سلیمانی

سلیمانی

Friday, 10 January 2020 21:40

آل از ویل

تحریر: ناصر رینگچن

ایک دفعہ کسی شخص کو سفر پر جانے کے لئے گھوڑے کی ضرورت پڑی، وہ اپنے دوست کے پاس جاتا ہے، تاکہ اُس کا گھوڑا مانگ سکے۔ وہ شخص اپنے دوست کے پاس پہچتا ہے اور اپنی مجبوری بیان کرتا ہے، دوست نہایت ہی افسوس کے ساتھ اُس سے معذرت کرتا ہے کہ گھوڑے کو تو کوئی اور شخص لے کر گیا ہے، اتنی دیر میں گھر کے کونے سے گھوڑے کی آواز آتی ہے۔ یہ شخص تعجب سے اپنے دوست سے پوچھتا ہے کہ یار تم تو کہہ رہے تھے کہ گھوڑا نہیں ہے، اب یہ آواز کس چیز کی ہے۔؟ دوست جواب میں کہتا ہے کہ تمھے گھوڑے کی آواز پر بروسہ ہے یا اپنے دوست کی بات پر۔ ایران کا عراق میں موجود قدیم ترین امریکی ملٹری بیس پر میزائلوں سے حملہ اور امریکی صدر ٹرمپ کا بیان بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ایران کے بلاسٹک میزائلوں نے امریکی بیس کو ہدف بنایا ہے، لیکن ٹرمپ ٹوئٹ کرتا ہے "آل از ویل" پھر طویل خاموشی کے بعد کہتا ہے کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسرائیلی نیوز رپورٹر نے جب عراق سے دو سو پینتالیس امریکی زخمی فوجیوں کو اسرائیلی ہسپتال میں منتقل کرنے کی خبر نشر کی تو اس کا ٹویٹر اکائونٹ ہی بند کر دیا گیا۔

اب حالات یہ ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ جو ایرانی حملے سے کچھ دیر پہلے تک ایران کو دھمکیاں دے رہا تھا اور حملے کی صورت میں منہ توڑ جواب دینے کا کہہ رہا تھا، ایران کی طرف سے ایک ہی تھپڑ میں سدھر گیا ہے اور ایران کو غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کر رہا ہے۔ لیکن ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ "عراق میں موجود عین الاسد فوجی اڈے پر ایران کا میزائل حملہ امریکیوں کے منہ پر زودار طمانچہ ہے، لیکن یہ انتقام نہیں۔" کیوں انتقام نہیں؟ کیونکہ جنرل سلیمانی کی شخصیت کے برابری کا امریکہ میں کوئی ہے ہی نہیں۔ جنرل سلیمانی کی شخصیت اور ان کے قصاص کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لبنان کی مقاومتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ "ٹرمپ کا سر بھی قاسم سلیمانی کے جوتے کے برابر نہیں ہوسکتا" اور یہ کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے۔

جس جنرل نے چالیس سال امریکہ اور اسرائیل کو ناکو چنے چبوا دیئے ہوں، لبنان، عراق، شام، یمن اور فلسطین سے لیکر افغانستان، غرض ہر محاذ پر دشمنوں کو شکست دی ہو۔ شام اور عراق میں امریکی پیداوار داعش جیسی لعنت کو ملیا میٹ کیا ہو، اس عظیم شخصیت کے کون برابر ہوسکتا ہے۔ جنرل سلیمانی کی یہ تعریفیں صرف ہم نہیں کر رہے ہیں بلکہ خود مغربی میڈیا اور مغربی شخصیات بھی ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ ان کی مقبولیت اور شخصیت کا اندازہ تو دنیا کو ان کی شہادت کے بعد ہوا ہے، اگر اس شخص کا جذبہ ایمانی نہ ہوتا تو آج عراق اور شام میں امن نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور آج اگر دنیا میں سامراجی طاقتوں اور عالمی غنڈوں سے کوئی برسر پیکار ہے تو یہ اسی شخص کے تربیت یافتہ افراد ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کی مجاہدانہ زندگی اور ان کے کارناموں کو اگر دیکھیں تو کئی جلد کتاب کی شکل بن جائے، لہذا ایسی شخصیت کے برابر کون ہوسکتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے بعد ایران اور امریکہ کی کشیدگی میں کمی آئے گی؟ میرے نظر میں اب کشیدگی میں کمی کا امکان نہیں ہے، کیونکہ ایران کی طرف سے کم از کم شہید قاسم سلیمانی کا قصاص امریکہ کا مشرق وسطیٰ سے مکمل انخلاء ہے، جو امریکہ آسانی سے نہیں مانے گا۔ لیکن امریکہ اس وقت سخت پریشر اور بکھلاہٹ کا شکار ہے۔ امریکہ اب وہ سُپر پاور نہیں رہا، جس کے جنگی جہاز جب کسی ملک کی طرف رخ کرتے تھے تو وہاں کی حکومت گر جاتی تھی اور امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ اب امریکہ کی حالت یہ ہے کی ایک دفعہ فوجی انخلاء کا لیٹر جاری کر دیتا ہے، پھر مس ٹائپنگ کہہ کر بیان کو واپس لیا جاتا ہے۔اس وقت سینکڑوں سوالات امریکہ پر اٹھ رہے ہیں اور ٹرمپ ان سب سوالوں کے جواب میں کہہ رہے ہیں تم لوگوں کو میری باتوں پر یقین نہیں ہے۔؟

یہاں ایک اور اہم بات کا ذکر کرتا چلوں کہ ایک اہم سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کے سب سے بڑے فوجی بیس پر حملہ ہوا ہے اور امریکیوں نے جوابی کارروائی تک نہیں کی؟ ان کے پاس تو دنیا کا بہترین ڈیفنس سسٹم موجود تھا، پھر کیا ہوا کہ ایرانی میزائلوں کو نہیں روک سکا؟ ان کا جواب امریکہ تو نہیں دے سکا، مگر ایران کے جنرل حاجی زادہ نے دے دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ "ہم نے امریکی دہشت گرد فوج کے اڈے عین الاسد پر حملے کے وقت ایک سائبر اٹیک کے ذریعے امریکہ کے جنگی بحری بیڑے اور ان کے ڈرون طیاروں کے نظام کو بھی مفلوج کر دیا تھا، جو اطلاع رسانی کا کام کرتے تھے، ہم اس حملے میں کسی کو قتل نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ ہم اس مرحلے پر دشمن کی عسکری طاقت کو ضرب لگانا چاہتے تھے۔"

