
سلیمانی
افغانستان میں شیعہ جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران بم دھماکے میں 33 افراد شہید
مہر خبررساں ایجنسی نے اسپوٹنک کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ افغانستان کے شہر قندہار میں شیعہ جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران زوردار بم دھماکےکے نتیجے میں 33 افراد شہید اور 57 زخمی ہوگئے۔
اطلاعات کے مطابق افغانستان کے شہر قندھار کی بی بی فاطمہ مسجد میں اس وقت زور دار دھماکہ ہوا ہے جب وہاں نماز جمعہ ادا کی جا رہی تھی۔ دھماکہ اتنا خوفناک تھا کہ آس پاس کی عمارتوں اور گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ عینی شاہد نے اے ایف پی کو بتایا کہ مسجد میں تین دھماکے ہوئے، پہلا دھماکا مرکزی دروازے پر ہوا، دوسرا وضو خانہ اور تیسرا دھماکا شمالی حصے میں ہوا۔
الجزیرہ کے مطابق قندہار میں شیعہ مسجد میں بم دھماکے میں 33 افراد شہید اور 57 زخمی ہوگئے ہیں۔ دھماکے کے بعد ہر طرف انسانی اعضا بکھر گئے اور مسجد کا فرش خون سے سرخ ہوگیا۔ نمازیوں کی چیخ و پکار قیامت صغریٰ کا منظر پیش کر رہی تھی۔ اہنے عزیزوں کی تلاش میں مسجد کے گرد بڑی تعداد میں لوگ جمع ہونے سے امدادی کاموں میں مشکلات کا سامنا رہا۔
وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سید خوستی نے بتایا کہ قندھار شہر کی شیعہ مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکہ ہوا ہے جس میں ہمارے درجنوں ہم وطنوں کے جان بحق ہونے کا خدشہ ہے۔ طالبان اہلکار دھماکے کی نوعیت اور نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ جمعہ کو قندوز کی مسجد پر خود کش حملے میں 100 سے زائد افراد شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے تھے جس کی ذمہ داری وہابی دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
اسلام میں عورت اور مرد کے مساوی حقوق
اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق چودہ سو سال قبل اس وقت دئیے تھے۔ جب عورت کے حقوق کا تصور ابھی دنیا کے کسی بھی معاشرہ میں پیدا نھیں ھوا تھا۔
عورت اور مرد کی مساوات کا نظریہ دنیا میں سب سے پھلے اسلام نے پیش کیا اور اس طرح عورت کو مرد کی غلامی سے نجات دلائی جس میں وہ صدیوں سے جکڑی ھوئی تھی اس مساوات کی بنیاد قرآن مجید کی اس تعلیم پر ہے جس میں فرمایا گیا کہ
" تم (مرد ) ان کے (عورت ) کے لئے لباس ھو اور وہ تمھارے لئے لباس ہیں"۔
اس طرح گویا مختصر ترین الفاظ اور نھایت بلیغ انداز میں عورت اور مرد کی رفاقت کو تمدن کی بنیاد قرار دیا گیا اور انھیں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر بتاتے ھوئے عورت کو بھی تمدنی طور پر وھی مقام دیا گیا ہے جو مرد کو حاصل ہے اس کے بعد نبی کریم(ص) نے حجتہ الودع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا ۔
"عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو تمھارا عورتوں پر حق ہے اور عورتوں کا تم پر حق ہے"۔
یھاں بھی عورت کو مرد کے برابر اھمیت دی گئی ہے اور عورتوں پر مردوں کی کسی قسم کی برتری کا ذکر نھیں ہے اس طرح تمدنی حیثیت سے عورت اور مرد دونوں اسلام کی نظر میں برابر ہیں۔ اور دونوں کو یکساں اھمیت حاصل ہے۔
یہ تعلیمات اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہیں کہ ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ھر شے ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہے۔ اور اس طرح سب کو یکساں اھمیت حاصل ھوتی ہے۔
لیکن ساتھ ھی اس بات سے بھی انکار نھیں کیا جا سکتا کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ھو اس میں ایک فریق کو کچھ نہ کچھ غلبہ حاصل ھوتا ہے یہ ایک فطری اصول ہے۔ اور اسی بناء پر چند چیزوں میں مرد کو عورت پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔
