سلیمانی

سلیمانی

متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین پر قابض آل خلیفہ رژیم نے بھی فلسطین کاز اور مظلوم فلسطینی قوم کے پیٹھ میں دوسرا خنجر گھونپ دیا ہے۔ البتہ بحرینی حکومت کا یہ اقدام پہلے سے متوقع تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منامہ ریاض کی کٹھ پتلی حکومت تصور کی جاتی ہے اور وہ سعودی حکمرانوں کی جانب سے ملنے والے احکامات کی بلا تاخیر اور مکمل اطاعت اپنا پہلا فرض تصور کرتی ہے۔ عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی مہم کافی عرصہ پہلے آل سعود رژیم کی جانب سے شروع کی جا چکی تھی۔ اسی مہم کے نتیجے میں اب بحرین بھی متحدہ عرب امارات کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے والا دوسرا عرب ملک قرار پایا ہے۔
 
آل خلیفہ رژیم کا یہ اقدام درحقیقت اگلے عرب ملک یعنی سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا مقدمہ تصور کیا جا رہا ہے۔ آل سعود رژیم اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کیلئے بانہیں پھیلانے کیلئے لمحہ شماری کر رہی ہے تاکہ غاصب صہیونی حکمران کھل کر خلیجی ریاستوں میں اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ بنجمن نیتن یاہو، ڈونلڈ ٹرمپ، محمد بن زاید اور محمد بن سلمان بحرین کے حکمران حمد بن خلیفہ آل ثانی کو اس بات پر قانع کر چکے ہیں کہ اسے بھی اسرائیل سے دوستی کے نتیجے میں وہی مراعات حاصل ہوں گی جو متحدہ عرب امارات کو حاصل ہوئی ہیں۔
 
لیکن بحرین کے حکمران اس تلخ حقیقت سے غافل ہیں کہ بحرین کی صورتحال متحدہ عرب امارات سے یکسر مختلف ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ بحرین کی عوام ایک عرصے سے حکمران رژیم کے خلاف برسرپیکار ہے۔ بحرینی عوام کی اس انقلابی تحریک کو کچلنے کیلئے آل خلیفہ رژیم سعودی عرب اور دیگر ممالک سے کرائے کے فوجی اور قاتل منگوانے پر مجبور ہو چکی ہے۔ لیکن تمام تر آمریت اور بربریت کے باوجود بحرینی قوم پوری شجاعت اور استقامت کے ساتھ میدان میں حاضر ہے اور ڈکٹیٹر حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں۔ بحرینی عوام یہ ثابت کرنے کیلئے پرعزم دکھائی دیتے ہیں کہ آل خلیفہ رژیم امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے ہاتھ میں ایک کٹھ پتلی کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور ذرہ برابر عوامی محبوبیت کی حامل نہیں ہے۔
 
اگر اسرائیلی حکمران یہ تصور کرتے ہیں کہ بحرینی حکمرانوں کے ساتھ دوستی قائم کرنے سے وہ بحرینی عوام میں بھی جگہ بنا لیں گے تو یہ ان کی شدید غلط فہمی ہے کیونکہ بحرینی عوام شدت سے فلسطین کاز اور مظلوم فلسطینی قوم کے حامی ہیں۔ اگرچہ آل خلیفہ رژیم نے پارلیمنٹ میں سینکڑوں کٹھ پتلی اراکین بٹھا کر خود کو بحرینی عوام کا نمائندہ ظاہر کیا ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بحرین کے حقیقی عوام وہ لاکھوں افراد ہیں جو گذشتہ دس برس سے ان ظالم حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر موجود ہیں اور سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ بحرین کا متحدہ عرب امارات سے مختلف ہونے کی دوسری وجہ اسرائیلی حکمرانوں کی نظر میں اس کی حیثیت ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی وزارت عظمی کی کرسی بچانے کیلئے زیادہ سے زیادہ عرب ممالک کو ساتھ ملانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
 
بنجمن نیتن یاہو کی نظر میں بحرین کی حیثیت صرف اسی حد تک ہے کہ اسرائیل کی دوستی پر راضی کئے گئے عرب ممالک کی تعداد ایک سے بڑھ کر دو ہو گئی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کیلئے درپیش سیاسی بحران سے باہر نکلنے کیلئے اسی حد تک کافی ہے اور اس سے بڑھ کر بحرینی حکمرانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا آل خلیفہ رژیم اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی محتاج اور ضرورت مند تھی؟ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس اقدام کا واحد مقصد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سیاسی موت سے نجات دلانا ہے۔ نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ الیکشن میں کامیابی کیلئے شدت سے بعض ایسے اقدامات کے محتاج تھے جنہیں وہ اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابی کے طور پر ظاہر کر کے پیش کر سکیں۔
 
متحدہ عرب امارات اور بحرین پر مسلط حکمرانوں نے جان کی بازی لگا کر ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کو اندرونی سیاست میں کامیابی کیلئے مدد فراہم کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آل خلیفہ رژیم کے اس اقدام کے بعد بحرین میں جاری عوامی انقلابی تحریک میں مزید شدت آئے گی اور اس کا نتیجہ آل خلیفہ رژیم کے زوال کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ بحرین کی باغیرت قوم ہر گز اپنے حکمرانوں کی یہ غداری برداشت نہیں کرے گی۔ دوسری طرف فلسطین کے تمام محب وطن گروہ اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ انہیں قدس شریف کی آزادی 

کیلئے عرب حکمرانوں سے کوئی امید وابستہ نہیں رکھنی چاہئے۔ اسی احساس کے ساتھ وہ آپس میں متحد ہونا شروع ہو گئے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اس اصولی موقف کی حقانیت کو بھانپ چکے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل مسلح جدوجہد اور اسلامی مزاحمت ہے۔

ہر صاحب عقل دیکھ رہا ہے کہ وطن عزیز کے اندر پچھلے چند سالوں کے امن و امان کے بعد ایک مرتبہ پھر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں اور باہمی منافرت کی فضا کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ یقیناً نہ تو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں نیک شگون ہے اور نہ ہی مادر وطن کے باسیوں کیلیے اچھا ہے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آپس کے نظریاتی اختلافات کو برداشت کرنے کی بجائے اسے جھگڑے کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ کسی بھی انسانی معاشرے میں ایک دوسرے کے مقدسات کو محفوظ رکھتے ہوئے اختلاف رائے رکھنا ایک طبیعی امر سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں بدقسمتی سے بعض لوگ نادانستہ طور پر یا کسی بیرونی دشمن کی ایماء پر ایسے ماحول میں جلتی پر تیل کا رول ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

 اس سلسلے میں معروف تجزیہ نگار جناب نذر حافی "ایک اقلیت طاقتور لوگوں کی" کے عنوان سے  اپنی ایک تحریر میں یوں رقمطراز ہیں "پاکستان میں شیعہ اور سنی دونوں ہی کمزور ہیں، یہ اکثریت میں ہونے کے باوجود اتنے کمزور ہیں کہ ان کی قسمت کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ یہ دونوں فرقے ایک طاقتور اقلیت کے ہاتھوں یرغمال ہیں، یہ اقلیت نہیں بلکہ ایک پریشر گروپ ہے، یہ پریشر گروپ انہیں آپس میں مل بیٹھنے اور سوچنے کا موقع نہیں دیتا۔" آپ مزید لکھتے ہیں "کہ وہ اقلیت اتنی مضبوط ہے کہ وہ قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو کافرستان کہہ کر اور آئین پاکستان کا انکار کرنے کے باوجود ہر شعبے کی کلیدی پوسٹوں پر قابض ہے۔"

یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز کے کونے کونے میں بالخصوص سوشل میڈیا پر ان دنوں جو مغلظات ایک دوسرے کے خلاف بکے جا رہے ہیں، وہ ناقابل بیان ہیں، مگر خوش قسمتی سے ایسے میں نوجوانوں کے اندر امید کی ایک کرن اس وقت روشن ہوتی  نظر آتی ہے، جب پاکستان کے مختلف مسالک فکر کے صاحبان علم و دانش، ان  مخصوص طبقات کی جانب سے غیروں کے اشارے پر بھڑکائی گئی اس آگ کو اپنے قلم کے ہتھیار کے سہارے بجھانے کیلیے مستعد و کوشاں نظر آتے ہیں۔ ان میں  سرفہرست جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ، البصیرہ ٹرسٹ اسلام آباد کے سربراہ سید ثاقب اکبر، جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے مہتمم مفتی گلزار احمد نعیمی اور نامور محقق ڈاکٹر محسن نقوی دامت برکاتھم کا نام لیا جاسکتا ہے، جو باہم دست و گریباں جوانان ملت اسلامیہ کو ہمہ وقت انتشار اور افتراق سے روکتے نظر آتے ہیں۔

ذیل میں مذکورہ بالا شخصیات کی بعض تحریروں کے چند اقتباسات بہ ترتیب پیش کیے دیتا ہوں۔ جناب لیاقت بلوچ صاحب "فروعی اختلافات کو پھر پہاڑ نہ بنایا جائے" کے عنوان سے اپنی ایک تحریر یوں لکھتے ہیں، "اسلامی معاشرے خصوصاً ملت اسلامیہ میں افراط و تفریط پر مبنی اور اعتدال و توازن سے ہٹ کر اختلاف نے تفریق اور باہمی مخاصمت کو بڑھکاوا دیا ہے۔" موصوف مزید آں رقمطراز ہیں، "امت مسلمہ بیرونی دشمنوں کے حملوں کی زد میں تو ہے ہی، لیکن اندرونی اختلافات نے حالات مزید ابتر کر دیئے ہیں۔" اس کے بعد آپ علامہ اقبالؓ کے اس شعر کو کوڈ کرتے ہیں؛
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
 
 البصیرہ ٹرسٹ اسلام آباد کے سربراہ سید ثاقب اکبر  "پاکستان میں آر ایس ایس کی  نئی صورت" کے عنوان سے لکھتے ہیں، "پاکستان میں ان دنوں ایک بظاہر مذہبی گروہ ایسی حرکتیں انجام دے رہا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ یہ آر ایس ایس کی نئی صورت اور اس کا پاکستانی برانڈ ہے۔ یہ وہی برانڈ ہے جو ہزاروں انسانوں کا خون بہا چکا ہے۔ اس خون آشام گروہ نے اپنے مخالفین کو کافر کافر کہا اور یہ بھی کہا کہ جو ان کے مورد نظر گروہ کو کافر نہ کہے وہ بھی کافر ہے، اس طرح درحقیقت جو اقلیتی گروہ تھا، وہ اپنے خونین خنجروں اور تلواروں کے زور سے اس ملک میں دندناتا رہا۔" آپ مزید رقمطراز ہیں کہ "پھر جب پاکستان کے اداروں اور سیاسی قوتوں نے ملکر ان سے نمٹنے کا فیصلہ کیا تو وہ زیرزمین چلے گئے۔۔۔ افسوس یہ نقاب بہت عارضی ثابت ہوا اور اب پھر ایک مرتبہ اپنے کریہہ اور وحشی چہروں کے ساتھ سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔"

جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے پرنسپل مفتی گلزار احمد نعیمی اپنی ایک  تحریر میں "ان سے بچیں" کے عنوان سے یوں رقمطراز ہیں، "سروں پر دستاریں سجا کے، نورانی شکلیں بنا کر مولا علی کرم اللہ وجھہ کی کسر شان کرنے والے درندہ دھن خارجیوں کی اولاد نہ پہلے آپ کا کچھ بگاڑ سکی اور نہ اب کچھ بگاڑ سکیں گے۔ سادہ لوح مسلمان ان سے بچیں، یہ زہر پر کھانڈ چڑھی ہوتی ہے، پنج تن پاک سے محبت کرنے والے نہ پہلے کم تھے نہ اب کم ہونگے۔" آخر میں لکھتے ہیں، "عاشق تو یہی کہتے ہیں؛
بیدم یہی تو پانچ ہیں مقصود کائنات
خیرالنساء، حسن و حسین، مصطفیٰ، علی

ملک کے نامور محقق ڈاکٹر سید محسن نقوی معروضی حالات کے بارے میں یوں خیالات کا اظہار کرتے ہیں، "متفردات پہ قوموں اور عقائد کے فیصلے کیے گئے تو امت بڑی مشکل میں پڑ جائے گی۔ وہ صحاح ستہ ہوں یا کتب اربعہ، تاریخ کی کتب ہوں یا رجال و تذکروں کی، ان میں ایسی روایات اور متون موجود ہیں جو پاکستان کے قانون، آئین، مذہب اور لا کے تحت قابل دست درازی ہیں، کیا نکالا جائیگا اور رکھا جائے گا۔؟ اپنی ایک دوسری تحریر میں پاکستانی قوم سے محبت اور امن سے رہنے کی تلقین کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں، "مسلمان بھائیوں سے درخواست ہے کہ دشمن اسلام و دشمن پاکستان سے لڑنے کا وقت کسی بھی لمحہ آسکتا ہے، آپس میں لڑیں گے تو دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے، متحد رہیں۔" آخر میں اقبال لاہوریؓ کے اس فارسی شعر کے ساتھ رخصتی کا طالب ہوں؛
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ھشیار باش
اے گرفتار ابوبکرؓ و علیؑ ھشیار باش

ہزاروں یا لاکھوں سال پر محیط اور معلوم انسانی تاریخ میں انسانوں کی رہنمائی، ہدایت اور بھلائی کے لیے انسانوں میں سے ہی ایسی شخصیات انسانی معاشروں میں تشریف لائیں، جنہوں نے اپنے علم، اپنی صلاحیت، اپنی قائدانہ خصوصیات اور اپنی قربانیوں کے ذریعے تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ یوں تو انسانی مزاج میں شامل ہے کہ وہ اپنے اندر امتیازی اور خاص حیثیت و مقام کے حامل انسانوں کو تادیر یاد رکھتے ہیں، لیکن ان یاد رکھے جانے والوں میں سب سے زیادہ وقت ان لوگوں کو یاد رکھا جاتا ہے، جو قربانی کے ذریعے اپنے آپ کو زندہ رہنے کے اسباب مہیا کر جاتے ہیں۔ مذہبی تاریخ میں انبیاء کی قربانیاں سرفہرست شمار ہوتی ہیں، جس کا نکتہ انجام خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی حیات طیبہ کے دوران دی جانے والی قربانیاں ہیں، جو مکہ کی گلیوں سے کفار کے مظالم کی شکل میں شروع ہوئیں، پھر شعب ابی طالب کی صورت سماجی بائیکاٹ سے ہوتی ہوئی ہجرت جیسے کرب ناک مرحلے تک پہنچیں اور بالاخر مدینہ میں رہ کر عالم ِغربت اور عالم جنگ کی مشکلات پر بظاہر تمام ہوئیں۔

اسلام کے اظہار، اسلام کی تاسیس، اسلام کی بنیاد، اسلام کی ترقی و توسیع اور تکمیل کے مراحل طے ہوئے۔ لیکن نبی اکرم ؐ کی وحی ترجمان زبان نے جب ”حسین ؑ منی وانا من الحسین ؑ“ فرما دیا تو اسلام کی بقاء، تحفظ اور دفاع کا مرحلہ باقی نظر آیا۔ تاریخ نے ثابت کر دیا کہ یہ حدیث محض ایک نواسے کے ساتھ نانے کے تعلق کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ اس میں ایک ایسا بلند مفہوم موجود ہے، جس کے شواہد وقت کے ساتھ ملیں گے۔ اگرچہ اسلامی تاریخ میں حضور اکرم  ؐ کی رحلت کا بڑا سبب جنگ ِخیبر میں دیا جانے والا زہر بیان کیا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم ؐ کو اگر دنیا کی کوئی چیز حاصل نہیں ہوئی تو وہ جسمانی شہادت ہے۔ یہ ایک اختلافی نظریہ ہے، جس پر تاریخی کتب میں ابحاث موجود ہیں، لیکن مذکورہ بالا حدیث کی تفاسیر میں اس اختلافی نظریئے کا رد بھی کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اگر حسین ؑ کو نبی ؐ سے اور نبی ؐ کو حسین ؑ سے تسلیم کیا جائے تو شہادت ِحسین ؑ محض حسین ؑ کی شہادت نہیں بلکہ نبی پاک ؐ کی شہادت متصور ہوگی، کیونکہ اس شہادت کا پس منظر دفاع اسلام، بقائے اسلام اور تحفظ ِ دین ہے۔