یہ کوئی پہلے بار نہیں ہے کہ ایران نے امریکہ کو بے بس کر دیا ہے، اس سے پہلے بھی ایران نے امریکی ڈرون کو باحفاظت زمین پر اتار کر بھی دنیا کو حیران کر دیا تھا، یعنی بے شک امریکہ اپنے آپ کو سپر پاور کہلائے اور ساری دنیا احمقوں کی طرح اُس کو سُپر پاور تسلیم کرے، مگر دنیا میں ہمیشہ ایسا رہا ہے کہ جب بھی کسی ظالم و جابر نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے، اُس وقت ایک قلیل تعداد نے خدا کی وحدانیت اور حاکمیت پر یقین رکھتے ہوئے وقت کی سپر پاور کو للکارا ہے اور ہمیشہ فتح اُن قلیل مظلوموں کی ہوئی ہے۔ ساری دنیا امریکہ سے ڈرتی ہے، حتیٰ روس اور چین بھی اس سے دو بدو ہونے سے اجتناب کرتے ہیں اور واحد ایران اور مقامتی تحریکیں ہیں، جو شیطان بزرگ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل سے نبرد آزما ہیں اور خداوند عالم نے ہمیشہ انہیں فتح و کامرانی عطا کی ہے۔

لیکن ہمارے کمزور عقیدہ رکھنے والے مسلمان اور اسلامی کرپٹ حکمران اب بھی امریکہ اور عالمی طاقتوں سے مرعوب ہیں، حالانکہ اس وقت اسلامی حکومتوں کو چاہیئے تھا کہ وہ ایران کی سپورٹ کرتے یا کم از کم حوصلہ افزائی ہی کرتے، مگر ہمارے حکمرانوں کو ایسا کرنا نصیب نہیں ہوا۔ بہرحال زندہ دل لوگ جہاں کہیں بھی ہیں ،وہ اس وقت ایران کی جرات کو سلام پیش کر رہے ہیں اور ایران کے جواب کو عالم اسلام کی طرف سے جواب قرار دے رہے ہیں، لیکن ابھی یہ جنگ ختم نہیں ہوئی ہے، بلکہ ابھی تو شروع ہوئی ہے اور یہ امریکہ اسرائیل کی نابودی تک جاری رہے گئی۔ ابھی تو حزب اللہ لبنان اور حزب اللہ عراق کی طرف سے بدلہ لینا بھی باقی ہے اور ان شاء اللہ ہم دیکھیں گے کہ ایک دن امریکہ مشرق وسطیٰ سے اُسی طرح رسوا ہو کر جائے گا، جس طرح اسرائیل جنوبی لبنان سے گیا تھا۔

امریکی ایوان نمائندگان نے صدرڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ کے اختیار کو محدود کرنے کی قرارداد منظور کرلی۔ اطلاعات کے مطابق ایوان نمائندگان نے جنگ کے امکانات کو کم کرنے کےلیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ  سے متعلق اختیار کو محدود کرنے کی قرارداد کو منظور کرلیا ہے۔

 قرارداد کے حق میں 224 جب کہ مخالفت میں 194 ووٹ پڑے۔ ری پبلکن پارٹی کے 3 ارکان نے بھی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جب کہ ڈیموکریٹس کے 8 ارکان نے پارٹی کے برعکس قرارداد کی مخالفت کی۔ امریکی نمائندگان کی قرا داد اب سینیٹ میں پیش کی جائے گی۔

 قرارداد میں 1973 کے جنگی اختیارات کے قانون کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کانگریس کو امریکی صدر کی جنگ کے اختیارات کے استعمال کے متعلق جانچ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

 ذرائع کے مطابق اگرایوان کی جانب سے پیش کردہ یہ قرارداد کانگریس سے منظورہوجاتی ہے تواسے ٹرمپ کے ممکنہ ویٹو کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔  اس قرارداد کو یک وقتی قرار داد کے طورپرپیش کیا گیا ہے جس کی منظوری کے لیے صدارتی دستخط کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

 اس متعلق اسپیکرایوان نمائندگان نینسی پلوسی نے کہا کہ امریکی حکومت کومزید تشدد روکنا چاہیے جب کہ ٹرمپ کے فوجی اقدامات محدود کرنے سے امریکی جانوں اوراقدارکا تحفظ ہوگا۔

واضح رہے کہ بغداد ايئر پورٹ کے قریب  امریکہ کے بزدلانہ حملے میں  سپاہ اسلام کے عظیم جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایران کی جانب سے  عراق میں امریکی فوجی اڈوں پرحملوں میں 80 امریکی فوجی ہلاک اور 230 زخمی ہوگئے ہلاک اور زخمی ہونے والے امریکی فوجویں کو اسرائیل اور اردن منتقل کردیا گیا ہے۔ امریکہ اپنے فوجیوں کی ہلاکت کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے لیکن زمینی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کا بھاری نقصان ہوا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع امیر حاتمی اور جاپان کے وزیر دفاع نے ٹیلیفون پر گفتگو کی۔ اس گفتگو میں ایرانی وزیر دفاع نے کہا کہ کشیدگی کے خاتمہ کے لئے خطے سے امریکی فوج کا انخلا ضروری ہے۔ امیر حاتمی نے کہا کہ امریکہ نے ایک دوسرے ملک کے سرکاری افسر کو ایک تیسرے ملک میں شہید کیا ہے اور امریکہ کا یہ اقدام دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے ۔ امریکہ عالمی قوانین کو مسلسل نقض کررہا ہےاور دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت کررہا ہے۔امریکہ خطے میں کشیدگی اور دہشت گردی کے فروغ کا اصلی سبب ہے۔ اس گفتگو میں جاپان کے وزير دفاع نے کہا کہ جاپان کشیدگی کے خاتمہ کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آمادہ  ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں نماز جمعہ حجۃ الاسلام حاج علی اکبری کی امامت میں منعقد ہوئی ، جس میں لاکھوں مؤمنین نے شرکت کی۔ خطیب جمعہ نے سپاہ اسلام کے عظیم اور مایہ ناز شہید میجر جنرل سلیمانی کی تشییع جنازہ عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کو اسلامی مزاحمتی محاذ کا ریفرنڈم قراردیتے ہوئے کہا کہ  شہید قاسم سلیمانی نے خطے میں امن و صلح برقرار کرنے اور دہشت گردی کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کیا ۔

