر اصلی ہو یا مرتد ہو ۔ ۳ جزیری مالکیوں کے الفاظ یوں نقل کرتے ہیں کہ کافر پر زکات اسی طرح واجب ہے جس طرح مسلمان پر واجب ہے بغیر کسی فرق کے ۔ وہ کہتے ہیں کہ مالکیوںکی دلیل یہ ہے کہ اسلام زکات کے وجود کی شرط نہیں ہے بلکہ اسلام زکات کے صحیح ہونے کی شرط ہے لہٰذا ان کی نظر میں کافر پر زکات واجب ہے ، ہر چند اسلام کے بغیر صحیح نہیں ہے ۔ لیکن قرطبی کے بہ قول ، امام مالک کا کوئی قول اہل ذمہ پر زکات واجب ہونے کے سلسلہ میں نقل نہیں ہوا ہے ۔ ۴ لہٰذا سمجھ میں یہی آتا ہے کہ مالکیوں کا فتویٰ یہی ہو کہ کافر سے زکات وصول کرنا ضروری نہیں ہے ۔

مذہب امامیہ کے قدیم اور جدید علماء کے درمیان مشہور یہی ہے کہ کفار جس طرح اصول دین پر مکلف ہیں اسی طرح فروع دین پر بھی مکلف ہیں ۔ ۵ اور معاصر علماء کا بھی یہی نظریہ ہے اور ان کی نظر میں کافر پر زکات

----------------------------------------------

۱۔شیخ المفید، المقنعہ ، ص /۲۳۹، شیخ طوسی المبسوط ، ج / ۱ ص / ۲۳۴و محقق حلی ، المختصر ، ص / ۵۲۰

۲۔ شہید اول ، الدروس ، ج / ۱ ص / ۲۲۹ ، شہید ثانی ، الروضة البہیة ، ج / ۲ ص / ۱۱۰ ، النجفی ، جواہر الکلام ، ج / ۱۵ ص / ۱۵ ، ہمدانی ، مصباح الفقہیہ ، ج / ۳ ص/ ۲، طباطبائی یزدی ، العروة الوثقی ، ج / ۴ ص / ۵ و ۷ ، سید ابو القاسم خوئی ، الزکاة ، ص / ۱۰ و ۲۰ ، خمینی تحریر الوسیلہ ، ج / ۱ ص / ۳۱۱ و ۳۱۲ و محمد تقی بہجت توضیح المسائل (عربی ) ص / ۳۴۳

۳۔ عبد الرحمن جزیری گزشتہ، ص / ۵۹۱ ، شافعی ، کتاب الام ( بیروت ، دار الفکر ، ۱۴۰۳ ء ھ / ۱۹۸۳ ء ء ) ج / ۲ ص / ۲۹ ، محی الدین نوری ، المجموع فی شرح المہذب ، ( بیروت دار الفکر ) ج / ۵ ص /۳۲۷ و۳۲۸ ، ابن مسعود بدائع الصنایع فی ترتیب الشرایع ، ( بیروت ، دار الکتاب العربی ، ۱۴۰۲ ء ھ / ۱۹۸۲ ء ء ) ج / ۲ ص / ۴ و یوسف قرضاوی ، فقہ الزکاة ( بیروت ، موسسہ الرسالة ، ۱۴۱۲ ء ھ / ۹۱ ۱۹ ء ء) ج / ۱ ص ۹۵

۴۔ابن رشد ، بدایة المجتہد و نھایة المقتصد ،( بیروت ، دار المعرفة ، ۱۴۰۹ ئھ / ۱۹۹۱ ء ء ) ج / ۱ ص / ۲۴۵

۵۔۔محقق حلی ، المعتبر ، ج/ ۳ ص / ۴۹۰، شیخ طوسی ، الخلاف ، ج / ۱ کتاب الزکاة و نجفی ، جواہر الکلام ، ج / ۱۵ ص/ ۶۱۔ ۶۳

واجب ہے مگر ان سے صحیح نہیں ہے اور امام یا نائب امام زبر دستی وصول سکتے ہیں اور اگر تلف کر دیا ہو تو اس کا عوض کافر سے لے سکتے ہیں ۔ ۱

