سلیمانی

سلیمانی

یمن کی قبائلی کونسل نے ایک بیان میں فاش کیا ہے کہ سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں بڑے شیطان امریکہ کے صدی معاملے کی مکمل مالی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

یمنی قبائلی کونسل نے کہا کہ یمنی عوام ، صدی معاملے کو سازشی معاملہ سمجھتے ہیں کیونکہ اس معاملے میں فلسطینی عوام کے حقوق کو نظر انداز اور اسرائیل کے حقوق کو تحفظ فراہم فراہم کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ صدی معاملے کا کل امریکی صدرٹرمپ  نے ایک تقریب میں اعلان کیا اس تقریب میں بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور عمان کے سفراء بھی موجود تھے۔

تحریر: محمد صرفی

مغربی ایشیا میں امریکی فوجی مداخلت کی تاریخ تقریباً 60 سال پہلے شروع ہوتی ہے۔ امریکہ کے 34 ویں صدر ڈوائٹ آئزن ہاور نے اپنے دوسرے صدارتی دورے میں نئی ڈاکٹرائن کا اعلان کیا جسے کانگریس میں بھی منظور کر لیا گیا۔ یہ نئی حکمت عملی جو "آئزن ہاور ڈاکٹرائن" کے نام سے معروف ہوئی دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ کی حامی حکومتوں کی پشت پناہی کیلئے فوجی طاقت کے استعمال پر مبنی تھی۔ البتہ اس سے پہلے سابق امریکی صدر ٹرومین کے دور میں امریکہ نے یورپ میں سابق سوویت یونین کے اثرورسوخ کو روکنے کیلئے وہاں فوجی موجودگی قائم کر رکھی تھی۔ آئزن ہاور کی جانب سے نئی ڈاکٹرائن کے اعلان کے بعد امریکہ نے سرکاری سطح پر 1958ء میں لبنان میں فوج بھیج دی اور یوں مغربی ایشیا میں امریکی فوجی موجودگی کا آغاز ہو گیا۔ لبنان میں فوج بھیجنے کیلئے امریکہ نے وہاں کی عیسائی حکومت کے تحفظ اور حمایت کا بہانہ بنایا۔ آئزن ہاور نے اس خطے میں امریکہ کی فوجی موجودگی کو "پینڈورا باکس" نام دیا تھا۔ آج تک پیش آنے والے حالات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی پیشن گوئی اور تجزیہ درست تھا۔

البتہ مغربی ایشیائی خطے میں امریکہ کی فوجی مداخلت کا سلسلہ آئزن ہاور ڈاکٹرائن کے سرکاری اعلان سے کافی عرصہ پہلے شروع ہو چکا تھا۔ 1953ء میں آئزن ہاور کے پہلے صدارتی دورے میں ایران میں عوامی مینڈیٹ کی حامل ڈاکٹر مصدق کی حکومت کے خلاف بغاوت درحقیقت امریکہ اور برطانیہ کی ملی بھگت سے انجام پائی۔ یہ اقدام تاریخ میں بیرونی مداخلت کا معروف ترین نمونہ جانا جاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ سے لے کر آج تک امریکہ نے مغربی ایشیا خطے میں تقریباً 25 مرتبہ فوجی اور سکیورٹی مداخلت انجام دی ہے۔ یعنی تقریباً ہر تین برس میں ایک بار مداخلت کی ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ کی مداخلت نہ صرف کم نہیں ہوئی بلکہ اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر، شدید تر اور زیادہ مالی اور جانی نقصان کے ہمراہ ہوتا چلا گیا ہے۔ نائن الیون واقعے کے بہانے افغانستان اور پھر عراق پر فوجی قبضہ فوجی مداخلت پر مبنی ان اقدامات میں سے واضح ترین مصداق ہیں۔ اکثر سیاسی ماہرین حتی امریکی تجزیہ کاروں نے انہیں "نہ ختم ہونے والی جنگوں" کا نام دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ایشیا خطے میں امریکہ کی تمام تر فوجی مداخلتیں ڈکٹیٹر اور آمر حکمرانوں سے مقابلے کے عنوان سے انجام پائی ہیں۔

امریکی حکمرانوں نے ہمیشہ ہر جنگ شروع کرنے سے پہلے روشن مستقبل، ملک کی تقدیر عوام کے سپرد کرنے، ظلم و ستم کا شکار عوام کو آزادی اور انصاف فراہم کرنے جیسے کھوکھلے وعدوں کا سہارا لیا ہے۔ لیکن ہمیشہ امریکہ کی فوجی جارحیتوں کا نتیجہ اس ملک میں بدامنی اور انارکی میں اضافے، عام شہریوں کے قتل عام، دہشت گرد گروہوں کے فروغ اور شدت پسندی میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ وہی عوام جنہیں آزادی اور انصاف دلوانے کے وعدے کئے گئے تھے بے دردی سے قتل عام کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ گولوں اور بموں کے ذریعے امریکی جمہوریت کے فروغ کا نتیجہ ہے۔ گذشتہ دو عشروں سے امریکہ کے تھنک ٹینکس اور میڈیا نے فوجی جارحیت کے بعد عوامی نظام حکومت تشکیل پانے پر مبنی امریکی حکمرانوں کے نظریے کی توجیہات پیش کرتے ہوئے اس کی نظریاتی بنیادیں فراہم کی ہیں۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ کے فوجی اقدامات نے واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کہ یہ نعرے، وعدے اور نظریے محض فریب اور دھوکہ تھے اور خالص حماقت تھی۔ بمباری اور تباہی پھیلانے کے ذریعے آزاد قوم اور ریاست کا قیام ایک سفید جھوٹ ہے۔

اب تک امریکہ کی ان تمام جنگوں کے اخراجات وہ بڑی بڑی اسلحہ ساز کمپنیاں ادا کرتی آئی ہیں جن کی بقا اور منفعت انہی جنگوں پر منحصر تھی۔ یہ کمپنیاں درحقیقت موت کی سوداگر ہیں۔ مغربی ایشیا خطے میں بدامنی اور سکیورٹی بحران ایک طرف امریکہ کی مختلف کمپنیوں کے حصص میں گراوٹ کا باعث بنا ہے جبکہ دوسری طرف بڑی بڑی امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے حصص چوٹی پر جا پہنچے ہیں۔ ان کمپنیوں میں نارتروپ گرومین، لاک ہیڈ مارٹن، ایل تھری ہیریس ٹیکنالوجیز، ریتھیون، ہنٹنگٹن انگلز، ٹرانس ڈائم گروپ اور جنرل ڈائنامیکس کا نام قابل ذکر ہے۔ فوجی صنعتی کمپلکسز کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم کے اخراجات فراہم کرنا بھی ایک انتہائی دلچسپ اور تفصیلی ٹاپک ہے جس کیلئے علیحدہ تحریر کی ضرورت ہے۔ مذکورہ بالا سات امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں 400 ارب ڈالر کے اثاثے رکھتی ہیں اور پینٹاگون کی شراکت سے خلیج عرب ریاستوں اور دیگر ممالک کو اسلحہ سپلائی کرنے والی سب سے بڑی کمپنیاں شمار ہوتی ہیں۔ میزائل، جنگی طیارے، ریڈار وغیرہ موت کی سوداگر ان کمپنیوں کی تازہ ترین مصنوعات شمار کی جاتی ہیں۔ اسلحہ کی ساخت اور فروخت کیلئے ایک مفروضہ اور نقلی دشمن کا ہونا ضروری ہے۔