نبی اکرم ؐ کا امام حسین ؑ سے والہانہ اور منفرد پیار، نبی اکرم ؐ کی امام حسین ؑ کے بارے میں مختلف وصیتیں، نصیحتیں اور احادیث، نبی اکرم ؐ کے سامنے جبرئیل کا آنا اور امام حسین ؑ کی شہادت کی خبر بچپن کے زمانے میں ہی دے دینا، نبی اکرم ؐ کا اس خبر پر رنجیدہ و چشم تر ہونا، نبی اکرم ؐ کا اپنے اہل بیت ؑ، ازواج مطرات ؓ اور اصحاب کرام ؓ کو اس خبر سے آگاہ کرنا، نبی اکرم ؐ کا حضرت ام سلمہ ؓ کو مٹی کی ایک شیشی دینا اور مستقبل کا احوال سنانا اور آخر میں دس محرم اکسٹھ ہجری کی عصر کو اس شیشی میں موجود مٹی کا خون بن جانا، نبی اکرم ؐ کا حضرت ام سلمہ ؓ کے خواب میں آکر پریشان حالی اور خاک آلودہ حالت میں شہادت ِحسین ؑ کا پیغام دینا اور حاتف ِغیبی کی طرف سے سرزمین کربلا کے علاوہ بھی مختلف خطوں میں شہادت حسین ؑ پر صدائے افسوس بلند کرنا ایسے قطعی شواہد ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ واقعہ کربلا کا تسلسل مکہ و مدینہ سے پھوٹنے والی اسلامی تحریک سے تھا، جسے اگرچہ شہدائے بدر و احد و خندق و خیبر نے اپنے خون سے آبیار کیا تھا، لیکن اسلام کو قیامت تک باقی و محفوظ رکھنے کے لیے  ”ذبح عظیم“ کی شکل میں ایک بڑی اور لافانی قربانی کی ضرورت تھی، جسے امام حسین ؑ اور کے آل و اصحاب نے سرزمین ِکربلا میں شہید ہوکر پورا کیا۔

امام عالی مقام ؑ نے یزید کی تخت نشینی اور حکومتی پروگرام کے اعلانات کے بعد اپنا جو موقف اپنایا، اسے مدینہ کے گورنر سے لے کر یزید کے ساتھ رابطوں اور خط و کتابت کے ذریعے، مختلف اصحاب ِنبی ؐ اور تابعین کے ساتھ نشستوں اور مذاکرات کے ذریعے، مدینہ سے مکہ کے سفر کے دوران، مکہ میں قیام کے دوران سلطنت کے مختلف حصوں سے حج کے لیے آئے وفود سے ملاقاتوں کے دوران، کوفیوں اور دیگر علاقوں کے لوگوں کے نام پیغامات کے ذریعے، مکہ سے کربلا کے سفر میں مختلف مقامات پر ٹھہراؤ اور پڑاؤ کے دوران، یکم محرم سے دس محرم تک یزیدی افواج کے سرکردہ کمانڈروں کے ساتھ بات چیت کے دوران اور اپنی شہادت سے کچھ دیر پہلے یزیدی فوج سے آخری خطبے کی شکل میں خطاب کے دوران بہت کھول کھول کر بیان کیا۔ جس کا مفہوم یہی تھا کہ وہ اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے نہیں، اپنے خاندانی یا گروہی مفادات کے لیے نہیں، اپنے سیاسی عزائم کے لیے نہیں اور اقتدار کے حصول کے لیے نہیں بلکہ اسلامی احکام کی شکل بگاڑنے کے خلاف، شریعت کی شکل تبدیل کرنے کے خلاف، اپنے نانا کی امت کی اصلاح کی خاطر، جاہ طلبی اور اقتدار پرستی کے خلاف، ملوکیت کے ذریعے لوگوں پر مسلط ہونے کے خلاف، دینی اقدار کی پامالی کے خلاف، امر بالمعروف کے فریضے اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کی ادائیگی کی خاطر اور انسانی حقوق کی فراہمی اور جابر و ظالم و فاسق و فاجر حکمرانوں کے خلاف علم ِجہاد بلند کرنے کے لیے گھر سے نکلے تھے۔

ان مقاصد کا بیان خود امام حسین ؑ کے خطبات اور اس کے بعد حضرت امام زین العابدین ؑ اور حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے ان خطبات میں موجود ہے، جو ان دو شخصیات نے کربلا کے بعد کوفہ و شام کے درباروں و بازاروں سے لے کر مدینۃ الرسول ؐ میں پہنچنے تک جاری کئے۔ ان تمام تر خطبات اور موقف سے واضح ہو جاتا ہے کہ کربلا کی بنیاد ہی نبی اکرم ؐ نے اپنی حیات ِمبارکہ میں رکھ دی تھی۔ امت کو آگاہ فرما دیا تھا اور اسلام کی تاریخ میں اس عظیم واقعہ کا ذکر فرما دیا تھا، جبکہ شجر ِاسلام کی آبیاری میں اپنے نواسے، اپنے اہل ِبیت ؑ اور ان کے اصحاب و انصار کے پاکیزہ خون کی شمولیت کی پیش گوئی بھی فرما دی۔ حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین ؑ کی صورت میں نتیجہ سامنے آیا۔ انا فتحنا لک فتحاً مبینا کی تفسیر سامنے آئی۔ وفدیناہ بذبح ِِ عظیم کا وعدہ پورا ہوا۔ تمہیدی سطور کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے بات کو تکمیل کی جانب لے جائیں کہ صدیوں پر محیط شخصیات میں بعد از انبیاء امام حسین ؑ کو ممتاز و منفرد حیثیت حاصل ہوگئی۔ کربلا کی نظیر رہتی دنیا تک نہیں دی جاسکی۔ حسین ؑ جیسی حکمت عملی کوئی مرتب نہ کرسکا۔ حسین ؑ جیسا لائحہ عمل کوئی نہیں دے سکا۔ حسین ؑ جیسی حریت کوئی اختیار نہیں کرسکا۔ حسین ؑ جیسی استقامت کوئی نہیں دکھا سکا۔

حسین ؑ جیسا استقلال کوئی نہیں بتا سکا۔ حسین ؑ جیسا نظم و ضبط کوئی نہیں کرسکا۔ حسین ؑ جیسا صبر و تحمل کوئی نہیں کرسکا۔ حسین ؑ جیسا انفاق کوئی نہیں پیش کرسکا۔ حسین ؑ جیسی انسان دوستی کوئی نہیں نبھا سکا۔ حسین ؑ جیسی حق گوئی و حق بیانی کوئی نہیں کرسکا۔ حسین ؑ جیسی مظلومیت کسی کو حاصل نہیں ہوسکی۔ حسین ؑ جیسی عظمت و رفعت و منزلت پر کوئی فائز نہیں ہوسکا۔ حسین ؑ جیسی قربانی کوئی پیش نہیں کرسکا۔ چودہ صدیوں سے حسین ؑ وہ واحد شخصیت ہیں، جو صرف مسلمانوں کے لیے مثال نہیں۔ صرف عربوں اور عجمیوں کے لیے نمونہ نہیں۔ صرف اہل مذہب و تصوف کے لیے قابل ِتقلید نہیں بلکہ بلا تفریق مذہب و مسلک و فرقہ و نسل و قوم کائنات کے ہر انسان کے لیے نمونہ عمل ہیں، سراپا سیرت و رہنمائی ہیں۔ ہر آزاد فکر اور حریت پسند انسان کے قائد ہیں۔ ہر انسان دوست شخص کے لیڈر ہیں۔ ہر حق پرست کے رہبر ہیں۔ دنیا کا ہر انسان امام حسین ؑ کو اپنے لئے نمونہ قرار دے کر، حسین ؑ کی پیروی کرکے اور حسین ؑ کو اپنا مرشد و مولا و آقا و سید و سردار قرار دے فخر کرسکتا ہے۔ ہر زمانہ میرے حسین ؑ کا ہے۔ کربلا ”حسین ؑ منی و انا من الحسین ؑ“ کا عملی مصداق ہے۔ اسی لئے کہنا پڑتا ہے۔
یہ ختم ِقرب ہے لوگو ہمارا پیارا رسول ؐ
کسی سے کچھ بھی نہیں ہے مگر حسین ؑ سے ہے
 