اہل سنت کی جدید فقہ کے مطابق کافر پر زکات واجب نہیں ہے مگر ان کے بعض علماء استدلال کرتے ہیں کہ چوں کہ غیر مسلمان کو معاف کرنا جب کہ وہ حدود اسلام میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس بات کا سبب بنتا ہے کہ در آمد اور ثروت کی تقسیم عدل پر استوار نہ ہو اور غیر مسلمان کے پاس ثروت جمع ہو جائے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ زکات کے مساوی ٹیکس غیر مسلمان پر عائد کیا جائے اور اسلامی ممالک میں مقیم غیر مسلمانوں کی رفاہ کے لئے مصرف کیا جائے ۔۲

مذاہب پنجگانہ اور اہل سنت کی جدید فقہ کے نظریہ کا خلاصہ زکات میں شامل افراد کے سلسلہ میں جدول نمبر ایک میںآخر میں بیان کیا گیا ہے ۔

ب)۔ اموال جن پر زکات واجب ہے

اموال ، مال کی جمع ہے اور اعرابی جن کے درمیان قرآن نازل ہوا ہے کے نزدیک وہ ہر اس چیز کو شامل کئے ہوئے ہے جسے انسان چاہتا ہے اور اس کا مالک بن کر اس کی حفاظت کرتا ہے نتیجہ میں ، اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری ، زراعت ، نخلستان اور سونے چاندی مال سب ہیں ۔

کتاب ” لسان العرب “ میں ہے کہ مال ہر وہ چیز ہے جو ملکیت میں آ سکے مگر یہ کہ بادیہ نشین اس کو حیوانات ( گائے ، بھیڑ بکری ، اونٹ اور گھوڑے و غیرہ پر اطلاق کرتے ہیں اور شہر والے اکثر سونے چاندی پر اطلاق کرتے ہیں جب کہ سب کے سب مال ہیں ۔۳

اہل سنت کے چارو مذاہب کے فقہا مال کی حد کے تعین میں حسب ذیل اختلاف رکھتے ہیں اور یہ اختلاف زکات کی مقدار کی جمع آوری کی کمی و زیادتی میں موثر ہوتا ہے ۔

حنفیوں کے نزدیک مال ہر وہ چیز ہے جسے ملکیت میں لایا جا سکے اور عام طور سے اس سے فائدہ اٹھایا

----------------------------------------------

۱۔ طباطبائی یزدی ، العروة الوثقی ، ج / ۴ ص / ۲۶ و خمینی ، تحریر الوسیلة ، ج / ۱ ص / ۳۱۴

۲۔ Monzer Kahaf , Zakat and obligatory Expenditures in Islam . in LESSONS INISLAMIC ECONOMICS .1918 G Vol 2 p 532

۳۔ابن منصور ، لسان العرب ، باب اللام ، فعل المیم

جا سکے ، اس لحاظ سے ان کے عقیدہ میں مالکیت دو چیزوں سے ثابت ہوتی ہے ۔ ایک امکان ملکیت دوسرے عرفا امکان استفادہ لہٰذا جو چیز بھی زمین وہوا میں ہم اپنے قبضہ میں لے لیں اور مالک بن جائیں نیز نقد پیسے اور دیگر سامان یہ سب کے سب مال ہیں اور اس طرح ہر وہ چیز کہ جو ابھی تک ملکیت میں نہ آئی ہو اور نہ ہی اسفادہ کیا گیا ہو مگر استفادہ کرنا ممکن ہو وہ بھی مال ہے ۔

