سلیمانی

سلیمانی

ز

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ملت عزیز ایران

اسلام کے عظیم، باعث فخر اور مایۂ ناز کمانڈر عالم ملکوت کی جانب پرواز کر گئے۔گزشتہ شب شہدا کی پاکیزہ ارواح نے قاسم سلیمانی کی پاکیزہ روح کو اپنی آغوش میں لیا۔دنیا کے شیطانوں اور شرپسندوں کے مقابلے  میں برسوں کی مخلصانہ اور شجاعانہ جد و جہد اور راہ خدا میں شہید ہونے کی انکی آرزو رنگ لائی اور سلیمانی کو اس بلند و بالا مقام سے ہمکنار کیا اور ان کا خون بشریت کے شقی ترین افراد کے ہاتھوں زمین پر بہا دیا گیا۔

میں اس عظیم شہادت پر حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ اور خود شہید کی روح کی خدمت میں مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایرانی عوام کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں۔

وہ مکتب اسلام اور مکتب خمینی کے ہاتھوں پروان چڑھنے والوں میں ایک نمایاں چہرہ تھے جنہوں نے اپنی تمام تر عمر راہ خدا میں جہاد کرتے ہوئے گزاری۔

برسوں پر مشتمل انکی انتھک جدو جہد کا پھل انہیں شہادت کی شکل میں ملا اور ان کے چلے جانے سے بلطف و اذن خدا ان کا مشن رکنے اور تعطل کا شکار ہونے والا نہیں ہے۔مگر سخت انتقام ان مجرموں کے انتظار میں ہے جنہوں نے اپنے ناپاک ہاتھوں کو انکے اور گزشتہ شب شہید ہونے والوں کے خون سے رنگا ہے۔

شہید سلیمانی مزاحمتی و استقامتی محاذ کا ایک بین الاقوامی چہرہ ہیں اور اس محاذ سے وابستہ تمام افراد انکی خونخواہی اور انتقام کے طالب ہیں۔

سبھی دوست اور سبھی دشمن یہ سمجھ لیں کہ مزاحمت و استقامت کی راہ مزید مستحکم عزم و حوصلے کے ساتھ جاری و ساری رہے گی اور یقینی طور پر کامیابی اس مبارک راہ میں گامزن رہنے والوں کے قدم چومے گی۔

ہمارے عزیز اور جانثار کی شہادت ہمارے لئے تلخ ضرور ہے مگر آخری کامیابی کے حصول تک اپنی جد و جہد قاتلوں اور مجرموں کے لئے اِس سے کہیں زیادہ تلخ ثابت ہوگی۔

ایرانی عوام شہید والا مقام میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ہمراہ شہید ہونے والوں بالخصوص عظیم مجاہدِ اسلام جناب ابو مہدی المہندس کی قدرداں رہیں گے۔

میں ملک میں تین روزہ عام سوگ کا اعلان کرتا ہوں اور ان کی اہلیہ، ان کے بچوں اور دیگر اعزا و اقارب کو مبارکباد اور تعزیت پیش کرتا ہوں۔

سید علی خامنہ ای

۱۳ دی ۱۳۹۸ مطابق ۳ جنوری

9 دی ماہ مطابق 30 دسمبر 2019 کی عظیم الشان ملک گیر ریلیوں میں ایرانی عوام اپنی تاریخی اور بھرپور شرکت سے پوری دنیا پر ثابت کریں گےکہ وہ اپنے انقلاب اور رہبر کے وفادار ہیں اور دل و جان سے اس راہ میں قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں۔ اس موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کی فضا عالمی سامراجی عناصر خاص طور سے امریکہ کے خلاف فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھے گی۔

نو دی ماہ مطابق تیس دسمبر کی تاریخ استقلال و آزادی اور ایرانی عوام کی بصیرت کے مظاہرے کا دن ہے جو اسلامی اصولوں اور انقلابی امنگوں کی راہ میں ڈٹ گئے اور ببانگ دہل اعلان کیا کہ اگر دشمن ان کے دین کے مقابلے میں آیا تو وہ  پوری دنیا کے سامنے ڈٹ جائیں گے۔

اس دن کو ایران کی اسلامی انقلاب کی تاریخ میں یوم اللہ قرار دیا گیا اس لئے کہ اس تاریخی دن اور اہم موقع پر ایرانی قوم نے جو ہمیشہ اسلامی اور انقلابی امنگوں کے راستے پر گامزن رہی ہے ایک اور عظیم کارنامہ انجام دیا۔

