
سلیمانی
رہبر انقلاب: 22 بہمن، اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی ریلیوں نے دشمن کی احمقانہ دھمکیوں کے مقابلے میں ملت ایران کے اتحاد کی نشاندہی کردی
– رہبر انقلاب اسلامی نے آج صبح دفاعی صنعت کے ماہرین، ذمہ دران اور سائنسدانوں سے ملاقات میں دفاعی میدان میں پیشرفت جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس سال دشمن کی ابلاغیاتی بمباریوں کے سائے میں اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی ریلیوں کو عظیم ملی کارنامہ قرار دیا اور اس کی قدردانی نیز قوم کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ فرمایا کہ عوام نے دشمن کی دھمکیوں کے مقابلے میں اپنے اتحاد، تشخص، شخصیت اور ایرانیوں کی توانائی و پائیداری کو ثابت کردیا
ارنا کے مطابق اس ملاقات سے قبل رہبر انقلاب اسلامی اورمسلح افواج کے سپریم کمانڈرآیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اقتدار1403 نمائش میں، ایران کی دفاعی صنعت کے ماہرین اور سائنسدانوں کی تیار کردہ مصنوعات کا ایک گھنٹے تک معائنہ کیا
اس نمائش میں فضائی دفاع کے جدید ترین وسائل، بیلسٹک اور کروز میزائل اور اسمارٹ، فضائی اسلحے اور ڈرون طیارے نیز بحریہ کے جدید ترین جنگی وسائل اور فلوٹنگ سسٹمس رکھے گئے ہیں۔
اس معائنے کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی دفاعی صنعت کے ماہرین، ذمہ دار عہدیداران اور سائنسدانوں سے خطاب میں اس سال اسلامی انقلاب کی سالگرہ کو ملت ایران کی عظیم اور تاریخی عید قرار دیا اوراس عظیم دن کی مبارکباد پیش کی ۔
آپ نے فرمایا کہ کسی بھی انقلاب میں یہ بات نظر نہيں آتی کہ قوم چھیالیس برس گزرجانے کے بعد بھی اس طرح سڑکوں پر نکل کر جشن منائے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سخت سردی اور سوزناک سرد ہواؤں کے باوجود قوم کے سبھی طبقات ، مرد وزن بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کے اس طرح سڑکوں پر نکل پڑنے کو عوامی اور ملی قیام قرار دیا اور فرمایا کہ اس سال کی تقریبات، اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی بہترین تقریبات تھیں۔
آپ نے اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی ریلی سے صدر مملکت کے خطاب کو شفاف اور راستہ دکھانے والا قرار دیا اوربانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نیز انقلاب کے اصلی مالکین یعنی ایرانی عوام کے خلاف دشمن کی تسلسل کے ساتھ جاری ابلاغیاتی بمباری اور نرم جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حالات میں سبھی شہروں اور دیہی بستیوں میں عوام سڑکوں پر آئے ، اپنی بات کہی اوراپنا موقف بیان کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس نمائش کو جس کا خطاب سے پہلے معائنہ فرمایا تھا، بہترین اور اعلی ترین نمائش قراردیا ۔
آپ نے دفاعی صنعت کے سبھی سائنسدانوں، ماہرین، عہدیداروں اور کارکنوں کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام کو بھی ان توانا فرزندان قوم کا شکرگزار ہونا چاہئے۔
آپ نے ملک و قوم کی سلامتی کے دفاع کو بہت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ آج ایران کی دفاعی توانائی زباں زد خاص و عام ہے، انقلاب کے چاہنے والے اس پر فخر کرتے ہیں اور دشمن خوفزدہ ہیں اور یہ حقیقت ملک کے لئے اہمیت رکھتی ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایک زمانے میں عالمی سامراجی طاقتیں، کئی گنا قیمت پر بھی ایران کو دفاعی ضرورت کا سامان نہیں دیتی تھیں فرمایا کہ اب وہی طاقتیں، ایران سے کہتی ہیں کہ اپنے فوجی وسائل فروخت نہ کرو۔
آپ نے فرمایا کہ کسی زمانے میں کہتے تھے " نہیں بیچیں گے" اور اب کہتے ہیں کہ " نہ بیچو" ، ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے اور یہ ہمارے ذہین اور ماہر نوجوان سائنسدانوں کی محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن کی مستقل پابندیوں کے پیش نظر دفاعی پیشرفت کو غیر معمولی قرار دیا اور فرمایا کہ آج ایران کی دفاعی صنعت کی پوزیشن ایسی ہے کہ جو پرزہ بھی وہ نہ دیں، ہمارے نوجوان ، ملک کے اندر اس بہتر تیار کرلینے پر قادریں۔
مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے اپنے خطاب میں دفاعی صنعت میں پیشرفت جاری رہنے پر زور دیا اور فرمایا کہ دفاعی صنعت کی پیشرفت، دنیا میں ہماری دفاعی طاقت کا درجہ بلند ہونے کا باعث ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس پر قناعت کرلیں اور رک جائيں، کیونکہ ہم نے زیرو سے کام شروع کیا اور اگرچہ ہم نے بہت زیادہ کام کئے اور پیشرفت کی ہے لیکن ابھی بہت سے معاملات میں اگلی صف سے دور ہيں۔
آپ نے فوجی ترقی میں اگلی صفوں تک پہنچنے کو قران کے " واعدوا لھم ما استطعتم من قوہ"کے حکم پر استوار قرار دیا اور فرمایا کہ دشمن کے مقابلے میں حد اکثر اور مسلسل تیاری بدخواہوں کے مقابلے میں ملک کے دفاع کے لئے ضروری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ پیشرفت سبھی فوجی شعبوں میں جاری رہنی چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر کسی زمانے میں میزائلوں کی دقت کے لئے ہمارے مد نظر ایک سطح اور حد تھی تو آج ہمیں اس کو بڑھادینے کی ضرورت ہے، یہ کام ہونا چاہئے۔
آپ نے نئی نئی ایجادات اور نہ رکنے کو دفاعی صنعت میں پیشرفت کا لازمہ قرار دیا اور فرمایا کہ ایجادات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایجادات کا مطلب دوسروں کے کاموں کی تکمیل نہیں نہيں ہے بلکہ اس کا مطلب وہ کام ہیں جو انجام نہیں پائے ہیں اور انسان کی سرشت میں نہفتہ نا شناختہ توانائیوں کو فعال کرنا ہے جیسے الیکٹریسٹی ، انٹرنیٹ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس وغیرہ کا انکشاف اور ایجاد ہے جس نے دنیا کے سامنے نئے دروازے کھول دیئے ہیں۔
فلسطین برائے فروخت نہیں
نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے آتے ہی اپنے بیانات سے پوری دنیا میں ایک وبال کھڑا کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ اپنی پڑوسی ریاستوں کو دھمکا رہے ہیں تو دوسری طرف مغربی ایشیائی ممالک کو بھی غیر مستحکم کرنے کے لئے ایسے ایسے بیانات داغ رہے ہیں، جو کسی بھی طرح عاقلانہ تصور نہیں کئے جا سکتے ہیں۔ امریکی صدر کے غزہ سے متعلق بیان کہ جس میں وہ غزہ کے عوام کو اردن اور مصر کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں اور یہاں پر بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر کے لئے اربوں ڈالر کا کاروبار کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ حالانکہ غزہ پر امریکی و صیہونی تسلط کا خواب کوئی نیا نہیں ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں سے آنے والے امریکی صدور نے لبنان و غزہ پر جنگ مسلط کروائی، تاکہ غزہ کو خالی کریں۔
غزہ کو خالی کرنے اور اس پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنے کی امریکی و اسرائیلی کوشش پندرہ ماہ کی خونخوار جنگ کے بعد بھی ناکام ہوچکی ہے۔ غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پاتے ہی غزہ کے باسی اپنے ٹوٹے ہوئے گھروں اور ملبے کے ڈھیروں پر آکر آباد ہونے لگے ہیں۔ غزہ کے ان باسیوں کا اس طرح کے سخت ترین حالات میں واپس آنا ہی دراصل پوری دنیا کے لئے یہ پیغام ہے کہ غزہ کے لوگ اپنے گھر اور وطن کو نہیں چھوڑیں گے اور اس کے لئے انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ جس قدر قربانی دینا پڑے گی، ہم دیں گے اور یہ قربانی انہوں نے پندرہ ماہ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور امریکی کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں پیش کر دی ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد جو ذلت اور رسوائی امریکی و صیہونی حکام کو اٹھانا پڑ رہی ہے، اس کی پردہ پوشی کی جائے اور ایک ایسی چال کے ذریعے خود کو دنیا کے سامنے طاقتور بنا کر پیش کیا جائے، تاکہ دنیا میں ختم ہوتا ہوا امریکی بھرم باقی رہ جائے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ مشرق کی دنیا نے بھی اس مرتبہ ٹھان رکھی ہے کہ وہ امریکہ کی بالادستی کے خاتمہ کو یقینی بنا کر دم لیں گے اور طاقت کے مرکز کو مغرب سے نکال کر مشرق لائیں گے۔ غزہ پر قبضہ کا امریکی خواب جیسا کہ کوئی نیا نہیں ہے، اس کے لئے ایک مضبوط دلیل جو پیش کی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ آخر امریکی حکومتوں نے ہمیشہ غزہ پر جنگ مسلط کرنے کے لئے غاصب اسرائیل کے لئے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جنگی مدد کیوں فراہم کی۔؟
کیا یہ سب کچھ بغیر کسی منصوبہ کے تھا۔؟ آج بھی امریکی صدر یہ بہانہ بنا رہا ہے کہ غزہ کیونکہ ملبہ کا ڈھیر بن چکا ہے، تاہم امریکی حکومت اس غزہ کے علاقہ کو ایک خوبصورت شہر بنائے گی، لیکن آخر یہ شہر کس کے لئے بنایا جائے گا۔؟ جب غزہ کے لوگوں کو ہی اردن اور مصر سمیت دیگر عرب ممالک میں نکالنے کے اعلانات ہو رہے ہیں تو پھر یہ ساری خوبصورتی اور تعمیراتی سرگرمیاں آخر کس کے لئے ہیں۔؟ لہذا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی حکومت کا مقصد غزہ کے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا نہیں ہے، بلکہ صیہونی مفادات کے ساتھ ساتھ غزہ میں موجود وسائل پر امریکی تسلط کو یقینی بنانا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کے لوگ آسانی سے غزہ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔؟ کیا امریکی تسلط اس قدر آسان ہوگا کہ امریکی حکومت آسانی سے غزہ پر قبضہ کر لے گی۔؟ حالیہ پندرہ ماہ کی جنگ کا مشاہدہ کیا جائے تو دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے لئے غزہ پر قبضہ کرنا آسان کام نہیں ہوگا، کیونکہ غزہ ان کے لئے ایک ترنوالہ نہیں ہے۔ دوسری طرف مصر اور اردن نے بھی امریکہ کو انکار میں جواب دیا ہے، جس کے عوض اب امریکی صدر ٹرمپ نے مصر اور اردن کی معاشی مدد بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب یمن ہے، جس نے مصر اور اردن کو پیشکش کی ہے کہ اگر وہ غزہ کا دفاع کرنے کے لئے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف جنگ کا آغاز کریں تو یمن اس لڑائی میں ان کے ساتھ ہوگا۔
کیا واقعی ٹرمپ خطے کو ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلوں میں لپیٹنا چاہتا ہے۔؟ کیا ٹرمپ یہی چاہتا ہے کہ غزہ میں از سر نو جنگ شروع ہو جائے، جس کے لئے حال ہی میں ٹرمپ نے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر غاصب اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کر دے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ٹرمپ کے اعلانات عملی جامہ پہنانے کے قابل بھی ہیں یا نہیں۔؟ کیونکہ دنیا میں اب نئے نئے بلاک تشکیل دیئے جا رہے ہیں، جس کے بعد امریکہ کی رہی سہی ساکھ بھی کمزور ہوچکی ہے، جو اب صرف ٹرمپ کے ان اعلانات او بیانات سے واپس آنے والی نہیں ہے۔ بہرحال فلسطین کی جہاں تک بات ہے تو فلسطینیوں کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ پھر فلسطینی مزاحمت کی ایک تاریخ ہے کہ جو کئی دہائیوں سے فلسطینی عوام کے دفاع کے لئے ایک مضبوط شیلڈ بن چکی ہے۔
فلسطینیوں نے اپنی جدوجہد اور استقامت سے نہ صرف امریکی صدر کو یہ پیغام دیا ہے بلکہ پوری دنیا کو بتا دیا ہے کہ فلسطین برائے فروخت نہیں ہے۔ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل غاصب صیہونیوں کی ایک ناجائز ریاست ہے۔ اب امریکہ اس میدان میں آکر غزہ پر قبضہ کی باتیں کر رہا ہے، جس سے پوری دنیا کے امن کو تشویش لاحق ہوچکی ہے۔ امریکی صدر کے بیانات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ امریکی حکومت دنیا میں امن کی نہیں بلکہ جنگ اور دہشت گردی پھیلانے کا منبع ہے۔
