سلیمانی

سلیمانی

الامہ نیوز کے مطابق نے الازھر مرکز نے سورہ نور کی آیت ۳۱ اور سورہ احزاب کی آیت ۵۹ کو حجاب پر عقلی اور منطقی دلیل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور کسی کو حق نہیں کہ حجاب کی مخالفت کرے۔

الازھر کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بعض افراد حجاب کے واجب ہونے پر غیر علمی بحث کرتے ہوئے اس کو نادرست قرار دیتے ہیں۔

مرکز نے حجاب کے حوالے سے قرآنی آیات کا حوالہ دیا ہے جسمیں آیت ۳۱ سوره نور «وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ: جسمیں عورتوں کو نامحرم سے دور رہنے اور چادر اوڑھنے جبکہ آیت  ۵۹ سوره احزاب «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا: جسمیں پیغمبر اسلام سے کہا گیا ہے کہ اپنی عورتوں کو زینت چھپانے کا کہا گیا ہے ۔

الازھر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر منصفانہ انداز میں دیکھا جائے تو حجاب یا پردہ اسلامی خواتین کے فائدے میں ہے اور یہ عین فطرت کے مطابق ہے۔

الازھر نے تاکید کی ہے کہ غیر ماہر افراد حجاب کے موضوع پر غیر منطقی بیانات سے گریز کریں اور اس کو اہل علم افراد پر چھوڑیں کہ وہ فیصلہ کریں۔

قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں مصر میں حجاب کے واجب یا غیر واجب ہونے کے حوالے سے بحث چھیڑ گیی ہے اور بعض فن کاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ حجاب پر پابندی لگائی جائے۔/

Wednesday, 11 December 2019 12:49

فرقۂ امامیہ جعفریہ

١۔دور حاضر میں امامیہ فرقہ مسلمانوں کاایک بڑافرقہ ہے :
1۔دور حاضر میں امامیہ فرقہ مسلمانوں کاایک بڑافرقہ ہے ، جس کی کل تعداد مسلمانوں کے تقریباً ایک چوتھائی ہے ، اور اس فرقہ کی تاریخی جڑیں صدر اسلام کے اس دن سے شروع ہوتی ہیں کہ جس دن سورہ بینہ کی یہ آیت نازل ہوئی تھی :
(اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَعَمِلُواالصَّالِحَاْتِ اُوْلٰئِکَ ہُمْ خَیْرُالْبَرِیَّةِ )(١)
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا وہی بہترین مخلوق ہیں۔
چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا ۖ نے اپنا ہاتھ علی ـکے شانے پر رکھا اس وقت اصحاب بھی وہاں موجود تھے، اور آپ نے فرمایا :
'' یٰا عَلِیُّ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ ہُمُ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ''
…………………
(١)سورہ بینہ ، آیت : ٧.

اے علی! تو اور تیرے شیعہ بہترین مخلوق ہیں ۔
مذکورہ آیت کی تفسیر کے ذیل میں دیکھئے : تفسیر طبری ( جامع البیان ). در منثور ؛مؤلفہ علامہ جلال الدین سیوطی شافعی . تفسیر رو ح المعانی ؛مؤلفہ آلوسی بغدادی شافعی .
اسی وجہ سے یہ فرقہ - جو کہ امام جعفر صادق ـ کی فقہ میں ان کا پیرو ہونے کی بنا پر ان کی طرف منسوب ہے- شیعہ فرقہ کے نام سے مشہورہوا ۔

٢۔شیعہ فرقہ کثیر تعداددنیا کے مختلف ممالک میں زندگی بسرکرتاہے :
2۔شیعہ فرقہ کثیر تعداد میں ایران ، عراق ، پاکستان اور ہندوستان میں زندگی بسرکرتاہے ، اسی طرح اس کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک ، ترکی ، سیریا ( شام )، لبنان، روس اور اس سے جدا ہونے ہونے والے جدید ممالک میں موجود ہے ، نیز یہ فرقہ یورپی مالک جیسے انگلینڈ ، جرمنی ، فرانس اور امریکہ ، اسی طرح افریقی ممالک ، اور مشرقی ایشیا میں بھی پھیلا ہوا ہے ، ان مقامات پر ان کی اپنی مسجدیں اور علمی ، ثقافتی اور سماجی مراکز بھی ہیں ۔

3:-۔ اس فرقہ کے افراد دیگر مسلمان بھائیوں کے ساتھ بڑے پیار و محبت سے رہتے ہیں
٣۔ اس فرقہ کے افراد اگرچہ مختلف ممالک ،قوموں اور متعدد رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کے ساتھ بڑے پیار و محبت سے رہتے ہیں ،اور تمام آسان یا مشکل میدانوں میں سچے دل ا ور اخلاص کے ساتھ ان کا تعاون کرتے ہیں،ا ور یہ سب اس فرمان خدا پر عمل کرتے ہوئے انجام دیتے ہیں:(اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَة )(١)
…………………
سورۂ حجرات، آیت١٠.

مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔
یا اس قول خدا پر عمل کرتے ہیں :
(وَتَعاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی )(١)
نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مددکرو ۔
اور رسول اکرم ۖکے اس قول کی پابندی کرتے ہوئے:
١۔''المسلمون یدواحد علی من سواہم ''
مسلمان آپس میں ایک دوسرے کیلئے ایک ہاتھ کی طرح ہیں۔(٢)
یا آپ کا یہ قول ان کے لئے مشعل راہ ہے :
٢۔'' المؤمنون کا لجسد الواحد ''
مسلمان باہم ایک جسم کی مانند ہیں۔(٣)

4:-ملت اسلامیہ کے دفاع کے سلسلے میں اس فرقہ کا ایک اہم اورواضح کردار
٤۔ پوری تاریخ اسلام میں دین خدا اور ملت اسلامیہ کے دفاع کے سلسلے میں اس فرقہ کا ایک اہم اورواضح کردار رہا ہے،جیسے اس کی حکومتوں اور ریاستوں نے اسلامی ثقافت اور تمدن کی ہمیشہ خدمت کی ہے ، نیز اس فرقہ کے علماء اور دانشوروں نے اسلامی میراث کو غنی بنانے اور بچانے کے سلسلے میں مختلف علمی اور تجربی میدانوں میںجیسے
…………………
(١)مائدہ ، آیت ٢.
(٢)مسند احمد بن حنبل، ج ١، ص ٢١٥.
(٣)الصحیح البخاری ،ج ١،کتاب الادب، ص ٢٧.

تفسیر،حدیث،عقائد،فقہ،اصول،اخلاق،درایہ،رجال،فلسفہ،موعظہ،حکومت،سماجیات، زبان وادب،بلکہ طب اورفیزیکس کیمیا،ریاضیات،نجوم،اوراس کے علاوہ متعددحیاتیاتی علوم کے بارے میں لاکھوں کتابیں تحریر کرکے اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، بلکہ بہت سے علوم کے موجد دانشور تو اسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔(١)
…………………
(١)دیکھئے : محمد صدر کی کتاب '' تاسیس الشیعة لعلوم الاسلام؛ الذریعة الی تصانیف الشیعة (٢٩جلد) ؛ مؤلفہ آقا بزرگ طہرانی .کشف الظنون ؛مؤلفہ آفندی .معجم المؤلفین ؛ مؤلفہ عمررضا کحالہ .اعیان الشیعة ؛ مؤلفہ محسن امین عاملی.وغیرہ .

 
Wednesday, 11 December 2019 12:30

باهمی شناخت کی ضرورت

 

باہمی شناخت کی ضرورت
(وَجَعَلْناکُمْ شُعُوْباًوَقَبائِلَ لِتَعارَفُوْا)(١)
اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔
اسلام جب آیا تو لوگ آپس میں متفرق اور مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہی نہیں تھے ،بلکہ ایک دوسرے سے لڑائی، جھگڑے اور خون خرابے میں مبتلا تھے ، مگر اسلامی تعلیمات کے طفیل میںآپسی دشمنی اور ایک دوسرے سے اجنبیت کی جگہ میل جول اور عداوت کی جگہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور قطع تعلق کی جگہ قربت پیدا ہوئی ،او راس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملت اسلامیہ ایک عظیم امت کی شکل میںسامنے آئی ، 
جس نے (اس وقت ) عظیم اسلامی تہذیب و تمدن کو پیش کیا ،اور اسلام سے وابستہ گروہوں کو ہر ظالم و جابر سے بچالیا ،اور ان کی پشت و پناہی کی ،جس کی بناپر یہ امت تمام اقوام عالم میں محترم قرارپائی ،اور سرکش جباروں کی نگاہوں میں رعب و دبدبہ اور ہیبت کے ساتھ ظاہر ہوئی۔
لیکن یہ سب چیزیں نہیں وجود میں آئیں مگر امت مسلمہ کے درمیان آپس کا اتحادو وحدت اور تمام گروہوں کاباہمی ارتباط رکھنے کی بنا پر ،جوکہ د ین اسلام کے سایہ میں حاصل ہواتھا ،حالانکہ ان سب کی شہریت ، رائے ، ثقافت، پہچان ، اور تقلید الگ الگ تھی ، البتہ اصول و اساس ، فرائض و واجبات میں اتفاق و اتحاد کافی حد تک موجود تھا، یقیناً وحدت قوت، اور اختلاف کمزوری ہے ۔
بہرحال یہ مسئلہ اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ باہمی جان پہچان اور آپسی میل جول کی جگہ اختلافات نے لے لی ، اور تفاہم کی جگہ ایک دوسرے سے منافرت آگئی ، اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے بارے میں کفر کے فتوے دینے لگا ، اس طرح فاصلے پر فاصلے بڑھتے گئے، جس کی وجہ سے جو رہی سہی عزت تھی وہ بھی رخصت ہوگئی ،اور مسلمانوں کی ساری شان و شوکت ختم ہوگئی اور سارا رعب و دبدبہ جاتا رہا ، اورحالت یہ ہوئی کہ قیادت کی علمبردار قوم سرکشوں کے ہاتھوں ذلت و رسوائی اٹھانے پر مجبور ہوگئی، یہاں تک کہ ان کی نشو و نما کے دہانوں میں لومڑی اور بھیڑئے صفت افراد قابض ہوگئے ،یہی نہیں بلکہ ان کے گھروں کے اندر تمام عالم کی برائیاں،ملعون اشخاص اور نوع بشرکے مبغوض ترین افراد گھس آئے ، نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا سارا مال ومنال لوٹ لیا گیا ،اور ان کے مقدسات کی توہین ہونے لگی ، اور ان کی عزتیں فاسقوں و فاجروںکی مرہون منت ہوگئیں ،اور تنزلی کے بعد تنزلی ، انحطاط کے بعد انحطاط ، اور شکست کے بعد شکست ہونے لگی، کہیں اندلس میں شکست فاش، کہیں بخارا، سمر قند، تاشقند ،بغداد ، ماضی اور حال میں ، اور فلسطین اور افغانستان میں ہار پہ ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔
اور حال یہ ہوگیا کہ لوگ مدد کیلئے بلاتے تھے لیکن کوئی جواب دینے والا نہ تھا ، فریاد کرنے والے تھے مگر کوئی فریاد رس نہ تھا ۔
ایسا کیوں ہوا ، اس لئے کہ مرض کچھ اور تھا اور ا س کی دوا اور ، اﷲ نے تمام امور کی باگ ڈور ان کے ظاہری اسباب پر چھوڑ رکھی ہے ،کیا اس امت کی اصلاح اس چیز کے علاوہ کسی اور چیز سے بھی ہوسکتی ہے کہ جس سے ابتداء میں ہوئی تھی؟
آج امت اسلام اپنے خلاف کئے جانے والے سماجی ، عقیدتی اوروحدت کے مخالف شدید اور سخت ترین حملہ سے جوجھ رہی ہے ، مذہبی میدانوں میں اندر سے اختلاف کیا جارہا ہے ، اجتہادی چیزوں کو اختلافی چیز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ، اور یہ حملہ ایسا ہے کہ اس کا ثمرہ اور اس کے ( برے ) نتائج ظاہر ہونے ہی والے ہیں ،کیا ایسے موقع پر ہم لوگوں کے لئے سزاوار نہیںکہ اپنی وحدت کی صفوں کومتصل رکھیں، اور آپسی تعلقات کو محکم اُستوار کریں ؟ ہم مانتے ہیں کہ اگر چہ ہمارے بعض مذہبی رسومات جدا جدا ہیں مگر ہمارے درمیان بیشتر چیزیں ایسی ہیں جو مشترک ہیں جیسے کتاب و سنت جو کہ ہمارا مرکز اور سر چشمہ ہیں وہ مشترک ہیں ، توحید و نبوت ، آخرت پر سب کا ایمان ہے، نماز و روزہ ، حج و زکاة ، جہاد ،اور حلال و حرام یہ سب حکم شریعت ہیں جو سب کیلئے مشترک ہیں ، نبی اکرمۖ اور ان کی آل سے محبت ، اور ان کے دشمنوں سے نفرت کرنا ہمارے مشترکات میںسے ہیں ، البتہ اس میں کمی یا زیادتی ضرور پائی جاتی ہے ، کوئی زیادہ محبت و دشمنی کا دعویٰ کرتا ہے اور کوئی کم ، لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک ہاتھ کی تمام انگلیاں آخر میں ایک ہی جگہ( جوڑ سے) جاکرملتی ہیں ،حالانکہ یہ طول و عرض اور شکل و صورت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، یا اس کی مثال ایک جسم جیسیہے ، جس کے اعضاء و جوارح مختلف ہوتے ہوئے ہیں، مگر بشری فطرت کے مطابق جسمانی پیکر کے اندر ان میںہر ایک کا کردار جدا جدا ہوتا ہے اور ان کی شکلوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں اور ان کا مجموعہ ایک ہی جسم کہلاتا ہے۔
چنانچہ بعید نہیں کہ امت اسلامیہ کی تشبیہ جو ''ید ِواحد''اور ایک بدن سے دی گئی ہے اس میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہو۔
سابق میں مختلف اسلامی فرقوںا ور مذاہب کے علماء ایک دوسرے کیساتھ بغیر کسی اختلاف وتنازعہ کے زندگی گزارتے تھے ، بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مددکیا کرتے تھے ، حتی بعض نے ایک دوسرے کی کلامییا فقہی کتابوں کے شرح تک کی ہے، اور ایک دوسرے سے شرف تلمذ حاصل کیا ،یہاں تک کہ بعض تو دوسرے کی تکریم کی بناپر بلند ہوئے، اور ایک دوسرے کی رائے کی تائید کرتے ، بعض بعض کو اجازۂ روایت دیتے ، یا ایک دوسرے سے اجازۂ نقل روایت لیتے تھے تاکہ ان کے فرقے اور مذہب کی کتابوں سے روایت نقل کرسکیں ، اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے ،اور انھیں امام بناتے ، دوسرے کو زکاة دیتے، ایک دوسرے کے مذہب کو مانتے تھے ، خلاصہ یہ کہ تمام گروہ بڑے پیار ومحبت سے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے زندگی گزارتے تھے، یہاں تک کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہیں ہے ، جبکہ ان کے درمیان تنقیدیں اور اعتراضات بھی ہوتے تھے لیکن یہ تنقیدیں مہذب اور مؤدب انداز میں کسی علمی موضوعی رد ہوتی تھی ۔
اس کے لئے زندہ اور تاریخی دلیلیں موجود ہیں ،جو اس عمیق اور وسیع تعاون پر دلالت کرتی ہیں ، مسلم علماء نے اسی تعاون کے ذریعہ اسلامی ثقافت اور میراث کو سیراب کیا ہے،انھیں چیزوںکے ذریعہ مذہبی آزادی کے میدان میں انھوں نے تعجب آور مثالیں قائم کی ہیں بلکہ وہ اسی تعاون کے ذریعہ دنیا میں قابل احترام قرار پائے ہیں ۔
یہ مشکل مسئلہ نہیں ہے کہ علمائے امت مسلمہ ایک جگہ جمع نہ ہوسکیں ، اور صلح و صفائی سے کسی مسئلے میں بحث و مباحثہ نہ کرسکیں ، اور کسی اختلافی مسئلے میں اخلاص و صدق نیت کے ساتھ غور و خوض نہ کرسکیں، نیز ہر گروہ کی دلیلوں اور براہین کو نہ پہچان سکیں۔
جیسے یہ بات کتنی معقول اورحسین ہے کہ ہر فرقہ اپنے عقائد اور فقہی و فکری موقف کو آزادانہ طور پر اور واضح فضا میں پیش کرے ، تاکہ ان کے خلاف جو اتہام، اعتراض خصومت اور بیجا جوش میں آنے کا جو امورسبب بنتے ہیں وہ واضح اور روشن ہوجائیں،اوراس بات کو سبھی جان لیں کہ ہمارے درمیان مشترک ،اور اختلافی مسائل کیا ہیں تاکہ اس سے لو گ جان لیں کہ مسلمانوں کے درمیان ایسی چیزیں زیادہ ہیں جن پر سب کااتفاق ہے، اور ان کے مقابلہ میں اختلافی چیزیں کم ہیں ، اس سے مسلمانوں کے درمیان موجود اختلاف کے فاصلے کم ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کے نزدیک آجائیں گے ۔
یہ رسالہ اسی راستہ کا ایک قدم ہے ، تاکہ حقیقت روشن ہو جائے ، اور اس کو سب لوگ اچھی طرح پہچان لیں ،بیشک اﷲ توفیق دینے والا ہے ۔
(١)سورہ حجرات١٣.


 

 

Wednesday, 11 December 2019 12:01

باہمی شناخت کی ضرورت

سورہ حجرات١٣
پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔
اسلام جب آیا تو لوگ آپس میں متفرق اور مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہی نہیں تھے ،بلکہ ایک دوسرے سے لڑائی، جھگڑے اور خون خرابے میں مبتلا تھے ، مگر اسلامی تعلیمات کے طفیل میںآپسی دشمنی اور ایک دوسرے سے اجنبیت کی جگہ میل جول اور عداوت کی جگہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور قطع تعلق کی جگہ قربت پیدا ہوئی ،او راس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملت اسلامیہ ایک عظیم امت کی شکل میںسامنے آئی 


١۔ دعا کی اہمیت و فضیلت

آیات وروایات :معصومین کی سیرت اور باقی اعمال کی نسبت دعاکے دنیوی واُخروی فوائد پر نظر کی جائے تو دعاکی اہمیت و فضیلت روزروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے خدا وند متعال نے خود بھی اپنے بندوں کو دعا کے لئے حکم دیا ہے اور اپنے پیغمبروں کو بھی فرمایا ہے کہ میرے بندوں کودعا کی سفارش کریں ۔
ارشاد رب العزت ہے ۔
اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ مجھے پکارو اور( مجھ سے دعا مانگو )میں تمہای دعا کو قبول کرونگا (١)
قُلْ ادْ عُوْا اَﷲ۔ اے رسول میرے بندوںسے کہو کہ مجھ سے دعا مانگیں (٢)
ےَامُوْ سیٰ مُرعِبَادِی ےَدْ عُوْنِیْ۔ اے موسیٰ میرے بندوں کو حکم دو کہ وہ مجھے پکاریں (اور مجھ سے دعا مانگیں )(٣)
ےَا عِیْسیٰ مُرْھُمْ اَنْ ےَدْ عُوْ نِیْ مَعَکَ۔ اے عیسیٰ مومنین کو حکم دو کہ وہ آپکے ساتھ مل کر دعا کریں (٤)
حضرت موسیٰ و عیسیٰ جیسے بزرگترین انبیاء بلکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کو دعا کے لئے مامور کرنا دعا کی فضیلت واہمیت پر بہترین دلیل ہے۔
پیغمبر اکرم ۖ اور آئمہ کے فرامین میں بھی دعا کی اہمیت و فضیلت روز روشن کی طرح واضح ہے ۔
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں :ےَاعَلِیْ اُوْصِیْکَ بِالدُّعَائِ ۔ اے علی میں تمہیں دعا کی سفارش کرتا ہوں (٥)
قال امام محمد باقر ـ:اَفْضَلُ الْعِبَادَةِ اَلْدُّعَائُ ۔ امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں افضل اور بہترین عبادت دعا ہے (٦)
قال علی ـ:اَحَبُّ الْاعَمَال اِلَی اﷲ عَزَّ وَجَلْ فِیْ الْاَرْضِ الدُّ عَائُ۔حضرت علی ـ فرماتے ہیں خدا کے نزدیک زمین پر محبوب ترین عمل دعا ہے (٧)
قال رسول اللہ ۖ :اَلْدُّعَائُ مُخُ الْعِبَادَةِ وَلَاَ یُھْلِکَ مَعَ الّدُعَا ء اُحَد۔ رسول اکرم ۖ:دعاعبادت کی اصل اور بنیاد ہے دعا کی صورت میں کوئی شخص ہلاک نہیں ہوتا (٨)
قال الامام علی ـ: اَلدُّعُا تُرْسُ الْمُوُمِنْ ۔امام علی ـ فرماتے ہیں دعا مومن کے لئے ڈھال اور نگہبان ہے
اور اسے شیطان کے حملہ اور گناہوں سے محفوظ رکھتی ہے (٩)
قال الامام الصادق ـ: عَلَیْکَ بِالدُّعَائِ: فَاِنَّ فِیْہِ شِفَائ مِنْ کُلِّ دَائٍ ۔حضرت امام صادق ـ فرماتے ہیں تیرے لیے دعا ضروری ہے کیونکہ اس میں ہر بیماری کی شفا ہے (١٠)
قال رسول اللہ ۖ:تَرْکُ الدُّ عَائِ مَعْصِےَة :پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں دعا کا ترک کرناگنا ہ ہے (١١)
قال رسول اللہ ۖ:اِدْفَعُوْا اَبْوَابَ الْبَلَائِ بِالّدُ عَائِ :رسول اکر م ۖ فرماتے ہیں مصیبتوں اور مشکلات کو دور کرو دعا کے ذریعے (١٢)
قال امام علی ـ: مَنْ قَرِعَ بَابَ اﷲ سُبْحِانَہُ فُتِحٍَ لَہ:حضرت علی ـ فرماتے ہیں جو شخص بھی (دعا کے ذریعے )اللہ کے دروازے کو کھٹکائے گا تو اس کے لئے (قبولیت کا دروازہ) کھول دیا جا ئے گا(١٣)
دوسری حدیث میں فرماتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا ونددعا کا دروازہ کھلا رکھے لیکن قبولیت کا دروازہ بند کر دے (١٤)

شرائط قبولیت دعا

جس طرح ہر عمل اور عبادت کی قبولیت لئے کچھ شرائط ہیںکہ جن کے بغیر عمل اور عبادت قبول نہیں ہے اسی طرح دعا کے لئے بھی شرائط ہیں جب تک ان شرائط پر عمل نہ کیا جائے تو دعا قبول نہیں ہوتی ۔