آج کی تاریخ میں ایرانی عوام نے میدان عمل میں اپنی بھرپور موجودگی کے ساتھ فتنہ پرور عناصر کے عزائم پسپا کرتے ہوئے اسلامی جمہوری نظام کی حمایت کا اعلان اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی رح اور رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی اعلی و ارفع امنگوں سے تجدید عہد کیا۔

اس دن ایرانی عوام نے فتنہ پرور عناصر کو شکست دیتے ہوئے اہم کامیابی حاصل کی اور دارالحکومت تہران اور ایران کے مختلف بڑے چھوٹے شہروں میں جوش و ولولے کے ساتھ باہر نکل کر پوری دنیا کے لوگوں کو اپنے پختہ عزم و ارادےسے آگاہ کیا کہ وہ اسلامی و انقلابی امنگوں اور اس مقدس راہ پر گامزن ہیں اور ان امنگوں کا کبھی  بھی سودا نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ آج کی یہ تاریخ 30 دسمبر2009  کو اس سازش کی یاد دلاتی ہے جسے ایران کے غیور اور انقلابی قوم نے اپنی ہوشیاری، آگاہی اور بصیرت افروز اقدامات سے ناکام بنا اور امریکہ اور اس کے آلہ کاروں کو ایک بار پھر ذلت آمیز شکست سے دوچار کر دیا۔ کیونکہ دشمن اس بار ایران کے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کا بہانہ بنا کر ایران کے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا تھا جس میں اسے ایک بار پھر منہ کی کھانی پڑی اور ایرانی عوام اور قوم ایک بار پھر سے سرخرو ہوئی۔

بلاشبہ اگر رہبر انقلاب اسلامی کی عظیم بصیرت و درایت اور عوام کی حمایت و ہوشیاری نہ ہوتی اور ایرانی عوام ولایت فقیہ کے ہمراہ نہ ہوتے تو فتنے کی آگ اتنی جلدی خاموش نہ ہو جاتی اور ملک کے لئے منفی نتائج برآمد ہونے لگتے۔ مگر اس حساس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی کی گرانقدر تدبیر و بصیرت اور رہنمائی کے نتیجے میں پوری قوم دشمنوں کی جانب سے پیدا کئے جانے والے فتنے میں اسیر ہونے سے بچ گئی اور اپنی راہ جاری رکھنے پر گامزن ہو گئی۔

قابل ذکر ہے کہ نو دے ماہ مطابق تیس دسمبر2009 کو ایران کے انقلابی عوام نے سڑکوں پر نکل کر ایران کی اسلامی و انقلابی تاریخ میں اس دن کو یادگار دن بنا دیا اور فتنے کی بساط لپیٹ کر رکھ دی۔

جمہوریہ ایران کے انقلابی گارڈز سپاہِ پاسداران نے عراقی سرکاری افواج کی اہم ترین رکن اسلامی مزاحمتی فورس حشد الشعبی کے فوجی مراکز پر ہونے والے امریکی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ تہران سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جارح دہشتگرد امریکی فورسز کیطرف سے حشد الشعبی کے فوجی مراکز پر ہونے والے ہوائی حملے، جو عراقی عوامی اسلامی مزاحمتی محاذ کے مجاہدین کی ایک بڑی تعداد کے شہید و زخمی ہو جانے کا سبب بنا ہے، عراق کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقوعے نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ خطے میں ناامنی، ہرج و مرج، افراتفری اور جنگی جنون کی اصلی جڑ خود امریکہ ہے۔

سپاہ پاسداران کے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ حشد الشعبی، اسلامی مزاحمتی محاذ کی مقدس اور اصلی ترین فورسز میں سے ایک ہے، داعش اور تکفیری دہشتگردی کیخلاف جس کی لازوال اور فیصلہ کن دلیری کو عراقی عوام نہ صرف کبھی بھول نہیں پائیں گے بلکہ عراقی عوام اپنی سرزمین پر موجود ناامنی اور غیر ملکی طاقتوں کیساتھ مقابلے میں اسی کو اپنے لئے نمونۂ عمل بھی سمجھتے ہیں۔ سپاہ پاسداران کے اس بیان میں دہشتگرد امریکی فورسز کیطرف سے انجام دیئے گئے اس جارحانہ و مجرمانہ اقدام کی شدید مذمت کی گئی ہے اور حشد الشعبی کے غیور و دلیر مجاہدین کی شہادت پر اعلیٰ دینی مرجعیت، مظلوم عوام، عراقی حکومت اور عوامی اسلامی مزاحمتی فورسز کے کمانڈرز کو تسلیت بھی پیش کی گئی ہے۔