یہاں پر ایک نقطہ جو کہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، وہ یہ ہے کہ اگر غزہ پر امریکی پلان کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ صرف فلسطین کے لئے نہیں بلکہ خطے میں موجود دیگر عرب ریاستوں کے لئے بھی خطرے کا باعث بن جائے گا۔ اگر غزہ نہیں رہا تو پھر کوئی بھی نہین بچے گا۔ ایک کے بعد ایک سب کی باری آئے گی۔ تاہم یہی وقت ہے کہ خطے کی عرب و مسلمان حکومتیں متحد ہو جائیں اور خطے میں موجود اس خطرناک کینسر کو کہ جو پھیلنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے، جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
اسرائیل کا جنگ بندی پر حملہ
غزہ کی پٹی میں بحران شدید ہو جانے کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی سے فلسطینی شہریوں کو جبری طور پر جلاوطن کر کے اس پر غاصبانہ قبضے کے منحوس عزائم کا اظہار کیا ہے اور یوں جنگ بندی کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ اگرچہ مغربی ایشیا خطے کے عرب ممالک نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے لیکن حماس اور تل ابیب کے درمیان جاری جنگ بندی معاہدہ شدید تزلزل کا شکار ہو گیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے سن حماس کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی گروہوں نے طوفان الاقصی نامی عظیم فوجی آپریشن انجام دیا جس کے نتیجے میں "مسئلہ فلسطین" ایک بار پھر اسلامی دنیا کی پہلی ترجیح بن گیا۔ عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب نے 2019ء میں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے بقول ریاض اور تل ابیب کے تعلقات معمول پر آنے میں صرف 6 ماہ کا وقت درکار تھا لیکن ٹرمپ کو 2020ء کے صدارتی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑ گیا جس کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا اور اس کے بعد حماس کے طوفان الاقصی آپریشن نے ابراہیم معاہدے کو آگے بڑھانے میں مزید رکاوٹیں پیدا کر دیں۔ مغربی ایشیا کے کچھ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر ناجائز قبضے کا ارادہ ظاہر کر کے خلیج عرب ریاستوں کے حکمرانوں پر دباو ڈالنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ تل ابیب سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے فوری اقدامات انجام دیں۔ دوسری طرف عرب حکمران غزہ جنگ میں اسرائیل کی جانب سے وسیع مجرمانہ اقدامات انجام دینے کے ناطے تل ابیب سے غیر مشروط طور پر تعلقات بحال کرنے سے کترا رہے ہیں۔
اخبار اکونومسٹ اپنی رپورٹ میں ابراہیم معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: "سعودی ولی عہد محمد بن سلمان تل ابیب سے تعلقات معمول پر لانے کی صورت میں اپنی حکومت کے مستقبل سے پریشان ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر کے سابق صدر انور سادات کا انجام عرب حکمرانوں کے لیے وحشت کا باعث بن چکا ہے۔ لہذا اسرائیل واشنگٹن کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے بعد مغربی کنارے میں فوجی جارحیت انجام دے رہا ہے تاکہ عرب ممالک کو خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی بجائے فلسطین اتھارٹی کی بقا پر راضی کیا جا سکے جو فلسطینیوں کو فراہم کیے جانے والی کم ترین مراعات ہو گی۔ تل ابیب حکام مغربی ایشیا میں اپنی متزلزل پوزیشن مضبوط بنانے کے درپے ہیں اور عرب ممالک کی حمایت سے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی فوج کی پوزیشن مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔" متحدہ عرب امارات اور بحرین کے برخلاف سعودی حکمران عوامی رائے عامہ کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہیں۔
