یکم ذیقعدہ یوم ولادت خواہر امام رضا علیہ السلام

Rate this item
(0 votes)
یکم ذیقعدہ یوم ولادت خواہر امام رضا علیہ السلام
 ایران میں شاہ خراسان حضرت امام رضا علیہ السلام کے مزار کے علاوہ ایک اور معروف زیارتگاہ انکی بہن حضرت معصومہ قم کا مزار ہے جو ایرانی شہر قم میں واقع ہے اور جہاں ہر سال لاکھوں لوگ زیارت کیے جاتے ہیں، یکم ذیعقدہ کو انکی ولادت کا دن ہے اس مناسبت سے مختصر تعارف پیش خدمت ہے:
مختصر تعارف حضرت معصومہ ع
ولادت
جناب معصومہ کی ولادت پہلی ذیقعدہ ۱۷۳ ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں ہوئی
القاب
مصومہ، طاہرہ، حمیدہ، رشیدہ، تقیہ، نقیہ، رضیہ، مرضیہ، سیدہ، اور اخت الرضا (یعنی امام رضا کی بہن) آپ کے القاب ہیں
کاتوزیان، انوار المشعشعین، ج۱ ، ص۲۱۱.
 اور آپ کے زیارت نامے میں آپ کے دو لقب صدیقہ اور سیدۃ النساء العالمین کا ذکر بھی ہے.
خوانساری، زبدة التصانیف، ج۶، ص۱۵۹
آپ کا مشہور لقب معصومہ ہے۔ یہ نام امام علی بن موسی الرضا(ع) کی اس حدیث سے اخذ کیا گیا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: جس کسی نے قم میں معصومہ کی زیارت کی، گویا اس نے میری زیارت کی.اسی طرح خود آپ نے اپنا تعارف معصومہ اور امام رضا(ع) کی بہن کے نام سے کروایا ہے۔
حضرت معصومہ ع کی زیارت و حضرت زہرا ع کی زیارت کا واقعہ
 آیت اللہ مرعشی کے والد گرامی بہت اشتیاق رکھتے تھے کہ جس طریقے سے ممکن ہو حضرت زہراء(س) کی قبر مطہر سے آگاہ ہو سکیں، اس مقصد کے لئے آپ نے ایک مجرب چلہ شروع کیا، اور چالیس رات تک اس مخصوص ذکر کا ورد کیا۔ اس امید پر کہ شاید خداوند کسی طریقے سے ان کو حضرت زہراء کی قبر مبارک سے آگاہ فرمائے، چالیسویں رات جب آپ ذکر اور توسل سے فارغ ہو کر آرام کر رہے تھے تو عالم خواب میں امام باقر(ع) یا امام صادق(ع) کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
امام(ع) نے ان سے فرمایا: علیک بکریمة اھل البیت کریمہ اہل بیت کے حضور میں جاؤ۔ آپ نے سوچا کہ کریمہ اہل بیت سے مراد حضرت زہراء(س)ہیں، اس لئے کہا: میں نے یہ ختم اسی لئے کیا ہے کہ آپ کی قبر مبارک کا نشان مل سکے تا کہ میں آپ کی زیارت سے مشرف ہو سکوں. امام(ع) نے فرمایا: میری مراد حضرت معصومہ(س) کی قبر مبارک ہے جو قم میں ہے۔ جب نیند سے بیدار ہوئے تو سفر کی تیاری کا ارادہ کیا اور حضرت معصومہ(س) کی زیارت کے لئے قم کی طرف روانہ ہوئے۔ کریمہ اہل بیت نامی کتاب کے مولف رقمطراز ہیں :آیۃ اللہ مرعشی (رہ) نے اس واقعے کو کئی بار مؤلف کے لئے بیان فرمایا ہے . . .
 
سفر قم
 
تاریخ قم کے مؤلف نے یوں لکھا ہے: سنہ200 ہجری میں مامون عباسی نے امام علی بن موسی الرضا(ع) کو مدینے سے "مرو" بلایا۔ مامون کا اصلی مقصد امام(ع) کو اپنے نزدیک رکھ کر ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا تھا لیکن اس نے افکار عمومی میں یہ مشہور کرایا کہ مامون نے امام رضا(ع) کو اپنی ولایت عہدی(جانشینی) کیلئے بلایا ہے۔ سنہ 201 ہجری میں آپ کی بہن حضرت معصومہ نے اپنے بھائی کے دیدار کی خاطر "مرو" کا سفر کیا. کہا جاتا ہے کہ فاطمہ معصومہ(س) نے اپںے بھائی کا خط دریافت کرنے کے بعد خود کو سفر کے لئے تیار کیا۔ اس سفر میں حضرت معصومہ نے اپنے خاندان اور قریبی رشتہ داروں کے ایک قافلے کے ساتھ ایران کی جانب سفر کیا۔ جب ساوہ کے مقام پر پہنچیں تو اہل بیت کے دشمنوں نے اس کاروان کے اوپر حملہ کیا ان کے ساتھ لڑائی میں آپ کے سب بھائی اور بھتیجے شہید ہو گئے
جب آپ کی بیماری کی خبر آل سعد تک پہنچی تو انہوں نے ارادہ کیا کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے قم تشریف لانے کی درخواست کریں۔ لیکن موسی بن خزرج جو کہامام رضا(ع) کے اصحاب میں سے تھے، نے اس کام میں پہل کی اور فاطمہ معصومہ کی خدمت میں جا کر آپ کے اونٹ کی مہار پکڑی، آپ کو قم کی طرف لے آئے اور اپنے گھر میں ٹھرایا۔ آخرین منابع کے مطابق آپ 23 ربیع الاول کو قم میں وارد ہوئیں. فاطمہ معصومہ 17 دن اس گھر میں عبادت اور راز و نیاز میں مشغول رہیں. آپ کی عبادت گاہ موسی بن خزرج کا گھر تھا جو کہ اب ستیہ یا بیت النورکے نام سے مشہور ہے۔ 
 
نقل ہوا ہے کہ جب قبر تیار کی گئی اور مشورہ ہو رہا تھا کہ کون قبر میں اترے اور سب نے ایک بوڑھے شخص جس کا نام قادر تھا اس کو انتخاب کیا اور کسی کو اس کی طرف بھیجا ایسے میں اچانک دو نقاب پوش آئے جنہوں نے آ کر آپکو دفن کیا اور دفن کرنے کے بعد کسی سے بات کیے بغیر گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے.
بحارالانوار، ج48، ص290
علماء نے کہا ہے کہ احتمال ہے کہ وہ در نقاب پوش امام رضا (ع) اور امام جواد (ع) تھے۔
اس وقت موسی بن خزرج نے آپکی قبر مبارک پر نشان بنایا اور سنہ 256 میں امام جواد(ع) کی بیٹی اپنی پھوپھی کی زیارت کرنے کے لیے قم آئی تو انہوں نے آپ کی قبر پر مزار بنوایا.
منتہی الآمال، ج2، ص379.
 
تاریخ شھادت
قدیمی کتابوں میں آپ کی وفات کی کوئی تاریخ ذکر نہیں ہوئی ہے لیکن آخری مآخذ کے مطابق آپ کی وفات 10 ربیع الثانی سنہ 201 ہجری قمری، 28 سال کی عمر میں ہوئی۔/
انجم فروزان، ص۵۸؛ گنجینہ آثار قم، ج۱، ص۳۸۶
Read 376 times