سپاہ پاسداران کیطرف سے جاری ہونے والے اس بیان میں عراق سے دہشتگرد و جارح امریکی فورسز کے نکال باہر کئے جانے کو عراقی اندرونی استحکام کی ضمانت قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ کوئی بھی آزاد و خود مختار قوم اپنے سپوتوں کو غیروں کی جارحیت اور سفاکیت کی بھینٹ چڑھتے نہیں دیکھ سکتی اور یہی وجہ ہے کہ غیور عراقی عوام اور تمام میدانوں کی فاتح حشد الشعبی تمامتر بین الاقوامی قوانین کی رو سے امریکہ کے اس مجرمانہ اقدام کا بھرپور جواب دینے اور اپنا انتقام چکانے کا پورا حق رکھتی ہے۔ اس بیان کے آخر میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی قاتل غاصب صیہونی رژیم اسرائیل، شیطانِ بزرگ دہشتگرد امریکہ کے اس مجرمانہ اقدام پر خوشیاں نہ منائے کیونکہ اب عظیم اسلامی امت، مزاحمتی محاذوں پر اپنے جوانوں کی قیمت سے بخوبی آشنا ہوچکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پوری امتِ مسلمہ اپنے صیہونی مخالف مقدس ارادے کو عنقریب ایک عظیم عملی اقدام میں بدلنے والی ہے۔

 

۔

 

 
:جس طرح مسلمانوں کے کفر کا فتویٰ دینا قرآن مجید کے مخالف ہے اسی طرح سنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی مخالف ہے اس بارے میں ہم یہاں پہ اہل سنت کی معتبر ترین کتب کے اندر موجود احادیث میں سے فقط چند ایک کی طرف اشارہ کریں گے ۔
الف) مسلمانوں کی تکفیر سے شدید ممانعت :
حضرت علی علیہ السلام اور حضرت جابر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
''...اہل لا الہ الا اللہ لاتکفروھم بذنب ولا تشہد وا علیھم بشرک ''(١)
لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کو گناہ کی وجہ سے مت تکفیر کرو اور ان پر شرک کی تہمت نہ لگاؤ۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں : میں نے رسول خدا ۖ سے سنا آپ نے فرمایا:
'' لا تکفروا احدا من اہل القبلة بذنب وان عملوا بالکبائر''()
اہل قبلہ میں سے کسی کو گناہ کے سبب تکفیر نہ کرو اگر چہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو ۔(٢)
--------------
(١)المعجم الاوسط ٥:٩٦ ؛ مجمع الزوائد ١: ١٠٦.
(٢)مجمع الزوائد ١: ١٠٦و١٠٧.

ب: دوسروں کو تکفیر کرنے والے کا کفر
بخاری نے ابو ذر سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے سنا آپ ۖنے فرمایا:
''لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر الا ارتدت علیہ ، ان لم یکن صاحبہ کذلک ''(1)
اگر کوئی شخص دوسرے کو گناہ یا کفر سے متہم کرے جب کہ وہ شخص گنہگار یا کافر نہ ہو تو وہ گناہ و کفر خود تہمت لگانے والے کی طرف پلٹے گا ۔
عبد اللہ بن عمر نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
'2ایما رجل مسلم کفر رجلا مسلما فان کان کافرا والا کان ھو الکافر ''.()
جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور وہ مسلمان کافر نہ ہوتو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا ۔
نیز عبد اللہ بن عمر نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ کہ آپ ۖنے فرمایا:
--------------

(1صحیح بخاری ٧:٦٠٤٥٨٤، کتاب الادب ، باب ماینھیٰ من السباب واللعن.
(2)کنز العمال ٣:٦٣٥از سنن ابی دادؤو مسند احمد ٢:٢٢.تھوڑے سے فرق کے ساتھ .

''کفوا عن اہل لا الہ الا اللہ لا تکفروھم بذنب من اکفر اہل لا الہ الا اللہ فھوا لی الکفر اقرب ''۔(١)
لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے دست بردار ہو جاؤ اور انھیں گناہ کی وجہ سے تکفیر نہ کرو۔ جو شخص اہل توحید کی طرف کفر کی نسبت دیتا ہے وہ خود کفر سے نزدیک تر ہے ۔

ج:اہل قبلہ کے قتل کی حرمت
صحیح بخاری نے انس بن مالک کے واسطے سے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
''من صلی صلاتنا ، واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذی لہ ذمة اللہ وذمة رسولہ فلا تخفروااللہ فی ذمتہ ''.( ٢)
جو ہماری طرح نماز پڑھے، قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارے ذبح شدہ حیوانات کا گوشت کھائے تو وہ مسلمان اور خدا و رسول ۖ کی پناہ میں ہے پس عہد خدا کو نہ توڑو۔