جیسے سارے مباحات ” دریا کی مچھلیاں ، آسمان کے پرندے اور پہاڑی حیوان جن پر قبضہ کرنا اور استفادہ کرنا ممکن ہو ، اس نظریہ کے مطابق ہر وہ چیز کہ جس پر قبضہ ممکن نہ ہو وہ مال محسوب نہیں ہوگی چاہے استفادہ کے قابل ہی کیوں نہ ہو جیسے ، نور آفتاب اور سورج کی گرمی اسی طرح اگر عرف عام میں اس سے استفادہ نہ کیا جا سکے ہر چند احراز کے قابل ہی کیوں نہ ہو جیسے ایک مٹھی خاک ، ایک قطرہ پانی اور ایک دانہ گندم : اس تعریف کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی بھی چیز مال نہیں ہے مگر یہ کہ وہ مادہ ہو تاکہ اس کی حیازت کی جا سکے اور اپنے قبضہ میں لیا جا سکے ۔ اس بنیاد پر اعیان کے منافع جیسے گھر میں کسونت ، مرکب پر سوار ہونا اور کپڑا پہننا مال محسوب نہیں ہوگا اس لئے کہ ان چیزوں کی حیازت ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اپنے اختیار میں لیا جا سکتا ہے اسی طرح حقوق ۔ جیسے دو دھ پلانا ، حق ولایت اس کے علاوہ دیگر حقوق حنفی مذہب میں مال نہیں ہےں۔ ۱

شافعی ، مالکی ، اور حنفی مذہب کا عقیدہ یہ ہے کہ منافع مال ہیں اس لئے کہ ان کے عقیدہ میں ضروری نہیں ہے کہ مال حیازت کے قابل ہو بلکہ ممکن ہے کہ اصل اور اس سے صادر ہونے والی چیزوں کی حیازت کے بعد منافع کی حیازت کی جائے ، بلا شک منافع سے صادر ہونے والی چیزوں کی حیازت کے بعد منافع بھی حیازت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔اور ان منافع کے مالک دوسروں کو اس سے استفادہ کرنے سے منع کر سکتے ہیں ، قانون گزار اور حقوق داں افراد اسی نظریہ کو اختیار کرتے ہوئے منافع کو مال محسوب کرتے ہیں اسی لئے مولفین حقوق اور ایجاد کی گواہی وغیرہ ان کے نزدیک معتبر ہے ۔۲

فقہا ئے امامیہ نے ہر چند مال کی بڑی وسیع تعریفیں کی ہیں مگر چوں کہ زکات کو صرف نو چیزوں میں واجب قرار دیا ہے اس لئے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف انھیں نو چیزوں کی زکات وصول کی تھی اور بقیہ چیزوں کو معاف کر دیا تھا لہٰذا اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

----------------------------------------------

۱۔یوسف قرضاوی ، فقہ زکات ( بیروت ، موسسہ الرسالة ، ۱۴۱۲ ء ھ) ج / ۱ ص ۱۲۴

۲۔یوسف قرضاوی ، فقہ زکات ( بیروت ، موسسہ الرسالة ، ۱۴۱۲ ء ھ) ج / ۱ ص / ۱۲۵

امامیہ مذہب کے نظریہ کے مطابق جن نو چیزوں پر زکات واجب ہے وہ یہ ہیں ۔ ۱: تین قسم کے حیوانات ( اونٹ ، گائے اور بھیڑ بکری ) ۲: غلات اربعہ ( گیہوں ، جو ، خرما اور کشمش ) ۳: سونا چاندی کے سکے بنا بر قول صحیح تر ۔ ان کے علاوہ دیگر چیزوں میں زکات واجب نہیں ہے بلکہ اکثر فقہا کی نظر میں باقی چیزوں میں زکات مستحب ہے ۔ ۱

مگر ہاں فقہ امامیہ میں خمس کا موضوع بہت ہی وسیع اور بر تر ہے جب کہ فقہائے اہل سنت خمس کو صرف غنائم جنگی میں قرار دیتے ہیں ۔ امامیہ فقہ نے اس موضوع کے تحت غنائم جنگی کے علاوہ خمس کو معدن ، جو مال سمندر میں غوطہ لگا کر نکالا جائے ، مال حلال جو مال حرام میں مخلوط ہو جائے ، وہ زمین جو کافر ذمی مسلمان سے خریدے اور دیگر منافع چاہے تجارتی ہوں یا غیر تجارتی سب میں شامل کیا ہے ۔

