
سلیمانی
فرانسیسی وزارت خارجہ کا پاکستان سے باضابطہ احتجاج
پاکستان کی وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی طرف سے فرانس کے صدر میکرون کو نازی کہنے پر فرانسیسی وزارت خارجہ نے پاکستان سے باضابطہ احتجاج کیا ہے۔ اطلاعات کےمطابق گزشتہ روز پاکستان کے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ فرانسیسی صدر میکرون مسلمانوں کے ساتھ وہی برتاؤ کررہے ہیں جو جرمنی میں نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔
پاکستان کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے جنگ عظیم اول کے بعد جرمنی میں یہودیوں کے خلاف جابرانہ قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ فرانس میں مسلمانوں کے بچوں کے لیے خاص شناختی نمبر جاری کیے جارہے ہیں جیسے جرمنی میں یہودیوں کے لیے زرد ستارہ اور مخصوص لباس پہننا لازم کردیا گیا تھا۔
وفاقی وزیر کی اس ٹوئٹ پر فرانس کی وزارت خارجہ نے باضابطہ طور پر پاکستان سے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی وزیر کا صدر میکرون پر تبصرہ توہین آمیز ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ فرانسیسی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے پیرس میں پاکستانی سفارت خانے کو شدید احتجاج سے آگاہ کردیا ہے ۔ پاکستان کو فوری طور پر یہ بیان واپس لے کر مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے
امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات امریکہ کی شکست خوردہ پالیسی کا مظہر
امریکہ نے افغانستان میں ایک کھرب ڈالر سے زائد سرمایہ صرف کیا اور آج وہ شکست، ناکامی اور مایوسی کی حالت میں ان افراد کے ساتھ دوستی اور مذاکرات کے لئے مجبور ہوگیا جن کے سر پر اس نے انعام مقرر کیا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے قطر میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات اور گفتگو کی۔ وہ لوگ جو حالات سے زیادہ باخبر نہیں ہیں ممکن ہے کہ وہ اس خـبر سے یہ سمجھتے ہوں کہ امریکہ افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں تلاش و کوشش کررہا ہے لیکن جو لوگ افغانستان کے مسائل سے آگاہ ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ خـبر امریکہ کی افغانستان میں 20 سالہ شکست اور ناکامی کا واضح اور ٹھوس ثبوت ہے۔
امریکہ نے 2001 میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے افغانستان پر فوجی یلغار کا آغاز کیا، نہ امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کو ختم کرسکا اور نہ القاعدہ اور طالبان کے دہشت گردوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کرسکا۔
صدائے افغان خبررساں ایجنسی کے سربراہ سید عیسی حسینی مزاری نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ افغانستان میں صلح کے ذریعہ انتخاباتی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور نیز وہ طالبان کو امریکہ کے دشمنوں کے کیمپ میں جانے سے روکنا چاہتے تھے اور ٹرمپ کی شکست کی صورت میں صلح کا مصرف ختم ہوجائےگا۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کا اصلی ہدف افغانستان پر اپنا تسلط قائم رکھنا ہے وہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پرورش کا سلسلہ جاری رکھےگا اور افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی باقی رہےگی۔
افغانستان کے فوجی اور سیاسی تجزیہ نگار محمد حسن حقیار نے مہر خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ہمسایہ اور علاقائی ممالک اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان میں اپنی فوجی اور خفیہ ایجنسیوں کی موجودگی کے ذریعہ اپنے ناجائز اور معاندانہ اہداف تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں اور امریکہ کی طرف سے افغانستان میں داعش کی بھر پور حمایت اس کا ٹھوس ثبوت ہے۔
اس نے امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ جانتا ہے کہ وہ افغانتسان میں جنگ نہیں جیت سکتا اس لئے اس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔
