Super User

Super User

یورپ کے ایک سکورٹی عہدیدار نے حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل کو اس سال عاشور کے دن قتل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کا انکشاف کیا ہے۔  ایسنا کی رپورٹ کے مطابق ہالینڈ کے اخبار ٹیلیگراف نے  یورپی سکورٹی کے ایک عہدیدار کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسرائیل نے اس سال عاشور کے دن، حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ کو عزاداری کے ایک مراسم میں قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا تاہم اس کا یہ منصوبہ حزب اللہ کی ٹکنالوجی کے سبب ناکام ہوگیا۔  یہ یورپی عہدیدار جو فلسطین کے مقبوضہ علاقے ميں ایک یورپی سفارتخانے میں مشغول ہے کہا کہ اسرائیل کو یہ خبر ملی تھی کہ حسن نصراللہ عاشور کے ایک پروگرام میں تقریر کے لئے شرکت کریں گے اور اسی سبب سے اس نے اس دن اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تھی۔ اس سفارتکار کے بقول صہیونی حکومت ایک میزائیل کے ذریعے سید حسن نصراللہ کو نشانہ بنانا چاہتی تھی لیکن ایک اسرائیلی افسر کے اعتراف کے مطابق، تحریک حزب اللہ کی محافظ یونٹوں کی مخصوص رادار ٹکنالوجی نے ان کے منصوبے کو ناکام بنادیا اس اسرائیلی افسر نے یہ بھی اعتراف کیا کہ حزب اللہ کا رادار سسٹم اسرائیلی طیاروں کی پرواز، اور ان کے  لبنانی حدود میں داخل ہونے کی تشخیص دینے کی توانائی رکھتا ہے۔

 

 

رپورٹ کے مطابق اراکان پروجيکٹ سے موسوم انساني حقوق کے لئے کام کرنے والے ايک گروہ نے اعلان کيا ہے کہ صرف گزشتہ تين ہفتے کے دوران ميانمار کے چودہ ہزار پانچ سو مسلمان  اپنا گھر بار چھوڑ کے  تھائلينڈ داخل ہوئے ہيں جہاں سے وہ مليشيا جائيں گے ۔

واضح رہے کہ ميانمار کي حکومت نے ايسے بل  کي منظوري دي ہے جس کے تحت صرف انہي افراد کو ميانمار ميں رہنے کي اجازت ہوگي جو يہ بات ثابت کرسکيں کہ ان کے اہل خانے  ساٹھ سال سے زيادہ عرصے سے ميانمار ميں مقيم ہيں ۔

ميانمار ميں گذشتہ دوسال کے دوران انتہا پسند بدھسٹوں کے حملوں ميں سيکڑوں مسلمان مارے گئے ہيں اور ہزاروں ديگر اپنا گھر بار چھوڑ نے پر مجبور ہوگئے ہيں۔ ميانمار ميں تقريبا تيرہ لاکھ روہينگيا مسلمان انتہائي کس مپرسي کي حالت ميں زندگي گزار رہے ہيں

 

تحریک حماس نے صیہونی حکومت کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے عوامی فوج بنانے کا اعلان کیا ہے۔ فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق عزالدین قسام کے ایک ترجمان محمد ابو عسکر نے کہا ہے کہ اب تک عوامی فوج میں ڈھائي ہزار افراد نے نام لکھوائے ہیں اور اس کاھدف غزہ کا دفاع اور مسجدالاقصی نیز فلسطین آزاد کرانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیس سے زیادہ عمر کے افراد عوامی فوج میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ واضح رہے حالیہ دنوں میں مسجد الاقصی پر صیہونی حکومت اور اس کے حمایت یافتہ شر پسند صیہونی عناصر کے حملوں میں کافی اضافہ ہوچکا ہے اور اس نے مسجدالاقصی میں فلسطینی جوانوں کے داخلے پر پابندی لگادی ہے۔

 

 