اس کی وجہ حیاتیاتی اور عضویاتی فرق بھی ہے اور فطرت کے لحاظ سے حقوق و مصالح کی رعایت بھی ہے اسی لئے قرآن نے مرد کو عورت پر نگران اور"قوامیت " کی فوقیت دی ہے۔
مگر دوسری جانب اسلام نے ھی عورت کو یہ عظمت بخشی ہے کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے بتایا ہے گویا کچھ باتوں میں اگر مرد کو فوقیت حاصل ہے تو تخلیقی فرائض میں عورت کو بھی فوقیت حاصل ہے۔ فرق صرف اپنے اپنے دائرہ کار کا ہے۔
یھی وہ تعلیمات ہیں جنھوں نے دنیا کی ان عظیم خواتین کو جنم دیا کہ زندگی کے ھر میدان میں ان کے روشن کارنامے تاریخ اسلام کا قابلِ فخر حصہ ہیں۔
اسلام میں نظریہ مھدویت
مھدی موعود (عج) کا عقیدہ تمام مذاھب اسلامی کے نزدیک مسلم ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر احادیث ہیں جن کے مطابق قیامت سے پھلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فرد قیام کرے گاو جو آپ کا ھم نام ھوگا اور اس کا لقب مھدی ھوگا اور جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے۔{یملاء الارض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وجورا} “آپ (عج) زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ھوچکی ھوگی۔”
شیعہ امامیہ عقائد کے مطابق مہدی موعود (عج) ان کے بارھویں امام ہیں، جو 15 شعبان 255 ھ ق کو سامراء میں پیدا ھوئے۔ آپ (عج) نے پانچ سال تک اپنے والد بزرگوار امام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ زندگی بسر کی اور 260 ھ ق میں اپنے والد بزرگوار کی شھادت کے بعد لوگوں کی نظروں سے غائب ھوگئے اور سال 329 ھ ق تک آپ (عج) کی طرف سے چار وکیل اور نائب شیعوں کے مسائل حل کرتے رھے۔ اس عرصے کو غیبت صغریٰ کھا جاتا ہے۔
اس کے بعد غیبت کبریٰ کا مرحلہ شروع ھوا اور اس عرصے میں شیعوں کے مسائل کے حل و فصل کی ذمہ داری آپ (عج) کی طرف سے شیعہ عادل فقھاء کے سپرد ھوگئی۔ پس آپ (عج) کی ولادت باسعادت ھوئی، آپ (عج) اس دنیا میں تشریف لائے اور آج تک زندہ ہیں، لیکن آپ (عج) لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں۔
امام مھدی (عج) کی ولادت باسعادت کا عقیدہ صرف اھل تشیع حضرات ھی نھیں رکھتے بلکہ اھل سنت کے بھت سے مشھور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں آپ (عج) کی ولادت باسعادت سے متعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں، جیسے: ابن حجر ھیثمی (الصواعق المحرقہ)، سید جمال الدین (روضۃ الاحباب)، ابن صباغ مالکی (الفصول المھمۃ)،سبط ابن جوزی (تذکرۃ الخواص)، عبدالرحمن جامی حنفی (شواھد النبوۃ)، حافظ ابو عبداللہ گنجی شافعی (البیان فی اخبار صاحب الزمان) اور (کفایۃ الطالب فی مناقب امیر المومنین{ع})، ابوبکر بیھقی (شعب الایمان)، کمال الدین محمد بن طلحۃ شافعی (مطالب السووٴل فی مناقب آل الرسول)، حافظ ابو محمد البلاذری (الحدیث المتسلسل) ابو محمد عبداللہ بن الخشاب (تاریخ موالید الائمۃ و و فیاتھم)، شیخ محی الدین بن عربی (الفتوحات المکیۃ)، شیخ عبدالوھاب شعرانی (الیواقیت و الجواھر)، حافظ محمد بخاری حنفی (فصل الخطاب)، حافظ ابو الفتح محمد بن ابی الفوارس (الاربعین)، عبد الحق دھلوی (مناقب و احوال الائمۃ)، حافظ سلیمان قندوزی حنفی (ینابیع المودۃ)، عبداللہ بن محمد المطیری (الریاض الزاھرۃ)، ابوالمعالی سراج الدین الرفاعی (صاح الاخبار فی نسب السادۃ الفاطمیۃ الاخیار)، محمد بن خاوند شاہ (روضۃ الصفا) وغیرہ۔ علاوہ ازیں کتاب منتخب الاثر میں بھت سارے علماء کا نام، جن کی تعداد ساٹھ سے بھی زیادہ ہے ذکر ھوا ہے۔
البتہ اھلسنت کے نزدیک مشھور قول یہ ہے کہ آپ (عج) کی ولادت ابھی تک نھیں ھوئی ہے۔ آپ (عج) کی ولادت آخر الزمان میں ھوگی اور آپ (عج) اس وقت قیام فرمائیں گے، لیکن اھل تشیع نے آپ (عج) کی ولادت باسعادت اور آپ (عج) کی حیات پر عقلی و نقلی دلائل پیش کئے ہیں۔
