سلیمانی

سلیمانی

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اتوار یکم نومبر کو گلگت بلتستان کی آزادی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے جی بی کو عبوری صوبائی حیثیت اور آئینی حقوق دینے کے فیصلے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم پاکستان کا واضح لفظوں میں کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مدِنظر رکھ کر کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس فیصلے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور کیا واقعی مسئلہ کشمیر کے حل میں یہ اقدام موثر ہوگا؟ پاکستان کے پاس اس اقدام کے علاوہ کیا آپشن ہے۔؟ تاریخی طور پر گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا۔ لیکن 1948ء میں مقامی لوگوں کی مدد سے یہ پاکستان کے زیر کنٹرول آگیا۔ تقریباً 15 لاکھ آبادی کا یہ خطہ اپنے دیو مالائی حُسن، برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اور پھلوں سے لدے باغوں کی وجہ سے کسی جنت سے کم نہیں۔ حُسن کے ساتھ اس علاقے کی جعرافیائی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ اس کی سرحدیں چین، انڈیا، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں، جن میں سے تین ملک ایٹمی طاقت ہیں۔

گلگت بلتستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری کا دروازہ ہے۔ پاکستان حکومت کا گلگت بلتستان کو اس کی عوام کے دیرینہ مطالبے کے تحت عبوری صوبہ قرار دینا اسی اقتصادی راہداری کے منصوبے کو محفوظ بنانے کے لیے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبوری کس لیے جبکہ بھارت اس کے مقابلے میں مقبوضہ وادی کو اپنی ریاست میں ضم کرنے کا قانون پاس کرچکا ہے اور اس نے اس سلسلے میں مقبوضہ وادی میں اقدامات کو بھی تیز کر دیا ہے۔ بھارت کا مقبوضہ وادی میں فوجیں رکھنے اور اس کو اپنی ریاست کا حصہ قرار دینے کا قانون اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے منافی ہے۔ 14-15 اگست 1947ء کو برطانیہ سے آزادی کے بعد دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں، چھوٹی آزاد ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، مگر اس کے ہندو راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

اکتوبر 1947ء میں کشمیر میں جاری داخلی خانہ جنگی میں پاکستان سے قبائلی لشکر بھی شامل ہوگئے۔ 26 اکتوبر 1947ء کو ہندو مہاراجہ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے، تاہم یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے، کشمیر میں رائے شماری ہوگی۔ 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر میں جاری بغاوت کو کچلنے کے لیے بھارت نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں۔ کشمیر کے بہت سے علاقے مسلمانوں نے آزاد کروا لیے اور مزید ہزیمت سے بچنے کے لیے  یکم جنوری 1948ء کو بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام ِ متحدہ سے مدد مانگ لی۔ 5 فروری 1948ء کو اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا، تاکہ وہاں رائے شماری کرائی جا سکے۔ یکم جنوری 1949 کو اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا۔

اکتوبر 1950ء میں شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کیا، تاکہ ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ 30 مارچ 1951ء اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کشمیر میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرسکتی ہے، ساتھ ہی ایک نمائندہ مقرر کرنے اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا اعلان کیا، مگر اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ 17-20 اگست 1953ء کو بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان دہلی میں ملاقات ہوئی، جس میں اپریل 1954ء کے آخر تک وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر متفق ہوگئے، تاہم جیسے ہی پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات گہرے ہوئے تو بھارت نے اس مسئلے کو بھی سرد جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے رائے شماری سے انکار کر دیا۔

مارچ 1965ء کو  بھارتی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا، جس کے تحت کشمیر کو بھارت کو صوبہ قرار دیتے ہوئے بھارت کو وہاں گورنر تعینات کرنے، کشمیر میں حکومت کو برطرف کرنے اور اسے آئین سازی سے روکنے کے اختیار حاصل ہوگئے۔ 10 جنوری 1966ء کو بھارت اور پاکستان کے مابین تاشقند معاہدے پر دستخط ہوگئے، جس کے تحت دونوں ممالک اپنی اپنی افواج کو جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں پر لانے پر متفق ہوگئے۔ جولائی 1972ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا، جس میں اقوام ِ متحدہ کی فائر بندی لائن کو لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا، مزید یہ کہ اس معاہدے کی رو سے فریقین اس مسئلے کو دو طرفہ مذاکرات سے حل کریں گے۔ مارچ 1993ء میں سیاسی، سماجی اور مذہبی گروپوں پر مشتمل آل پارٹیز حریت کانفرنس نے حق خود اختیاری کا مطالبہ کیا۔ اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے آئین میں سے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا، جو کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا۔ اس طرح کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کر دیا گیا۔

اس دوران میں مقبوضہ وادی میں اپنے کنٹرول کو مستحکم کرنے کے لیے بھارت نے متعدد سیاسی اور عسکری اقدامات کیے۔ مقبوضہ وادی میں پارلیمنٹ کا قیام وہاں انتخابات کا انعقاد، کٹھ پتلی حکمرانوں کی تعیناتی، آبادی کی منتقلی، جبر و تشدد، گرفتاریاں، ماورائے عدالت قتل، خواتین کی بے حرمتی کونسا ایسا حربہ ہے جو بھارتی ریاست نے مسئلہ کشمیر کو دبانے کے لیے نہیں اپنایا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے آزاد کشمیر کے انتظامات کو چلانے کے لیے وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کا اعلان کیا، جبکہ گلگت اور بلتستان کے علاقہ میں سٹیٹ سبجیکٹ رول اور اسی طرح کے قوانین کے تحت نظام چلایا جاتا رہا۔ گلگت بلتستان کی مقامی آبادی کا ہمیشہ سے ہی مطالبہ رہا کہ پاکستان باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کے ساتھ الحاق کرکے اسے مستقل طور پر پاکستان میں ضم کر لے، چونکہ اس خطے کے عوام نے ڈوگرہ افواج سے باقاعدہ جنگ لڑ کر اس علاقے کو آزاد کروایا تھا۔

کشمیری گلگت بلتستان کے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان متنازع علاقے کا حصہ ہے اور اسے اس وقت تک ایسا ہی رہنا چاہیئے، جب تک کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، حالانکہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں گلگت بلتستان کو نمائندگی حاصل نہیں ہے۔ کشمیری سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں کسی بھی استصواب رائے میں کشمیر کی آزادی کی آواز اسی صورت زیادہ موثر ہوگی، جب اس میں گلگت بلتستان کے عوام کی حمایت بھی شامل ہو۔ شاید اسی لیے پاکستان ماضی میں مقامی آبادی کے پُرزور مطالبے کے باوجود گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو بدلنے سے کتراتا رہا ہے۔ آج جبکہ حکومت پاکستان نے ملک کی سلامتی اور مفادات کے مدنظر یہ فیصلہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا جائے اور مقامی لوگوں کے تحفظات کا ازالہ ہو، ساتھ ہی یہ کوشش کی گئی ہے کہ عبوری کے لفظ سے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر کم سے کم نقصان پہنچے۔

یہاں یہ سوال قابل ذکر ہے کہ عبوری صوبے کی حیثیت کیا پاکستان کے دیگر صوبوں جیسی ہوگی یا کچھ فرق ہوگا۔ کل یعنی اتوار کا روز گلگت بلتستان کی تاریخ میں اہم ہے، جب اس خطے میں پہلی صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ ان انتخابات میں جو قوت بھی برسر اقتدار آتی ہے، اہم مسئلہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کیا ہوگا۔؟ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا موجودہ حیثیت کو ہی اس مسئلہ کا عملی حل سمجھا جائے، یعنی مقبوضہ وادی پر بھارت کا تسلط ہو اور آزاد کشمیر ایک نیم خود مختار ریاست کے طور پر کام کرے نیز گلگت بلتستان پاکستان میں ضم ہو کر اس کا صوبہ قرار پائیں۔ میرے خیال میں یہ سب عارضی حل ہیں، مسئلہ کشمیر کا حقیقی حل استصواب رائے ہی ہے۔ اگر مقبوضہ وادی میں آبادی کا حق ہے کہ وہ پاکستان یا بھارت سے اپنے الحاق کا فیصلہ کریں، اسی طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں۔

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے یہ فیصلہ عوامی انتخابات میں شرکت اور عملی سیاست کا حصہ بن کر دے دیا ہے۔ رہا سوال مقبوضہ وادی کا تو اقوام عالم کے سامنے عیاں ہے کہ وہاں ظلم و استبداد اور کرفیو کے سائے میں حکومتیں قائم کی گئیں جبکہ وہاں کی اکثریت آزادی مانگ رہی ہے۔ ہمیں اس وقت کے لیے کوشش کرنی ہے کہ مقبوضہ وادی کے لوگ بھی بزور بازو اپنی آزادی بھارت سے چھین لیں۔ جہاں تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کا سوال ہے تو وہ ریکارڈ کے طور پر رکھنے کے لیے بہترین ہیں، ان سے بہرحال پاکستان

کے موقف کو ہی اخلاقی برتری حاصل ہوتی ہے۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ بھارت ایل او سی کی خلاف ورزی کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوامی انتخابات اور اس میں عوام کی بھرپور اور پرجوش شمولیت کو نہیں چھپا سکتا۔

تحریر: سید اسد عباس

《1》?آپ (ص) چلتے وقت آرام اور وقار کے ساتھ چلتے تھے۔
《2》?راہ چلتے وقت اپنے قدموں کو متکبروں کی طرح زمین پر نہیں رکھتے تھے۔
《3》?آپ کی نگاہ ہمیشہ نیچی ہوتی تھی۔
《4》?جس سے بھی ملتے سلام کرنے میں پہل کرتے۔۔ کوئی بھی آپ پر سلام کرنے میں سبقت نہیں لے سکا۔
《5》?جب کسی سے ہاتھ ملاتے تو اپنے ہاتھ کو دوسرے سے پہلے نہیں کھینچتے تھے۔
《6》?آپ کا لوگوں کے ساتھ برتاو اس طرح سے تھا کہ ہر شخص خود کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سب سے زیادہ عزت والا خیال کرتا تھا۔
《7》?جب بھی کسی کی طرف نگاہ کرتے تھے تو حکمرانوں کی طرح ٹیڑھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔
《8》?لوگوں کی طرف ہرگز نظر جما کر نہیں دیکھتے تھے۔
《9》?جب اشارہ فرماتے تو ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے، نہ آبروں اور آنکھوں سے۔
《10》?طولانی سکوت کے مالک تھے، ضرورت کے بغیر لبوں کو جنبش تک نہیں دیتے تھے۔