١۔ معرفت و شناخت خدا
قال رسول اللہ ۖ:یقول اﷲ عَزَّ وَجَلَّ :مَنْ سَألَنِیْ وَ ھُوَ ےَعْلَمُ اَنِّی اَضُرُّ وَ اَنْفَعُ: اَسْتَجِبْ لَہْ۔حضرت پیغمبر اکرم ۖ سے منقول ہے خدا فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے سوال اور دعا کرے اور یہ جانتاہو (اور معرفت رکھتا ہو )کہ نفع و نقصان میرے ہاتھ میں ہے تو میں اس کی دعا قبول کروں گا (١٥)
امام صادق ـ سے جب سوال کیا گیا کہ ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہو تی تو آپ نے جواب میں فرمایا :
لَاِ نَّکُمْ تَدْعُوْنَ مَنْ لَا تَعْرِفُوْنَہُ ۔آپ اس کو پکارتے ہو( اور اس سے دعا مانگتے ہو )جس کو نہیں جانتے اور جس کی معرفت نہیں رکھتے ہو (١٦)

٢۔محرمات اور گناہ کا ترک کرنا
قال الامام الصادق ـ:اِنَّ اﷲ ےَقُوْلُ اَوْفُوْا بِعَھْدِی اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ :وَاﷲِ لَوْ وَفَےْتُمْ اﷲ لَوَفٰی اللّٰہُ لَکُمْ۔حضرت امام صادق ـ سے منقول ہے : خدا فرماتا ہے میرے عہد و پیمان اور وعدے کو پورا کرو تا کہ میں بھی تمہارے عہد و پیمان (اور وعدے) کو پورا کروںامام فرماتے ہیں اللہ کی قسم اگر تم اپنا وعدہ پورا کرو اور احکام الٰہی پر عمل کرو تو اللہ بھی تمہارے لئے اپنا وعدہ پورا کرے گا تمہاری دعاؤں کو قبول اور تمہاری مشکلات کو حل فرمائے گا (١٧)

٣۔کمائی اور غذا کا پاک و پاکیزہ ہونا
قال الامام الصادق ـ: مَنْ سَرَّہُ اَنْ ےُسْتَجَابَ دُعَائَہُ فَلْیَطَیِّبْ کَسْبُہُ۔امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے کاروبار اور کمائی کو پاک کرے (١٨)
حضرت موسیٰ نے دیکھا ایک آدمی ہاتھ بلند کر کے تضرع و زاری کے ساتھ دعا کر رہا ہے خدا نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کی اور فرمایا اس شخص کی دعا قبول نہیں ہو گی :لَاِنَّ فِیْ بَطْنِہ حَرَاماً وَ عَلَیٰ ظَھُرِہ حَرَاماً وَ فِیْ بَیْتِہ حَرَاماً۔کیونکہ اس کے پیٹ میں حرام ہے ( یعنی اس نے حرام کا مال کھایا ہوا ہے ) اور جو لباس پہنا ہوا ہے وہ بھی حرام ہے اور اس کے گھر میں بھی حرام ہے(١٩)
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو تو اپنی غذا کو پاکیزہ کرو اور اپنے پیٹ میں حرام داخل نہ کرو۔

٤۔حضور ورقت قلب
قال رسول اللہ ۖ: اِعْلَمُوْا اَنَّ اﷲ لَا ےَسْتَجِیْبُ دُعَائَ مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ۔رسول اکرم ۖ فرماتے ہیں : یہ جان لو کہ خدا وند اس دل سے دعا قبول نہیں کرتا جو غافل اوربے پرواہو (٢٠)

٥۔اخلاص وعبودیت
فَادْعُوْا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہ الّدِیْن۔خدا کو پکارو (اور اس سے دعا مانگو خلوص نیت کے ساتھ یعنی )اس حال میں کہ اپنے دین کو اس کے لئے خالص قرار دو (٢١)
امام جعفر صادق ـفرماتے ہیں :وَقَدْ وَعَدَ عِبَادَہُ الْمُوْمِنِیْنَ الْاِسْتِجَا بَةَ۔ بے شک خدا نے اپنے مومنین بندوں سے قبولیت دعا کا وعدہ فرمایا ہے (٢٢)

٦۔سعی و کوشش
یعنی دعا کا معنی یہ نہیں ہے کہ انسان کام و سعی اور کوشش چھوڑ دے اور گھر بیٹھ کر فقط دعا کرتا رہے ۔
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں : ثَلَاثَة تُرَدُّ عَلَیْھُمْ دَ عْوَتُھُمْ: رَجُل جَلَسَ فِیْ بَیتِہ وَ قَال ےَا رَبِّ اُرْزُقِیِ فَےُقََالُ لَہُ اَلَمْ اَجْعَلْ لَکَ السَّبِیْلَ اِلیٰ طَلَبِ الرَّزْق۔تین قسم کے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہو گی (ان میں سے )ایک وہ شخص ہے جو فقط گھر میں بیٹھ کر یہ دعا کرتا رہے کہ خدا وندا مجھے روزی عطا فرما اسے جواب دیا جائے گا۔ کیا میں نے تیرے لئے روزی کمانے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار نہیں دیا دوسرے لفظوں میں حصول رزق کیلئے تلاش وکو شش کرنا کام کرنا ایک چیز ہے لیکن روزی کا نصیب ہونا اس کا با برکت ہونا توفیق الٰہی کا شامل حال ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا بہت مؤثر ہے (٢٣)
اسی طرح علاج کرواناشفاء کیلئے ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جانا اس کے دستور کے مطابق دوائی استعمال کرنا ایک مطلب ہے لیکن ڈاکٹرکی تشخیص کا صحیح ہونا دوائی کا شفاء میں مؤثر ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا اور صدقہ وغیرہ بہت مؤثر ہیں جب یہ دونوں حصے اکھٹے ہوں تو مؤثر واقع ہونگے اور ہمیں ان دونوں کی طرف تو جہ کرنی ہوگی۔


آداب دعا

١۔بِسْم اللہ پڑھنا :
قال رسول اللہ ۖ:لَا یَرُدُّ دُعَائ: اَوَّلُہُ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں: وہ دعا رد نہیں ہوتی جس کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لیا جائے (٢٤)

٢۔تمجید
قال رسول اللہ ۖ:اِنَّ کُلُّ دُعَائٍ لَا ےَکُونَ قَبْلَہُ تَمْجَِیْد فَھُوَاَبْتَرْ۔رسول اکرم ۖ:ہر وہ دعا کہ جس سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف و تمجید اور حمد و ثنا نہ ہو وہ ابتر ہے اور اسکا کوئی نتیجہ نہیں ہو گا (٢٥)

٣۔صلوات بر محمد و آل محمد
قال رسول اللہ ۖ:صَلَاتُکُمْ عَلَّی اِجَابَة لِدُعَائِکُمْ وَزَکاة لاَِعْمَالِکُمْ۔رسول اکرم ۖفرماتے ہیں :تمہارا مجھ پر درود و صلوات بھیجنا تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے اور تمہارے اعمال کی زکاة ہے (٢٦)
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :لَا ےَزَالُ الدُّ عَاء محجُوباً حَتّٰی یُصَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ:دعا اس وقت تک پردوں میں چھپی رہتی ہے جب تک محمد ۖ وآل محمدۖ پر صلوات نہ بھیجی جائے (٢٧)
حضرت امام جعفر صادق ـ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں جوشخص خدا سے اپنی حاجت طلب کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے محمد و آل محمد پر صلوات بھیجے پھر دعا کے ذریعہ اپنی حاجت طلب کرے اس کے بعد آخرمیں درود پڑھ کر اپنی دعا کو ختم، کرے (تو اس کی دعا قبول ہو گی ) کیونکہ خدا وند کریم کی ذات اس سے بالاتر ہے کہ وہ دعا کے اول و آواخر (یعنی محمد و آل محمد پر درود و صلواة )کو قبول کرے اور دعا کے درمیانی حصے(یعنی اس بندے کی حاجت )کو قبول نہ فرمائے (٢٨)

٤۔آ ئمہ معصومین کی امامت ولایت کا اعتقاد رکھنا اور انہیں واسطہ اور شفیع قرار دینا
قال اللہ تعالیٰ : فَمَنْ سَأَلَنِیْ بِھِمْ عَارِفَاً بِحَقِّھِمْ وَمَقَامِھِمْ اَوْجَبْتَ لَہ مِنِّی اَلْاِجَابَةَ۔خدا فرماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر اکرم ۖ اور آئمہ معصومین کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کرے اور دعا مانگے جبکہ وہ ان کے حق اور مقام کو پہچانتا ہوتو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں(٢٩)
امام محمدباقر ـ فرماتے ہیں :مَنْ دَعَا اﷲ بِنَا اَفْلَحَ :یعنی جو شخص ہم اہلبیت کا واسطہ دے کر دعا کرے تو وہ شخص کامیاب و کامران ہے (٣٠)
جناب یوسف کے واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ جناب جبرائیل حضرت یعقوب کے پاس آئے اور عر ض کی کیا میں آپ کو ایسی دعا بتاؤں کہ جس کی وجہ سے خدا آپ کی بینائی اور آپ کے دونوں بیٹے (یوسف وبنیامین )آپکو واپس لوٹا دے حضرت یعقوب نے کہا وہ کون سی دعا ہے ۔
فقال جبرائیل :قُلْ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ عَلِّیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسنِ وَالْحُسَےْنِ اَنْ تَأتِیْنیْ بِےُوْسُفَ وَبُنْےَامِیْنَ جَمِیاً وَتُرَدُّ عَلیَّ عَیْنیِ۔حضرت جبرائیل نے حضرت یعقوب سے کہا کہ یوں دعا مانگوخدا یا میں تجھے محمد ۖ ،علی ،فاطمہ، حسن و حسین کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میرے دونوں بیٹوں (یوسف اور بنیا مین )کو اور میری بینائی کو واپس لوٹا دے جناب یعقوب کی یہ دعا ابھی تمام ہی ہوئی تھی کہ قاصد (بشیر)نے آکر جناب یوسف کی قمیص حضرت یعقوب پر ڈال دی تو آپ کی آنکھیں بینا ہو گئیں(٣١)
حدیث قدسی میں ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے چالیس شب عبادت کرنے کے بعد دعا کی لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی تواس نے حضرت عیسیٰ ـ کے پاس شکایت کی حضرت عیسیٰ ـ نے بارگاہ خداوندی سے سوال کیا تو جواب ملا کہ اس نے دعا کا صحیح راستہ اختیار نہیں کیا :اِنَّہُ دُعَانِیْ وَفِیْ قَلْبِہ شَک مِنْکَ۔کیوں کہ وہ مجھ سے تو دعا کرتا ہے اور حاجت طلب کرتا ہے لیکن اسکے دل میں تیری نبوت کے بارے میں شک ہے (یعنی تیری نبوت کا معتقد نہیں ہے )(٣٢)
لہذا وہ اگر اس (شک اور عدم اعتقاد کی )حالت میں اتنا دعا کرے کہ اس کا سانس ختم ہو جائے اور اس کی انگلیاں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تب بھی میں اس کی دعا قبول نہیں کروں گا ۔

٥۔گناہوںکا اقرار کرنا
قال الامام الصادق ـ :انَّمَا ھِیَ اَلْمِدْحَةُ ثُمَّ الْاِقْرَارُ بِا الّذُنُبِ ثُمَّ الْمَسْئَلَة۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے خدا کی حمد و تعریف کرو پھر گناہوںکا اقرار اور پھر اپنی حاجت طلب کرو (٣٣)

٦۔خشوع و خضوع کے ساتھ اور غمگین حالت میں دعا مانگنا
قال اللہ :ےَا عِیْسیٰ اَدْعُوْنِیْ دُعَائَ الْحَزِیْنِ الْغَریِقِْ اَلَّذِیْ لَیْسَ لَہُ مُغِےْث۔خدا فرماتا ہے اے عیسیٰ مجھ سے اس غرق ہونے والے غمگین انسان کی طرح دعا مانگو جس کا کوئی فریادرس نہ ہو (٣٤)

٧۔دو رکعت نماز پڑھنا
امام جعفر صادق ـ فرماتے جو شخص دو رکعت نماز بجا لانے کے بعد دعا کرے تو خدا اسکی دعا قبول فرمائے گا (٣٥)

٨۔ اپنی حاجت اور مطلوب کو زیادہ نہ سمجھو
رسول اکرم ۖسے روایت ہے خدا فرماتا ہے کہ اگر ساتوں آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے مل کر مجھ سے دعا مانگیں اور میں ان سب کی دعاؤں کو قبول کر لوں اور ان کی حاجات پوری کر دوں تو میری ملکیت میں مچھر کے پر کے برابر بھی فرق نہیں آئے گا (٣٦)

٩۔ دعا کو عمومیت دینا
قال رسول اللہ ۖ: اِذادَعَا اَحَدَکُمْ فَلْےُعِمَّ فَاِنَّہُ اَوْجَبَ لِلدُّعَائِ۔پیغمبر اکرم ۖفرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو اسے چاہیے کہ کہ اپنی دعا کو عمومیت دے یعنی دوسروں کو بھی دعا میں شریک کرے کیونکہ ایسی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہے (٣٧)
قال الامام الصادق ـ :مَنْ قَدَّمَ اَرْبَعِیْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ ثُمَّ دَعَاہ اَسْتُجِیبُ لَہُ۔جو شخص پہلے چالیس مومنین کے لئے دعا کرے اور پھر اپنے لئے دعا مانگے تو اس کی دعا قبول ہوگی (٣٨)

١٠۔قبولیت دعا کے بارے میں حسن ظن رکھنا
مخصوص اوقات وحالات اور مقامات میں دعا کرنا ۔
دعا کیلئے بعض اوقات حالات اور مقامات کو افضل قرار دینا اس کا معنی ہر گز یہ نہیں ہے کہ باقی اوقات اور مقامات میں دعا قبول نہیں ہوتی اور ان میں رحمت خدا کے دروازے بند ہیں کیونکہ تمام اوقات اور مقامات خدا سے متعلق ہیں اور اس کی مخلوق ہیں جس وقت جس مقام اور جس حالت میں بھی خدا کو پکارا جائے تووہ سنتا ہے اور اپنے بندے کو جواب دیتا ہے لیکن جس طرح خدا نے اپنے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے اسی طرح بعض اوقات ومقامات کو بھی بعض پر فضیلت حاصل ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم دعا کے لئے افضل ترین کو انتخاب کریں ۔
مفاتیح الجنان اور دیگر کتب دعا میں مفصل طور پر دعا کے مخصوص اوقات اور حالات اور مقامات کو بیان کیا گیا ہے ہم اجمالاً بعض کو ذکر کرتے ہیں ۔

١۔نماز کے بعد
قال الصادق ـ: اِنَّ اللّٰہَ فَرَضَ الْصَّلَوٰتَ فِیْ أَحَبِّ الْاوْقَاتِ فَأسْئَالُوْا حَوَائِجکُمْ عَقِیْبَ فَرَائِضکُمْ۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ خدا نے نمازوں کو محبوب ترین اور افضل ترین اوقات میں واجب قرار دیا ہے بس تم اپنی حاجات کو واجب نمازوں کے بعد طلب کرو (٣٩)

٢۔حالت سجدہ میں
قال الرضا ـ: اَقْرَبُ مَا ےَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنَ اللّٰہ تَعَالیٰ وَھُوَ سَاجد۔امام رضا ـ فرماتے ہیں کہ حالت سجدہ میں بندہ اپنے خالق سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے (٤٠)

٣۔ قرآن مجید کی ایک سو آیات کی تلاوت کے بعد
قال امیر المومنین ـ:مَنْ قَرَئَ مِائَةَ آےَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ مِنْ اَیِّ الْقُرْآنِ شَائَ ثُمَّ قَالَ … ےَااﷲُ سَبْعُ مَرَّاتٍ فَلَوْ دَعَا عَلیٰ الْصَخْرَةِ لِقَلْعِھٰا اِنْ شَائَ اﷲ۔امام علی ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی ایک سو آیات پڑھے پھر سات مرتبہ یااللہ کہے تو خدا اس کی دعا قبول فرمائے گا (مضمون حدیث)(٤١)

٤۔سحری کے وقت
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں بہترین وقت جس میں تم اللہ سے دعا مانگو سحر کا وقت ہے کیونکہ حضرت یعقوب نے بھی استغفار کو سحر کے وقت لئے مؤخر کر دیا تھا (مضمون حدیث )(٤٢)

٥۔رات کی تاریکی میں مخصوصاً طلوع فجر کے قریب ۔

٦۔ شب و روز جمعہ ۔
٧۔ماہ مبارک رمضان ماہ رجب و ماہ شعبان ۔

٨۔شب ہای قدر (شب ١٩،٢١،٢٣،رمضان )۔

٩۔ماہ رمضان کا آخری عشرہ اور ماہ ذالحجہ کی پہلی دس راتیں ۔

١٠۔ عید میلاد پیغمبر اکرم ۖ و آئمہ معصومین ۔عید فطر ۔عید قربان ،عید غدیر ۔

١١۔بارش کے وقت ۔

١٢۔عمرہ کرنے والے کی دعا واپسی کے وقت یا واپسی سے پہلے ۔

١٣۔جب اذان ہو رہی ہو ۔

١٤ تلاوت قرآن سننے کے وقت ۔

١٥ ۔حالت روزہ میں افطار کے وقت یا افطار سے پہلے ۔


دعا کے لئے مخصوص مقامات

(١) مکہ مکرمہ ،بیت اللہ ،مسجد الحرام ،مسجد النبی ۖ حرم مطہر و مزارات چہاردہ معصومین مخصوصاً حرم مطہر مام حسین ـ
(٢)وہ خاص مساجد جن مین انبیاء و آئمہ معصومین اور اولیاء خدا نے نماز و عبادت انجام دی ہے جیسے مسجد اقصیٰ، مسجد کوفہ، مسجد صعصعہ، مسجد سہلہ، سرداب سامرہ، مسجد جمکران ۔
(٣)مذکورہ خاص مقامات کے علاوہ ہر مسجد قبولیت دعا کیلئے بہترین مقام ہے ۔
اہم نکتہ :حالات اوقات اور مقامات دعا کے انتخاب میں مہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ایسا وقت اور مقام انتخاب کرنا چاہیے جس میں انسان ریاکاری تظاہر اور دکھاوے جیسی آفت کا شکار نہ ہو۔اور خلوص تواضع و انکساری اور رقت قلب زیادہ سے زیادہ حاصل ہو یہی وجہ ہے کہ روایات میں سفارش کی گئی ہے کہ رات کی تاریکی میں اور سحر کے وقت دعا مانگی جائے خدا فرماتا ہے ۔ےَا بْنَ عِمْرَان …وَاَدْعُنِیْ فِیْ الظُلُمِ اللَّیلِ فَاِنَّکَ تَجِدُنِیْ قَرِیْباً مُجَیْباً۔اے موسیٰ مجھے رات کی تاریکی میں پکارو تو مجھے اپنے قریب اور دعا قبول کرنے والا پاؤ گے(٤٣)


مقبول دعائیں

قال امیر المومنین ـ:اَرْبَعَة لَا تُرَدُّ لَھُمْ دَعْوَة: اَلْاِمَامُ الْعَادِلُ لِرَعِیَّتِہ وَالْوَالِدُ الْبَارُّ لِوَلْدِہ وَالْوَلَدُ الْبَارُّ لِوَالِدِہ وَالْمَظْلُوْمُ (لِظَالِمِہِ)۔ امام علی ـ فرماتے ہیں چار افراد کی دعا رد نہیں ہوتی امام و حاکم عادل جب اپنی رعیت کے حق میں دعا کرے نیک باپ کی دعا اولاد کے حق میں نیک و صالح اولاد کی دعا باپ کے حق میں مظلوم کی دعا (ظالم کے بر خلاف )(٤٤)
قال رسول اللہ ۖ: دُعَائُ اَطْفَالِ اُمَّتِیْ مُسْتَجَاب مَا لَمْ ےُقَارِفُوْا الذُّنُوْبَ۔پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں کہ میری امت کے بچوں کی دعا قبول ہے جب تک وہ گناہوں سے آلودہ نہ ہوں(٤٥)
قال الامام الحسن ـ:مَنْ قَرَئَ الْقُرْآنَ کَانَتْ لَہُ دَعْوَة مُجَابَة اِمَّا مُعَجَّلَةً وَاِمَّا مُؤَجَّلَةً۔امام حسن ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی تلاوت کرے اس کی دعا جلدی یا دیر سے قبول ہوگی (٤٦)

دعا بے فائدہ نہیں ہوتی
قال الامام زین العابدینـ: اَلْمُوْمِنُ مِنْ دُعَائِہ عَلیٰ ثَلَاثٍ اِمَّا اَنْ ےُدَّخَرَ لَہُ، وَاِمَّا اَنْ ےُعَجَّل لَہُ وَاِمَّا اَنْ ےَدْفَعَ عَنْہُ بَلائً ےُرِےْدُ اَنْ ےُصِیْبَ۔ امام زین العابدین ـ فرماتے ہیں مومن کی دعا تین حالات سے خارج نہیں ہے (١)یا اس کے لئے ذخیرہ آخرت ہو گی ۔(٢)یا دنیا میں قبول ہو جاے گی ۔(٣)یا مومن سے اس مصیبت کو دور کر دے گی جو اسے پہنچنے والی ہے ۔(٤٧)

مومنین ومومنات کے لئے دعا کرنے کا فائدہ
قال الامام الصادق ـ : دُعَائُ الْمُوْمِنِ لِلْمُوْمِنِ ےَدْفَعُ عَنْہُ الْبَلَائَ وَےُدِرُّ عَلَےْہِ الْرِّزْقَ۔مومن کا مومن کیلئے دعا کرنا دعا کرنے والے سے مصیبت کو دور کرتا ہے اور اس کے رزق میں اضافہ کاسبب بنتا ہے ۔(٤٨)