بعض محققین کی تحقیق کے مطابق مھدی موعود (عج) کے بارے میں اھل سنت کے 60 سے زیادہ معتبر منابع، جن میں صحاح ستۃ بھی شامل ہیں، نیز اھل تشیع کی کتب اربعہ سمیت 90 سے زیادہ معتبر منابع میں احادیث بیان ھوئی ہیں۔ مسلمانوں نے اس مسئلے کی اھمیت کے پیش نظر اسے نہ فقط حدیثی اور کلامی کتابوں میں ذکر کیا ہے، بلکہ اس موضوع پر جداگانہ کتابیں بھی لکھی ہے۔
محمد بن اسحاق بن ابراھیم کوفی (متوفی 275ھ)، پھلا شخص ہے، جس نے پھلی مرتبہ اس موضوع پر ایک مستقل کتاب (صاحب الزمان) کے عنوان سے لکھی۔ مھدی موعود (عج) کےبارے میں موجود احادیث اس حد تک قطعی ہیں کہ ابن تیمیہ اور اس کے پیروکار بھی (جو عام طور پر اھل تشیع کے عقائد کو باطل قرار دیتے ہیں) ان احادیث کے صحیح ھونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ ابن تیمیہ نے مسند احمد، صحیح ترمذی اور سنن ابو داوو سے استناد کرتے ھوئے مھدی موعود (عج) کے بارے میں نقل شدہ احادیث کو صحیح السند قرار دیا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ابن خلدون ان احادیث کے بارے میں اعتراض کرتے ھوئے لکھتے ہیں: ان میں سے بعض احادیث کے علاوہ تمام احادیث قابل مناقشہ ہیں۔
اسلامی محققین (شیعہ و سنی) نے ابن خلدون کے کلام پر اعتراض کرتے ھوئے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اھل سنت کے محقق ڈاکٹر عبد الباقی لکھتے ہیں: مھدی موعود (عج) کے بارے میں تقریباً اسی (۸۰) روایتوں پر مشتمل ایک عظیم مجموعہ موجود ہے، جن کے راویوں کی تعداد ھزاروں تک پھنچ جاتی ہے۔
علاوہ ازیں صحاح و مسانید کے مصنفین نے بھی ان احادیث کو ذکر کیا ہے۔ بنابریں کیا اس عظیم مجموعے کو باطل قرار دے سکتے ہیں؟ اگر ان احادیث کے بارے میں شک کرنا صحیح ھو تو تمام روایات شک کے دائرے میں ھوں گی، جس کے نتیجے میں سنت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حرف آجائے گا، جبکہ علمائے سلف کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ھوتا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اس مسئلے پر خدشہ وارد نھیں کیا، بلکہ گذشہ علماء اس مسئلہ کی تفسیر اور تحلیل کیا کرتے تھے۔
علاوہ ازیں ابن خلدون نے بھت سارے اعتراضات کرنے کے بعد ان احادیث میں سے بعض کے صحیح ھونے کا اقرار بھی کیا ہے۔ واضح ہے کہ اس عقیدے کے بارے میں اگر ایک حدیث بھی موجود ھو، تب بھی اسے چھوڑ نھیں سکتے، بلکہ اسے قبول کرتے ھوئے دوسری متواتر احادیث کو اس کے لئے موٴید قرار دینا چاھیے، اگرچہ یہ احادیث سند کے اعتبار سے کامل نہ بھی ھوں۔
ابن خلدون کے کلام سے بھی زیادہ مضحکہ خیز احمد امین کا کلام ہے، جو نہ فقط مھدی موعود (عج) سے مربوط احادیث کی نفی کرتا ہے، بلکہ کھتا ہے کہ شیعوں نے گھڑا ہے۔ اس کے خیال کے مطابق شیعوں نے بنی امیہ کے عکس العمل میں (کیونکہ انھوں نے عثمان اور دوسرے اصحاب کے فضائل میں احادیث گھڑ لی تھیں) بھت ساری احادیث حضرت علی علیہ السلام کے فضائل اور مھدی موعود کے بارے میں گھڑ لی ہیں، لیکن چونکہ یہ روایات علمائے اسلام کے نزدیک مورد قبول تھیں، اس لئے انھوں نے بھی ان جعلی احادیث کو قبول کر لیا ہے۔ (احمد امین کے اس من گھڑت کلام کا جواب)، پھلی بات یہ کہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل صرف اھل تشیع کی کتابوں میں موجود نھیں ہیں، بلکہ آپ کے وہ تمام فضائل جو شیعہ کتب میں موجود ہیں، اھل سنت کی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔
بنابریں اھل تشیع کو کیا ضرورت تھی کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں احادیث جعل کریں۔ دوسری بات یہ کہ شیعہ بنی امیہ کی حکومت کے زمانے میں بدترین اجتماعی و سیاسی شرائط کے حامل تھے، یھاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام کے مسلم فضائل کو بھی نقل نھیں کرسکتے تھے۔ ایسی صورتحال میں شیعہ کس طرح بنی امیہ کے ردعمل میں احادیث جعل کرسکتے ہیں۔۔ تیسری بات یہ کہ اھل سنت کے محدثین اور مولفین نے کس طرح شیعوں سے مھدی موعود (عج) کے بارے میں جعلی احادیث قبول کیں، حالانکہ ان کے نزدیک کسی روایت کے ضعیف ھونے کے لئے کافی ہے کہ اس کا روای شیعہ ھو۔