《11》? جب بھی کسی سے گفتگو کرتے تو اس کی باتوں کو غور سےسنتے تھے۔
《12》?کسی سے بات کرتے وقت مکمل طور پر اس کی طرف رخ کرکے کھڑے ہو جاتے تھے۔
《13》?جب بھی کسی کے ساتھ بیٹھ جاتے؛ جب تک سامنے والا کھڑا نہیں ہوتا بیٹھے رہتے تھے۔
《14》?آپ کا اٹھنا بیٹھنا کسی بھی مجلس میں یاد خدا کے ساتھ ہوتا تھا۔
《15》?کسی بھی مجلس میں جب تشریف لاتے تو دروازے کے پاس آخر میں بیٹھ جاتے تھے، نہ صدر مجلس میں۔
《16》?مجلس میں اپنے لئے کوئی جگہ مخصوص نہیں کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس سے منع فرماتے تھے۔
《17》?لوگوں کی موجودگی میں ٹیک نہیں لگاتے تھے۔
《18》?اکثر روبہ قبلہ ہوکر بیٹھ جاتے تھے۔
《19》?جب بھی آپ کے سامنے کوئی ناپسندہ کام پیش آتا تو اس سے صرف نظر کرتے تھے۔
 《20》?اگر کسی سے کوئی خطا سرزد ہوتی تو اسے دوسروں میں برملا نہیں کرتے تھے۔

《21》?اگر کسی سے گفتگو میں لغزش اور خطا ہو جاتی تو باز پرس (پکڑ) نہیں کرتے تھے۔
《22》? کسی سے بالکل بحث و جھگڑا نہیں کرتے تھے۔
《23》?باطل اور بےہودہ باتوں کے علاوہ کسی کی بات کو قطع نہیں کرتے تھے۔
《24》?سوال کے جواب کو کئی بار تکرار کیا کرتے تھے، تاکہ سننے والے کو جواب مشتبہ نہ ہو جائے۔
《25》?جب کسی سے کوئی غلط بات سنتے تو یہ نہیں فرماتے تھے کہ فلانی کیوں اس طرح کی بات کرتا ہے، بلکہ فرماتے تھے کہ کچھ لوگوں کو کیا ہوتا ہے کہ اس طرح کی بات کرتے ہیں۔؟؟
《26》?فقیروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا زیادہ تھا اور ان کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے۔
《27》?غلاموں کی دعوت کو قبول کرتے تھے۔
《28》?ہدیہ قبول کرتے تھے، اگرچہ ایک گھونٹ دودھ ہی کیوں نہ ہو۔
《29》?ہر چیز سے پہلے صلہ رحمی انجام دیتے تھے۔
《30》?اپنے رشتہ داروں کے ساتھ احسان کیا کرتے تھے، دوسروں پر ترجیح دیئے بغیر۔

《31》?آپ کی گفتگو گہری، جامع معانی اور مختصر الفاظ کے ساتھ ہوتی تھی۔
《32》?جو چیز لوگوں کے دین و دنیا کے نفع میں ہوتی، وہ کہہ دیا کرتے تھے اور تکرار کے ساتھ فرماتے تھے کہ جو حاضرین مجھ سے سن لیتے ہیں، وہ غیر حاضر افراد تک پہنچائیں۔
《33》?جب بھی کوئی معذرت کرتا، اسے معاف فرماتے تھے۔
《34》?کبھی کسی کو حقیر نہیں سمجھتے تھے۔
《35》?کبھی کسی کو گالی نہیں دی اور نہ ہی ناشائستہ ناموں کے ذریعے پکارتے تھے۔
《36》?کبھی اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں پر نفرین نہیں کی۔
《37》?لوگوں کے عیب تلاش نہیں کرتے تھے۔
《38》?لوگوں کے شر سے بچ کے رہتے تھے، لیکن ان سے کنارہ کشی بھی اختیار نہیں کرتے تھے۔ سب کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔
《39》?ہرگز نہ لوگوں کی مذمت کرتے اور نہ ہی بہت زیادہ تعریف کرتے تھے۔
《40》?لوگوں کی جسارت پر صبر فرماتے تھے اور بدی کے بدلے نیکی سے جواب دیتے تھے۔

《41》?مریضوں کی عیادت کیا کرتے تھے، گرچہ مدینے کی دورترین جگہ پر ہوں۔
《42》?اصحاب کی خبر گیری کرتے تھے اور ہمیشہ ان کے احوال جاننا چاہتے تھے۔
《43》?اصحاب کو بہترین نام سے پکارتے تھے۔
《44》?اپنے کاموں سے متعلق اصحاب سے کثرت سے مشورہ کرتے تھے اور اس بات پر تاکید فرماتے تھے۔
《45》?اصحاب کے ساتھ دائرہ کی شکل میں بیٹھ جاتے تھے، اگر کوئی ناواقف آتا تو پتہ نہیں چلتا تھا کہ پیغمبر ان میں سے کون ہیں۔
《46》?اصحاب کے درمیان انس و محبت پیدا کرتے تھے۔
《47》?عہد و پیمان میں انتہائی باوفا انسان تھے۔
《48》?جب بھی کسی فقیر کو کوئی چیز دینا چاہتے تو اپنے ہاتھ سے دیتے تھے، کسی کے حوالے نہیں کرتے تھے۔
《49》?جب نماز کی حالت میں کوئی آپ کے پاس آتا تو نماز کو مختصر کرتے تھے۔
《50》?جب آپ نماز میں ہوتے اور کوئی بچہ گریہ کرتا تو اپنی نماز کو مختصر کیا کرتے تھے۔

《51》?آپ کے پاس عزیز ترین انسان وہ تھا، جس کی خیر سب سے زیادہ دوسروں تک پہنچتی۔
《52》?کوئی بھی آپ سے ناامید نہیں ہوتا تھا، ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ان لوگوں کی حاجت مجھ تک پہنچائیں، جو اپنی حاجت مجھ تک نہیں پہنچا سکتے۔
《53》?جب بھی کوئی آپ سے حاجت طلب کرتا تھا تو حتی المقدور اس کی حاجت کو پورا کر دیتے تھے، ورنہ خوش زبانی اور نیک وعدہ دے کر راضی کرتے تھے۔
《54》?کسی کی درخواست کو رد نہیں فرناتے تھے، جب تک گناہ کے لئے نہ ہو۔
《55》?بزرگوں کا بہت احترام کرتے تھے اور بچوں کے ساتھ نہایت مہربان تھے۔
《56》?غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔
《57》?شرپسندوں کے ساتھ نیکی کرکے ان کے دل جیت کر اپنی طرف جذب کرتے تھے۔
《58》?ہمیشہ لبوں پر تبسم اور ساتھ ساتھ دل میں بےانتہا خوف خدا ہوتا تھا۔
《59》?جب خوش ہوتے تھے تو آنکھیں بند کرتے تھے اور بہت زیادہ خوشحالی کا اظہار نہیں فرماتے تھے۔
《60》?آپ کا اکثر ہنسنا تبسم تھا اور ہنسنے کی آواز بلند نہیں ہوتی تھی۔

《61》?مزاح کرتے تھے لیکن ہنسی مزاح کے بہانے بےہودہ باتیں نہیں کرتے تھے۔
《62》?برے ناموں کو تبدیل کرکے اچھے نام رکھتے تھے۔
《63》?آپ کی برداشت ہمیشہ غصے پر سبقت لیتی تھی۔
《64》?دنیوی کام نہ ہونے پر ناراحت نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی مغموم ہوتے تھے۔
《65》?خدا کی خاطر اس طرح غضبناک ہوتے تھے کہ گویا کسی کو نہیں جانتے۔
《66》?اپنی خاطر کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، مگر یہ کہ حریم حق پامال کرے۔
《67》?آپ کے نزدیک جھوٹ سے زیادہ منفور ترین خصلت کوئی چیز نہیں تھی۔
《68》?خوشحالی اور غضب دونوں وقت یاد خدا کے علاوہ زبان پر کچھ نہیں ہوتا تھا۔
《69》?ہرگز اپنے لیے درھم و دینار جمع نہیں کیا۔
《70》?اپنےغلاموں سے زیادہ کھانے پینے کی اشیاء نہیں رکھتے تھے۔

《71》?زمین پر بیٹھتے تھے اور زمین پر کھانا کھاتے تھے۔
《72》?اور زمین پر ہی سوتے تھے۔
《73》? اپنی جوتی اور کپڑوں پر خود پیوند لگاتے تھے۔
《74》?اپنے ہاتھوں سے دودھ دوھوتے تھے اور اونٹ کے پیروں کو خود باندھتے تھے۔
《75》?جو بھی سواری مہیا ہوتی سوار ہوتے تھے۔
《76》?جہاں بھی تشریف لے جاتے، اپنی عبا کو بچھونا اور فرش کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
《77》?اکثر آپ کا لباس سفید ہوتا تھا۔
《78》?جب نیا لباس خریدتے تو پرانا کسی مسکین کو بخش دیتے تھے۔
《79》?قیمتی لباس روز جمعہ کے لئے مخصوص تھا۔
《80》?جوتی اور لباس پہنتے وقت دائیں سے شروع کرتے تھے۔

《81》?پریشان بالوں کو ناپسند کرتے تھے۔
《82》?بدبو سے بہت نفرت کرتے تھے۔
《83》?ہمیشہ خوشبو لگاتے تھے اور آپ سب سے زیادہ خوشبو کی خرید پر خرچ کرتے تھے۔
《84》?ہمیشہ باوضو ہوتے تھے اور وضو کرتے وقت مسواک کیا کرتے تھے۔
《85》?ہر ماہ کی 13، 14 اور  15تاریخ کو روزہ رکھتے تھے۔
《86》?ہرگز کبھی کسی نعمت کی مذمت نہیں کی۔
《87》?خدا کی چھوٹی سی نعمت کو بھی بڑا گردانتے تھے۔
《88》?نہ کبھی کسی غذا کی تعریف کی اور نہ ہی برائی کی۔
《89》?کھانے میں کسی بھی چیز کو حاضر کرتے تو تناول فرماتے تھے۔
《90》?سفرہ (دسترخوان) سے اپنے سامنے سے تناول فرماتے تھے۔

