سلیمانی

سلیمانی

  • دنیائے اسلام کے عظيم اسلامی کمانڈر شہید میجر جنرل سلیمانی کا پیکر پاک تشییع کے لئے تہران پہنچ گيا ہے آج تہران میں اسلام کے عظیم سردار اور کمانڈر کو الوداع کرنے کے لئےکئی ملین افراد حاضر ہوئےہیں۔ ایران کے اعلی سول اور فوجی حکام بھی موجود ہیں، فلسطینی تنظیم حماس کے سابق وزیر اعظم اور خارجہ پالیسی کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بھی تہران کے عظیم اجتماع سے خطاب کیا ہے۔

 

ایرانی دارالحکومت میں القدس فورس کے کمانڈر شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی نماز جنازہ قائد انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی امامت میں ادا کی گئی.

اس موقع پر صدر مملکت، اسپیکر پارلیمنٹ، چیف جسٹس سمیت اعلی عسکری قیادت، حکومتی شخصیات اور لاکھوں شہریوں نے نماز جنازہ میں موجود تھے.

ایک روح پرور فضا میں وطن عزیز کہ مظلوم شہیدوں کی نماز جنازہ کی ادائیگی ہوئی جہاں عوام نے شہدا کو اشکبار آنکھوں سے الوداع کیا.

نماز جنازہ کے بعد لاکھوں اجتماع میں موجود عوام نے امریکہ اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے اور عالمی سطح پر امریکہ اور صہیونیوں کی پالیسی کی شدید مذمت بھی کی.

ایرانی عوام نے اس موقع پر یہ عہد کیا کہ مزاحمت کی راہ بالخصوص شہید قاسم سلیمانی کے مشن کو جاری رکھیں گے.

شہید قاسم سلیمانی کے جسم خاکی کو منگل کے روز اپنے آبائی علاقے صوبے کرمان میں سپرد خاک کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ جمعہ کی علی الصبح کو عراق کے دارالحکومت بغداد کے ایئرپورٹ پر امریکہ کی جانب سے راکٹ حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر قدس جنرل قاسم سلیمانی سمیت عراق کی عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر "ابومهدی المهندس" شہید ہوگئے۔

 عراق کے دینی مرجع آیت اللہ سیستانی نے اپنے ایک پیغام میں شہید میجر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو تعزیت اور تسلیت پیش کی ہے۔

آیت اللہ سیستانی کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انالله و اناالیه راجعون

جناب مستطاب آیت اللہ آقائ خامنہ ای دامت برکاتہ

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

سپاہ اسلام کے عظيم الشان اور عالیقدر کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کی خبر گہرے افسوس اورفراواں  رنج و غم کا موجب ہوئی ، مرحوم نے کئی برسوں تک عراق میں داعش کے خلاف جنگ میں بیشمار زحمتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ، جو ناقابل فراموش ہیں۔

میں اس عظیم المرتبت شہید کی شہادت پر جنابعالی، مرحوم کے اہلخانہ، اولاد ، ایرانی عوام اور خاص طور پر کرمان کے عزیز عوام کو تعزیت اور تسلیت پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالی کی بارگاہ سے اس عظیم الشان شہید کے درجات کی بلندی اور شہید کے پسماندگان کے لئے صبر جمیل اور اجر جزیل طلب کرتا ہوں۔