د: خوف سے اسلام لانے والے کے قتل کی حرمت
صحیح مسلم نے اسامنہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : پیغمبر اکرم ۖ
--------------

(١)معجم الکبیر١٢: ٢١١ ؛ مجمع الزوائد ١:١٠٦ ؛ فیض القدیر شرح جامع الصغیر ٥: ١٢ ؛ جامع الصغیر ٢ : ٢٧٥؛ کنز العمال ٣: ٦٣٥.
(٢) صحیح بخاری ١:٣٩١١٠٢، کتاب الصلاة ، باب فضل استقبال القبلة .

نے ہمیں ایک قبیلہ کے ساتھ جنگ کے لئے بھیجا ، صبح کے وقت ہم اس قبیلہ کے پاس پہنچے ۔ میں نے ایک شخص کا پیچھا کیا تو اس نے کہا : '' لا الہ الا اللہ ''مگر میں نے نیزہ مار کر اسے قتل کر ڈالا ۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلط کام کیا ہے ، پیغمبر ۖ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا:''اقال لا الہ الا اللہ وقتلتہ ''کیا تونے اسے ''لا الہ الا اللہ ''کہنے کے باوجود قتل کردیا ؟
میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ۖ !اس نے اسلحہ کے خوف سے کلمہ پڑھا۔ آنحضرت نے فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ پیغمبر ۖ نے اس بات کا اس قدر تکرار کیا کہ میں آرزو کرنے لگا کہ اے کاش! آج ہی کے دن پیدا ہوا ہوتا ( اوراس عظیم گناہ کا ارتکاب نہ کرتا )
سعد بن وقاص کہتاہے : میں اس وقت تک کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک اسامہ اسے قتل نہ کرے ایک شخص نے کہا : کیا خداوند متعال نے یہ نہیں فرمایا: ( وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کلہ اللہ )اور کافروں کو قتل کر و یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین فقط خد اہی کا رہ جائے ۔
سعد نے کہا: ہم اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ فتنہ ختم ہو جب کہ تم اور تمہارے ساتھی اس لئے لڑتے ہوتاکہ فتنہ برپاکرسکو ۔(١)
-----v

 

۔

 

 
:جس طرح مسلمانوں کے کفر کا فتویٰ دینا قرآن مجید کے مخالف ہے اسی طرح سنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی مخالف ہے اس بارے میں ہم یہاں پہ اہل سنت کی معتبر ترین کتب کے اندر موجود احادیث میں سے فقط چند ایک کی طرف اشارہ کریں گے ۔
الف) مسلمانوں کی تکفیر سے شدید ممانعت :
حضرت علی علیہ السلام اور حضرت جابر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
''...اہل لا الہ الا اللہ لاتکفروھم بذنب ولا تشہد وا علیھم بشرک ''(١)
لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کو گناہ کی وجہ سے مت تکفیر کرو اور ان پر شرک کی تہمت نہ لگاؤ۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں : میں نے رسول خدا ۖ سے سنا آپ نے فرمایا:
'' لا تکفروا احدا من اہل القبلة بذنب وان عملوا بالکبائر''()
اہل قبلہ میں سے کسی کو گناہ کے سبب تکفیر نہ کرو اگر چہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو ۔(٢)
--------------
(١)المعجم الاوسط ٥:٩٦ ؛ مجمع الزوائد ١: ١٠٦.
(٢)مجمع الزوائد ١: ١٠٦و١٠٧.

ب: دوسروں کو تکفیر کرنے والے کا کفر
بخاری نے ابو ذر سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے سنا آپ ۖنے فرمایا:
''لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر الا ارتدت علیہ ، ان لم یکن صاحبہ کذلک ''(1)
اگر کوئی شخص دوسرے کو گناہ یا کفر سے متہم کرے جب کہ وہ شخص گنہگار یا کافر نہ ہو تو وہ گناہ و کفر خود تہمت لگانے والے کی طرف پلٹے گا ۔
عبد اللہ بن عمر نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
'2ایما رجل مسلم کفر رجلا مسلما فان کان کافرا والا کان ھو الکافر ''.()
جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور وہ مسلمان کافر نہ ہوتو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا ۔
نیز عبد اللہ بن عمر نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ کہ آپ ۖنے فرمایا:
--------------

(1صحیح بخاری ٧:٦٠٤٥٨٤، کتاب الادب ، باب ماینھیٰ من السباب واللعن.
(2)کنز العمال ٣:٦٣٥از سنن ابی دادؤو مسند احمد ٢:٢٢.تھوڑے سے فرق کے ساتھ .