انھوں نے کہا کہ شہید سلیمانی کی شہادت کا اثر ایران سمیت پوری دنیا میں دکھائی دیا اس کی اصل وجہ ان کا تقوی ہے وہ ایک فوجی کمانڈر ہونے کے ساتھ ایک متقی اور پرہیزگار انسان بھی تھے۔ وہ شرعی حدود کے پابند انسان تھے ، ان کی دشمنوں کے ساتھ رفتار بھی اسلامی ، انسانی اور اخلاقی اصولوں پر استوار تھی۔

خطیب جمعہ حاج علی اکبری نے کہا کہ میجر جنرل شہید قاسم سلیمانی الہی، علوی، فاطمی، حسینی مکتب کے تربیت یافتہ فرزند تھے اور آج یہ مکتب دنیا میں امام خمینی (رہ) کے تربیتی مکتب سے پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب میں نے شہید سلیمانی کی شہادت کی خبر سنی تو مجھے حضرت علی (ع) کا متقین کی صفات کے بارے میں خطبہ یاد آگیا، جب ہم حضرت علی علیہ السلام کے خطبہ نمبر 110 میں متقین کی خصوصیات کا مطالعہ کرتے تو ہمارے ذہن میں  ہر صفت پر شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت جلوہ گر ہوتی تھی۔ انھوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نے اسلامی مزاحمتی محاذ کو مضبوط کیا ۔  ان کی حیات بھی دشمنوں کے لئے بہت سخت اور دشوار تھی اور ان کی شہادت نے بھی دشمنوں کے آرام و سکون کو سلب کرلیا ہے۔ خطیب جمعہ نے کہا کہ شہید سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہند کی شہادت در حقیقت امریکہ کی موت ہے اور خطے سے امریکہ کے خاتمہ کی تحریک کا آغاز ہوگیا ہے اورسلیمانی کے طرفداروں نے اس سلسلے میں سخت انتقام کا آغاز کردیا ہے۔

خطیب جمعہ نے تہران میں ہوائی سانحہ کی طرف اشارہ کرتے وہئے کہا کہ اس دیگر افراد کے ساتھ ایران کی بعض ممتاز یونیورسٹیوں کے ممتاز طلباء بھی جاں بحق ہوئے ہیں یہ ایک تلخ حادثہ تھا۔ اورعالمی قوانین اور معیاروں کے مطابق  اس حادثہ کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔ خطیب جمعہ نے آیت اللہ سید ہاشم رسولی محلاتی کی وفات پر بھی تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم آیت اللہ رسولی محلاتی بہترین محقق، مؤلف اور مؤرخ تھے۔

حسینیہ امام خمینی (رہ) میں رہبر معظم انقلاب اسلامی  اور ہزاروں افراد کی موجودگی میں امریکہ کے دہشت گردانہ حملے میں شہید ہونے والے  سپاہ اسلام کے مایہ ناز مجاہد میجر جنرل شہید قاسم سلیمانی، مجاہد عظیم ابو مہدی مہندس  اور ان کے شہید ساتھیوں کی یاد میں مجلس ترحیم منعقد ہوئی ۔

مجلس ترحیم میں تینوں قوا کے سر براہان ، ملک کےاعلی سول و فوجی حکام ، بعض وزراء ، بعض عراقی حکام ، اسلامی مزاحمت کے بعض نمائندوں اور غیر ملکی سفراء نے شرکت کی۔ عراق کی قومی سلامتی کونسل اور حشد الشعبی کے سربراہ فالح الفیاض نے عراقی حکام اور عوام کی نمائندگی میں سپاہ اسلام کے عظيم کمانڈر میجر جنرل سلیمانی کی شہادت پر رہبر معظم انقلاب اسلامی اور ایرانی عوام کو تعزیت اور تسلیت پیش کرتے ہوئے کہا: ہمارے لئے بہت ہی دردناک ، سخت اور سنگین ہے کہ ان عزیزوں اور سرافراز شہیدوں کا پاک خون ، سید الشہداء کی سرزمین پر گرایا گیا۔ ان دلیر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے عراقی عوام نے متحد ہوکر ان عزیز کمانڈروں کی خدمات پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

جناب فیاض نے شہید ابو مہدی مہندس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئےکہا : شہید ابو مہدی مہندس نے شہید قاسم سلیمانی کے ہمراہ تکفیریوں کا مقابلہ کرنے اور عراق میں امن و سلامتی برقرار کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور سرانجام دونوں شہیدوں کا خون اور گوشت بھی ایکدوسرے کے ساتھ مخلوط ہوگیا۔

مجلس ترحیم سے حجۃ الاسلام والمسلمین صدیقی نے میجر جنرل شہید سلیمانی کے ممتاز اور برجستہ خصائل اور خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: شہید میجر جنرل سلیمانی عظیم مجاہد  ، منصوبہ ساز، بیدار، ہوشیار اور فاتح کمانڈر ہونے کے ساتھ  صدیقہ کبری سلام اللہ علیھا کو نمونہ عمل بناتے ہوئےولایت کے مکمل طور پر مطیع اور فرمانبردار تھے اور ان کی شہادت بھی ان کی حیات کی طرح اسلام اورانقلاب اسلامی کی عزت ،عظمت اور سرافرازی کا باعث بنی۔

مجلس ترحیم میں قاریان قرآن  نے کلام اللہ مجید کی تلاوت کی اور اہلبیت علیھم السلام کےمداحوں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے مصائب میں نوحہ خوانی کی اور شہید قاسم سلیمانی سمیت مجاہدین اسلام اور جہاد کی فضیلت اور عظمت کے بارے میں اشعار پیش کئے۔

 ایرانی سپاہ کی ایئر فورس کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ  عین الاسد میں امریکی ایئر بیس پر ایران کے میزائل حملے امریکہ کے لئے تباہ کن ثابت ہوئے، ایران نے امریکہ کا رعب و دبدبہ ختم کردیا ہے خطے میں امریکہ کے تمام فوجی اڈے ایرانی میزائلوں کے نشانے پر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ نے بغداد ايئر پورٹ کے قریب شہید حاج قاسم سلیمانی کو بزدلانہ طریقہ سے شہید کرکے تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا ہے ، امریکہ کی یہ اسٹراٹیجک  غلطی ہے جس کی بنا پر خطے سے امریکہ کا خاتمہ ہوجائےگا  اور امریکہ نے اپنے اس دہشت گردانہ اقدام سے خطے میں اپنے ہزاروں فوجیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے ابھی شہید سلیمانی کے پاک اور ناحق خون کا بدلہ نہیں لیا ابھی ہم نے اپنی پہلی جھلکی دکھائی ہے اگر امریکہ خطے سے نکل گیا تو ٹھیک، ورنہ ہم  اسے خطے سے نکال کر دم لیں گے اور اس خطے سے امریکہ کا اخراج ہی شہید سلیمانی کے پاک خون کا اصلی بدلہ ہوگا۔

جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ ہم نے پوری صورتحال کا محاسبہ کرتے ہوئے عراق میں امریکہ کے ايئر بیس عین الاسد کو میزائلوں سے نشانہ بنایا اور ہم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے اور ہم نے ہدف کوپہلے ہی حملے میں مکمل طور پر تباہ کردیا۔

جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ کا بیان امریکی اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے ہے اگر امریکی صدر اپنے اس بیان میں سچے ہیں کہ ایرانی میزائل حملے میں امریکہ کا کوئی فوجی ہلاک نہیں ہوا تو صحافیوں کو وہاں جانے کی اجازت دیں پھر سچ اور جھوٹ کا سب کو پتہ چل جائےگا۔

انھوں نے کہا کہ عین الاسد میں امریکی ڈرون، ہیلی کاپٹر اور دیگر جنگی وسائل مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ امریکیوں نے اپنے فوجیوں کے جنازوں اور زخمی فوجیوں کو اسرائیل اور بعض دیگر اتحادی ممالک میں منتقل کیا ہے ۔ جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ خطے میں ایک نئی روح اور نیا عزم پیدا ہواہے۔ جس طرح حزب اللہ اور حماس نے اسرائیل کی طاقت کا طلسم توڑ دیا اسی طرح  ایران نے امریکہ کی طاقت کے طلسم کو توڑدیا ہے ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن ہم خطے میں امریکی موجودگی کے بھی خلاف ہیں ۔ امریکہ خطے میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے اور دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ امریکہ علاقائي ممالک اور عالمی قوانین کو توڑ رہا ہے۔

جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ ہم نے میزائل حملوں کے علاوہ دشمن پر سائیبر حملہ بھی کیا اور ان کے ڈرون طیاروں کا کنٹرول ان کے ہاتھوں سے چھین لیا اور ہمارے اس اقدام سے امریکیوں پر مزيد خوف و ہراس طاری ہوگیا۔ ہم نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ اگر امریکہ نے مزید کسی شرارت کا ارتکاب کیا تو ہمارا اگلا جواب بہت ہی سخت اور دنداں شکن ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل خطے میں امریکہ کے تمام سنگین جرائم میں برابر کا شریک ہے۔ اسرائیل کے ہاتھ فلسطینی، لبنانی، شامی، عراقی اور یمنی مسلمانوں کے خون سےر نگین ہیں لہذا ہم اسے کبھی معاف نہیں کریں گے۔

جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ ہم کسی کو قتل کرنےکی تلاش و کوشش میں نہیں ، بہرحال اس حملے میں درجنوں امریکی فوجی مارے گئے ہیں ہمارے پاس شواہد موجود ہیں کہ انھوں نے بڑی تعداد میں زخمی فوجیوں کو اسرائل منتقل کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ پہلے ہی حملے میں خوفزدہ ہوگیا اور اس نے جوابی حملہ نہیں کیا ورنہ ہم تو 48 گھنٹوں میں 5 ہزار امریکی فوجیوں کی لاشیں ان کے ہاتھ پر رکھتے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ اور خطے کی عافیت اسی میں ہے کہ امریکہ اس خطے سے نکل جائے ۔ جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ امریکہ دوسرے ممالک کو صرف رعب و دبدبہ اور دھونس سے مرعوب کرلیتا ہے لیکن وہ ایران کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ ایران ایک بڑا اور با عزت ملک ہے اور ایران امریکی دھونس میں آنے والا نہیں۔ ہمارا اللہ تعالی کی ذات پر پختہ ایمان ہے ہم کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کریں گے لیکن ہم کسی کی زیادتی کو برداشت بھی نہیں کریں گے۔ہم پر فوجی حملہ کیا گیا ہے ہمارے عظیم جنرل کو شہید کیا گیا ہے ہم ابھی پہلا قدم اٹھایا ہے۔

Thursday, 09 January 2020 21:52

صادق اور امین ٹرمپ

تحریر: زین عباس
 

ویسے تو امریکی اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے اور اب تک وہ اس "سب کچھ" کے بے شمار مظاہر دکھا چکے ہیں، وہ عراق اور افغانستان میں بمباری ہو یا گوانتانامو بے اور ابو غریب جیل میں تفتیشی طریقے، عراق اور شام پہ حملہ کرنے سے پہلے کا جھوٹ ہو یا ویتنام اور افغانستان میں اپنی ناکامیاں چھپانے کا ہنر۔۔۔ لیکن اس سب کچھ میں ایک قدرِ مشترک جھوٹ ہے! جدید محاذ اسی پراپیگنڈا کی بنیاد پہ چلتا ہے، پچھلے سال پاک انڈیا تنازعے میں بھی ہم اس کی طاقت کا مشاہدہ کرچکے ہیں، لیکن اس بار سب سے اہم بات یہ کہ اب تک کسی کو بھی، حتیٰ عراقی فوج اور انٹیلیجنس کو بھی عین الاسد بیس میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بعض افراد گذشتہ روز کی پریس کانفرنس سے ایک بار پھر اس سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ امریکی صدر سچ تو نہیں بول رہا، تو اس سے پہلے کہ آپ میڈیا کے پراپیگنڈے کا شکار ہو کر ٹرمپ کی باتوں کو دل پہ لینے لگیں، چند عرائض گوش گذار کرتا چلوں۔
 
کسی ملک سے بیلسٹک میزائل مارے جانے کے بعد چار صورتیں ہوسکتی ہیں:
1) بیلسٹک میزائل ہوا میں اینٹی میزائل سیسٹم سے نشانہ بنایا جائے اور وہ زمین تک پہنچ ہی نہ سکے۔ ایران نے ان حملوں کے لیے فاتح اور ذوالفقار میزائل استعمال کیے ہیں، جن میں یہ صلاحیت ہے کہ امریکی بیس میں موجود جدید ترین پیٹریاٹ اینٹی میزائل سسٹم کے راڈارز کو بھی جیم کرسکیں، جس کے نیتجے میں زیادہ سے زیادہ جو دعویٰ امریکی کرسکے ہیں، وہ یہ کہ ایک میزائل ہوا میں روکا گیا، البتہ اس کے لیے بھی بطور ثبوت کوئی ویڈیو جاری نہیں کی گئی۔
2) دوسرا امکان اس سلسلے میں یہ ہوتا ہے کہ گرنے والے میزائل گریں، لیکن پھٹ نہ سکیں۔ اس صورت میں میزائل ایک عام لوہے کے ٹکڑے کی طرح زمین پہ گر کر بکھر جاتا ہے، جس کا ملبہ با آسانی دکھایا جا سکتا ہے۔ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ دو میزائل ایسے تھے کہ جو گرے ہیں اور پھٹے نہیں ہیں، البتہ اس کے لیے بھی کوئی تصویر یا ویڈیو جاری نہیں کی جا سکی۔
 