اندرونی سطح پر صیہونی حکام شدید بحرانی حالات سے روبرو ہیں۔ صیہونی کابینہ میں شامل انتہاپسند وزیروں نے نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ اگر جنگ بندی کے تیسرے اور چوتھے مرحلے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو وہ استعفی دے دیں گے جس کے نتیجے میں نیتن یاہو کی اتحادی حکومت ٹوٹ جائے گی۔ اگر موجودہ حکومت ٹوت جاتی ہے تو یہ بنجمن نیتن یاہو کی سیاسی موت ثابت ہو گی۔ شدت پسند صیہونی مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو مقبوضہ سرزمینوں سے ملحق کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ العربی الجدید کے مطابق صیہونی رژیم کے انتہاپسند وزیر بیزلل اسموتریچ نے اسرائیلی حریدیوں کی پالیسیوں اور اسٹریٹجی کے ادارے کی دسویں سالانہ کانفرنس کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حماس کے خلاف دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجلی، پانی اور انسانی امداد روک کر غزہ والوں پر جہنم کے دروازے کھول دینا چاہئیں۔
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنے ویڈیو بیان میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا: "اگر حماس ہفتے کے دن دوپہر تک اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد نہیں کرتا تو جنگ بندی ختم ہو جائے گی اور اسرائیلی فوج شدید جنگ کا آغاز کر دے گی جو حماس کی مکمل شکست تک جاری رہے گی۔" بنجمن نیتن یاہو نے مزید کہا کہ حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی موخر کر دینے کے اعلان کے بعد اس نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کے اردگرد فوج کو ریڈ الرٹ جاری کر دے اور حملے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس نے کہا کہ یہ اقدام انجام پا رہا ہے اور بہت جلد مکمل ہو جائے گا۔ دوسری طرف انصاراللہ یمن نے بھی امریکہ اور اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی صورت میں وہ بھی ماضی کی طرح اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کاروائیاں دوبارہ سے شروع کر دیں گے۔
آفتاب کربلا جناب حضرت علی اکبر علیہ السلام
دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی اس فانی زندگی کو راہ خدا میں قربان کر دیتے ہیں اور اس کےعوض ابدی زندگی حاصل کرلیتے ہیں۔خدا کی خوشنودی کی خاطر ہر وقت ہر لمحہ ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اورباطل قوتوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر کے خدا کی معرفت اوراحکام خداوندی کی ترویج کرتے ہیں۔ کربلا بھی معرفت خداوندی رکھنے والوں اورراہ حق کے متلاشیوں کا امتحان گاہ تھا۔جس نے حق و باطل کو قیامت تک کے لئے جدا کر دیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو باطل قوتوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا درس دیا۔کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے یہاں تک غیر مسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں۔ یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنے آنکھوں سے فتح و شکست کو دیکھ لی تو فوج یزید سے نکل گئے۔کربلا کے درسگاہ میں ہر انسان کے لئے مخصوص معلم دیکھنے کو ملتے ہیں اس عظیم درسگاہ میں چھےماہ کے بچے سے لےکر نوے سال کے افراد بھی ملتے ہیں اس کے علاوہ خواتین اور عورتوں کے لئے ایسی مائیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ان میں سے کسی کی گود اجڑ گئی تو کسی کا جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے خون میں غلطاں ہوا اور ایسے خواتین بھی دیکھیں کہ اپنے بچوں کو قربان کرنے کے بعد حتی ان پر روئیں بھی نہیں ،بچوں کے لئے علی اصغر علیہ السلام نوجوانوں کے لئے شہزادہ قاسم علیہ السلام اور جوانوں کے لئے علی اکبر علیہ السلام ،بوڑھوں کے لئے حبیب ابن مظاہر اور دوسرے افراد، عورتوں کے لئے علی کی شیر دل شہزادیاں زینب کبری علیہا السلام، ام کلثوم علیہا السلام اور دوسری خواتین معلمان راہ سعادت ہیں۔یہ وہ کردار کے نمونے ہیں جنھوں نے قیامت تک آنے والی نسلوں کو اس عظیم درسگاہ سے فیضیاب کرایا۔ معصوم بچوں سے لے کر کڑیل جوانوں تک، بوڑھوں سے لے کر عورتوں تک سبھی نے وہ کارنامے انجام دئے جو ہمیشہ کے لئے تاریخ کا روشن باب بن گئے۔
