سلیمانی

سلیمانی

شہید جنرل قاسم سلیمانی کی صاحبزادی زینب سلیمانی نے پیر کے روز دارالحکومت تہران میں شہید جنرل قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی مہندس اور ان کے ساتھیوں کے جلوس جنازے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج میرے والد کی سوچ اور جہاد نے مزاحمتی فرنٹ کو ایک کامیاب مکتب میں تبدیل کردیا ہے، امریکہ کو جان لینا چاہیئے کہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) اور رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے مکتب فکرکے طلبا و طالبات جب تک زندہ ہیں تکفیریوں اور سامراجیوں کے بڑھتے ہوئے خوف اور بے چینی کا باعث ہوں گے.

جنرل سلیمانی کی بیٹی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور عراق کے درمیان جدائی کے لئے اپنی اسٹریٹیجک غلطی اور دو عظیم مجاہدوں کی شہادت کے ساتھ دونوں عوام کے تاریخی اتحاد اور امریکہ سے ہمیشہ کیلئے نفرت کا باعث بن گیا.

انہوں نے کہا کہ امریکی فوجیوں کے اہلخانہ جو مغربی ایشیا سمیت شام، عراق، لبنان، افغانستان، یمن اور فلسیطن میں امریکی ذلت کو دیکھ  چکے ہیں اب اپنے فرزندوں کی موت کے دن بھی دیکھ لیں گے۔

شہید سلیمانی کی بیٹی نے رہبرانقلاب اسلامی سے تجدید عہد کرتے ہوئے کہا کہ اے رہبرانقلاب: شہید سلیمانی کی اولادیں ہمیشہ آپ کی مطیع وہ فرمانبردار اور راہ اسلام ولایت میں سرفروشی کے لئے آمادہ ہیں ۔

 
 
Tuesday, 07 January 2020 04:11

شھید

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تہران یونیورسٹی میں شہید میجر جنرل قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی مہندس اور ان کے دیگر شہید ساتھیوں کے پاک پیکروں پر نماز جنازہ ادا کی۔ شہید قاسم سلیمانی اور دیگر شہداء کی نماز جنازہ میں ایران کے صدر حسن روحانی، ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی اور ایرانی عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی سمیت ایران کے اعلی فوجی اور سول حکام نے بھی شرکت کی۔ تہران میں اسلام کے مایہ ناز شہداء کی تشییع جنازہ میں کئی ملین افراد نے شرکت کی۔

تحریر: محمد حسن جمالی

شہادت کا درجہ بہت بلند ہے، یہ ہر کس و ناکس کو نصیب نہیں ہوتا، اس عظیم مقام کو پانے کے لئے انسان کو بڑی محنت اور ریاضت کرنا پڑتی ہے، تمام آلودگیوں سے اپنے نفس کو پاک کرکے راہ خدا میں اخلاص سے جہاد کرنے کے نتیجے میں ہی انسان شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوسکتا ہے، اگر کرہ ارض کے مسلمانوں کو حقیقی معنوں میں شہادت کی فضیلت اور شہید کے عظیم مقام کا ادراک ہو جائے تو وہ سارے شہادت کی آرزو لے کر میدان جہاد میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی ضرور کوشش کرتے۔ تاریخ اسلام شہداء کی قربانیوں کے تذکرے سے بھری پڑی ہے، راہ حق کے مجاہدوں کے پاکیزہ لہو سے ہی اسلام کی آبیاری ہوئی ہے، بنی امیہ کے زمانے میں دین کا حقیقی چہرہ مسخ ہوچکا تھا، حق اور باطل کا تشخص مٹ چکا تھا، اسلام کی روح نکل چکی تھی، ایسے میں حسین ابن علی (ع) اور آپ کے باوفا اصحاب کی شہادت اور قربانی نے اس میں دوبارہ روح ڈالی، اسلام کو حیات نو بخشی، حق اور باطل کا چہرہ نمایاں کیا، مسلمانوں میں ایثار و فداکاری کا جذبہ پیدا کیا اور قیامت تک آنے والی نسل بشریت کو حریت، استقامت اور مقاومت کا عظیم درس دیا۔