 
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

تحریر و تحقیق: توقیر کھرل

حضرت امام حسینؑ کے سر مبارک کا نوک نیزہ پر قرآن پڑھنا یہ تاریخ کربلاء میں ایسی واضح بات ہے کہ جس کو علماء تشیع اور علماء اہلسنت سب نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جب کاروان حریت 12 محرم کو کوفہ میں پہنچا۔ تین دن قید میں رکھنے کے بعد ابن زیاد نے 15 محرم کو امام حُسین کا سر دوسرے شہداء کے سروں کے ساتھ یزید کی طرف شام روانہ کر دیا۔ ارشاد شیخ مفید میں درج ہے کہ زید بن ارقم روایت کرتے ہیں کہ ابن زیاد کے دربار میں مظلوم کربلا کا مقدس سر میرے پاس سے گزرا جو نیزے کی نوک پر سوار تھا جبکہ میں اپنی جگہ بیٹھا ہوا تھا، جب وہ میرے پاس سے گزرا تو وہ کچھ پڑھ رہا تھا، میں نے توجہ کے ساتھ کان لگا کر سنا تو وہ سورہ کہف کی نویں آیت کی تلاوت کر رہا تھا: ام حسبت ان اصحاب الکھف والرقیم کانو من ایا تنا عجبا "کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ اصحاب کہیف ورقیم (غار اور کتے والے) ہماری تعجب کے قابل نشانیوں میں سے تھے۔" خدا کی قسم میں یہ منظر دیکھ کر لرز گیا اور بلند آواز کے ساتھ کہا کہ فرزند رسول آپ کا مقدس سر اصحاب کہف سے زیادہ حیران کن اور تعجب آور ہے۔

امام حُسین علیہ السلام کے سر مبارک سے تلاوت کا دوسر واقعہ حران میں ہوا۔
کوفہ سے شام جاتے ہوئے کاروان حریت چلتے چلتے حران نامی ایک جگہ کے نزدیک پہنچ گیا، اس شہر کی چوٹی پر یحیٰی خزائی نامی یہودی کا مکان تھا۔ وہ استقبال کے لئے آیا اور قیدیوں کا تماشہ دیکھنے لگا اور اس کی نگاہ حضرت امام حُسین کے سر مبارک پر پڑ گئی، اس نے دیکھا کہ آپ کے مبارک لبوں سے کوئی آواز آرہی ہے، اس نے جب کان لگا کر سنا تو وہ سورہ شعراء کی 227 کی تلاوت رہا تھا: وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون "اور عنقریب ظالموں کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام کو پلٹ جائیں گے۔" یہ مظر دیکھ کر یحیٰی حیران و پریشان ہوگیا، اس نے پوچھا یہ کس کا سر ہے۔؟ حسین بن علی کا، اس نے کہا۔ یہودی نے کہا کہ اگر اس کا دین برحق نہ ہوتا تو یہ کرامت اس سے ہرگز ظاہر نہ ہوتی۔ اس نے یہ کہا اور زبان پر کلمہ جاری کر دیا اور مسلمان ہوگیا۔

اپنے سر پر موجود عمامے کے کئی ٹکڑے کئے اور بے مقنع و چادر سیدانیوں کے سر پر ڈالے اور ایک قیمتی پوشاک جو خود زیب تن کئے ہوئے تھا، اتار کر امام زین العابدین کی خدمت میں پیش کی اور ایک ہزار درہم آقا کی خدمت میں پیش کئے۔ سر کے لئے متعین سپاہیوں نے دیکھا تو بلند آواز سے کہا خلیفہ یزید کے دشمنوں کی امداد اور حمایت کر رہے ہو، پرے ہٹ جاو، ورنہ تمہیں قتل کر دیں گے۔ یحیٰی نے دفاع کے لئے نیام سے تلوار نکالی، سپاہیوں نے اس پر حملہ کیا، اس نے بھی پانچ سپاہیوں کو جہنم رسید کیا اور خود بھی شہید ہوگیا، اس شہید کا مقبرہ حران میں ہے۔ منھال بن عمروؓ کہتے ہیں کہ: "خدا کی قسم! میں نے حسین ابن علیؑ کے سر کو نیزے پر دیکھا ہے اور میں اس وقت دمشق میں تھا۔ وہ سر آیت قرآن کو پڑھ رہا تھا۔ آیت کے فوری بعد سر نے واضح اور بلیغ زبان میں کہا کہ اصحاب کہف سے زیادہ عجیب میرا قتل ہونا اور میرے سر کو نیزے پر اٹھانا ہے۔" نوک سناں پر سورہ کہف کی تلاوت جہاں ایک طرف سے معجزہ تھا آپؑ کا، وہاں لوگوں کو یہ بات سمجھا رہے تھے کہ حسینؑ اور ان کے ساتھی اصحاب کہف کی طرح حق پرست ہیں، جبکہ یزید اور اس کے پیرو کار دقیانوس کی طرح ظالم ہیں۔
نیزے پہ جو سر ہے وہی سر بلند ہے

فرانسیسی جریدے میں خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور سویڈن میں قران پاک جلائے جانے کے روح فرسا واقعات کے خلاف شیعہ علماء کونسل کے زیر اہتمام کراچی،اسلام آباد،لاہور، پشاور، ملتان، کوئٹہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پُرامن احتجاجی مظاہرے کیے گئے جن میں مرکزی، صوبائی اور ضلعی رہنماوں سمیت کارکنان کی کثیر تعداد نے شرکت کی احتجاج کے شرکاء نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس میں اسلام دشمن صیہونی و نصرانی قوتوں کے خلاف نعرے درج تھے مظاہرین نے عالم استعماری و طاغوتی طاقتوں کے خلاف فلک شگاف نعرے بھی لگائے اور گستاخی کے مرتکب افراد کے خلاف ان کی حکومتوں سے عالمی قانون کے تحت سخت کاروائی کا مطالبہ بھی کیا۔

کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ناظر عباس تقوی نے کہا دین اسلام کے مقدسات کی توہین دنیا کے دو ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے مترادف ہے عالم اسلام کو بے بس سمجھنے والے احمق اور عالمی امن کے دشمن ہے مغرب کی اسلام دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کبھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا تو کبھی قر آن مجید کا جلانا اور اس کی توہین کرنا معمول بنتا جارہا ہے اور اس پر عالمی اداروں کی خاموشی قابل تشویش عمل ہے کسی کے مقدسات کی توہین کرنا اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے لہذا اس گھناونی شازش کو روکنے کے لئے اقوام متحدہ اور او آئی سی اپنا بھر پور کر دار ادا کرے ایسے اقدامات سے مسلمانوں کے جزبات مجروح ہوتے ہیں تو مغرب ممالک اس کو انتہاء پسندی کا نام دیتے ہیں جبکہ اپنے مقدسات کے تحظ کے لئے احتجاج کرنا یہ انتہاء پسندی نہیں ہے بلکہ مغرب کی جانب سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا انتہاء پسندی کے زمرے میں آتی ہے اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ایک فرانسیسی جریدے کے ذریعے ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی (ص) کی شان میں گستاخی اور آپ کی مقدس ہستی کی توہین گناہ عظیم اور ناقابل معافی جرم ہے۔ آپ نے اپنے پیغام میں فرمایا ہے کہ اس اقدام سے اسلام اور مسلم معاشرے سے مغربی دنیا کے ثقافتی و سیاسی اداروں کا بغض و عناد شر پسندی اور دشمنی ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں مزید فرمایا ہے کہ آزادی بیان کے بہانے فرانس کے بعض سیاستدانوں کی جانب سے اس بڑے جرم کی مذمت نہ کرنا پوری طرح مسترد ، غلط اور عوام کو دھوکا دینا ہے ۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ صیہونیوں اور سامراجی حکومتوں کی اسلام دشمن پالیسیاں ہی اس طرح کی دشمنانہ حرکتوں اور اقدامات کا عامل ہیں جو ہر کچھ دن پر سامنے آتی ہیں ۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں فرمایا ہے کہ اس حساس دور میں یہ اقدام مغربی ایشیا کی حکومتوں اور قوموں کے ذہنوں کو ان مذموم منصوبوں کی جانب سے موڑنے کی غرض سے انجام پایا ہے جو امریکہ اور صیہونی حکومت نے تیار کئے ہیں ۔آپ نے فرمایا ہے کہ مسلم امۃ خاص طور سے مغربی ایشیا کے ممالک کو چاہئے کہ اس حساس علاقے کے مسائل کی بابت ہوشیار رہتے ہوئے اسلام و مسلمین کے سلسلے میں مغربی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی دشمنیوں کو ہرگز فراموش نہ کریں۔

یاد رہے کہ فرانسیسی جریدے چارلی ایبدو نے گذشتہ ہفتے منگل کو شان ختمی مرتبت میں ایک بار پھر گستاخی کا ارتکاب کرتے ہوئے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) کے بارے میں توہین آمیز خاکے شائع کئے ہیں ۔

اموی حکومت کے حقیقی چہرے کو برملا کرنے کے سلسلے میں امام سجاد کا کردار اور انقلابی حکمت عملی
جزیرۃ العرب میں رسول اسلام خاتم النبیین رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نورانی ظہور اور الہی معیارات پر قائم اسلامی احکام و دستور سے مقہور دور جاہلیت کے پروردہ امیہ و ابوسفیان کے پوتے یزید ابن معاویہ اور ان کے ذلہ خواروں کے ہاتھوں نواسۂ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے بعد ظلم و استبداد کے نشہ میں چور اموی ملوکیت نے عصر جاہلیت کے انسانیت سوز رسم و رواج از سر نو اسلامی معاشرے میں رواج دینے پر کمر باندھ لی ۔
بنی امیہ کے اس استبدادی دور میں حسینی انقلاب کے پاسبان امام زين العابدین علیہ السلام کی ذمہ داریاں شعب ابی طالب میں محصور توحید پرستوں کی سختیوں ، بدر و احد کے معرکوں میں نبردآزما جیالوں کی تنہائیوں ، جمل و صفین کی مقابلہ آرائیوں میں شریک حق پرستوں اور نہروان و مدائن کی سازشوں سے دوچار علی (ع) و حسن (ع) کے ساتھیوں کی جان فشانیوں اور میدان کربلا میں پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں کے مراحل سے کم حیثیت کی حامل نہیں تھیں ۔قرآن کی محرومی ،اسلام کی لاچاری اور آل رسول (ص) کی مظلومی کے " یزید زدہ " ماحول میں امام سجاد (ع) کی حقیقی انقلابی روش میں گویا اسلام و قرآن کی تمام تعلیمات جمع ہوگئی تھیں
اور اسلامی دنیا آپ کے کردار و گفتار کے آئینہ میں ہی الہی احکام و معارف کا مطالعہ اور مشاہدہ کررہا تھا ۔روز عاشورا نیزہ و شمشیر اور سنان و تیر کی بارش میں امام حسین (ع) کے ساتھ ان کے تمام عزیز و جاں نثار شہید کردئے گئے مردوں میں صرف سید سجاد (ع) اور بچوں میں امام باقر (ع) شہادت کے کارزار میں زندہ بچے تھے جو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے ساتھ اہل حرم کے قافلہ سالار تھے ۔خون اور آگ کے درمیان امامت و ہدایت کی یہ دونوں شمعیں الہی ارادہ اور فیصلے کے تحت محفوظ رکھی گئی تھیں جنہوں نے اپنی نرم و لطیف حکمت آمیز روشنی کے ذریعہ عاشورا کے پیغامات تاریخ بشریت میں جاوداں بنادئے ۔امام زين العابدین علیہ السلام کو خدا نے محفوظ رکھا تھا کہ وہ اپنی 35 سالہ تبلیغی مہم کے دوران عاشورا کے سوگوار کے طور پر اپنے اشکوں اور دعاؤں کے ذریعہ اموی نفاق و جہالت کو ایمان و آگہی کی قوت عطا کرکے عدل و انصاف کی دار پر ہمیشہ کے لئے آویزاں کردیں اور دنیا کے مظلوموں کو بتادیں کہ اشک و دعا کی شمشیر سے بھی استبدادی قوتوں کے ساتھ جہاد و مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ظلم و عناد سے مرعوب بے حسی اور بے حیائي کے حصار میں بھی اشک و دعا کے ہتھیار سے تاریکیوں کے سینے چاک کئے جا سکتے ہیں اور پرچم حق کو سربلندی و سرافرازی عطا کی جا سکتی ہے ۔چنانچہ آج تاریخ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ کبھی کبھی اشک و دعا کی زبان آہنی شمشیر سے زیادہ تیز چلتی ہے اور خود سروں کے سروں کا صفایا کردیتی ہے
۔امام زین العابدین ،سید سجاد، عبادتوں کی زینت ، بندگي اور بندہ نوازی کی آبرو ، دعا و مناجات کی جان ، خضوع و خشوع اور خاکساری و فروتنی کی روح سید سجاد جن کی خلقت ہی توکل اور معرفت کے ضمیر سے ہوئی ، جنہوں نے دعا کو علو اور مناجات کو رسائي عطا کردی ،جن کی ایک ایک سانس تسبیح اور ایک ایک نفس شکر خدا سے معمور ہے جن کی دعاؤں کا ایک ایک فقرہ آدمیت کے لئے سرمایۂ نجات اور نصیحت و حکمت سے سرشار ہے امام زين العابدین علیہ السلام کی مناجاتوں کے طفیل آسمان سجادۂ بندگي اور زمین صحیفۂ زندگي بنی ہوئی ہے ۔آپ کی " صحیفۂ سجادیہ " کا ایک ایک ورق عطر جنت میں بسا ہوا ہے اور آپ کی صحیفۂ کاملہ کاایک ایک لفظ وحی الہی کا ترجمان ہے اسی لئے اس کو " زبور آل محمد " کہتے ہیں آپ خود سجاد بھی ہیں اور سید سجاد بھی ،عابد بھی ہیں اور زین العابدین بھی ۔کیونکہ عصر عاشور کو آپ کے بابا سید الشہداء امام حسین (ع) کا " سجدۂ آخر " گیارہ کی شب ، شام غریباں ہیں آپ کے " سجدۂ شکر " کے ساتھ متصل ہے ۔اکہتر قربانیاں پیش کرنے کے بعد امام حسین (ع) نے " سجدۂ آخر " کے ذریعہ سرخروئي حاصل کی اور جلے ہوئے خیموں کے درمیان ، چادروں سے محروم ماؤں اور بہنوں کی آہ و فریاد کے بیچ ، باپ کے سربریدہ کے سامنے سید سجاد کے " سجدۂ شکر " نے ان کو زین العابدین بنادیا ۔نماز عشاء کے بعد سجدۂ معبود میں رکھی گئی پیشانی اذان صبح پر بلند ہوئی اور یہ سجدہ شکر تاریخ بشریت کا زریں ترین ستارۂ قسمت بن گیا
۔باپ کا سجدۂ آخر اور بیٹے کا سجدۂ شکر اسلام کی حیات اور مسلمانوں کی نجات کا ضامن ہے ۔در حقیقت صبر و شجاعت اور حریت و آزادی کے پاسبان امام زين العابدین ، طوق و زنجیر میں جکڑدئے جانے کے باوجود لاچار و بیمار نہیں تھے بلکہ کوفہ و شام کے بے بس و لاچار بیماروں کے دل و دماغ کا علاج کرنے کے لئے گئے تھے ۔کوفہ بیمار تھا جس نے رسول (ص) و آل رسول (ص) سے اپنا اطاعت و دوستی کا پیمان توڑدیا تھا، کوفہ والے بیمار تھے جن کے سروں پر ابن زیاد کے خوف کا بخار چڑھا ہوا تھا اور حق و باطل کی تمیز ختم ہوگئی تھی شام بیمار تھا جہاں ملوکیت کی مسموم فضاؤں میں وحی و قرآن کا مذاق اڑایا جا رہا تھا اور اہلبیت نبوت و رسالت کومعاذاللہ " خارجی " اور ترک و دیلم کا قیدی قرار دیا جا رہا تھا
۔شام والے بیمار تھے جو خاندان رسول کے استقبال کے لئے سنگ و خشت لے کر جمع ہوئے تھے لیکن امام سجاد ان کے علاج کے لئے خون حسین (ع) سے رنگین خاک کربلا ساتھ لے کر گئے تھے کہ بنی امیہ کی زہریلی خوراک سے متاثر کوفیوں اور شامیوں کو خطرناک بیماریوں سے شفا عطا کریں ۔چنانچہ علی (ع) ابن الحسین (ع) اور ان کے ہمراہ خاندان رسول (ص) کی خواتین نے اپنے خطبوں اورتقریروں کی ذوالفقار سے کوفہ و شام کے ضمیر فروشوں کے سردو پارہ کردئے کوفہ جو گہرے خواب میں ڈوبا ہوا تھا خطبوں کی گونج سے جاگ اٹھا
شام نے جو جاں کنی کی آخری سانسیں لے رہا تھا زنجیروں کی جھنکار سے ایک نئي انگڑائی لی پورے عالم اسلام میں حیات و بیداری کی ایک ہلچل شروع ہوئی اور اموی حکومت کے بام و در لرزنے لگے ۔
 