''کفوا عن اہل لا الہ الا اللہ لا تکفروھم بذنب من اکفر اہل لا الہ الا اللہ فھوا لی الکفر اقرب ''۔(١)
لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے دست بردار ہو جاؤ اور انھیں گناہ کی وجہ سے تکفیر نہ کرو۔ جو شخص اہل توحید کی طرف کفر کی نسبت دیتا ہے وہ خود کفر سے نزدیک تر ہے ۔

ج:اہل قبلہ کے قتل کی حرمت
صحیح بخاری نے انس بن مالک کے واسطے سے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا:
''من صلی صلاتنا ، واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذی لہ ذمة اللہ وذمة رسولہ فلا تخفروااللہ فی ذمتہ ''.( ٢)
جو ہماری طرح نماز پڑھے، قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارے ذبح شدہ حیوانات کا گوشت کھائے تو وہ مسلمان اور خدا و رسول ۖ کی پناہ میں ہے پس عہد خدا کو نہ توڑو۔

د: خوف سے اسلام لانے والے کے قتل کی حرمت
صحیح مسلم نے اسامنہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : پیغمبر اکرم ۖ
--------------

(١)معجم الکبیر١٢: ٢١١ ؛ مجمع الزوائد ١:١٠٦ ؛ فیض القدیر شرح جامع الصغیر ٥: ١٢ ؛ جامع الصغیر ٢ : ٢٧٥؛ کنز العمال ٣: ٦٣٥.
(٢) صحیح بخاری ١:٣٩١١٠٢، کتاب الصلاة ، باب فضل استقبال القبلة .

نے ہمیں ایک قبیلہ کے ساتھ جنگ کے لئے بھیجا ، صبح کے وقت ہم اس قبیلہ کے پاس پہنچے ۔ میں نے ایک شخص کا پیچھا کیا تو اس نے کہا : '' لا الہ الا اللہ ''مگر میں نے نیزہ مار کر اسے قتل کر ڈالا ۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلط کام کیا ہے ، پیغمبر ۖ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا:''اقال لا الہ الا اللہ وقتلتہ ''کیا تونے اسے ''لا الہ الا اللہ ''کہنے کے باوجود قتل کردیا ؟
میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ۖ !اس نے اسلحہ کے خوف سے کلمہ پڑھا۔ آنحضرت نے فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ پیغمبر ۖ نے اس بات کا اس قدر تکرار کیا کہ میں آرزو کرنے لگا کہ اے کاش! آج ہی کے دن پیدا ہوا ہوتا ( اوراس عظیم گناہ کا ارتکاب نہ کرتا )
سعد بن وقاص کہتاہے : میں اس وقت تک کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک اسامہ اسے قتل نہ کرے ایک شخص نے کہا : کیا خداوند متعال نے یہ نہیں فرمایا: ( وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کلہ اللہ )اور کافروں کو قتل کر و یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین فقط خد اہی کا رہ جائے ۔
سعد نے کہا: ہم اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ فتنہ ختم ہو جب کہ تم اور تمہارے ساتھی اس لئے لڑتے ہوتاکہ فتنہ برپاکرسکو ۔(١)
-----v

مریکی کی گورننگ باڈی سمجھ چکی ہے کہ ان کا ملک آج ـ کسی بھی وجہ سے ـ بڑی طاقت ہونے کے لوازمات سے محروم ہے اور عروج کے دور کی طرف پلثنا ناممکن اور ان کی رسائی سے خارج ہے۔

رہبر معظم کے نمائندے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری ایڈمرل علی شمخانی نے اپنی مختصر یادداشت میں لکھا:

1۔ گذشتہ دو مہینوں کے دوران امریکی حکام کے تین واضح اعلانات ایسے حقائق کو آشکار کررہے ہیں کہ امریکی حکمران نظام اس سے قبل اننہیں تسلیم کرنے اور ان کا اعلان کرنے کی جرات نہیں رکھتا تھا۔

2۔ سعودی عرب میں آرامکو تیل کمپنی کی تنصیبات پر یمنیوں کے ڈرون حملے اور حملہ کرنے والوں کے خلاف رد عمل دکھانے کے لئے امریکیوں پر سعودی دربار کی طرف سے شدید دباؤ کے بعد امریکی حکام نے دوٹوک الفاظ میں ان کا دباؤ مسترد کردیا اور صاف صاف کہا گیا کہ اس حملے میں سعودی عرب نشانہ بنا ہے اور امریکہ نشانہ نہیں بنا ہے۔