《91》?کھانے کے موقع پر سب سے پہلے حاضر ہوتے تھے اور سب سے آخر میں ہاتھ کھینچتے تھے۔
《92》?جب تک بھوک نہیں لگتی تھی، کھانا میل نہیں فرماتے تھے اور کچھ لقمے کھانے کی خواہش ہوتے ہوئے ترک کر دیتے تھے۔
《93》?آپ نے کبھی دو قسم کے کھانے کو اپنے معدے میں جمع نہیں کیا۔
《94》?کھانے کے دوران کبھی ڈکار نہیں لیا۔
《95》?جب تک ممکن تھا، اکیلے کھانا تناول نہیں فرمایا۔
《96》?کھانے کے بعد ہاتھوں کو دھوتے تھے اور پیٹ کے بل لیٹا کرتے تھے۔
《97》?پانی پیتے وقت تین گھونٹ میں پیتے تھے، پہلے بسم اللہ اور آخر میں الحمدللہ پڑھتے تھے۔
《98》?پردہ نشین دوشیزاوں سے بھی زیادہ باحیاء تھے۔
《99》?جب گھر میں داخل ہونا چاہتے تھے تو تین بار اجازت لیتے تھے۔
《100》?گھر کے داخلی اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے:
 الف: ایک حصہ خدا کی عبادت کے لئے۔
 ب: ایک حصہ گھر والوں کے لئے۔
 ج: ایک حصہ اپنے لئے اور اپنے حصے کا وقت لوگوں کو بھی دیتے تھے۔
□•••□•••□•••□•••□•••□•••□•••□
حوالہ جات
کتاب منتھی الامال، محدث قمی
کتاب مکارم الاخلاق، مرحوم طبرسی
پیشکش!! الھدی اسلامی تحقیقاتی مرکز
✨✨✨✨✨✨✨✨✨

ترجمہ و ترتیب: محمد علی شریفی 

 لبنانی مزاحمتی فورس حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے امریکہ کے ہاتھوں جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر پیشینگوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ دوسرے صدارتی دور میں حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور یہ خطہ امریکیوں کے وجود سے پاک ہو جائے گا جس کا پہلا حصہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست سے مکمل ہو گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سید مقاومت نے جاری سال کی ابتداء میں امریکی ہوائی حملے کے اندر ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس اور رفقاء کے ہمراہ ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے ردعمل میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ اور اس کی حکومت جان چکی ہے کہ نہ صرف یہ خطہ بلکہ اگلے (امریکی صدارتی) انتخابات بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔

سربراہ حزب اللہ لبنان نے تاکید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ ہدف حاصل ہو گیا جو ان شاء اللہ ضرور حاصل ہو گا؛ تو قدس کی آزادی بھی پتھر پھینکنے کے برابر فاصلے پر باقی رہ جائے گی۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے خطے سے امریکی انخلاء پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب امریکہ ہمارے خطے سے نکل جائے گا تو یہ صیہونی بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر اس کے پیچھے خطے سے نکل جائیں گے اور یوں ممکن ہے کہ ہمیں اسرائیل کے ساتھ جنگ لڑنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے!!
 

 رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پیغمبر رحمت حضرت محمد مصطفی (ص) اور آپکے فرزند حضرت امام جعفر صادق (ع) کی ولادت باسعادت اور ہفتہ وحدت کی مناسبت سے آج بروز منگل عوام سے براہ راست خطاب میں اس مناسبت اور مبارک ایام کی مبارکباد پیش کی۔

آپ نے قرآن مجید کی آیۂ مبارکہ کی روشنی میں حضرت پیغمبر اسلام (ص) کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت (ص) امت پر مہربان اور انکے ہمدرد تھے اور انسانیت کی بھلائی چاہتے ہیں اور آج کا معاشرہ اسی آیت کا مخاطب ہے اور موجودہ انسانی معاشرے کی صورتحال پر یہ جملہ صادق آتا ہے۔ اس لئے کہ معاشرہ گوناگوں مسائل و مشکلات سے دوچار ہے، نا انصافی اور عدم مساوات عروج پر ہے، ہر چند کہ جدید ٹیکنالوجی بھی اس معاشرے میں ہے تاہم ان اس ٹیکنالوجی کو انسانوں کو کچلنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے 4 عشرے قبل ہفتہ وحدت کا اعلان کیا تھا اور ہفتہ وحدت  کی اہمیت اب ہر وقت سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ فرعون مصر کی قلمرو میں ظلم و ستم کرتا تھا تاہم امریکہ جو موجودہ دور کا فرعون  ہے وہ دیگر ممالک میں ظلم کرتا ہے اور ظلم کی آگ بھڑکاتا ہے۔ اسی طرح طاغوتی طاقتیں انسانوں کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکا رہی ہیں۔

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے سورہ برائت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ  دشمن، سامراج اور صہیونزم ہیں اور فرانس میں جو المناک اور گھناونا واقعہ رونما ہوا وہ صرف ایک کارٹونسٹ کا اقدام نہیں تھا، اور جو گستاخانہ خاکوں سے پیغمبراکرم حضرت محمد (ص) کی شان اقدس میں گستاخی کی اور جرم کیا اس کے پیچھے بہت سے ہاتھ کارفرما تھے۔

آپ نے فرمایا کہ اس گستاخانہ کارٹون کے دفاع میں ایک ملک کا صدر کھڑا ہوتا ہے اور کئی دوسرے ممالک بھی اس کی حمایت کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب جان بوجھ کر اور ایک سازش کے تحت کیا جا رہا ہے اور فرانس کی حکومت اس کے ساتھ ہے۔

آپ نے چارلی ہیبڈو میگرین کیجانب سے نشر کیے گئے گستاخانہ خاکوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سامراجیت اور ناجائز صہیونی کیجانب سے اسلام کیخلاف تازہ ترین مقابلہ گزشتہ ہفتے کے دوران پیرس میں ہوا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اس اقدام کو صرف کسی فنکار کیجانب سے غلطی نہیں قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اچانک ملک کے صدر اس فنکار کی حمایت کرتا ہے اور دوسرے ممالک بھی اس کی حمایت کرتے ہیں تو اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس اقدام کے پیچھے کوئی تنظیم ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ البتہ آج امت مسلمہ سخت غم و غصے اور احتجاج سے بھری ہوئی ہے؛ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے زندہ ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ فرانسیسی حکومت اس مسئلے کو اظہار رائے کی آزادی سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہے یہ فرانسیسی حکومت اب کس طرح کی حکومت ہے؟ یہ کیا پالیسی ہے؟ یہ وہ پالیسی ہے جس نے دنیا کے سب سے زیادہ متشدد اور وحشی دہشت گردوں کو پناہ دی ہے؛ یعنی وہ دہشت گرد جنہوں نے ہمارے ملک میں صدر، وزیر اعظم اور عدلیہ کے سربراہ کو شہید کیا اور اس کے ساتھ ساتھ 17 ہزار عوامی لوگ کو بھی گلی کوچوں میں شہید کر دیا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ میرا یقین ہے کہ یہ سب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں یعنی کسی کارٹونسٹ کے مجرمانہ فعل کا دفاع، صدام اور منافقین کے دفاع کے برابر ہے اور ان جیسے واقعات حالیہ سالوں میں امریکہ اور یورپ میں دہرائے گئے ہیں۔

آپ نے مزید فرمایا کہ مغرب کے ان جیسے اقدامات سے اسلام اور پیغمبر اکرم (ص) کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا؛ لیکن آپ اور میرے لئے اس تہذیب کو بہتر سے جاننے کا ایک ذریعہ ہے؛ یہ تہذیب واقعی معنی میں ایک وحشی تہذیب ہے۔

آپ نے علاقے قرہ باغ میں حالیہ تنازعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری دو پڑوسیوں کے درمیان حالیہ جنگ ایک تلخ واقعہ ہے جس کو جلد از جلد خاتمہ دینا چاہیے۔

آپ نے فرمایا کہ آذربائیجان کے اراضی پر قبضے کا خاتمہ دینا ہوگا اور ارمنی برادری کی سلامتی کا تحفظ کرنا ہوگا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی سرحدوں پر جارحیت نہیں کرنی چاہیے اور اگر کوئی دہشتگرد ہماری سرحدوں کے قریب ہوجائے تو ہم اس کیخلاف سخت کاروائی کریں گے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکی حکومت شدید سیاسی اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اور یہ میرا تجزیہ نہیں بلکہ خود امریکہ کے مصنفین اور مفکرین ہی کے الفاظ ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ امریکی حکومت کوئی زیادہ دیر تک نہیں چل پائے گی اور وائٹ ہاوس میں کوئی بھی اگر بر سرکار آئے پھر بھی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

فغانستان کی حکومت نے کابل یونیورسٹی میں خودکش حملے اور فائرنگ میں جاں بحق ہونے والوں کے اہلخانہ سےاظہار ہمدردی کرتے ہوئے آج عام سوگ کا اعلان کیا ہے۔ عام سوگ کے موقع پر افغانستان کا پرچم سرنگوں رہے گا۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کا کہنا تھا کہ ‘کابل یونیورسٹی حملے میں تین افراد ملوث تھے، ان میں سے ایک نے شروع میں ہی خود کو اڑا دیا جبکہ دیگر دو حملہ آوروں کو سیکیورٹی فورسز نے نشانہ بنایا۔

افغان نیوز ایجنسی طلوع کی رپورٹ کے مطابق ‘حملہ آوروں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان 6 گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا تاہم فورسز نے تینوں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سمیت سیاسی اور مذھبی رہنماوں نے پیر کو ہونے والے اس دہشتگردانہ حملے کی مذمت کی۔

واضح رہے کہ کابل میں 10 روز کے اندر تعلیمی ادارے میں یہ دوسرا حملہ ہے، ایک ہفتہ قبل ایک تربیتی سینٹر میں خود کش دھماکہ ہوا تھا جہاں 30 سے زائد عام شہری جاں بحق ہوئے تھے۔

ادھر طالبان کا کہنا تھا کہ اس حملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن حالیہ عرصے کے دوران شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے تعلیمی اداروں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

گذشتہ سے پیوستہ
رسول خدا نے توحید اور اسلام کا پیغام معاشرے میں پیش کیا تو جو رکاوٹیں فوری طور پر سامنے آئیں، ان میں قومی اور قبائلی تعصبات سب سے نمایاں تھے۔ قبائل اور حسب و نسب پر فخر کیا جاتا ہے اور دوسروں کو اسی بنا پر ذلیل، کمزور اور کمتر تصور کیا جانا۔ قرآن نے اسی تعصب کو ختم کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے سب سے زیادہ خدا کے قریب وہ ہے، جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یعنی قرآن نے ذات، قبیلہ، حسب و نسب کو نظرانداز کرتے ہوئے تقویٰ کو عزت و شرف کا معیار قرار دیا۔ رسول خدا نے ایک سیاہ فام حبشی بلال کو اپنا موذن بنا کر رنگ و نسل کے تعصب کو ختم کر دیا۔ سلمان فارسی جو فارس سے گئے ہوئے تھے، ان کو اپنے اہلبیت سے قرار دیا۔