3) تیسری صورت یہ ہے کہ میزائل راڈار سسٹم سے بچتا ہوا، بالآخر زمین پہ پہنچ جائے اور پھٹ بھی جائے، لیکن وہ اپنا نشانہ بنانے میں غلطی کرے، جس کے نتیجے میں بیس میں موجود خالی علاقوں میں پھٹے اور زمین کھودنے کے علاوہ کوئی کام انجام نہ دے سکے۔ اس صورت میں اپنے دشمن کو شرمندہ کرنے کے لیے میڈیا کو دعوت دی جاتی ہے یا خود ان تصاویر کو شائع کر دیا جاتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار ایسا بھی کچھ نہیں دیا گیا۔
4) چوتھا اور حتمی امکان یہ ہے کہ میزائل نشانے پہ جا لگے اور مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنائے، جس کے نیتجے میں نقصان پہنچ جائے، جو کہ پہنچنے شرمندگی اور ذلت کی بات ہے۔۔۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ اپنی عزت بچانے اور لوگوں کا ابہام میں رکھنے کے لیے وہی کام انجام دیا جاتا ہے، جو امریکہ نے انجام دیا۔۔۔

اس حوالے سے چند چیزیں جو اب تک سامنے آچکی ہیں، ان میں رائٹرز اور دیگر عالمی خبر رساں اداروں کی طرف سے دی جانے والی سیٹلائٹ تصاویر ہیں کہ جن میں کم از کم پانچ ہوائی اڈوں کو منہدم ہوا دیکھا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ امریکی جریدے نیوز ویک نے ایک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر، کنٹرول ٹاور اور رن ویز کی تباہی کے ساتھ ساتھ دس ملٹری ٹینٹس کی بربادی اور ایک پریڈیٹر ڈرون کو نقصان پہنچنے کا ذکر بھی کیا ہے، اس کے باوجود بھی جانی نقصان سے مطلق انکار کرنا اس جھوٹ کو بالکل ہی واضح کر دیتا ہے۔ اس سلسلے میں نیوز ویک کا کہنا ہے کہ جانی نقصان کا نہ ہونا عراقی انٹیلیجنس کی طرف سے ہوشیار کیے جانے کے سبب ممکن ہوا کہ جس کے نیتجے میں فوجیوں کو محفوط مقامات پہ پہنچا دیا گیا۔

البتہ یہ بات بعید از قیاس ہے، کیونکہ فوجی اڈے پہ ایمرجنسی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فوج چوکنی ہو جائے، نہ یہ کہ سب فوجی دبک کر بیٹھ جائیں، دوسرے یہ کہ اس بات کے قوی امکانات تھے کہ میزائل حملوں کے فوراً بعد براہ راست حملہ کر دیا جاتا، کیونکہ عراقی امریکی بیس کے اطراف میں ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروہوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ سب فوجی محفوط مقامات پہ پناہ لے لیں اور حتٰی ائیر کنٹرول ٹاور میں بھی کوئی موجود نہ ہو۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس کے ایک رکن نے امریکی صدر کی بریفنگ کو اس حساس موضوع پہ بدترین بریفنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کل کے خطاب میں اس حملے کے علاوہ دنیا کے تمام اہم موضوعات پہ روشنی ڈالی ہے اور ان نقصانات کی تفصیلات جو فوجی قاعدے کے مطابق جاری کی جاتی ہیں، نہیں بتائی گئیں اور آہستہ آہستہ دیگر ذرائع سے نقصانات کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں، جن سے امید کی جا سکتی ہے کہ چند روز تک مارے جانے والے افراد کی لاشیں بھی سامنے آہی جائیں گی۔ بہرحال ٹرمپ صاحب اگر اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی بجائے اگر چند فوجیوں کی ہلاکت کی خبر بھی سنا دیتے تو شاید دنیا کے لیے ماننا آسان ہوتا اور اگرچہ ٹرمپ کی سیاسی ناکامی سامنے آجاتی، لیکن کچھ نہ کچھ سچے ہونے کی امید کی جا سکتی تھی۔

قال رسول اللّه إذا کانَ یَوْمُ القیامَةِ نادی مُنادٍ یا أَهْلَ الجَمْعِ غُضُّوا أَبْصارَکُمْ حَتی تَمُرَّ فاطِمَة

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: روزِ قیامت ایک منادی نداء دے گا کہ اے اہلِ قیامت اپنی آنکھوں کو بند کر لو، کیونکہ اب یہاں سے فاطمہ کا گزر ہونے والا ہے.(1)

قال رسول اللّه کُنْتُ إذا اشْتَقْتُ إِلی رائِحَةِ الجنَّةِ شَمَمْتُ رَقَبَةَ فاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: میں جب بھی جنت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ سے اس خوشبو کو سونگھتا ہوں.(2)

قال رسول اللّه حَسْبُک مِنْ نساءِ العالَمیَن أَرْبَع: مَرْیمَ وَآسیَة وَخَدیجَة وَفاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: تمام جہانوں میں فقط چار عورتیں بہترین ہیں، مریمؑ، آسیہؑ، خدیجہؑ اور فاطمہؑ.(3)

قال رسول اللّه یا عَلِی هذا جبریلُ یُخْبِرنِی أَنَّ اللّهَ زَوَّجَک فاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: اے علیؑ ابھی مجھے جبرائیلؑ نے خبر دی ہے کہ خداوند نے فاطمہؑ کی شادی تم سے کردی ہے.(4)

قال رسول اللّه ما رَضِیْتُ حَتّی رَضِیَتْ فاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: میں کبھی بھی کسی سے راضی نہیں ہوا، مگر یہ کہ فاطمہ اس سے راضی ہو جائے.(5)

قال رسول اللّه یا عَلِیّ إِنَّ اللّهَ أَمَرَنِی أَنْ أُزَوِّجَکَ فاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: اے علیؑ خداوند نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں فاطمہ کی شادی تم سے کر دوں.(6)

قال رسول اللّه إِنّ اللّهَ زَوَّجَ عَلیّاً مِنْ فاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: خداوند نے علیؑ کی شادی فاطمہؑ سے کی ہے.(7)