سیاسی تجزيہ نگار عبدالاحد برین مہر کا کہنا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے افغانستان میں داخل ہوا اور اس طرح اس کا مقصد روس، چین اور ایران جیسی طاقتوں پر قریبی نظر رکھنا ہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ایک ہدف اپنے حریفوں پر قریبی نگرانی رکھنا بھی ہوسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ممکن ہے کہ امریکہ طالبان کے ذریعہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت تشکیل دے جو امریکہ کے زیر نظر امریکی اہداف کے لئے کام کرنے کی پابند ہو۔
بہر حال امریکہ کا ہدف افغانستان سے آبرومندانہ طریقہ سے فوجی انخلا ہو یا افغانستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت کا قیام ہو ان سب کے باوجود امریکی اقدام ایک کھرب ڈالر صرف کرنے کے قابل نہیں تھا۔
امام حسن عسکری(ع) کےاخلاق واوصاف
ایران شام کی سالمیت کا بھرپور دفاع کرتا رہے گا: امیر عبد اللہیان
اسلامی مشاورتی مجلس برائے بین الاقوامی امور کے اسپیکر کے معاون خصوصی نے کہا کہ ایران شام اور اس کی سلامتی کا بھرپور دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی مدد کے لئے اقوام متحدہ کی تعمیری کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے۔
یہ بات امیر عبداللہیان نے پیر کے روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری کے خصوصی نمائندے برائے شامی امور "گیر۔ او۔ پدرسن" کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اقوام متحدہ کی کوششوں اور شام کی علاقائی سالمیت، قومی خودمختاری اور دیرپا سلامتی کی واپسی کے لئے کسی بھی کوششوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔
انہوں نے شام کی موجودہ صورتحال میں عدم اعتماد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ خطرناک دہشت گرد گروہ اپنے نام تبدیل کر کے اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں لہذا اقوام متحدہ کو غیر جانبدارانہ طریقہ کار کو اپنانا اور دوہرے معیاروں کو ترک کرنا ہوگا۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ آئینی کمیٹی کے کام میں تمام فریق ذمہ دار ہیں اور انھیں جوابدہ ہونا چاہئے اور شامی حکومت کو قصور وار ٹھہرانا غیرجانبدارانہ پالیسی کے منافی ہے۔
انہوں نے شام کے خلاف عائد پابندیوں خاص طور پر طب ، طبی سامان اور خوراک پر پابندیوں کو ظالمانہ قرار دے کر اور انسانیت سوز پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے کارروائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
عبداللہیان نے مزید کہا کہ ایران بدستور شام اور اس کی سلامتی کا بھرپور دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی مدد کے لئے اقوام متحدہ کی تعمیری کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے نیز شام کے بارے میں غیرجانبدارانہ فیصلے پر زور دیتا ہے۔
اسلام اور امن و سلامتی
اسلام وہ عظیم مذہب ہے جو امن و سلامتی، محبت اور انسانی حقوق کی پاسداری کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام کے امن و سلامتی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے دین کیلئے نام ہی "اسلام" پسند کیا۔ اسلام اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے محض "امن و سلامتی" ہے۔ لہذا اسلام وہ واحد مذہب ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی، محبت و رواداری، اعتدال و توازن اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام نے ہمیں روحانیت، اخلاق انسانی، حقوق بشریت اور احترام انسانیت کا درس دیا ہے۔ اسلام نے ہمیں ظلم اور ظالم کے خلاف کھڑا ہونے کا حوصلہ و جذبہ دیا ہے۔ اسلام نے ہمیں مشکلات پر صبر کرنے کا درس دیا ہے۔ آج پوری دنیا امن اور انسانی حقوق کے نام پر اکٹھی ہو رہی ہے لیکن ہم فرقہ واریت، نسلی و لسانی و علاقائی تعصبات، انتہاء پسندی، دہشتگردی، جنونیت، پسماندگی اور جہالت جیسی بیماریوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ ہم نے مذہب کے پیغام کو بھلا کر اپنے اوپر مذہبی ہونے کی مہر تو لگوا لی، لیکن اس مہر کے ساتھ ہم نے امن و سلامتی کی بجائے شدت پسندی کو ترجیح دی، ہم نے محبت کی بجائے نفرت کو ترجیح دی۔