کہتے ہیں کہ ایک بار سلمان فارسی مسلمانوں کے ایک گروہ میں بیٹھے تھے کہ وہاں موجود مختلف افراد اپنے قبائل اور حسب و نسب پر فخر کرتے ہوئے اپنا تعارف کرا رہے تھے، لیکن جب سلمان فارسی کی باری آئی تو آپ نے سب کو مخاطب ہو کر کہا میرا نام سلمان ہے اور میں خدا کے بندے کا فرزند ہوں۔ میں گمراہ تھا، محمد کے وسیلے سے میری رہنمائی ہوئی۔ میں فقیر تھا، محمد کے وسیلے سے بے نیاز ہوا۔ میں غلام تھا، محمد کے ذریعے آزاد ہوا، یہ میرا حسب و نسب ہے۔ جب یہ بات رسول خدا کے پاس پہنچی تو آپ نے سلمان کی باتوں کی تائید کی اور دوسروں کو قبیلے، ذات پات اور رنک و نسل کے تعصیبات سے منع فرمایا۔ آپ نے دین، تقویٰ، حریت، اخلاق اور عقل و فہم کو عظمت اور برتری کا معیار قرار دیا۔ اسلامی وحدت کے لیے معاشرے کے تمام افراد کو مثالی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشروں سے جاہلانہ رسم و رواج اور نسل پرستی، قبیلہ پرستی اور اس طرح کے تعصبات کو ختم کرنا ہوگا۔ عدل و انصاف اور تقویٰ و پرہیزگاری نیز ایمان قوی کو عزت و وقار اور عظمت کا معیار قرار دینا ہوگا۔

رسول خدا نے مدنی زندگی میں غلاموں کو آزاد کرکے، فقیروں اور غریبوں کو اہمیت دے کر اور تقویٰ و پرہیزگاری کو معیار قرار دے کر مدنی معاشرے میں بنیادی اصطلاحات لائیں۔ آپ نے اپنے عمل و کردار سے مساوات، عدل و انصاف اور قبائلی و نسلی تعصبات کو ختم کیا۔ آپ عام لوگوں جیسا لباس پہنتے، عام افراد کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ جب آپ کسی اجتماع میں بیٹھے ہوتے تو باہر سے آنے والے کو فوری طور پر اس بات کا احساس نہیں ہوتا تھا کہ ان میں رسول خدا کون سے ہیں۔ آپ کو بھی کسی نے فاخر اور قیمتی لباس میں نہیں دیکھا۔ آپ غلاموں اور فقیروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیتے، معمولی سواری پر سوار ہو جاتے، رسول خدا کے ان اقدامات کی وجہ سے مدنی معاشرے میں اس حد تک تبدیلی آگئی تھی کہ ایک بار ایک امیر شخص رسول خدا کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک غریب شخص وہاں آیا۔ اس غریب شخص کو دیکھ کر امیر شخص نے اپنا قیمتی لباس سمیٹ لیا اور غریب سے دور بیٹھنے کی کوشش کی۔

رسول خدا پر اس امیر شخص کا یہ عمل گراں گزرا اور آپ نے امیر شخص کا مواخذہ کیا۔ امیر شخص اس قدر شرمندہ ہوا کہ اس نے اپنے تمام سرمائے میں سے نصف اس غریب اور فقیر انسان کو دے دیا۔ غریب نے امیر کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور کہا کہ مجھے خوف آتا ہے کہ ممکن ہے کہ کل میں بھی امیر ہونے کے بعد اس طرح کے فخر و مباہات کو شکار ہو کر غریبوں اور محروموں سے دو ہونے کی کوشش نہ کروں۔ رسول خدا نے اپنے عمل و کردار سے مدنیہ منورہ کے معاشرے میں عدل و انصاف، برابری اور ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کا ایسا سبق دیا کہ مدینہ کے معاشرے میں بنیادی تبدیلی آگئی اور زندگی اور عزت و شرف کے معیارات بدل گئے۔ آقا اور غلام، غریب اور امیر غرض معاشرے کا ہر فرد دوسرے کو اپنا بھائی اور دوست سجھنے لگا اور معاشرہ عدل و انصاف اور برابری و مساوات کے حقیقی مظہر میں تبدیل ہوگیا۔

رسول خدا جب مدینہ میں داخل ہوئے تو آپ نے سب سے پہلے بنیادی سماجی تبدیلیاں پیدا کیں، سب سے پہلے مرکز کی مضبوطی اور حکومتی ڈھانچے کی تشکیل کو برابری اور مساوات پر استوار کیا اور ارشاد فرمایا کہ حاکمان اسی کی اطاعت کریں، ان کی بات کو اہمیت دیں، کیونکہ رہبریت کی اطاعت امت مسلمہ کے درمیان وحدت کا باعث ہے۔ رسول خدا نے مدینہ میں داخل ہونے کے بعد جو اہم اقدامات انجام دیئے، ان میں قبائل کا باہمی معاہدوں کا ازسرنو جائزہ اور ان پر عمل درآمد تھا۔ ان معاہدوں کی وجہ سے مدینہ اور اس کے اردگرد رہنے والے قبائل میں باہمی اتحاد کی صورتحال پیدا ہوئی۔ اسی طرح انصار و مہاجرین کے درمیان معاہدوں کے بعد مدینہ گویا باہر سے حملہ آور دیگر قبائل کے خلاف ایک متحدہ قوت میں تبدیل ہوگیا۔ ان معاہدوں سے مسلمانوں کو یہ فائدہ پہنچا کہ مدینہ کے مختلف قبائل مشرکین قریش کے مقابلے میں بھی ہم پیماں ہوگئے اور مسلمان مشرکین مکہ کے ایک بڑے خطرے کے مقابلے میں محفوظ ہوگئے۔ البتہ ان معاہدوں کے باوجود بعض یہودیوں نے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی، جن کو بعد میں اس عہد شکنی کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔

رسول خدا نے مدینہ میں داخل ہونے کے بعد انصار اور مہاجرین کے درمیان اخوت و برادری کے معاہدے کئے، جس کی روشنی میں ہر مہاجر کو ایک انصار کا بھائی بنا دیا گیا۔ مہاجر اور انصار کے اس بھائی چارے کی بنیاد سے جہاں مہاجرین کی مالی و سماجی مشکلات حل ہوگئیں، وہاں معاشرے میں اتحاد و وحدت میں اضافہ ہوا۔ رسول خدا نے مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام میں معاشرے کو اتحاد و وحدت کی لڑی میں پرو دیا اور مدینہ منورہ میں اپنائے گئے آپ کے مختلف اقدامات بھی اسلامی معاشروں میں اتحاد و یکجہتی پیدا کرنے کے لیے آج بھی بہترین آئیڈیل اور مثالی نمونے ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کے درمیان اخوت و برادری کے سلسلہ کو جاری کرکے مسلمانوں کو یہ دعوت دی کہ "یداللہ مع الجماعت" یعنی اللہ کا ہاتھ جماعت اور اتحاد و وحدت پر ہے اور شیطان اس کے ساتھ ہے، جو جماعت، اجتماع اور اتحاد و وحدت کے خلاف ہے۔ آپ کو مدینہ منورہ میں اتحاد و وحدت کا عملی نمونہ اور اتحاد و وحدت مختلف اقدامات تمام مسلمان امت اور اسلامی رہنمائوں کے لیے مثالی نمونہ ہیں۔ آپ کی سیرت پر عمل کرکے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
 

تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰﷺ کے زیراہتمام لاہور میں جامعہ عروۃ الوثقیٰ میں کانفرنس بعنوان ’’وحدتِ اُمت و میراثِ نبوت‘‘ منعقد ہوئی، جس میں ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء نے شرکت کی۔ کانفرنس کی صدارت تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد حسین نقوی نے کی۔ کانفرنس میں قبلہ ڈاکٹر ایاز سربراہ اسلامی نظریاتی کونسل، مولانا محمد خان شیرانی کوئٹہ، علامہ محمد امین شہیدی، خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ کوٹ مٹھن شریف، علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، صاحبزادہ سلطان احمد علی (سلطان باہو)، خرم نواز گنڈاپور، پروفیسر ظفر اللہ شفیق، ڈاکٹر عطاء الرحمن، لیاقت بلوچ، علامہ جواد ہادی، علامہ افتخار نقوی، مفتی گلزار نعیمی، پیر ہارون گیلانی، مفتی رمضان سیالوی، پیر معصوم شاہ نقوی، سابق کرکٹر محمد مشتاق، بلال قطب و دیگر نے شرکت کی۔

کانفرنس سے خطابات میں تمام علماء نے امت کو  کو یکجہتی کا پیغام دیا اور فرقہ واریت پھیلانے والے تمام عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار کیا۔ تمام علماء نے اکٹھے نماز مغرب ادا کرکے اسلام کے دشمن کو ایک زبردست پیغام دیا کہ امت متحد ہے اور دشمن کی تمام سازشیں خاک میں مل چکی ہیں۔ علمائے کرام کا کہنا تھا کہ اسلام دشمن تفرقے کو ہوا دے کر اتحاد امت میں دراڑیں ڈال رہے ہیں، اس حوالے سے امت کو بیداری کا ثبوت دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کانفرنسوں کا انعقاد وقت کی ضرورت تھا، جس کا انعقاد کرکے علامہ سید جواد نقوی نے اسلام کی سربلندی کیلئے عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ علمائے کرام نے کہا کہ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت دراصل امت مسلمہ کا ٹیسٹ کیس ہے، دشمن دیکھنا چاہتا ہے کہ امت میں روح محمدی باقی ہے یا ختم ہوگئی ہے۔ علمائے کرام کا کہنا تھا کہ فرانس سمیت تمام دشمنان محمد جان لیں کہ ہم حرمت رسول کیلئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔

کانفرنس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان فرانس کیساتھ سفارتی بائیکاٹ کرے اور پاکستانی عوام فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو شیعہ سنی کی تفریق سے نکل کر اسلام کیلئے سوچنا ہوگا، ماضی میں ہم نے شیعہ سنی کی لڑائی سے بہت نقصان اٹھا لیا، اب مزید پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ اپنی صفوں سے شرپسندوں کو نکال باہر کریں، تکفیریوں سے اظہار برات کا یہی موقع ہے، ہمیں کسی شرپسند کے دباو میں نہیں آنا چاہیئے بلکہ یہ تکفیری، ناصبی اور غالی اسلام کے دشمن ہیں، یہ شیعہ ہیں نہ ہی سنی بلکہ یہ استعمار کے وہ ایجنٹ ہیں، جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

معرفت یعنی درست شناخت (سچائی پر مبنی عقیدہ)، جس انسان کو کسی نظریئے، عقیدے یا شخصیت کی درست شناخت نہ ہو، وہ اس کی تعلیمات کے مطابق عمل بھی درست نہیں کرسکتا۔ گویا انسان کی باطنی معرفت (Esoteric cognition)   اُس کے ظاہری عمل کی عمر اور حدود اربعہ طے کرتی ہے۔ معرفت جتنی گہری ہوتی ہے، عمل اتنا ہی پائیدار ہوتا ہے۔ آسان لفظوں میں کسی بھی شخص پر اُس کے عقیدے کی سچائی جتنی آشکار ہوتی ہے، وہ اُس پر عمل کا بھی اتنا ہی پابند ہوتا ہے۔ اِس رو سے معرفتِ نہائی اور عملِ بلافصل جُزوِ لاینفک ((Indivisible)) ہیں۔ دینِ اسلام نے ہمیں پیغمبرِ اسلام ؐ کی سیرت کے مطابق اعمال انجام دینے کا حکم دیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ہمیں جتنی پیغمبرِ اسلام ؐ کی معرفت ہوگی، ہم اتنا ہی اُن کی سیرت پر عمل کریں گے۔ بانی اسلام کی معرفت کا ایک اہم اور قطعی منبع (Definite source) قرآن مجید ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں کسی بھی چیز کے بارے میں قرآن مجید سے معرفت اور شناخت حاصل کرنے کا رجحان کم  ہے، چنانچہ بانی اسلامﷺ کی بھی جو کچھ شناخت ہمیں ہے، اُس کا زیادہ تر انحصار قرآن مجید کے علاوہ دیگر کتب اور ہمارے اپنے قلبی تمایلات پر ہے۔

اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بانی اسلامﷺ کی درست شناخت، یعنی معرفت کے بغیر زندگی گزارنے کے بجائے قرآن مجید سے حقیقی معرفت حاصل کریں۔ یعنی ہمیں اپنے خود ساختہ ذہنی مفروضات اور کہنہ عقائد پر قائم رہنے کے بجائے قرآن مجید کی نورانی و ملکوتی آیات سے اپنے پیغمبرﷺ کی معرفت حاصل کرنی چاہیئے۔ کسی بھی قوم کا رہبر و رہنماء اس کے لئے نمونہء عمل (Role model) ہوتا ہے۔ اقوام اپنے رہبر کے نقشِ قدم پر چل کر ہی تعمیر و ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ گویا کسی قوم کے قائد کے نقوشِ زندگانی ہی اپنی قوم کے لئے چراغِ ہدایت ہوتے ہیں۔ قائد اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں جس طور سے بھی زندگی گزارتا ہے، اس کا ہر لمحہ اپنی قوم کے لئے نشانِ علم و عمل بن جاتا ہے۔ قرآن مجید نے حضرت محمد الرسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی کو امّت مسلمہ کے لئے قائد اور نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ اب یہ مسلمانانِ عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ پیغمبرِ اسلام کی شخصیت اور حیاتِ مقدسہ کے تمام پہلووں کی معرفت حاصل کریں، تاکہ اس معرفت کے مطابق اعمال انجام دے سکیں۔ ہم اس مختصر تحریر میں قرآن مجید کو بطورِ منبع اپنے سامنے رکھ کر بانی اسلام کی معرفت کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خداوندِ عالم سے دعا گو ہیں کہ وہ ہماری اس سعی و کاوش کو ہمارے لئے دنیا و آخرت میں سعادت و نجات کا باعث بنائے۔(آمین)

ولادت سے پہلے حضور کی بشارت
قرآن مجید کے مطابق حضرت محمد الرسول اللہﷺ کے آنے کی بشارت آپ سے پہلے والے انبیا خصوصاً حضرت عیسیٰ نے دی ہوئی تھی۔ اس حوالے سے ایک آیت ملاحظہ فرمائیں:وَاِذْ قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَابَنِی ِسْرَائِیلَ ِنِّی رَسُولُ اﷲِ ِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یَْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُہُ َاحْمَدُ فَلَمَّا جَائَہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا ہَذَا سِحْر مُبِین۔ "اور اس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے پہلے کی کتاب توریت کی تصدیق کرنے والا اور اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جس کا نام احمد ہے لیکن پھر بھی جب وہ معجزات لے کر آئے تو لوگوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔[1] مندرجہ بالا آیت کے مطابق حضرت عیسیٰ نے حضورِ اکرم کے آنے کی بشارت دی تھی۔

حضورؐ کی ولادت کو بشارت کہنے کی وجہ
حضورِ اکرم  کے دنیا میں تشریف لانے کو اس لئے بشارت کہا گیا ہے، چونکہ حضورِ اکرم اپنے سے پہلے والے انبیاء کے مقابلے میں نئے اور بلند مفاہیم و مطالب اور کامل و اکمل شریعت لے کر آئے ہیں۔ اگر حضورِ اکرم نئے مفاہیم و معارف نہ لاتے یا گذشتہ انبیاء کے ہی ہم پلّہ شریعت لاتے تو ایسے میں یہ کوئی بشارت کی بات نہ تھی اور نہ ہی کسی نبی ضرورت تھی۔ حضرت عیسیٰ کا اپنی قوم کو حضورِ اکرم کی آمد کی بشارت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ حضورِ اکرم نہ صرف حضرت عیسیٰ سے اور قرآن مجید نہ صرف انجیل سے افضل و برتر ہے بلکہ حضورﷺ اپنے سے سابق تمام انبیاء سے برتر ہیں اور قرآنِ مجید گذشتہ تمام آسمانی کتابوں سے افضل ہے۔ چونکہ حضورﷺ سب انبیاء کے آخر میں تشریف لائے اور آپ ختم النّبیین ہیں، یعنی آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اس لئے آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔

حضورؐ کی نبوّت کا مقام 
             
حضور اکرمﷺ نہ صرف یہ کہ نبی ہیں بلکہ ختم النبیین ہیں۔ آپ کی فضیلتوں میں سے ایک فضیلت آپ کا ختم النبیّن ہونا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ پروردگار ہے: مَا کَانَ مُحَمَّد َبَا َحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اﷲِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اﷲُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمًا۔ "محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے۔"[2]  مندرجہ بالا آیت حضور اکرمﷺ کی ختم نبوت پر واضح اور روشن دلیل ہے۔ اس آیت میں حضور اکرمﷺ  کو خَاتَمَ النَّبِیِّین کہا گیا ہے۔

خَاتَمَ النَّبِیِّین کا مطلب

خَاتَم کسی تحریر کے آخر میں لگائی جانے والی مہر کو کہتے ہیں۔ جب محرّر (تحریر کرنے والا) اپنی تحریر مکمل کر لیتا ہے تو وہ آخر میں ایک مہر لگا دیتا ہے، تاکہ (قاری) پڑھنے والے کو پتہ چل جائے کہ بات ختم ہوگئی ہے۔ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے سلسلہ نبوت کو جاری کرنے والے پروردگار نے حضورﷺ کو خَاتَمَ النَّبِیِّین، یعنی آخری نبی قرار دیا ہے۔ پس قرآن مجید کی روشنی میں حضورﷺ کے بعد ناں کوئی نبی آیا ہے اور ناں ہی آئے گا۔ حضورﷺ کا ایک اور امتیاز آپﷺ کی عبودیت اور بندگی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کی عبودیت کے بارے کیا ارشاد فرمایا ہے۔

حضورؐ  کی بندگی اور عبادت 
      
خداوند عالم کے نزدیک سب سے کامل ترین عبادت حضور اکرمﷺ کی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے آپ کے سوا کسی اور نبی یا رسول کو عبدہ یعنی بطور خاص اپنا عبد نہیں کہا جبکہ آپ کے بارے میں سورہ فرقان آیت ١میں ارشاد مبارک ہے: تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہِ۔ "بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ہے"(١) اسی طرح سورہ اسراء کی آیت ایک میں ارشاد پروردگار ہے: سُبْحَانَ الَّذِی َسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ِلَی الْمَسْجِدِ الَْقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا ِنَّہ ہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ۔ "پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار، جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا، جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں، بیشک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔"(١) حضور اکرمﷺ کی ایک اور اہم فضیلت یہ ہے کہ قرآن مجید نے آپ کو اول المسلمین قرار دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کے اول المسلمین ہونے کے بارے میں کس طرح سے گفتگو فرمائی ہے۔

اوّلِ مخلوق اور اول مسلمین

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول اکرمﷺ سے فرمایا ہے کہ آپ لوگوں سے کہیں کہ میں اوّلُ المسلمین (پہلا مسلمان) ہوں۔ خدا نے کسی اور پیغمبر کے لئے یہ لقب استعمال نہیں کیا۔ حالانکہ حضرت ابراہیم، رسول اکرمﷺ سے پہلے دنیا میں تشریف لائے اور بزرگانِ انبیاء میں شمار ہوتے ہیں، خود رسول اکرمﷺ کا بھی ارشاد ہے کہ "انا ابن الذبیحین" حضورﷺ نے خود کو حضرت ابراہیم کے بیٹے حضرت اسمٰعیل کا فرزند قرار دیا ہے، لیکن اس کے باوجود خدا نے حضرت ابراہیم کو اوّلُ المسلمین نہیں کہا۔ حضرت نوح شیخ الانبیاء ہیں اور حضرت آدم جو کہ ابولبشر ہیں، خدا نے انھیں بھی اس لقب سے منسوب نہیں کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضور کوﷺ وقت اور زمانے کے اعتبار سے اوّلُ المسلمین نہیں کہا گیا، چونکہ حضورﷺ سے پہلے بھی انبیاء اس دنیا میں موجود تھے۔ حضورﷺ کو اس لئے اوّلُ المسلمین کہا گیا ہے، چونکہ آپﷺ مخلوقِ اوّل ہیں، یعنی آپ کی ذات ِ اقدس سب سے پہلے خلق ہوئی، چنانچہ اس لحاظ سے آپ اوّلُ المسلمین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے حضورﷺ ہی محشور ہوں گے۔