کربلا کے میدان میں ایک جوان ایسا بھی تھا جو سیرت و صورت اورگفتار و کردار میں شبیہ پیغمبر تھے۔ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا تھا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ انہوں نے اس کائنات میں ایسی قربانی پیش کی کہ تمام دنیا دھنگ رہ گئی۔ آپ ایسے باپ کے فرزند تھے جس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناز تھا ،جس کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سواری بن گئے۔اس عظیم باپ کا فرزند تھا جس نے دنیا والوں کو جینا سکھایا اورباطل قوتوں کے سامنے قیام کر نا سکھایا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ فرزند تھے ایک فرزند جدا ہو گیا ۔علم نبوت سے معلوم تھا کہ یوسف زندہ ہے لیکن فراق پسر میں اس قدر گریہ کیا کہ آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی۔صبر ایوب اس وقت ختم ہوا جب عزت نفس کا معاملہ پیش آیا لیکن قلب حسین علیہ السلام پر قربان کہ اکبر جیسے کڑیل جوان فرزند کو جو شبیہ رسول،رشک یوسف اور فخر جناب اسماعیل تھےشہید ہوتے اپنے آنکھوں سے دیکھا۔حضرت علی اکبر علیہ السلام کی صورت میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسا فرزند عطا کیا جو سیرت اورصورت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔آپ کی والدہ حضرت لیلی عروہ بن مسعود ثقفی کی بیٹی تھیں۔(۱)
حضرت علی اکبر علیہ السلام کے بارے میں ابو الفرج نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ ایک دن امیر معاویہ اپنی خلافت کے دور میں سوال کیا کہ خلافت کے لئےلائق سب سے زیادہ کون شخص ہے؟ خوشامدی درباری کہنے لگے ہم تو تیرے علاوہ کسی کو خلافت کے لئے لائق نہیں سمجھتے۔ معاویہ کہنے لگا ایسا نہیں بلکہ سب سے زیادہ خلافت کے لئے لائق علی ابن الحسین یعنی علی اکبر ہے۔ جن کا نانا رسول خدا ہے جو شجاعت بنی ہاشم،سخاوت بنی امیہ اور دیگر خوبیوں کا حامل ہے۔(۲)
حضرت علی اکبر علیہ السلام نے اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کر دی ہر وقت اپنے والد گرامی کے ساتھ دین اسلام کی سر بلندی کے لئے کام کرتے رہے۔آپ بھی دیگر جوانان بنی ہاشم کی طرح عازم کربلا ہوئے۔ جب امام حسین علیہ السلام نے مختلف مواقع پر قریب الوقوع موت کے حوالہ سے اپنے اصحاب سے گفتگو کی تب کڑیل جوان نے اپنے بابا سے سوال کیا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ؟ باپ نے جوان بیتے کے سوال پر فرمایا: بیٹے ہم حق پر ہیں تب اس جوان نے کہا بابا: اگر ہم حق پر ہیں تو ہمیں کیا پرواہ کہ موت ہم پر آ پرے یا ہم موت پر جا پڑیں۔جناب علی اکبر علیہ السلام شہادت کے عظیم درجہ پر فائز ہونے کے لئے بے قرار تھے۔
روز عاشور جوانان بنی ہاشم کی طرح جناب علی اکبر علیہ السلام نے بھی میدان جنگ میں جانے کے لئے اپنے بابا سے اجازت طلب کی۔پھوپھی زینب(س) کی اجازت پر امام حسین علیہ السلام نے بھی اجازت دی۔ جناب علی اکبر علیہ السلام جب میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے تو مہربان باپ نے ایک مایوسانہ نگاہ اس جوان پر کی اورروتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا اور عرض کیا:{ اللهم اشهد علی هولاءِ القوم، فقد برز علیهم غلام، اَشبهُ الناس خَلقاً و خُلقاً و منطقاً برسول الله۔۔۔ }۔(۳)