یہ نفرت کہیں مذہبی تعصب کے نام پر تو کہیں علاقائی تعصب کے نام پر، یہ نفرت کہیں عزت کے نام پر تو کہیں دولت کے نام پر، غرضیکہ ہم نے مذہب کے پیغام امن و محبت کو بھلا دیا۔ دین اسلام ہمیں انسانیت کا احترام اور انسانیت سے محبت کرنا سکھاتا ہے۔ محبت کرنا کیونکہ صفت حسن ہے۔ اگر اس صفت کو انسان ٹھکرائے گا تو نفرت وجود میں آئے گی، خواہ وہ کسی ذریعے سے بھی ہو، دولت کی بناء پر ہو یا اناء پرستی کی بناء پر اور پھر یہی نفرت شدت پسندی کی طرف لے جائیگی۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے اس صفت کا مرکز و محور اپنی ذات کو بنایا، کیونکہ خدا تعالیٰ سے محبت ہی انسان کو امن و سکون اور احترام انسانیت سکھاتی ہے۔ اسی صفت کی بناء پر انسان مکمل طور پر انسان کہلاتا ہے۔ اگر یہ صفت ختم ہو جائے تو انسانیت ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ ہر طرف قتل و غارت اور درندگی کا بازار گرم ہوتا دکھائی دیتا ہے، لہذا اسلام کا پیغام امن و محبت کا پیغام ہے۔
وطن عزیز جو کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا، اس کا اصول بھی امن و سلامتی اور محبت ہے۔ اس لئے برصغیر کو سرزمین اولیاء و سرزمین محبت کہا جاتا ہے۔ اس سرزمین پر مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی سنہری تاریخ موجود ہے۔ مگر استعمار اور سیکولرزم کی آمد کے بعد تقسیم برصغیر کے وقت اس مذہبی رواداری اور بھائی چارے کو نفرتوں میں تبدیل کیا گیا، جس سے شدت پسندی، دہشتگردی اور قتل و غارت کی فصل پکتی رہی اور جس کا پھل مہذب معاشروں کی جدائی کی صورت میں نکلتا رہا۔ پھر اسلام کے نام پر مسلمانوں میں تکفیر کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا، جس سے قتل و غارت بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ استعمار اور سیکولر قوتوں کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مذہب اسلام کو شدت پسند اور دہشتگردانہ مذہب بنایا جائے، لیکن جو چیز ان کے مقابل آئی وہ مذہب اسلام کا پیغام امن و محبت اور رسول ختمی مرتبت صلی الله علیه وآله وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ اس لئے اسرائیل و امریکہ جیسی عالمی طاقتیں اسلام کے نام پر دہشتگردی پھیلاتی رہیں۔
کبھی انہی طاقتوں نے وہابیت کو استعمال کیا تو کبھی داعش جیسی درندہ صفت تنظیمیں بنائی۔ پھر یہی طاقتیں چند شدت پسند افراد کے ذریعے قتل و غارت اور دہشتگردی کروا کر اسلام کو شدت پسندی سے ملحق کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ انہی کے ذیل میں میکرون جیسے لوگ بھی نظر آنے لگے، جنہوں نے برملا اسلام کو شدت پسند کہا اور اس کے بعد یہ طاقتیں رسول ختمی مرتبت صلی الله عليه وآله وسلم کی بھی توہین کرتی نظر آنے لگیں۔ اب یہ صیہونی طاقتیں اسلام کے خلاف دلائل اکٹھے کرکے اقوام عالم کو اسلام سے متنفر کر رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ طاقتیں اپنی ناکامیوں کا رونا رو رہی ہیں، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب جس میں امن، محبت اور روحانیت شامل ہو، اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جبکہ مذہب اسلام واحد مذہب ہے، جس میں سب سے زیادہ امن، محبت اور روحانیت موجود ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کو کسی بھی جہت اور پہلو سے دیکھیں تو ہمیں ہر جگہ فراوانی کے ساتھ محبت، رحمت، شفقت، نرمی، احسان اور عفو و درگزر کا عنصر ہی غالب نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عفو و درگزر، محبت، رحمت، امن و سلامتی ہی سارا دین ہے۔