مطلب دوم :زیارت آیات اور روایات کی روشنی میں
جب پیغمبر اکرم ۖ اور معصومین سے منقول روایات میں غور فکر کی جائے تو پھر زیارت کی اہمیت و فضیلت بھی واضح ہو جاتی ہے اور اس بحث کی بھی ضرورت محسوس ہو تی ہے آیا انبیا ،آئمہ اور اولیا ء خدا کی مزارات کی زیارت کرنا ان کی بار گاہ میں سلام عرض کرنا اور انہیں ان کی وفات اور شہادت کے بعد بار گاہ الٰہی میں وسیلہ اور شفیع قرار دینا جائز ہے یا نہ چونکہ یہ حضرات قرآن مجید کی اس آیہ مجیدہ کے مصداق اعلیٰ و اکمل ہیں جس میں ارشاد ہوتا ہے :وَ لاَ تَحْسَبَنَ الَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْےَائ عَنْدَ رَبِّھِمْ ےُرْزَقُوْنَ۔جو حضرات راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مہمان ہیں(٤٩)
پیغمبر اکرم ۖبھی فرماتے ہیں :منَ ْزَارَنِی حَےّاً وَمَےَّتاً کُنْتُ لَہ شَفِےْعاً یَومَ الْقِےَامَةِ۔جو شخص میری زندگی یا معرفت یا میری وفات کے بعد میری زیارت کرے میں بروز قیامت اسکی شفاعت کروںگا(٥٠)
امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ زَارَنَا فِیْ مَمَاتِنَا کَاَنَّمٰا زَارَنَا فِیْ حِےَاتِنَا جو شخص ہماری وفات کے بعد ہماری زیارت کرے تو گویااس نے ہماری زندگی میں ہماری زیارت کی ہے (٥١)
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں: وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ فِیْ شَیئٍ مِنْ الْاَرْضِ بَلَغَتْنِی وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ عَنْدَ الْقَبْرِ سَمِعْتُہ جو شخص زمین کے کسی بھی حصے سے مجھ پر سلام بھیجتا ہے اس کا سلام مجھ تک پہنچ جاتا ہے اور جو شخص میری قبر کے پاس آکر مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اس کا سلام بھی میں سنتا ہوں (٥٢)
مذکورہ آیت و روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ ،،و آئمہ معصومین جس طرح اپنی حیات و زندگی میں خالق اور مخلوق کے درمیان رابط اور وسیلہ ہیں اس طرح اپنی شہادت اور وفات کے بعد بھی ہمارا سلام ہماری زیارت ہماری دعائیں سنتے ہیں اور بار گاہ خدا میں ہماری شفاعت فرماتے ہیں ۔
امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ لَمْ ےَقْدِرْ عَلیٰ زِےَارَتِنَا فَلیَزِرْ صَالِحِیْ مَوَالِینَا ےَکْتُبُ لَہ ثَوَّابُ زِےَارَتِنَا۔جو شخص ہماری زیارت پر قدرت و طاقت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ وہ ہمارے نیک و صالح موالی اور دوستوں کی زیارت کرے اس کے لئے (خدا کی طرف سے )ہماری زیارت کا ثواب لکھا جائے گا (٥٣)
قال امام علی ـفرماتے ہیں:زُوْرُوا مَوْتَاکُمْ فَاِنَّھُمْ ےَفْرَحُوْنَ بِزِےَارَتِکُمْ وَالْےَطْلُبُ الْرَجُلُ حَاجَتَہ عَنْدَ قَبْرِ اٰبِےْہِ وَاُمِّہِ بَعْدَ مَا ےَدْعُوا لَھُمَا۔ اپنے مردوں کی (قبر پر جا کر )زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہاری زیارت سے خوش ہوتے ہیں انسان کو چاہیے کہ جب اپنے ماں باپ کی قبر پر جائے تو پہلے ان کے لئے دعائے خیر کرے اس کے بعد اپنی حاجت خدا سے طلب کرے جب نیک اور صالح لوگوںکی زیارت کا اتنا ثواب ہے اور انسان اپنے ماں باپ کی قبر پر جاکر خدا سے اپنی حاجات طلب کر سکتا ہے تو پھر انبیا ء آئمہ معصومین اور اولیاء خدا کی قبور اور روضہ بارگاہ مطہر کی زیارت وسلام دعا ومناجات اور ان کو اپنی حاجات و مشکالات اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے بارگاہ خدا میں وسیلہ اور شفیع قرار دینے میں کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے(٥٤)
خدا فرماتا ہے :ےَا اَےُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوا اِتَّقُوا اﷲ وَابْتَغُوا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ۔اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو اور اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو (٥٥)
پیغمبر اور اہل بیت سے افضل اور بر تر پیش خدا کونسا وسیلہ ہے ۔
حضرت علی ـ فرماتے ہیں ہم خدا اور مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا فرماتی ہیں ہم (اہل بیت پیغمبر )خلق و خالق کے درمیان رابط ہیں )
نہ فقط بزرگ ہستیوں کو وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ بعض مقدس و مبارک اوقات اور مقامات کو بھی وسیلہ قرار دیا گیا ہے حضرت امام سجاد ـ خدا کو ماہ مبارک رمضان کا واسطہ دیتے ہیں(٥٦)
امام حسین ـ خدا کو شب روز عرفہ کی قسم دیتے ہیں ۔
قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق : فَلَمَّا اَنْ جَائَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰہُ عَلیٰ وَجْھِہ فَارْتَدَّ بَصِےْراً ۔جب حضرت یوسف ـ کا قمیص حضرت یعقوب کی آنکھوں کے ساتھ میں ہوتا ہے تو ان کی آنکھوں کی بینائی واپس لوٹ آئی کپڑا خود کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا لیکن چونکہ حضرت یوسف جیسے نبی کے بدن سے متصل رہا ہے اس میں خدا نے یہ اثر عطا فرمایا ہے(٥٧)
امام ہادی ـجب بیمار ہوتے ہیں تو ایک شخص کو کربلا روانہ کرتے ہیں کہ جا کر قبر مطہر امام حسین ـ پر میرے لئے دعا کرو ۔
جب اس شخص نے تعجب سے سوال کیا مولا آ پ معصوم ہیں میں غیر معصوم ہوں آپ کیلئے جا کر میں دعا کروں امام نے جو اب دیا رسول اکرم ۖ خانہ کعبہ اور حجر الاسود سے افضل تھے لیکن خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے۔
خدا نے کچھ ایسے مقامات قرار دیے ہیں جہاں خدا چاہتا کہ وہاں جا کر دعا مانگی جائے اور میں دعا قبول کروں گا خانہ کعبہ اور حرم امام حسین ـ بھی انہیں مقامات مقدسہ میں سے ہیں۔
اگر ہم ضریح یا ضریح مطہر کے دروازوں کو بوسہ دیتے ہیں اور چومتے ہیں تو فقط و فقط پیغمبر یا اس معصوم کے احترام کی وجہ سے کیوں کہ اب یہ ضریح و بارگاہ اور یہ در و دیوار اسی معصوم ـ کی وجہ سے مقدس اور با برکت ہو گئے ہیں جس طرح قرآن مجید کی جلد یا کاغذ قرآن کی وجہ سے مقدس ہو گئے ہیں چو نکہ اگر یہی کاغذ اور جلد کسی اور کاپی یاکتاب پر ہوں تو مقدس نہیں ہے ۔


اولیاء خدا پر سلام و درود

خدا نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں اپنے انبیاء اور اولیاء پر دروود بھیجتا ہے
(١)سَلاَم عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ (٢)سَلاَم عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ (٣)سَلاَم عَلٰی مُوسٰی وَھٰرُوْنَ (٤) وَسَلاَم عَلٰی الْمُرَسَلِیْنَ (٥) سَلاَم عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ ےُبْعَثُ حَےّاً۔ (١) نوح پر دونوں جہانوں میں سلام ہو(٢) ابراہیم پر سلام ہو (٣) موسیٰ وہارون پر سلام ہو(٤) رسولوں پر سلام ہو(٥) سلام ہو اس پر ولادت کے وقت، موت کے وقت اور جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا(٥٨)
ہم بھی قرآن مجید کی پیروی کرتے ہوئے رسول اکرم ۖو آئمہ کی زیارت کرتے ہیں اور ان پر سلام و درود بھیجتے ہیں ۔


معصومین اور زیارت

قال رسول اللہ ۖ: مَنْ اَتَانِی زَائِراً کُنْتُ شَفِےْعَہ ےَوْمَ الْقِےَامَةِ۔رسول اللہ ۖ: فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گاقیامت کے دن میںاس کی شفاعت کروں گا (٥٩)
قال الامام موسیٰ کاظم ـ :مَنْ زَارَ اَوّلنَا فَقَدْ زَارَ آخِرَنَا وَمَنْ زَارَ آخِرَنَا فَقَدْ زَارَ اَوَّلنَا۔امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں جس شخص نے ہمارے اول کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے آخری کی بھی زیارت کی ہے اور جس نے ہمارے آخر کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے پہلے کی بھی زیارت کی ہے (٦٠)
امام حسن ـ اپنے نانا رسول خدا ۖ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں جو شخص آپ کی زیارت کرے اس کو کیا ثواب ملے گا آپ نے فرمایاجو شخص میری زندگی میں یا میری وفات کے بعد زیارت کرے آپ کے بابا علی کی زیارت کرے یا آپ کے بھائی حسین ـ کی زیارت کرے یا آپ کی زیارت کے لئے آئے تو مجھ پر حق بن جاتا ہے قیامت کے دن میں اس کی زیارت کروں اور (اس کی شفاعت کر کے )اس کے گناہ معاف کرادوں ۔(٦١)
قال الامام صادق ـ :مَنْ زَارَ الْحُسَےْن ـ عَارِفاً بِحَقِّہ کَتَبَ اﷲُ لَہ ثَوَّابَ اَلْفِ حِجَّةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَاَلْفِ عُمْرَةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَغَفَرَلَہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص امام حسین ـ کی زیارت کرے اس حال میں کہ ان کے حق کو پہچانتا ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار حج مقبول اور ایک ہزار عمرہ مقبول کا ثواب لکھ دے گا اور اس کے گذشتہ اور آئندہ گناہ بھی معاف فرما دے گا (٦٢)
الامام صادق ـ :اِےْتُوا قَبْرَالْحُسَےْنِ فِیْ کُلِ سَنَّةٍ مَرَّةً۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ ہر سال ایک مرتبہ قبر مطہر امام حسین ـ زیارت پر جاؤ (٦٣)
امام صادق ـ نماز کے بعد زائرین امام حسین ـ کے لئے یوں دعا فرماتے ہیں خدایا میرے جد امجدامام حسین ـ کی قبر مطہر کی زیارت کرنے والوں کی مغفرت فرما (٦٤)
قال الامام الصادق ـ:مَنْ زَارَنِی غُفِرَتْ لَہ ذَنُوبُہ وَلَمْ ےَمُتْ فَقِےْراً۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کرے اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور وہ حالت فقر میں نہیں مرے گا (٦٥)
قال الامام الرضاـ:مَنْ زَارَنِی عَلَیَّ بُعْدِ دَارِیْ أَتَیْتَہ ےَوْمَ الْقِےَامَةِ فِی ثَلاَثَ مَوَاطِنِ حَتّٰی اَخْلِصْہ مِن اَھْوَالِھٰا اِذَا تَظَاہَرَتِ الْکُتّبُ ےَمِیناً وَشِمَالاً عِنْدَ الصِّرَاطِ وَعَنْدَ الْمِےْزَانِ۔امام رضا ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گا (میری قبر کے دور ہونے کے باوجود)میں قیامت کے دن تین مقامات پر اس کے پاس آؤں گا تا کہ شفاعت کروں اور اسے ان مقامات کے ہولناکیوں اور سخت حالات سے اسے نجات دلاؤں (٦٦)
(١)جب اعمال نامے دائیں بائیں پھیلا دئیے جائیں گے ۔
(٢) پل صراط پر
(٣)حساب کے وقت
قال الامام الجواد ـ :مَنْ زَارَ قَبْرَ عَمَتِی بِقُمٍّ فَلَہ الْجَنَّة۔امام جوا د ـ فرماتے ہیں جو شخص قم میں میری پھوپھی(حضرت فاطمہ معصومہ ) کی زیارت کرے خدا اسے جنت عطا فرمائے گا (٦٧)
امام حسن عسکری ـ فرماتے ہیں جو شخص عبد العظیم (حسنی )کی زیارت کرے تو گویا اس نے حضرت امام حسین ـ کی زیارت کی ہے (اور اسے آپ کی زیارت کا ثواب ملے گا )(٦٨)
امام صادق ـ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنے والدین یا کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار کی قبر پر جاتا ہے اور اس کے لئے دعا کرتا ہے کیا اس سے قبر والے کوکو ئی فائدہ پہنچے گا ؟آپ نے جواب میں فرمایا ہاں اگر تم میں سے کسی کو ہدیہ و تحفہ دیا جائے تو جس طرح تم خوش ہوتے ہو صاحب قبر (مرنے والا)بھی تمہارے اس عمل سے اسی طرح خوش ہوتا ہے (٦٩)


قرآنی آیات اور احادیث کے حوالہ جات

(١)سورہ غافرہ آیة ٦٠(٢)سورہ اسراء آیة ١١٠(٣،٤)کلمة اﷲ صفحہ ٤٠٩ حدیث ٤٠٥و٤٠٦ (٥) وسائل الشیعہ ابواب دعا ،باب دوم حدیث ٣(٦،٧)کافی کتاب الدعائ(٨ تا ١٩)میزان الحکمة باب دعائ(٢١)سورہ غافر آیة ١٤(٢٢)میزان الحکمة (٢٣) وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٥٠ حدیث ٣(٢٤تا ٢٨) میزان الحکمة حدیث ٥٦٢٠ تا ٥٦٢٥(٢٩ تا ٣١) وسائل ،ابواب دعا ،باب ٣٧ حدیث ٧،١٠،١٢(٣٢)کلمة اﷲ حدیث ٩٣(٣٣تا٣٨)میزان الحکمة حدیث ٥٦٣٠،٥٦٣٢،٥٦٣٥،٥٦٣٩،٥٦٤٧،٥٦٤٨ (٣٩) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب تعقیب حدیث ٨ (٤٠) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب سجود باب ٢٣ حدیث ٥(٤١) وسائل الشیعہ ابواب دعاء باب ٢٣ حدیث ٤(٤٢) میزان الحکمة حدیث ٥٦٥٨(٤٣)وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٣٠ حدیث ٢ (٤٤ تا ٤٨) میزان الحکمة ٥٦٩٦،٥٦٩٨،٥٧٠٠،٥٧٢٣،٥٧٣٦(٤٩) آل عمران آیة ١٦٩(٥٠ تا ٥٤) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٨،٧٩٥٢، ٧٩٤٨،٧٩٨٦،٧٩٨٧(٥٥) مائدہ آیة ٣٥(٥٦)صحیفہ سجادیہ دعای ٤٤(٥٧)یوسف آیة ٩٦(٥٨) صافات آیة ٧٩،١٠٩،١٢٠،١٨١(٥٩تا ٦٩) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٦،٧٩٥١،٧٩٤٩،٧٩٦١،٧٩٦٣،٧٩٦٦۔:دعا کی اہمیت وفضیلت ، قبولیت دعا کے شرائط، آداب دعا، اور دعا کے مخصوص اوقات، حالات اور مقامات ۔

١۔ دعا کی اہمیت و فضیلت

آیات وروایات :معصومین کی سیرت اور باقی اعمال کی نسبت دعاکے دنیوی واُخروی فوائد پر نظر کی جائے تو دعاکی اہمیت و فضیلت روزروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے خدا وند متعال نے خود بھی اپنے بندوں کو دعا کے لئے حکم دیا ہے اور اپنے پیغمبروں کو بھی فرمایا ہے کہ میرے بندوں کودعا کی سفارش کریں ۔
ارشاد رب العزت ہے ۔
اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ مجھے پکارو اور( مجھ سے دعا مانگو )میں تمہای دعا کو قبول کرونگا (١)
قُلْ ادْ عُوْا اَﷲ۔ اے رسول میرے بندوںسے کہو کہ مجھ سے دعا مانگیں (٢)
ےَامُوْ سیٰ مُرعِبَادِی ےَدْ عُوْنِیْ۔ اے موسیٰ میرے بندوں کو حکم دو کہ وہ مجھے پکاریں (اور مجھ سے دعا مانگیں )(٣)
ےَا عِیْسیٰ مُرْھُمْ اَنْ ےَدْ عُوْ نِیْ مَعَکَ۔ اے عیسیٰ مومنین کو حکم دو کہ وہ آپکے ساتھ مل کر دعا کریں (٤)
حضرت موسیٰ و عیسیٰ جیسے بزرگترین انبیاء بلکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کو دعا کے لئے مامور کرنا دعا کی فضیلت واہمیت پر بہترین دلیل ہے۔
پیغمبر اکرم ۖ اور آئمہ کے فرامین میں بھی دعا کی اہمیت و فضیلت روز روشن کی طرح واضح ہے ۔
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں :ےَاعَلِیْ اُوْصِیْکَ بِالدُّعَائِ ۔ اے علی میں تمہیں دعا کی سفارش کرتا ہوں (٥)
قال امام محمد باقر ـ:اَفْضَلُ الْعِبَادَةِ اَلْدُّعَائُ ۔ امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں افضل اور بہترین عبادت دعا ہے (٦)
قال علی ـ:اَحَبُّ الْاعَمَال اِلَی اﷲ عَزَّ وَجَلْ فِیْ الْاَرْضِ الدُّ عَائُ۔حضرت علی ـ فرماتے ہیں خدا کے نزدیک زمین پر محبوب ترین عمل دعا ہے (٧)
قال رسول اللہ ۖ :اَلْدُّعَائُ مُخُ الْعِبَادَةِ وَلَاَ یُھْلِکَ مَعَ الّدُعَا ء اُحَد۔ رسول اکرم ۖ:دعاعبادت کی اصل اور بنیاد ہے دعا کی صورت میں کوئی شخص ہلاک نہیں ہوتا (٨)
قال الامام علی ـ: اَلدُّعُا تُرْسُ الْمُوُمِنْ ۔امام علی ـ فرماتے ہیں دعا مومن کے لئے ڈھال اور نگہبان ہے
اور اسے شیطان کے حملہ اور گناہوں سے محفوظ رکھتی ہے (٩)
قال الامام الصادق ـ: عَلَیْکَ بِالدُّعَائِ: فَاِنَّ فِیْہِ شِفَائ مِنْ کُلِّ دَائٍ ۔حضرت امام صادق ـ فرماتے ہیں تیرے لیے دعا ضروری ہے کیونکہ اس میں ہر بیماری کی شفا ہے (١٠)
قال رسول اللہ ۖ:تَرْکُ الدُّ عَائِ مَعْصِےَة :پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں دعا کا ترک کرناگنا ہ ہے (١١)
قال رسول اللہ ۖ:اِدْفَعُوْا اَبْوَابَ الْبَلَائِ بِالّدُ عَائِ :رسول اکر م ۖ فرماتے ہیں مصیبتوں اور مشکلات کو دور کرو دعا کے ذریعے (١٢)
قال امام علی ـ: مَنْ قَرِعَ بَابَ اﷲ سُبْحِانَہُ فُتِحٍَ لَہ:حضرت علی ـ فرماتے ہیں جو شخص بھی (دعا کے ذریعے )اللہ کے دروازے کو کھٹکائے گا تو اس کے لئے (قبولیت کا دروازہ) کھول دیا جا ئے گا(١٣)
دوسری حدیث میں فرماتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا ونددعا کا دروازہ کھلا رکھے لیکن قبولیت کا دروازہ بند کر دے (١٤)

شرائط قبولیت دعا

جس طرح ہر عمل اور عبادت کی قبولیت لئے کچھ شرائط ہیںکہ جن کے بغیر عمل اور عبادت قبول نہیں ہے اسی طرح دعا کے لئے بھی شرائط ہیں جب تک ان شرائط پر عمل نہ کیا جائے تو دعا قبول نہیں ہوتی ۔

١۔ معرفت و شناخت خدا
قال رسول اللہ ۖ:یقول اﷲ عَزَّ وَجَلَّ :مَنْ سَألَنِیْ وَ ھُوَ ےَعْلَمُ اَنِّی اَضُرُّ وَ اَنْفَعُ: اَسْتَجِبْ لَہْ۔حضرت پیغمبر اکرم ۖ سے منقول ہے خدا فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے سوال اور دعا کرے اور یہ جانتاہو (اور معرفت رکھتا ہو )کہ نفع و نقصان میرے ہاتھ میں ہے تو میں اس کی دعا قبول کروں گا (١٥)
امام صادق ـ سے جب سوال کیا گیا کہ ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہو تی تو آپ نے جواب میں فرمایا :
لَاِ نَّکُمْ تَدْعُوْنَ مَنْ لَا تَعْرِفُوْنَہُ ۔آپ اس کو پکارتے ہو( اور اس سے دعا مانگتے ہو )جس کو نہیں جانتے اور جس کی معرفت نہیں رکھتے ہو (١٦)

٢۔محرمات اور گناہ کا ترک کرنا
قال الامام الصادق ـ:اِنَّ اﷲ ےَقُوْلُ اَوْفُوْا بِعَھْدِی اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ :وَاﷲِ لَوْ وَفَےْتُمْ اﷲ لَوَفٰی اللّٰہُ لَکُمْ۔حضرت امام صادق ـ سے منقول ہے : خدا فرماتا ہے میرے عہد و پیمان اور وعدے کو پورا کرو تا کہ میں بھی تمہارے عہد و پیمان (اور وعدے) کو پورا کروںامام فرماتے ہیں اللہ کی قسم اگر تم اپنا وعدہ پورا کرو اور احکام الٰہی پر عمل کرو تو اللہ بھی تمہارے لئے اپنا وعدہ پورا کرے گا تمہاری دعاؤں کو قبول اور تمہاری مشکلات کو حل فرمائے گا (١٧)

٣۔کمائی اور غذا کا پاک و پاکیزہ ہونا
قال الامام الصادق ـ: مَنْ سَرَّہُ اَنْ ےُسْتَجَابَ دُعَائَہُ فَلْیَطَیِّبْ کَسْبُہُ۔امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے کاروبار اور کمائی کو پاک کرے (١٨)
حضرت موسیٰ نے دیکھا ایک آدمی ہاتھ بلند کر کے تضرع و زاری کے ساتھ دعا کر رہا ہے خدا نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کی اور فرمایا اس شخص کی دعا قبول نہیں ہو گی :لَاِنَّ فِیْ بَطْنِہ حَرَاماً وَ عَلَیٰ ظَھُرِہ حَرَاماً وَ فِیْ بَیْتِہ حَرَاماً۔کیونکہ اس کے پیٹ میں حرام ہے ( یعنی اس نے حرام کا مال کھایا ہوا ہے ) اور جو لباس پہنا ہوا ہے وہ بھی حرام ہے اور اس کے گھر میں بھی حرام ہے(١٩)
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو تو اپنی غذا کو پاکیزہ کرو اور اپنے پیٹ میں حرام داخل نہ کرو۔

٤۔حضور ورقت قلب
قال رسول اللہ ۖ: اِعْلَمُوْا اَنَّ اﷲ لَا ےَسْتَجِیْبُ دُعَائَ مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ۔رسول اکرم ۖ فرماتے ہیں : یہ جان لو کہ خدا وند اس دل سے دعا قبول نہیں کرتا جو غافل اوربے پرواہو (٢٠)

٥۔اخلاص وعبودیت
فَادْعُوْا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہ الّدِیْن۔خدا کو پکارو (اور اس سے دعا مانگو خلوص نیت کے ساتھ یعنی )اس حال میں کہ اپنے دین کو اس کے لئے خالص قرار دو (٢١)
امام جعفر صادق ـفرماتے ہیں :وَقَدْ وَعَدَ عِبَادَہُ الْمُوْمِنِیْنَ الْاِسْتِجَا بَةَ۔ بے شک خدا نے اپنے مومنین بندوں سے قبولیت دعا کا وعدہ فرمایا ہے (٢٢)