تحریر: مجتبیٰ ابن شجاعی

آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے سرزمین عراق پر کربلا کے مقام پر نواسہ رسول، فرزند مولائے کائنات، جگر گوشہ بتول ؑ حضرت امام حسین ؑ نے اپنے اہل و عیال، اصحاب و انصار کے ہمراہ ایک عظیم الشان قربانی پیش کی، راہ حق میں بہتر مقدس اور قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے انسانیت اور اسلام کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگایا۔ جہالت و ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گم شدہ انسانیت کو ہدایت کا چراغ دکھایا۔ اپنے مقدس لہو سے حق و باطل کے درمیان نجات کی لکیر کھینچ لی اور روئے زمین پر ”ھیہات من الذلہ“ کا نعرہ بلند کرکے خفتہ ملت اور مردہ ضمیروں کے اندر تازہ روح پھونک دی۔ گویا عالم انسانیت کو جینے کا سلیقہ سکھایا۔

سنہ 61 ھجری کا روز عاشورا طول تاریخ کا تابناک باب اور عالم انسانیت کی ایک عظیم درسگاہ ہے۔ روز عاشور کے ایک ایک لمحے میں انسانیت کی بقاء کا راز مضمر ہے، عاشورا لمحہ فکریہ ہے، ہماری نا فہمی اور تنگ نظری کا نتیجہ ہے کہ ہم نے عاشورا کو ایک حادثہ کے طور پر پیش کیا، جاہل اور ناخوانندہ ذاکرین نے اس کو افسانہ کا لباس پہنایا، ملت مرحومہ نے امام عالی مقام کو کمزور، لاچار اور خوفزدہ سمجھا ہے۔ ہماری یہ کج فہمی و کج نظری ہی اصل باعث بن رہی ہے کہ دور حاضر میں بین الاقوامی سطح پر تحریک کربلا کے خلاف سازشیں رچائی جا رہی ہیں اور عالمی سطح پر دشمنان اسلام عاشورا کے اصل ہدف کو نام نہاد مسلمانوں بلکہ مفاد پرست، دین فروش، کرائے کے ملاوں اور مصنفوں کے ہاتھوں ہائی جیک کروا کر عاشورا کو فقط حادثہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے والد گرامی مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی الطالبؑ اور نانا رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح صابر، دلیر اور شجاع تھے کہ آپ نے میدان کربلا میں دلیری اور شجاعت کے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ ڈرپوک یزیدی افواج کے خلاف ایسا موقف اختیار کیا کہ دسیوں ہزار پر مشتمل یزیدی فوج پر ہیبت طاری ہوئی، اشقیاء میں ہلچل مچ گئی۔ ہزاروں لعینوں کی موجودگی میں تیروں، تلواروں اور نیزوں کے بیچ امام عالی مقام کا نماز جماعت قائم کرنا اور اس نماز کو انتہائی سکون، خضوع و خشوع بلا کسی خوف و ڈر کے ادا کرنا امام حسین ؑ کی شجاعت، جوانمردی اور دلیری کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ تاریخ بشریت میں شجاعت اور بہادری کی ہوبہو مثال ماضی، حال اور مستقبل میں ملنا مشکل ہی نہیں محال ہے۔

نامور شیعہ و سنی مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ یزید ابن معاویہ لہو و لعب، فسق و فجور، ہوس پرست، شراب خور اور ڈھیر ساری برائیوں کا مظہر تھا۔ مشہور مورخ مسعودی نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے کہ ”یزید کے دور حکومت میں مکے اور مدینے میں اس (یزید) کے کارندوں کے ذریعے سر عام فسق و فجور اور شراب خوری رواج پا چکی تھی۔“(مسعودی، ج 3 ص 68)۔ یزید لعین کے متعلق عبد اللہ بن عمر سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ ”میں اسکی بیعت کروں جو بندروں اور کتوں سے کھیلتا ہے، شراب پیتا ہے اور کھلم کھلا فسق کرتا ہے؟ خدا کے نزدیک ہمارا کیا بہانہ ہے۔؟“ (یعقوبی ج 2 ص 160)۔ عبداللہ بن عباس نے مکہ میں کہا: تم انکے پاس جا رہے ہو، جنہوں نے آپ کے والد کو قتل کیا اور آپ کے بھائی کو زخمی کیا۔ یقیناً وہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے، لہذا آپ مکہ میں ہی قیام کریں۔"(الاخبار الطوال ص244)

اپنے دور میں یزید پلید نے عدل و انصاف کے بجائے ظلم و زیادتی، فسق و فجور، عیاشی، بدمعاشی، بدعنوانی، فساد، شراب خوری، زنا، لہو و لعب، جھوٹ، لوٹ اور دیگر برائیوں کو عروج بخشا۔ انسانی اقدار کو پامال کیا، اسلامی اصول و قوانین کی کھلے عام دھجیاں اڑا کر حق و باطل کی آمیزش کی۔ دین محمدی میں رسومات بد اور بدعات کو جنم دے کر اس کا چہرہ مسخ کر دیا تھا۔ مسلمان ان تمام برائیوں اور بدیوں کا اپنی بدنصیب آنکھوں سے نظارہ کرتے رہے۔ دین نبوی یزید کے ہتھکنڈوں اور حربوں سے پامال ہو رہا تھا، لیکن رسول اسلام سے محبت کے دعویدار بڑے بڑے علماء، محدثین، مورخین، نام نہاد شجاع اور دلیر مسلمان چپ سادھ لئے خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ حق چھپانے اور خالص دین میں باطل کی آمیزش کے خاطر بنو امیہ نے بیت المال سے کثیر تعداد میں مال خرچ کیا۔ مال و زر، درہم و دینار اور منصب کا لالچ دے کر حق چھپوایا۔ حریص اور مفاد پرست لوگوں نے نفسانی خواہشات کے خاطر دین و ایمان کا سودا کرکے یزید پلید کے ساتھ سمجھوتہ کیا۔ حق پر پردہ پوشی کرکے اپنی ذلت اور مردہ ضمیری کا ثبوت پیش کرکے رسول اسلام کو دھوکہ دیا۔