خدا وندِ عالم نے سورہ انعام کی آیت ١٦٢تا ١٦٣ میں ارشاد فرمایا ہے: قُلْ ِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَای وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (١٦٢) لاَشَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ ُمِرْتُ وََنَا َوَّلُ الْمُسْلِمِینَ (١٦٣) (162) کہہ دیجئے کہ میری نماز، میری عبادتیں، میری زندگی، میری موت سب اللہ کے لئے ہے، جو عالمین کا پالنے والا ہے۔ (163) اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔ اسی طرح سورہ زمر کی آیت ١٢ میں ارشاد پروردگار ہے: قُلْ ِنِّی ُمِرْتُ َنْ َعْبُدَ اﷲَ مُخْلِصًا لَہُ الدِّینَ (١١) وَُمِرْتُ لَِنْ َکُونَ َوَّلَ الْمُسْلِمِینَ (١٢) (11) کہہ دیجئے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اخلاص عبادت کے ساتھ اللہ کی عبادت کروں (12) اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلمان بن جاوں۔ حضورﷺ کی شخصیّت کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ کی سیرت و سنّت سراپائے وحی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔

سراپائے وحی

قرآن مجید نے حضورﷺ کے کلام اور سکوت دونوں کو مرضیِ پروردگار کے تابع قرار دیا ہے۔ جیسا کہ سورہ نجم کی آیت ٣ اور ٤ میں ارشاد پروردگار ہے۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی (٣) انْ ہُوَ ِلاَّ وَحْی یُوحَی(٤) "وہ ہوائے نفس کے تحت نطق نہیں کرتا، اس کا نطق وحی ہوتا ہے۔" یاد رہے کہ نطق سے مراد قول یا گفتگو نہیں ہے بلکہ نطق سے مراد سکوت و گفتگو ہر دو حالتیں ہیں۔ قانونی اختراعات اور سماجی مسائل کے بارے میں انسان جو کچھ بھی ہوائے نفس کے تحت کرتا ہے، وہ ناں ہی تو جامع اور کامل ہوتا ہے اور ناں ہی حق و عدالت کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے، لیکن اس کے برعکس انسان جو کچھ وحی الٰہی کے تحت کرتا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ جامع اور کامل ہوتا ہے بلکہ عین حق و عدالت بھی ہوتا ہے۔ پس پیغمبر اسلامﷺ کی تمام گفتار و کردار میں وحی کا پرتو اور جلوہ ہے اور اس میں کسی بھی طرح سے ہوائے نفس کا کوئی عمل دخل نہیں۔ قرآن مجید نے حضورﷺ کی ذاتِ گرامی کو پیکرِ عصمت قرار دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کی عصمت و طہارت کے بارے میں کس انداز سے گفتگو فرمائی ہے۔

عصمت و طہارت  کا درجہ

عصمت و طہارت سے مراد فقط انسان کی گفتگو میں غلطیوں سے حفاظت نہیں بلکہ اس کے تمام مراحلِ زندگی میں غلطیوں اور لغزشوں سے حفاظت کا نام عصمت و طہارت ہے۔ چنانچہ وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی (٣) ِانْ ہُوَ ِلاَّ وَحْی یُوحَی (٤) سے یہی مطلب بیان ہو رہا ہے کہ حضورﷺکی تمام سیرت و حیات، عصمت و طہارت میں ڈھلی ہوئی ہے۔ اسی طرح سورہ انعام کی آیت ٥٠ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ا ِنْ َتَّبِعُ ِلاَّ مَا یُوحَی۔ "ہم تو صرف وحی پروردگار کا اتباع کرتے ہیں۔" چونکہ حضورﷺ نے صرف وحی کی پیروی کی ہے، اس لئے آپ کی تمام تر زندگی عصمت و طہارت کی آئینہ دار ہے۔ قرآن مجید نے حضورﷺ کی ذات ِمقدس کو معصوم ہونے کے باعث تمام جہان کے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ حضورﷺ کو نمونہ عمل قرار دینے سے متعلق قرآن مجید نے کیا بیان فرمایا ہے۔

بحیثیتِ نمونہ عمل

قرآن مجید نے سورہ احزاب کی آیت ٢١ میں حضورﷺ کو تمام عالم کے لئے نمونہ عمل قراردیتے ہوئے فرمایا ہے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اﷲِ ُسْوَة حَسَنَة لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اﷲَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اﷲَ کَثِیرًا۔ "تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے، جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔" اس آیہ مجیدہ میں نہ صرف یہ کہ رسولِ اکرمﷺ کو نمونہ عمل قرار دیا گیا ہے بلکہ ان لوگوں کی شناخت بھی کرائی گئی ہے، جو حضورﷺ کی اتباع اور پیروی کرنے والے ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق اگر کوئی شخص حضورﷺ کی پیروی نہیں کرتا اور حضورﷺ کو اپنے لئے نمونہ عمل نہیں مانتا تو وہ دراصل اللہ سے غافل ہے اور روزِ آخرت سے ناامید ہے۔ پس اگر ہم اللہ کو اپنا خالق و مالک سمجھتے ہیں اور روزِ قیامت پر یقین رکھتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم زندگی کے تمام سیاسی و اجتماعی و انفرادی معاملات میں بھی حضورﷺ کی پیروی اور اطاعت کریں۔ چنانچہ سورہ حشر کی آیت ٧ میں ارشاد پروردگار ہے: وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا وَاتَّقُوا اﷲَ ِنَّ اﷲَ شَدِیدُ الْعِقَابِ۔ "اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے، اسے لے لو اور جس چیز سے منع کر دے، اس سے رک جاو اور اللہ سے ڈرو کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔" رسول اکرمﷺ چونکہ عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل ہیں، اب آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے اتنے عظیم پیغمرﷺ کو کن القابات اور خطابات سے پکارا ہے۔

خدا کا حضورؐ سے اندازِ گفتگو
 قرآن مجید میں خداوندِ عالم نے مختلف انبیاء کرام کو اُن کے نام لے کر مخاطب کیا ہے، جبکہ حضورﷺ کو نام لے کر پکارنے کے بجائے مختلف القابات سے یاد کیا ہے۔ قرآن مجید نے حضورﷺ کو کبھی "قُل" یعنی فرما دیجئے، کبھی فبشّر عبادالذین۔۔۔ یعنی ان لوگوں کو بشارت دیجئے۔۔۔۔ اور کہیں پر یا ایھا النّبی، کہیں پر یا ایھا لمزمل، کہیں پر یا ایھا المدثر۔۔۔ کہا ہے، لیکن کہیں پر بھی یا محمدﷺ نہیں کہا۔ قرآن مجید کی روشنی میں حضورﷺ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ خداوندِ عالم نے حضورﷺ کے اخلاق کو خلقِ عظیم قرار دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کے اخلاقِ حسنہ پر کس طرح روشنی ڈالی ہے۔

اخلاقِ حسنہ

خداوندِ عالم تمام اوصافِ حسنہ اور عظمتوں کا حقیقی مالک ہے۔ حضور اکرمﷺ اس قدر اعلیٰ و ارفع اخلاق کے مالک تھے کہ تمام اوصافِ حسنہ کے خالق و مالک نے بھی آپ کے خُلق کو "خُلقِ عظیم" کہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے سورہ قلم کی آیت ٤:
وَِانَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیمٍ(٤) "اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں۔" چونکہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انسان کی عظمت اور قدر و قیمت مال و ثروت اور جاہ و حشمت سے ہے، لیکن خدا نے اس آیہ مجیدہ کے ذریعے سے بنی نوع انسان کو یہ پیغام دیا ہے کہ عظمت خُلق میں ہے مال و دولت میں نہیں ہے۔۔ حضورﷺ کی ذاتِ گرامی کو قرآن مجید نے جہاں پر خُلقِ عظیم قرار دیا ہے، وہیں پر آپ کے خُلق کی جہانِ ہستی کو فیضیاب کرنے کے لئے آپ کو عالمی نبی بھی قرار دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حضورﷺ کی نبوّت کے عالمی ہونے کے بارے میں قرآن مجید نے کیا ارشاد فرمایا ہے۔

عالمی نبوّت    
  
خداوند عالم نے حضورﷺ کی نبوّت کو عالمی قرار دیا ہے، البتّہ اس نبوّت کو صرف مومنین پر احسان شمار کیا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے خدا نے قرآن کو عالمین کے لئے بھیجا ہے، لیکن صرف متّقین کے لئے ہی ہدایت قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت١٨٥ میں ارشاد پروردگار ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی ُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِلنَّاس۔ "ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے، جو انسانوں کے لئے ہدایت ہے۔" قرآن مجید نازل تو پورے عالمِ انسانیت کے لئے ہدایت بن کر ہوا، لیکن اس سے ہدایت صرف متّقین ہی حاصل کرتے ہیں۔ جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ٢ میں ارشاد پرور دگار ہے: ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَرَیْبَ فِیہِ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ۔ "یہ وہ کتاب ہے، جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے۔" اس طرح حضورﷺ کے بارے میں ارشاد پروردگار ہے کہ ہم نے آپ کو پورے عالم بشریت کے لئے بھیجا ہے، لیکن آپ کو بھیج کر احسان صرف مومنین پر کیا ہے۔ چونکہ غیر مومن لوگ اس نعمت کو سمجھتے ہی نہیں تو ان پر احسان کس بات کا۔

ملاحظہ فرمائیں سورہ سباء کی آیت٢٨: وَمَا َرْسَلْنَاکَ ِلاَّ کَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِیرًا وَ نَذِیرًا وَلَکِنَّ َکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ۔ "اور پیغمبرﷺ ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے صرف بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے، یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ اس حقیقت سے باخبر نہیں ہیں۔" چونکہ پیغمبر کی آمد کی حقیقت سے اکثر لوگ بے خبر ہیں تو اس لئے پیغمبر کی بعثت کا احسان صرف اور صرف مومنین سے منسوب کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ آل عمران کی آیت١٦٤: لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِنْ َنْفُسِہِمْ یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ۔ "یقیناً خدا نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے، جو ان پر آیات الہیہ کی تلاوت کرتا ہے، انہیں پاکیزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ یہ لوگ پہلے سے بڑی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔" سورہ اعراف کی آیت١٥٨میں بھی حضورﷺ کو پورے عالم بشریت کے لئے رسول کہا گیا ہے۔ آیت قرآنی ملاحظہ فرمائیں۔ قلْ یَاَیُّہَا النَّاسُ ِنِّی رَسُولُ اﷲِ ِلَیْکُمْ جَمِیعًا۔ "پیغمبر ----- کہہ دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول اور نمائندہ ہوں۔"