بلاشبہ اتنی محبت، اتنی رحمت اسلام کے علاوہ کسی مذہب میں نہیں۔ افسوس ہم لوگوں نے اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا تو دور، ان تعلیمات کا مطالعہ کرنا بھی چھوڑ دیا۔ پھر بات وہی ہے کہ ہم نے اپنے اوپر مذہب اسلام کی مہر تو لگوا لی، لیکن اسلام کی تعلیمات سے روگردانی کرتے رہے۔ اس لئے ہمارا معاشرہ شدت پسندی سے قتل و غارت کی طرف بڑھتا رہا اور عالمی طاقتیں بھی محبت بھرے اسلام کے ساتھ کھل کر سازش کرتی رہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم ظلم، نفرت، شدت پسندی، فرقہ واریت، نسلی و علاقائی تعصبات اور بے اعتدالیوں سے اپنا ہاتھ روک لیں اور امن و محبت کو فروغ دیں۔ جب جہالت و زر یکجا ہو جائے تو اہل علم و شعور کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کو محبت اور امن کے ساتھ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مذہبی رواداری اور بھائی چارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ عالمی طاقتیں ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں اور ایک بہترین صالح معاشرہ قائم ہوسکے۔
تحریر: شاہد عباس ہادی
جہانِ اسلام کے فراموش شدہ موضوعات(2)
مسئلہ کشمیر پر دوسروں کو سننے اور سمجھنے کے حوالے سے تین پروگرام ہوچکے ہیں۔ سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اور صدائے کشمیر فورم کے پہلے آنلائن سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلیمن کے سیکرٹری برائے امورِ خارجہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی (ایران) نے کہا کہ ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے ہم اس مسئلے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے ساتھ دینی تعلق کے علاوہ ہمارا جغرافیائی، علاقائی اور آئندہ نسلوں کی سلامتی اور ترقی کا تعلق بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتیں جو مرضی ہے کرتی رہیں، ہمیں انسانی، اسلامی اور عوامی سطح پر اس مسئلے کے حل کیلئے آواز اٹھاتے رہنا چاہیئے۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ ہم ساری ذمہ داری حکمرانوں پر ڈال کر اپنی جان نہیں چھڑوا سکتے۔
اس سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان جمہوری اتحاد پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر حفیظ الرحمان (پاکستان) نے اس مسئلے پر اپنی پارٹی کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہٹ دھرمی اور ضد کا جواب بھی اگر ہٹ دھرمی اور ضد سے دیا جائے گا تو اس سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ انہوں مسئلہ کشمیر کے سارے فریقوں کو لچک دکھانے کا احساس دلایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، کشمیری اور ہندوستانی مساوی طور پر اس مسئلے کو اپنا ایک اہم مسئلہ تسلیم کریں اور اس کو حل کرنے کیلئے ہر طرف سے ممکنہ نرمی دکھائی جانی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے بچپن سے اب تک عالمِ اسلام اور خصوصاً اس منطقے کی جو حالت دیکھی ہے، اگر ہم وہی اپنی آئندہ نسلوں کو منتقل کرنا چاہتے ہیں تو یہ انتہائی کم فہمی اور زیادتی ہے۔
سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اور صدائے کشمیر فورم کا دوسرا آنلائن سیشن 12 نومبر2020ء کو ہوا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے معروف محقق اور کالم نگار محترم طاہر یسین طاہر (پاکستان) نے کہا کہ مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں اپنے حقیقی مسائل کی خبر ہی نہیں۔ اس موقع پر انہوں نے مسلمانوں میں پائی جانے والی نرگسیت، خود پسندی اور پدرم سلطان بود جیسی کیفیت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک تو ہمیں خواہ مخواہ کی خود پسندی اور انانیت سے پیچھا چھڑانا چاہیئے۔ اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں کہ مسلمانوں کا ماضی بہت شاندار تھا بلکہ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم نے اپنے ماضی اور اسلاف سے علم و فن میں کتنی میراث پائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام کی قدر و منزلت ان کے علم و فن کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اغیار کی اندھی تقلید سے مسلمانوں کے سیاسی و اقتصادی مسائل حل ہونے والے نہیں۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی مظلومیت کی انتہاء یہ ہے کہ آج کے جدید عہد میں وہاں میڈیا پر پابندیاں لگا کر انسانوں پر بدترین ظلم کیا جا رہا ہے اور اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ مظلومین کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مظلومیت اس وقت اپنی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے کہ جب جہانِ اسلام کے قدآور ممالک بھی کشمیریوں کے بجائے ہندوستان کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر سے بھی بڑا مسئلہ اقتصادی لالچ اور انسانی بے حسی کا مسئلہ ہے۔ ان کے مطابق ہمیں مادی و اقتصادی لالچ کے بجائے انسانی اقدار کو اجاگر کرنا چاہیئے اور عالمی برادری میں موجود بے حسی کے خاتمے کے حوالے سے سوچ بچار کرنی چاہیئے۔ اس موقع پر انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آج چین میں بھی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، ہمیں اس سے بھی آگاہ رہنا چاہیئے۔
دوسرے سیشن کے دوسرے مقرر جناب عبدالمناف غِلزئی (جرمنی) مدیر مجلہ پیغامِ نجات نے کہا کہ دینِ اسلام کو قبول کرنے کے بعد ہر مسلمان کو اپنے مسائل حل کرنے کیلئے قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی پیچیدگی کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود اس مسئلے کو غیر مسلموں کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں اور اسی طرح اس کا حل بھی چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حقیقی معنوں سے دین اسلام کی بالادستی کی قبولیت اور نفاذ میں ہی ہمارے سارے مسائل کا حل ہے۔ اگر ہم اپنے اوپر اور اپنی سوچ کے اوپر دینِ اسلام کے نفاذ کی بات نہیں کرتے تو یہ مسائل حل ہونے والے نہیں۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ یہی ہے کہ دینِ اسلام سے بڑھ کر ہمارے دکھوں کی دوا کسی اور کے پاس نہیں، لہذا ہم جتنے اسلامی تر ہوتے جائیں گے، اتنے ہی ہمارے مسائل حل ہوتے جائیں گے۔ اس سلسلے کا تیسرا سیشن 19 نومبر 2020ء کو ہوا، جس کی روداد عنقریب اگلی قسط میں بیان کی جائے گی۔
تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
عمران خان رواں ہفتہ افغانستان کا دورہ کریں گے
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان رواں ہفتہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔ افغان وزارت خآرجہ کے مطابق گذشتہ ماہ افغان صدر اشرف غنی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ٹیلیفون گفتگو ہوئی تھی جس کی بنیاد پر پاکستان کے وزیر اعظم رواں ہفتہ افغانستان کاد ورہ کریں گے۔
اس سفر میں دوطرفہ تعلقات ، دہشت گردی کی روک تھام اور افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا جائےگا ۔ ذرائع کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر میں امریکی سرپرستی میں ہونے والے معاہدے کے باوجود افغانستان میں طالبان کے حملے جاری ہیں۔
گلگت بلتستان میں انتخابات میں ووٹنگ کا سلسلہ جاری
گلگت بلتستان میں شدید سردی کے باوجود انتخابات میں ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق گلگلت اور بلتستان کے اکثر علاقوں میں آج شدید سردی ہے، بارش اور بالائی علاقوں میں برف باری ہوئی ہے، نظامِ زندگی متاثر ہے تاہم موسم خراب ہونے کے باوجود بڑی تعداد میں ووٹرز ووٹ کاسٹ کرنے پولنگ اسٹیشنز پہنچ رہے ہیں۔
گلگت بلتستان میں برفباری اور موسم شدید سرد ہونے کے باوجود پولنگ اسٹیشنز کے باہر ووٹرز کا رش ہے جبکہ شدید سردی کے باوجود خواتین بھی بڑی تعداد میں صبح سویرے ہی ووٹ ڈالنے پہنچ گئیں۔
غذر کی بالائی تحصیل پھنڈر میں بھی برفباری ہوئی ہے جس کے باعث متعدد علاقوں کی رابطہ سڑکیں متاثر ہیں، نقطۂ انجماد سے نیچے درجۂ حرارت ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کے باسی ووٹ ڈالنے کے لیے پرعزم ہیں۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کے سلسلے میں 23 نشستوں پر ووٹ ڈالنے کا عمل جاری ہے، پولنگ کا عمل بغیر وقفے کے شام 5 بجے تک جاری رہے گا۔
