یمنی مسلح افواج نے غزہ کے عوام کی حمایت جاری رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لائی ہے اور اب اسرائیل کی فضائی ناکہ بندی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہے۔ بلاشبہ یمن نے اپنی فوجی حکمت عملی تبدیلی کرکے اسرائیلی حکومت پر غیر معمولی دباؤ ڈالا ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک یمن نے، مزاحمت کے اہم حامی کے طور پر، اسرائیلی حکومت کے خلاف سمندری اور فضائی حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے۔ انصاراللہ نے اکتوبر 2023ء میں غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد بحیرہ احمر اور خلیج عدن کے ساتھ ساتھ اسرائیلی علاقے میں بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔ جنوری 2025ء میں غزہ پٹی میں جنگ بندی کے نفاذ کے بعد انہوں نے حملے روک دیئے تھے۔
اسرائیل نے مارچ کے اوائل میں غزہ کے لیے تمام رسد منقطع کر دی اور 18 مارچ کو جنگ بندی کو ختم کر دیا اور غزہ کی پٹی پر حملے دوبارہ شروع کر دیئے۔ اس کے بعد حوثیوں نے بھی اسرائیلی بحری جہازوں کو دوبارہ نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ بحری ناکہ بندی کے بعد صنعا نے اب بین گوریون سمیت اہم ہوائی اڈوں کو نشانہ بناتے ہوئے فضائی ناکہ بندی کا اعلان کیا ہے۔ یمن میں انصار اللہ کے اہم رہنماء عبدالسلام نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ یمنی مسلح افواج کی طرف سے اسرائیلی حکومت کے ہوائی اڈوں بالخصوص بن گوریون ہوائی اڈے کی مکمل فضائی ناکہ بندی کا اعلان ایک بے مثال تاریخی لمحہ ہے اور یہ علاقائی تنازعہ کے ایک نئے دور کے آغاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
بین گوریون حملہ:
یمن نے مرکزی اسرائیلی ہوائی اڈے کو نشانہ بنا کر مقبوضہ علاقوں کے اندر تزویراتی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
پروازوں کی معطلی:
یورپی ایئر لائنز جیسے Lufthansa نے مقبوضہ علاقوں کے لیے پروازیں 18 مئی تک معطل کر دی ہیں۔
صہیونی ردعمل:
یمنی حملوں کی وجہ سے پروازوں میں خلل اور عدم تحفظ نے مقبوضہ علاقوں میں احتجاج کی لہر کو ہوا دی ہے۔
بنیادی ڈھانچے کو خطرہ:
اگر تنازعہ بڑھتا ہے تو یمن میں اسرائیل کا پاور گرڈ، بجلی کی سپلائی اور دیگر اہم انفراسٹرکچر اگلا ہدف ہوسکتا ہے۔
عبرانی میڈیا رپورٹ: Yedioth Ahronoth اخبار نے اطلاع دی ہے کہ پروازوں کی منسوخی کی وجہ سے ہزاروں اسرائیلی پھنسے ہوئے ہیں اور صورتحال روز بروز خراب ہو رہی ہے۔ یمن کی نئی حکمت عملی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مزاحمت صرف علامتی کارروائیوں سے مطمئن نہیں ہے اور وہ اسرائیلی حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ خیال رہے کہ فضائی ناکہ بندی اسرائیلی کابینہ میں داخلی بحران میں اضافے اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر دباؤ بڑھانے کا باعث بن سکتی ہے۔
اسرائیل نے مارچ کے اوائل میں غزہ کے لیے تمام رسد منقطع کر دی اور 18 مارچ کو جنگ بندی کو ختم کر دیا اور غزہ کی پٹی پر حملے دوبارہ شروع کر دیئے۔ اس کے بعد حوثیوں نے بھی اسرائیلی بحری جہازوں کو دوبارہ نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ بحری ناکہ بندی کے بعد صنعا نے اب بین گوریون سمیت اہم ہوائی اڈوں کو نشانہ بناتے ہوئے فضائی ناکہ بندی کا اعلان کیا ہے۔ یمن میں انصار اللہ کے اہم رہنماء عبدالسلام نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ یمنی مسلح افواج کی طرف سے اسرائیلی حکومت کے ہوائی اڈوں بالخصوص بن گوریون ہوائی اڈے کی مکمل فضائی ناکہ بندی کا اعلان ایک بے مثال تاریخی لمحہ ہے اور یہ علاقائی تنازعہ کے ایک نئے دور کے آغاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
بین گوریون حملہ:
یمن نے مرکزی اسرائیلی ہوائی اڈے کو نشانہ بنا کر مقبوضہ علاقوں کے اندر تزویراتی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
پروازوں کی معطلی:
یورپی ایئر لائنز جیسے Lufthansa نے مقبوضہ علاقوں کے لیے پروازیں 18 مئی تک معطل کر دی ہیں۔
صہیونی ردعمل:
یمنی حملوں کی وجہ سے پروازوں میں خلل اور عدم تحفظ نے مقبوضہ علاقوں میں احتجاج کی لہر کو ہوا دی ہے۔
بنیادی ڈھانچے کو خطرہ:
اگر تنازعہ بڑھتا ہے تو یمن میں اسرائیل کا پاور گرڈ، بجلی کی سپلائی اور دیگر اہم انفراسٹرکچر اگلا ہدف ہوسکتا ہے۔
عبرانی میڈیا رپورٹ: Yedioth Ahronoth اخبار نے اطلاع دی ہے کہ پروازوں کی منسوخی کی وجہ سے ہزاروں اسرائیلی پھنسے ہوئے ہیں اور صورتحال روز بروز خراب ہو رہی ہے۔ یمن کی نئی حکمت عملی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مزاحمت صرف علامتی کارروائیوں سے مطمئن نہیں ہے اور وہ اسرائیلی حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ خیال رہے کہ فضائی ناکہ بندی اسرائیلی کابینہ میں داخلی بحران میں اضافے اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر دباؤ بڑھانے کا باعث بن سکتی ہے۔
تحریر: سید رضا عمادی