قال رسول اللّه أَحَبُّ أَهْلِی إِلیَّ فاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: میرے اہلبیتؑ میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب فاطمہؑ ہے.(8)

قال رسول اللّه خَیْرُ نِساءِ العالَمین أَرْبَع: مَرْیَم وَآسیة وَخَدِیجَة وَفاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: جہان کی تمام عورتوں کی سردار چار خواتین ہیں.. مریمؑ، آسیہؑ، خدیجہؑ اور فاطمہؑ۔(9)

قال رسول اللّه سیّدَةُ نِساءِ أَهْلِ الجَنَّةِ فاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: جنت کی تمام عورتوں کی سرور و سردار فاطمہؑ ہیں.(10)

قال رسول اللّه أَوَّلُ مَنْ یَدْخُلُ الجَنَّةَ: عَلیٌّ وَفاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: جنت میں سب سے پہلے علیؑ اور فاطمہؑ داخل ہوں گے. (11)

قال رسول اللّه أُنْزِلَتْ آیَةُ التطْهِیرِ فِیْ خَمْسَةٍ فِیَّ، وَفِیْ عَلیٍّ وَحَسَنٍ وَحُسَیْنٍ وَفاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: آیت تطہیر پنجتن پاک میرے، علیؑ، حسنؑ، حسینؑ اور فاطمہؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے.(12)

قال رسول اللّه أَفْضَلُ نِساءِ أَهْل الجَنَّةِ: مَرْیَمُ وَآسیةُ وَخَدیجَةُ وَفاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: اہل جنت کی عورتوں میں سے سب سے افضل مریمؑ، آسیہؑ، خدیجہؑ اور فاطمہؑ ہیں.(13)

قال رسول اللّه أَوَّلُ مَنْ دَخَلَ الجَنَّةَ فاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: سب سے پہلے جنت میں فاطمہؑ داخل ہوں گی.(14)

قال رسول اللّه المَهْدِیِ مِنْ عِتْرَتی مِنْ وُلدِ فاطِمَة.

ترجمہ: رسولِخداؐ نے فرمایا: امام مہدی میرے اہلبیتؑ میں سے ہے کہ جو فاطمہؑ کی اولاد میں سے ہیں.(15)

حوالاجات کتب اہلسنت:

(1)کنزالعمّال، ج13، ص:91 و 93.منتخب کنزالعمّال بهامش المسند، ج5، ص:96.الصواعق المحرقة، ص:190. أسدالغابة، ج5، ص:523.تذکرةالخواص، ص279.ذخائرالعقبی، ص:48.مناقب الإمام علی لابن المغازلی، ص:356.نورالأبصار، ص:51 و 52. ینابیع المودّة، ج2، باب56، ص:136.

(2)منتخب کنزالعمّال، ج5، ص:97. نورالأبصار، ص:51.مناقب الإمام علی لابن المغازلی، ص:360.

(3)مستدرک الصحیحین، ج3، باب مناقب فاطِمَة، ص:171.سیرأعلام النبلاء، ج2، ص:126. البدایةوالنهایة، ج2، ص:59.مناقب الإمام علی لابن المغازلی، ص:363.(4) مناقب الإمام علی من الریاض النضرة، ص:141.(5) مناقب الإمام علی لابن المغازلی، ص:342.(6) الصواعق المحرقة، باب11، ص:142. ذخائرالعقبی، ص30 و 31.تذکرةالخواص، ص:276.مناقب الإمام علی من الریاض النضرة، ص:141. نورالأبصار، ص:53.

(7) الصواعق المحرقة، ص:173.(8) الجامع الصغیر، ج1، ح203، ص:37.الصواعق المحرقة، ص:191. ینابیع المودّة، ج2، باب59، ص:479.کنزالعمّال، ج13، ص:93.

(9) الجامع الصغیر، ج1، ح4112، ص:469. الإصابةفی تمییزالصحابة، ج4، ص:378.البدایةوالنهایة، ج2، ص:60.ذخائرالعقبی، ص:44.

(10) کنزالعمّال، ج13، ص:94.(11) نور الأبصار، ص:52/ شبیه به آن در کنزالعمّال، ج13، ص:95.

(12) إسعاف الراغبین، ص:116. صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة.(13) سیرأعلام النبلاء، ج2، ص:126. ذخائرالعقبی، ص:44.

(14) ینابیع المودّة، ج2، ص:322 باب56.(15) الصواعق المحرقة، ص:237

.......

تحریر: تصور حسین شہزاد

القدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایران اور عراق کے عوام میں پیدا ہوتی دُوریاں ختم ہو گئی ہیں۔ عراقی اب ایرانیوں کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں۔ کل تک یہ حقیقت ہے کہ عراقی امریکہ کو نجات دہندہ سمجھتے تھے، جس نے صدام جیسے آمر سے انہیں نجات دلائی تھی، مگر اب انہیں سمجھ آ گئی کہ امریکہ یہاں عراقی عوام کی بہبود کیلئے نہیں، بلکہ تیل کے لالچ میں آیا تھا۔ جبکہ داعش کو قائم کرکے امریکہ نے یہ خواب دیکھا تھا کہ وہ شام اور عراق پر قبضہ کرلے گا۔ مگر جنرل قاسم سلیمانی کی حکمت عملی نے امریکہ کا یہ خواب چکنا چُور کر دیا۔ اس میں امریکہ کو نہ صرف تذلیل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ امریکہ کو اتنا مجبور کر دیا گیا کہ اسے خود اپنی ہی بنائی ہوئی داعش کے خاتمے کیلئے میدان میں آنا پڑا۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے خطے  میں جاری امریکی سازشوں سے پردہ فاش کیا۔ اس حملے سے واضح ہو گیا کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے، جو جسے چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے نشانہ بنا دیتا ہے۔ امریکہ قانون کا احترام کرتا ہے نہ اںسانیت کا خیال رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملایشیاء کے وزیراعظم مہاتیر محمد کو بھی یہ بیان دینا پڑا کہ مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، قاسم سلیمانی پر حملے سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی محفوظ نہیں اور کسی کی کہی ہوئی سخت بات کسی کو اگر پسند نہیں آتی تو وہ کسی دوسرے ملک کے ڈرون حملے میں ہلاک ہو سکتا ہے۔ مہاتیر محمد کے مطابق ان کی سچی باتیں پسند نہ آنے کی صورت میں شاید انہیں بھی ڈرون حملے کا نشانہ بنا دیا جائے۔ مہاتیر محمد کا یہ بیان امت مسلمہ کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ ملایشیاء کانفرنس بھی اتحاد امت کے اسی سلسلے کی کڑی تھی، مگر پاکستان نے سعودی عرب کے دباو میں آ کر اس میں شرکت نہ کرکے اپنا وقار مجروح کر لیا۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے ایران کو بھی اب محفوظ بنا دیا ہے۔ ایران میں تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کیخلاف عوامی ردعمل آ رہا تھا۔ مظاہروں کو بیرونی سازشوں کے تحت ہوا دی جا رہی تھی۔ مگر اب حکومت کیخلاف مظاہرے کرنے والے بھی نم دیدہ ہیں کہ ان کا محافظ شہید ہو گیا۔ حکومت کیخلاف نعرے لگانے، جلاؤ گھیراؤ کرنیوالوں نے بھی اپنی پالیسی بدل لی ہے۔ وہ لوگ جو تہران حکومت کیخلاف مظاہروں میں پیش پیش تھے، اب خاموش ہیں اور قاسم سلیمانی کی شہادت پر نوحہ کناں ہیں۔ قاسم سلیمانی زندہ تھے تو ایران کے محافظت کر رہے تھے، مگر شہید ہو کر بھی انہوں نے ایران کو اور زیادہ محفوظ بنا دیا۔ اب امریکہ کی وہ ساری ’’سرمایہ کاری‘‘ خاک ہو چکی ہے، جو اس نے مظاہرین کو اشتعال دلانے کیلئے تہران کیخلاف ایران میں کی تھی۔