3۔ خطے میں پے درپے سیاسی اور عسکری ناکامیوں اس عجیب حقیقت کی رونمائی عمل میں آئی کہ امریکہ نے اس خطے میں اپنی فوجی موجودگی پر آٹھ کھرب ڈالر خرچ کر ڈال ہیں اور اعلان ہوا کہ مشرق وسطی میں امریکی مداخلت مکمل طور پر بےفائدہ اور بےثمر تھی اور امریکی اقدامات حماقت پر مبنی تھے۔

4۔ چند روز قبل شام پر ترکی جارحیت اور امریکیوں کی طرف سے اس ملک کے کرد اتحادیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے بعد، امریکی حکام نے اعتراف کیا کہ ان کے ملک نے وسیع سطح پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے جھوٹے الزام کی بنیاد پر عراق پر خونریز جنگ مسلط کی تھی اور یہ کہ مشرق وسطی کے جال میں پھنس جانے کا امریکی فیصلہ اس ملک کی تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا۔

5۔ لگتا ہے کہ امریکی حکمران عینی اور زمینی تجربات کی بنیاد پر اس نتیجے پہنچنے ہیں کہ دنیا کی طاقت کا قاعدہ اور سیاست کا حساب و کتاب بدل گیا ہے اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ اپنی بھاری بھرکم تشہیری مہم کے باوجود، مزید، بین الاقوامی نظام کے تمام معاملات پر اپنی فوقیت اور تسلط کا دعوی نہیں کرسکتا۔

6۔ امریکہ سمجھ گیا ہے کہ اب اس کے سامنے صرف دو راستے ہیں یا صرف یہ کہ بھاری اخراجات برداشت کرکے بڑی طاقت کی خالی خولی پھیکی تصویر سینے پر سجاکر خوش ہوا کرے یا پھر حقیقت پسندی کی راہ اپنا کر عالمی حقیقت حال کو تسلیم کرے اور اس احمقانہ نمائش پر کھربوں کے اخراجات سے جان چھڑائے۔

7- بہتر بیان یہ کہ، امریکہ کی گورننگ باڈی کو اس حقیقت کو بھانپ گئی ہے کہ یہ ملک آج ـ کسی بھی وجہ سے ـ (مزید) بڑی طاقت ہونے کے اوزاروں اور وسائل سے محروم ہوچکا ہے اور عروج کے دور کی طرف پلٹنا ناممکن اور ان کی رسائی سے خارج ہے۔ "مشرق وسطی کی تقسیم در تقسیم"، "صدی کی ڈیل"، "ایران کے نظام حکومت کی تبدیلی"، "علاقے میں سعودی عرب کو پولیس مین کا عہدہ سونپنے"، "یمن کی جنگ"،"افغانستان میں امن" "شام کے بحران" جیسے تزویری منصوبوں میں امریکہ کی مکمل ناکامی پوری دنیا کے لئے ثابت ہوچکی ہے۔

8۔ امریکی گورننگ باڈی کے نہایت تلخ مگر عبرت آموز اعترافات مغربی ایشیا کے بہت سے ممالک ـ بالخصوص وہ جو عشروں سے اس علاقے میں امریکی مداخلت کے لئے راستہ ہموار کرتے آئے ہیں اور امریکیوں کے میزبان رہے ہیں ـ اس عمومی اقرار کا سبب ہوئے ہیں کہ "مشرق وسطی کے بغیر زیادہ پرامن علاقہ ہے"۔

علی شمخانی

افغان طالبان کے ایک سابق رہنما سید آغا اکبر نے کہا ہے کہ اگر امریکہ افغانستان میں جنگ بندی کا خواہاں ہے تو اسے امن معاہدے پر دستخط کرنے چاہییں۔۔ مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں سید آغا اکبر نے کہا کہ طالبان امن کے خواہاں ہیں ۔ ہم افغانستان کے انتخابات کو جائز نہیں سمجھتے۔ طالبان کے سابق رہنما نے کہا کہ امریکہ اپنے قول اور فعل میں سچا نہیں ، امریکہ متضاد پالیسیوں پر عمل کرتا ہے۔ امریکہ افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں ۔  اکبر نے کہا کہ امریکہ افغانستان کے جعلی انتخابات کی حمایت کرتا ہے جبکہ یہ انتخابات باہمی معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ اس نے کہا کہ امریکہ مذاکرات میں سچا نہیں اور وہ خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی پالیسیوں پر گامزن ہے۔