سعودی عرب کے علاقے الشرقیہ کے امیر سعود بن نایف بن عبد العزیز نے الاحساء علاقے میں دھشتگردوں کی طرف سےشب عاشور کو ہوئے حسینی عزاداروں پر حملے میں زخمی افراد کی عیادت کی۔
انہوں نے سعودی عرب کے بعض عہدہ داروں کے ہمراہ ہفوف شہر میں ملک فہد ہسپتال میں زخمی افراد کی عیادت کی اور کہا کہ ملک عبد اللہ آپ لوگوں کی صحت و سلامتی کے لیے دعا گو ہیں۔

سعود بن نایف بن عبد العزیز نے اس واقعے میں شہید ہوئے افراد کے اہل خانہ کی دلداری بھی کی اور کہا کہ اس واقعے کے عاملین کی شناسائی کر کے انہیں عدالت کے کٹیرے میں کھڑا کیا جائے گا تاکہ ان کے بارے میں شرعی حکم صادر ہو سکے۔
واضح رہے کہ شب عاشور کو نامعلوم مسلح افراد نے اس شہر کی المصطفیٰ امام بارگاہ سے مجلس کر کے نکلنے والے افراد پر حملہ کر کے آٹھ افراد کو شہید جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔

 

 

حضرت امام حسین (ع) اپنے خطبے کا آغاز، اپنے جد بزرگوار حضرت رسول خدا (ص) کی ایک حدیث سے فرماتے ہیں ۔
اے لوگو پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا ہے ، ہر وہ مسلمان جو ایسے منھ زور سلطان یا بادشاہ کے بالمقابل قرار پاجائےجو حرام خدا کو حلال کرے اور عہد الہی کو توڑے اور قانون و سنت پیغمبر کی مخالفت کرے اور بندگان خدا کے درمیان معصیت کو رواج دے ، لیکن اس کے رویے اور طرز عمل کا مقابلہ نہ کرے تو خداوند عالم پر واجب ہےکہ اسے بھی اس طاغوتی بادشاہ کے ساتھ جہنم کے شعلوں میں ڈھکیل دے ۔ اے لوگوں آگاہ ہوجاؤ کہ بنی امیہ نے اطاعت پروردگار چھوڑکر اپنےاوپر شیطان کی پیروی واجب کر لی ہے انہوں نے فساد اور تباہی کو رواج دیا ہے اور حدود و قوانین الہی کو دگرگوں کیا ہے اور میں ان بد خواہوں اور دین کو نابود کرنے والوں کے مقابلے میں مسلمان معاشرے کی قیادت کا زیادہ حق رکھتا ہوں اس کے علاوہ تمہارے جو خطوط ہمیں موصول ہوئے وہ اس بات کے آئینہ دار ہیں کہ تم نے میری بیعت کی ہے اور مجھ سے عہدو پیمان کیا ہے کہ مجھے دشمن کے مقابلے میں تنھا نہیں چھوڑوگے ۔ اب اگر تم اپنے اس عہد پر قائم اور وفادار ہوتو تم رستگار وکامیاب ہو۔ میں حسین بن علی (ع) تمہارے رسول کی بیٹی فاطمہ زہرا کادلبند ہوں ۔ میرا وجود مسلمانوں کے وجود سے جڑا ہوا ہے اور تمہارے بچے اور اہل خانہ، ہمارے بچوں اور گھر کے افراد کی مانند ہیں ۔ میں تمہارا ہادی و پیشوا ہوں لیکن اگر تم ایسا نہ کرو اور اپنا عہدو پیمان توڑ دو اور اپنی بیعت پر قائم نہ رہو جیسا کہ تم ماضی میں بھی کرچکے ہو اور اس سے قبل تم نے ہمارے بابا ، بھائی اور چچازاد بھائی مسلم کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے ۔ ۔۔۔ تم وہ لوگ ہو جو نصیب کے مارے ہو اور خود کو تباہ کرلیا ہے اور تم میں سے جو کوئی بھی عہد شکنی کرے اس نے خود اپنا ہی نقصان کیا ہے اور امید ہے کہ خداوند عالم مجھے تم لوگوں سے بے نیاز کردے گا ۔