اے میرے پروردگار ؛ اس قوم پر گواہ رہنا کہ ان کی طرف مبارزہ اورجنگ کے لئے ایسے جوان کو بہیج رہا ہوں جو خلق و گفتار و کردار میں تیرے نبی سے بہت زیادہ شباہت رکھتا ہے۔جب ہم تیرے نبی کی زیارت کا مشتاق ہوتے تو اس جوان کے چہرے پر نظر کرتے۔”اللهم فامنعهم برکات الارض و فرقهم تفریقاً و مزقهم و اجعلهم طرایق قدداً و لا ترض الولاه عنهم أبداً، فانهم دعونا لینصرونا ثم عدوا علینا یقاتلونا"۔خدایا ان سے زمین کی برکتیں روک لے اور انہیں متفرق و پراگندہ کر دے۔۔۔۔۔ادھر جناب جناب علی اکبر علیہ السلام کربلا کے میدان میں خورشید تابان کی طرح افق میدان پر طلوع ہوئے اور کچھ عرصہ میدان کو اپنے نور کی شعاع سے جو جمال پیغمبر کی خبر دیتا تھا منور کیا۔دیکھنے والے ان کے جمال سے فریفتہ ہو گئے اور ہر نظر ان کی طرف متوجہ ہوگئی۔ جناب علی اکبر علیہ السلام نے میدان کربلا میں فوجی یزیدی کے سامنے یہ رجز پڑھا:
أنا عَلی بن الحسین بن عَلی نحن بیت الله آولی با لنبیّ
أضربکَم با لسّیف حتّی یَنثنی ضَربَ غُلامٍ هاشمیّ عَلَویّ
وَ لا یَزالُ الْیَومَ اَحْمی عَن أبی تَاللهِ لا یَحکُمُ فینا ابنُ الدّعی۔(۴)
میں علی ابن الحسین ہوں۔کعبہ کی قسم ہم نبی سے زیادت قربت رکھتے ہیں ۔میں تمہیں تلوار سے ماروں گا یہاں تک کہ وہ ٹیڑھی ہو جائے۔ جناب علی اکبر علیہ السلام دشمنوں پر حملے پر حملہ کرتے رہے اوربدبختوں کو جہنم واصل کرتے رہے۔جس طرف رخ کرتے لاشوں کے انبار لگ جاتے۔بڑی بہادری کے ساتھ لڑے مگر سورج کی گرمی،پیاس کی شدت اورزخموں کی کثرت نے آپ کو تھکا دیا۔
جناب علی اکبر علیہ السلام میدان سے واپس بابا کی خدمت میں آئے اورعرض کیا: بابا پیاس کی شدت ہے اگر ممکن ہو تو ایک گھونٹ پانی پلا دیجئے۔بیٹے کی آخری تمنا باپ پوری نہ کر سکا۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے اشک بھری آنکھوں کے ساتھ فرمایا: بیٹا تھوڑی دیر جنگ کرو بہت جلد نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے کوثر کی پانی سے سیراب کر دیں گے۔
ایک روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام نے اپنی زبان مبارک جناب علی اکبر علیہ السلام کے دہان مبارک میں رکھ دئیے لیکن کس طرح پیاس بجھ جاتی کیونکہ امام حسین علیہ السلام خود تین دن کے پیاسے تھے۔بیٹے نے کہا: بابا آپ تو مجھ سے زیادہ پیاسے ہیں ۔ جناب علی اکبر علیہ السلام ایک دفعہ پھر میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے۔یزیدی فوج کو علی مرتضیٰ کی یاد تازہ کرائی لیکن دشمن جو تعداد میں بہت زیادہ تھے چاروں طرف سے آپ پر حملہ ور ہوئے۔یوں میدان کربلا میں آفتاب کربلا غروب ہو گیا۔ جناب علی اکبر علیہ السلام کی روح پرواز کر گئے اورآپ حوض کوثر پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کوثر کے پانی سے سیراب ہوگئے۔آپ کی شہادت پر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "ولدی عَلَی الدّنیا بعدك العفا"(۵)۔بیٹا تیرے بعد دنیا اوردنیا کی زندگی پر خاک ہو۔ عاشورا کے دن بنی ہاشم کے جوانوں میں سے سب سے پہلے جناب علی اکبر علیہ السلام شہید ہوئے اور زیارت شہدائے معروفہ میں بھی اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے۔ السَّلامُ علیکَ یا اوّل قتیل مِن نَسل خَیْر سلیل۔(۶)
جناب علی اکبر علیہ السلام نے اپنی پاک جوانی دین مقدس اسلام کی سر بلندی پر قربان کر دی اورقیامت تک آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر اسلام کے لئے جوانوں کی ضرورت ہو تو جوان اپنی جوانی کو قربان کر نے سے دریغ نہ کرے۔یوں کربلا کے میدان سے جوانی ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی اگرچہ جوان باقی رہ گئے۔جناب علی اکبر علیہ السلام نے صبح عاشور اذان دے کر قیامت تک ایک آفاقی پیغام فضاوں اور ہوا کے حوالہ کر دیا جو آج بھی دنیا کے کونے کونے میں اذان علی اکبر کی یاد تازہ کر ا رہا ہے اورحق شناس انسانوں کو باطل قوتوں کے مقابلہ میں اٹھنے اورقیام کرنے کا پیغام دے رہاہے۔
حوالہ جات
۱۔اعلام النّساء المومنات محمد حسون و امّ علی مشکور، ص 126/مقاتل الطالبین ابوالفرج اصفہانی، ص 52۔
۲۔ مقاتل الطالبین، ص 52/منتہی الآمال ،شیخ عباس قمی، ج 1، ص 373 و ص 464۔