٦۔سعی و کوشش
یعنی دعا کا معنی یہ نہیں ہے کہ انسان کام و سعی اور کوشش چھوڑ دے اور گھر بیٹھ کر فقط دعا کرتا رہے ۔
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں : ثَلَاثَة تُرَدُّ عَلَیْھُمْ دَ عْوَتُھُمْ: رَجُل جَلَسَ فِیْ بَیتِہ وَ قَال ےَا رَبِّ اُرْزُقِیِ فَےُقََالُ لَہُ اَلَمْ اَجْعَلْ لَکَ السَّبِیْلَ اِلیٰ طَلَبِ الرَّزْق۔تین قسم کے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہو گی (ان میں سے )ایک وہ شخص ہے جو فقط گھر میں بیٹھ کر یہ دعا کرتا رہے کہ خدا وندا مجھے روزی عطا فرما اسے جواب دیا جائے گا۔ کیا میں نے تیرے لئے روزی کمانے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار نہیں دیا دوسرے لفظوں میں حصول رزق کیلئے تلاش وکو شش کرنا کام کرنا ایک چیز ہے لیکن روزی کا نصیب ہونا اس کا با برکت ہونا توفیق الٰہی کا شامل حال ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا بہت مؤثر ہے (٢٣)
اسی طرح علاج کرواناشفاء کیلئے ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جانا اس کے دستور کے مطابق دوائی استعمال کرنا ایک مطلب ہے لیکن ڈاکٹرکی تشخیص کا صحیح ہونا دوائی کا شفاء میں مؤثر ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا اور صدقہ وغیرہ بہت مؤثر ہیں جب یہ دونوں حصے اکھٹے ہوں تو مؤثر واقع ہونگے اور ہمیں ان دونوں کی طرف تو جہ کرنی ہوگی۔


آداب دعا

١۔بِسْم اللہ پڑھنا :
قال رسول اللہ ۖ:لَا یَرُدُّ دُعَائ: اَوَّلُہُ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں: وہ دعا رد نہیں ہوتی جس کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لیا جائے (٢٤)

٢۔تمجید
قال رسول اللہ ۖ:اِنَّ کُلُّ دُعَائٍ لَا ےَکُونَ قَبْلَہُ تَمْجَِیْد فَھُوَاَبْتَرْ۔رسول اکرم ۖ:ہر وہ دعا کہ جس سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف و تمجید اور حمد و ثنا نہ ہو وہ ابتر ہے اور اسکا کوئی نتیجہ نہیں ہو گا (٢٥)

٣۔صلوات بر محمد و آل محمد
قال رسول اللہ ۖ:صَلَاتُکُمْ عَلَّی اِجَابَة لِدُعَائِکُمْ وَزَکاة لاَِعْمَالِکُمْ۔رسول اکرم ۖفرماتے ہیں :تمہارا مجھ پر درود و صلوات بھیجنا تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے اور تمہارے اعمال کی زکاة ہے (٢٦)
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :لَا ےَزَالُ الدُّ عَاء محجُوباً حَتّٰی یُصَلِّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ:دعا اس وقت تک پردوں میں چھپی رہتی ہے جب تک محمد ۖ وآل محمدۖ پر صلوات نہ بھیجی جائے (٢٧)
حضرت امام جعفر صادق ـ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں جوشخص خدا سے اپنی حاجت طلب کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پہلے محمد و آل محمد پر صلوات بھیجے پھر دعا کے ذریعہ اپنی حاجت طلب کرے اس کے بعد آخرمیں درود پڑھ کر اپنی دعا کو ختم، کرے (تو اس کی دعا قبول ہو گی ) کیونکہ خدا وند کریم کی ذات اس سے بالاتر ہے کہ وہ دعا کے اول و آواخر (یعنی محمد و آل محمد پر درود و صلواة )کو قبول کرے اور دعا کے درمیانی حصے(یعنی اس بندے کی حاجت )کو قبول نہ فرمائے (٢٨)

٤۔آ ئمہ معصومین کی امامت ولایت کا اعتقاد رکھنا اور انہیں واسطہ اور شفیع قرار دینا
قال اللہ تعالیٰ : فَمَنْ سَأَلَنِیْ بِھِمْ عَارِفَاً بِحَقِّھِمْ وَمَقَامِھِمْ اَوْجَبْتَ لَہ مِنِّی اَلْاِجَابَةَ۔خدا فرماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر اکرم ۖ اور آئمہ معصومین کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کرے اور دعا مانگے جبکہ وہ ان کے حق اور مقام کو پہچانتا ہوتو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں(٢٩)
امام محمدباقر ـ فرماتے ہیں :مَنْ دَعَا اﷲ بِنَا اَفْلَحَ :یعنی جو شخص ہم اہلبیت کا واسطہ دے کر دعا کرے تو وہ شخص کامیاب و کامران ہے (٣٠)
جناب یوسف کے واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ جناب جبرائیل حضرت یعقوب کے پاس آئے اور عر ض کی کیا میں آپ کو ایسی دعا بتاؤں کہ جس کی وجہ سے خدا آپ کی بینائی اور آپ کے دونوں بیٹے (یوسف وبنیامین )آپکو واپس لوٹا دے حضرت یعقوب نے کہا وہ کون سی دعا ہے ۔
فقال جبرائیل :قُلْ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ عَلِّیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسنِ وَالْحُسَےْنِ اَنْ تَأتِیْنیْ بِےُوْسُفَ وَبُنْےَامِیْنَ جَمِیاً وَتُرَدُّ عَلیَّ عَیْنیِ۔حضرت جبرائیل نے حضرت یعقوب سے کہا کہ یوں دعا مانگوخدا یا میں تجھے محمد ۖ ،علی ،فاطمہ، حسن و حسین کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میرے دونوں بیٹوں (یوسف اور بنیا مین )کو اور میری بینائی کو واپس لوٹا دے جناب یعقوب کی یہ دعا ابھی تمام ہی ہوئی تھی کہ قاصد (بشیر)نے آکر جناب یوسف کی قمیص حضرت یعقوب پر ڈال دی تو آپ کی آنکھیں بینا ہو گئیں(٣١)
حدیث قدسی میں ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے چالیس شب عبادت کرنے کے بعد دعا کی لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی تواس نے حضرت عیسیٰ ـ کے پاس شکایت کی حضرت عیسیٰ ـ نے بارگاہ خداوندی سے سوال کیا تو جواب ملا کہ اس نے دعا کا صحیح راستہ اختیار نہیں کیا :اِنَّہُ دُعَانِیْ وَفِیْ قَلْبِہ شَک مِنْکَ۔کیوں کہ وہ مجھ سے تو دعا کرتا ہے اور حاجت طلب کرتا ہے لیکن اسکے دل میں تیری نبوت کے بارے میں شک ہے (یعنی تیری نبوت کا معتقد نہیں ہے )(٣٢)
لہذا وہ اگر اس (شک اور عدم اعتقاد کی )حالت میں اتنا دعا کرے کہ اس کا سانس ختم ہو جائے اور اس کی انگلیاں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تب بھی میں اس کی دعا قبول نہیں کروں گا ۔

٥۔گناہوںکا اقرار کرنا
قال الامام الصادق ـ :انَّمَا ھِیَ اَلْمِدْحَةُ ثُمَّ الْاِقْرَارُ بِا الّذُنُبِ ثُمَّ الْمَسْئَلَة۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے خدا کی حمد و تعریف کرو پھر گناہوںکا اقرار اور پھر اپنی حاجت طلب کرو (٣٣)

٦۔خشوع و خضوع کے ساتھ اور غمگین حالت میں دعا مانگنا
قال اللہ :ےَا عِیْسیٰ اَدْعُوْنِیْ دُعَائَ الْحَزِیْنِ الْغَریِقِْ اَلَّذِیْ لَیْسَ لَہُ مُغِےْث۔خدا فرماتا ہے اے عیسیٰ مجھ سے اس غرق ہونے والے غمگین انسان کی طرح دعا مانگو جس کا کوئی فریادرس نہ ہو (٣٤)

٧۔دو رکعت نماز پڑھنا
امام جعفر صادق ـ فرماتے جو شخص دو رکعت نماز بجا لانے کے بعد دعا کرے تو خدا اسکی دعا قبول فرمائے گا (٣٥)

٨۔ اپنی حاجت اور مطلوب کو زیادہ نہ سمجھو
رسول اکرم ۖسے روایت ہے خدا فرماتا ہے کہ اگر ساتوں آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے مل کر مجھ سے دعا مانگیں اور میں ان سب کی دعاؤں کو قبول کر لوں اور ان کی حاجات پوری کر دوں تو میری ملکیت میں مچھر کے پر کے برابر بھی فرق نہیں آئے گا (٣٦)

٩۔ دعا کو عمومیت دینا
قال رسول اللہ ۖ: اِذادَعَا اَحَدَکُمْ فَلْےُعِمَّ فَاِنَّہُ اَوْجَبَ لِلدُّعَائِ۔پیغمبر اکرم ۖفرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو اسے چاہیے کہ کہ اپنی دعا کو عمومیت دے یعنی دوسروں کو بھی دعا میں شریک کرے کیونکہ ایسی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہے (٣٧)
قال الامام الصادق ـ :مَنْ قَدَّمَ اَرْبَعِیْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ ثُمَّ دَعَاہ اَسْتُجِیبُ لَہُ۔جو شخص پہلے چالیس مومنین کے لئے دعا کرے اور پھر اپنے لئے دعا مانگے تو اس کی دعا قبول ہوگی (٣٨)

١٠۔قبولیت دعا کے بارے میں حسن ظن رکھنا
مخصوص اوقات وحالات اور مقامات میں دعا کرنا ۔
دعا کیلئے بعض اوقات حالات اور مقامات کو افضل قرار دینا اس کا معنی ہر گز یہ نہیں ہے کہ باقی اوقات اور مقامات میں دعا قبول نہیں ہوتی اور ان میں رحمت خدا کے دروازے بند ہیں کیونکہ تمام اوقات اور مقامات خدا سے متعلق ہیں اور اس کی مخلوق ہیں جس وقت جس مقام اور جس حالت میں بھی خدا کو پکارا جائے تووہ سنتا ہے اور اپنے بندے کو جواب دیتا ہے لیکن جس طرح خدا نے اپنے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے اسی طرح بعض اوقات ومقامات کو بھی بعض پر فضیلت حاصل ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم دعا کے لئے افضل ترین کو انتخاب کریں ۔
مفاتیح الجنان اور دیگر کتب دعا میں مفصل طور پر دعا کے مخصوص اوقات اور حالات اور مقامات کو بیان کیا گیا ہے ہم اجمالاً بعض کو ذکر کرتے ہیں ۔

١۔نماز کے بعد
قال الصادق ـ: اِنَّ اللّٰہَ فَرَضَ الْصَّلَوٰتَ فِیْ أَحَبِّ الْاوْقَاتِ فَأسْئَالُوْا حَوَائِجکُمْ عَقِیْبَ فَرَائِضکُمْ۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں کہ خدا نے نمازوں کو محبوب ترین اور افضل ترین اوقات میں واجب قرار دیا ہے بس تم اپنی حاجات کو واجب نمازوں کے بعد طلب کرو (٣٩)

٢۔حالت سجدہ میں
قال الرضا ـ: اَقْرَبُ مَا ےَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنَ اللّٰہ تَعَالیٰ وَھُوَ سَاجد۔امام رضا ـ فرماتے ہیں کہ حالت سجدہ میں بندہ اپنے خالق سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے (٤٠)

٣۔ قرآن مجید کی ایک سو آیات کی تلاوت کے بعد
قال امیر المومنین ـ:مَنْ قَرَئَ مِائَةَ آےَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ مِنْ اَیِّ الْقُرْآنِ شَائَ ثُمَّ قَالَ … ےَااﷲُ سَبْعُ مَرَّاتٍ فَلَوْ دَعَا عَلیٰ الْصَخْرَةِ لِقَلْعِھٰا اِنْ شَائَ اﷲ۔امام علی ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی ایک سو آیات پڑھے پھر سات مرتبہ یااللہ کہے تو خدا اس کی دعا قبول فرمائے گا (مضمون حدیث)(٤١)

٤۔سحری کے وقت
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں بہترین وقت جس میں تم اللہ سے دعا مانگو سحر کا وقت ہے کیونکہ حضرت یعقوب نے بھی استغفار کو سحر کے وقت لئے مؤخر کر دیا تھا (مضمون حدیث )(٤٢)

٥۔رات کی تاریکی میں مخصوصاً طلوع فجر کے قریب ۔

٦۔ شب و روز جمعہ ۔
٧۔ماہ مبارک رمضان ماہ رجب و ماہ شعبان ۔

٨۔شب ہای قدر (شب ١٩،٢١،٢٣،رمضان )۔

٩۔ماہ رمضان کا آخری عشرہ اور ماہ ذالحجہ کی پہلی دس راتیں ۔

١٠۔ عید میلاد پیغمبر اکرم ۖ و آئمہ معصومین ۔عید فطر ۔عید قربان ،عید غدیر ۔

١١۔بارش کے وقت ۔

١٢۔عمرہ کرنے والے کی دعا واپسی کے وقت یا واپسی سے پہلے ۔

١٣۔جب اذان ہو رہی ہو ۔

١٤ تلاوت قرآن سننے کے وقت ۔

١٥ ۔حالت روزہ میں افطار کے وقت یا افطار سے پہلے ۔


دعا کے لئے مخصوص مقامات

(١) مکہ مکرمہ ،بیت اللہ ،مسجد الحرام ،مسجد النبی ۖ حرم مطہر و مزارات چہاردہ معصومین مخصوصاً حرم مطہر مام حسین ـ
(٢)وہ خاص مساجد جن مین انبیاء و آئمہ معصومین اور اولیاء خدا نے نماز و عبادت انجام دی ہے جیسے مسجد اقصیٰ، مسجد کوفہ، مسجد صعصعہ، مسجد سہلہ، سرداب سامرہ، مسجد جمکران ۔
(٣)مذکورہ خاص مقامات کے علاوہ ہر مسجد قبولیت دعا کیلئے بہترین مقام ہے ۔
اہم نکتہ :حالات اوقات اور مقامات دعا کے انتخاب میں مہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ایسا وقت اور مقام انتخاب کرنا چاہیے جس میں انسان ریاکاری تظاہر اور دکھاوے جیسی آفت کا شکار نہ ہو۔اور خلوص تواضع و انکساری اور رقت قلب زیادہ سے زیادہ حاصل ہو یہی وجہ ہے کہ روایات میں سفارش کی گئی ہے کہ رات کی تاریکی میں اور سحر کے وقت دعا مانگی جائے خدا فرماتا ہے ۔ےَا بْنَ عِمْرَان …وَاَدْعُنِیْ فِیْ الظُلُمِ اللَّیلِ فَاِنَّکَ تَجِدُنِیْ قَرِیْباً مُجَیْباً۔اے موسیٰ مجھے رات کی تاریکی میں پکارو تو مجھے اپنے قریب اور دعا قبول کرنے والا پاؤ گے(٤٣)


مقبول دعائیں

قال امیر المومنین ـ:اَرْبَعَة لَا تُرَدُّ لَھُمْ دَعْوَة: اَلْاِمَامُ الْعَادِلُ لِرَعِیَّتِہ وَالْوَالِدُ الْبَارُّ لِوَلْدِہ وَالْوَلَدُ الْبَارُّ لِوَالِدِہ وَالْمَظْلُوْمُ (لِظَالِمِہِ)۔ امام علی ـ فرماتے ہیں چار افراد کی دعا رد نہیں ہوتی امام و حاکم عادل جب اپنی رعیت کے حق میں دعا کرے نیک باپ کی دعا اولاد کے حق میں نیک و صالح اولاد کی دعا باپ کے حق میں مظلوم کی دعا (ظالم کے بر خلاف )(٤٤)
قال رسول اللہ ۖ: دُعَائُ اَطْفَالِ اُمَّتِیْ مُسْتَجَاب مَا لَمْ ےُقَارِفُوْا الذُّنُوْبَ۔پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں کہ میری امت کے بچوں کی دعا قبول ہے جب تک وہ گناہوں سے آلودہ نہ ہوں(٤٥)
قال الامام الحسن ـ:مَنْ قَرَئَ الْقُرْآنَ کَانَتْ لَہُ دَعْوَة مُجَابَة اِمَّا مُعَجَّلَةً وَاِمَّا مُؤَجَّلَةً۔امام حسن ـ فرماتے ہیں جو شخص قرآن کی تلاوت کرے اس کی دعا جلدی یا دیر سے قبول ہوگی (٤٦)

دعا بے فائدہ نہیں ہوتی
قال الامام زین العابدینـ: اَلْمُوْمِنُ مِنْ دُعَائِہ عَلیٰ ثَلَاثٍ اِمَّا اَنْ ےُدَّخَرَ لَہُ، وَاِمَّا اَنْ ےُعَجَّل لَہُ وَاِمَّا اَنْ ےَدْفَعَ عَنْہُ بَلائً ےُرِےْدُ اَنْ ےُصِیْبَ۔ امام زین العابدین ـ فرماتے ہیں مومن کی دعا تین حالات سے خارج نہیں ہے (١)یا اس کے لئے ذخیرہ آخرت ہو گی ۔(٢)یا دنیا میں قبول ہو جاے گی ۔(٣)یا مومن سے اس مصیبت کو دور کر دے گی جو اسے پہنچنے والی ہے ۔(٤٧)

مومنین ومومنات کے لئے دعا کرنے کا فائدہ
قال الامام الصادق ـ : دُعَائُ الْمُوْمِنِ لِلْمُوْمِنِ ےَدْفَعُ عَنْہُ الْبَلَائَ وَےُدِرُّ عَلَےْہِ الْرِّزْقَ۔مومن کا مومن کیلئے دعا کرنا دعا کرنے والے سے مصیبت کو دور کرتا ہے اور اس کے رزق میں اضافہ کاسبب بنتا ہے ۔(٤٨)


مطلب دوم :زیارت آیات اور روایات کی روشنی میں
جب پیغمبر اکرم ۖ اور معصومین سے منقول روایات میں غور فکر کی جائے تو پھر زیارت کی اہمیت و فضیلت بھی واضح ہو جاتی ہے اور اس بحث کی بھی ضرورت محسوس ہو تی ہے آیا انبیا ،آئمہ اور اولیا ء خدا کی مزارات کی زیارت کرنا ان کی بار گاہ میں سلام عرض کرنا اور انہیں ان کی وفات اور شہادت کے بعد بار گاہ الٰہی میں وسیلہ اور شفیع قرار دینا جائز ہے یا نہ چونکہ یہ حضرات قرآن مجید کی اس آیہ مجیدہ کے مصداق اعلیٰ و اکمل ہیں جس میں ارشاد ہوتا ہے :وَ لاَ تَحْسَبَنَ الَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْےَائ عَنْدَ رَبِّھِمْ ےُرْزَقُوْنَ۔جو حضرات راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مہمان ہیں(٤٩)
پیغمبر اکرم ۖبھی فرماتے ہیں :منَ ْزَارَنِی حَےّاً وَمَےَّتاً کُنْتُ لَہ شَفِےْعاً یَومَ الْقِےَامَةِ۔جو شخص میری زندگی یا معرفت یا میری وفات کے بعد میری زیارت کرے میں بروز قیامت اسکی شفاعت کروںگا(٥٠)
امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ زَارَنَا فِیْ مَمَاتِنَا کَاَنَّمٰا زَارَنَا فِیْ حِےَاتِنَا جو شخص ہماری وفات کے بعد ہماری زیارت کرے تو گویااس نے ہماری زندگی میں ہماری زیارت کی ہے (٥١)
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں: وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ فِیْ شَیئٍ مِنْ الْاَرْضِ بَلَغَتْنِی وَمَنْ سَلَّمَ عَلیَّ عَنْدَ الْقَبْرِ سَمِعْتُہ جو شخص زمین کے کسی بھی حصے سے مجھ پر سلام بھیجتا ہے اس کا سلام مجھ تک پہنچ جاتا ہے اور جو شخص میری قبر کے پاس آکر مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اس کا سلام بھی میں سنتا ہوں (٥٢)
مذکورہ آیت و روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ ،،و آئمہ معصومین جس طرح اپنی حیات و زندگی میں خالق اور مخلوق کے درمیان رابط اور وسیلہ ہیں اس طرح اپنی شہادت اور وفات کے بعد بھی ہمارا سلام ہماری زیارت ہماری دعائیں سنتے ہیں اور بار گاہ خدا میں ہماری شفاعت فرماتے ہیں ۔
امام صادق ـ فرماتے ہیں :مَنْ لَمْ ےَقْدِرْ عَلیٰ زِےَارَتِنَا فَلیَزِرْ صَالِحِیْ مَوَالِینَا ےَکْتُبُ لَہ ثَوَّابُ زِےَارَتِنَا۔جو شخص ہماری زیارت پر قدرت و طاقت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ وہ ہمارے نیک و صالح موالی اور دوستوں کی زیارت کرے اس کے لئے (خدا کی طرف سے )ہماری زیارت کا ثواب لکھا جائے گا (٥٣)
قال امام علی ـفرماتے ہیں:زُوْرُوا مَوْتَاکُمْ فَاِنَّھُمْ ےَفْرَحُوْنَ بِزِےَارَتِکُمْ وَالْےَطْلُبُ الْرَجُلُ حَاجَتَہ عَنْدَ قَبْرِ اٰبِےْہِ وَاُمِّہِ بَعْدَ مَا ےَدْعُوا لَھُمَا۔ اپنے مردوں کی (قبر پر جا کر )زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہاری زیارت سے خوش ہوتے ہیں انسان کو چاہیے کہ جب اپنے ماں باپ کی قبر پر جائے تو پہلے ان کے لئے دعائے خیر کرے اس کے بعد اپنی حاجت خدا سے طلب کرے جب نیک اور صالح لوگوںکی زیارت کا اتنا ثواب ہے اور انسان اپنے ماں باپ کی قبر پر جاکر خدا سے اپنی حاجات طلب کر سکتا ہے تو پھر انبیا ء آئمہ معصومین اور اولیاء خدا کی قبور اور روضہ بارگاہ مطہر کی زیارت وسلام دعا ومناجات اور ان کو اپنی حاجات و مشکالات اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے بارگاہ خدا میں وسیلہ اور شفیع قرار دینے میں کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے(٥٤)
خدا فرماتا ہے :ےَا اَےُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوا اِتَّقُوا اﷲ وَابْتَغُوا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ۔اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو اور اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو (٥٥)
پیغمبر اور اہل بیت سے افضل اور بر تر پیش خدا کونسا وسیلہ ہے ۔
حضرت علی ـ فرماتے ہیں ہم خدا اور مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا فرماتی ہیں ہم (اہل بیت پیغمبر )خلق و خالق کے درمیان رابط ہیں )
نہ فقط بزرگ ہستیوں کو وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ بعض مقدس و مبارک اوقات اور مقامات کو بھی وسیلہ قرار دیا گیا ہے حضرت امام سجاد ـ خدا کو ماہ مبارک رمضان کا واسطہ دیتے ہیں(٥٦)
امام حسین ـ خدا کو شب روز عرفہ کی قسم دیتے ہیں ۔
قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق : فَلَمَّا اَنْ جَائَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰہُ عَلیٰ وَجْھِہ فَارْتَدَّ بَصِےْراً ۔جب حضرت یوسف ـ کا قمیص حضرت یعقوب کی آنکھوں کے ساتھ میں ہوتا ہے تو ان کی آنکھوں کی بینائی واپس لوٹ آئی کپڑا خود کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا لیکن چونکہ حضرت یوسف جیسے نبی کے بدن سے متصل رہا ہے اس میں خدا نے یہ اثر عطا فرمایا ہے(٥٧)
امام ہادی ـجب بیمار ہوتے ہیں تو ایک شخص کو کربلا روانہ کرتے ہیں کہ جا کر قبر مطہر امام حسین ـ پر میرے لئے دعا کرو ۔
جب اس شخص نے تعجب سے سوال کیا مولا آ پ معصوم ہیں میں غیر معصوم ہوں آپ کیلئے جا کر میں دعا کروں امام نے جو اب دیا رسول اکرم ۖ خانہ کعبہ اور حجر الاسود سے افضل تھے لیکن خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے۔
خدا نے کچھ ایسے مقامات قرار دیے ہیں جہاں خدا چاہتا کہ وہاں جا کر دعا مانگی جائے اور میں دعا قبول کروں گا خانہ کعبہ اور حرم امام حسین ـ بھی انہیں مقامات مقدسہ میں سے ہیں۔
اگر ہم ضریح یا ضریح مطہر کے دروازوں کو بوسہ دیتے ہیں اور چومتے ہیں تو فقط و فقط پیغمبر یا اس معصوم کے احترام کی وجہ سے کیوں کہ اب یہ ضریح و بارگاہ اور یہ در و دیوار اسی معصوم ـ کی وجہ سے مقدس اور با برکت ہو گئے ہیں جس طرح قرآن مجید کی جلد یا کاغذ قرآن کی وجہ سے مقدس ہو گئے ہیں چو نکہ اگر یہی کاغذ اور جلد کسی اور کاپی یاکتاب پر ہوں تو مقدس نہیں ہے ۔