سید مرتضیٰ زکات کے نو چیزوں میں منحصر ہونے کا سبب اس طرح بیان کرتے ہیں : ہمارے مذہب کی صحت پر اجماع کے علاوہ جو چیز دلالت کرتی ہے وہ اصل برائت ذمہ ہے یعنی انسان زکات سے بری الذمہ ہو اوریہ ادلہ شرعیہ سے معلوم ہو گا کہ کن چیزوں میں زکات واجب ہے ، جن چیزوں میں فقہ امامیہ نے زکات کو واجب قرار دیا ہے ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور ان چیزوں کے علاوہ پر کوئی قطعی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے ، پس اصل برائت اپنی جگہ باقی ہے جس کی دلیل خدا وند عالم کا قول ہے ، ارشاد ہوتا ہے : ” ولا یسئلکم اموالکم “ یعنی خدا تمھارے اموال میں کوئی حق واجب نہیں کرے گا اس لئے کہ خدا وند عالم لوگوں کے مال میں سے کچھ نہیں چاہتا مگر کسی خاص وجہ سے اور آیت کا ظاہر اموال میں کسی حق کے واجب ہونے سے منع کر رہا ہے اور جو چیزیں اس اصل برائت سے خارج ہوئی ہیں وہ قطعی دلیل ہونے کے سبب خارج ہوئی ہیں ان کے علاوہ باقی چیزیں اسی ظاہر کے ما تحت باقی ہیں ۔ ۲

فقیہ اہل سنت میں جناب ابن حزم نے بھی اسی طرح کا استدلال کرکے زکات کو صرف آٹھ چیزوں میں منحصر جانا ہے وہی آٹھ چیزیں جس کی زکات رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وصول کرتے تھے ” اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری ، گیہوں ، جو ، خرما اور سونا چاندی مگر کشمش کی زکات کے لئے ابن حزم کے نزدیک کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہوئی ہے ۔ ۳

----------------------------------------------

۱۔ شیخ مفید ، مقنعہ ، ص / ۲۳۲ ، شیخ طوسی ، الاقتصاد ، ص / ۲۷۶، النجفی ، جواہر الکلام ، ج / ۱۵ ص / ۶۵ ، ۲۔ طباطبائی یزدی ، العروة الوثقی ، ج / ۴ ص / ۲۸ و امام خمینی ، تحریر الوسیلة ، ج / ۲ ص / ۱۰

۲۔ سید مرتضیٰ ، الانتصار ، چاپ شدہ در سلسلة الینابیع الفقیہہ ، ( بیروت الدار الاسلامیہ ، ۱۴۱۰ ء ھ / ۱۹۹۰ ء ء ) ص / ۷۳

۳۔ ابن حزم اندلسی ، المحلی ( بیروت دار الفکر ) ج / ۵ ص / ۲۰۸

اب ہم مذاہب پنجگانہ اور اہل سنت کے جدید نظریات کو ان اموال کے بارہ میں جن کی دستہ بندی ثروت کے عنوان سے ذیل میںکی گئی ہے بیان کرتے ہیں :وٴ

۱ ) ۔ کھیتی سے ملنے والی ، جس میں غلات اربعہ اور زراعت سے حاصل ہونے والی بقیہ چیزیں شامل ہیں ۔

۲ ) ۔ حیوانی ثروت ، جس میں اونٹ ، گائے اور بھیڑ بکری، چرنے والے گھوڑے شہد اور حیوانات سے حاصل ہونے والی چیزیں شامل ہیں ۔

۳ ) ۔ نقدی ، جس میں سونے چاندی کے سکے ، نوٹ ، سونے چاندی کے زیور اور غیر تزئینی سونا چاندی شامل ہے ۔

۴ ) ۔ تجارتی ثروت ، جس میں تجارتی اموال شامل ہیں ۔

۵ ) ۔ جنگی ثروت ، جس میں مال غنیمت شامل ہے ۔

۶ ) ۔ ثروت مخلوط با حرام جس میں ہر طرح کا حلال مال جو حرام میں مخلوط ہو جائے شامل ہے ۔