امام حسین بن علی (ع) کا یہی وہ خطبہ تھا، جسے امام (ع) نے، حر اور ا سکے لشکر کے سپاہیوں کے سامنے ، کہ جس نے امام کا راستہ روک دیا تھا، اتمام حجت کے لئے اور ان کو حق کی جانب بلانے کے لئے ارشاد فرمایا تھا ۔اس خطبے کی چند خصوصیات قابل ذکر ہيں ۔اموی نظام حکومت کی خصوصیات بیان کرنے کے لئے پیغمبر خدا (ص) کے اقوال کا ذکر، امام کی عظمت و منزلت کا بیان ،اپنے قیام اور تحریک کے علل واسباب کا ذکر اورمعاشرے کے افراد کے ساتھ امام کے رابطے کی نوعیت اور اس تحریک کے روشن افق کو بیان کرنا اس خطبے میں پیش کئے جانے والے موضوعات ہیں ۔ 
امام حسین (ع) کا قافلہ، ماہ محرم کی دوسری تاریخ کو کربلا میں وارد ہوتا ہے ۔ اس سرزمین پر امام (ع) اور ان کے خاندان اور اصحاب باوفا کے لئے حالات مزید سخت ودشوار ہوجاتے ہيں دشمن امام (‏ع) اور ان کے بچوں پر پانی بند کردیتے ہیں تاکہ شاید امام اور ان کے ہمراہ اصحاب ، اپنی استقامت کھو بیٹھیں اور ان کے سامنے تسلیم ہوجائیں لیکن ایسے حالات میں کربلا والوں نے ایثار وفداکاری کا ایسا اعلی ترین نمونہ پیش کیا جو رہتی دنیا تک کے لئے نمونۂ عمل بن گيا ۔
امام (‏ع) اچھی طرح جانتےتھے کہ میدان جنگ میں بڑے اور عظیم حادثوں کا متحمل ہونے کے لئے عظیم قوت برداشت کی ضرورت ہے ۔ اسی بناء پر ہر مقام پر اور ہر وقت اپنے ساتھیوں کو ایمان اور یقین کی بنیادیں مستحکم ہونے کی تلقین فرماتے تھے اورشب عاشور ، اصحاب و انصار نے خود کوامام پر قربان کرنے کے لئے آمادہ کرلیا تھا۔ شب عاشور ایسے اضطراب کی شب تھی جس کی مثال نہیں ملتی ۔ اس شب امام حسین (‏ع) نے اپنے اصحاب کوبلایا اور واضح طور پران سے کہا کہ ہماری شہادت کا وقت نزدیک ہے اورمیں تم پر سے اپنی بیعت اٹھائے لیتا ہوں لہذا تم رات کی تاریکی سے استفادہ کرو اور تم میں سے جو بھی کل عاشور کے دن جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دے سکتا اس کے لئے اپنے گھر اور وطن لوٹ جانے کا راستہ کھلا ہوا ہے ۔ یہ تجویز درحقیقت امام حسین (ع) کی جانب سے آخری آزمائش تھی ۔ اور اس آزمائش کا نتیجہ، امام کے ساتھیوں میں جنگ میں شرکت کے لئے جوش وجذبے میں شدت اور حدت کا سبب بنا اور سب نے امام (ع) سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا اور کہا کہ خون کے آخری قطرے تک وہ استقامت کریں گے اور آپ کے ساتھ رہیں گے، اوراس طرح سے اس آزمائش میں سرافراز و کامیاب ہوں گے۔
عاشور کی صبح آئی تو امام (ع) نے نماز صبح کے بعد اپنے اصحاب کے سامنے عظیم خطبہ دیا ایسا خطبہ جو ان کی استقامت اور صبر کا آئینہ دار تھا امام (ع) نے فرمایا اے بزرگ زادوں ، صابر اور پر عزم بنو ۔ موت انسان کے لئے ایک پل اور گذرگاہ سے زیادہ کچھ نہيں ہے کہ جو رنج و مصیبت سے انسان کورہائی دلاکرجنت کی جاوداں اور دائمی نعمتوں کی جانب لے جاتی ہے ۔ تم ميں سے کون یہ نہیں پسند کرے گا کہ جیل سے رہائی پاکر محل اور قصر میں پہنچ جائے جب کہ یہی موت تمہارے دشمن کے لئے قصر اور محل سے جہنم ميں جانے کا باعث بنے گی ۔ اس عقیدے کی جڑ خدا پر اعتماد اور یقین ہے اور یہ چیز صبر اور استقامت کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے ۔ پھرامام (ع) نے اپنے لشکر کو ترتیب دیا اور پھر تیکھی نظروں سے دشمن کے بھاری لشکر کو دیکھا اور اپنا سر خدا سے رازو نیاز کے لئے اٹھایا اور فرمایا " خدایا مصائب و آلام اور سختیوں میں میرا ملجا اور پناہگاہ توہی ہے میں تجھ پر ہی اعتماد کرتا ہوں اور برے اور بدترین و سخت ترین حالات میں میری امید کا مرکز توہی ہے ۔ ان سخت و دشوار حالات میں صرف تجھ ہی سے شکوہ کرسکتا ہوں تو ہی میری مدد کر اور میرے غم کو زائل کردے اور آرام و سکون عطا کر ۔ صبح عاشور کی جانے امام (ع) کی اس دعا میں ، تمام تر صبر و استقامت کا محور خدا پر یقین و اعتمادہے بیشک خدا پر یقین اوراعتماد ، سختیوں کو آسان اور مصائب و آلام میں صبر و تحمل کی قوت عطا کرتا ہے ۔
حضرت امام حسین بن علی (ع) یہ دیکھ رہے تھے کہ دشمن پوری قوت سے جنگ کےلئے آمادہ ہے یہاں تک کہ بچوں تک پانی پہنچنے پر بھی روک لگارہا ہے اور اس بات کا منتظرہے کہ ایک ادنی سا اشارہ ملے تو حملے کا آ‏‏غاز کردے ۔ ایسے حالات میں امام (ع) نہ صرف جنگ کا آ‏غازکرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ چاہتے تھے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے دشمن کی سپاہ کو وعظ و نصیحت کریں تاکہ ایک طرف وہ حق و فضیلت کی راہ کو باطل سے تشخیص دے سکيں تو دوسری طرف کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے درمیان کوئی نادانستہ طورپر امام کا خون بہانے میں شریک ہوجائے اور حقیقت سے آگاہی اور توجہ کے بغیر تباہی اور بدبختی کا شکار ہوجائے ۔ اسی بناء پر امام حسین (ع) اپنے لشکرکو منظم کرنے کے بعد گھوڑے پر سوار ہوئے اور خیموں سے کچھ فاصلے پر چلے گئے اور انتہائی واضح الفاظ میں عمر سعد کے لشکر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ۔ اے لوگوں میری باتیں سنو اور جنگ و خون ریزی میں عجلت سے کام نہ لو تاکہ میں اپنی ذمہ داری کو یعنی تم کو وعظ ونصیحت کرسکوں اور اپنے کربلا آنے کا تمہیں سبب بتادوں اگر تم نے میری بات قبول نہيں کی اور میرے ساتھ انصاف کا راستہ اختیار نہیں کیا تو پھر تم سب ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنی باطل فکر اور فیصلے پر عمل کرو اور پھر مجھے کوئي مہلت نہ دو لیکن بہرحال تم پر حق مخفی نہ رہ جائے ۔ میرا حامی و محافظ وہی خدا ہے کہ جس نے قرآن کو نازل کیا اور وہی بہترین مددگار ہے ۔
یہ ہے ایک امام اور خدا کے نمائندے کی محبت و مہربانی کہ جواپنے خونخوار دشمن کے مقابلےمیں، حساس ترین حالات میں بھی انہیں دعوت حق دینے سے دستبردار نہیں ہوئے ۔ امام (ع) نے روزعاشورا باوجودیکہ موقع نہیں تھا تاہم لوگوں کو وعظ ونصیحت کی اور اپنے راہنما ارشادات سے لوگوں کو حق سے آگاہ فرماتے رہے اور یہ کام آپ پیہم انجام دے رہے تاکہ شاید دشمن راہ راست پر آجائیں ۔ امام (ع) اپنے خطبے میں لشکر عمر سعدکو یہ بتاتے ہیں کہ کوفے اور عمر سعد کے لشکر کے افراد یہ نہ سوچ لیں کہ میں ان خطبوں اور وعظ و نصیحت کے ذریعے کسی ساز باز یا سمجھوتے کی بات کررہا ہوں ۔ نہیں۔ میرا ہدف ومقصد ان خطبوں اور بیانات سے یہ ہےکہ میں تم پر حجت تمام کردوں اور کچھ ایسے حقائق اور مسائل ہیں کہ جنہیں امام کے لئے منصب امامت اور ہدایت و رہبری کے فرائض کے سبب لوگوں کو آگاہ کرنا اور انہیں ان سے باخبر کردینا ضروری تھا.