اگر دشمن نہ ہو تو خطے میں موجود دودھ دینے والی گائیوں کو کیسے دوہا جائے؟ خطے میں اپنے فوجی اڈوں کے خاتمے اور فوجی موجودگی ختم کرنے سے متعلق پائی جانے والی رائے عاملہ کے سامنے امریکی حکمرانوں کی مزاحمت درحقیقت انہی وجوہات کی بنا پر ہے۔ امریکی حکام یہ دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ عراقی قوم اور حکومت کی حفاظت کیلئے اس ملک میں موجود ہیں۔ لیکن اب جب عراقی حکومت اور عوام دونوں نے امریکہ سے فوجی انخلا کا بھرپور مطالبہ کر دیا ہے تو امریکی حکمران انتہائی بے شرمی سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ عراق چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ جمعہ 24 جنوری کے دن عراق میں امریکی فوجی انخلا کا بل منظور کرنے پر پارلیمنٹ کی حمایت میں ملین مارچ کا انعقاد ہوا۔ یہ ملین مارچ درحقیقت ملک سے امریکہ کے فوجی انخلا کے بارے میں ایک عوامی ریفرنڈم تھا۔ عراقی عوام امریکہ کو نہ صرف نجات دہندہ تصور نہیں کرتے بلکہ اس سے شدید نفرت رکھتے ہیں۔ یہ ملین مارچ دہشت گرد امریکی فوج کو عراقی عوام کی اتمام حجت تھی۔ عراقی عوام ابھی ابوغریب جیل میں امریکی فوجیوں کے غیر انسانی اور مجرمانہ اقدامات کو نہیں بھولے۔

امریکہ جو اس بات کا دعویدار تھا کہ وہ عراقیوں کی درخواست پر اس ملک میں آیا ہے گذشتہ چند ہفتوں سے انتہائی گستاکی اور بدمعاشی سے عراقی پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے ڈٹ کر کہہ رہا ہے کہ عراق سے باہر نہیں نکلے گا۔ عراقی قوم اور حکومت کے اس قانونی اور برحق مطالبے کے مقابلے میں امریکی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ عراق سے باہر نکلتے ہیں تو داعش دوبارہ سرگرم عمل ہو جائے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عراق میں داعش کا بیج خود امریکہ نے بویا تھا اور جب تک امریکہ شام اور عراق میں موجود ہے اس وقت تک داعش مکمل طور پر نابود نہیں ہو گی۔ داعش درحقیقت امریکہ کی جانب سے اپنی فوجی موجودگی کا جواز فراہم کرنے کیلئے ایک شیطانی ہتھکنڈہ ہے۔ جمعہ 24 جنوری کے روز امریکہ کے خلاف عراقی عوام کا ملین مارچ ایک قومی ریفرنڈم تھا اور اس کا نتیجہ تمام دنیا والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس بھرپور عوامی ریفرنڈم کے بعد عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی ایک نیا معنی و مفہوم رکھتی ہے۔ اب یہ فوجی موجودگی قبضے، غصب اور استعمار کے زمرے میں آتا ہے۔ امریکی حکمرانوں کیلئے عراقی عوام کا یہ واضح پیغام تھا کہ تمہیں عراق سے نکلنا ہو گا اور عمودی جانا ہے یا افقی یہ انتخاب آپ کا ہے۔

جب تک عراق میں امریکی موجودگی باقی رہے گی اس ملک میں سکون اور امن و امان پیدا نہیں ہو سکتا۔ امریکہ اس قدر گستاخ ہو گیا ہے کہ عراق میں ایران اور عراق کے دو اعلی سطحی فوجی کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کر چکا ہے۔ امریکہ کا یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ اس کی نظر میں عراق کی خودمختاری اور خود اردیت ذرہ برابر اہمیت نہیں رکھتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عراقی عوام میں حالیہ بیداری کی لہر شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کے پاکیزہ خون کی برکت سے ہے۔ ان پاکیزہ اور متقی افراد کا خون دنیا کے شقی ترین اور ظالم ترین شخص کے ہاتھوں بہایا گیا ہے۔ ایران اور عراق کے ان دو اعلی سطحی فوجی کمانڈروں کی ایک جگہ شہادت نے ایرانی اور عراقی قوموں کے درمیان ایک اٹوٹ اور گہرا تعلق قائم کر دیا ہے اور اب یہ نعرہ سننے میں آ رہا ہے کہ "ایران و العراق لا یمکن الفراق"۔ عراق کے ملین مارچ میں لگنے والا یہ نعرہ امریکی حکمرانوں کو عراقی عوام کا واضح پیغام ہے۔ اگر امریکی حکمران اس واضح پیغام کو نہیں سنتے تو یقیناً اس کے نتیجے میں ایک نئی صورتحال پیدا ہو گی۔ اس وقت گیند ٹرمپ کے کورٹ میں ہے اور اسے یہ حتمی فیصلہ کرنا ہے کہ عراقی عوام کا یہ پیغام سننا ہے یا کسی دوسری زبان میں ردعمل سے روبرو ہونا ہے۔

وان نامی ویب سائٹ کے تجزیہ نگار جوزف ڈمپسی نے اس واقعے پر اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجی طیارے کی سرنگونی، حالیہ برسوں کے دوران افغانستان میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی نقصان سمجھا جاتا ہے۔

برطانوی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ طیارے کی سرنگونی میں ہلاکتوں کی تعداد کی تائید نہیں کی جاسکتی لیکن گزشتہ پانج سال کے دوران افغانستان میں امریکا کا یہ سب سے بڑا فوجی نقصان ہے۔

امریکی وزارت دفاع نے پیر کے روز اعلان کیا کہ وہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقے میں ایک طیارے کی سرنگونی کے بارے میں تحقیقات کر رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر حادثے سے متعلق جاری ہونے والی فوٹیج سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ طیارہ ای الیون قسم کا تھا جیسے امریکی فوج افغانستان میں جاسوسی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔

