پشاور سے التنف اڈے تک

Rate this item
(0 votes)
پشاور سے التنف اڈے تک

پاکستان کے معروف اخبار جنگ نے اپنے ادارئیے میں لکھا ہے کہ سانحہ پشاور کی جو تفصیلات اب تک سامنے آئی ہیں، ان سے واضح ہے کہ یہ کارروائی عین اسی طریق کار کے مطابق انجام دی گئی، جو بالعموم مذہبی بنیادوں پر قائم دہشت گرد تنظیموں کے مختلف دھڑے ماضی میں اختیار کیا کرتے تھے۔ عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ سیاہ لباس میں ملبوس بمبار نے پہلے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی، پھر منبر کے سامنے آکر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکے میں 5 سے 6 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا، جبکہ دھماکے سے متعلق کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ وقوعہ سے ڈیڑھ سو کے قریب بال بیئرنگ بھی ملے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے۔ اس بات کا درست ہونا خاصا قرینِ قیاس ہے، کیونکہ افغانستان میں بھی طالبان حکومت کے قیام کے بعد داعش کی جانب سے دہشت گردی کی کئی بڑی کارروائیاں کی جا چکی ہیں۔ داعش کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ ایک پُراسرار مقاصد کی حامل مسلح تنظیم ہے، عالمی تکفیری دہشت گرد تنظیم داعش نے پشاور حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اور ان کی سائٹ پر اس حوالے سے باقاعدہ رسمی بیان جاری ہوا ہے۔

عجیب اتفاق ہے یا اس کے پیچھے کوئی سربستہ راز ہیں کہ جس روز پشاور میں یہ دلخراش سانحہ ہوا، اسی دن روس کے خفیہ ادارے نے ایک اہم خبر لیک کی۔ روس کی غیر ملکی انٹیلی جنس سروس نے جمعے کے روز ایک بیان میں کہا کہ امریکہ شام میں التنف اڈے پر داعش کے دہشت گردوں کو تربیت دے رہا ہے، تاکہ انہیں یوکرین بھیجا جا سکے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شام میں امریکہ کے زیر کنٹرول التنف اڈے میں داعش سے وابستہ دہشت گردوں کی تیاری اور تربیت کو یوکرین منتقل کرنے اور مشرقی یوکرین (ڈونباس) میں استعمال کرنے کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ 2021ء کے آخر میں، امریکیوں نے روس اور روس کی آزاد ریاستوں سے داعش کے درجنوں دہشت گردوں کو رہا کیا اور انہیں امریکہ کے زیر کنٹرول التنف اڈے پر بھیج دیا، جہاں وہ تخریب کاری کی کارروائیوں کی تربیت سمیت خصوصی کارروائیاں کریں گے۔

"روسی انٹیلی جنس سروس نے کہا ہے ان دہشت گردوں کو حصوصی طور پر یوکرین کے لئے تیار کیا جا رہا ہے اور ان کی توجہ ڈونیٹسک کے علاقے پر ہے۔" بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی اور امریکی مسلح افواج کی اسپیشل آپریشنز کمانڈ مغربی ایشیاء اور افریقی ممالک میں داعش کے نئے یونٹس بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہیں نیٹو انٹیلی جنس سروسز کے تعاون سے یوکرین منتقل کیا جانا ہے۔" "پولینڈ کے ذریعے یوکرین میں تخریب کاری اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شرکت داعش کے دہشت گردوں کے لیے نیا امریکی پروگرام ہے۔"

امریکہ کی طرف سے داعش سمیت تکفیری دہشت گردوں کی شام اور دیگر جگہوں سے یوکرین میں تربیت اور منتقلی کے بارے میں روس کا انتباہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنے مزموم مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردوں کی حمایت اور ہتھیاروں کے استعمال کے اپنے سابقہ ​​طرز عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سے پہلے امریکہ نے 2011ء میں شام میں بدامنی کے بعد دہشت گرد گروہوں کی حمایت اور مسلح کرنے کی پالیسی پر براہ راست عمل کیا تھا، جس کا مقصد شام کی جائز قانونی حکومت کا تختہ الٹنا اور مزاحمت کے محور کو کمزور کرنا تھا۔ جہاں تک عراق کا تعلق ہے، واشنگٹن نے وہاں بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا اور اب بھی حشد الشعبی نے بار بار داعش کے لیے امریکی حمایت اور اس کی جگہ کی منتقلی کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

افغانستان کے معاملے میں، واشنگٹن نے ملک چھوڑنے سے پہلے اسی عمل کو دہرایا اور اپنے حریف اور افغانستان کے پڑوسی ملکوں پر حملہ کرنے کے لیے داعش کے دہشت گردوں کی حمایت کی۔ درحقیقت امریکہ کی عمومی پالیسی یہ ہے کہ دہشت گردوں کو اپنے دشمنوں پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اب یہ پہلا موقع ہے کہ جب براعظم یورپ میں روسی افواج اور ڈونیٹسک اور لوہانسک ملیشیا سے لڑنے کے لیے مشرقی یوکرین کے التنف اڈے پر تربیت یافتہ داعش دہشت گردوں کو بھیج کر ایسا کیا گیا ہے۔ بلاشبہ اس میں امریکہ اکیلا نہیں ہے اور نیٹو کا ایک اور رکن ترکی، جو پہلے تکفیری دہشت گردوں کو لیبیا اور قره باغ بھیجنے میں ایسے ہی تجربات کا حامل تھا، اب دہشت گردوں کو یوکرین بھیجنے کے درپے ہے۔
 
شام کے اسٹریٹجک تجزیہ کار سعید فارس السعید نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ ترکی کی انٹیلی جنس سروس (MIT) کی سرپرستی میں سینکڑوں دہشت گرد یوکرین میں داخل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ فارس السعید نے کہا کہ شام کے صوبے ادلب میں موجود 2500 دہشت گرد روس کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں۔ ترک انٹیلی جنس سروس ان دہشت گردوں کی پولینڈ اور پھر یوکرین منتقلی کی نگرانی کرے گی اور ان دہشت گردوں میں سے زیادہ تر کے پاس شامی، عرب یا چیچن شہریت ہے۔ ترکی دہشت گردوں کے پولینڈ اور وہاں سے یوکرین منتقل کرنے کے لیے ایک مثالی ملک ہے۔

اس طرح ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی جنہوں نے دہشت گردی کے معاملے پر ہمیشہ دوہرا معیار اپنایا ہے اور اپنے مفادات میں جہاں کہیں دہشت گردوں کو تقویت دی ہے، اب یورپ کے دل میں بھی ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یقیناً اس بار روس اور یوکرائن میں یہ کھیل کھیلا جائیگا۔ شام اور عراق میں تکفیری دہشت گردوں کے ماضی کے تجربات اور جرائم بتاتے ہیں کہ انہوں نے جنگ میں کسی بھی اخلاقی اور انسانی معیار کی کبھی پاسداری نہیں کی اور یقیناً اس بار دنیا یوکرین میں ان کے جرائم کا مشاہدہ کرے گی۔ پشاور کے واقعے اور روسی خفیہ ادارے کی رپورٹ دونوں کو ساتھ رکھ کر غور و خوض کیا جائے تو امریکی سائے میں انجام پانے والے بہت سے اقدامات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

Read 382 times