 

 

ایٹمی انرجی کی بین الاقوامی ایجنسی میں ایران کے نمائندے رضانجفی نے کہا ہے کہ ایران کے بارے میں ایٹمی انرجی ایجنسی کی تفصیلی رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی ایٹمی سرگرمیاں پرامن ہیں۔

رضا نجفی نے آج ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں آئی اے ای اے کے سربراہ یوکیاآمانو کی جانب سے نئی رپورٹ پیش کئے جانے کے بعد ارنا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ نے ایک بار پھر تصدیق کردی ہے کہ ایران کی ہرطرح کی ایٹمی سرگرمیاں پرامن مقاصد کے لئے نگرانی میں جاری رہی ہیں اور ان میں کوئي انحراف نہيں ہے۔

رضا نجفی نےکہا کہ ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ یوکیاآمانو کی رپورٹ کی بنیاد پر ایران کے ایٹمی پروگرام میں کچہ بھی خفیہ نہيں ہے اور ان سرگرمیوں کے سلسلے میں بعض مغربی ممالک کی تشویش مصنوعی ہے۔

ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی میں ایران کے نمائندے نے کہا کہ ایران نے عارضی جنیوا معاہدے کی بنیاد پر بھی تمام رضاکارانہ اقدامات انجام دیئے ہیں اور انجام دے رہا ہے اور آئی اے ای اے نے اس کی تصدیق کی ہے۔

 

 

 

رپورٹ کے مطابق واہگہ بارڈر پر خود کش دھماکے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا عمل بند ہوگیا تھا۔ ان ذرائع کے مطابق  بند ہونے والی دو طرفہ یہ تجارت پھر سے شروع ہو گئی ہے ۔دو نومبرکو واگاہ بارڈر پر خود کش دھماکے کے بعد اس راستے سے دونوں ملکوں کی یہ تجارت بند کر دی گئی تھی۔ تاہم چار روز بعد آج اشیاء کی آمدو رفت کا سلسلہ بحال ہو گیا ہے۔ تاجروں نے واگاہ بارڈر کے ذریعے تجارت کی بحالی کا خیر مقدم کیا ہے، بعض ذرائع‏ نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ دونوں اطراف کے عوام اور تاجر، امن چاہتے ہیں دہشت گردوں کا مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت شروع ہونے سے دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں تجارتی رونق دوبارہ بحال ہوگئی ہے۔

 

 