ولاحول ولا قوة الا بالله العلی العظیم

علی الحسینی سیستانی

۸ جمادی الاول ۱۴۴۱

تحریر: حسین شریعتمداری

 عراق میں امریکی مسلح افواج کے سابق کمانڈر اور امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کے سابق سربراہ جنرل پیٹریاس نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کے ممکنہ جوابی ردعمل پر خوف اور پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے امریکی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ہر گز جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا انتقام لینے سے چشم پوشی نہیں کرے گا اور امریکہ سے انتقام ضرور لے گا اور اس کا انتقام انتہائی سخت ہو گا۔ جنرل پیٹریاس نے زور دیتے ہوئے کہا: "یہ انتقام انتہائی خطرناک ہو گا اور خطے میں موجود امریکی فوجیوں یا امریکی مفادات تک محدود نہیں ہو گا بلکہ شام، عراق، خلیج فارس یا دنیا کے کسی بھی حصے میں انجام پا سکتا ہے۔" اسی طرح اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے اعلی سطحی عہدیدار شیموئیل کارڈیلو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کہا ہے: "ایرانی انتہائی ذہین ہیں اور ان کے اقدامات بہت زیادہ خطرناک اور اسٹریٹجک وار پر مشتمل ہوتے ہیں۔ وہ ایسی جگہ سے وار کرتے ہیں جس کا تصور کرنا بھی ناممکن ہوتا ہے۔"

انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی رحمہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: "دشمن کو سکون کا سانس مت لینے دیں ورنہ وہ آپ کو سکون کا سانس نہیں لینے دے گا۔" اسی طرح ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے کل اسلام کے دلیر کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی مناسبت سے اپنے تسلیتی پیغام میں فرمایا: "شہادت گذشتہ سالوں میں ان کی مسلسل جدوجہد کا انعام تھا۔ ان کے جانے سے خدا کی نصرت اور طاقت سے ان کا کام اور ان کا راستہ بند یا معطل نہیں ہو گا۔ لیکن ان مجرم افراد کو سخت انتقام کا انتظار کرنا چاہئے جن کے نجس ہاتھ شہید قاسم سلیمانی اور گذشتہ رات کے سانحے میں شہید ہونے والے دیگر افراد کے خون سے آلودہ ہیں۔" اس بارے میں اگرچہ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن یہاں تین اہم نکات بیان کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہوں۔ پہلا نکتہ یہ کہ امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادی شیشے کے محلوں میں بیٹھے ہیں اور دہشت گرد امریکی حکمرانوں سے سخت انتقام کے تمام تر مقدمات فراہم ہیں۔ اگرچہ سوئٹزرلینڈ کے سفیر کو بلا کر امریکہ کے مجرمانہ اقدام پر احتجاج درج کروایا گیا ہے جو سفارتی سطح پر ایک اچھا اور مناسب قدم ہے لیکن بہت جلد امریکہ کو دندان شکن جواب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ عالم اسلام کے عظیم مجاہد شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے ہمراہ دیگر شہداء کے خون کی قیمت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کا انتقام ایک کاروائی کی حد تک محدود نہیں ہو سکتا بلکہ یہ انتقامی کاروائی چند مرحلوں پر مشتمل ہو گی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے بھی اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف ایک مجرمانہ اقدام انجام نہیں دیا بلکہ ایک عرصے سے مسلسل مجرمانہ اقدامات کا سلسلہ انجام دیتا آیا ہے لہذا اس کے خلاف جوابی کاروائی بھی مرحلہ وار ہونی چاہئے۔ جیسا کہ ہمارے ایک عزیز نے کہا کہ "کیا صرف مختار ثقفی کے قیام اور ابن زیاد، شمر، حرملہ اور عمر ابن سعد جیسے افراد کے قتل سے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ چکایا جا چکا ہے؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ اسلام دشمن قوتیں بدستور اسلام سے دشمنی کرنے اور اہل حق کے خلاف ظلم و ستم کرنے میں مصروف ہیں۔"

تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جمعہ کی سحر گاہ شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے ہمراہ دیگر شہداء اپنی دیرینہ آرزو تک پہنچ گئے ہیں اور ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کے بقول "شہادت ان کی مسلسل جدوجہد کا انعام تھا"۔ اس بارے میں اہم بات یہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی اور ان کے ہمراہ دیگر شہداء نے اپنی شہادت کے ذریعے دشمن کے مورچے تک نیا محفوظ راستہ مہیا کر دیا ہے۔ خداوند منان شہید آوینی رحمہ اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے جو ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ہم نے شہداء کو نہیں گنوایا بلکہ انہیں پا لیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے امام خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ "ہمارے عزیز اور جان نثار کمانڈر کا فقدان تلخ ہے لیکن جدوجہد کے تسلسل اور حتمی کامیاب کے حصول سے ان کے قاتلوں اور مجرموں کی زندگی تلخ کر دیں گے۔" آخر میں اپنے انقلابی شاعر دوست ایوب پرندآور کے اس شعر کے ساتھ تحریر کا خاتمہ کرتا ہوں جو انہوں نے کل ہی شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی مناسبت سے امریکہ کو مخاطب قرار دیتے ہوئے پڑھا ہے
اے امریکہ، اگر تم ایک اور کربلا بھی برپا کر ڈالو تو دیکھو گے کہ دو کروڑ قاسم سلیمانی تیار کھڑے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف جنرل حسین سلامی نے امریکی دہشتگردانہ کارروائی میں سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی مظلومانہ شہادت پر تبریک و تسلیت عرض کی اور کہا کہ شہید قاسم سلیمانی ولایت (اسلامی) کے سپاہی اور ایک ایسے کمانڈر تھے جنکی مثال صرف افسانوں میں ہی مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی نے 41 سالوں سے جہادی لباس اپنے بدن سے جدا نہیں ہونے دیا جبکہ انہوں نے ایسے تمامتر معرکوں کے دوران میدان میں حاضر رہ کر فیصلہ کن کردار ادا کیا جنکے دوسری طرف امریکی اور اسکے اتحادی موجود تھے، تاہم انہوں نے خطے میں کبھی امریکی فیلڈ پالیسیوں اور آپریشنل اسٹریٹیجیز کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔

جنرل حسین سلامی نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی نے فلسطینی مزاحمتی محاذ کو طاقتور بنا کر غاصب صیہونی رژیم اسرائیل کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کی کاوشوں کی وجہ سے آج اسرائیلیوں کے زیر کنٹرول مقبوضہ فلسطین کے تمامتر مقامات اس فلسطینی اسلحے کی زد پر ہیں، جو خود فلسطین میں بن رہا ہے اور ٹھیک نشانے پر مار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب غاصب صیہونی رژیم اسرائیل کو زندگی و موت کے درمیان قرار دے کر تلوار کی تیز دھار پر رکھنا ہے۔

سپاہ پاسداران ایران کے کمانڈر انچیف نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ جارح قوتوں سے ضرور پشیمان کر دینے والا انتقام لیا جائیگا، کہا کہ امریکہ کی اس دہشتگردانہ کارروائی پر قطعی نتائج کا حامل اور اسلامی دنیا سے امریکی موجودگی کو ختم کر دینے والا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، جس کے بعد اسلامی دنیا میں امریکہ کیلئے کوئی مقام باقی نہیں بچے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جوابی کارروائیوں کی ماھیت، اُنکا وقت اور جگہ، دشمن کو ہمارے جواب مل جانے تک خفیہ رہے گی، جبکہ پوری دنیا پر موجود امتِ مسلمہ ہماری سخت اور پاش پاش کر دینے والی ان جوابی کارروائیوں کے اثر سے محظوظ ہوگی۔

سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف جنرل حسین سلامی نے کہا کہ جو بھی امریکہ کا میزبان بنے گا، امتِ مسلمہ کا دشمن تصور ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکہ کا میزبان بننے والے ممالک کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے رویّوں اور اپنی خفیہ سازشوں پر نظر ثانی کریں، کیونکہ ہم ان پر نزدیک سے نگرانی کر رہے ہیں، تاہم ان ممالک کو چاہیئے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کہیں وہ خود ہی امریکی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں۔ انہوں نے کہا ان ممالک کو چاہیئے کہ وہ غور کریں کہ کہیں اپنی اقتصادی، اجتماعی، تہذیبی اقدار اور قومی سالمیت کو امریکی سیاست کے قدموں پر نچھاور کرکے وہ امریکی اسٹریٹیجک پالیسیوں کی قیمت نہ چکاتے رہیں۔

ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف جنرل حسین سلامی نے خطے کے مستقبل کو انتہائی درخشاں قرار دیتے ہوئے کہا کہ خطے سے امریکی موجودگی کے خاتمے پر خطے میں استحکام، پیشرفت، توازن اور امن و امان کی فضا اپنے عروج کو پہنچ جائے گی۔ جنرل حسین سلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر کہ ایران کسی جنگ میں کامیاب نہیں ہوا جبکہ ہر مذاکرے میں ایران نے شکست ہی کھائی ہے، جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کو حالیہ تاریخ کا بغور مطالعہ کرنا اور اپنی نگاہ کو اٹھا کر گذشتہ کچھ دہائیوں کو بغور دیکھنا چاہیئے، تاکہ وہ جان سکے کہ یہ ایران ہی ہے جو تمام جنگوں میں کامیاب رہا ہے اور اسی طرح ایران نے کسی مذاکرے میں شرکت نہیں کی، مگر یہ کہ وہ اپنے عادلانہ کردار اور جوانمردانہ رویئے کے بل بوتے پر ہمیشہ کامیاب رہا ہے۔
 
 
 

عراقی دارالحکومت بغداد میں امریکہ کے جارحانہ حملے میں شہید ہونے والے سردار قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے۔ جنازہ کے جلوس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے، جنہوں نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے ہوئے اس بہیمانہ حملے کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔ جلوس کا آغاز شعیہ اکثریتی علاقے کاظمین سے ہوا اور بعد میں یہ گرین زون پہنچا۔ اعلیٰ سیاسی و سماجی شخصیات نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ امریکی حملے میں کل 10 افراد (پانچ عراقی اور پانچ ایرانی افراد) شہید ہوئے۔ جلوس میں شامل افراد عراقی اور ملیشیا پرچم لہراتے ہوئے 'امریکہ مردہ باد' کے نعرے لگا رہے تھے۔ ان افراد نے جنرل سلیمانی اور ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔ نمازِ جنازہ کے جلوس میں بڑی تعداد میں خواتین نے بھی شرکت کی۔ نمازِ جنازہ کے جلوس میں عراقی وزیرِ اعظم عادل عبد المہدی اور سابق وزیرِ اعظم نور المالکی بھی شریک ہوئے۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی اور دیگر رفقاء کی میتیں کربلا پہنچائی گئیں، میتوں کو امام حسین (ع) کے روضے سے نجف اشرف لے جایا گیا۔ 

شہید جنرل سلیمانی نے اپنی شہادت سے صرف چند گھنٹے پہلے اپنے ہاتھ سے کچھ جملے لکھے تھے۔

شہید جنرل سلیمانی کی آخری تحریر کچھ اس طرح سے ہے۔

"الهی لا تکلنی"

اے خدا مجھے قبول فرما اے خدا میں تجھ سے ملنے کیلئے بے تاب ہوں۔ وہی دیدار کہ جس کیلئے حضرت موسی کے پاس تاب نظارہ نہ تھا ۔ خداوندا مجھے پاک و پاکیزہ قبول فرما۔

الحمدلله رب العالمین۔

شہید جنرل سلیمانی نے یہ جملے جمعرات 2 جنوری 2020 کو اپنی پرواز سے صرف چند منٹ پہلے اپنی قیام گاہ میں لکھے تھے اور پھر اسی ورق پراپنا پین بھی رکھ دیا اور ایر پورٹ کیلئے روانہ ہوئے۔ اور بغداد پہنچتے ہی شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئے۔