ایسی حالت میں منحرف معاشرے کو صحیح ڈگر پر واپس لانے کی ضرورت تھی، حالات قربانیوں کا تقاضا کر رہے تھے، قربانیاں پیش کرنے کے خاطر کوئی آمادہ نہیں تھا، ڈر اور خوف کا ماحول تھا، تیروں اور تلواروں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ اسلام کے ٹھیکہ داروں نے سر پر چادر اوڑھ کر خراٹیں لینے شروع کر دیئے تو امام عالی مقام اٹھ کھڑے ہوئے، اپنے باوفا رفقاء، اہل و عیال کے ہمراہ، جس نے یزید پلید کے ان مذموم اقدامات کے خلاف بڑی بہادری اور دلیری سے قیام کا اعلان کیا۔ قیام حسین ؑکوئی حادثاتی یا اتفاقی قیام نہیں تھا، یہ قیام خالص الٰہی قیام تھا، جب سے یزید ابن معاویہ غاصبانہ جابرانہ اور ظالمانہ طریقے سے تخت اسلامی پر براجمان ہوا۔ بالکل اسی وقت، اسی لمحہ امام عالی مقام نے اس ظلم و جبر اور غاصبیت کے خلاف آواز اٹھائی، احیائے دین اور بقائے دین کے خاطر یزید سے لڑنا بہتر سمجھا۔

مستحکم و مصمم ارادہ کے ساتھ مدینہ سے باضابطہ یزیدیت کے منحوس نظام کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔ مدینہ سے نکلتے وقت جب لوگ (جو امام عالی مقام کی معرفت سے بے بہرہ تھے) امام کو یزید کے خلاف قیام نہ کرنے کی تجویزیں دے رہے تھے۔ روایت میں ہے کہ عبد اللہ بن مطیع کے کنواں کھودنے کے وقت جب حضرت امام حسینؑ کی اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے امام عالی مقام سے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، کہاں جانے کا ارادہ ہے۔؟ امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا مکے کا تو اس نے کہا کہ آپ اس سفر پہ مت جائیں۔ (ابن عساکر، ترجمہ الامام حسین، ص1) یہاں تک کہ محمد ابن حنفیہ نے امام عالی مقامؑ کو کچھ مشورے دیئے، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ مکہ میں پناہ لیں، اگر مکہ محفوظ نہیں تو یمن چلے جائیں، (یعنی اپنی جان بچائیں) لیکن قیام امام حسین ؑ ایک شجاعانہ، مستحکم اور مصمم ارادہ والا قیام تھا۔ امام عالی مقام نے اپنے بھائی حضرت محمد حنفیہ کو فرمایا کہ اگرچہ آپ کے مشورے برادرانہ مشورے اور آپ کی تجاویز مخلصانہ تجاویز ہیں، لیکن حسین ؑ پناہ گاہ نہیں چاہتا ہے بلکہ حسینؑ دین محمدی کو پناہ دینے جا رہا ہے۔

قافلہ حسینی ؑ کا ایک ایک فرد شہادت کے لیے آمادہ تھا۔ اتنا آمادہ تھے کہ شہادت کو شہد سے شیرین سمجھنے لگے۔ میدان کربلا میں 13 سالہ شہزادے حضرت قاسم ابن حسنؑ نے اپنے چچا امام عالی مقام سے پوچھا ”چچا جان کیا میں بھی شہید ہوں گا۔؟" امام حسین ؑ نے پوچھا: تم موت کو کیسے دیکھتے ہو؟ شہزادہ قاسم ؑ نے جواب دیا ”چچا جان، موت میرے لیے شہد سے میٹھی ہے۔“ وہاب کلبی(جو صرف 17 دنوں کا دولہا تھا)، جب عصر عاشور شہید ہوا تو اشقیاء نے ان کا سر مبارک وہاب کلبی کی مادر گرامی کی طرف پھینکا تو انہوں نے واپس پھینک کر کہا کہ ہم راہ خدا میں قربان کرنے والے کو واپس نہیں لے رہے ہیں۔ شب عاشور امام حسین نے چراغ بجھا کر اپنے ساتھیوں کو فرمایا کہ جو جانا چاہتے ہو چلے جاو، تمہاری جانیں قیمتی ہیں، آپ چلے جاو، اگر کوئی جانا چاہتا ہے، ہمیں کل اسلام پر قربان ہونا ہے۔ لیکن ساتھیوں نے جانے سے انکار کر دیا اور امام عالی مقام کے رقاب میں شہادت کی خواہش کی۔

خیمہ حسینی ؑ میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ہر کوئی اذن جہاد کے لیے تڑپ رہا تھا۔ دین محمدی کے احیاء کے لیے اور اپنے آقا پر جان قربان کرنے کے خاطر ایک دوسرے پر سبقت لے رہے تھے۔ تحریک کربلا کا جائزہ لیتے ہوئے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ واقعہ کربلا کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ کربلا باطل کے خلاف جنگ کا مصمم اور محکم ارادہ تھا۔ بعض ایمان فروش، ناداں و جاہل ملا، کرائے کے مصنفین اور مورخین قیام حسینی ؑ کو دو شہزادوں کی جنگ، کرسی کی جنگ، قبیلہ کی جنگ، حکومت سے ٹکراو اور حادثہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن امام عالی مقام ؑنے محمد حنفیہ کے نام اپنی وصیت میں واضح الفاظ میں فرمایا کہ میں ”طغیانی و سرکشی، عداوت، فساد کرنے اور ظلم کرنے کے لیے مدینہ سے نہیں نکلا، میں فقط اور فقط اپنے نانا (حضرت محمد مصطفیٰ) کی امت کی اصلاح کرنے کے لیے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور میں اپنے نانا اور اپنے والد علی ابن ابی طالب ؑکی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔

کربلا کے تپتے ریگزار میں امام عالی مقام نے بلا تفریق مذہب و مسلک انسانی اقدار اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے خندہ پیشانی سے شہادت کا استقبال کیا۔ جابر و فاسق یزید پلید کی بیعت کا دوٹوک الفاظ میں انکار کرکے کلمہ حق کو سربلند کیا۔ امام عالی مقام نے ظلم و زیادتی کے اس ماحول میں بلا کسی خوف و ڈر کے اطمینان قلب سے فرمایا کہ ”میں موت کو سعادت کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھتا اور ظالموں کے ساتھ زندگی بسر کرنا ذلت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔“ امام عالی مقام نے محکم و مصمم ارادہ، ہمت و شجاعت، عزم و استقلال کے ساتھ میدان کارزار میں قدم رکھا، اذیت ناک اور دلسوز مصائب و سختیوں کے آگے کبھی جھکنے، بکنے اور تھکنے کا نام تک بھی نہ لیا۔ امام نے واضح کر دیا کہ اہل حق سر کٹا سکتے ہیں لیکن باطل کے آگے سر جھکا نہیں سکتے۔ اپنی لازوال قربانیوں کے ذریعے انسانیت کے پرچم کو بلند کیا اور امت مسلمہ بلکہ عالم انسانیت کو عظیم الشان فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔

61 ہجری عاشور کے دن قیام امام حسین ؑکا اختتام نہیں ہوا بلکہ میدان کارزار میں امام عالی مقام ؑ نے اس تحریک کو اپنے خون مقدس سے سینچتے ہوئے بام عروج تک پہنچایا، جس کی شعائیں کائنات کے ذرے ذرے پر پڑ گئیں۔ یزید لعین، شمر ابن ذی الجوشن، عمر سعد، ابن زیاد،خولی اور دیگر دسیوں ہزار یزیدی افواج کی ہلاکت کے بعد بھی اس تحریک نے رکنے کا نام تک نہ لیا بلکہ اس تحریک نے گذشتہ چودہ صدیوں سے حسینی ؑ جوان، حسینی لیڈر، حسینی ؑ ملت پیدا کرکے یزیدیت، شمریت، عمریت اور خولیت کو ہر محاذ پر ناکام و نامراد کر دیا۔ عاشورا کی یہ تحریک امت اسلامیہ کے لیے کسوٹی بن گئی، جس نے وقتاً فوقتاً امت محمدی کے دعویداروں کو پرکھا۔ حسینیت ؑکی صحیح پہچان کروائی اور طاغوتیت، فرعونیت، نمرودیت اور یزیدیت کو ہر دور میں بے نقاب کر دیا۔ محمد علی جوہر نے اس کو عمدہ پیرائے میں بیان کیا ہے:
قتل حسین ؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