اولیاء خدا پر سلام و درود

خدا نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں اپنے انبیاء اور اولیاء پر دروود بھیجتا ہے
(١)سَلاَم عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ (٢)سَلاَم عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ (٣)سَلاَم عَلٰی مُوسٰی وَھٰرُوْنَ (٤) وَسَلاَم عَلٰی الْمُرَسَلِیْنَ (٥) سَلاَم عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ ےُبْعَثُ حَےّاً۔ (١) نوح پر دونوں جہانوں میں سلام ہو(٢) ابراہیم پر سلام ہو (٣) موسیٰ وہارون پر سلام ہو(٤) رسولوں پر سلام ہو(٥) سلام ہو اس پر ولادت کے وقت، موت کے وقت اور جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا(٥٨)
ہم بھی قرآن مجید کی پیروی کرتے ہوئے رسول اکرم ۖو آئمہ کی زیارت کرتے ہیں اور ان پر سلام و درود بھیجتے ہیں ۔


معصومین اور زیارت

قال رسول اللہ ۖ: مَنْ اَتَانِی زَائِراً کُنْتُ شَفِےْعَہ ےَوْمَ الْقِےَامَةِ۔رسول اللہ ۖ: فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گاقیامت کے دن میںاس کی شفاعت کروں گا (٥٩)
قال الامام موسیٰ کاظم ـ :مَنْ زَارَ اَوّلنَا فَقَدْ زَارَ آخِرَنَا وَمَنْ زَارَ آخِرَنَا فَقَدْ زَارَ اَوَّلنَا۔امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں جس شخص نے ہمارے اول کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے آخری کی بھی زیارت کی ہے اور جس نے ہمارے آخر کی زیارت کی گویا اس نے ہمارے پہلے کی بھی زیارت کی ہے (٦٠)
امام حسن ـ اپنے نانا رسول خدا ۖ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں جو شخص آپ کی زیارت کرے اس کو کیا ثواب ملے گا آپ نے فرمایاجو شخص میری زندگی میں یا میری وفات کے بعد زیارت کرے آپ کے بابا علی کی زیارت کرے یا آپ کے بھائی حسین ـ کی زیارت کرے یا آپ کی زیارت کے لئے آئے تو مجھ پر حق بن جاتا ہے قیامت کے دن میں اس کی زیارت کروں اور (اس کی شفاعت کر کے )اس کے گناہ معاف کرادوں ۔(٦١)
قال الامام صادق ـ :مَنْ زَارَ الْحُسَےْن ـ عَارِفاً بِحَقِّہ کَتَبَ اﷲُ لَہ ثَوَّابَ اَلْفِ حِجَّةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَاَلْفِ عُمْرَةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَغَفَرَلَہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص امام حسین ـ کی زیارت کرے اس حال میں کہ ان کے حق کو پہچانتا ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار حج مقبول اور ایک ہزار عمرہ مقبول کا ثواب لکھ دے گا اور اس کے گذشتہ اور آئندہ گناہ بھی معاف فرما دے گا (٦٢)
الامام صادق ـ :اِےْتُوا قَبْرَالْحُسَےْنِ فِیْ کُلِ سَنَّةٍ مَرَّةً۔امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں کہ ہر سال ایک مرتبہ قبر مطہر امام حسین ـ زیارت پر جاؤ (٦٣)
امام صادق ـ نماز کے بعد زائرین امام حسین ـ کے لئے یوں دعا فرماتے ہیں خدایا میرے جد امجدامام حسین ـ کی قبر مطہر کی زیارت کرنے والوں کی مغفرت فرما (٦٤)
قال الامام الصادق ـ:مَنْ زَارَنِی غُفِرَتْ لَہ ذَنُوبُہ وَلَمْ ےَمُتْ فَقِےْراً۔ امام صادق ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کرے اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور وہ حالت فقر میں نہیں مرے گا (٦٥)
قال الامام الرضاـ:مَنْ زَارَنِی عَلَیَّ بُعْدِ دَارِیْ أَتَیْتَہ ےَوْمَ الْقِےَامَةِ فِی ثَلاَثَ مَوَاطِنِ حَتّٰی اَخْلِصْہ مِن اَھْوَالِھٰا اِذَا تَظَاہَرَتِ الْکُتّبُ ےَمِیناً وَشِمَالاً عِنْدَ الصِّرَاطِ وَعَنْدَ الْمِےْزَانِ۔امام رضا ـ فرماتے ہیں جو شخص میری زیارت کے لئے آئے گا (میری قبر کے دور ہونے کے باوجود)میں قیامت کے دن تین مقامات پر اس کے پاس آؤں گا تا کہ شفاعت کروں اور اسے ان مقامات کے ہولناکیوں اور سخت حالات سے اسے نجات دلاؤں (٦٦)
(١)جب اعمال نامے دائیں بائیں پھیلا دئیے جائیں گے ۔
(٢) پل صراط پر
(٣)حساب کے وقت
قال الامام الجواد ـ :مَنْ زَارَ قَبْرَ عَمَتِی بِقُمٍّ فَلَہ الْجَنَّة۔امام جوا د ـ فرماتے ہیں جو شخص قم میں میری پھوپھی(حضرت فاطمہ معصومہ ) کی زیارت کرے خدا اسے جنت عطا فرمائے گا (٦٧)
امام حسن عسکری ـ فرماتے ہیں جو شخص عبد العظیم (حسنی )کی زیارت کرے تو گویا اس نے حضرت امام حسین ـ کی زیارت کی ہے (اور اسے آپ کی زیارت کا ثواب ملے گا )(٦٨)
امام صادق ـ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنے والدین یا کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار کی قبر پر جاتا ہے اور اس کے لئے دعا کرتا ہے کیا اس سے قبر والے کوکو ئی فائدہ پہنچے گا ؟آپ نے جواب میں فرمایا ہاں اگر تم میں سے کسی کو ہدیہ و تحفہ دیا جائے تو جس طرح تم خوش ہوتے ہو صاحب قبر (مرنے والا)بھی تمہارے اس عمل سے اسی طرح خوش ہوتا ہے (٦٩)


قرآنی آیات اور احادیث کے حوالہ جات

(١)سورہ غافرہ آیة ٦٠(٢)سورہ اسراء آیة ١١٠(٣،٤)کلمة اﷲ صفحہ ٤٠٩ حدیث ٤٠٥و٤٠٦ (٥) وسائل الشیعہ ابواب دعا ،باب دوم حدیث ٣(٦،٧)کافی کتاب الدعائ(٨ تا ١٩)میزان الحکمة باب دعائ(٢١)سورہ غافر آیة ١٤(٢٢)میزان الحکمة (٢٣) وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٥٠ حدیث ٣(٢٤تا ٢٨) میزان الحکمة حدیث ٥٦٢٠ تا ٥٦٢٥(٢٩ تا ٣١) وسائل ،ابواب دعا ،باب ٣٧ حدیث ٧،١٠،١٢(٣٢)کلمة اﷲ حدیث ٩٣(٣٣تا٣٨)میزان الحکمة حدیث ٥٦٣٠،٥٦٣٢،٥٦٣٥،٥٦٣٩،٥٦٤٧،٥٦٤٨ (٣٩) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب تعقیب حدیث ٨ (٤٠) وسائل الشیعہ کتاب الصلاة ابواب سجود باب ٢٣ حدیث ٥(٤١) وسائل الشیعہ ابواب دعاء باب ٢٣ حدیث ٤(٤٢) میزان الحکمة حدیث ٥٦٥٨(٤٣)وسائل الشیعہ ابواب دعا باب ٣٠ حدیث ٢ (٤٤ تا ٤٨) میزان الحکمة ٥٦٩٦،٥٦٩٨،٥٧٠٠،٥٧٢٣،٥٧٣٦(٤٩) آل عمران آیة ١٦٩(٥٠ تا ٥٤) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٨،٧٩٥٢، ٧٩٤٨،٧٩٨٦،٧٩٨٧(٥٥) مائدہ آیة ٣٥(٥٦)صحیفہ سجادیہ دعای ٤٤(٥٧)یوسف آیة ٩٦(٥٨) صافات آیة ٧٩،١٠٩،١٢٠،١٨١(٥٩تا ٦٩) میزان الحکمة حدیث ٧٩٤٦،٧٩٥١،٧٩٤٩،٧٩٦١،٧٩٦٣،٧٩٦٦۔

نیوز ایجنسی TTG ASIA، کے مطابق مسلمان آبادی کا اہم ملک اب تک موثر انداز میں حلال سیاحت کے حوالے سے موثر کام انجام نہیں دے سکا ہے۔

 

تاہم یہ امکان موجود ہے کہ سیاست میں تبدیلی سے مسلمانوں کی سیاحت کے لیے یہاں پر اس شعبے کو فروغ دیا جائے۔

 

مسلمان حلال اقتصادی رپورٹ کے مطابق  سال ۲۰۱۷ میں ۱۷۷ ارب ڈالر کا حلال کاروبار ہوا ہے اور سال ۲۰۲۳ میں یہ رقم ۲۷۴ ارب ڈالر ہوسکتی ہے۔

 

انڈونیشین ماہر اقتصاد آنانگ سوتونو (Anang Sutono  کے مطابق اس صورتحال کو سنجیدہ لینا چاہیے تاکہ انڈونیشیاء اس حوالے سے فایدہ اٹھا سکے۔

جکارتہ میں حلال کانفرنس سے خطاب میں انکا کہنا تھا: کوشش ہے کہ  سال ۲۰۲۴ تک چھ ملین مسلمان سیاح کو ہم جذب کرسکے جس سے امکانی طور پر ہمیں ۵۔۴ ملین ڈالر جو ہمیں مل رہا ہے ۶۔۷ ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔

 

حلال ٹوریسم کے انچارج ریانتو سوفیان (Riyanto Sofyan  کا کہنا تھا کہ اس شعبے میں مسلمان سیاح اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جس سے ہماری درآمد میں بہترین اضافہ ہوسکتا ہے۔

 

سوفیان کا کہنا تھا: مسلمان سیاح بیس فیصد کل سیاحت کا حصہ ہے اور سال ۲۰۱۸ میں تین ملین سیاح یہاں آئے جن سے ۹۔۳ ارب ڈالر زر مبادلہ حاصل ہوا۔/

3859677

Tuesday, 03 December 2019 06:30

اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس

ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری


عرضِ مرتب
اﷲ ربّ العزّت کی اِس وسیع و عریض کائنات میں اُس کی قدرت کی نشانیاں ہر سُو بکھری پڑی ہیں۔ آخری وحی ’قرآنِ مجید‘ جہاں بنی نوعِ اِنسان کے لئے حتمی اور قطعی ضابطۂ حیات ہے، وہاں اِس کائناتِ ہست و بُود میں جاری و ساری قوانینِ فطرت بھی اِنسان کو الوہی ضابطۂ حیات کی طرف متوجہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ’قرآنِ مجید‘ خارجی کائنات کے ساتھ ساتھ نفسِ اِنسانی کے درُوں خانہ کی طرف بھی ہماری توجہ دِلاتا ہے اور اُن دونوں عوالم میں قوانینِ قدرتِ الٰہیہ کی یکسانی میں غور و فکر کے بعد اپنے خالق کے حضور سر بسجدہ ہونے کا حکم دیتا ہے۔ قرآنی علوم کے نور سے صحیح معنوں میں فیضیاب ہونے کے لئے ہمیں قرآنی آیات میں جا بجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق پر غور و فکر کرنا ہو گا۔
اِسلام نے اپنی پہلی وحی کے دِن سے ہی بنی نوعِ اِنسان کو آفاق و انفس کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے کا حکم دیا۔ یہ اِسلام ہی کی تعلیمات کا فیض تھا کہ دُنیا کی اُجڈ ترین قوم ’عرب‘ أحکامِ اِسلام کی تعمیل کے بعد محض ایک ہی صدی کے اندر دُنیا بھر کی اِمامت و پیشوائی کی حق دار ٹھہری اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے دُنیا کو یونانی فلسفے کی لاحاصل مُوشگافیوں سے آزاد کراتے ہوئے فطری علوم کو تجربے (experiment)کی بنیاد عطا کی۔ قرآنِ مجید کی تعلیمات کے زیر اثر یہ اُنہی کے اِختیار کردہ ’سائنسی طریقِ تحقیق‘ (scientific method)کی بنیاد تھی جس کی بدولت ہزار ہا سال سے جاری سلسلۂ علمِ انسانی نے عظیم کروَٹ لی اور موجودہ صدی نے اُس کا پھل پایا۔


 

قرآنی تعلیمات اور سائنسی علوم کی ترغیب
اِسلام کا فلسفۂ زندگی دیگر اَدیانِ باطلہ کی طرح ہرگز یہ نہیں کہ چند مفروضوں پر عقائد و نظریات کی بنیادیں اُٹھا کر اِنسان کی ذِہنی صلاحیتوں کو بوجھل اور بے معنی فلسفیانہ مُوشگافیوں کی نذر کر دیا جائے اور حقیقت کی تلاش کے سفر میں اِنسان کو اِس طرح ذِہنی اُلجھاؤ میں گرفتار کر دیا جائے کہ اُس کی تمام تر تخلیقی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ جائیں۔ اِسلام نے کسی مرحلہ پر بھی اِنتہاء پسندی کی حوصلہ اَفزائی نہیں کی، بلکہ اِس کے برعکس اِسلام کی فطری تعلیمات نے ہمیشہ ذہنِ اِنسانی میں شعور و آگہی کے اَن گنت چراغ روشن کر کے اُسے خیر و شر میں تمیز کا ہنر بخشا ہے۔ اِسلام نے اپنے پیروکاروں کو سائنسی علوم کے حصول کا درس دیتے ہوئے ہمیشہ اِعتدال کی راہ دِکھا ئی ہے۔ اِسلام نے اِس کارخانۂ قدرت میں اِنسانی فطرت اور نفسیات کے مطابق اِنسان کو اَحکامات اور ضابطوں کا ایک پورا نظام دیا ہے اور اُس کے ظاہر و باطن کے تضادات کو مٹا کر اُسے اپنے نصبُ العین کی سچائی کا شعور عطا کیا ہے۔
تاریخِ علوم کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت اپنی جملہ توانائیوں کے ساتھ ہمارے ذِہن پر روشن اور واضح ہوتی ہے کہ آفاق (universe) اور اَنفس (human life) کی رہگزر فکر و نظر کے اَن گنت چراغوں سے منوّر ہے۔ غور و خوض اور تفکر و تدبر حکمِ خداوندی ہے، کیونکہ تفکر کے بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اور اگر یہ دروازے مقفّل رہیں تو تاریخ کا سفر گویا رُک جاتا ہے اور اِرتقائے نسلِ اِنسانی کی تاریخ اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں نے اپنے سفر کی اِبتدائی صدیوں میں تفکر و تدبر کے ذریعہ سائنسی علوم میں نہ صرف بیش بہا اِضافے کئے بلکہ اِنسان کو قرآنی اَحکامات کی روشنی میں تسخیرِ کائنات کی ترغیب بھی دی۔ چنانچہ اُس دَور میں بعض حیران کن اِیجادات بھی عمل میں آئیں اور سائنسی علوم کو اَیسی ٹھوس بنیادیں فراہم ہوئیں جن پر آگے چل کر جدید سائنسی علوم کی بنیاد رکھی گئی۔
یہاں ہم قرآنِ مجید کی چند ایسی آیاتِ کریمہ پیش کر رہے ہیں جن کے مطالعہ سے قرونِ اولیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کو سائنسی تحقیقات کی طرف ترغیب ملی اور اُس کے نتیجے میں بنی نوعِ اِنسان نے تجرّبی توثیق کو حقیقت تک رسائی کی کسوٹی قرار دے کر تحقیق و جستجو کے نئے باب روشن کئے:

آیاتِ ترغیبِ علم
إِنَّمَا يَخْشَی اللَّہ مِنْ عِبَادِہ الْعُلَمَاء (فاطر، 35:28) اللہ سے تو اُس کے بندوں میں سے علم والے ہی ڈرتے ہیں (جو صاحبِ بصیرت ہیں)۔
قُلْ ہلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ O (الزمر، 39:9) آپ فرما دیجئے کہ علم والے اور بے علم کہیں برابر ہوتے ہیں! تحقیق سوچتے وُہی ہیں جو صاحبِ عقل ہیںO
وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ (المجادلۃ، 58:11) اور جنہیں علم عطا کیا گیا ہے (اﷲ) اُن لوگوں کے درجے بلند کرے گا۔
وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہلِينَ O (الاعراف،7:199) اور جاہلوں سے کنارہ کشی اِختیار کر لیںo
وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ O (آل عمران، 3:7) اور نصیحت صرف اہلِ دانش ہی کو نصیب ہوتی ہےO
وَ قُل رَّبِّ زِدنِی عِلماًO (طہٰ، 20:114) اور آپ (ربّ کے حضور یہ) عرض کریں کہ اَے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دےO
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ O (العلق، 96:1) (اے حبیب!) اپنے ربّ کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاO
فَاسْأَلُواْ أَہلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ O (النحل، 16:43) سو تم اہلِ ذِکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہوO

کائنات میں غور و فکر کی ترغیب
إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّہارِ وَالْفُلْكِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا ینفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّہ مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْیا بِہ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِہا وَبَثَّ فِیہا مِن كُلِّ دَآبَّۃ وَتَصْرِیفِ الرِّیاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَینَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآیاتٍ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ O (البقرہ، 2:164) بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دِن کی گردش میں اور اُن جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اُٹھا کر چلتی ہیں اور اُس (بارش) کے پانی میں جسے اللہ آسمان کی طرف سے اُتارتا ہے، پھر اُس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے، (وہ زمین) جس میں اُس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اُس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (اِن میں) عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہیہ کی بہت سی) نشانیاں ہیں O
إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّہارِ لآیاتٍ لاِوْلِی الألْبَابِ O الَّذِینَ یذْكُرُونَ اللّہ قِیامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِہمْ وَیتَفَكَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ O (آل عمران، 3:190.191) بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںO یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا اَدب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروَٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں:) اَے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لےO
إَنَّ الَّذِینَ لاَ یرْجُونَ لِقَاءنَا وَرَضُواْ بِالْحَیاۃ الدُّنْیا وَاطْمَأَنُّواْ بِہا وَالَّذِینَ ہمْ عَنْ آیاتِنَا غَافِلُونَ O (یونس، 10:6) بیشک رات اور دِن کے بدلتے رہنے میں اور اُن (جملہ) چیزوں میں جو اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا فرمائی ہیں اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو تقویٰ رکھتے ہیںO
وَہوَ الَّذِی مَدَّ الأَرْضَ وَجَعَلَ فِیہا رَوَاسِی وَأَنْہارًا وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیہا زَوْجَینِ اثْنَینِ یغْشِی اللَّیلَ النَّہارَ إِنَّ فِی ذَلِكَ لاَیاتٍ لِّقَوْمٍ یتَفَكَّرُونَ O وَفِی الأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیرُ صِنْوَانٍ یسْقَی بِمَاء وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہا عَلَی بَعْضٍ فِی الأُكُلِ إِنَّ فِی ذَلِكَ لاَیاتٍ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ O(الرعد، 13:3.4) اور وُہی ہے جس نے (گولائی کے با وُجود) زمین کو پھیلایا اور اُس میں پہاڑ اور دریا بنائے اور ہر قسم کے پھلوں میں (بھی) اُس نے دو دو (جنسوں کے) جوڑے بنائے، (وُہی) رات سے دِن کو ڈھانک لیتا ہے، بیشک اِس میں تفکر کرنے والے کے لئے (بہت) نشانیاں ہیںO اور زمین میں (مختلف قسم کے) قطعات ہیں جو ایک دُوسرے کے قریب ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں جھنڈ دار اور بغیر جھنڈ کے، اُن (سب) کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور (اُس کے با وُجود) ہم ذائقہ میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشتے ہیں۔ بیشک اِس میں عقلمندوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیںO
ھُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَآء مَآء لَّکُم مِّنہُ شَرَابٌ وَّ مِنہُ شَجَرٌ فِیہِ تُسِیمُونَO یُنبِتُ لَکُم بِہِ الزَّرعَ وَ الزَّیتُونَ وَ النَّخِیلَ وَ الأَعنَابَ وَ مِن کُلِّ الثَّمَرٰتِ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَومٍ یَّتَفَکَّرُونَO (النحل، 16:10.11) وُہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اُتارا، اُس میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اُسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے اور چراگاہیں اُگتی ہیں) جن میں تم (اپنے مویشی) چراتے ہوO اُسی پانی سے تمہارے لئے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور میوے) اُگاتا ہے۔ بیشک اِس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہےO
أَ اَوَلَمْ یتَفَكَّرُوا فِی اَنفُسِہمْ مَا خَلَقَ اللَّہ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَینَہمَا اِلاَ بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّی (الروم، 30:8) کیا اُنہوں نے اپنے دِل میں غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے سب کو (اپنی) مصلحت (اور حکمت) ہی سے ایک معینہ مدّت کے لئے (عارضی طور پر) پیدا فرمایا ہے۔
وَمِنْ آیاتِہ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ اِنَّ فِی ذَلِكَ لاَیاتٍ لِّلْعَالِمِینَ O (الروم، 30:22) اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اِختلاف اُس کی نشانیوں میں سے ہے۔ بیشک اِس میں علم رکھنے والوں کے لئے (حیرت انگیز اور مستند) نشانیاں ہیںO
وَاخْتِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّہارِ وَمَا اَنزَلَ اللَّہ مِنَ السَّمَاء مِن رِّزْقٍ فَاَحْیا بِہ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہا وَتَصْرِیفِ الرِّیاحِ آیاتٌ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ O(الجاثیہ، 45:5) اور شب و روز کے یکے بعد دیگرے آنے جانے میں اور اُس رزق میں جو اللہ آسمان سے اُتارتا ہے، پھر جس سے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زِندہ فرماتا ہے اور ہواؤں کے بدلنے میں عقل سے کام لینے والوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیںO
وَمَا مِن دَآبَّۃ فِی الاَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ یطِیرُ بِجَنَاحَیہ اِلاَ اُمَمٌ اَمْثَالُكُم مَّا فَرَّطْنَا فِی الكِتَابِ مِن شَیءٍ ثُمَّ اِلَی رَبِّہمْ یحْشَرُونَ (الانعام، 6:38) اور (اے اِنسانو!) کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جانور) اور پرندہ جو اپنے دو بازوؤں سے اُڑتا ہو (ایسا) نہیں ہے مگر یہ کہ (بہت سی صفات میں) وہ سب تمہارے ہی مماثل طبقات ہیں۔ ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحۃً یا اِشارۃً بیان نہ کر دیا ہو)، پھر سب (لوگ) اپنے ربّ کے پاس جمع کئے جائیں گےO
ہوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیاء وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَہ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّہ ذَلِكَ اِلاَ بِالْحَقِّ یفَصِّلُ الآیاتِ لِقَوْمٍ یعْلَمُونَ O (یونس، 10:5) وُہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اُس سے) روشن (کیا) اور اُس کے لئے (کم و بیش دِکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اَوقات کا) حساب معلوم کر سکو اور اللہ نے یہ (سب کچھ) درُست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا فرمایا ہے۔ وہ (اِن کائناتی حقائق کے ذریعے اپنی خالقیّت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں علم رکھنے والے لوگوں کے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہےO
وَ لَقَد خَلَقَنَا فَوقَکُم سَبعَ طَرَآئِقَ وَ مَا کُنَّا عَنِ الخَلقِ غَافِلِینَO (المؤمنون، 23:17) اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرۂ ارضی کے گرد فضائے بسیط میں نظامِ کائنات کی حفاظت کے لئے) سات راستے (یعنی سات مقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھےO
قُلْ اَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْاَرْضَ فِی یوْمَینِ وَتَجْعَلُونَ لَہ اَندَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِینَ O وَ جَعَلَ فِیھَا رَوَاسِیَ مِن فَوقِھَا وَ بَارَکَ فِیھَا وَ قَدَّرَ فِیھَا أَقوَاتَھَا فِیٓ أَربَعَۃِ أَیَّامٍ سَوَآءً لِّلسَّائِلِینَO ثُمَّ استَوٰی إِلَی السَّمَآءِ وَ ھِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَھَا وَ لِلأَرضِ ائتِیَا طَوعًا أَو کَرھًا قَالَتَا أَتَینَا طَآئِعِینَO فَقَضَاھُنَّ سَبعَ سَمٰوٰتٍ فِی یَومَینِ وَ اَوحٰی فِی کُلِّ سَمَآءٍ اَمرَھَا وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنیَا بِمَصابِیحَ وَ حِفظًا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِO(حم السجدہ، 41:9.12) آپ (ذرا اُن سے) پوچھئے: کیا تم لوگ اُس (کی ذات) سے منکر ہو جس نے دو اَدوار میں زمین بنائی اور تم اُس کے (ساتھ دُوسروں کو) ہمسر ٹھہراتے ہو؟ (یاد رکھو کہ) وُہی تمام جہانوں کا پروردگار ہےO اور اُس نے اِس (زمین) میں اُوپر سے بھاری پہاڑ رکھے اور اِس (زمین) کے اندر بڑی برکت رکھی (قسم قسم کی کانیں اور نشو و نما کی قوّتیں) اور اِس میں (اپنی مخلوق کے لئے) سامانِ معیشت مقرر کیا (یہ سب کچھ اُس نے) چار اَدوارِ (تخلیق) میں (پیدا کیا) جو تمام طلب گاروں کے لئے یکساں ہےO پھر (اللہ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دھُواں (سا) تھا۔ پھر اُسے اور زمین کو حکم دیا کہ تم دونوں (میری قدرت کے قوانین کے تابع ہو کر) آؤ، خواہ تم اِس پر خوش ہو یا ناخوش۔ اُن دونوں نے کہا ہم خوشی سے حاضر ہیںO پھر دو مراحل میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان کے اَحکام اُس میں بھیج دیئے اور ہم نے آسمانِ دُنیا کو چراغوں (یعنی ستاروں) سے رونق بخشی اور اُسے محفوظ (بھی)کر دیا۔ یہ اِنتظام ہے زبردست (اور) علم والے (پروردگار) کاO
اَلَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِی خَلقِ الرَّحمٰنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارجِعِ البَصَرَ ھَل تَرٰی مِن فُطُورٍO ثُمَّ ارجِعِ البَصَرَ کَرَّتَینِ یَنقَلِب إِلَیکَ البَصَرُ خَاسِئًا وَّ ھُوَ حَسِیرٌO (الملک، 67:3.4) اُسی نے اُوپر تلے سات آسمان بنائے، تو رحمن کی کاریگری میں کوئی فرق نہ دیکھے گا۔ ذرا دوبارہ آنکھ اُٹھا کر دیکھ،کیا تجھے کہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟O (ہاں) پھر بار بار آنکھ اُٹھا کر دیکھ (ہر بار) تیری نگاہ تھک کر ناکام لوٹے گیO
وَ انشَقَّتِ السَّمَآء فَھِیَ یَومَئِذٍ وَّاھِیَۃٌO (الحاقہ، 69:16) اور آسمان پھٹ جائے گا، پھر اُس دِن وہ بالکل بودا (بے حقیقت) ہو جائے گاO
أَ لَم تَرَوا کَیفَ خَلَقَ اللہُ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاO (نوح، 71:15) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے ہیں؟O
اَلشَّمسُ وَ القَمَرُ بِحُسبَانٍO (الرحمن، 55:5) سورج اور چاند ایک مقرر حساب کے پابند ہیںO
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ بِالحَقِّ تَعَالٰی عَمَّا یُشرِکُونَO (النحل، 16:3) اُسی نے آسمان اور زمین کو درُست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا، وہ اُن چیزوں سے برتر ہے جنہیں کفار (اُس کا) شریک گردانتے ہیںO
اِنَّ اللہِ فَالِقُ الحَبِّ وَ النَّوٰی یُخرِجُ الحَیَّ مِنَ المَیِّتِ وَ مُخرِجُ المَیِّتِ مِنَ الحَیِّ ذٰلِکُمُ اللہُ فَأَنّٰی تُؤفَکُونَO فَالِقُ الاِصبَاحِ وَ جَعَلَ الَّیلَ سَکَنًا وَّ الشَّمسَ وَ القَمَرَ حُسبَانًا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِO (الانعام، 6:95.96) بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑ نکالنے والا ہے، وہ مُردہ سے زِندہ کو پیدا فرماتا ہے اور زِندہ سے مُردہ کو نکالنے والا ہے، یہی (شان والا) تو اللہ ہے، پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟ O (وُہی) صبح (کی روشنی) کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والا ہے اور اُسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کو حساب و شمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے (ربّ) کا مقررہ اَندازہ ہےO
وَ ھُوَ الَّذِیٓ أَنشَأَکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُستَقَرٌّ وَّ مُستَودَعٌ قَد فَصَّلنَا الاٰیَاتِ لِقَومٍ یَّفقَھُونَO وَ ھُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَآء مَآء فَأَخرَجنَا بِہ نَبَاتَ کُلِّ شَیءٍ فَأَخرَجنَا مِنہُ خَضِرًا نُّخرِجُ مِنہُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًا وَ مِنَ النَّخلِ مِن طَلعِھَا قِنوَانٌ دَانِیَۃٌ وَّ جَنَّاتٍ مِّن أَعنَابٍ وَّ الزَّیتُونَ وَ الرُّمَّانَ مُشتَبِھًا وَّ غَیرَ مُتَشَابِہٍ أُنظُرُوا إِلٰی ثَمَرِہٓ إِذَا أَثمَرَ وَ یَنعِہ إِنَّ فِی ذٰلِکُم لَاٰیَاتٍ لِّقَومٍ یُّؤمِنُونَO (الانعام، 6:98.99) اور وُہی (اللہ) ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا ہے، پھر (تمہارے لئے) ایک جائے اِقامت (ہے) اور ایک جائے امانت۔ بیشک ہم نے سمجھنے والے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیںO اور وُہی ہے جس نے آسمان کی طرف سے پانی اُتارا، پھر ہم نے اُس (بارش) سے ہر قسم کی پیوستہ دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے گابھے سے لٹکتے ہوئے گچھے اور انگوروں کے باغات اور زیتون اور اَنار (بھی پیدا کئے جو کئی اِعتبارات سے) آپس میں ایک جیسے (لگتے) ہیں اور (پھل، ذائقے اور تاثیرات) جداگانہ ہیں۔ تم درخت کے پھل کی طرف دیکھو جب وہ پھل لائے اور اُس کے پکنے کو (بھی دیکھو)۔ بیشک اِن میں اِیمان رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیںO
وَ ھُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ (ھود، 11:7) اور وُہی (اللہ) ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی بالائی اور زیریں کائناتوں) کو چھ روز (یعنی تخلیق و اِرتقاء کے چھ اَدوار و مراحل) میں پیدا فرمایا۔
اَﷲ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ وَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَآء مَآء فَأَخرَجَ بِہ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزقًا لَّکُم وَ سَخَّرَ لَکُمُ الفُلکَ لِتَجرِیَ فِی البَحرِ بِأَمرِہ وَ سَخَّرَ لَکُمُ الاَنھَارَO (اِبراہیم، 14:32) اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور آسمان کی جانب سے پانی اُتارا پھر اُس پانی کے ذریعہ سے تمہارے رِزق کے طور پر پھل پیدا کئے اور اُس نے تمہارے لئے کشتیوں کو مسخر کر دیا تاکہ اُس کے حکم سے سمندر میں چلتی رہیں اور اُس نے تمہارے لئے دریاؤں کو (بھی) مسخر کر دیاO
وَ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمسَ وَ القَمَرَ دَآئِبَینِ وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیلَ وَ النَّھَارَO (اِبراہیم، 14:33) اور اُس نے تمہارے (فائدے) کے لئے سورج اور چاند کو (باقاعدہ ایک نظام کا) مطیع بنا دیا جو ہمیشہ (اپنے اپنے مدار میں) گردِش کرتے رہتے ہیں اور تمہارے (نظامِ حیات کے) لئے رات اور دِن کو بھی (ایک) نظام کے تابع کر دیاO
وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیلَ وَ النَّھَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومُ مُسَخَّرٰتٌم بِأَمرِہ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَومٍ یَّعقِلُونَO (النحل، 16:12) اور اُسی نے تمہارے لئے رات اور دِن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہے، اور تمام ستارے بھی اُسی کی تدبیر (سے نظام) کے پابند ہیں۔ بیشک اِس میں عقل رکھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیںO
وَ ھُوَ الَّذِی سَخَّرَ البَحرَ لِتَأکُلُوا مِنہُ لَحمًا رِیًّا وَّ تَستَخرِجُوا مِنہُ حِلیَۃً تَلبَسُونَھَا وَ تَرَی الفُلکَ مَوَاخِرَ فِیہِ وَ لِتَبتَغُوا مِن فَضلِہ وَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَO (النحل، 16:14) اور وُہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اُس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اُس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو اور (اَے اِنسان!) تو کشتیوں (اور جہازوں) کو دیکھتا ہے جو (دریاؤں اور سمندروں کا) پانی چیرتے ہوئے اُس میں چلے جاتے ہیں اور (یہ سب کچھ اِس لئے کیا) تاکہ تم (دُور دُور تک) اُس کا فضل (یعنی رِزق) تلاش کرو اور یہ کہ تم شکرگزار بن جاؤO
وَ اَلقٰی فِی الاَرضِ رَوَاسِیَ اَن تَمِیدَ بِکُم وَ اَنھَارًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّکُم تَھتَدُونَO وَ عَلَامَاتٍ وَ بِالنَّجمِ ھُم یَھتَدُونَO (النحل، 16:15.16) اور اُسی نے زمین میں (مختلف مادّوں کو) باہم ملا کر بھاری پہاڑ بنا دیئے مبادا وہ (زمین اپنے مدار میں) حرکت کرتے ہوئے تمہیں لے کر کانپنے لگے اور نہریں اور (قدرتی) راستے (بھی) بنائے تاکہ تم (منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکوO اور (دِن کو راہ تلاش کرنے کے لئے) علامتیں بنائیں اور (رات کو) لوگ ستاروں کے ذریعہ (بھی) راہ پاتے ہیںO
اَ وَ لَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ کَانَتَا رَتقًا فَفَتَقنَاھُمَا وَ جَعَلنَا مِنَ المَآء کُلَّ شَیءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤمِنُونَO وَ جَعَلنَا فِی الاَرضِ رَوَاسِیَ أَن تَمِیدَ بِھِم وَ جَعَلنَا فِیھَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّھُم یَھتَدُونَO وَ جَعَلنَا السَّمَآء سَقفًا مَّحفُوظًا وَّ ھُم عَن اٰیَاتِھَا مُعرِضُونَO وَ ھُوَ الَّذِی خَلَقَ الَّیلَ وَ النَّھَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَO (الانبیاء، 21:33.30) اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) ہر زندہ چیز (کی زِندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (اِن حقائق سے آگاہ ہو کر اَب بھی) اِیمان نہیں لاتے!O اور ہم نے زمین میں مضبوط پہاڑ بنا دیئے مبادا وہ (زمین اپنے مدار میں) حرکت کرتے ہوئے اُنہیں لے کر کانپنے لگے اور ہم نے اُس (زمین) میں کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ (مختلف منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکیںO اور ہم نے سماء (یعنی زمین کے بالائی کرّوں) کو محفوظ چھت بنایا (تاکہ اہلِ زمین کو خلا سے آنے والی مہلک قوّتوں اور جارِحانہ لہروں کے مضر اَثرات سے بچائیں) اور وہ اُن (سماوی طبقات کی) نشانیوں سے رُو گرداں ہیںO اوروُہی (اللہ) ہے جس نے رات اور دِن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو (بھی)، تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیںO
اَلَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ وَ مَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ (الفرقان، 25:59) جس نے آسمانی کرّوں اور زمین کو اور اُس (کائنات) کو جو اُن دونوں کے درمیان ہے چھ اَدوار(تخلیق) میں پیدا فرمایا۔
تَبَارَکَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَآء بُرُوجًا وَّ جَعَلَ فِیھَا سِرَاجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیرًاO وَّ ھُوَ الَّذِی جَعَلَ الَّیلَ وَ النَّھَارَ خِلفَۃً لِّمَن اَرَادَ اَن یَّذَّکَّرَ اَو اَرَادَ شُکُورًاO(الفرقان، 25:61.62) وُہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوی کرّوں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اُس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اُس نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایاO اور وُہی ذات ہے جس نے رات اور دِن کو ایک دُوسرے کے پیچھے گردِش کرنے والا بنایا، اُس کے لئے جو غور و فکر کرنا چاہے یا شکر گزاری کا اِرادہ رکھے (اِن تخلیقی قدرتوں میں نصیحت و ہدایت ہے)O
قُل سِیرُوا فِی الاَرضِ فَانظُرُوا کَیفَ بَدَاَ الخَلقَ ثُمَّ اﷲُ یُنشِیُ النَّشأَۃَ الاٰخِرَۃَ إِنَّ اللہِ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدیرٌO (العنکبوت، 29:20) فرما دیجئے: تم زمین میں (کائناتی زندگی کے مطالعہ کے لئے) چلو پھرو، پھر دیکھو (یعنی غور و تحقیق کرو) کہ اُس نے مخلوق کی (زندگی کی) اِبتداء کیسے فرمائی، پھر وہ دُوسری زندگی کو کس طرح اُٹھا کر (اِرتقاء کے مراحل سے گزارتا ہوا) نشو و نما دیتا ہے، بیشک اﷲ ہر شے پر بڑی قدرت والا ہےO
خَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ بِالحَقِّ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلمُؤمِنِینَO (العنکبوت، 29:44) اﷲ نے آسمانوں اور زمین کو درُست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ بیشک اِس (تخلیق) میں اہلِ ایمان کے لئے (اُس کی وحدانیت اور قدرت کی) نشانی ہےO
لَا الشَّمسُ یَنبَغِی لَھَآ اَن تُدرِکَ القَمَرَ وَ لَا الَّیلُ سَابِقُ النَّھَارِ وَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَO (یٰسین، 36:40) نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دِن سے پہلے آ سکتی ہے اور سب (سیارے) اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیںO
وَ مِن اٰیَاتِہ یُرِیکُمُ البَرقَ خَوفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآء مَآء فَیُحیی بِہِ الاَرضَ بَعدَ مَوتِھَا إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَومٍ یَّعقِلُونَO (الروم، 30:24) اور اُس کی نشانیوں میں سے (ایک یہ بھی) ہے کہ وہ تمہیں خوفزدہ کرنے اور اُمید دِلانے کے لئے بجلیاں دِکھاتا ہے اور بادلوں سے بارش برساتا ہے اور اُس سے مُردہ زمین کو زِندہ کر دیتا ہے، اس میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیںO
اَللہُ الَّذِی یُرسِلُ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَیَبسُطُہ فِی السَّمَآء کَیفَ یَشَآء وَ یَجعَلُہ کِسَفًا فَتَرَی الوَدقَ یَخرُجُ مِن خِلَالِہ فَاِذَا اَصَابَ بِہ مَن یَّشَآء مِن عِبَادِہ إِذَا ھُم یَستَبشِرُونَO (الروم، 30:48) اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادلوں کو اُٹھاتی ہیں، پھر وہ جس طرح چاہتا ہے اُسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اُسے تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تم اُس کے اندر سے بارش کو نکلتے دیکھتے ہو، پھر جب (اُس بارش کو) اپنے بندوں میں سے جنہیں چاہتا ہے اُن (کی آبادی) کو پہنچاتا ہے تو وہ خوشیاں منانے لگتے ہیںO
فَانظُر إِلٰی اٰثَارِ رَحمَتِ اللہِ کَیفَ یُحیِی الاَرضَ بَعدَ مَوتِھَا إِنَّ ذٰلِکَ لَمُحیِ المَوتٰی وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدیرٌO (الروم، 30:50) پس اللہ کی رحمت کے آثار تو دیکھو کہ وہ کس طرح زمین کو مُردہ ہونے کے بعد زِندہ (سرسبز و شاداب) کرتا ہے۔ بیشک وُہی مُردوں کو بھی زِندہ کرنے والا ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہےO
اِنَّمَا اَمرُہ اِذَا اَرَادَ شَیئًا اَن یَّقُولَ لَہ کُن فَیَکُونُO (یٰسین، 36:82) اُس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز (کو پیدا کرنے) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس سے کہتا ہے کہ ہو جا! پس وہ ہو جاتی ہےO
یَخلُقُکُم فِی بُطُونِ اُمَّھَاتِکُم خَلقًا مِّنم بَعدِ خَلقٍ فِی ظُلُمَاتٍ ثلَاَثٍ (الزمر، 39:6) وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے بطنوں میں تین تاریک پردوں میں (بتدریج) ایک حالت کے بعد دُوسری حالت میں بناتا ہےO اُس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز (کو پیدا کرنے) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس سے کہتا ہے کہ ہو جا! پس وہ ہو جاتی ہےO
وَ السَّمَآءَ بَنَینٰھَا بِاَیدٍ وَّ اِنَّا لَمُوسِعُونَO (الذاریات، 51:47) اور ہم نے سماوی کائنات کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور ہم ہی (کائنات کو) وسیع سے وسیع تر کرنے والے ہیںO
ءَ اَنتُم اَشَدُّ خَلقًا اَمِ السَّمَآءُ بَنَاھَاO رَفَعَ سَمکَھَا فَسَوَّاھَاO وَ اَغطَشَ لَیلَھَا وَ اَخرَجَ ضُحٰھَاO وَ الاَرضَ بَعدَ ذٰلِکَ دَحٰھَاO اَخرَجَ مِنھَا مَآئَھَا وَ مَرعٰھَاO وَ الجِبَالَ اَرسٰھَاO مَتَاعًا لَّکُم وَ لِاَنعَامِکُمO (النازعات، 79:27.33) کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا (پوری) سماوی کائنات کا، جسے اُس نے بنایا؟o اُس نے آسمان کے تمام کرّوں(ستاروں) کو (فضائے بسیط میں پیدا کر کے) بلند کیاo پھر اُن (کی ترکیب و تشکیل اور اَفعال و حرکات) میں اِعتدال، توازن اور اِستحکام پیدا کر دیاo اور اُسی نے آسمانی خلا کی رات کو (یعنی سارے خلائی ماحول کو مثلِ شب) تاریک بنایا اور (اُس خلا سے) اُن (ستاروں) کی روشنی (پیدا کر کے) نکالیo اور اُسی نے زمین کو اُس (ستارے سورج کے وُجود میں آ جانے) کے بعد (اُس سے) الگ کر کے زور سے پھینک دیاo اُسی نے زمین میں سے اُس کا پانی (الگ) نکال لیا اور (بقیہ خشک قطعات میں) اُس کی نباتات نکالیںo اور اُسی نے (بعض مادّوں کو باہم ملا کر) زمین سے محکم پہاڑوں کو اُبھار دیاo (یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کے لئے (کیا)o
اَلَّذِی خَلَقَ فَسَوّٰیO وَ الَّذِی قَدَّرَ فَھَدٰیO وَ الَّذِی اَخرَجَ المَرعٰیO فَجَعَلَہ غُثَآءً اَحوٰیO (الاعلی، 87: 52) جس نے (کائنات کی ہر چیز کو) پیدا کیا، پھر اُسے (جملہ تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ) درُست توازُن دیاo اور جس نے (ہر ہر چیز کے لئے) قانون مقرر کیا، پھر (اُسے اپنے اپنے نظام کے مطابق رہنے اور چلنے کا) راستہ بتایاo اور جس نے (زمین سے) چارہ نکالاo پھر اُسے سیاہی مائل خشک کر دیاo

 