دوسری جانب دنیا بھر کے ممالک امریکہ کے اس اقدام کو جارحیت قرار دے رہے ہیں۔ کچھ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ یہ تیسری عالمی جنگ کی بنیاد ہو سکتی ہے، مگر اب حالیہ صورتحال دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ نہیں ہوگی۔ کیونکہ ایران نے نہایت حکمت عملی کیساتھ امریکہ سے انتقام لینے کا پلان تیار کیا ہے۔ فوری ردعمل کے طور پر 2 امریکی ایئربیسز پر حملوں کو تو ایرانی قیادت نے صرف ’’تھپڑ‘‘ قرار دیا ہے جبکہ کہا گیا ہے کہ ابھی انتقام تو باقی ہے۔ ایران نے تھپڑ کے طور پر اگر امریکہ کے دو ایئر بیس مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیئے ہیں تو انتقام کتنا شدید ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ابھی بھی کچھ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ امریکہ دفاعی اعتبار سے مضبوط ہے، اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں۔ دنیا کی بڑی فوج ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ مبصرین یہ بھول گئے ہیں کہ ایران نے امریکہ کے 2 ایئر بیسز پر حملے کر کے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کے جدید ہتھیار ایرانی بیلسٹک میزائلوں کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ گو کہ امریکہ نے ابھی تک مذکورہ بالا دونوں ایئر بیسز پر ہونیوالی ہلاکتوں کا اعتراف نہیں کیا جبکہ ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ 80 امریکی فوجی مارے گئے ہیں۔ یہ حقائق بھی جلد منظر عام پر آ جائیں گے۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے جہاں مشرق وسطیٰ کے ممالک کو بیدار اور متحد کیا ہے، وہیں ان کی شہادت سے پاکستان میں بھی ایک مثبت تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ مختلف گروپوں میں تقسیم اہل تشیع متحد ہو گئے ہیں۔ پہلے پاکستان کے اہل تشیع شیعہ علماء کونسل، مجلس وحدت مسلمین، تحریک بیداری امت مصطفی، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، جعفریہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور دیگر ناموں کیساتھ مختلف جماعتوں میں تقسیم تھے، مدارس الگ الگ ڈگر پرچل رہے تھے، مگر جنرل سلیمانی کی شہادت اور امریکہ کی مشرق وسطیٰ سمیت پاکستان میں سازشوں کیخلاف یہ تمام جماعتیں، مدارس اور دھڑے ’’اتحاد امت فورم‘‘ کے پلیٹ فارم پر متحد ہو گئے ہیں اور تمام قائدین نے مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ امریکی سازشوں کے خلاف متحد ہو کر بند باندھیں گے۔ اس حوالے سے 12 جنوری کو لاہور سمیت ملک بھر میں یوم مردہ باد امریکہ منانے کا اعلان کیا گیا ہے جس کیلئے لاہور میں پنجاب اسمبلی سے امریکی قونصلیٹ تک ریلی نکالی جائے گی، جس میں تمام جماعتوں کے رہنما اور کارکنان شریک ہوں گے۔

دوسری جانب پاکستان کے اہلسنت نے بھی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے امریکی سازشوں کا ادراک کیا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو امریکہ کی بربادی سے تعبیر کیا ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا کہتے ہیں کہ امریکہ نے جنرل سلیمانی کو شہید کرکے مشرق وسطیٰ کی زمین اپنے لئے تنگ کر لی ہے، اب وہ مزید مشرق وسطیٰ میں قیام نہیں کر سکے گا۔ اسی طرح جمیعت علمائے پاکستان کے مرکزی صدر اعجاز ہاشمی اور جمعیت علمائے پاکستان نورانی کے پیر معصوم نقوی سمیت دیگر علمائے و قائدین نے بھی جنرل سلیمانی کی شہادت کو امریکی جارحیت قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے وفد نے لاہور میں ایرانی قونصل جنرل سے ملاقات کی اور امریکی جارحیت کی مذمت کی اور ایران کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ پاکستان کی اہل تشیع جماعتوں کیساتھ ساتھ اہلسنت جماعتیں بھی اس محاذ پر ایران کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ مذہبی قائدین نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین ایران کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اُدھر ایران کی کامیابیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ امریکہ نے کویت سے اپنی فوج نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے امریکہ نے کویت کے وزیر دفاع کو خط پہنچا دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کویت سے 3 روز میں اپنی فوجیں نکال لے گا۔ کویت کے عارف جان کیمپ میں امریکہ کے میرین کوسٹ گارڈ، بحریہ اور فضائیہ کے اہلکار تعینات ہیں۔ اسی طرح عراق کی پارلیمنٹ بھی امریکی فوج کے عراق سے فوری انخلاء کی منظوری دے چکی ہے۔ امریکہ نے مستقل بنیادوں پر مشرق وسطیٰ میں ڈیرے ڈالے تھے اور علاقے کے وسائل اور تیل کیلئے یہاں اڈے بنائے، مگر اب جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد امریکہ کا علاقے میں قیام ناممکن ہو چکا ہے۔ امریکہ نے قاسم سلیمانی کو شہید نہیں کیا بلکہ اپنے مفادات کا سر قلم کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے انخلاء کے بعد امریکہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جبکہ امریکہ کے اندر بھی مزاحمتی تحریک سر اُٹھا رہی ہے، جسے قابو کرنا شائد امریکہ کے بس میں نہ رہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے جہاں امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کیا ہے، وہیں امریکہ کیلئے خطرناک مستقبل کی بنیاد بھی رکھ دی ہے اور شائد یہی وہ سخت انتقام ہے جس کا آیت اللہ خامنہ ای نے اشارہ دیا تھا۔ صیاد خود اپنے دام میں آ چکا ہے۔
 