کربلا عالم بشریت کے لیے لازوال دانشگاہ بنا، عاشورا ملت ِخوددار اور بیدار کے لیے ہدف اور مقصد بنا، ظالم کی ہلاکت، ظلم کا خاتمہ اور مظلوم کی سرفرازی کا باعث بنا۔ تاریخ بشریت میں سفر کربلا کا ایک ایک لمحہ عالم انسانیت کے لیے در نایاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج سامراجی اور طاغوتی قوتیں اگر کسی چیز سے خوفزدہ ہیں تو وہ صرف اور صرف عزاداری اور پیروی امام حسین علیہ السلام ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حقیقی عزاداروں نے سامراجی قوتوں بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کو بغیر کسی ساز و سامان کے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ امام خمینی ؑ مقام معظم رہبری، سید حسن نصر اللہ، شیخ ابراہیم زکزکی، آیت اللہ باقر نمر النمر، شیخ عیسیٰ قاسم اور شہید قاسم سلیمانی جیسے عزاداران امام حسین ؑ نے امام عالی مقام کی سیرت پر عمل پیرا ہوکر دنیا کے خطرناک سپر پاور طاقتوں کا غرور چکنا چور کر دیا، چوراہے پر سامراج کی ناک رگڑ کر اسلام و مسلمین کی فتح و نصرت کا جھنڈا گاڑ دیا۔

بدنصیبی یہ ہے کہ ملت اسلامیہ معرفت امام حسین ؑسے تاحال بے بہرہ ہے۔ عالم اسلام میں امام عالی مقام کو ایک مخصوص مکتب فکر کے ساتھ منصوب کیا گیا ہے۔ حد درجہ افسوس اس بات کا کہ چند مفاد پرست، جاہل و ناداں ملا نما افراد آج بھی اسلامی لبادہ اوڑھ کر یزید لعین کی وکالت کرکے اس ملعون کو بے گناہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ہماری ملت مرحومہ نے بھی شہادت عظمیٰ کو مرثیہ خوانی اور نوحہ سرائی کے دائرے تک محدود رکھا ہے، جبکہ شہادت کے اصل اہداف و مقاصد سے روگردانی اختیار کی جا رہی ہے۔ اگرچہ عزاداری امام حسین ؑلازمی امر ہے، لیکن یہ عزاداری واقعی عزاداری ہونی چاہیئے۔ یہ عزاداری باعث بنے کہ مردہ ضمیر بیدار ہو جائیں۔ نہ فقط یزید ابن معاویہ بلکہ ہر دور کے یزید اور یزیدیت کے خلاف نفرت و بیزاری کا اعلان ہونا چاہیئے اور اس نفرت کو عملی جامہ بھی پہنایا جائے۔ امام عالی مقام کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے صرف عزاداری کافی نہیں بلکہ امام عالی مقام کی سیرت کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانا انتہائی ضروری ہے، اپنے اندر کردار حسینی ؑ اور افکار حسینی ؑکے جذبات کو جگانا ہے، تاکہ یزیدی کردار کا مقابلہ کیا جائے، یہی طریقہ امام حسین کے تئیں بہترین خراج عقیدت ہے۔

اگر ملت اسلامیہ امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑکی سیرت پر عمل پیرا ہو جائے، ”ہیہات من الذلہ“ کو اپنا شعار بنائے، اپنے اندر شعور و بیداری کا جذبہ پیدا کرے تو شہادت امام حسینؑ کے اصل مقاصد تک رسائی حاصل ہوگی اور ظلم و زیادتی کا بآسانی سے مقابلہ کیا جاسکتا۔ ورنہ روایتی عزاداری بے معنی اور لاحاصل عمل ہے۔ امام عالی مقامؑ بھی روایتی عزاداری اور روایتی عزاداروں سے خوشنود نہیں ہوں گے۔ الغرض کربلا عظیم الشان درسگاہ ہے، اس درسگاہ سے فیض حاصل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔۔۔ بقول جوش ملیح آبادی:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

یمنی مزاحمتی تحریک انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے عاشورائے محرم الحرام کی مناسبت سے ہونے والے اپنے خطاب کے دوران اسرائیل-امارات دوستی معاہدے سمیت غاصب صیہونی رژیم اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کی استواری کی شدید مذمت کی ہے۔ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے آج بعض مسلم ممالک کی موجودہ صورتحال کو بنی امیہ کے دور حکومت میں موجود حالات کے جیسا قرار دیا اور کہا کہ اسلامی دنیا کے اندر "اُموی باغیوں" کا اثر 

ایسی خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا کہ امتِ مسلمہ کے سپوتوں کے درمیان ذہنی شکست، ذلت، غیر ذمہ داری اور لاتعلقی نے ڈیرے ڈال لئے تھے۔

انصاراللہ یمن کے سربراہ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک کو اصلی اسلام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُموی حکام چاہتے تھے کہ اسلام ایک ایسے دین میں بدل جائے، جس کے اندر کوئی حق بحال نہ رہے، باطل کو ناجائز قرار نہ دیا جائے، عدالت برقرار نہ ہو، (مسلمانوں کی) زندگی میں کوئی منصوبہ بندی باقی نہ رہے اور نہ ہی امتِ مسلمہ کی تشکیل 

میں کوئی کردار ادا کیا جا سکے۔ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی کوششوں، جانثاری اور ان کے باوفا اصحاب کی قربانی کے ذریعے نہ صرف اصلی اسلام کی بقاء کو محفوظ بنا دیا بلکہ اس کے ذریعے (حسینیوں کی) گفتار و کردار کے اندر حقانیت کو بھی تسلسل بخش دیا۔

انہوں نے اپنے خطاب کے دوران یمن کی موجودہ صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یمنی عوام آج کے یزید "امریکہ و اسرائیل" کی غنڈہ گردی اور 

بدمعاشی کے سامنے ہرگز گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یمن کی آزاد عوام، "امتِ مسلمہ کے اندر موجود منافقت کے اس گڑھ" کے ساتھ شامل ہونے کے شدید خلاف ہے، جس کی نمائندہ "سعودی و اماراتی" حکومتیں ہیں۔ انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے رَستے کو حقیقی اسلام کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ رَستہ امتِ مسلمہ کے لئے امن و امان، آزادی اور دشمن کے دبدبے و پیروی سے نجات کا ضامن ہے۔

انصاراللہ یمن کے سربراہ نے مزید کہا 

کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے روز یمنی قوم نے یہ قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ امریکہ، سعودی عرب اور امارات کے حملوں و جارحیت کی بھرپور طریقے سے مذمت اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس جارحیت کے مقابلے میں کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرے گی۔ سید عبدالملک الحوثی نے کہا کہ فلسطینی امنگوں اور غاصب صیہونی رژیم و امریکہ کی مخالفت سمیت امتِ مسلمہ کے جاری مسائل کے بارے یمنی قوم کا موقف مستقل اور ناقابل تغیّر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لبنانی، 

شامی، عراقی، بحرینی اور ایرانی عوام سمیت برما، کشمیر اور دنیا کے تمام مقامات پر بسنے والے مسلمانوں کے بارے یمن کا موقف کبھی نہیں بدلے گا کیونکہ یہ موقف ہمارے دینی عقیدے کا ایک اہم جزو ہے۔ انہوں نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے غاصب و بچوں کی قاتل صیہونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کی استواری کی نہ صرف شدید مذمت کرتے ہیں بلکہ اسے شرعی طور پر بھی حرام جانتے ہیں۔