شام 5 بجے کے بعد جو ووٹرز پولنگ اسٹیشنز میں ہوں گے وہ اپنا ووٹ کاسٹ کر سکیں گے۔
گلگت بلتستان کے 3 ڈویژن 10 اضلاع پر مشتمل ہیں، گلگت ڈویژن میں گلگت، ہنزہ، نگر اور غذر کے اضلاع شامل ہیں، بلتستان ڈویژن اسکردو، گانچھے، شگر اور کھرمنگ کے اضلاع پر مشتمل ہے جبکہ دیامر استور ڈویژن میں 2 اضلاع دیامر اور استور شامل ہیں۔
گلگت بلتستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 7 لاکھ 45 ہزار 361 ہے، جن میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 5 ہزار 63 ہےجبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 39 ہزار 998 ہے۔
یہاں ایک لاکھ 26 ہزار 997 ووٹرز پہلی بار اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کر رہے ہیں۔
گلگت بلتستان میں پولنگ اسٹیشنز کی مجموعی تعداد 1 ہزار 260 ہے جن میں سے مردوں کے پولنگ اسٹیشنز 503 ہیں، خواتین کے پولنگ اسٹیشنر 395 ہیں، جبکہ مشترکہ پولنگ اسٹیشنر 362 ہیں۔
ان 1 ہزار 260 پولنگ اسٹیشنز میں سے 297 پولنگ اسٹیشنز کو حساس، جبکہ 280 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔
الیکشن کے دوران سیکیورٹی کے لیے 13 ہزار 481 اہلکار تعینات کیئے گئے ہیں جن میں پولیس، رینجرز اور جی بی اسکاوئٹس شامل ہیں جبکہ دیگر صوبوں کی 5 ہزار 700 اہلکاروں پر مشتمل اضافی پولیس نفری بھی الیکشن ڈیوٹی کے لیے تعینات کی گئی ہے۔سینٹرل پولیس آفس گلگت میں کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے۔
امریکہ کا میجر جنرل سلیمانی پر مجرمانہ حملہ عراقی حاکمیت کی کھلی خلاف ورزی تھا
عراق کے ایک حقوقداں طارق حرب نے اعلان کیا ہے کہ بغداد ایئر پورٹ پر شہید میجر جنرل سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس پر امریکہ کا بزدلانہ اور مجرمانہ حملہ عراقی حاکمیت اور اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی تھا۔
طارق حرب نے کہا کہ قومی حاکمیت کی حفاظت کے لئے ہر ملک کا بنیادی آئين اس کا سب سے اعلی قانونی مرجع ہوتا ہے اور اس قانون کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی ، ملکوں کی حاکمیت کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔
اس نے کہا کہ اقوام متحدہ کا منشور دنیا کے لئے بنیادی آئین کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی خلاف ورزی عالمی قوانین کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔ طارق حرب نے کہا کہ بغداد ايئر پورٹ پر شہید سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس پر امریکہ کا مجرمانہ حملہ اقوام متحدہ کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھا۔ طارق حرب نے کہا کہ امریکہ کے مجرمانہ اور ظالمانہ حملے کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ اس سے قبل عراقی پارلیمنٹ کے سکیورٹی اور دفاعی امور کے رکن ابناس المکصوصی نے عراقی وزير اعظم مصطفی الکاظمی سے کہا تھا کہ وہ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس کے بارے میں تحقیقات عراقی پارلیمنٹ میں پیش کریں۔
جہانِ اسلام کے فراموش شدہ موضوعات (1)
مسائل کسی کو پسند نہیں، اس کے باوجود انسانی زندگی اور مسائل ایک ساتھ چلتے ہیں۔ انسانی زندگی کی بقا کا انحصار مسائل کی درست شناخت اور ان کے حل پر ہے۔ جسے مسائل کی درست شناخت نہیں، وہ مسائل کے حل کیلئے کوئی ٹھوس حل بھی نہیں تجویز کر سکتا۔ یعنی بیماری کی صحیح تشخیص کے بعد ہی اس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ جہانِ اسلام کے فراموش شدہ موضوعات کی یاد آوری، ان مسائل کی صحیح تشخیص اور ان کے حل کیلئے تجاویز کے حوالے سے سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم کی آن لائن نشستیں میرے جیسے طالب علم کیلئے بہت مفید ہیں۔ یہ نشستیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ اس انسان کی حالت کیسے بہتر ہو سکتی ہے کہ جسے اپنی بیماری کا کچھ پتہ ہی نہ ہو اور وہ مختلف دوائیاں استعمال کرتا چلا جائے۔