 واقعہ کربلا کے بعد حریت پسند مسلمان کربلا والوں کے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ ایران کی سرزمین پر آج سے 42 سال قبل مکتب حسینی میں پرورش و تربیت پانے والی عظیم شخصیت امام خمینی نے اپنے جد بزرگوار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے داخلی و خارجی استکباری طاقتوں سے بھرپور مقابلہ کیا اور انقلاب اسلامی کو کامیابی سے ہمکنار کرایا، اس طرح آپ نے دنیائے بشریت کو ایک بار پھر اسلام کی حقانیت کا روش چہرہ دکھایا اور یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے کہ استکبار جہاں کی غلامی سے نجات پانے کا واحد راستہ میدان میں ڈٹ کر استقامت اور مقاومت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ چنانچہ محور مقاومت کو مستحکم کرنے کے لئے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی تاسیس 1357 ہجری شمسی میں حضرت امام خمینی (رہ) کے فرمان سے ہوئی، جس میں مکتب آل محمد کے تحصیل کردہ، اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ تربیت یافتہ، تقویٰ اور ایمان کی دولت سے مالا مال شجاع اور فداکار جوانوں کو بھرتی کیا، جن میں سے ایک شہید قاسم سلیمانی تھے۔

مکتب خمینی (رہ) کے پروردہ عظیم مجاہد اور امریکہ کی عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہیرو جنرل قاسم سلیمانی مسلسل چالیس سال استکبار جہاں کے ساتھ مجاہدت کرکے 3 جنوری 2020ء کو بغداد کی سرزمین پر جام شہادت نوش کرکے ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئے، یاد رہے کہ قاسم سلیمانی گرچہ ایران کی سرزمین پر پلے بڑھے تھے، اسی سرزمین سے آپ نے علمی، فکری اور جہادی تغذیہ حاصل کیا تھا، مگر آپ کی جہادی زندگی ہرگز ایران کے دفاع کی حد تک محدود نہ رہی بلکہ اسلام کے مراکز کی حفاظت کے لئے آپ نے اپنی زندگی وقف کر رکھی، یہی وجہ کہ پوری دنیا کے آزادی خواہان آپ کی شخصیت کو شیطان بزرگ امریکہ سمیت ظالم استکباری طاقتوں کے عزائم کو خاک میں ملانے والی مزاحمتی علامت کے طور پر جانے اور پہچانتے ہیں۔ آپ نے اپنی جنگی ماہرانہ خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر شام اور عراق میں شجرہ خبیثہ داعش کی بیخ کنی کرکے امریکا، اسرائیل اور بین الاقوامی صیہونیزم کو ذلت آمیزشکست سے دوچار کرانے میں بڑا کردار ادا کیا۔

پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ، صیہونی حکومت اور سعودی عرب داعش کو تشکیل دے کر علاقے میں شورش، جنگ و خونریزی اور بحران پیدا کرنے کے درپے تھے، مگر نصرت الہیٰ، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی حامنہ ای کی مدبرانہ قیادت، عراق کے بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کی رہنمائی، سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی بے مثال فوجی کمان، عراق و شام کی عوامی رضاکار فورس کے جہاد اور جذبہ شہادت، عراق اور شام کی حکومتوں کی ثابت قدمی نے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام اور برے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ مسلمانوں کی مساجد اور مقامات مقدسہ کی مسماری، بے گناہ انسانوں کا قتل عام، لوگوں کا سر قلم کرنا اور عام شہریوں کو زندہ جلا دینا، خبیث داعشی گروہ کے ناپاک اہداف میں شامل تھا۔

یہ نجس ٹولہ اسلام کو عقل اور فطرت انسانی کا مخالف، خوفناک و خشن مذہب کے طور پر دنیا میں متعارف کراکر اسلامی بیداری کی لہر کو روکنا چاہتا تھا، مگر سردار رشید اسلام شہید قاسم سلیمانی جیسے اسلام کے ہیروز نے نہ فقط ان کو پھلنے پھولنے نہیں دیا بلکہ عراق میں خلافت اسلامیہ کے قیام کی دعویدار داعش کے وجود کو ہی عراق و شام کی سرزمین سے مٹا دیا اور اس کا منفور چہرہ دنیا کے سامنے آشکار کرانے میں وہ کامیاب ہوئے۔ قاسم سلیمانی زندگی بھر فلسطین، یمن و کشمیر کے مظلومین سمیت عالم اسلام کے مظلوم مسلمانوں کی زبانی اور بعض جگہوں پر عملی حمایت کرتے رہے، جب دو دن پہلے ان کی شہادت کی خبر پوری دنیا کے میڈیا و سوشل میڈیا کی خبروں کی شہ سرخیوں میں چلنے لگی تو امریکہ اسرائیل اور ان کے دسترخوان پر پلنے والے ممالک کے ذمہ دار افراد نے دبے الفاظ میں بظاہر تو خوشی کا مظاہرہ کیا، لیکن ایرانی حکام کے ٹھوس بیانات، غم و غصے سے لبریز عوامی سمندر سے فضاء میں گونجنے والی فلک شگاف نعروں کی آواز، خصوصاً  ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا امریکہ کو کمر توڑ اور دندان شکن انتقامی کاروائی کرانے کا قاطعانہ بیان دیکھ اور سن کر ان کے حواس باختہ ہوچکے ہیں۔