مندرجہ بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضورِ اکرمﷺ کی نبوت تو عالمی اور بین الاقوامی ہے، لیکن اس سے فیضیاب فقط مومنین ہوتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے سورج تو پوری دنیا میں چمکتا ہے، لیکن اس کی روشنی سے صرف بینا لوگ ہی فائدہ اٹھاتے ہیں، اندھے سورج کی روشنی میں بھی تاریکی جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ چونکہ صرف مومنین ہی حضورﷺ کی قدر و منزلت پہچانتے ہیں اور حضورﷺکی ذات سے فیض اٹھاتے ہیں، اس لئے حضورﷺ پر درود بھیجنے کے لئے بھی صرف مومنین کو ہی کہا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ احزاب کی آیت ٥٦: ا ِنَّ اﷲَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا۔ "بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلوات بھیجتے ہیں تو اے مومنین تم بھی ان پر صلوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو۔" رسول اکرمﷺ کی ذاتِ مبارک کو قرآن مجید نے عالمی کہنے کے علاوہ لوگوں کے لئے مونس و ہمدرد بھی کہا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کی عوام سے ہمدردی اور شفقت کو کس طرح بیان کیا ہے۔

امت کے درمیان مقام و مرتبہ

خدا تعالیٰ نے بعض انبیاء کو لوگوں کا بھائی کہا ہے۔ جیسے حضرت صالح کے بارے میں سورہ اعراف کی آیت ٧٣ میں فرمایا کہ "ہم نے قوم ثمود کے لئے ان کے بھائی صالح  کو بھیجا" اسی طرح حضرت ہود کے بارے میں سورہ ہود کی آیت ٥٠ میں یوں ارشاد فرمایا: "ہم نے قوم ِعاد کے لئے ان کے بھائی ہود کو بھیجا" اور اسی طرح سورہ شعراء کی آیت ١٠٦ میں حضرت نوح کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا: "اس وقت کہ جب ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا" لیکن پیغمبر اسلام کے بارے میں قرآن مجید نے بھائی کی تعبیر استعمال نہیں کی، بلکہ حضورﷺ کا تعارف قرآن مجید نے یوں کروایا ہے: ھُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الُْمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْہُم۔ "اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے، جو ان ہی میں سے تھا۔" پھر اسی طرح سورہ توبہ کی آیت ١٢٨ میں ارشاد فرمایا: لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُول مِنْ َنفُسِکُمْ عَزِیز عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیص عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَئُوف رَحِیم۔ "یقیناً تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے، جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے، وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے۔"
        
مندرجہ بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضورﷺ اپنی عوام دوستی اور مہربانی کے باعث لوگوں سے اس قدر مل جل کر رہتے تھے کہ قرآن مجید نے آپ کا تعارف بھی اس طرح سے کرایا ہے کہ آپ ان لوگوں کے بھائی وغیرہ نہیں بلکہ خود انہی میں سے ہیں۔ یہ بھی آپ کی نرمی، شفقت اور لوگوں کے لئے انس و ہمدردی کا جذبہ ہی تھا کہ جس کی بناء پر سورہ نساء کی آیت ٦٤میں یوں فرمایا گیا ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ۔ وَلَوْ اَنَّھُمْ  اِذْظَّلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ جَآئُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُااللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُولُ لَوَاجَدُوااللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۔ "اور ہم نے کسی رسول کو بھی نہیں بھیجا ہے، مگر صرف اس لئے کہ حکِم خدا سے اس کی اطاعت کی جائے اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپﷺ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے۔" اسی طرح سورہ انبیاء کی آیت ١٠٧ میں حضورﷺ کو عالمین کے لئے رحمت کہا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ انبیاء کی آیت ١٠٧ وَمَا اَرْسَلْنَاکَ ِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ۔ "اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے۔" حضورﷺ کی لوگوں سے ہمدردی، شفقت اور رحمت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید نے رسولﷺ کی اطاعت بھی لوگوں کے لئے لازمی قرار دی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کی اطاعت کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے۔

قرآن مجید کی روشنی میں حضورﷺ کی اطاعت:
حضورﷺ کی اطاعت کو اللہ نے نہ صرف اپنی اطاعت قرار دیا ہے بلکہ محبوبِ خدا بننے کے لئے اطاعتِ پیغمبرِ اسلامﷺ کو لازمی قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ آل عمران کی آیت ٣١: قُلْ ِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اﷲَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمْ اﷲُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاﷲُ غَفُور رَحِیم۔ "اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔" جس طرح حضورﷺ کی اطاعت کو قرآن نے خدا کی محبت اور بخشش و مغفرت کے لئے لازمی قرار دیا ہے، اسی طرح حضورﷺ کی نافرمانی اور عدمِ اطاعت کو بھی خدا کی ناراضگی اور کفر قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں سورہ آل عمران کی ہی آیت ٣٢ ملاحظہ فرمائیں: قُلْ َطِیعُوا اﷲَ وَالرَّسُولَ فَِنْ تَوَلَّوْا فَِنَّ اﷲَ لاَیُحِبُّ الْکَافِرِین۔ "کہہ دیجئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو کہ جو اس سے روگردانی کرے گا تو خدا کافرین کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے۔" قرآن مجید نے حضورﷺ کی اطاعت کرنے پر اس قدر تاکید کی ہے اور مومنین کو خبردار کیا ہے کہ ہرگز اپنے آپ کو رسولﷺ پر مقدّم نہ کریں اور رسولﷺ سے آگے نہ بڑھیں۔ چنانچہ سورہ حجرات کی آیت ١ میں ارشاد پروردگار ہے: یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ اﷲِ وَرَسُولِہِ وَاتَّقُوا اﷲَ ِنَّ اﷲَ سَمِیع عَلِیم۔ "ایمان والو خبردار خدا اور رسول سے آگے نہ بڑھنا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ ہر بات کا سننے والا اور جاننے والا ہے۔"

خداوندِ عالم نے جس طرح رسول کی نافرمانی کرنے والوں کو سخت عذاب سے ڈرایا ہے۔ اسی طرح رسول کی اطاعت کرنے والوں کو بھی انعامات و اکرامات کی بشارت دی ہے۔ اس سلسلے میں سورہ نساء کی آیت ٦٩ ملاحظہ فرمائیں: وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ۔ وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقًا۔ "اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا، جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں۔ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفقاء ہیں۔" قرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی رسولﷺ کی اطاعت کئے بغیر اللہ کی اطاعت کا دم بھرے تو اصل میں وہ اطاعت ِ الٰہی کا محض ڈھونگ رچا رہا ہے اور خدا کے نزدیک ایسے شخص کا اطاعت کا دعویٰ کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور ایسے لوگوں کو جہنّم میں دھکیلا جائے گا۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی آیت٦٦ میں ارشاد پروردگار ہے: یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُولُونَ یَالَیْتَنَا َطَعْنَا اﷲَ وََطَعْنَا الرَّسُولَ۔ "جس دن ان کے چہرے جہنم کی طرف موڑ دیئے جائیں گے اور یہ کہیں گے کہ اے کاش ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی۔"
      
قرآن مجید کے مطابق حضورﷺ کے فیصلے کے بعد کسی کو چون و چرا کرنے کی اجازت نہیں ہے، چونکہ اطاعت کا تقاضا یہی ہے کہ حکمِ رسولﷺ کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا جائے۔ اس ضمن میں سورہ احزاب کی آیت٣٦ ملاحظہ فرمائیں:  وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَمُؤْمِنَةٍ ِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُولُہُ َمْرًا َنْ یَکُونَ لَہُمْ الْخِیَرَةُ مِنْ َمْرِہِمْ وَمَنْ یَعْصِ اﷲَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِینًا۔ "اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کر دیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحبِ اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا، وہ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا۔" مندرجہ بالا آیات سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی اطاعت ہی اصل میں خدا کی اطاعت ہے اور اگر کوئی رسولﷺ سے دوری اختیار کرتا ہے تو وہ دراصل قرآن سے دوری اختیار کرتا ہے، چونکہ حضورﷺ کی اطاعت اور پیروی کا حکم قرآن مجید نے ہی دیا ہے۔ قرآن مجید نے صرف حضورﷺ کی اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ حضورﷺ کے ادب و احترام کا بھی حکم دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کے ادب و احترام کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے۔

امت پر ادب و احترام کا وجوب

خداوندِ عالم نے لوگوں کو پیغمبرﷺ کا احترام بجا لانے کی از حد تاکید فرمائی ہے۔ بعض لوگ پیغمبرﷺ سے اس حد تک بے تکلّف ہوا چاہتے تھے کہ کبھی آرام کے وقت میں مخل ہوتے تھے اور کبھی بزم ِپیغمبر ﷺ میں پیغمبر کی آواز سے اپنی آواز کو بلند کرتے تھے اور کبھی پیغمبرﷺ سے بلاضرورت سرگوشی کرتے تھے، قرآن مجید ان تمام امور کو خلاف ادب و احترام شمار کیا ہے اور لوگوں کو ایسی حرکات سے منع فرمایا ہے۔ نمونے کے طور پر سورہ حجرات کی چند آیات ملاحظہ فرمائیں۔  َاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَرْفَعُوا َصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَتَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ َنْ تَحْبَطَ َعْمَالُکُمْ وََنْتُمْ لاَتَشْعُرُونَ(٢) اِنَّ الَّذِینَ یَغُضُّونَ َصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُولِ اﷲِ ُوْلَئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اﷲُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوَی لَہُمْ مَغْفِرَة وََجْر عَظِیم(٣) ِنَّ الَّذِینَ یُنَادُونَکَ مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ َکْثَرُہُمْ لاَیَعْقِلُونَ(٤) وَلَوْ َنَّہُمْ صَبَرُوا حَتَّی تَخْرُجَ ِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَہُمْ وَاﷲُ غَفُور رَحِیم(٥)
                   