۷ ) ۔ معدن ، جس میں خزانہ ، سونے چاندی کی کان اور دیگر کانیں شامل ہیں ۔

۸ ) ۔ دور حاضر کی ثروت ، جس میں مستغلات ( ہر وہ ملکیت جس میں آمدنی ہو ) ، عمارتیں ، زمینی ، ہوائی اور دریائی سواریاں ( جیسے موٹر کار ، ہوائی چہاز اور پانی کے جہاز وغیرہ ) کا رخانے ، کمائی کے منافع اور قرعہ اندازی سے حاصل ہونے والے فائدے و غیرہ شامل ہیں ۔

اول :۔ زراعت کے ذریعہ حاصل ہونے والی ثروت

غلات اربعہ ( جو گہیوں ، کشمش اور خرما ) پر زکات کے وجوب میں اہل سنت کے تمام مذاہب متفق ہیں ان سبھوں کا نظریہ یہ ہے کہ اگر بارش کے پانی سے کھیتی ہوئی ہے تو عُشر۱۰ / فیصد اور اگر سنچائی سے ہوئی ہے تو ۵ فیصد یعنی نصف عُشر زکات واجب ہے ۔

حنفی مذہب کے علاوہ اہل سنت کے سارے مذاہب غلات اربعہ میں حد نصاب کو معتبر جاتے ہیں ، حد نصاب ۵ / وسق ہے اور ہر وسق۶۰ صاع ہے ، جو مجموعا ۹۱۰ کلو گرام کے لگ بھگ ہوتا ہے اس سے کم میں زکات واجب نہیں ہے مگر حنفی مذہب میں اس مقدار سے کم ہو یا زیادہ زکات واجب ہے ۔غلوں اور زراعت کی نوعیت میں ہر مذہب میں اختلاف ہے حنفی کہتے ہیں ، سبزی ، نرکٹ اور لکڑی کے علاوہ زمین سے نکلنے والی تمام چیزوں میں زکات واجب ہے ۔

----------------------------------------------

وٴ ان نظریات کا مقصد جدول نمبر ۲ میں ذکر کیا گیا ہے

مالکی اور شافعی کہتے ہیں زکات ان تمام چیزوں میں واجب ہے جنھیں انسان سال بھر کے خرچہ کے لئے ذخیرہ کرتا ہے جیسے گیہوں ، جو خرما اور کشمش ، حنبلی کہتے ہیں : ہر وہ چیز جو تولی اور وزن کی جائے اس میں زکات

واجب ہے ۔ ۱

لیکن امامیہ کے نظریہ کے مطابق زکات صرف غلات اربعہ ، گیہوں ، جو ، خرما اور کشمش میں حد نصاب تک پہنچنے کے بعد واجب ہے اس کے علاوہ میں واجب نہیں ہے ، ہاں مستحب ہے ۔ ۲

دوم : ۔ حیوانات

انعام ثلاثہ

مالکی مذہب کے علاوہ دیگر تمام مذاہب اس امر پر متفق ہیں کہ سائمہ ( چرنے والے جانور ) اور نصاب کی شرط کے ساتھ تین قسم کے حیوانات میں زکات واجب ہے وہ یہ ہیں ( اونٹ ، گائے ( بھینس بھی شامل ہے ) پھیڑ ( بکری بھی شامل ہے ) مگر مالکی مذہب میں سائمہ ( چرنے ) کی شرط نہیں ہے ، اس نظریہ کے مطابق زکات ان تین قسموں میں واجب ہے چاہے سائمہ ہوں یا غیر سائمہ ۔

سبھی مذاہب اس بات پر متفق القول ہیں کہ گھوڑا ، خچر اور گدھے میں زکات واجب نہیں ہے ، مگر یہ کہ مال التجارة ( تجارت کے مال ) کا جزو قرار پائیں ۔ ۳ ، مگر حنفی مذہب گھوڑے اور گھوڑی میں دو شرط کے ساتھ زکات واجب جانتے ہیں شرط اول سائمہ ہو ( چرنے والے ) شرط دوم نسل بڑھانے کے لئے گلہ کی دیکھ بھال کی