مھدی موعود (عج) کے نسب کے بارے میں متعدد روایات نقل ھوئی ہیں، جن میں حسب ذیل نکات کی تاکید ھوئی ہے:
1۔ مھدی موعود امت اسلامی سے ہیں، یہ مطلب بعض روایات میں خاص طریقے سے بیان ھوا ہے۔ علاوہ ازیں آپ (عج) کے نسب کے بارے میں موجود احادیث سے بھی یہ مطلب ثابت ھو جاتا ہے۔ بنابریں مھدی موعود (عج) کے امت اسلامی سے ھونے میں کوئی شک و تردید نھیں ہے۔ البتہ صرف ایک روایت اس طرح سے نقل ھوئی ہے (لا مهدی الا عیسی بن مریم) عیسٰی بن مریم کے علاوہ کوئی اور مھدی نھیں ہے۔ اسلامی محدثین نے اس حدیث کو یا جعلی قرار دیا ہے یا دوسری متواتر روایات کے ساتھ مطابقت نہ رکھنے کی بنا پر اسے غیر معتبر قرار دیا ہے یا اس حدیث کی تاویل کی ہے۔
2۔ مھدی موعود (عج) اھلبیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہیں۔ اس سلسلے میں 389 احادیث موجود ہیں۔
3۔ مھدی موعود (عج) حضرت علی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، اس سلسلے میں 214 احادیث موجود ہیں۔
4۔ مھدی موعود (عج) حضرت فاطمہ علیھا السلام کی اولاد میں سے ہیں، اس سلسلے میں 192 احادیث موجود ہیں۔
5۔ مھدی موعود (عج) امام حسین علیہ السلام کی نسل سے نویں فرزند ہیں۔ اس سلسلے میں 148 احادیث موجود ہیں۔
6۔ مھدی موعود (عج) امام حسن عسکری علیہ السلام کی اولاد میں سے ہین، اس سلسلے میں 146 احادیث موجود ہیں۔
مھدی موعود (عج) کے حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی اولاد ھونے میں شیعہ اور اھل سنت کے درمیان کوئی اختلاف نھیں ہے، لیکن آپ (عج) کے امام حسن علیہ السلام کی اولاد ھونے یا امام حسین علیہ السلام کی اولاد ھونے کے بارے میں دو نظریے موجود ہیں۔
اھل تشیع اس بات پر متفق ہیں کہ آپ (عج) امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور یہ نظریہ اھلسنت کے یھاں بھی مشھور ہے۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ آپ (عج) امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق آپ (عج) امام حسن اور امام حسین علیھم السلام دونوں کے فرزند ہیں۔ مھدی موعود (عج) کے امام حسن اور امام حسین علیھم السلام کی طرف نسبت قابل توجیہ ہے، یعنی آپ (عج) کا نسب باپ کی طرف سے امام حسین علیہ السلام اور ماں کی طرف سے امام حسن علیہ السلام پر ختم ھوتا ہے، کیونکہ امام محمد باقر علیہ السلام کی مادر گرامی جناب فاطمہ امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کی بیٹی تھیں۔
بنابریں امام باقر علیہ السلام اور آپؑ کے بعد امام زمانہ (عج) تک تمام ائمہ اھلبیت علیھم السلام امام حسن علیہ السلام کی نسل سے بھی ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی نسل سے بھی۔
لھذا امام مھدی (عج) حسینی بھی ہیں اور حسنی بھی۔ لیکن جن روایات میں آپ (عج) کے نسب کو صرف حسنی قرار دیا گیا ہے، وہ قابل استناد نھیں ہیں، کیونکہ ابو داود سے جو روایت نقل ھوئی ہے، اس میں آپ (عج) کو امام حسن علیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیا ہے، جبکہ ترمذی، نسائی اور بیھقی سے جو روایت نقل ھوئی ہیں، اس میں آپ (عج) کو امام حسین علیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیا ہے۔
بنابریں ابو داود کی نقل میں سھواً کلمہ (حسین) کی جگہ پر (حسن) لکھے جانے کا احتمال موجود ہے، کیونکہ ان روایتوں کی تعداد جن میں آپ (عج) کو امام حسین علیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیا ہے، بھت ھی زیادہ ہیں اور سند کے لحاظ سے بھی یہ روایات دوسری روایات کی نسبت صحیح تر ہیں۔
بنابریں ان تمام روایات کو چھوڑ کر مذکورہ حدیث {جس میں جناب عیسٰی (ع) کو مھدی موعود قرار دیا گیا ہے} پر استناد نھیں کیا جا سکتا ہے۔