اس سے پہلے آمدہ خبروں میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کی قومی ایئر لائن آریانا کا مسافر طیارہ غزنی میں گر کر تباہ ہوگیا ہے تاہم افغانستان کے شہری ہوابازی کے ادارے نے اس کی تردید کردی تھی۔

طالبان کے ترجمان نے مذکورہ طیارے کو مار گرانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعوی کیا کہ طیارے میں سوار متعدد اعلی افسران سمیت تمام امریکی فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

عراق عظیم ملک ہے، اسے انبیاء کی سرزمین کہتے ہیں، یہاں ائمہ اہلبیتؑ کے مزارات ہیں اور کروڑوں لوگوں کی عقیدتوں کے مرکز کربلا و نجف عراق میں ہیں۔ تہذیب و تاریخ سے متعلق لوگوں کے لیے بابل اور دجلہ و فرات میں تشکیل پانے والی تہذیبیں رومانوی سی لگتی ہیں۔ یہاں کے شہر بھی تاریخی ہیں بصرہ، کوفہ، بغداد، کربلا اور نجف، ان کے نام سنتے ہی  ان شہروں سے منسلک تاریخی واقعات سامنے آنے لگتے ہیں۔ عراق کی بدقسمتی ہے کہ صدام کے جبر سے نکلتے ہی براہ راست بین الاقوامی استعمار کے قبضے میں چلا گیا۔ یہ تو یہاں کی مرجعیت کی حکمت عملی تھی کہ جو کام طالبان ہزاروں شہریوں کے مروانے اور  اتنا بڑا انفراسٹکچر برباد کروانے کے باوجود نہ کرسکے، مرجعیت نے چند سال میں ہی کر دیا۔ امریکہ نے عراق میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری وہاں سے جلدی نکلنے کے لیے نہیں کی تھی اور نہ ہی امریکہ اتنا اچھا ہے کہ عراقی عوام کو ایک ڈکٹیٹر سے نجات دلانے کے لیے اس نے  اتنا بڑا جنگی اقدام کیا ہو۔

امریکہ واپسی پر مجبور ہوا، مگر ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ  واپس آیا۔ اس کا پروگرام یہ تھا کہ داعش کو اگلے بیس سال تک خطے میں فعال رکھا جائے گا اور ہر دو چار ماہ بعد ان سے کوئی ایسا کام کرایا جائے گا، جس سے اسلام بدنام ہو، اہل مغرب مطمئن رہیں کہ امریکہ انسانیت دوستی کا کام کر رہا ہے اور اس گروہ کی سرکوبی بہت ضروری ہے۔ امریکہ کی یہ چال بری طرح ناکام رہی اور اللہ نے اپنی تدبیر کے ذریعے انہیں ناکام کر دیا۔ داعش جس پر اتنی سرمایہ کاری کی گئی تھی،  مرجعیت کے ایک فتویٰ سے ہوا کا ڈھیر ثابت ہوئی اور جنرل قاسم سلیمانی شہید کی کامیاب حکمت عملی سے نہ صرف اس کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے بلکہ وہ  انتہائی مختصر عرصے میں شہروں سے تتر بتر کر دیئے گئے۔ ان کے آمدن کے ذرائع ختم کر دیئے گئے اور وہ صحراوں میں چھپنے پر مجبور ہوگئے، جہاں پر ان کا پیچھا جاری ہے۔

جب امریکہ نے دیکھا کہ اس کی اور اس کے اتحادیوں کی ساری محنت ضائع ہو رہی ہے اور ان کا بہت نقصان ہو رہا ہے تو انہوں نے براہ راست مداخلت کا فیصلہ کیا اور امریکی افواج داعش سے لڑنے کے نام پر عراق میں داخل ہوگئیں۔ یہ داعش سے لڑیں یا داعش کی سپورٹ کرتی رہیں، یہ سب بھی راز نہیں ہے۔ امریکی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہیں کہ ہم داعش سے لڑ رہے ہیں اور ہماری وجہ سے داعش محدود ہوتی جا رہی ہے۔ اگر امریکی صدر ٹرمپ کی تقاریر سنیں تو وہ اپنی کامیابیوں میں سے ایک کامیابی داعش کے خلاف موثر کارروائی کو قرار دیتے ہیں۔ امریکہ نہ تو  داعش سے لڑنے آیا تھا اور نہ ہی ان کا مقصد اہل عراق کو اس انسانیت دشمن گروہ سے نجات دلانا تھا، یہ تو افغانستان میں بیس سال سے طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں اور انہیں نہ صرف شکست نہیں دے سکے، الٹا ابھی ان سے امن معاہدے کے لیے پاکستان سے بھیک مانگ رہے ہیں اور کہہ رہیں کہ ہمیں پرامن انخلا کی گارنٹی لے کر دو۔

جنرل قاسم سلیمانی، ابو مہدی مہندس اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد امریکی پلان یہ تھا کہ ڈرا دھمکا کر ہم عراق میں اپنے پاوں مزید مستحکم کریں گے۔ عراق کی غیور عوام اور وہاں کی پرعزم قیادت نے بھرپور انداز میں امریکی حملے کو عراق پر حملہ قرار دیا اور عراقی پارلیمنٹ نے قرارداد منطور کرتے ہوئے فوری طور پر امریکی افواج کے عراق سے نکل جانے کا مطالبہ کیا۔ اس پر امریکی صدر کا ردعمل  غیر سفارتی اور غیر اخلاقی تھا کہ ہم عراق پر ایسی پابندیاں لگائیں گے، جیسی پابندیاں پہلے کسی پر نہیں لگی ہوں گی اور یہ ایران پر پابندیوں کو بھول جائیں گے۔ اقوام کے تعلقات باہمی احترام اور ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے پر مبنی ہوتے ہیں، یہ وار لارڈز کے تعلقات کی طرح نہیں ہوتے، جن کی بنیاد ہی طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔

کل عراقی تاریخ کے عظیم الشان مظاہرے ہوئے ہیں اور ان کا فقط اور فقط ایجنڈا امریکی افواج کو عراق سے بے دخل کرنا تھا۔ عراقی عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور اب امریکی افواج کو تہذیب یافتہ طریقے سے نکل جانا چاہیئے، اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو بین الاقوامی قانون کے مطابق انہیں قابض فورسز شمار کیا جائے گا، جن کے خلاف  نہ صرف مزاحمت درست ہوتی بلکہ پوری دنیا میں انہیں غیر مہذب سمجھا جائے گا۔
ویسے عجیب بات یہ ہے کہ امریکی حکومت اب داعش کی طرح ایک اور حماقت کرنے جا رہی ہے، جس سے امریکی انتظامیہ کو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ امریکی حکومت اس منصوبے پر کام کر رہی ہے کہ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، پہلا حصہ شیعہ عراق ہو، دوسرا کردستان کی شکل میں ہو اور تیسرا حصہ سنی عراق ہو۔ اس پر کافی عرصہ پہلے بھی غور کیا گیا تھا، مگر ردعمل کے خوف سے اسے ختم کر دیا گیا تھا، اب دوبارہ اس پر غور و فکر جاری ہے۔