جا رہی ہو ۔ ۴

شہد اور حیوانی محصولات کی زکات

حنفی اور حنبلی مذاہب میں شہد میں ۱۰ فیصد زکات واجب ہے ، مالکی اور شافعی مذہب شہد میں زکات کے

----------------------------------------------

۱۔ عبد الرحمن جزیری ہمان ، ص /۶ ۶۱ و ۶۱۹ ، یوسف قرضاوی ، ہمان ، ص / ۳۴۱ و ۴ ۳۵ ، ابن رشد ، ہمان ، ص / ۲۵۳ و محمد جواد مغنیہ ، الفقہ علی المذاہب الخمسہ ، ( بیروت داالجواد ، ۱۴۰۴ ء ھ / ۱۹۸۴ ء ء ) ص / ۱۷۳ ۔

۲۔شیخ مفید ، مقنعہ ، ص / ۲۸ ، شیخ طوسی النہایة ، ص / ۱۱۴ و ۱۱۵ ، محقق حلی شرائع الاسلام ، ص / ۳۵۷ و ۳۵۸ ، نجفی ، جواہر الکلام ، ج / ۱۵ ص/ ۶۹ ، طباطبائی یزدی ، العروة الوثقیٰ ، ج / ۲ ص/ ۲۸۸ و امام خمینی ، تحریر الوسیلہ ، ج / ۱ ص/ ۳۰۶

۳۔ ابن رشد ، ہمان ، ص / ۲۵۱ ، یوسف قرضاوی ، ہمان ، ص / ۳ ۲۲،محمد جواد مغنیہ،ہمان ، ص / ۱۶۹۔

۴۔محی الدین نووی ، ہمان ، ج / ۵ ص / ۳۳۹

قائل نہیں ہیں۔ قرضاوی تمام مذاہب کے نظریوں کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں شہد مال ہے اور اس کے ذریعہ تجارت کی جاتی ہے لہٰذا اس میں زکات واجب ہے ۔۱

سوم : نقدی ثروت

سونے چاندی کا سکہ اگر حد نصاب تک پہنچ جائے اور ایک سال تک باقی رہ جائے تو تمام مذاہب کے نزدیک اس میں زکات واجب ہے ، چوں کہ اہل سنت کے چارو مذاہب سکہ ہونا شرط نہیں سمجھتے لہٰذا وہ سونے چاندی کے بسکٹ اور ظروف میں بھی زکات کو واجب سمجھتے ہیں لیکن زیور وغیرہ میں صرف حنفی زکات کو واجب جانتے ہیں و مالکی ، شافعی اور حنبلی واجب نہیں جانتے ۔ ۲

فقہائے امامیہ چوں کہ سونے چاندی میں زکات کے واجب ہونے میں سکہ رائج الوقت کو شرط سمجھتے ہیں لہٰذا سونے چاندی کے بسکٹ ، ظروف اور زیور وغیرہ میں زکات کے وجوب کے قائل نہیں ہیں ۔ ۳

کاغذی پیسہ ( نوٹ ) اور دوسرے پیسے

اہل سنت کے چارو مذاہب کے اکثر فقہا رائج روپئے اور پیسے میں زکات کے وجوب کے قائل ہیں اس لئے کہ ان کی نظر میں روپیہ اور نوٹ نے معاملات میں سونے چاندی کی جگہ لے لی ہے ، شافعی کی نگاہ میں نوٹ اور روپئے کے ذریعہ معاملہ کرنا گویا بینک پر حوالہ ( Order) ہے اس حوالہ کی قیمت کے اعتبار سے انسان اس ورق کا مالک بن جاتا ہے جو بینک کے ذمہ قرض ہے اور بینک مدیون ہے اور جب بھی ان اوصاف کے ساتھ مدیون ہوگا تو اس قرض کی زکات فورا ًاور حالا واجب ہے ۔

