چور مچائے شور

Rate this item
(0 votes)
چور مچائے شور

ایک دن ایک چور بھاگ رہا تھا اور لوگ اس کی چوری کو دیکھ کر اس کا پیچھا کر رہے تھے اور چیخ رہے تھے۔ چور، چور، چور کو پکڑو۔ چوری کرنے اور فرار میں ماہر اس چالاک چور نے لوگوں کی گرفت سے بچنے کے لیے ایک عجیب و غریب چال کا سہارا لیا۔ اس نے دوسروں سے زیادہ زور سے چیخنا چلانا شروع کر دیا اور کہنے لگا۔ ارے چور، چور کو پکڑو اور وہ دوسروں کی طرف ہاتھ سے اشارہ بھی کر رہا تھا کہ دیکھو چور اس طرف فرار کر رہا ہے۔ اب اس چور کی کہانی عالمی سطح پر ایک عجیب انداز میں دہرائی جا رہی ہے۔ صیہونی حکومت کی من گھڑت سازشوں کی وجہ سے مغربی ایشیائی خطہ کئی دہائیوں سے شدید ترین بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس قبضے سے ایک مظلوم قوم کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے اور اب غزہ میں اس قوم کا ایک حصہ انتہائی مشکل اور ناقابل بیان حالات میں ہر روز ایک نئے سانحے سے نبرد آزما ہے۔

ان تمام جرائم، قتل و غارت اور لوٹ مار کی اصل وجہ ماضی میں انگلستان اور حال میں امریکہ جیسی مغربی حکومتیں ہیں۔ ٹرمپ اس وقت صیہونی حکومت کے تمام جرائم میں اس کا اصل حامی اور پشت پناہ ہے۔ اب یہ ظالم، جابر اور صیہونی جلادوں اور دیگر دہشت گرد غنڈوں کا حامی اپنے عجیب و غریب موقف سے، پوری ڈھٹائی  سے دوسروں کو خطے میں بحران پیدا کرنے کا سبب بتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے ساتھ ایک نجی ملاقات کے دوران ایران کے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام پر تشویش کا اظہار کیا۔ بعد ازاں، خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو دہشت گردی کی سرپرستی بند کرنی چاہیئے، اپنی خونی پراکسی جنگوں کو ختم کرنا چاہیئے اور مستقل طور پر اور تصدیق شدہ طور پر اپنے جوہری ہتھیاروں کے حصول کو ختم کرنا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتے۔

ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تہران پر تنقید کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایران کسی بھی قسم کی دھمکی یا غنڈہ گردی کے آگے نہیں جھکے گا۔ امریکی ایران کے خلاف یہ دعوے ایسے عالم میں کر رہے کہ جب امریکہ کی فوجی مداخلتوں نے علاقے کی صورتحال کو جنگ، آشوب اور تقسیم ہونے سے دوچار کر دیا ہے۔ مغربی ایشیاء کی افسوسناک موجودہ صورتحال، کہ جو امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی حمایت سے دہشت گرد گروہوں کی جولانگاہ بن چکی ہے، اسی حقیقت کا ثبوت ہے۔ امریکہ نے مغربی ایشیاء سے شمالی افریقہ تک کے علاقوں میں امن قائم کرنے کے بہانے اپنے یکطرفہ اقدامات کے ذریعے اس پورے علاقے کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ امریکہ نے گذشتہ چار عشروں کے دوران عملی طور پر بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ علاقے میں امن و امان قائم کرنے کے درپے نہیں ہے۔

امریکہ نے داعش دہشت گرد گروہ کی جو مدد کی ہے، اس سے اس دہشت گرد گروہ کو پرامن ماحول میں سرگرمیاں جاری رکھنے کا موقع فراہم ہوا ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل بھی القاعدہ کی حمایت سے وہ مشرق وسطیٰ کے علاقے پر تسلط اور اثرو نفوذ کے درپے رہا ہے۔ امریکی اقدامات سے علاقے اور دنیا کی قوموں کو دہشت گردی، جنگ، تقسیم اور بدامنی میں شدت کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ ایرانی صدر نے امریکی صدر اور دیگر حکام کے حالیہ خلیجی ممالک کے دورے کے دوران دیئے گئے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ "کیا آپ ہمیں ڈرانے کے لیے آئے ہیں؟ ہم ایسے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے اور شہادت کی موت ہمارے لیے بستر پر مرنے سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔"

حقیقت یہ ہے کہ خطے کی اقوام کے وسائل اور ذخائر کا اصل چور اور لوٹ مار کرنے والا، نیز غزہ میں بحرانوں، قتل و غارت، جرائم اور نسل کشی کا اصل سبب امریکہ ہے۔ اس ملک کے صدر نے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران ایران کو خطے میں عدم استحکام اور بحرانوں کی اصل وجہ کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد کے سالوں میں ایران کے کردار کا خطے کے تناظر میں خلاصہ ان الفاظ میں کیا جا سکتا ہے کہ ایران نے خطے کی قوموں کے لیے خیر خواہی اور ایرانیوں کے لیے قومی وقار کو یقینی بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔ فلسطین کے مظلوموں کی مدد کرنا، قبضے کے خلاف جنگ، ملت اسلامیہ کے اتحاد کا دفاع، مظلوم قوموں کی مدد کرنا، غنڈہ گردی اور استبداد کا مقابلہ کرنا اور بالآخر، ایک نئی اسلامی تہذیب کی تعمیر اور اسلامی دنیا کو سربلند کرنے کے نقطہ نظر کے علاوہ ایران نے ان 47 برسوں میں کیا اقدامات انجام دیئے ہیں۔

مندرجہ بالا اقدامات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی قوم اور ملت اسلامیہ کے لیے ولایت فقیہ ایک نعمت سے کم نہیں۔ اسلامی جمہوری نظام کی طرف سے انسانی خیر خواہی، آزادی، انصاف اور پیشرفت کی تلاش ایک ایسا نقطہ نظر ہے، جو تسلط پسند نظام کے مفادات اور امریکہ جیسے عالمی استکبار کی منشا و اہداف  سے متصادم ہے۔ لہٰذا، یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسے حالات میں، ٹرمپ سمیت تسلط پسند نظام کے رہنماء، اپنی چوری، لوٹ مار، جرم اور تسلط کو جاری رکھنے کے لیے دھوکہ دہی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور ظالم اور مظلوم نیز  قاتل اور مقتول کی جگہ بدل دیتے ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بہتر ہے کہ "نیکی" اور "برائی" کی جگہ بدل دیتے ہیں۔ لیکن آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ روشن و تابندہ چاند ہمیشہ سیاہ بادلوں کے پیچھے نہیں رہتا، ایک ایسا وقت ضرور  آتا ہے، جب اس کی چمک سب کو ماند کر دیتی ہے۔

تحریر: یداللہ جوانی

Read 3 times