صیہونی سکیورٹی فورسز مسجد اقصٰی کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوگئیں جس کے نتیجے میں فلسطینی شہریوں نے مزاحمت کی اور صیہونی فورسز کے ساتھ  ہونے والےتصادم میں 20 افراد زخمی ہوگئے۔ صیہونی سکیورٹی فورسز نے مسجد اقصٰی میں داخل ہونے کی کوشش کی، صیہونی فوجیوں نے فلسطینیوں کو قبلہ اول سے دور رکھنے کے لئے ان پر لاٹھی چارج اور اشک آور گیس کی شیلنگ بھی کی۔ صیہونی فوج نے مسجد میں پچاس سال سے کم عمر کے مسلمان مرد و خواتین کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ صیہونی فوج کی اس جارحیت پر جہاں عالمی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے وہیں فلسطینی مسلمانوں نے ایک بار پھر صہیونی فوجیوں کے خلاف کارروائی کی اور مقبوضہ مغربی کنارے میں الخلیل کے نزدیک ایک فلسطینی نے اپنی گاڑی سے ٹکر مار کر تین صیہونی فوجیوں کو زخمی کر دیا، زخمیوں کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے اندر اسرائیلی فوج کے خلاف فلسطینوں کا یہ دوسرا حملہ ہے۔ صیہونی پولیس ترجمان لوبا سمری نے کہا ہے ڈرائیور اپنی گاڑی سے جس پر فلسطینی نمبر پلیٹ نصب تھی، ٹکر مار کر موقع واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گيا۔ اس واقعہ سے چند گھنٹے قبل ہی بیت المقدس میں اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں دو اسرائیلی ہلاک اور 20 دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں ہوئے اس واقعہ کی ذمہ داری فسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے قبول کر لی ہے۔ غزہ میں حماس کے ترجمان فوزی برہوم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ وین حملہ مسجد الاقصی کے خلاف صہیونی جرائم کے ردعمل میں کیا گیا ہے۔

ہمارے ساتھی نے اس موضوع پر ہندوستان کے معروف اہلسنت عالم دین مفتی عبدالباطن سے گفتگو کی اور ان سے پہلے یہ جاننا چاہا کہ مسلمانوں کے قبلۂ اول بیت المقدس اور اسی طرح مظلوم فلسطینیوں پر یہ کوئی پہلا حملہ نہیں ہے بلکہ اس قسم کے حملے اس سے قبل بھی ہوتے رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں اس قسم کے حملے کس مقصد کے تحت ہو رہے ہیں؟ اس پر ان کا کہنا تھا۔

مفتی عبدالباطن کا انٹرویو سننےکے لیے نیچے میڈیا پلیئر پر کلک کیجیے۔

قدس کی جابر اور غاصب صیہونی حکومت  کی جانب سے مسجد الاقصی پر حملے اور 20 نمازیوں کو زخمی کرنے کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے اور صہیونی حکومت کے ہاتھوں مسجد الاقصی کے خلاف توہین آمیز اقدامات جاری رہنے پر اردن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس غاصب حکومت کی شکایت کی ہے۔ اردن نے کل ایک مراسلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ اراکین سےمطالبہ کیا ہے کہ وہ مسجد الاقصی پر صہیونی حکومت کے حملے جاری رہنے کے سبب، اس مسجد کو پہنچنے والے نقصان کی بابت اس حکومت کا مواخذہ کریں۔اردن نے اس مراسلے ميں کہا ہے کہ مسجد الاقصی پر اسرائیل کے حملوں کو بند کرنے کے لئے وہ دیگر قانونی اقدامات کریگا۔

اس سے قبل مسجد الاقصی پر صیہونیوں کے مسلسل حملوں پر احتجاج کرتے ہوئے اردن نے تل ابیب سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلا لیا تھا۔ اقوام متحدہ میں اردن کے سفیر کا کہنا تھا کہ اردن نے یہ اقدام بغیر کسی تعصب کے کیا ہے اور حرم شریف پر اسرائیلی حملوں کے خلاف وہ ہر طرح کی قانونی کارروائیاں کرنے کرنے کے لیے تیار ہے جبکہ اقوام متحدہ میں فلسطینی مندوب ریاض منصور نے مسجد الاقصی کے خلاف اسرائیلی حکومت کی کارروائی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کو اسرائیل کی اشتعال انگیزیوں کو رکوانے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہيئں ۔

ہر چند کہ مسلمانوں کا قبلۂ اول خطرے میں ہے لیکن اس قسم کے حملے اور دھمکیاں اسرائیل کے خوفزدہ ہونے کا واضح ثبوت ہیں اور خطے میں جاری صیہونی اور تکفیری سازش کا انجام شکست اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔

غاصب صہیونی حکومت کی جانب سے مسجد الاقصی کی توہین پر مبنی حالیہ اقدامات کی وجہ سے آج مسلمانوں کا قبلۂ اول حقیقی خطرے سے دوچار ہے۔ آج اس مقدس مقام کو حقیقی اور سنگین خطرہ لاحق ہے اور اس کا دفاع سب کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا قبلہ اول نہ فقط مکمل طور پر نابود ہونے کے خطرے سے دوچار ہو چکا ہے بلکہ اس پر قبضہ کرنے کی سازش پر بھی عمل ہو رہا ہے۔ ان تمام اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت قبلہ اول سے عالم اسلام کی غفلت سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے اور اپنی دیرینہ آرزو یعنی مسجد الاقصٰی کی جگہ یہودی عبادت گاہ کی تعمیر کو پورا کرنے کے درپے ہے۔ 

 البتہ اسرائیلی حکام کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کا سبب اسرائیل کا طاقتور ہونا نہیں بلکہ اس کا خوفزدہ ہونا ہےاس لئے کہ اسرائیلی حکام درحقیقت اپنی آرزووں پر پانی پھر جانے اور اپنے خوف پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام خیال کرتے ہیں کہ خطے کے موجودہ حالات نے اسلامی مزاحمت کو کمزور کر دیا ہے اور اسرائیل کے خلاف اس کی فوجی آمادگی کم ہوگئی ہے جو اس کی بھول ہے اس لئے کہ 20 نمازیوں کو زخمی کرنے کے واقعہ پر اسلامی مزاحمت کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا اور 2 صیہونیوں کو ہلاک کیا گیا اس سے بخوبی اسلامی مزاحمت کی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ البتہ اس درمیان ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ صرف سامراجی منصوبہ بندی، ڈالرز اور امریکی اسلحہ نے ہی ملت کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی بلکہ کچھ مسلم ممالک خاص طور سے سعودی عرب بھی براہ راست اس امریکی منصوبہ بندی کا باقاعدہ حصہ بن کر عالم اسلام کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔

اگر اسلامی ممالک کے حکمران ذاتی مفادات اور سامراجی خوشنودی سے بالاتر ہوکر بیت المقدس کی آزادی کے لیے لائحہ عمل پیش کریں تو کوئی شک نہیں کہ نہ صرف دنیائے اسلام میں ان کی عزت و پذیرائی میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ اللہ اور اس کے رسول (ص) کی بارگاہ میں سرخرو ہونگے اور اس وقت عالم اسلام کی جو صورتحال ہے وہ اس طرح نہ ہوتی۔ اس وقت افسوس ناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی عصمتیں لٹ رہی ہیں، مسلم نسل کشی ہر سمت جاری ہے، شیطانی قوتوں کے قیدخانے مسلم نوجوانوں اور خواتین سے بھرے ہوئے ہیں۔ عراق، بحرین، شام، برما، افغانستان اور فلسطین میں سامراجی طاقتیں مسلمانوں کے قتل و غارت کو فروغ دے رہی ہیں، دنیا بھر میں مسلمانوں کے مقدسات غیر محفوظ ہیں، قرآن کریم کی بے حرمتی عام ہوگئی ہے، لیکن ان سب چیزوں کے باوجود مسلمان لا تعلق بیٹھا ہوا ہے ۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی برسوں کی خاموشی کو توڑتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی کے لئے عوام کو آمادہ کریں۔ قلم کاروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ مظلوم فلسطینی عوام کے حق میں اور استعمار و استکبار کے خلاف اپنے قلم کو جنبش دیں، میڈیا سے وابستہ افراد پر لازم ہے کہ وہ اپنی روایتی روش بدل کر قبلہ اول کی آزادی میں اپنا کردار ادا کریں، اگر معاشرے کے ہر ایک فرد نے اپنی ذمہ داری نبھائی تو وہ دن دور نہیں کہ جب فلسطیبن کی آزادی کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔

 

 