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی
ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کا ایک حصہ یمن سے متعلق ہے
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کا ایک حصہ یمن کے امور سے متعلق ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات ابھی تک بند دروازوں کے پیچھے ہورہے ہیں مذاکرات کو آشکار نہیں کیا گيا ۔ مذاکرات کے چار دور عراق کے دارالحکومت بغداد میں منعقد ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ کسی وقفہ کے بغیر جاری ہے۔ مذاکرات دو طرفہ ، علاقائي اور عالمی امور پر مشتمل ہیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے صوبہ خراسان کے گورنر کے دورہ افغانستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے افغانستان کے ساتھ عوامی اور تجارتی سطح پر اچھے روابط ہیں۔ خطیب زادہ نے کہا کہ طالبان سمیت افغانستان کے تمام سیاسی گروہوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں ۔ ہم افغانستان میں امن و صلح کے خواہاں ہیں اور افغانستان میں ایک ایسی حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں جو افغان عوام کے ارادوں پر مشتمل اور وسیع البنیاد ہو۔
خطیب زادہ نے ایران کے نائب وزير خارجہ علی باقری کے دورہ پاکستان کے بارے میں مہر نیوز کے نامہ نگار کے سوال کا جواب دیتے ہوئےکہا کہ ایران کے نائب وزیر خارجہ کا پاکستان کا دورہ پاکستان کے نائب وزیرخارجہ کی دعوت پر انجام پذير ہوا اور علی باقری نے ایران اور پاکستان کے گیارہویں مشترکہ کمیشن کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ اس سفر میں افغانستان کی تازہ ترین صورتحال ،دو طرفہ تعلقات کو مضبو ط بنانے اور علاقائي مسائل کے سلسلے میں بھی تبادلہ خیال کیا گيا۔
خطیب زادہ نے قندوز میں دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئےکہا کہ افغان میں امن و سکیورٹی کی ذمہ داری طالبان کے دوش پر ہے اور ایران نے بارہا اس بات پر تاکید کی ہے کہ ہم ایسے افغانستان کے خواہاں ہیں جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا کوئی وجود نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ افغان عوام دہشت گرد اور قتل و غارت سے تنگ آچکے ہیں اور افغان عوام ہمہ گیر اور جامع حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں جس میں تمام افغان گروہ شامل ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کی ایرانی پہلوانوں کو کامیابی اور عوام کا دل شاد کرنے پر شاباش
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک پیغام میں ناروے کے شہر اوسلومیں فرنگی کشتی کے عالمی مقابلوں میں ایرانی پہلوانوں کی شاندار کامیابی نیز عوام اور خاص طور پر جوانوں کا دل شاد کرنے پر انھیں مبارکباد اور شاد باش پیش کی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں فرمایا: آپ کو اور آپ کے کوچ کو شاباش اور مبارکباد ہو ۔ آپ نے عوام اور خاص طور پر جوانوں کے دل کو شاد کیا ہے۔ ان شااللہ ، آپ ہمیشہ کامیاب رہیں ۔
پاکستان کے معروف سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا
پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے پاکستان کے معروف سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر کو اسلام آباد کے ایچ ایٹ قبرستان میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا آج صبح 85 برس کی عمر میں انتقال ہوگيا ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نماز جنازہ اسلام آباد کی فیصل مسجد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے پڑھائی ، ڈاکٹر عبدالقدیر کی نماز جنازہ کے موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے، نماز جنازہ کے دوران بارش بھی ہوتی رہی۔ نمازِ جنازہ میں قائم مقام صدر سینیٹر صادق سنجرانی اور وفاقی وزراء سمیت سیاسی و عسکری قیادت نے بھی شرکت کی۔