حنفی فقہا کہتے ہیں کہ کاغذی روپئے قوی قرض کی مانند ہےں اور انھیں فورا چاندی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے پس اس کی زکات بھی فورا واجب ہے ، مالکی فقہا کہتے ہر چند کاغذی روپئے قرض کی سند ہے مگر چوں کہ اسے فورا چاندی میں تبدیل لیا جا سکتا ہے اور معاملات میں اس نے سونے کی جگہ لے لی ہے لہٰذا شرائط کے ہوتے ہوئے اس میں زکات واجب ہے ۔

----------------------------------------------

۱۔ ، یوسف قرضاوی ، ہمان ، ص / ۴۲۵ و ۴۲۷۔

۲۔ ابن رشد ، ہمان ، ص / ۲۵۱ و عبد الرحمن جزیری ہمان ، ص /۶۰۱ و ۶۰۲

۳۔شیخ مفید ، مقنعہ ، چاپ شدہ در : سلسلة الینابیع الفقہیہ ، ( بیروت ، دار التراث ۱۴۱۰ ء ھ / ۱۹۹۰ ء ء ) ج / ۵ ، ص / ۲۷ و ۲۸ ، شیخ طوسی النہایة ، چاپ شدہ در ہمان، ص / ۱۱۴ ، محقق حلی ، شرائع الاسلام ، چاپ شدہ در ہمان ص / ۳۵۶ ، طباطبائی یزدی ، العروة الوثقیٰ ، ( تہران المکتبة العلمیة العلمیة الاسلامیة ، ۱۳۶۳ ) ج / ۲ ص/۶۰۹ و امام خمینی ، تحریر الوسیلہ ، ( موسسہ تنظیم و نژر آثار امام خمینی ، ۱۴۲۱ ئھ / ۱۳۷۹ ء ) ج / ۱ ص/ ۳۰۴

ان لوگوں کے نظریات کی بنیاد پر اسکناس ( نوٹ ) میں یہ قابلیت ہے کہ بغیر کسی مشکل کے اس کا چاندی سے معاوضہ ہو سکتا ہے لہٰذا یہ امر معقول نہیں ہے کہ لوگوں کے پاس نوٹ ہو اور حد نصاب کے برابر چاندی سے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہو مگر اس میں سے زکات نہ نکالیں ۔

نتیجہ میں اہل سنت کے تین مذاہب ، شافعی ، مالکی اور حنفی کے فقہا کا نوٹ اور چک میں وجوب زکات پر اجماع قائم ہے صرف حنبلی مذہب والے اس مسئلہ میں مخالف ہیں ان کا کہنا ہے کہ نوٹ اور کاغذی پول میں زکات واجب نہیں ہے مگر یہ کہ اسے سونے چاندی میں تبدیل کر دیا گیا ہو اور زکات کی دیگر شرطیں بھی اس سونے چاندی میں موجود ہوں ۔ ۱

ان تمام اقوال کی اصل یہ ہے کہ یہ اوراق اور چک ، صادر کرنے والے بینک پر قرض کی سند ہیں اور اس کی قیمت کے برابر فورا چاندی میں بدل جائیں گے نتیجةً ان کی زکات بھی واجب فوری ہے مگر حنبلی کے مذہب کے نزدیک اگر یہ تبدیل کرنا عمل میں آئے تو زکات واجب ہے ورنہ واجب نہیں ۔

ہم سب جانتے ہیں کہ آج کل مرکزی بینک نے نوٹ کو سونے چاندی میں بدلنے کا اقرار نامہ ختم کر دیا ہے اب بدلا نہیں جا سکتا لہٰذا ان سارے فتووٴں کی اصل در ہم برہم ہو جاتی ہے ۔

مگر امامیہ مذہب میں زکات کے نو چیزوں میں منحصر ہونے اور آج کل کے روپئے پیسے کے مسکوک سونا چاندی نہ ہونے کی وجہ سے نوٹ اور چک میں زکات واجب نہیں ہے بلکہ اس مذہب میں خمس منافع کسب کا عنوان ایسا ہے جو ہر طرح کی در آمد کو شامل ہے