(2)ایمان والو خبردار اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرنا اور ان سے اس طرح بلند آواز میں بات بھی نہ کرنا، جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ ہو۔ (3)بیشک جو لوگ رسول اللہ کے سامنے اپنی آواز کو دھیما رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے تقویٰ کے لئے آزما لیا ہے اور ان ہی کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔ (4)بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں، ان کی اکثریت کچھ نہیں سمجھتی ہے۔ (5)اور اگر یہ اتنا صبر کر لیتے کہ آپ نکل کر باہر آجاتے تو یہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ اس کے علاوہ حضور کے گھر میں زیادہ دیر رکنے اور گپیں ہانکنے سے بھی لوگوں کو منع فرمایا ہے اور حضورﷺ کی بیویوں کو بھی خاص احترام دیا ہے اور لوگوں کو حکم دیا ہے کہ ازواج پیغمبر سے پردے کے پیچھے سے سوال کریں، نیز ازواج پیغمبر سے پیغمبرﷺ کے بعد کسی اور کا نکاح کرنا بھی ممنوع قرار دیا ہے۔

ملاحظہ فرمائیں سورہ احزاب کی آیت ٥٣: یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ ِلاَّ َنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ ِلَی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ ِنَاہُ وَلَکِنْ ِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوا فَِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَمُسْتَْنِسِینَ لِحَدِیثٍ ِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِ مِنْکُمْ وَاﷲُ لاَیَسْتَحْیِ مِنْ الْحَقِّ وَِذَا سََلْتُمُوہُنَّ مَتَاعًا فَاسَْلُوہُنَّ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ ذَلِکُمْ َطْہَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ وَمَا کَانَ لَکُمْ َنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اﷲِ وَلاََنْ تَنْکِحُوا َزْوَاجَہُ مِنْ بَعْدِہِ َبَدًا ِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اﷲِ عَظِیمًا(٥٣) (53)اے ایمان والو خبردار پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا، جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت بھی برتنوں پر نگاہ نہ رکھنا، ہاں جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہوجائو اور جب کھالو تو فوراً منتشر ہو جاو اور باتوں میں نہ لگ جائو کہ یہ بات پیغمبر کو تکلیف پہنچاتی ہے اور وہ تمہارا خیال کرتے ہیں، حالانکہ اللہ حق کے بارے میں کسی بات کی شرم نہیں رکھتا اور جب ازواج پیغمبر سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو کہ یہ بات تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اور تمہیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ہے۔"

اسی طرح سورہ مجادلہ کی آیت ١٢ میں لوگوں کو حضورﷺ کے ساتھ خواہ مخواہ سرگوشی کرنے سے روکنے کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ آئندہ جو کوئی بھی حضور سے سرگوشی کرے، وہ حتّی المقدور صدقہ بھی دے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ  مجادلہ کی آیت ١٢: یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً ذَلِکَ خَیْر لَکُمْ وََطْہَرُ فَِنْ لَمْ تَجِدُوا فَِانَّ اﷲَ غَفُور رَحِیم۔ "ایمان والو! جب بھی رسول کے کان میں کوئی راز کی بات کرو تو پہلے صدقہ نکال دو کہ یہی تمہارے حق میں بہتری اور پاکیزگی کی بات ہے پھر اگر صدقہ ممکن نہ ہو تو خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔"

خلاصہ
ہمارے پاس معرفت کا سب سے اہم منبع قرآن مجید ہے۔ توحید و نبوت، مبدا و معاد، میزان و صراط، حیات و کائنات اور ملکوت و موجودات کی صحیح شناخت صرف اور صرف قرآن مجید سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ قرآن مجید اس لئے مہجور نہیں ہے کہ لوگ اس کی تلاوت نہیں کرتے بلکہ عالمی سچائی یہ ہے کہ دنیا میں آج بھی سب سے زیادہ تلاوت قرآن مجید کی ہی کی جاتی ہے۔ قرآن مجید اس لئے مہجور ہے کہ ہم حقائق و عقائد کے بارے میں قرآن مجید سے معرفت حاصل نہیں کرتے اور ہمارے اس تساہل کا سایہ بانی اسلامﷺ کی معرفت پر بھی پڑا ہوا ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں پیغمبرِ اسلام کی معرفت اور شناخت بھی قرآن مجید کے بجائے دیگر منابع سے بیان کرنے کا رواج  زیادہ ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے پیغمبر کی شناخت اور معرفت کو قرآن مجید سے حاصل کریں، چونکہ ہمارے پیغمبرﷺ کی معرفت کا سب تحریر: نذر حافیسے اہم منبع قرآن مجید ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہمیں اپنے نبی اکرمﷺ کی صحیح معرفت نصیب ہوگی تو پھر ہمارے اعمال بھی اس معرفت کے مطابق درست ہوتے جائیں گے۔
 
 
 

گذشتہ سے پیوستہ
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کے بعد آپ کے جانشین حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای بھی مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت پر تاکید فرماتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایران اسلامی کی مجموعی پالیسی اتحاد و اتفاق پر استوار ہے۔ آپ نے اپنے ایک خطاب میں سنی شیعہ اختلاف پھیلانے والی سامراجی طاقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ انسان خدا، قرآن، پیامیر، نماز، کعبہ، حج اور دینی مسائل میں ہم عقیدہ ہیں، ان کے درمیان مشترکات بہت زیادہ اور اختلافات بہت کم ہیں۔ اگر یہ لوگ بہت زیادہ مشترکات کو نظرانداز کرکے چند اختلافات کو سامنے رکھ کر آپس میں لڑائی جھگڑا شروع کر دیں تو اس سے کس کو فائدہ پہنچے گا، ان طاقتوں کو جو اسلام، خدا، قرآن اور پیغمبر کے مکمل خلاف ہیں یا مسلمان طاقتوں کو جن کے درمیان اختلافات صرف چند فروعات تک محدود ہیں۔؟

رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں اسلامی وحدت سے مراد اسلام کے بارے میں مشترکہ فہم، مشترکہ صلاحیتوں اور گنجائشوں سے استفادہ اور دشمن کے مقابلے میں مشترکہ اتحاد و انسجام ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی اسلامی وحدت کو ایک اسٹریٹجی سمجھتے ہیں نہ کہ ٹیکنیک۔ آپ ہمیشہ علماء، روشن خیال دانشوروں اور اسلام کی سیاسی و ثقافتی شخصیات کو پیغمبر اور قرآن کی تعلیمات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے حبل اللہ سے متمسک ہونے کی تلقین فرماتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں کہ سنی اور شیعہ کے دو مکتب ہیں اور دونوں کے پیروکار ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں۔ وحدت سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ سنی شیعہ ہو جائے اور شیعہ سنی۔ وحدت سے مراد باہمی اخوت و برادری ہے۔ عصر حاضر میں مسلمانوں کے باہمی اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ تفرقہ بازی اور تکفیریت نے اسلام کو سخت مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔

سنی شیعہ سب ایک قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ ان کا قرآن ایک ہے، خدا واحد و یکتا کی عبادت کرتے ہیں اور رسول خدا حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی محبت دونوں کے قلوب میں موجزن ہے۔ آج دشمن مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے میں کوشاں ہے، وہ اسلامی ممالک پر غلبہ پانے کے لیے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کر رہا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو اتحاد و وحدت کی دعوت دینا ایک شرعی فریضہ ہے اور اس دعوت پر لبیک کہنا مسلمانوں کی عزت و سعادت کا باعث ہے۔ مسلمانوں کے اتحاد و وحدت کے لیے جہاں اور بہت سے مشترکات ہیں، ان میں سب سے اہم اور نمایاں رسول گرامی کی ذات مقدس ہے، جس پر تمام مسلمان مکاتب متفق اور متحد ہیں اور آپ کی ذات گرامی کو اپنے لیے آئیڈیل اور مثالی نمونہ قرار دیتے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ رسول خدا کی ذات اقدس مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرسکتی ہے اور آپ کی ذات ہر دور کے انسان کے لیے بہترین نمونہ ہے۔

قرآن پاک بھی اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوِئے کہتا ہے کہ مسلمانوں تم میں سے اس کے لیے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے۔ آرٹیکل میں آپ کی مدنی زندگی میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے لیے انجام پانے والی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کے ہم اصل موضوع پر آئیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسول خدا نے ایک ایسے عالم میں جزیرۃ العرب میں خدا کا پیغام پہنچایا کہ وہ مکہ و مدینہ کا معاشرہ جاہلیت کے اندھِیروں میں گم تھا اور قبائل ایک دوسرے سے دست و گریبان تھے۔ قبائل کے درمیان اختلافات برسوں پر محیط تھے۔ مثال کے طور پر جب آپ نے مدینہ منورہ میں قدم رنجہ فرمایا تو اس وقت مدینہ منورہ میں دو قبائل اوس و خزرج کے درمیان قبائل جنگ عروج پر تھی اور جنگ کا یہ سلسلہ گذشتہ 128 برسوں پر مشتمل تھا۔

قبائل کے درمیان اختلافات کا سلسلہ اتنا طویل اور گمراہ کن تھا کہ حعفر ابن طالب نے حبشہ ہجرت کے موقع پر حبشہ کے بادشاہ کو مکہ و مدینہ کی معاشرتی صورت حال کو کچھ اس انداز سے بیان کیا۔ ہم ایسے افراد تھے کہ بتوں کی پوچا کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، برے اعمال انجام دیتے تھے۔ رشتہ داروں سے قطع رحم کرتے، ہمسایوں سے برا سلوک کرتے تھے اور عہد و پیمان کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ ہمارے طاقتور کمزورں کا استحصال کرتے تھے۔ ہماری صورتحال اس طرح تھی کہ خدا نے ہمارے درمیان ایک نبی بھیجا۔ رسول نے ہمیں خدا کی طرف دعوت دی، تاکہ ہم اسے واحد و یکتا معبود قرار دیں اور اس کی عبادت کریں۔ رسول خدا نے اس طرح کے معاشرے میں اپنی تبلیغ کا آغاز کیا اور برائیوں اور بدعنوانیوں میں گھرے معاشرے میں توحید، صداقت، سچائی اور باہمی امور کو مہر و محبت سے انجام دینے کا پیغام دیا۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ایک معاشرے کو اس وقت تک تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جب تک اس معاشرے کی ثقافت اور ذہنیت کو تبدیل نہ کر دیا جائے۔ رسول خدا نے جاہل اور بت پرست معاشرے کو توحید کی طرف دعوت دی، قرآن بھی اس طرح دعوت دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ قرآن پاک سورہ آل عمران کی آیت نمبر 103 میں ارشاد فرماتا ہے "اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اور اس نے تمھارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمھیں نکال لیا اور اس طرح اپنی آیات بیان کرتا ہے کہ شاہد تم ہدایت یافتہ بن جائو۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