News Code 1896781

حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے شہید میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کی شہادت کی یاد میں منعقد ہونے والے ایک عظيم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید میجر جنرل قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس دونوں شہادت کے عاشق اور مشتاق تھے۔ انھوں نے کہا شہید سلیمانی جب لبنان کا دورہ کرتے تھے ، تو وہ اپنے ساتھی شہیدوں کو یاد کرکے گریہ کرتے تھے۔ 2 جنوری 2020 میں ان کی شہادت کے بعد خطے میں ایک نئی تاریخ کا آغاز ہوگیا ہے اورمذکورہ تاریخ میں حاج قاسم سلیمانی اپنے ہدف اور مقصد تک پہنچ گئے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ میں یہاں سے شہید قاسم سلیمانی کے خاندان اور اولاد کو مبارکباد اور تعزیت پیش کرتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ شہید سلیمانی اپنی دیرینہ آرزو تک پہنچ گئے۔ حاج قاسم سلیمانی شہادت کے مشتاق تھے۔ حال ہی میں ان سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے کہا کہ داعش کا بھی خاتمہ ہوگیا ، کچھ لوگ شہید ہوگئے اور ميں رہ گیا ہوں ، ڈرتا ہوں کہ شہداء سے ملحق نہ ہوسکوں ۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ دشمن ہمیں مار ہی سکتا ہے ہم بھی راہ خدا میں مرنے کے لئے آمادہ ہیں اور ہم صرف ایمان کے ذریعہ ہی دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔ جمعہ کی صبح کو شہید سلیمانی کی شہادت کے نتیجے میں مزاحمتی محاذ کو ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی ، شہادت ہماری کامیابی کامظہر ہے۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ جمعرات کو شہید قاسم سلیمانی اپنے ساتھیوں کے ساتھ دمشق ايئر پورٹ سے بغداد کے لئے روانہ ہوئے جہاں بغداد ایئر پورٹ پر شہید ابو مہدی مہندس اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے مہمانوں کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ اور جب دونوں کمانڈر اپنی گاڑیوں پر سوار ہوگئے تو امریکہ نے بزدلانہ ہوائی حملہ کرکے دونوں کمانڈروں کو ان کے ساتھیوں کے ہمراہ  شہید کردیا اور امریکی وزارت دفاع نے اس بہیمانہ ، بزدلانہ اور مجرمانہ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج نے میجر جنرل قاسم سلیمانی کو امریکی صدر ٹرمپ کے حکم پر شہید کیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ شہید میجر جنرل قاسم سلیمانی کو کرمان کے حسینیہ میں بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئی اور اس سے پہلے بھی متعدد بار امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے انھیں قتل کرنے کی سازشیں کیں جو سب کی سب ناکام ہوگئیں، یہ سب سازشیں خفیہ اور مبہم تھیں اور ان میں امریکہ کا خبیث اور منحوس چہرہ مخفی رہتا ، اب امریکہ نے شہید قاسم سلیمانی کو اپنی بربریت کا آشکارا نشانہ بنایا اور دنیا پر واضح ہوگیا کہ امریکہ نے ایسے عظيم مجاہد کو شہید کیا ہے جس نے عراق اور شام سے داعش دہشت گردوں کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ میجر جنرل قاسم سلیمانی امریکہ کے لئے بڑا خطرہ نہیں تھے وہ تو خطے میں امریکی سازشوں کو ناکام بنارہے تھے لیکن شہید میجر جنرل قاسم سلیمانی امریکہ کے لئے بہت بڑا خطرہ بن گئے ہیں اور وہ خطے سے امریکی فوج کو خارج کرکے ہی دم لیں ۔ اب خطے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کا کوئی مقصد نہیں اور امریکی فوجیوں کو امریکہ کی سرحدوں کے اندر واپس چلا جانا چاہیے ۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ امریکہ کی خطے میں موجودگی علاقائی اور عالمی امن کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے ، امریکہ عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی کا ارتکاب کررہا ہے۔ امریکہ علاقائی ممالک میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں عراق اور بعض دیگر ممالک میں گہری سازش کا ارتکاب کرتے ہوئے مقامی عوام کو آپس میں لڑانے کی بڑی کوشش کی، انھوں نے کہا کہ علاقائی ممالک کو امریکہ کے ساتھ دوستی کا ہاتھ ملانے کے بجائے آپس میں متحد ہوکر امریکہ کی گھناؤنی سازشوں کامقابلہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس کی شہادت سے خطے میں ایک نئی تاریخ کا آغاز ہوگیا ہے اور ہم تو امریکی صدر ٹرمپ کے سر کو بھی شہید میجر جنرل سلیمانی کے ایک جوتے کے برابر نہیں سمجھتے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ خطے سے امریکی فوج کا اخراج خطے کی سلامتی اور امن کے لئے بہت ہی اہم ہے ۔ امریکہ خودی بھی دہشت گرد ہے اور وہ اسرائیل جیسے غاصب اور دہشت گرد ملک کی حمایت بھی کررہا ہے اور وہ مسلم ممالک کو آپس میں لڑا کر خطے پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ علاقائی اقوام امریکی فوج کو خطے سے نکال دیں گے لہذا علاقائی حکمرانوں کو اب امریکہ کے بجائے علاقائی عوام کا ساتھ دینا چاہیے ورنہ علاقائی عوام  انھیں بھی امریکہ کے ساتھ محشور کردیں گے۔