اکبر نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں حقیقی جنگ بندی کرسکتا ہے لیکن وہ کرنا نہیں چاہتا وہ اپنی متضاد اور معاندانہ پالیسیوں پر گامزن ہے۔ اس نے کہا کہ افغانستان کے 95 فیصد عوام امن چاہتے ہیں۔

رسول خدا (ص) اور ا ئمہ معصومين عليہم اسلام اخلاق حسنہ كى اعلى ترين مثاليں ہيں اور يہ بے مثال "" حُسن خلق ""ان كے كردار اور گفتار سے عياں تھا_ ان ہى عظیم شخصيتوں كے ارشادات كى روشنى ميں ہم ""حُسن خلق"" كے اعلى درجہ پر فائز ہو سكتے ہيں_ چنانچہ ہم يہاں اُن كے ارشادات سے چند نمونے پيش كر رہے ہيں تاكہ وہ ہمارى زندگى كے لئے مشعل راہ بن جائيں : رسول خدا (ص) نے صحابہ كو مخاطب كركے فرمايا :
""كيا ميں تمہيں وہ چيز نہ بتائوں كہ اخلاق كے لحاظ سے تم ميں سے كون مجھ سے زيادہ مشابہ ہے ؟ صحابہ نے عرض كى : ""اے اللہ كے رسول (ص) ضرور بتايئے_"" تو آپ (ص) نے فرمايا :
""جس كا اخلاق بہت اچھا ہے""_1
آپ (ص) ہى كا ارشاد گرامى ہے:
""خوش نصيب ہے وہ شخص جو لوگوں سے خوش خلقى سے ملتا ہے " ان كى مدد كرتا ہے اور اپنى برائي سے انہيں محفوظ ركھتا ہے""_2
امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں:
""خداوند عالم نے اپنے ايك پيغمبر كو مخاطب كركے فرمايا :
""خوش خلقى گناہوں كو اُسى طرح ختم كرديتى ہے جس طرح سورج برف كو پگھلا ديتا ہے""_3
آپ (ع) ہى كا ارشاد ہے:
""بے شك بندہ اپنے حسن اخلاق سے دن كو روزہ ركھنے والے اور رات كو نماز قائم كرنے والے كا درجہ حاصل كرليتا ہے""_4

3)_اخلاق معصومين (ع) كے چند نمونے:
ہمارے معصوم رہبروں (ع) نے جس طرح ""اخلاق حسنہ"" كے بارے ميں نہايت ہى سبق آموز ارشادات فرمائے ہيں " اسى طرح دوست اور دشمن كے سامنے نيك اخلاق كے بہترين على نمونے بھى پيش كئے ہيں; ملاحظہ كيجئے:

1_انس (پيغمبر اكرم (ص) كے خادم) سے مروى ہے كہ : ميں نے رسالت مآب (ص) كى نو سال تك خدمت كى "ليكن اس طويل عرصے ميں حضور (ص) نے مجھے حتى ايك بار بھى يہ نہيں فرمايا: ""تم نے ايسا كيوں كيا؟"" _ ميرے كسى كام ميں كبھى كوئي نقص نہيں نكالا، ميں نے اس مدت ميں آنحضرت (ص) كى خوشبو سے بڑھ كر كوئي اور خوشبو نہيں سونگھي، ايك دن ايك باديہ نشين (ديہاتي) آيا اور آنحضرت (ص) كى عبا كو اتنى زور سے كھينچا كہ عبا كے نشان آپ (ص) كى گردن پر ظاہر ہوگئے_ اس كا اصرار تھا كہ حضور اكرم (ص) اسے كوئي چيز عطا فرمائيں_ رسالت مآب (ص) نے بڑى نرمى اور مہربانى سے اُسے ديكھا اور مسكراتے ہوئے فرمايا:
""اسے كوئي چيز دے دو""_
چنانچہ خداوند عالم نے يہ آيت نازل فرمائي:
""انّك لَعلى خُلق: عظيم"" 5
""بے شك آپ اخلاق (حسنہ) كے اعلى درجہ پر فائز ہيں""_