 
 

تحریر: نذر حافی


فوجی اڈہ کیا ہوتا ہے؟ بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں لارہ اڈے جیسی ہی کوئی چیز ہوتی ہے، کچھ کے اذہان میں فوجی اڈہ ایک ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے، جس میں کچھ فوجی بیرکیں ہوتی ہیں، وہاں فوجی حضرات رہتے ہیں، کھاتے پیتے اور ورزش وغیرہ کرتے ہیں۔ المختصر جتنی جس کی معلومات ہوتی ہیں، ویسا ہی اس کے ذہن میں فوجی اڈے کے بارے میں نقشہ بھی ہوتا ہے۔ ایرانیوں نے کہا تھا کہ ہم سخت انتقام لیں گے، انہوں نے یہ انتقامی حملہ چھپ چھپا کر، اچانک اور خاموشی سے نہیں کیا بلکہ پانچ دن اور رات مسلسل وارننگ دینے کے بعد عین رات کے اسی وقت یہ حملہ کیا، جس وقت قاسم سلیمانی پر حملہ کیا گیا تھا۔ اگر یہ حملہ چھپ چھپا کر ہوتا تو پھر شاید امریکیوں میں اور ایرانیوں میں اس حوالے سے کوئی فرق نہ ہوتا۔

دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ عراق میں حشد الشعبی کے ذریعے پہلے دن سے عراقی عوام کو امریکی اڈوں سے دور رہنے کی بار بار تاکید کی گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں کوئی ایک بے گناہ عراقی بھی ہلاک نہیں ہوا اور اس بات کی حکومت عراق نے بھی تصدیق کی ہے۔ تیسری اور اہم بات جو دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ ایران نے حملے سے پہلے عراق کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اور سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عراقی حکومت سے باقاعدہ اجازت لی، یعنی امریکہ کی طرح نہیں کہ جہاں چاہا، وہاں حملہ کر دیا اور جتنے لوگ مرتے ہیں، مر جائیں۔

اب سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایران نے عین الاسد کے فوجی اڈے کو ہی نشانہ کیوں بنایا!؟ حالانکہ اس سے پہلے اور نزدیک ترین امریکی اڈے موجود تھے، جو آسانی سے نشانہ بن سکتے تھے۔ جو لوگ جغرافیے، تحقیق اور جنگی تدابیر پر نظر رکھتے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ فوجی اڈہ عراق کے مغرب میں، صوبہ الانبار میں اور شام کی سرحد کے بالکل نزدیک واقع ہے۔ یعنی ایران نے تقریباً سب سے دور ترین اڈے کو نشانہ بنایا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس قدر دور ترین مقام پر حملہ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس حملے سے ایران نے جہاں ایک طرف امریکہ اور اسرائیل کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی عسکری طاقت کے حوالے سے جب عین الاسد کو ویران کرسکتا ہے تو باقی اڈے تو اس کی بغل میں ہیں۔ دوسری بات جو عین الاسد پر حملے کا باعث بنی، وہ خود عین الاسد کی اہمیت ہے۔

عین الاسد عراق میں امریکہ کا سب سے مرکزی، مضبوط اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس فوجی اڈہ تھا۔ اس کی مساحت اور رقبہ پچاس کلومیٹر مربع میل ہے۔ اس میں حملے کے وقت چار ہزار امریکی فوجی، بیس ہیلی کاپٹر اور تیس لڑاکا تیارے موجود تھے۔ صرف یہی نہیں، یہ اڈہ دراصل امریکیوں کی جنت کہلاتا تھا، اس میں ایک ایسا  شہر آباد تھا، جس میں عیش و نوش اور دنیا کی ہر عیاشی کا سامان تھا، یہی وہ اڈہ ہے، جہاں پر داعش اور اس طرح کے دیگر دہشت گرد ٹولوں کو تربیت دینے کے بعد آگے دھکیلا جاتا تھا، اس اڈے میں دہشت گردوں کے لئے ایک شاندار مسجد بھی بنائی گئی تھی۔ اس اڈے کی اہمیت اور طاقت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ امریکہ کی اعلیٰ شخصیات جب عراق آتی تھیں تو اسی اڈے میں قیام پذیر ہوتی تھیں۔ حتیٰ کہ گذشتہ سال ٹرمپ بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ جب عراق آیا تھا تو اسی اڈے پر اس کا استقبال کیا گیا تھا اور یہی اڈہ اس کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ چنانچہ اس اڈے کو عراق میں امریکہ کا دارالحکومت کہا جاتا تھا۔

جیسا کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم میں نے جاری کیا تھا، اس حکم پر عملدرآمد کا پیغام اسی عین الاسد کے اڈے سے اجرا کیا گیا تھا۔ چنانچہ عین الاسد کی یہ اہمیت خود یہ تقاضا کرتی تھی کہ اگر قاسم سلیمانی کا انتقام لینا ہے تو پھر کم از کم عین الاسد کے اڈے سے انتقام شروع کیا جائے۔ یہاں تک ایک بات ہر عقل مند اور سمجھدار آدمی کو سمجھ آتی ہے کہ ایرانیوں نے سخت انتقام کا آغاز ضرور کیا ہے، لیکن ایرانی اندھے انتقام کے قائل نہیں ہیں، ایرانیوں کا یہ عسکری انتقام اپنی جگہ جاری رہے گا، لیکن دراصل اقتصادی، سیاسی، ثقافتی، سفارتکاری اور اسلامی وحدت کے میدانوں میں امریکی و اسرائیلی مفادات کا صفایا کرنے میں ایرانی تیزی سے کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امریکی و اسرائیلی مفادات کے خلاف مختلف میدانوں میں ایران کی اس وقت کیا صورتحال ہے، اس پر ان شاء اللہ اگلی قسط میں بات کریں گے۔