یمن جنگ، انسانی حقوق کی رپورٹس اور عالمی بے حسی

Rate this item
(0 votes)
یمن جنگ، انسانی حقوق کی رپورٹس اور عالمی بے حسی

یمن کے خلاف آل سعود کی سربراہی میں عرب اتحاد کی جارحیت کو آٹھواں سال شروع ہو چکا ہے۔ اگرچہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے یمنی عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی کے بارے میں بے شمار رپورٹس شائع کی ہیں لیکن عالمی سطح پر شدید بے حسی طاری ہے اور امریکہ، مغرب اور مغرب نواز اسلامی ممالک نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں بچوں اور خواتین کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ اقوام متحدہ سے وابستہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یمن میں شدید غذائی قلت پائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں 1 کروڑ 74 لاکھ شہریوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے جبکہ سال کے آخر تک یہ تعداد 1 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔
 
دوسری طرف عالمی برادری نے یمن کی صورتحال پر آنکھیں موند رکھی ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف جارح سعودی اتحاد کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی آشیرباد حاصل ہے بلکہ یہ طاقتیں اس جارحیت میں برابر کی شریک ہیں۔ یمنی عوام کو درپیش انتہائی مشکل حالات کے بارے میں غذا اور پانی کے عالمی اداروں "فا" اور "یونیسف" نے بھی رپورٹس جاری کی ہیں جس کے بعد برطانوی وزیراعظم بوریس جانسن نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ ان کا یہ دورہ ایسے وقت انجام پایا جب کچھ ہی دن پہلے ایک ہی دن میں 81 مخالفین کو دہشت گرد قرار دے کر ان کی گردنیں اڑائی جا چکی تھیں۔ اس کے باوجود خود کو انسانی حقوق کا علمبردار ظاہر کرنے والے مغربی ممالک خاص طور پر برطانیہ کی جانب سے ہلکا سا احتجاج بھی نہیں دیکھا گیا۔
 
برطانیہ اور سعودی عرب کے درمیان ہمیشہ سے انتہائی قریبی تعلقات برقرار رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ برطانیہ سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، لہذا آل سعود کے جنگی جرائم سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے اسے اسلحہ کی فروخت جاری رکھنے کو باہمی اتحاد کی مضبوطی تصور کیا جاتا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چند ماہ کے دوران لندن نے 18 ارب پاونڈ سے زیادہ سعودی عرب کو اسلحہ بیچا ہے۔ آج نہ صرف یمنی عوام کی مدد اور حمایت نہیں کی جا رہی بلکہ مختلف بہانوں سے وہاں انجام پانے والے سعودی جنگی جرائم پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ سعودی عرب عالمی اداروں کو بھاری رشوت دے کر ان کا منہ بند کر دیتا ہے اور تسلی سے یمنی عوام کی نسل کشی میں مصروف ہے۔
 
یمن جنگ میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ممالک میں سے ایک امریکہ ہے۔ امریکہ، فرانس اور جرمنی واضح طور پر متضاد رویہ اپناتے ہوئے ایک طرف تو انسانی حقوق کے دفاع کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف عالمی سطح پر اسلحہ فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔ اسٹاک ہوم میں واقع تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ امریکہ کی جانب سے فروخت ہونے والے اسلحہ کا ایک چوتھائی حصہ سعودی عرب کے پاس پہنچتا ہے جس سے وہ یمنی عوام کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ نے ایک طرف یمن پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور حتی غذائی مواد اور ادویہ جات کی ترسیل بھی روک رکھی ہے جبکہ دوسری طرف انجلینا جولی جیسے فنکار بھیج کر خود کو یمنی عوام کا نجات دہندہ ظاہر کرتا ہے۔
 
انسانی حقوق کے عالمی ادارے بارہا یمن کے بارے میں وارننگ دے چکے ہیں کہ وہاں موجود انسانی بحران کی شدت ناقابل تصور ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گاتریش صرف اظہار افسوس پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور یمنی عوام کا محاصرہ توڑنے کیلئے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیتے۔ یمن سے متعلق اقوام متحدہ کی کوتاہی اس قدر شدید ہے کہ خود مغربی شخصیات نے بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق خصوصی رپورٹر اور پرنسٹن یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر رچرڈ فالک کہتے ہیں: "اقوام متحدہ خود بھی ایک سیاسی کھلاڑی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ امریکہ جیسے ممالک اپنے سیاسی مقام کے ذریعے اقوام متحدہ میں لابیاں بنا کر رکھتے ہیں اور اس کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ لہذا وہ یمن کے بارے میں موثر فیصلہ انجام دینے سے قاصر ہے۔"
 
آج یمنی عوام کی قتل و غارت کو سات سال مکمل ہو چکے ہیں۔ عالمی برادری کو اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ جو اسلحہ دن رات یمنی عوام کے خلاف بروئے کار لایا جا رہا ہے وہ آل سعود رژیم نے کن ممالک سے حاصل کیا ہے؟ اور کیوں اقوام متحدہ اور خاص طور پر سلامتی کونسل جیسے عالمی ادارے اس بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہیں؟ اگر عالمی برادری یمن کے مسئلے پر منصفانہ متفقہ موقف اختیار نہیں کرتی تو اس کے نتیجے میں وہاں قحط اور غذائی قلت کے باعث مزید انسانی جانیں ضائع ہونے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ یوکرین کی جنگ بھی یمن جنگ پر یوں اثرانداز ہو رہی ہے کہ جارح سعودی اتحاد عالمی میڈیا کی توجہ تقسیم ہونے کا غلط فائدہ اٹھا کر یمن میں جنگی جرائم جاری رکھے ہوئے ہے۔

Read 408 times