2_حضرت امام زين العابدين _ كے قريبى افراد ميں سے ايك شخص آپ (ع) كے پاس آيا اور بُرا بھلا كہنے لگا " ليكن آپ (ع) خاموش رہے ، جب وہ شخص چلا گيا تو امام (ع) نے حاضرين كو مخاطب كركے فرمايا:
""آپ لوگوں نے سن ليا ہوگا كہ اس شخص نے مجھ سے كيا كہا ہے اب ميں چاہتا ہوں كہ آپ ميرے ساتھ چليں اور ميرا جواب بھى سن ليں""_
امام عليه السلام راستے ميں اس آيت كى تلاوت فرماتے جارہے تھے:
""و الكاظمين الغيظ والعافين عن الناس واللہ يحب المحسنين ""6
""جو لوگ غصے كو پى جاتے ہيں اور لوگوں كو معاف اور درگذر كرديتے ہيں اوراللہ تعالى ايسے احسان كرنے والوں كو دوست ركھتا ہے""_
ساتھيوں نے سمجھ ليا كہ امام (ع) آيت عفو كى تلاوت فرما رہے ہيں، لہذا اسے كوئي تكليف نہيں پہنچائيں گے ،جب اس كے گھر پہنچے تو امام (ع) نے اس كے خادم سے فرمايا :
كہ اپنے مالك سے كہدو كہ على ابن الحسين عليه السلام تمہيں بلا رہے ہيں_
جب اس شخص نے سنا كہ امام (ع) فوراً ہى اس كے پاس آئے ہيں تو اس نے دل ميں كہا كہ يقينا حضرت (ع) مجھے ميرے كئے كى سزا ديں گے اور اس كا انتقام ليں گے_ چنانچہ اس نے يہ سوچ كر خود كو مقابلہ كے لئے تيار كرليا، ليكن جب باہر آيا تو امام (ع) نے فرمايا :
""ميرے عزيز تم نے اب سے كچھ دير پہلے ميرے متعلق كچھ باتيں كہى تھيں " اگر يہ باتيں مجھ ميں پائي جاتى ہيں تو خدا مجھے معاف كرے" اور اگر ميں اُن سے پاك اور بَرى ہوں تو خدا تمہيں معاف كرے""_
اُس شخص نے جب يہ سنا تو بہت شرمندہ ہوا " امام (ع) كى پيشانى پر بوسہ ديا اور معافى مانگنے لگا اور عرض كى :""ميں نے جو كچھ كہا " غلط كہا" بے شك آپ (ع) ايسى باتوں سے پاك ہيں"ہاں " ميرے اندر يہ باتيں موجود ہيں ""_7

حوالہ جات:

1_ اصول كافى (مترجم ) ج2، ص 84يا تحف العقول ص48
2_ تُحف العقول ، ص28
3_ تحف العقول _ ص 28_ بحارالانوار ج 71، ص 383
4_ وسائل الشيعہ ج8، ص 56_ تحف العقول ص 48
5_منتہى الآمال، ج ا ، ص 31_ سورہ قلم ، آيت 4
6 _ سورہ آل عمران آيت 134
7_منتہى الآمال، ج3 ، ص 5_ مطبوعہ انتشارات جاويدان

 ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے کوالالمپور کنونشن سنٹر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے سمٹ میں شرکت نہ کرنے کی اپنی وجوہات ہیں، عمران خان کا فیصلہ ان کی مرضی ہے اور ہم انہیں شرکت کے لیے مجبور نہیں کرسکتے۔ مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ اسلام میں کوئی زور زبردستی نہیں، وہ شرکت نہیں کرسکے، شاید انہیں کچھ اور مسائل کا سامنا ہو، عالم اسلام کو درپیش مسائل پر بات چیت کی جائے گی، کانفرنس میں 50 سے زیادہ ممالک کو مدعو کیا گیا ہے، جن میں سربراہان مملکت بھی شامل ہیں۔ مہاتیر محمد نے مزید کہا کہ اس اجلاس میں مذہب اسلام پر بحث نہیں کی جائے گی بلکہ امت مسلمہ پر بات ہوگی، جو آج زیادہ سے زیادہ دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالا لمپور میں مسلم ممالک کے رہنماؤں کی سمٹ کا آغاز ہوگیا ہے، جس میں 20 ریاستوں کے رہنماء جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں لیکن سعودی عرب اور پاکستان غیر حاضر ہیں۔ اجلاس میں عالمی سطح پر مسلم ریاستوں اور مسلمانوں کو درپیش بحرانوں اور پریشان کن موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد اس بات کا کھلے عام اظہار کرچکے ہیں کہ او آئی سی مسلم امہ کے مفادات کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے، اس لیے نیا اتحاد او آئی سی کا متبادل ثابت ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب نے اس سمٹ کے انعقاد پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کا نیا اسلامی بلاک مسلم دنیا میں اس کے کردار کو کم کرسکتا ہے، اسی تناظر میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے سعودی عرب کے متعدد دورے کیے ہیں۔