ج کے زمانے ميں سب ہي ’’گھرانے‘‘ کے متعلق باتيں کرتے ہيں اور سب ہي کو اس بارے ميں تشويش لاحق ہے۔ معاشرتي اور تاريخي علوم کے ماہرين کسي بھي معاشرے کي سب سے پہلي اور بنيادي ترين شکل ’’گھرانے‘‘ کو قرار ديتے ہيں۔ اس طرح ماہرين نفسيات بھي انسانوں کے نفساني حالات کي جڑوں کوا ’’گھرانے‘‘ ميں ہي تلاش کرتے ہيں۔ جب کہ تربيت کے شعبے سے منسلک مفکرين اور دانش مند حضرات ’’گھر‘‘ کو ہي تربيتي امور کا مرکز جانتے ہيں اور اجتماعي مصلح حضرات بھي ہر قسم کي اصلاح طلب تبديلي و انقلاب کو ’’گھرانے‘‘ سے ہي مربوط قرار ديتے ہيں اور
سچ مچ، گھرانے کي اہميت کتني زيادہ ہے؟
اسلام کي اس بارے ميں کيا نظر ہے؟
کس طرح ايک ’’گھرانے‘‘ کي بنيادوں کو مستحکم بنايا جا سکتا ہے؟
اور ، اور، اور
اسلام اور معاشرے ميں ’’گھرانے‘‘ کے مقام و منزلت اور اس کے مختلف اثرات کو اسلام کے مايہ ناز مفکر اور فلسفہ شناس دانشمند کي حيثيت سے اپنے ہر دلعزيز قائد و رہبر سے سننا اس عظيم بنياد کو رکھنے والے نوجوانوں کے لئے راہ گُشا ہے۔

کلمہ طيبہ يا پاک بنياد

گھرانہ ’’کلمہ طيبہ‘‘ ١ کي مانند ہے اور کلمہ طيبہ کي خاصيت يہ ہے کہ جب يہ وجود ميں آتا ہے تو مسلسل اس کے وجود سے خير و برکت اور نيکي ہي ملتي رہتي ہے اور وہ اپنے اطراف کي چيزوں ميں نفوذ کرتا رہتا ہے۔ کلمہ طيبہ وہي چيزيں ہيں کہ جنہيں خداوند متعال نے انسان کي فطري ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کي صحيح بنيادوں کے ساتھ اُسے تحفہ ديا ہے۔ يہ سب کلمہ طيبہ ہيں خواہ وہ معنويات ہوں يا ماديات۔

انساني معاشرے کي اکائي

جس طرح ايک انساني بدن ايک اکائي ’’سيل‘‘ يا ’’خليے‘‘ سے تشکيل پاتا ہے کہ ان خليوں کي نابودي،خرابي اور بيماري خود بخود اور فطري طور پر بدن کي بيماري پر اختتام پذير ہوتي ہے۔ اگر ان اکائيوں ’’خليوں‘‘ ميں پلنے والي بيماري بڑھ جائے تو خطرناک شکل ميں بڑھ کر پورے انساني بدن کے لئے خطرے کا باعث بن سکتي ہے۔ اسي طرح انساني معاشرہ بھي اکائيوں سے مل کر بنا ہے جنہيں ہم ’’گھرانہ‘‘ کہتے ہيں۔ ہر گھر اور گھرانہ انسان کے معاشرتي بدن کي اکائي ہے۔ جب يہ صحيح و سالم ہوں گے اور صحيح اور اچھا عمل انجام ديں گے تو معاشرے کا بدن بھي يقيناًصحيح و سالم ہو گا۔

اچھا گھرانہ اور اچھا معاشرہ

اگر کسي معاشرے ميں ايک گھرانے کي بنياديں مستحکم ہو جائيں، مياں بيوي ايک دوسرے کے حقوق کا خيال رکھيں، آپس ميں خوش رفتاري، اچھے اخلاق اور باہمي تعاون سے پيش آئيں، مل کر مشکلات کو حل کريں اور اپنے بچوں کي اچھي تربيت کريں تو وہ معاشرہ بہترصورتحال اور نجات سے ہمکنار ہوجائے گا اور اگر معاشرے ميں کوئي مصلح موجود ہو تو وہ ايسے معاشروں کي باآساني اصلاح کر سکتا ہے۔ ليکن اگر صحيح و سالم اور اچھے گھرانے ہي معاشرے ميں موجود نہ ہوں تو کتنے ہي بڑے مصلح کيوں نہ آ جائيں وہ بھي معاشرے کي اصلاح نہيں کر سکتے۔
١ سورہ ابراہيم کي آيت ٢٤ کي طرف اشارہ ہے کہ ارشاد رب العزت ہے : ’’اللہ تعاليٰ نے کلمہ طيبہ کي مثال پيش کي ہے جيسے ايک شجر طيبہ کہ جس کي جڑيں زمين ميں مستحکم ہوں اور شاخيں آسمان ميں پھيلي ہوئي ہوں اور اپنے رب کے حکم سے اپنا پھل بھي لے کر آتا ہے‘‘۔
ہر وہ ملک کہ جس ميں گھرانے کي بنياديں مضبوط ہوں تو اس ملک کي بہت سي مشکلات خصوصاً معنوي اور اخلاقي مشکلات اس مستحکم اور صحيح و سالم گھرانے کي برکت سے دور ہو جائيں گي يا سرے ہي سے وجود ميں نہيں آئيں گي۔ يہ بندھن اور ملاپ اور زندگي کا نيا روپ دراصل خداوند عالم کي بڑي نعمتوں ميں سے ايک نعمت اور اُس کے اسرارِ خلقت ميں سے يک سرّ ہے۔ اسي طرح معاشروں کي صحت و سلامتي اور اصلاح و بہتري نيز ان کے بقا اور دوام کا دارو مدار اسي ازدواجي زندگي پر ہے۔
اگر ايک گھرانہ صحيح صورت ميں تشکيل پائے اور منطقي، عقلي اور اخلاقي اصول دونوں مياں بيوي پر حاکم ہوں اور وہ گھر، خدا او ر شريعت مقدسہ کے معيّن شدہ اصولوں کے مطابق چلے تو يہ گھرانہ اصلاح معاشرہ کي بنياد قرار پائے گا نيز اس معاشرے کے تمام افراد کي سعادت کي بنياد بھي يہي گھر بنے گا۔
گھر کو بسانا دراصل انسان کي ايک اجتماعي ضرورت ہے۔ چنانچہ اگر کسي معاشرے ميں ’’گھرانے‘‘ صحيح و سالم اور مستحکم ہوں، حالاتِ زمانہ ان کے پائے ثبات ميں لغزش پيدا نہ کريں اور وہ مختلف قسم کي اجتماعي آفات سے محفوظ ہوں تو ايسا معاشرہ اچھي طرح اصلاح پا سکتا ہے، اس کے باشندے فکري رشد پا سکتے ہيں، وہ روحاني لحاظ سے مکمل طور پر صحيح و سالم ہوں گے اور ممکن ہے کہ وہ نفسياتي بيماريوں سے بھي دور ہوں۔

اچھے گھرانے سے محروم معاشرہ نفسياتي بيماريوں کا مرکز ہے

اچھے گھرانوں سے محروم معاشرہ ايک پريشان، غير مطمئن اور زبوں حالي کا شکار معاشرہ ہے اور ايک ايسا معاشرہ ہے کہ جس ميں ثقافتي، فکري اور عقائدي ورثہ آنے والي نسلوں تک با آساني منتقل نہيں ہوسکتا۔ ايسے معاشرے ميں انساني تربيت کے بلند مقاصد آساني سے حاصل نہيں ہو پاتے يا اس ميں صحيح و سالم گھرانوں کا فقدان ہوتا ہے يا ان کي بنياديں متزلزل ہوتي ہيں۔ ايسے معاشروں ميں انسان اچھے تربيتي مراکز اور پرورش گاہوں ميں بھي اچھي پرورش نہيں پا سکتے۔
صحيح و سالم گھرانے کا فقدان اس بات کا سبب بنتا ہے کہ نہ اس ميں بچے صحيح پرورش پاتے ہيں، نہ نوجوان اپني صحيح شخصيت تک پہنچ سکتے ہيں اور انسان بھي ايسے گھرانوں ميں کامل نہيں بنتے۔ جب کہ اس گھر سے تعلق رکھنے والے مياں بيوي بھي صالح اور نيک نہيں ہوں گے، اس گھر ميں اخلاقيات کا بھي فقدان ہو گا اور گذشتہ نسل کے اچھے اور قيمتي تجربات بھي اگلي نسلوں تک منتقل نہيں ہو سکتے ہيں۔ جب ايک معاشرے ميں اچھا گھرانہ موجود نہ ہو تو جان ليجئے کہ اس معاشرے ميں ايمان اور دينداري کو وجود ميں لانے والا کوئي مرکز موجود نہيں ہے۔
ايسے معاشرے کہ جن ميں گھرانوں کي بنياديں کمزور ہيں يا جن ميں اچھے گھرانے سرے ہي سے وجود نہيں رکھتے يا کم ہيں يا اگر ہيں تو ان کي بنياديں متزلزل ہيں تو وہ فنا اور نابودي کے دھانے پر کھڑے ہيں۔ ايسے معاشروں ميں نفسياتي الجھنوں اور بيماريوں کے اعداد و شمار ان معاشروں سے زيادہ ہيں کہ جن ميں اچھے اور مستحکم گھرانے موجود ہيںاور مرد و عورت گھرانے جيسے ايک مظبوط مرکز سے متصل ہيں۔

غير محفوظ نسليں

انساني معاشرے ميں گھرانہ بہت اہميت اور قدر و قيمت کا حامل ہے۔ آنے والي نسلوں کي تربيت اور معنوي، فکري اور نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم انسانوں کي پرورش کے لئے گھرانے کے فوائد تک نہ کوئي پہنچ سکتا ہے اور تعليم و تربيت کے ميدان ميں نہ ہي کوئي چيز بھي گھر و گھرانے کي جگہ لے سکتي ہے۔ جب خانداني نظامِ زندگي بہتر انداز ميں موجود ہو تو ان کروڑوں انسانوں ميں سے ہر ايک کے لئے ديکھ بھال کرنے والے (والدين جيسے دو شفيق وجود) ہميشہ ان کے ہمراہ ہوں گے کہ جن کا کوئي بھي نعم البدل نہيں ہوسکتا۔
’’گھرانہ‘‘ ايک امن و امان کي داوي محبت اور پُر فضا ماحول کا نام ہے کہ جس ميں بچے اور والدين اس پر امن ماحول اور قابل اعتماد فضا ميں اپني روحي، فکري اور ذہني صلاحيتوں کو بہتر انداز ميں محفوظ رکھتے ہوئے ان کي پرورش اور رُشد کا انتظام کر سکتے ہيں۔ ليکن جب خانداني نظام ہي کي بنياديں کمزورپڑ جائيں تو آنے والي نسليں غير محفوظ ہو جاتي ہيں۔
انسان، تربيت، ہدايت اور کمال و ترقي کے لئے خلق کيا گيا ہے اور يہ سب اہداف صرف ايک پر امن ماحول ميں ہي حاصل کئے جا سکتے ہيں۔ ايسا ماحول کہ جس کي فضا کو کوئي نفسياتي الجھن آلودہ نہ کرے اور ايسا ماحول کہ جس ميں انساني صلاحيتيں اپنے کمال تک پہنچيں۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے ايسے ماحول کا وجود لازمي ہے کہ جس ميں تعليمات ايک نسل کے بعد دوسري نسل ميں منعکس ہوں اور ايک انسان اپنے بچپنے سے ہي صحيح تعليم، مددگار نفسياتي ماحول اور دو فطري معلّموں يعني والدين کے زير سايہ تربيت پائے جو عالَمِ دنيا کے تمام انسانوں سے زيادہ اس پر مہربان ہيں۔
اگر معاشرے ميں صحيح خانداني نظام رائج نہ ہو تو انساني تربيت کے تمام اقدامات ناکام ہو جائيں گے اور اس کي تمام روحاني ضرورتوں کو مثبت جواب نہيں ملے گا۔ يہي وجہ ہے کہ انساني تخليق اور فطرت ايسي ہے کہ جو اچھے گھرانے، صحيح و کامل خانداني نظام کے پُر فضا اور محبت آميز ماحول اور والدين کي شفقت و محبت کے بغير صحيح و کامل تربيت، بے عيب پرورش اور نفسياتي الجھنوں سے دور اپني لازمي روحاني نشو و نما تک نہيں پہنچ سکتي ہے۔ انسان اپني باطني صلاحيتوں اور اپنے احساسات و جذبات کے لحاظ سے اسي وقت کامل ہو سکتا ہے کہ جب وہ ايک مکمل اور اچھے گھرانے ميں تربيت پائے۔ ايک مناسب اور اچھے نظام زندگي کے تحت چلنے والے گھر ميں پرورش پانے والے بچوں کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم اور ہمدردي اور مہرباني کے جذبات ١ سے سرشار ہوں گے۔
ايک گھرانے ميں تين قسم کے انسانوں کي اصلاح ہوتي ہے۔ ايک مرد ہيں جو اس گھر کے سرپرست يا والدين ہيں، دوسرے درجے پر خواتين کہ جو ماوں کا کردار ادا کرتي ہيں اور تيسرے مرحلے پر اولاد کہ جو اس معاشرے کي آنے والي نسل ہے۔

اچھے گھرانے کي خوبياں

ايک اچھا گھرانہ يعني ايک دوسرے کي نسبت اچھے، مہربان، پُر خلوص جذبات و احساسات کے مالک اور ايک دوسرے سے عشق و محبت کرنے والے مياں بيوي جو کہ ايک دوسرے کي جسماني اور روحاني حالت کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے ضرورت کے مطابق ايک دوسرے کي مدد کريں، ايک دوسرے کي فعاليت، کام کاج اور ضرورتوں کو اہميت ديں اور ايک دوسرے کے آرام و سکون اور بہتري و بھلائي کو مدّنظر رکھيں۔ يہ سب پہلے درجے پر ہيں۔
١ ماہرين نفسيات اس بات کے قائل ہيں اور ہماري احاديث و روايات بھي اس مطلب پر تاکيد کرتي ہيں کہ گھر ميں والدين کا اپني اولاد سے ہمدردي، محبت، شفقت اور مہرباني و پيار سے پيش آنا بچوں کي تربيت اور ان کي نشو و نما ميں بہت زيادہ موثر ہے۔ والدين کا خشک رويہ بچوں سے مہرباني، ہمدردي، اور پيار و محبت کو سلب کر لے گا اور وہ بچے سخت مزاج، ناقص اور نا ہموار طبيعت کے مالک ہوں گے۔ (مترجم)
دوسرے درجے پر اس گھرانے ميں پرورش پانے والي اولاد ہے کہ جس کي تربيت کے لئے وہ احساس ذمّہ داري کريں اور مادي اور معنوي لحاظ سے انہيں صحيح و سالم پرورش کا ماحول فراہم کريں۔ ان کي خواہش يہ ہوني چاہيے کہ ان کے بچے مادي اور معنوي لحاظ سے سلامتي اور بہتري تک پہنچیں، انہيں بہترين تعليم و تربيت ديں، انہيں مودّب بنائيں، اچھے طريقوں سے اپني اولاد کو برے کاموں کي طرف قدم بڑھانے سے روکيں اور بہترين صفات سے ان کي روح کو مزيّن کريں۔ ايک ايسا گھر دراصل ايک ملک ميں ہونے والي تمام حقيقي اصلاحات کي بنياد فراہم کر سکتا ہے۔ چونکہ ايسے گھرانوں ميں اچھے انسان ہي اچھي تربيت پاتے ہيں اور بہترين صفات کے مالک ہوتے ہيں۔ جب کوئي معاشرہ شجاعت، عقلي استقلال، فکري آزادي، احساس ذمہ داري، پيار و محبت، جرآت و بہادري، وقت پر صحيح فيصلہ کرنے کي صلاحيت، دوسروں کي خير خواہي اور اپني خانداني پاکيزگي و نجابت کے ساتھ پرورش پانے والے لوگوں کا حامل ہو گا تو وہ کبھي بد بختي و روسياہي کے شکل نہيں ديکھے گا۔

اچھے خانداني نظام ميں ثقافت کي منتقلي کي آساني

ايک معاشرے ميں اس کي تہذيب و تمدّن اور ثقافت کے اصولوں کي حفاظت اور آئندہ آنے والي نسلوں تک ان کي منتقلي اچھے گھرانے يا بہترين خانداني نظام کي برکت ہي سے انجام پاتي ہے۔
رشتہ ازدواج ميں نوجوان لڑکے لڑکي کے منسلک ہونے کا سب سے بہترين فائدہ ’’گھر بسانا‘‘ ہے۔ اس کا سبب بھي يہي ہے کہ اگر ايک معاشرہ اچھے گھرانوں، خانداني افراد اور بہترين نظام تربيت پر مشتمل ہو تو وہ بہترين معاشرہ کہلائے جانے کا مستحق ہے اور وہ اپني تاريخي اور ثقافتي خزانوں اورورثہ کو بخوبي احسن اگلي نسلوںں تک منتقل کرے گا اور ايسے معاشرے ميں بچے بھي صحيح تربيت پائيں گے۔ چنانچہ وہ ممالک اور معاشرے کہ جن ميں خانداني نظام مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو وہاں ثقافتي اور اخلاقي مسائل پيش آتے ہيں۔
اگر موجودہ نسل اس بات کي خواہش مند ہے کہ وہ اپنے ذہني اور فکري ارتقائ، تجربات اور نتائج کو آنے والي نسلوں کو منتقل کرے اور ايک معاشرہ اپنے ماضي اور تاريخ سے صحيح معنيٰ ميں فائدہ حاصل کرے تو يہ صرف اچھے گھرانوں يا اچھے خانداني نظام زندگي کے ذريعے ہي ممکن ہے۔ گھر کي اچھي فضا ميں اس معاشرے کي ثقافتي اور تاريخي بنيادوں پر ايک انسان اپنے تشخص کو پاتا ہے اور اپني شخصيت کي تعمير کرتا ہے۔ يہ والدين ہي ہيں کہ جو غير مستقيم طور پر بغير کسي جبر اور تصنّع (بناوٹ) کے فطري اور طبيعي طور پر اپنے فکري مطالب، عمل، معلومات، عقائد اور تمام مقدس امور کو آنے والي نسلوں تک منتقل کرتے ہيں۔

خوشحال گھرانہ اور مطمئن افراد

اسلام ’’گھرانے‘‘ پر مکمل توجہ ديتاہے اور گھرانے پر اس کي نظر خاص الخاص اہتمام کے ساتھ جمي ہوئي ہيں کہ جس کي وجہ سے خانداني نظام يا گھرانے کو انساني حيات ميں مرکزيت حاصل ہے۔ اسي لئے اس کي بنيادوں کو کمزور يا کھوکھلا کرنے کو بدترين فعل قرار ديا گيا ہے۔
اسلام ميں گھرانے کا مفہوم يعني ايک چھت کے نيچے دو انسانوں کي سکونت، دو مختلف مزاجوں کا بہترين اور تصوراتي روحاني ماحول ميں ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننا، دو انسانوں کے انس و الفت کي قرار گاہ اور ايک انسان کے ذريعے دوسرے انسان کے کمال اور معنوي ترقي کا مرکز، يعني وہ جگہ کہ جہاں انسان پاکيزگي حاصل کرے اور اسے روحاني سکون نصيب ہو۔ يہ ہے اسلام کي نگاہ ميں خوشحال گھرانہ اور اسي ليے اسلام اس مرکز ’’گھرانے‘‘ کو اس قدر اہميت ديتا ہے۔
قرآن کے بيان کے مطابق اسلام نے مرد و عورت کي تخليق، ان کے ايک ساتھ زندگي گزارنے اور ايک دوسرے کا شريکِ حيات بننے کو مياں بيوي کے لئے ايک دوسرے کے آرام و سکون کا باعث قرار ديا ہے۔
قرآن ميں ارشاد ِ خداوندي ہے کہ ’’وَجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِيَسْکُنَ اِلَيْھَا‘‘ ١
----------

١ سورہ اعراف ١٨٩
جنسی اخلاق کا اسلام اور مغرب میں تصور- مصنف: شھید مرتضی مطھری
جنسی اخلاق دراصل عام اخلاق ہی کا ایک حصہ ہے۔ یہ ان انسانی عادات‘ جذبات اور رجحانات پر مشتمل ہوتا ہے جن کا تعلق جنسی خواہشات سے ہو۔
عورت کا مرد سے شرمانا‘ مرد کی غیرت‘ بیوی کی شوہر سے وفاداری اور عزت و ناموس کی حفاظت‘ مخصوص اعضاء کا ستر‘ غیر محرموں سے عورت کا بدن چھپانا‘ زنا کی ممانعت‘ غیر عورتوں سے لمس اور نظربازی کے ذریعے لذت حاصل کرنے کی ممانعت‘ محرموں سے شادی پر پابندی‘ ماہواری کے دنوں میں بیوی سے ہمبستری پر پابندی‘ فحش تصاویر کو شائع نہ کرنا‘ تجرد مقدس ہے یا ناپاک‘ یہ تمام مسائل جنسی اخلاق و عادات کا حصہ ہیں۔

ویل ڈیورنٹ کا نظریہ
جنسی اخلاق کا تعلق چونکہ انسانی اخلاق سے ہے اور اس میں (اثرانداز ہونے کی) غیر معمولی طاقت بھی موجود ہے‘ لہٰذا وہ ہمیشہ سے اخلاق کا بہترین حصہ شمار ہوتا چلا آ رہا ہے‘ ویل ڈیورنٹ لکھتا ہے:
"جنسی تعلقات کی نگہداشت ہمیشہ سے اخلاقی ذمہ داری سمجھی جاتی رہی ہے‘ کیونکہ محض تولید نسل کی خواہش نہ صرف شادی کے دوران میں بلکہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ ایک طرف اس خواہش میں شدت و حدت سے اور دوسری طرف اس کے نتیجے میں قانون شکنی اور فطری طریقے سے انحراف سے سماجی اداروں میں بدنظمی اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔"(تاریخ تمدن‘ ج ۱‘ ص ۶۹)