 

حریر: رامین حسین آبادیان

جمعہ 3 جنوری کی صبح ایک بجے کے قریب بغداد ایئرپورٹ کے قریب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی رضاکار عوامی فورس حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس کی گاڑیوں پر امریکی ہوائی حملہ ہوا جس کے نتیجے میں گاڑیوں میں سوار تمام دس افراد شہید ہو گئے۔ مختلف ممالک کے حکومتی عہدیداروں، سیاسی رہنماوں، سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے اس ہولناک واقعے پر ردعمل سامنے آیا ہے۔ عراق کے صدر برہم صالح نے کہا: "ہم عراق کی مسلح افواج سے وابستہ سیکورٹی کمانڈرز پر امریکہ کے ہوائی حملے کی مذمت کرتے ہیں اور بلا شک عراق اور خطے کیلئے اس کے ناگوار سکیورٹی اثرات ظاہر ہوں گے۔" بدر آرگنائزیشن کے چیف کمانڈر ہادی العامری نے کہا: "امریکہ کے اس مجرمانہ اقدام نے جہاد کے راستے اور الہی اصولوں اور اقدار کی پاسداری کیلئے جدوجہد میں ہمارا عزم مزید پختہ کر دیا ہے۔" اسی طرح عراق میں شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ العظمی علی سیستانی نے اس واقعے کے بارے میں کہا: "گذشتہ رات بغداد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب یہ بزدلانہ حملہ عراق کی خودمختاری اور بین الاقوامی چارٹر کی کھلی خلاف ورزی تھی۔"

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے بیان میں کہا: "امریکی قاتل انشاء اللہ اپنے مجرمانہ اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور برادر قاسم سلیمانی کے اہداف امت مسلمہ میں عالمی استکبار کے سامنے ڈٹے ہوئے ان کے بھائیوں، بیٹوں اور شاگردوں کے ذریعے حقیقت کا روپ دھار کر رہیں گے۔" اسی طرح عراق کے نگران وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے کہا: "ہم برادر ابو مہدی المہندس اور قاسم سلیمانی کے قتل پر مبنی امریکی حکومت کے اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ دونوں شہید داعش کے خلاف فتح کی علامت تھے۔" روس کی وزارت خارجہ کے ایک اعلی سطحی عہدیدار نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کو خطرناک مہم جوئی قرار دیا اور کہا کہ اس کا نتیجہ خطے میں تناو کی شدت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ انہوں نے ایران سے ہمدردی کے اظہار اور ایرانی قوم سے اظہار تسلیت کرتے ہوئے کہا کہ جنرل سلیمانی اپنے ملک کے قومی مفادات کے محافظ تھے۔ عراق کے اہم سیاسی رہنما مقتدا صدر نے کہا: "استکبار جہانی کی جانب سے جنرل قاسم سلیمانی اور دیگر مومن مجاہدین کو نشانہ بنانا درحقیقت جہاد اور عالمی سطح پر موجود انقلابی جذبے کو نشانہ بنانا ہے لیکن اس سے ہمارا جہاد کا عزم کم نہیں ہو گا۔"