اربیل میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ نے عراق کے سنی ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کی ہے، اسی طرح عراق کے مضبوط سنی اراکین پارلیمنٹ کو عرب امارات لے جایا گیا ہے، جہاں ان کی ملاقاتیں عرب اور امریکی آفیشلز سے کرائی گئی ہیں اور انہیں اس پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ عرب امارات اور سعودی عرب نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ اس سب سے امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ شام کے بارڈر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا جائے اور لبنان، شام، عراق اور ایران کے درمیان جو براہ راست زمینی رابطہ قائم ہوا ہے، اسے ختم کر دیا جائے۔ عراق کی خود مختاری کا جنازہ تو پہلے نکالا جا چکا ہے، اب عراقی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ یہ لوگ جیسے پہلے اس منصوبے میں ناکام ہوئے تھے، اب بھی اس منصوبے میں ناکام ہوں گے اور عراق اپنے وحدت پر باقی رہے گا۔ ویسے ان تمام حالات سے یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ بین الاقوامی قانون محض غریب ممالک کو دبانے کا ہتھیار ہے، یہ طاقتور کو تجاوز کرنے سے بالکل نہیں روکتا۔

بسم الله الرحمن الرحیم والحمد لله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید خلقه وسید رسله محمد وآله الطاهرین.حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ کے سلسلے میں گفتگو کا سلسلہ جاری تھا بات اس جملے پر پہنچی جس میں حضرت زہرا (س) نے دین اسلام کا فلسفہ بیان کیا ہے اور واجبات اور دینی احکام کے دلائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔آپ (س) کے اس جملے کے بارے میں گفتگو جاری تھی «فَجَعَلَ اللهُ الإیمانَ تَطهیراً لَکُم مِن الشِّرکِ» ( خداوندعالم نے ایمان کو اس لیے قرار دیا تاکہ تم شرک سے پاک ہو جاو) اور کہا کہ یہ جملہ بظاہر تو بہت مختصر ہے لیکن اس میں معانی کا ایک دریا سمایا ہوا ہے۔ پچھلی تقریر میں اس بارے میں مختصر گفتگو ہوئی اور کہا گیا کہ اگر انسان اپنی زندگی میں کامیابی کی منزل تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے ایک سمت و سو حرکت کرنا پڑے گی یعنی انسان کا کسی عمل کو انجام دلانے والا محرک صرف ایک ہی ہونا چاہیے تب وہ کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر انسان مومن ہے تو اپنی تمام تر توانائیوں کے ذریعے اللہ کی خشنودی حاصل کرنے کی راہ میں لوگوں کی خدمت کرتا ہے۔ ایسا انسان اپنی زندگی میں بے انتہا مثبت اثرات کا حامل ہو سکتا ہے اور اس کی زندگی بابرکت ہو سکتی ہے۔ لیکن مشرک انسان چونکہ اس کے اندر محرک ایک نہیں ہوتا اس کی سمت و سو ایک نہیں ہوتی تو اس کا باطن کھوکھلا ہوتا ہے وہ اندر سے بٹا ہوا ہوتا ہے اس کی زندگی کامیاب زندگی نہیں ہوتی۔ ہم نے چند مثالوں سے یہ ثابت کیا تھا کہ انسان یا حیوان حتی ایک مرغا اگر ایک سمت و سو حرکت کرتا ہے تو کس طرح اس کے اندر حیرتک انگیز توانائیاں وجود پا جاتی ہیں۔ لہذا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اس جملے کا خلاصہ یوں ہو گا کہ شرک ایک طرح کی روانی بیماری ہے  کہ جس سے بدتر اور مہلک کوئی اور بیماری نہیں ہے اس لیے کہ شرک انسان کے وجود کو تقسیم کر دیتا ہے انسان کے باطن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اور اسے کمال کی طرف بڑھنے سے روک دیتا ہے۔بنابرایں، شرک ایک قسم کی بیماری ہے اور ایمان اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ایمان انسان کو اس بیماری سے پاک کرتا ہے اسی وجہ سے حضرت فاطمہ زہرا (س) نے ایمان کو انسان کے لیے شرک سے پاک ہونے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ یہاں تک گزشتہ مجلس میں گفتگو ہوئی تھی۔ اس کے بعد آپ (س) عبادتوں کے فلسفے اور ان کے نتائج کے بارے میں گفتگو کا آغاز کرتی ہیں۔ نماز واجب ہوئی ہے تاکہ مومنین اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کرنے کی مشق دیں اور خدا کی عبادت اور بندگی کو درک کریں۔ روزہ اور حج کے واجب ہونے کے بھی اپنے آثار ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا یہ گفتگو کہاں کر رہی ہیں؟ مسجد میں نمازیوں کے درمیان۔ آپ نمازیوں سے یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اے مسلمانو! یہ نمازیں اور یہ عبادتیں جو تم پر واجب ہوئی ہیں اس لیے نہیں ہیں کہ تم نماز پڑھنے کو عادت بنا لو اور نماز کی ادائیگی کا حقیقی مقصد بھول جاو اور اسے صرف ایک ظاہری رسم و رواج میں تبدیل کر دو۔خداوند عالم نے اس وجہ سے نماز کو تم پر واجب قرار دیا ہے کہ نماز تمہیں برائیوں سے روکے، برے کاموں سے باز رکھے اور یہ نص قرآن کریم ہے «إِنَّ الصَّلوۃ تَنهی عَنِ الفَحشاءِ وَ المُنکَرِ»(۱) لہذا اے مسلمانوں تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم نمازیں بھی پڑھ رہے ہو اور دوسرے کے حق بھی غصب کر رہے ہو؟ نمازیں بھی پڑھ رہے ہو اور دوسروں پر ظلم بھی کر رہے ہو؟ نماز بھی پڑھ رہے ہو اور اہل حق کو اس کا حق نہیں دے رہے ہو؟حضرت فاطمہ زہرا(ع) مسجد میں بیٹھے ہوئے نمازیوں کو یہ فرما رہی ہیں کہ تم لوگ کیا سمجھتے ہو نماز کیوں واجب کی گئی؟ کیا اس لیے کہ ہر دن ایک بار دو بار یا پانچ بار مسجد میں آکر جانماز پر کھڑے ہو کر کچھ حرکتیں انجام دے دیں اور اس کے بعد چلیں جائیں؟ بس نماز صرف یہی ہے؟ کیا حقیقت نماز صرف یہی ہے؟ کیا خدا کو اس طرح کی نمازوں کی ضرورت ہے؟ ایسی نماز تو ہمارے دین میں نہیں پائی جاتی۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خدا ہماری عبادت، ہمارے نماز، روزے، حج و زکات سے بے نیاز ہے۔ پس کیوں نماز واجب ہوئی ہے؟خداوند عالم نے نماز کو واجب کیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر اطاعت اور بندگی کا سلیقہ پیدا ہو ان کے اندر بندگی کی روح پیدا ہو۔ نماز کا فلسفہ یہ ہے جو قرآن نے بیان کیا  ہے نماز انسان کو ہر طرح کی برائی سے روکتی ہے یعنی اس کے اندر خدا کی اطاعت اور بندگی کی روح پیدا کرتی ہے۔ یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے اور خدا سے تقرب کا ذریعہ ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سے انسان اللہ کا واقعی بندہ بن جاتا ہے۔ اب ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہماری نمازیں ہمیں گناہوں سے روکتی ہیں؟ کیا جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہمارے اندر گناہوں سے دور ہونے کا محرک پیدا ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری نمازیں بھی چند حرکتیں ہیں ورزش ہے نماز نہیں ہے۔حضرت زہرا اس امت کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ یہ نمازیں پڑھ رہی ہے لیکن کیا