جنسی اخلاق کا سرچشمہ
یہاں سے ابتدائی طور پر جو علمی اور فلسفی بحث چل نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ جنسی اخلاق کا سرچشمہ کیا ہے؟ عورت میں حیاء اور عفت کی خصوصیات کس طرح پیدا ہوتی ہیں؟ مرد اپنی عورت کے معاملے میں اتنا غیرت مند کیوں ہے؟ کیا یہ غیرت دوسرے لفظوں میں وہی "حسد" تو نہیں جس کی انسان مذمت کرتا ہے اور استثنائی طور پر صرف اپنی بیوی کے معاملے میں اس جذبے کو قابل تعریف سمجھتا ہے یا یہ کوئی دوسرا جذبہ ہے؟ اگر وہی "حسد" ہے تو اسے مستثنیٰ کیوں قرار دیا گیا ہے؟ اگر یہ کوئی دوسرا جذبہ ہے تو اس کی کیا توجیہہ ہو گی؟ اسی طرح عورت کے ستر کھولنے‘ فحاشی‘ محارم سے شادی کرنے وغیرہ کو کیوں برا سمجھا گیا ہے؟ کیا ان سب کا سرچشمہ خود فطرت اور طبیعت ہے؟ کیا فطرت اور طبیعت نے اپنے مقاصد کے حصول اور انسانی زندگی کو منظم کرنے کے لئے‘ جو کہ فطرتاً معاشرتی زندگی ہے‘ انسان میں مذکورہ بالا جذبات اور احساسات پیدا کئے؟ یا اس کے دوسرے اسباب ہیں‘ یعنی تاریخ کے ساتھ ساتھ یہ جذبات انسانی روح پر اثرانداز ہوتے رہے اور بتدریج انسانی اخلاق اور ضمیر کا حصہ بن گئے؟
اگر جنسی اخلاق کا سرچشمہ طبیعت اور فطرت ہے تو موجودہ دور میں قدیم اور وحشی قبائل‘ جن کا طرز زندگی ہنوز سابقہ اقوام کی طرح ہے‘ کیوں ان خصوصیات سے بے بہرہ ہیں؟ جو کم از کم ایک مہذب انسان میں پائی ہیں۔ بہرحال اس کا سرچشمہ اور مقصد کوئی بھی ہو اور انسانیت کا ماضی کچھ بھی رہا ہو‘ ہمیں اس پر شک کرنے کی بجائے یہ سوچنا چاہئے کہ اب کیا کیا جائے؟ انسان جنسی رویے کے بارے میں کونسا راستہ اختیار کرے جس سے وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے؟
کیا قدیم جنسی نظام اخلاق ہی برقرار رکھا جائے یا اسے فرسودہ سمجھ کر اس کی جگہ جدید اخلاقی نظام نافذ کیا جائے؟
ویل ڈیورنٹ اگرچہ اخلاق کی بنیاد فطرت کی بجائے ان واقعات پر رکھتا ہے جو تلخ‘ ناگوار اور ظالمانہ رہے ہیں‘ تاہم اسے دعویٰ ہے کہ اگرچہ قدیم جنسی اخلاقی نظام میں قباحتیں موجود ہیں لیکن چونکہ وہ راہ تکمیل میں مناسب تر انتخاب کا مظہر ہے‘ لہٰذا بہتر ہے اس کی حفاظت کی جائے۔
ویل ڈیورنٹ بکارت کے احترام اور شرم و حیاء کے احساس کے بارے میں لکھتا ہے:
"قدیم سماجی عادات و اطوار اس انسانی مزاج کا آئینہ دار ہیں‘ جو ان میں کئی صدیاں گزر جانے اور بے شمار غلطیاں کرنے کے بعد پیدا ہوئے‘ لہٰذا کہنا پڑے گا کہ اگرچہ بکارت کے احترام اور حیاء کا جذبہ نسبی امور ہیں اور شادی کے ذریعے عورت کو خرید لینے سے متعلق ہیں اور اعصابی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں‘ تاہم ان کے کچھ سماجی فوائد بھی ہیں۔ ان عوامل کا شمار جنسیت کی بقاء کے لئے کی جانے والی کوششوں میں ہوتا ہے۔"(تاریخ تمدن‘ ج ۱‘ ص ۸۴)
فرائیڈ اور اور اس کے شاگردوں کا نظریہ (ویل ڈیورنٹ سے) مختلف ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جنسی معاملات میں قدیم اخلاقی نظام کو تبدیل کر کے اس کی جگہ جدید اخلاقی نظام نافذ کیا جانا چاہئے۔ فرائیڈ اور اس کے ہم نواؤں کے خیال میں قدیم جنسی اخلاق کی بنیاد "محدودیت" اور "ممانعت" پر رکھی گئی ہے۔ آج انسان کو جن پریشان کن مسائل کا سامنا ہے وہ اسی ممانعت‘ محرومیت اور خوف کے لامتناہی سلسلے سے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ وحشتیں ان مسائل کو مزید الجھا دیتی ہیں جو ان پابندیوں کے باعث انسانی ضمیر پر مسلط ہو چکی ہیں۔

رسل کا نظریہ
رسل نے جدید اخلاق کا جو تصور دیا ہے اس کی بنیاد بھی مذکورہ دلائل ہی پر ہے‘ وہ بزعم خود اس جنسی اخلاق کے فلسفہ کا دفاع کرتا ہے جس میں شرم‘ عفت‘ تقویٰ‘ عزت (لیکن بقول رسل "حسد") وغیرہ احساسات کا دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا‘ انہیں وہ "تابو" کہتا ہے۔
برائی اور رسوائی کا تاثر اور مفہوم دینے والے اعمال کی وہاں کوئی جگہ نہیں‘ وہاں محض عقل و فکر پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔ رسل جنسی محدودیت کا صرف اسی حد تک قائل ہے جس قدر بعض غذائی پرہیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ تابو (ممنوع و مقدس) اخلاق کے بارے میں ایک سوال:
"کیا آپ ان لوگوں کو کوئی نصیحت کرنا چاہیں گے جو جنسی مسائل کے بارے میں کوئی صحیح اور دانشمندانہ راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں؟"
کے جواب میں کہتا ہے:
"اب جنسی اخلاق کے مسئلے پر بھی دوسرے مسائل کی طرح بحث و تمحیص کی ضرورت ہے‘ اگر کسی فعل کے ارتکاب سے دوسروں کو نقصان نہیں پہنچتا تو ہمارے پاس کوئی جواز نہیں کہ ہم اس کے ارتکاب کی مذمت کریں۔"(جہانی کہ من می شناسم‘ ص ۶۷-۶۸)

ایک دوسرے سوال:
"آپ (رسل) کے نظریے کے مطابق آبرو پر حملے کی مذمت کرنی چاہئے‘ لیکن آپ عصمت کے منافی ان افعال کی مذمت نہیں کرتے جو چنداں نقصان دہ نہ ہوں؟"
کے جواب میں رسل کہتا ہے:
"ہاں ایسی ہی ہے‘ ازالہ بکارت افراد کے درمیان ایک (قسم کا) جسمانی تجاوز ہے‘ لیکن اگر ہم عصمت کے منافی مسائل سے دوچار ہوں تو ہمیں موقع و محل کے مطابق یہ دیکھنا ہو گا کہ ایسے حساس وقت پر کیا ہمارے پاس مخالفت کرنے کے لئے دلائل موجود ہیں یا نہیں؟"(جہان کہ من می شناسم‘ ص ۶۷-۶۸)
ہم فی الحال اس بحث میں نہیں پڑتے کہ حیاء وغیرہ قسم کے جذبات جنہیں آج جنسی اخلاق کا نام دیا جاتا ہے‘ فطری ہیں یا غیر فطری؟ کیونکہ یہ ایک مفصل بحث ہے‘ لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ خیال نہ کیا جائے کہ علوم نے واقعی اتنی ترقی کر لی ہے کہ ان جذبات کے سرچشمے کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔ اس موضوع پر جو کچھ کہا گیا ہے وہ محض مفروضات ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ان مفروضات کو تراشنے والوں کے نظریات میں بھی یکسانیت موجود نہیں ہے‘ مثلاً فرائیڈ کے ہاں حیاء پیدا ہونے کا جو سبب ہے وہ رسل کے ہاں نہیں ہے‘ جبکہ ویل ڈیورنٹ کوئی دوسرا مقصد بتاتا ہے‘ ہم طوالت کے خوف سے ان اختلاف اور تضادات کا ذکر نہیں کرتے۔ ان احساسات کو غیر طبیعی ثابت کرنے کے لئے مذکورہ فلاسفہ کا رجحان ہی دراصل ان احساسات کی صحیح تشریح میں ناکامی کا سبب ہے۔
ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ احساسات کسی طرح بھی فطری نہیں ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ فرد اور معاشرے کی اصلاح اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے جذبے سے دوسرے امور کی طرح ان کے متعلق بھی کوئی رائے قائم کریں‘ لہٰذا اس بارے میں عقل و منطق کیا حکم عائد کرتی ہے؟ کیا عقل یہ بات قبول کرتی ہے کہ مکمل روحانی سکون اور معاشرتی خوشحالی حاصل کرنے کے لئے تمام حدیں پھلانگ جانی چاہئیں اور سب سماجی پابندیاں اٹھا لینی چاہئیں؟ عقل اور منطق کا تقاضا تو یہ ہے کہ جنسی تعلقات کو فحش قرار دینے والی خرافات اور روایات کے خلاف جنگ لڑی جائے اور آزادی و آزادانہ پرورش کے نام پر (جنسی) خواہش کے لئے پریشان کن‘ گناہ آلود اور ہیجان انگیز سامان فراہم نہ کیا جائے۔

جدید جنسی اخلاق کے حامیوں کے نظریات
جدید جنسی اخلاق کے علمبرداروں کے نظریات مندرجہ ذیل تین اصولوں پر مبنی ہیں:
۱۔ ہر فرد کی آزادی اس حد تک ضرور محفوظ رہنی چاہئے جہاں تک وہ دوسروں کی آزادی میں مخل نہ ہو۔
۲۔ انسان کی خوشحالی کا راز اس میں موجود تمام صلاحیتو ں اور جذبوں کی پرورش میں پنہاں ہے‘ اگر وہ صلاحیتیں اور جذبات سبوتاژ ہو جائیں تو خود پرستی اور اس قسم کی دیگر (نفسیاتی) بیماریاں عود کر آتی ہیں۔ جب خواہشات میں رد و بدل ہوتا ہے تو اس عمل کے دوران میں وہ درہم برہم ہو جاتی ہیں‘ یعنی بعض خواہشات کی تکمیل ہو جاتی ہے اور بعض تشنہ رہ جاتی ہیں‘ لہٰذا خوشحال زندگی کے لئے ضروری ہے کہ انسان کی تمام صلاحیتوں اور خواہشات کی یکساں طور پر پرورش ہو۔
۳۔ قناعت اور سیری سے اشیاء کی طرف انسانی رغبت کم ہوتی ہے‘ جبکہ ممانعت سے یہ رغبت بڑھتی ہے۔ جنسی مسائل اور ان کے ناخوشگوار نتائج سے مکمل طور پر انسانی توجہ ہٹانے کے لئے واحد صحیح راستہ یہی ہے کہ تمام (جنسی) پابندیاں اٹھا لی جائیں اور انسان کو آزادی دے دی جائے‘ کیونکہ فتنہ پھیلانا‘ کینہ رکھنا اور انتقام لینا بگڑے ہوئے جنسی اخلاق کی علامتیں ہیں۔
نئے جنسی نظام اخلاق کی بنیاد مذکورہ تینوں اصولوں پر رکھی گئی ہے‘ ہم آگے چل کر ان پر سیر حاصل بحث کریں گے۔

نئے جنسی اخلاق کا تنقیدی جائزہ
قدیم جنسی اخلاق کے بارے میں جدید اخلاقی نظام کے حامیوں کے نظریات اور جنسی اخلاق کی اصلاح کے لئے تجاویز کا ذکر کئے بغیر مذکورہ اصولوں پر بحث کرنا چنداں مفید نہ ہو گا۔
محدود معلومات رکھنے والے لوگ ممکن ہے بحث کے ہمارے موجودہ طریقے کو غیر ضروری اور غیر مفید سمجھیں‘ لیکن ہمارے خیال میں موجودہ معاشرے میں اس قسم کے مسائل پر بحث کرنا اس لئے ضروری ہے کہ یہ نہ صرف نامور فلاسفہ اور مفکرین کی توجہ کا مرکز رہے ہیں‘ بلکہ نوجوانوں کی محفلوں میں بھی زیرموضوع رہے ہیں۔ اکثر نوجوان جن کی فکری صلاحیتیں محدود ہیں اور وہ زیربحث مسائل کا منطقی تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے‘ ممکن ہے ان افکار کو پیش کرنے والے فلاسفہ کی شہرت اور شخصیت سے مرعوب ہو کر انہیں سو فیصد درست اور منطقی سمجھ بیٹھیں۔
لہٰذا قارئین کو اس پس منظر سے پوری طرح آگاہ کرنا ضروری ہے کہ جنسی افکار کا جو سیلاب مغرب سے آیا ہے اور ہمارے نوجوان ان افکار کی صرف ابجد سے واقف ہوئے ہیں اور "آزادی" اور "مساوات" کے خوش نما نعروں سے متاثر ہو کر انہیں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں‘ کہاں جا کر رکے گا؟ کب ختم ہو گا؟ کیا انسانی معاشرہ اس طوفان میں اپنا سفری جاری رکھ سکے گا یا یہ آدمی کے قد سے بڑا لباس ہے؟ یہ راستہ انسانی تباہی پر تو ختم نہیں ہو گا؟
اس کشمکش میں (چاہے اختصار کے ساتھ) ان مسائل پر بحث کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
جنسی اخلاق کی اصلاح کے مدعی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قدیم جنسی اخلاق کے جو اسباب اور سرچشمے تھے وہ اب کلی طور پر ختم ہو چکے ہیں یا ختم ہو رہے ہیں‘ لہٰذا اب جبکہ وہ حالات و اسباب ہی موجود نہیں تو کیوں نہ اس اخلاقی نظام کو بھی خیرباد کہہ دیا جائے جس میں خشکی اور سختی کے سوا کچھ نہیں۔
اس اخلاق کی تخلیق کے باعث ان امور کے علاوہ بعض ایسے جاہلانہ اور ظالمانہ واقعات بھی موجود ہیں جو انسان کی ذاتی حیثیت‘ مساوات اور آزادی کے منافی ہیں‘ لہٰذا انسانیت اور مساوات کی خاطر بھی ایسے اخلاقی نظام کے خلاف جنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ مدعی قدیم جنسی اخلاق پیدا ہونے کے جو اسباب گنواتے ہیں‘ یہ ہیں:
"مرد کی عورت پر حاکمیت‘ مردوں کا حسد‘ اپنے باپ ہونے کا اطمینان حاصل کرنے کے لئے مرد کی کوششیں‘(یعنی ایک مرد کی بیوی سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے‘ اس کے بارے میں شوہر کو یہ اطمینان ہو کہ وہی اس کا باپ ہے۔مترجم) جنسی رابطے کے ذاتاً فحش ہونے کے بارے میں راہبانہ اور مرتاضانہ نظریات‘ ماہواری کی وجہ سے عورت کو اپنی ناپاکی کا احساس اور اس مدت میں مرد کی عورت سے کنارہ کشی‘ انسانی تاریخ میں مرد کی طرف سے عورت کو پہنچنے والی ایذائیں اور آخرکار وہ معاشی اسباب جو عورت کو ہمیشہ سے مرد کا دست نگر بنائے رکھے ہیں۔"
جیسا کہ ظاہر ہے یہ عوامل ظلم و ستم یا خرافات کا نتیجہ ہیں‘ چونکہ پہلے پہل زندگی محدود تھی‘ لہٰذا اس ماحول میں ایسے افکار قبول کر لئے جاتے تھے لیکن اب مرد کی عورت پر حاکمیت ختم ہو چکی ہے۔ جدید طب کی ایجاد کردہ مانع حمل ادویہ سے پدری اطمینان حاصل کر لیا جاتا ہے‘ لہٰذا اب ضروری نہیں رہا کہ قدیم وحشیانہ طریقہ ہی اپنایا جائے‘ اب راہبانہ اور مرتاضانہ عقائد دم توڑ رہے ہیں۔ ماہواری کی وجہ سے عورت کو اپنی نجاست کا جو احساس ہوتا ہے اسے (طبی) معلومات بڑھا لینے سے ختم کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ یہ معمول کا ایک جسمانی عمل ہے۔ ایذا رسانی کا دور بھی ختم ہو گیا‘ جو معاشی اسباب عورت کو غلام بنائے ہوئے تھے اب ان کا بھی کوئی وجود نہیں رہا اور آج کی عورت نے اپنا معاسی استحکام حاصل کر لیا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت بتدریج اپنے (سماجی) اداروں کو وسعت دے رہی ہے جو عورت کو دورانِ حمل‘ وضع حمل اور دودھ پلانے کے دنوں میں اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہیں اور اسے مرد سے بے نیاز کرتے ہیں‘ اس طرح دراصل باپ کی جگہ خود حکومت لے لیتی ہے۔ حسد کو اخلاقی ورزشوں سے ختم کیا جا سکتا ہے‘ لہٰذا ان تبدیلیوں کے ہوتے ہوئے قدیم اخلاقی نظام پر پابند رہنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
یہ وہ اعتراضات ہیں جو قدیم جنسی اخلاق پر کئے جاتے ہیں اور انہی دلائل کی موجودگی میں جنسی اخلاق کی اصلاح کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

 

رسول خدا (ص) اور ا ئمہ معصومين عليہم اسلام اخلاق حسنہ كى اعلى ترين مثاليں ہيں اور يہ بے مثال "" حُسن خلق ""ان كے كردار اور گفتار سے عياں تھا_ ان ہى عظیم شخصيتوں كے ارشادات كى روشنى ميں ہم ""حُسن خلق"" كے اعلى درجہ پر فائز ہو سكتے ہيں_ چنانچہ ہم يہاں اُن كے ارشادات سے چند نمونے پيش كر رہے ہيں تاكہ وہ ہمارى زندگى كے لئے مشعل راہ بن جائيں : رسول خدا (ص) نے صحابہ كو مخاطب كركے فرمايا :
""كيا ميں تمہيں وہ چيز نہ بتائوں كہ اخلاق كے لحاظ سے تم ميں سے كون مجھ سے زيادہ مشابہ ہے ؟ صحابہ نے عرض كى : ""اے اللہ كے رسول (ص) ضرور بتايئے_"" تو آپ (ص) نے فرمايا :
""جس كا اخلاق بہت اچھا ہے""_1
آپ (ص) ہى كا ارشاد گرامى ہے:
""خوش نصيب ہے وہ شخص جو لوگوں سے خوش خلقى سے ملتا ہے " ان كى مدد كرتا ہے اور اپنى برائي سے انہيں محفوظ ركھتا ہے""_2
امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں:
""خداوند عالم نے اپنے ايك پيغمبر كو مخاطب كركے فرمايا :
""خوش خلقى گناہوں كو اُسى طرح ختم كرديتى ہے جس طرح سورج برف كو پگھلا ديتا ہے""_3
آپ (ع) ہى كا ارشاد ہے:
""بے شك بندہ اپنے حسن اخلاق سے دن كو روزہ ركھنے والے اور رات كو نماز قائم كرنے والے كا درجہ حاصل كرليتا ہے""_4

3)_اخلاق معصومين (ع) كے چند نمونے:
ہمارے معصوم رہبروں (ع) نے جس طرح ""اخلاق حسنہ"" كے بارے ميں نہايت ہى سبق آموز ارشادات فرمائے ہيں " اسى طرح دوست اور دشمن كے سامنے نيك اخلاق كے بہترين على نمونے بھى پيش كئے ہيں; ملاحظہ كيجئے:

1_انس (پيغمبر اكرم (ص) كے خادم) سے مروى ہے كہ : ميں نے رسالت مآب (ص) كى نو سال تك خدمت كى "ليكن اس طويل عرصے ميں حضور (ص) نے مجھے حتى ايك بار بھى يہ نہيں فرمايا: ""تم نے ايسا كيوں كيا؟"" _ ميرے كسى كام ميں كبھى كوئي نقص نہيں نكالا، ميں نے اس مدت ميں آنحضرت (ص) كى خوشبو سے بڑھ كر كوئي اور خوشبو نہيں سونگھي، ايك دن ايك باديہ نشين (ديہاتي) آيا اور آنحضرت (ص) كى عبا كو اتنى زور سے كھينچا كہ عبا كے نشان آپ (ص) كى گردن پر ظاہر ہوگئے_ اس كا اصرار تھا كہ حضور اكرم (ص) اسے كوئي چيز عطا فرمائيں_ رسالت مآب (ص) نے بڑى نرمى اور مہربانى سے اُسے ديكھا اور مسكراتے ہوئے فرمايا:
""اسے كوئي چيز دے دو""_
چنانچہ خداوند عالم نے يہ آيت نازل فرمائي:
""انّك لَعلى خُلق: عظيم"" 5
""بے شك آپ اخلاق (حسنہ) كے اعلى درجہ پر فائز ہيں""_

2_حضرت امام زين العابدين _ كے قريبى افراد ميں سے ايك شخص آپ (ع) كے پاس آيا اور بُرا بھلا كہنے لگا " ليكن آپ (ع) خاموش رہے ، جب وہ شخص چلا گيا تو امام (ع) نے حاضرين كو مخاطب كركے فرمايا:
""آپ لوگوں نے سن ليا ہوگا كہ اس شخص نے مجھ سے كيا كہا ہے اب ميں چاہتا ہوں كہ آپ ميرے ساتھ چليں اور ميرا جواب بھى سن ليں""_
امام عليه السلام راستے ميں اس آيت كى تلاوت فرماتے جارہے تھے:
""و الكاظمين الغيظ والعافين عن الناس واللہ يحب المحسنين ""6
""جو لوگ غصے كو پى جاتے ہيں اور لوگوں كو معاف اور درگذر كرديتے ہيں اوراللہ تعالى ايسے احسان كرنے والوں كو دوست ركھتا ہے""_
ساتھيوں نے سمجھ ليا كہ امام (ع) آيت عفو كى تلاوت فرما رہے ہيں، لہذا اسے كوئي تكليف نہيں پہنچائيں گے ،جب اس كے گھر پہنچے تو امام (ع) نے اس كے خادم سے فرمايا :
كہ اپنے مالك سے كہدو كہ على ابن الحسين عليه السلام تمہيں بلا رہے ہيں_
جب اس شخص نے سنا كہ امام (ع) فوراً ہى اس كے پاس آئے ہيں تو اس نے دل ميں كہا كہ يقينا حضرت (ع) مجھے ميرے كئے كى سزا ديں گے اور اس كا انتقام ليں گے_ چنانچہ اس نے يہ سوچ كر خود كو مقابلہ كے لئے تيار كرليا، ليكن جب باہر آيا تو امام (ع) نے فرمايا :
""ميرے عزيز تم نے اب سے كچھ دير پہلے ميرے متعلق كچھ باتيں كہى تھيں " اگر يہ باتيں مجھ ميں پائي جاتى ہيں تو خدا مجھے معاف كرے" اور اگر ميں اُن سے پاك اور بَرى ہوں تو خدا تمہيں معاف كرے""_
اُس شخص نے جب يہ سنا تو بہت شرمندہ ہوا " امام (ع) كى پيشانى پر بوسہ ديا اور معافى مانگنے لگا اور عرض كى :""ميں نے جو كچھ كہا " غلط كہا" بے شك آپ (ع) ايسى باتوں سے پاك ہيں"ہاں " ميرے اندر يہ باتيں موجود ہيں ""_7

حوالہ جات:

1_ اصول كافى (مترجم ) ج2، ص 84يا تحف العقول ص48
2_ تُحف العقول ، ص28
3_ تحف العقول _ ص 28_ بحارالانوار ج 71، ص 383
4_ وسائل الشيعہ ج8، ص 56_ تحف العقول ص 48
5_منتہى الآمال، ج ا ، ص 31_ سورہ قلم ، آيت 4
6 _ سورہ آل عمران آيت 134
7_منتہى الآمال، ج3 ، ص 5_ مطبوعہ انتشارات جاويدان