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی حکومت کا یہ مجرمانہ اقدام "ریاستی دہشت گردی" کا واضح مصداق ہے۔ امریکی حکام نے اب تک ایسے بے شمار اقدامات انجام دیے ہیں جس سے ثابت ہو گیا ہے کہ وہ خطے اور عالمی سطح پر ریاستی دہشت گردی کا سرغنہ ہیں۔ امریکہ کی اس ریاستی دہشت گردی کے مقابلے میں اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کی خاموشی بھی قابل مذمت ہے۔ خطے کے ممالک نے بھی امریکہ کے مجرمانہ اقدامات اور ریاستی دہشت گردی کے سامنے چپ سادھ رکھی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کھلم کھلا امریکہ کی ریاستی دہشت گردی کی حمایت کرنے میں مصروف ہے۔ درحقیقت اس مجرمانہ اقدام سے امریکہ کا مقصد نہ صرف عراق اور ایران بلکہ پورے خطے میں اسلامی مزاحمت کو کمزور کرنا ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت اسلامی مزاحمتی بلاک میں نئی روح پھونک دے گی اور مجاہدین اسلام پہلے سے زیادہ پرعزم ہو کر نئے جذبے سے اس کی شیطانی سازشوں کے خلاف سرگرم عمل ہو جائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کا پاکیزہ خون اسلامی مزاحمت کے درخت کی آبیاری کرتے ہوئے اسے مزید طاقتور بنا دے گا۔

ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا ہے: "تمام دوست نیز دشمن جان لیں کہ مزاحمتی جہادی تحریک پہلے سے زیادہ عزم اور جذبے سے جاری رہے گی اور حقیقی فتح اس مبارک راستے پر گامزن مجاہدین کے قدم چومے گی۔ ہمارے عزیز اور جاں نثار کمانڈر کا فقدان تلخ ہے لیکن جدوجہد کا تسلسل اور حتمی فتح کا حصول ان کے قاتلوں اور مجرموں کو تلخ کام کر دے گا۔" یہ ایک واضح امر ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی کے کمانڈرز کی شہادت کے جرم میں امریکی دہشت گردوں کے خلاف سخت انتقامی کاروائی انجام پانے والی ہے۔ امریکہ نے عراق کی سرزمین پر ایران کی مسلح افواج کے اعلی سطحی کمانڈر کی ٹارگٹ کلنگ کر کے اپنے خلاف انتقامی کاروائی کے بھی نئے باب کھول دیے ہیں اور اب خطے میں ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جنگ کے اصول تبدیل ہو چکے ہیں۔ امریکہ اور اب دنیا کے کسی کونے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے اپنے خلاف شدید انتقامی کاروائی کی توقع رکھنی چاہئے۔