یہ پیغمبر اسلام (ص) کے دیگر فرامین پر بھی عمل پیرا ہو رہی ہے؟ رسول خدا (ص) نے جو علی علیہ السلام کے بارے میں وصیت کی تھی کیا اس کو انہوں نے نہیں سنا ہے؟ کیا یہ لوگ کل تک رسول خدا (ص) کے ساتھ ساتھ نہیں چل رہے تھے؟ کیا انہوں نے نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: «الساکِتُ عَنِ الحَقِّ شَیطانٌ أخرَسٌ"  ( جو شخص حق بات کہنے پر خاموش ہو جائے وہ گونگا شیطان ہے) کیا انہوں نے ان باتوں کو رسول اسلام سے نہیں سنا تھا؟ کیسے انہوں نے اجازت سے دی ان کی آنکھوں کے سامنے حق اہل حق سے چھن جائے؟ ابھی تو حجۃ الواع اور اعلان ولایت امیر المومنین (ع) کو  چار ہی مہینے گزرے تھے۔ کیا یہ لوگ بھول گئے؟ یا خود کو فراموشی میں ڈال دیا ہے؟ یا چپ ساد لی ہے؟ مگر ایسا نہیں ہے جو حق بات کہنے کے بجائے چپ ساد لے وہ گونگا شیطان ہے؟ کیوں ان کی نمازوں، عبادتوں، حج و دیگر اعمال نے انہیں حق کی حمایت کرنے سے روک دیا؟ اس لیے کہ عبادت ان کے لیے عادت بن چکی تھی ان کی عبادتیں اپنی اصلیت کو کھو چکی تھیں وہ صرف نماز کی شکل  میں حرکات انجام دے کر چلے جاتے تھے۔حضرت زہرا(س) فرماتی ہیں: اے لوگو! ان نمازوں، روزوں ، حج و زکات اور امر و نہی کا کچھ معنی اور مفہوم بھی ہےْ کیسے تم نماز پڑھتے ہو اور غرور و تکبر بھی کرتے ہو؟ کیسے ایسی چیز ممکن ہے؟ نماز خدا کی اطاعت اور بندگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ نماز خدا کے سامنے انکساری کے اظہار کی ایک مشق ہے۔ وہ نماز جس سے غرور پیدا ہو وہ نماز نہیں ہو سکتی جس کا حکم اللہ نے دیا ہے بلکہ یہ وہ نماز ہے جس کا حکم نفس امارہ دے رہا ہے۔ جس نماز کا حکم اللہ نے دیا ہے وہ نماز دل کو روشن کرتی ہے، نفس کو منکسر کرتی ہے، انسان کو متواضع کرتی ہے۔ ہم نماز میں کیا کرتے ہیں؟  کتنی مرتبہ خدا کا تذکرہ کرتے ہیں اس کا نام لیتے ہیں؟ شروع سے آخر نماز تک کتنی مرتبہ اس کے سامنے جھکتے ہیں؟ کتنی مرتبہ اپنی پیشانی زمین پر رکھتے ہیں اور اس کا سجدہ کرتے ہیں؟ سجدہ کا کیا مطلب ہے؟ انسان خدا کے سامنے سجدہ کرنے سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ میرا پورا وجود اور میری روح و جان خدا کے سامنے تسلیم ہے۔ اپنا سر اور پیشانی جو میری سربلندی اور میری عزت کی علامت ہے اسے اپنے معبود کے سامنے خاک پر رکھ دیتا ہوں۔ کیا نماز اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟ کیوں سجدہ کرتے ہو؟ کیا کسی بادشاہ یا حاکم کے سامنے سجدہ کرنا جائز ہے؟ انسان کا سجدہ صرف خدا کے لیے ہونا چاہیے۔ ہم خدا کے علاوہ کسی کے سامنے اپنا سر نہیں جھکا سکتے۔ اس سجدہ کا کیا مطلب ہے؟سجدہ یعنی تواضع اور فروتنی کی آخری حد۔ سجدہ کی علامت پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے۔ یعنی خدایا میں صرف تیرے آگے تسلیم ہوں لہذا اپنے سر اور پیشانی کو زمین پر رکھ دیتا ہوں۔ہم نماز کے وقت خدا کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں۔ کیسے خدا کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں؟ کیا ہم نماز میں خدا کے ساتھ ہم کلام نہیں ہوتے؟ کیا ہم نماز میں نہیں کہتے؟ «اِیّاکَ نَعبُدُ وَاِیّاکَ نَستَعینُ.»(۲) ہم کہتے ہیں صرف تو، تو کون ہے؟ کیا خدا نہیں ہے؟ خدا کو کہتے ہیں کہ صرف تیری عبادت کرتے ہیں۔ صرف تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ تیرے علاوہ کسی سے مدد کا مطالبہ نہیں کرتے۔ لہذا آپ نماز میں اپنے پروردگار سے مناجات کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اس کے سامنے سجدے اور رکوع کر رہے ہوتے ہیں۔ان تمام اعمال کو نتیجہ کیا ہے؟ غرور؟ تکبر؟ حدیث میں آیا ہے: «الغُرورُ شِرکٌ خَفیٌّ» غرور مخفی شرک ہے۔ انسان کو تکبر کرنےکا حق نہیں ہے۔ انسان کس چیز پر اپنے آپ کو بڑا سمجھے؟ قرآن کہتا ہے: «وَلاَ تَمْشِ فِی الأرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَن تَخْرِقَ الأرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً.»(۳) کس چیز پر فخر کریں اور اپنے آپ کو بڑا کہیں میں ایسا موجود ہوں جس کے پاس نہ اپنے نفع کا اختیار ہے نہ نقصان کا نہ زندگی کا نہ موت کا کچھ بھی تو میرا نہیں ہے۔ نہ دولت میری، نہ علم میرا، نہ اولاد میری، ہمارے پاس کچھ بھی اپنا نہیں ہے۔ ہم برہنہ دنیا میں آئے اور برہنہ دنیا سے جائیں گے۔ نہ کچھ لائے تھے اور نہ کچھ لے کر جائیںگے۔لہذا، یہ ثروت، یہ دولت، علم، طاقت زندگی ہمارے پاس امانت ہے۔ یہ چیزیں ہماری اپنی نہیں ہیں۔ ہم ان کے امین ہیں۔ پس غرور کس بات کا؟ وہ نماز جو انسان کے اندر غرور پیدا کرے نماز نہیں ہے۔ نماز وہ ہے جو انسان کے اندر سے غرور کو ختم کرے۔لہذا ہماری نمازوں کو ہمارے اندر تواضع پیدا کرنا چاہیے جب میں خدا کے سامنے سر سجدے میں رکھوں تو یہ احساس کروں کہ میں اپنے پروردگار کے سامنے تسلیم ہو گیا ہوں میرا سب کچھ اس کا ہے  «إِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.»(۴) اس وقت مجھے یہ محسوس کرنا چاہیے کہ میرے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ میں کون ہوں جو تکبر کروں؟ میں کون ہوں جو کسی سے انتقام لوں؟ میں تو ایک ناتوان، ضعیف اور بے کس موجود ہوں۔یہ نماز کے معنی کا خلاصہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ میں شیطان، دشمنوں اور ظالموں کے مقابلہ