ان پر اضطراب کی کیفیت طاری ہے، سخت پریشانی کی حالت میں ان کے دن رات گزر رہے ہیں، استکبار کی اس سے زیادہ حماقت اور کیا چیز ہوسکتی ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کو اپنے راستے سے ہٹا کر وہ سمجھ رہا ہے کہ اب وہ مشرق وسطیٰ میں سکھ کا سانس لے سکے گا، جہاں چاہے آسانی سے اپنے اہداف حاصل کرسکے گا، مگر اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ سپاہ پاسداران انقلاب کا ہر جوان قاسم سلیمانی ہے، چالیس سال پر مشتمل عرصہ میں شہید سلیمانی جوانوں کو مقاومت اور مجاہدت کی تربیت دے کر ہزاروں افراد کو مقاومت کے میدان میں اپنا وارث بنا کر چلے گئے ہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان کی شہادت کے فوراً بعد سردار قاآنی کو شہید کی جانشینی کے منصب پر فائز کیا گیا، جن میں شہید کی طرح دور اندیشی اور دشمنوں کی سازشوں کو بروقت بے نقاب کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے، وہ جنگی فنون میں ماہر ہونے کے علاوہ اس میدان میں طولانی تجربہ بھی رکھتے ہیں، انہوں نے کمان سنبھالتے ہی یہ جاندار اور شجاعانہ بیان دے کر امریکہ کو یاس و نامیدی سے دوچار کرکے اس کی پریشانی میں مزید اضافہ کر دیا کہ بہت جلد مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے جسد کے ٹکڑے دیکھیں گے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قاسم سلیمانی کی مظلومانہ شہادت نے بالعموم دنیا کے حریت و امنیت پسند انسانوں کے ذہنوں میں خاص طور پر ایرانی عوام کے ذہنوں میں امریکہ کے بارے میں موجود نفرت کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے اور شہید کے لہو کی حرارت ان کی رگوں کے خون میں شامل ہوکر قطعی طور وسیع پیمانے پر امریکہ سے انتقام لینے کی توانائی میں بدل چکی ہے۔ رہبر کبیر انقلاب کی نظر میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو احیاء کرکے دوبارہ اپنی جگہ استوار کرنے کا راستہ اسلام کے دشمنوں سے مقابلہ کرنا ہے، میدان میں سینہ تان کر مقاومت کرنا ہے، البتہ میدان جہاد میں وارد ہونے سے پہلے جوانوں کا علمی اور فکری طور پر مضبوط ہونا بہت ضروری ہےـ شہید قاسم سلیمانی علم، ایمان، تقویٰ، عبادت اور فداکاری میں کم نظیر تھے، وہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لئے پوری زندگی راہ حق میں جہاد کرتے رہے، بلاشبہ شہید سلیمانی مقاومت کا درخشان ستارہ ہیں۔
 
 
 

لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے امریکی ہوائی حملے میں سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی، حشد الشعبی کے نائب کمانڈر ابومھدی المھندس اور انکے ساتھیوں کی شہادت کے حوالے سے خطاب کیا۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ آج ہم نے اسلامی مزاحمتی محاذ کے عظیم کمانڈرز یعنی جنرل قاسم سلیمانی اور ابومھدی المھندس کو خراج شہادت پیش کرنے کیلئے یہ تقریب منعقد کی ہے جبکہ انکی شہادت کا یہ واقعہ نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے کی تاریخ میں ایک نیا باب ہے۔

سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اس جمعے کے روز جنرل قاسم سلیمانی جو اپنی جوانی کے وقت سے ہی ہمیشہ شہادت کی آرزو میں تھے اور اپنے عزیز دوست ابومھدی المھندس کے ہمراہ ہمیشہ گولیوں اور بمباری سے پُر جنگی میدانوں میں ہمیشہ حاضر رہتے تھے، اپنی آخری آرزو کو پہنچ گئے۔ انہوں نے کہا کہ میں انکے عظیم خاندان اور رشتہ داروں، خصوصا انکی اہلیہ محترمہ اور عزیز بیٹی کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ کے والد گرامی نے اپنی دیرینہ آرزو کو پا لیا ہے کیونکہ انکی یہ آرزو انکا مقصد ہی نہیں بلکہ انکا عشق بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ابومھدی المھندس بھی جب آخری مرتبہ ضاحیہ آئے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ داعش تقریبا ختم ہو چکی ہے اور جس نے بھی شہید ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ آپ میرے لئے دعا کریں کہ میں بھی شہادت جیسی عاقبت سے ہمکنار ہو جاؤں۔ انہوں نے کہا کہ میں انکی اہلیہ محترمہ اور بیٹیوں سے بھی یہی کہوں گا کہ وہ اپنی آرزو کو پہنچ گئے جبکہ ہم آپ کے درد میں برابر کے شریک ہیں۔

سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے اسلام میں شہادت کے مقام کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تہذیب اور ایمان میں شہادت دو نیک امور میں سے ایک ہے (فتح یا شہادت)۔ انہوں نے کہا کہ اس دنیا میں وہ بہترین مقام جس تک ہم پہنچ سکتے ہیں، شہادت ہے تاہم ہمارے خلاف وہ بڑے سے بڑا کام جو دشمن انجام دے سکتا ہے، یہ ہے کہ وہ ہمیں قتل کر دے جبکہ شہادت ہمارے لئے اعلی ترین ہدف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں شہید کمانڈرز اور انکے ساتھیوں کے جسم ایسے پاش پاش ہو کر گھل مل گئے تھے کہ انکے درمیان تمیز کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔

حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اس امریکی اقدام کی ماہیت کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی وزارت دفاع نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ امریکی صدر نے ذاتی طور پر اس کارروائی کا حکم دیا تھا لہذا آج ہم ایک واضح اور روشن جرم کیساتھ روبرو ہیں کیونکہ وہ جس نے حکم صادر کیا تھا، خود اقرار کر رہا ہے کہ میں نے یہ جرم انجام دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ کوئی مبہم دہشتگردانہ کارروائی نہیں جس پر تحقیقات کرنے کی ضرورت ہو بلکہ امریکی وزارت دفاع، فوج اور امریکی صدر کھلم کھلا اس جرم کے ارتکاب کا اعتراف کر رہے ہیں۔

سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے دوران جنرل قاسم سلیمانی کے علی الاعلان قتل کے سبب کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل جنرل قاسم سلیمانی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانیکی تمامتر امریکی سازشیں چاہے وہ کرمان میں انکے حسینیہ کے قریب گھر لے کر بمب نصب کرنے کی کارروائی ہو جس میں چار پانچ ہزار کے قریب لوگوں کی شہادت کا خطرہ تھا، یا کوئی اور کارروائی، سب ناکام ہو چکی تھیں لہذا اس مرتبہ امریکہ نے انہیں سرعام شہید کرنے کو انتخاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسکی دوسری وجہ خطے میں امریکہ کی مسلسل شکستیں، اسلامی مزاحمتی محاذ کی مسلسل فتوحات، عراق کی بدلتی صورتحال اور امریکی صدارتی انتخابات کی نزدیکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخاب کے دو تین سالوں کے بعد اپنی خارجہ پالیسی کا اعلان کیا لیکن اس تمامتر عرصے میں خارجہ سیاست خصوصا اس خطے اور اسکی عوام کے حوالے سے ٹرمپ نے سوائے شکست اور بوکھلاہٹ کے کیا حاصل کیا ہے؟