رپورٹ کے مطابق ہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ سید احمد خاتمی کی امامت میں ادا کی گئی۔ خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران عالمی سامراج کی توسیع پسندی کا تن تنہا مقابلہ کررہا ہے۔ 
آیت اللہ سید احمد خاتمی نے امریکی صدر کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران پابندیوں کی وجہ سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوا ہے کہا کہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی مذاکرات سے سب پر ثابت ہوگيا ہے کہ امریکہ پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ 
خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ امریکہ کی قانونی حیثیت کو زوال آرہا ہے اور ایران کے ایٹمی معاملے کے حل کے بعد بھی امریکہ کے ساتھ ایران کے اختلافات جاری رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ عالمی رائے عامہ امریکہ کی جانب سے  بچوں کی قاتل صیہونی حکومت کے حق میں حمایت، دہشتگرد گروہ داعش کو جنم دینے کے اقدام اور شام میں سرگرم عمل دہشگردوں کو ہتھیار فراہم جیسے اقدامات کبھی نہیں بھولے گي۔ 
آیت اللہ سید احمد خاتمی نے سعودی عرب کے مشرقی علاقے الاحساء میں عزاداران حسینی پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ  سعودی عرب میں عزاداران امام حسین علیہ السلام پر حملے وہابی فکر کا نتیجہ ہیں۔ خطیب جمعہ تہران نے بحرین میں عزاداران امام حسین پر آل خلیفہ کے حملوں کو علاقے کے اہم مسائل میں شمار کیا اور کہا کہ بحرین میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود آل خلیفہ کے کارندے عزاداروں پرحملے کررہے ہیں اور یہ ان کا معمول بن گيا ہے۔ 
خطیب جمعہ تہران نے آل خلیفہ کو نصحیت کی کہ یمن کے حالات سے عبرت پکڑے اور جان لے کہ ملت بحرین کے خلاف تشدد و ظلم سے وہ سرنگوں ہوجائے گي۔ انہوں نے فلسطین میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں مسجد الاقصی پر حملوں کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت جیسے سرطانی پھوڑے کے خاتمے کا واحد راستہ وہی ہے جو امام خمینی نے فرمایا ہے کہ صیہونی حکومت کو صفحہ ہستی سے محو کردیا جائے۔

 

دنیا کا معروف عیسائی مورخ اور محقق ’’جارج سمعانی جردق‘‘(George Sama'ani Jrdaq) جسے امام علی کا عاشق کہا جاتا تھا دنیا سے چل بسا ہے۔
المیادین ٹی وی چینل نے اس شخصیت کے بارے میں بتایا: جرج جردق نے اپنی زندگی کے چالیس سال کائنات کی عظیم ترین شخصیت مولی الموحدین امام المتقین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں تحقیق اور مطالعے میں صرف کئے۔
لبنان کے رہنے والے عیسائی محقق نے چالیس سال امام علی علیہ السلام کے بارے میں تحقیقات انجام دینے کے بعد ’’ علی اور حقوق بشر‘‘ ، ’’علی اور عربی قوم پرستی‘‘، ’’علی اور انسانی عدالت کی آواز‘‘، ’’علی اور فرانس کا انقلاب‘‘، اور’’ علی اور سقراط‘‘ کے عناوین سے کتابیں لکھیں۔
انہوں نے اپنی ایک کتاب میں امام علی علیہ السلام کے بارے میں لکھنے کے حوالے سے یوں بیان کیا ہے:’’ مصر اور خلیج فارس کے ممالک کے لوگوں نے مجھے تجویز دی کہ میں عمر اور دوسروں کے بارے میں کچھ لکھوں لیکن میں نے قبول نہیں کیا۔ نہ اس لیے کہ میں یہ کہنا چاہوں کہ عمر اور دوسرے افراد برے ہیں، بلکہ میں نے علی علیہ السلام کے بعد کسی اور کو اس قابل نہیں سمجھا کہ اس کے بارے میں کچھ لکھوں اس لیے میں نے یہ عہد کر لیا کہ حضرت علی کے علاوہ کسی کے بارے میں کچھ نہ لکھوں‘‘۔