میں بھی ضعیف اور ناتوان بنا رہوں۔ اس لیے کہ ہماری قدرت اور طاقت اللہ کے لیے ہے نہ ہماری ذات کے لیے۔یہاں پر میں آپ کی توجہ کو اس اصطلاح ’’اعتماد بالنفس‘‘ کی طرف مبذول کرنا چاہوں ہوں گا۔ اعتماد بالنفس کا کیا مطلب ہے؟ کہتے ہیں فلاں کے اندر اعتماد بالنفس پایا جاتا ہے۔ یعنی وہ نڈر اور شجاع ہے۔ اعتماد بالنفس غرور اور تکبر سے الگ ہے۔ توکل اور اعتماد بالنفس ایک قسم کا کمال ہے یعنی جب میں کسی مشکل میں گرفتار ہوتا ہوں، جب میں میدان جنگ میں جاتا ہوں، جب میں زندگی کے کسی کام میں مشغول ہوتا ہوں تو اگر خدا پر بھروسہ کرتا ہوں تو قوی ہوں خدا پر بھروسے کے ذریعے قوی ہوں لیکن خود متواضع ہوں۔لیکن انسان اگر خود اپنے آپ پر بھروسہ کرے تو مغرور ہو جائے گا حق اور باطل کے درمیان تمیز پیدا نہیں کر پائے گا۔ کبھی حق کی راہ پر چلے گا اور کبھی باطل کی راہ پر۔ لیکن اگر خدا پر بھروسہ ہے تو نہ مغرور ہو گا اور نہ متکبر، اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اس کی صحیح راہ میں ہدایت کرے گا۔لہذا نماز بندوں کی صحیح تربیت کے لیے تمرین اور مشق ہے۔ نماز ایسا کارخانہ ہے جس میں انسان کی اصلاح ہوتی ہے۔

تحریر: رائے محمد یوسف رضا دھنیالہ

ولد مجاہدِ اہلسنت حضرت علامہ مولانا حافظ محمد اسلم (رہ)

صدام کا عراق تباہ کرکے اس پر قابض امریکیوں نے عربوں میں داعش کا بیج بونے کے لئے ابوبکر البغدادی کو اپنی جیل سے رہا کرکے اس کے نام پر دولتِ اسلامیہ عراق و شام نام کی ایک خونی سلطنت قائم کرکے مسلمانوں کا جب وحشیانہ قتال شروع کروایا تو اس کا نشانہ صرف شیعہ نہیں بلکہ تمام مسلمان اور اس خطے میں آباد عوام الناس بنے۔ امام بارگاہوں کو زمین بوس کیا جانے لگا، عراق و شام میں موجود انبیاء و اولیاء کے مزارات اور اسلامی ورثے کی حامل یادگاروں کو تباہ و برباد کیا گیا اور قریب تھا کہ اسلام کے نام پر قتال کرکے شام و عراق کے مسلمانوں کو اس قدر کمزور اور نڈھال کر دیا جائے کہ پھر اسرائیل شام سے ہوتا ہوا وادیءِ دجلہ و فرات تک بغیر کسی بڑی مزاحمت کے پہنچ کر قابض ہو جائے، تو ایسے میں یہود و نصاریٰ کا راستہ روکنے کے لئے عالمِ اسلام کا ایک حقیقی سپہء سالار مملکتِ اسلامیہ ایران سے اٹھا اور عراق و شام کے مظلوم و محکوم مسلمانوں کو داعش کے پنجہءِ استبداد سے چھڑانے اور امریکی و یہودی سازش کو ناکام بنانے کے لئے میدانِ کارزار میں اس طرح اترا کہ پھر عراق و شام سے عالمی سامراج اور صیہونی پشت پناہی والی اسلام دشمن حکومت "داعش" کا خاتمہ کرکے ہی چھوڑا۔

دورِ حاضر میں اسرائیل، امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو مشرقِ وسطیٰ میں شکست سے دوچار کرکے شام کی راہداری کے ذریعے یہودیوں کی عراق تک رسائی کو روک دینے والا وہ عظیم مسلمان مجاہد پاسدارانِ انقلاب ایران کا جرنیل قاسم سلیمانی تھا، جسے بالآخر انبیاء کی سرزمین پر یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں عظیم شہادت نصیب ہوئی اور وہ مسلمان قوم کا مقدر اور اپنی آخرت سنوار گیا۔ میں ایک اردو داں پاکستانی مسلمان ہوں، لیکن قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کی فوری خبر پاکستانی عوام میں جس طرح پھیلی اور ہم پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر جس طرح ان کی شہادت کا سوگ منایا، اس یکجہتی نے ثابت کر دیا تھا کہ ہم عرب، ایرانی، تورانی، ترک، ملایا، پاکستانی، ہندوستانی، افریقی یا کسی خاص وطن کے باشندے نہیں بلکہ ملتِ اسلامیہ کے سپوت اور حصہ ہیں۔