امریکہ افغان عوام کے خلاف ہونے و الے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئيسی نے افغانستان میں جمعہ کی نماز کے دوران مسجد پر داعش دہشت گرد تنظیم کے مجرمانہ ، بہیمانہ اور دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ دشمن افغانستان میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوشش کررہا ہے افغانستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی نے خانہ خدا میں عبادت اور بندگی میں مشغول نمازیوں پر دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے افغان قوم اور عالم بشریت کو تعزيت اور تسلیت پیش کی ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ امریکہ داعش دہشت گرد تنظیم کی بھر پور حمایت کررہا ہے امریکہ داعش کے ذریعہ افغانستان میں مذہبی اور قومی فسادات پیدا کرنے کی سازش میں مشغول ہے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ افغان قوم کو امریکہ کے معاندانہ اقدامات اور سازشوں کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے۔
افغان حکام کو قندوز کے دلخراش واقعہ میں ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے افغانستان کے صوبہ قندوزمیں مسجد پر حملے کی مذمت اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئےفرمایا: افغانستان کے حکام کو قندوز کے دلخراش واقعہ میں ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ اطلاعات کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی نے افغانستان کے صوبۂ قندوز کے علاقہ سید آباد کی ایک مسجد میں بم دھماکے اور بڑی تعداد میں نمازیوں کی موت کے دلخراش سانحے پر اپنے ایک پیغام میں فرمایا: اس دردناک اور دلخراش واقعہ میں ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ہمیں اس المناک واقعہ پر سخت صدمہ پہنچا ہے ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہمسایہ اور برادر ملک افغانستان کے حکام سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس بھیانک جرم کا ارتکاب کرنے والے خونخوار افراد کو قرار واقعی سزا دیں گے اور ضروری تدابیر اختیار کر کے مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کریں گے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ اس سانحے کے شہداء پر رحمت و مغفرت نازل فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے، زخمیوں کو جلد از جلد شفاء عطا کرے اور پسماندگان صبر و سکون اور استقامت عطا فرمائے۔
داعش دہشت گرد تنظیم نے قندوز میں شیعہ مسجد پر بہیمانہ حملے کی ذمہ داری قبول کرلی
مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ افغانستان میں سرگرم وہابی دہشت گرد تنظیم داعش نے صوبہ قندوز کے علاقہ سید آباد میں شیعہ مسجد پر نماز جمعہ کے دوران دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق افغانستان کے صوبہ قندوز کے علاقہ سید آباد میں نماز جمعہ کے دوران حملے کے نتیجے میں 20 نمازی شہید اور 30 زخمی ہوگئے لیکن تکمیلی اطلاعات کے مطابق داعش دہشت گردوں کے مجرمانہ اور بہیمانہ حملے میں 100 نمازی شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے۔ الجزیرہ اور آوا کے مطابق داعش دہشت گردوں کے حملے ميں 60 نمازی شہید ہوئے ہیں ۔ ایکس پریس کے مطابق شہداء کی تعداد 100 تک پہنچ گئی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد 250 کے قریب ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب سے منسلک وہابی دہشت گرد تنظیم داعش نے مسجد پرنماز جمعہ کے دوران مجرمانہ اور بہیمانہ حملے کی ذمہ داری قول کرلی ہے۔ داعش دہشت گرد تنظیم اس سے قبل طالبان پر بھی حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے۔