ز
11مارچ 1957ء جائے پیدائش: رابر ،صوبہ کرمان ،ایران
القاب: الحاج قاسم ،جنرل ،شیڈو لیڈر
تعارف: جنرل سلیمانی 11مارچ 1957ءکو ایرانی صوبہ کرمان کے شہر رابر کے قنات ملک نامی علاقے میں پیداہوئے ۔جوانی میں جنرل قاسم پانی کے محکمے میں ملازمت کرتے تھے، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جنرل قاسم نے 1980ءمیں پاسداران انقلاب اسلامی فورس میں شمولیت اختیار کی۔جنرل قاسم نے صوبہ کرمان میں 41بریگیڈ(ثاراللہ)کی قیادت کرتے ہوئے ایران عراق جنگ میں حصہ لیا، جسکے بعد جنرل قاسم کی ترقی کی گئی اور انہیں ایرانی فوج کے 10اہم فوجیوں میں شمار کیا جانے لگا۔ 1998ءمیں جنرل قاسم سلیمانی کو جنرل احمد وحیدی کی جگہ القدس بریگیڈ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ 24جنوری 2011ء میں جنرل سلیمانی کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ عملی زندگی: ایران میں شاہی حکومت کے خاتمے کے بعد جب اسلامی حکومت کا آغاز ہوا تو جنرل سلیمانی نے پاسداران انقلاب میں شمولیت اختیار کی ،جنرل سلیمانی کے مطابق اُس دور میں اُن کی عسکری تربیت محدود پیمانے پر ہونے کے باوجود وہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہے تھے، ان کےمطابق ابتداء میں وہ ا یک سپاہی تھے اور ایران کے شمال مغربی حصے میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ جہاں وہ صوبہ مغربی آذربائیجان میں کردی علیحدگی پسند تحریک کا مقابلہ کررہے تھے۔ 22ستمبر 1980ءکو آٹھ سالہ طویل عرصے تک جاری رہنے والی ایران ،عراق جنگ شروع ہوئی۔ جنرل سلیمانی نے جنگ میں صوبہ کرمان کے جوانوں پر مشتمل ایک بریگیڈ کی قیادت کرتے ہوئے حصہ لیا، اس بریگیڈ میں شامل جوانوں کی تربیت جنرل سلیمانی نے بذات خود کی تھی۔ جلد ہی جنرل سلیمانی نے شہرت پائی اور ایرانیوں سے داد و تحسین حاصل کی، عراق فوجیوں کے قبضے سے ایرانی زمینوں کو پھر سے حاصل کرنے میں جنرل سلیمانی نے اہم کردار ادا کیا تھا اور آخر کار جنرل سلیمانی کو 20،22سال کی عمر میں صوبہ کرمان کی بریگیڈ 41’’ثاراللہ ‘‘کی قیادت سونپ دی گئی۔ جنگ کے اختتام کے بعد جنرل قاسم کو صوبہ کرمان میں پاسداران انقلاب فورس کی قیادت کے لئے منتخب کیا گیا۔یہ صوبہ افغانستان سے قریب ہونیکی وجہ سے افغانستان میں کاشت ہونیوالی منشیات کی گزر گاہ تھی، جسکے ذریعے یہ مواد ترکی اور پھر یورپ سمگل کیے جاتے تھے ۔مگر جنرل سلیمانی نے اس غیر قانونی مواد کی سمگلنگ کا بھرپور مقابلہ کیااورمنشیات سمگلنگ کی روک تھام میں شہرت حاصل کی۔ جنرل سلیمانی کو 1998ء میں القدس بریگیڈ کی کمانڈسونپی گئی جوکہ پاسداران انقلاب کا اہم حصہ مانا جاتا ہے۔2007ء میں جنرل سلیمانی پاسداران انقلاب کی سربراہی کیلئے بھی دیگر چند جنرنلز کیساتھ نامزد ہوئے تھے جب جنرل یحییٰ رحیم صفوی دستبردارہوئے تھے۔ 24جنوری 2011ء میں جنرل سلیمانی کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کےحکم پر میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی، کہاجاتا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر اور جنرل قاسم کے درمیان گہرے تعلقات ہیں اور آیت اللہ علی خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کو ’’زندہ شہید ‘‘کا لقب دیا ہے۔ موجودہ دور میں جنرل قاسم سلیمانی کو مشرق وسطیٰ کی سب سے طاقتور فوجی شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔امریکہ کی طرف سے جنرل قاسم سلیمانی پر دہشت گردی کے الزامات عائد ہونے کیساتھ ساتھ اُن پر پابندیاںبھی عائد ہیں،سعودی عرب بھی جنرل قاسم ،القدس بریگیڈاور پاسداران انقلاب پر دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات عائد کرتا رہتا ہے، اقوام متحدہ نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کو اپنی قرارداد نمبر 1747کے تحت دہشت گرد افراد کی لسٹ میں شامل کیا ہوا ہے۔جنرل قاسم سلیمانی ان تمام الزامات کے برعکس مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں انتہائی فعال اور ناقابل فراموش کردار ادا کررہے ہیں۔ عراق میں داعش کیخلاف جنگ میں جنرل قاسم سلیمانی کے کردار سے سبھی واقف ہیں، عراقی حکومت کی گزارش پر جنرل قاسم سلیمانی متعدد عراقی شہروں کو آزاد کرنے کیلئے عراق میں موجود رہے۔ شامی حکومت نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کی خدمات سے استفادہ کرنے کیلئے ایرانی حکومت سے درخواست کی تھی جس کے بعدجنرل قاسم سلیمانی نے شام میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کی شکست میں فعال کردار ادا کیا-