میں ایک سنی، حنفی، بریلوی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے والدِ گرامی حضرت علامہ مولانا حافظ محمد اسلم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو "مجاہدِ اہلسنت" کہا جاتا تھا۔
میرے چھوٹے بھائی حافظ محمد یعقوب داتار بھی ایک نامور عالمِ دین اور سنی علماء کی سیاسی، مذہبی اور طلبہ تنظیموں، جمعیت علماءِ پاکستان، مرکزی جماعتِ اہلسنت پاکستان اور انجمن طلباء اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں۔ لیکن سرزمینِ عراق پر قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کی امریکیوں کے ہاتھوں شہادت پر بلا تخصیصِ مسلک پاکستان کے ہر مسلمان نے جس طرح غم و غصے کا اظہار کیا، اس نے دنیائے کفر پر یہ بات ثابت کر دی ہے کہ مسلمان جسمِ واحد کی طرح ہیں اور شہید قاسم سلیمانی (رہ) کی شکل میں مسلم امہ نے یہود و نصاریٰ کو عراق و شام کی سرزمین پر شکست سے دوچار کرکے وادئِ دجلہ و فرات تک اسرائیل کے پھیلاؤ کے منصوبے کو خاک میں ملایا ہے! زندگی تو ویسے بھی اللہ تعالیٰ کی عنایت اور موت کی امانت ہے، لیکن اس طرح کی موت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، جو انہیں تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ کر جائے! مرنا تو آخر ایک دن ہر کسی نے ہی ہے، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے فیض احمد فیض کے اس شعر کے مصداق شہادت قبول کی ہے کہ
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جاں تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں


قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کی قبولیت کی بہترین گواہی برطانوی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر برطانوی وزیراعظم جانسن نے یوں دی ہے کہ: "ہم قاسم سلیمانی کے قتل پر افسوس کا اظہار نہیں کرسکتے، کیونکہ وہ ہمارے مفاد/ ایجنڈے کے خلاف کام کرتا رہا ہے!" مسلمانوں کی زمین پر اسرائیل کی ناجائز ریاست برطانیہ نے ہی قائم کی تھی اور اس صیہونی ریاست کے توسیع پسندانہ ایجنڈے میں دجلہ و فرات (عراق) تک اسرائیل کی حدود لے جانا شامل ہے۔ شام کی گولان کی پہاڑیوں پر تو پہلے سے ہی اسرائیل قابض ہے اور اگر آپ عرب نقشے کو غور سے دیکھیں تو شام ایک ایسی راہداری ہے، جہاں سے اسرائیل عراق تک پہنچ کر قابض ہوسکتا ہے اور اس تناظر میں اگر آپ عراق و شام میں قائم کروائی گئی داعش اور اس کے ہاتھوں شام و عراق کے مسلمانوں کی تباہی و بربادی کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اسرائیل، امریکہ اور ان کے یورپی اتحادی ممالک نے ابوبکر البغدادی کی نام نہاد خلافت اس علاقے میں قائم کروا کر اس کے نام پر شام سے عراق تک رسائی حاصل کرنے والی راہداری میں مسلمانوں کا بے دردی کے ساتھ قتال کیوں کروایا تھا!

ایسے میں جبکہ عرب اور باقی مسلمان ممالک داعش کے مظالم روکنے سے قاصر تھے اور شام و عراق کی اس پٹی سے مسلمانوں کی آبادی کم کر دیئے جانے کے ایجنڈے کے تحت انسانی ہمدردی، پناہ اور مہاجرت کے نام پر لوگوں کا انخلاء بھی کروایا جا رہا تھا، جو کہ اصل میں اسرائیل سے عراق تک یلغار کو آسان بنانے کی منصوبہ بندی میں شامل تھا، ایران نے عالمِ اسلام کے دفاع کی ذمے داری اپنے سر لی اور داعش کی سرکوبی کرنے کے لئے اپنے ایک باصلاحیت جرنیل قاسم سلیمانی کو محاذ پر بھیجا، جس نے جنگ جیت لینے کے بعد شہادت قبول کرکے یہ بھی ثابت کیا کہ اس کا انتخاب درست طور پر کیا گیا تھا۔ قاسم سلیمانی نے شیعہ یا ایران کی جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ انہوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف آج کی ایک صلیبی جنگ لڑی ہے، جس میں وہ سرخرو ہوئے، کیونکہ صلاح الدین ایوبی کے وطن پر داعش کی صورت میں جس طرح یہودی و عیسائی قابض ہوچکے تھے، ان سے عراق و شام کا قبضہ چھڑانے کا سہرا قاسم سلیمانی کے سر ہے!

داعش نے جن علاقوں میں اسلام اور جہاد کے نام پر جو انتہائی متنازعہ اقدامات اور انسانیت کے خلاف جرائم کرکے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش کی تھی، اس کو ناکام بنانے کا کریڈٹ قاسم سلیمانی لے گیا ہے! انہوں نے عراق و شام کے جو علاقے داعش سے آزاد کروائے، وہاں سے مال غنیمت سمیٹا نہ عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور نہ ان علاقوں کو سلطنت ایران میں مدغم کر دینے کے لئے کشور کشائی کی۔ وہ جہاد اور مسلمانوں کے دفاع کے لئے عراق و شام میں گئے اور امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے بے پناہ وسائل کے مقابلے میں کم تر وسائل کے ساتھ کامیاب و کامران ہو کر شہادت قبول کی!
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
ان کی شہادت کے بعد میرے کچھ قریبی ساتھیوں، مہر تنویر دھنیالہ (نمبردار) اور پروفیسر میاں اجمل جمیل (شمس پور، ضلع جہلم)  وغیرہ نے عہد کیا تھا کہ جب ہم ایران جائیں گے تو شہید قاسم سلیمانی (رہ) کی درگاہ/ مزار پر بھی حاضری دینے جائیں گے، ان شا اللہ۔