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ وہ پہلے دن سے ایران میں موجود نظام حکومت کو گرانا اور ایرانی میزائل پروگرام کو ختم کر کے ایرانی عوام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتا تھا جبکہ اس حوالے سے اس نے مکمل شکست کھائی ہے۔ سید مقاومت کا کہنا تھا کہ شام، لبنان، یمن اور افغانستان میں بھی ٹرمپ کھلی شکست سے ہمکنار ہوا ہے جبکہ خطے میں اسکی صدی کی ڈیل بھی بری طرح سے ناکام ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ عراقی تیل کے کنووں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور جبکہ اسکا موقف یہ ہے کہ عراق میں کوئی حکومت قائم نہیں اور اگر وہاں کو حکومت قائم ہو تو بھی اُسے تمامتر سیاسی و فوجی میدانوں میں امریکی سفیر اور امریکی فوج کے احکامات کا پابند ہونا چاہئے جبکہ جنرل قاسم سلیمانی اور ابومھدی المھندس داعش نامی امریکی بہانے کو ختم کرنے کے دو اصلی سبب تھے اور جب داعش ختم ہو گئی جو عراق میں امریکی موجودگی کا بہانہ تھی تو عراق کے گوش و کنار سے امریکیوں کے انخلاء کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ جب عراق کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی امریکی سازش پر بھی دینی مرجعیت اور عراقی حکام کی حکیمانہ تدابیر سے پانی پھر گیا تو امریکہ نے اپنی الیکٹرانک جنگ کے ذریعے عراقی و ایرانی مسلم اقوام کے درمیان فتنے اٹھانے کی کوشش کی لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں؟ اسلئے کہ ایران ہمیشہ سے عراق کی حمایت کرنے والا ملک ہے۔ انہوں نے کہا عراق کھو نہ دینے کیلئے امریکیوں نے جلد بازی میں متعدد اقدامات اٹھائے ہیں جن میں سے ایک جنرل قاسم سلیمانی اور ابومھدی المھندس کا قتل بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل جنرل قاسم سلیمانی کو اپنی موجودگی کیلئے خطرہ سمجھتا تھا۔ سید مقاومت نے کہا کہ خطے میں امریکی جہاں جاتے تھے اپنے سامنے جنرل قاسم سلیمانی کو پاتے تھے جبکہ اسرائیل اپنے وجود کیلئے جنرل قاسم سلیمانی کو خطرناک ترین شخص سمجھتا تھا لیکن انہیں قتل کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس نے امریکہ سے چاہا کہ وہ اس کام کو انجام دے۔

اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکی اپنے اس اقدام کے ذریعے اسلامی مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنا چاہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جنرل قاسم سلیمانی کو آشکارا قتل کیا کیونکہ وہ اپنے پراپیگنڈے کیلئے نئے نفسیاتی موضوعات کے محتاج تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ شہید قاسم سلیمانی کی اس ٹارگٹ کلنگ کے اسباب کو جانیں کیونکہ وہ اسکے ذریعے اسلامی مزاحمتی محاذ کو کمزور کر کے ایران و عراق کے درمیان اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں جبکہ اسکے برعکس عراقی عوام نے شہداء کے تشیع جنازے میں (ملین ھا کی تعداد سے شرکت کر کے) اور عراقی پارلیمنٹ نے بھی (امریکی انخلاء کی قرارداد منظور کر کے) اپنا جواب دیدیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں عراقیوں کو جانتا ہوں، حسینی مجاہدین اور عباس علمدار علیہ السلام کے فرزند عراق میں کسی ایک امریکی کو بھی باقی نہیں چھوڑیں گے کیونکہ جنرل قاسم سلیمانی اور حاج ابومھدی المھندس کی شہادت کا چھوٹے سے چھوٹا جواب عراق سے امریکی افواج کا انخلاء اور امریکی قبضے سے اس ملک کی نئی آزادی ہے۔

سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو اسلامی مزاحمتی محاذ کا سید الشہداء قرار دیتے ہوئے انکی اور انکے ساتھیوں کی مظلومانہ شہادت کے عادلانہ قصاص کے لئے جانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ عادلانہ قصاص کا مطلب یہ ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرم واضح ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ نے کسی ایرانی شخصیت یا ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہوتا تو ہم کہتے کہ یہ معاملہ ایران کیساتھ مربوط ہے وغیرہ لیکن یہاں بات قاسم سلیمانی کی ہے، قاسم سلیمانی صرف ایران کیساتھ متعلق نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قاسم سلیمانی یعنی؛ ایران، لبنان، شام، افغانستان، یعنی تمام کی تمام امتِ مسلمہ۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ایران جانتا ہے کہ وہ کیسے اسکا جواب دیگا لیکن یہ بات ہمارے کندھوں پر موجود ذمہ داری کو کم نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے 40 سال جنکی حمایت کی ہے، ان سے اب کچھ طلب نہیں کیا لہذا وہ خود فیصلہ کر لیں کہ کس طرح سے انتقام لینا ہے، کیونکہ ایران اپنے عظیم ترین افتخار اور سب سے بڑے جنرل کو کھو دینے پر سوگ کی حالت میں ہے۔ سید مقاومت نے عادلانہ قصاص لئے جانے کے بارے میں کہا کہ خطے میں موجود امریکہ کے تمامتر فوجی اڈے، جنگی بحری بیڑے اور فوجی اس قتل کا عادلانہ قصاص ہیں کیونکہ یہ امریکی فوج ہی ہے جس نے ان شہداء کو قتل کیا ہے لہذا امریکی فوج کو ہی اس کا تاوان بھی ادا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قصاص سے ہماری مراد امریکی شہری یا امریکی خبرنگار ہرگز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنرل قاسم سلیمانی اور ابومھدی المھندس کے قتل کا انتقام نہ لیا گیا تو یہ تمامتر مزاحمتی محاذ، اسکے اراکین، مسئلۂ فلسطین، مسئلۂ قدس اور پورے کے پورے خطے کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو گا۔

سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں خطے سے امریکی انخلاء کا فارمولا دیتے ہوئے کہا کہ جب امریکی افسروں اور فوجیوں، جو خطے میں تو عمودی حالت میں آئے ہیں لیکن واپسی پر افقی حالت میں لوٹیں گے، کے تابوت امریکہ واپس پہنچیں گے تو تب ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھ آئے گی کہ اس نے کیا کام انجام دیا ہے اور پھر انتخاب میں بھی وہ کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمتی محاذ میں ہمارا مقصد یہی ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ قاسم سلیمانی اور ابومھدی کے خون کا قصاص خطے سے تمامتر امریکی فورسز کا انخلاء ہے اور ان شاء اللہ یہ عنقریب ہو کر رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ جس دن امریکہ کو خطے سے نکال باہر کر دیا جائیگا اسی دن یہ صیہونی بھی اپنے بریف کیسز اٹھا کر خطے سے نکل جائیں گے اور ہمیں اس مقصد کیلئے مزید کسی جدوجہد کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں شہید ہونے والے ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی بیٹی کا اہم بیان بھی سامنے آ گیا۔ تفصیلات کے مطابق امریکی حملے میں شہید ہونے والے جنرل قاسم سلیمانی کی بیٹی زینب سلیمانی نے اپنے والد کی شہادت کے بعد بیان جاری کیا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کو سیاہ دن دیکھنا پڑے گا۔ 28 سالہ زینب سلیمانی نے اپنے ویڈیو پیغام میں امریکی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ٹرمپ پلید! یہ مت سمجھنا کہ میرے والد کی موت کے ساتھ سب ختم ہو گیا، نہ صرف کچھ بھی ختم نہیں ہوا بلکہ تمہارے اس بزدلانہ اقدام سے ہمارا عزم و ارادہ اور مضبوط ہو گیا ہے، ہم پہلے سے بھی زیادہ طاقت کے ساتھ اس راستے پہ اپنے قدم جاری رکھیں گے۔ انہوں نے سید مقاومت حسن نصراللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے چچا حزب اللہ لیڈر سید حسن نصر اللہ میرے بابا کی شہادت کا انتقام ضرور لیں گے، میرے والد نے مظلومین کا انتقام لیا، لہٰذا ان کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے ہر مظلوم کے خون کا انتقام لیا جائے گا۔


انھوں نے کہا کہ والد کی موت مجھے نہیں توڑ سکتی، ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، ٹرمپ میرے مقتول باپ کے کارنامے نہیں مٹا سکتا، وہ بزدل ہے، میرے والد کو بہت دور سے میزائل کے ذریعے مارا گیا، ٹرمپ جانتا تھا کہ وہ اور اسکے پالتو کبھی بھی میرے والد کے حریف نہیں بن سکتے، اسی لئے میزائل سے بزدلانہ حملہ کیا، اگر جرات تھی تو سامنے آ کے وار کرتا۔