مانا کہ ساری دوائیاں مفید ہوتی ہیں لیکن ساری دوائیاں سارے مریضوں کو نہیں کھلائی جاتیں۔ اسی طرح سیاسی و اقتصادی نیز سماجی و معاشرتی مسائل بھی جسمانی بیماریوں کی طرح مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اور ان کے حل کیلئے بھی متخصص ماہرین اور تجربہ کار دانشمندوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ کوئی بھی شخص سماجی و سیاسی اور اقتصادی مسائل کا متخصص اور ماہر اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک وہ کسی مسئلے کے تمام پہلوؤں سے آگاہ نہیں ہوتا۔ آگاہی کا یہ سفر اشتراکِ فکر، مکالمے اور مباحثے سے انجام پاتا ہے۔ ہمارے ہاں اشتراکِ فکر اور مکالمے و مباحثے کیلئے جس وسعتِ قلبی کی اشد ضرورت ہے وہ خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں مسائل کے حل کیلئے مشترکہ راہوں کی تلاش، مل کر سوچنے کی ریت، اجتماعی فعالیت، تنقید سے مثبت پہلو نکالنا، خامیوں کو اصلاح کے ساتھ دور کرنا اور فراخدلی کے ساتھ دوسرے کو اپنے پہلو میں جگہ دینا یہ سب کچھ نہ ہونے کے برابر ہے۔
اجتماعی سوچ اور آفاقی شعور کی کمی اور فقدان کے باعث ہمارے ہاں انانیت اور انفرادیت کا دور دورہ ہے۔ ظاہر ہے ایسے میں اجتماعی مفادات کو انفرادی فیصلوں پر قربان کر دینے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جہاں پر اجتماعی مفادات کو انفرادی تجزیات اور شخصی آرا کی بھینٹ چڑھا دینا معمول ہو وہاں نئے افکار کی تولید اور نئے زاویوں کی تلاش نہیں کی جا سکتی۔ ہم وہ لوگ ہیں جو نوآوری اور اختلاف رائے کا دروازہ بند کر کے اندھی تقلید کے اندھے کنویں میں چھلانگ لگا چکے ہیں۔ ہمیں نہ ہی تو مخالفت کرنے کے آداب آتے ہیں اور نہ ہی مخالفت کو برداشت کرنے کا ہنر ہمارے پاس ہے۔ پس ہمارا معاشرہ خصوصاً مشرقی معاشرہ ان دو بنیادی خوبیوں سے یکسر طور پر عاری ہے۔ یہ انٹرنیشنل فورم ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ ہم ہر صبح کو ٹرک کی ایک نئی بتی کے پیچھے کیوں دوڑنے لگتے ہیں۔ اس دوڑ میں بھی ہمیں اپنی انفرادیت اور انا کا خاص طور پر خیال رہتا ہے۔
چنانچہ اس بھیڑ چال میں بھی ہم دوسروں کو پیچھے چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اب اس بھاگم بھاگ میں ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ ہم اصل میں کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں ؟ کہاں کو دوڑ رہے ہیں؟ ہمارے پاؤں کیوں زخمی ہیں؟ ہمارے گریبان کیوں پھٹے ہوئے ہیں؟ ہم نے آستینیں کیوں چڑھا رکھی ہیں؟ ہماری بھنویں کیوں تنی ہوئی ہیں؟ ہماری ہر صبح و شام کا آغاز ایک نئی دوڑ اور ایک نئی لڑائی سے کیوں ہوتا ہے؟ ہم آخر کس قبیلے کے لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنے ہی دین کو بدنام کر دیا ہے؟ ہم آخر کس قماش کے انسان ہیں کہ جنہوں نے اپنے ہی بچوں کا حال اور مستقبل تاریک کر دیا ہے؟ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے دنیا بھر میں اتنے مسلمانوں کو قتل کیا ہے کہ جہانِ اسلام میں بیواؤں اور یتیموں کی گنتی کسی کے بس میں نہیں۔ کہنے کو تو ہم قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں لیکن ہمارے وسائل ہمارے کسی کام کے نہیں، ہمارے ہاں کپڑے سینے والی ایک سوئی کے اوپر بھی میڈ اِن جاپان لکھا ہوتا ہے۔
ہم آج بھی غیروں کیلئے بیساکھی کا کام دیتے ہیں اور ہم دل و جان راضی ہیں کہ کل کو ہماری نسلیں بھی اغیار کے شکم کا ایندھن بنیں۔ اب مسلمانوں کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو اسی بھیڑچال میں دوڑتے چلے جائیں، اپنے سوا باقی سب کو غلط، باقی سب کا منہ بند، باقی سب کی تکفیر، باقی سب باطل، باقی سب واجب القتل، باقی سب گمراہ اور یا پھر اختلافِ رائے کا دروازہ کھولیں، سطحی اور عامیانہ باتوں کی بجائے تعلیم، تحقیقات اور مطالعات کی طرف آئیں، میں، انا اور انفرادیت کے بجائے، مکالمے، اصلاح، مدد اور تکمیل کا آغاز کریں اور سب سے بڑھ کر اپنے اندر دوسروں کو سننے اور سمجھنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ دوسروں کو سننے اور سمجھنے کے حوالے سے ۔۔۔۔
رتحریر: نذر حافیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