کچھ ہمارے مسلمان بھائیوں نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ اتنا بڑا اپنا جرنیل مروا کر ایران نے خاطر خواہ بدلہ نہیں لیا، اس بارے میں، میں سمجھتا ہوں کہ اتنے سال قاسم سلیمانی یہود و نصاریٰ کے سینوں پہ مونگ دلتا رہا، ان کی بنائی ہوئی داعش کا مکمل خاتمہ کرکے عراق و شام کو واپس لے لیا اور لبنان میں حزب اللہ کا وجود باقی رہنا اور عراق و شام میں شیعہ حکومتوں کو بحال رکھوانا، ایران سے لبنان تک بننے والے ہلال کا جوں کا توں موجود ہونا اور داعش کے زیرِ قبضہ علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی خلافت کی آڑ میں صیہونیوں نے مسلمانوں کو تہہ و تیغ اور تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا، وہاں اب امن کی زندگی لوٹا دینے کے بعد قاسم سلیمانی کا شہادت کے رتبے پہ فائز ہونا کیا اب بھی ہمیں اپنی شکست لگ سکتا ہے، بھلا؟ اور پھر کیا بدلے کے لئے ایک اور جنگ شروع کرنا خطے اور عالمِ اسلام کے اپنے مفاد میں ہے۔؟ میرے خیال میں قاسم سلیمانی عالمی استعمار کو بہت زیادہ زِک پہنچا کر شہید ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ شہید قاسم سلیمانی کے درجات بلند فرمائے اور آئندہ کی یہودی و نصرانی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کا نعم البدل عطاء فرمائے اور ہمیں اتحادِ امت کا داعی بننے کی توفیق عطاء فرمائے!
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر!

عراقی دارالحکومت بغداد کے شہریوں نے امریکہ مخالف اپنے ملین مارچ کا آغاز پل الطابقین سے کیا اور اس کا عنوان "انقلاب عشرین عراق" رکھا ۔ مظاہرین اپنے ہاتھوں میں عراقی پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور ایک ساتھ مل کر عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا نعرہ لگا رہے تھےغاصب امریکی فوجیوں کے خلاف ہونے والے عراقی عوام کے ملین مارچ میں مختلف بینروں اور پوسٹروں کے ساتھ عراقی قبائل کی خواتین بچوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں کی موجودگی نہایت پرشکوہ اور عظیم الشان تھی۔بہت سے پوسٹروں اور بینروں پر انگریزی میں "گو آؤٹ امریکا"  لکھا ہوا تھا اور امریکی فوجیوں اور صدر ٹرمپ کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے عراق سے امریکی فوج  کے فوری انخلاء کا مطالبہ کیا گیا ہے-بعض پوسٹروں اور بینروں پر امریکی صدر ٹرمپ کی ذلت آمیز تصویریں بنی ہوئی تھیں جس میں دکھایا گیا کہ ٹرمپ کو کس ذلت کے ساتھ عراق سے باہر نکال دیا گیا ہے ۔عض پوسٹروں پر دہشتگرد گروہ داعش کے سرغنہ کی بھی تصویریں چھپی ہوئی تھیں اور ان پر امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہوا تھا کہ: داعش کو تم نے جنم دیا ہے۔
بہت سے مظاہرین کفن پوش تھے اور ان کے ہاتھوں میں عراق کا پرچم اور ایسے بینر اور پلے کارڈز تھے جن پر ٹرمپ اور امریکی حکومت سے نفرت کا اظہار کیا گیا تھا۔عراق کے اسلامی مزاحمتی گروہوں ، دینی شخصیات اور سیاسی و قومی رہنماؤں نے عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے خلاف مظاہروں کو قومی اقتدار اعلی کا دن جبکہ بعض رہنماؤں نے اسے انیس سو بیس کے انقلاب عشرین اور عراق سے برطانوی سامراج کے ذلت آمیز انخلاء سے مشابہ قرار دیا ہے۔۔

عراق کے دارالحکومت بغداد میں کئی ملین عراقیوں نے عراقی حکومت سے امریکہ کے ساتھ تمام سکیورٹی معاہدوں کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہو‏ئے عراق سے امریکہ کی دہشت گرد فوج کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔

عراق کے دارالحکومت بغداد میں عراق میں امریکی فوج کی موجودگی اور اس کی دہشت گردانہ اور معاندانہ پالیسیوں کے خلاف عراقی عوام نے ملین مارچ میں حصہ لیا ۔ یہ مارچ عراق کی ممتاز شخصیات خاص طور پر ممتاز عالم دین مقتدی صدر کی دعوت پر منعقد ہوا۔ عراق کے دارالحکومت بغداد میں ملک کے مختلف شہروں سے کئی ملین افراد نے اس مارچ میں حصہ لیا ،امریکہ مخالف  احتجاج کے شرکاء نے عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی کے مکمل خاتمہ کا مطالبہ کیا ۔ امریکہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں عراق کے سبھی پیر و جواں ، عورتیں ، بچے اور قبائل نے شرکت کی ۔ ذرائع کے مطابق بغداد کی سڑکوں پر آج عوامی سیلاب امڈ آیا ہے بغداد کی سڑکوں پرعوامی حضور کے شاندار جلوے دکھائی دے رہے ہیں۔ بغداد کی فضائیں امریکہ مردہ باد کے نعروں سے گونج رہی ہیں۔

ادھر عراق کے صدر برہم صالح نے اپنے ایک ٹوئیٹ پیغام میں کہا ہے کہ عراقی عوام مستقل ملک کے خواہاں ہیں عراقی عوام اپنے ملک کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں اور عراقی عوام اپنے ملک میں دوسروں کی مداخلت کے خلاف ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق بغداد میں آج کا عظيم الشان عوامی احتجاجی مظاہرہ امریکی مداخلت کے خلاف عراقی عوام کا ریفرنڈم ہے ۔ عراقی عوام عراق میں امریکی مداخلت کے بالکل خلاف ہیں اور وہ عراق سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ کررہے ہیں کیونکہ امریکی فوج عراق اور خطے میں دہشت گردی کے فروغ کا اصلی سبب ہے۔

عراق کی سیاسی جماعت فتح اتحاد کے سربراہ ہادی العامری نے عراق میں امریکہ کے خلاف کئی ملین افراد کے مارچ اوران کی طرف سے امریکی فوج کے انخلا کے مطالبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو عراقی عوام کے مطالبہ کا احترام کرتے ہوئے عراق سے خارج ہوجانا چاہیے۔

ہادی العامری نے ملین مارچ میں عراقی عوام کی بھر پور اور وسیع شرکت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ عراقی عوام نے اپنا پیغام امریکہ کو پہنچا دیا ہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ عراقی عوام کو اپنے تحفظ کے لئے امریکی فوج کی کوئی ضرورت نہیں ، امریکہ کو عراقی عوام کے اس پیغام کا احترام کرنا چاہیے اور عراق سے فوری طور پر اپنے فوجیوں کو نکال لینا چاہیے۔