۳۔ مقتل الحسین خوارزمی. ج2،ص30۔
۴۔ منتہی الآمال، ج 1، ص 375/ الارشاد (شیخ مفید)، ص 459۔
۵۔منتہی الآمال، ج 1، ص 375۔
۶۔ منتہی الآمال، ج 1، ص 375۔
تحریر:ڈاکٹر محمد لطیف مطہری کچوروی
حضرت علی اکبرؑ کی سیرت و کردار اور ہمارا جوان
جوانی انسان کی صلاحیتوں کے نکھار،حقیقی اوربامقصد زندگی کا آغاز اور ہر قسم کے کمالات وکامیابیوں کے آسمان تک جانے کازمانہ ہے۔اسی لیے جوان اور جوانی کو روایات میں خداوندتعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت قرار دی گئی ہے۔ جوان کا دل شفاف وپاک آئینہ کی مانند ہے۔اگر درست راہ کی جانب رہنمائی اور اپنی منزلت وحیثیت کو سجھ کر استفادہ کر لے تو یقیناً بلندیوں کو پاسکتے ہیں۔
تاریخ میں ایسے جوانوں کی کوئی کمی نہیں جنہوں نے اپنی جوانی میں ایسے کارنامے انجام دئیےکہ ہمیشہ تاریخ میں زندہ وجاوید ار دوسروں کے لیے نمونہ عمل قرار پائے۔
انہی جوانوں میں سے نمایاں حضرت علی اکبرؑ علیہ السلام تھے۔روایات کے مطابق 11شعبان المعظم کو مدینہ میں امام حسین سید الشہداءؑ کے گھر لیلیٰ بنت ابی مرہ کے بطن سے علی اکبرؑ کی ولادت اور تربیت اہل بیت کے پاکیزہ گھرانے میں ہوئی۔
آپؑ کے شکل وشمائل،سیرت وکردار،انداز بیان سے پیغمبر ختمی مرتبت کاعکس جھلکتے تھے۔اسی لیے سید الشہداءؑ فرماتے تھے:جب بھی ہم پیغمبرؐ کی زیارت کے مشتاق ہوتے تو ان کی جانب نگاہ کرتے۔
کربلامیں ان جہاد کے بعد آسمان کی طرف رخ کر کے امام عالی مقام نے دعا کی:
«بارالٰہا!اس قوم پر گوار رہنا،ایسا جوان دشمن کی جانب جارہا ہے جوشکل،کردار وانداز بیان میں تیرے رسول کے شبیہ ہے۔جب بھی ہم تیرے رسول کی زیارت کے مشتاق ہوتے تو ہم ان کی جانب دیکھتے۔»(مقتل لہوف)
علی اکبرؑشجاعت،جذبہ جہاد،دینی وسیاسی بصیرت اور معرفت ہر لحاظ سے ایک کامل جوان تھے اور کربلا کے سخت میں میدان میں آپ کی شخصیت آشکار نمایاں ہوئی۔
علی اکبرؑ کی معرفت وبصیر ت کی مثال قصر بنی مقاتل پر امامؑ نے گھوڑے کی زین پر خواب سے بیدار ہونے کے بعد جب اناللہ وانا الیہ راجعون کی تین بارتلاوت کی توآپ نے وجہ پوچھی توامامؑ نےجواب دیا میں نے خواب میں دیکھاکہ ایک سوار کہہ رہاہے کہ یہ کاروان موت کی جانب رواں دواں ہے،تو علی اکبرؑ نے پوچھا:بابا کیا ہم حق پر نہیں؟امامؑ نے جواب دیا کیوں نہیں۔
تو علی اکبرؑ کاتاریخی جواب تاریخ میں نقش ہوا۔
اذاً لانبالی ان نموت محقین۔(نفس المہموم, ص203)
یعنی راہ حق میں ہمیں موت کی کوئی پروا نہیں۔
معاشرے کا سب سے اہم کردار جوان ہیں۔اسی لیے ہمیشہ دشمنوں نے بھی جوانوں کواپنے مذموم اہداف کا ذریعہ بنایا ہے۔
اسلام نے بھی جوان وجوانی کی اہمیت،مقام ومنزلت،ذمہ داری ومشکلات کو سب سے زیادہ مدنظر رکھا ہے۔اور اس سلسلے میں قرآن وتاریخ کے اعلیٰ وروشن اور کامل نمونے ہمارے سامنے پیش کئے ہیں۔جن میں سے ایک کامل،پاکیزہ وجامع نمونہ علی اکبرؑ کی شخصیت وکردار ہے۔
یوم ولادت علی اکبرؑ اور روز جوان کے موقع پر ہم اس عظیم خاندان عصمت وطہارت کے صالح جوان کی فداکاری،شجاعت،بصیرت اورجہادی زندگی سے درس لیں،اپنی جو انی کوسیرت علی اکبرؑ کےمطابق اسلام،قرآن وسیرت معصومینؑ میں ڈھالنے کی جانب توجہ دیں۔
اپنے مقام وہدف زندگی کوسمجھیں۔فانی،لہو ولعب اور فضول امور میں زندگی کو خرچ کرنے کی بجائے خدا کی رضایت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی کو گزارنے کو اپنا شیوہ قرار دیں۔
جوانوں کو سیرت علی اکبرؑ پر چلتے ہوئے وقت کے امامؑ کی معرفت،وقت وضرورت پڑھنے پر دینی اقدار وناموس کا دفاع،صبر وتحمل اور فداکاری میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔کسی صورت حق ودین کی راہ میں قربانی سے دریغ نہ کرے۔یہی علی اکبرؑ کا پیغام ہے۔
مولانا سکندر علی بہشتی
انقلاب اسلامی کی چھیالیسویں سالگرہ کو عالمی میڈیا پر نمایاں کوریج
ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق، سی این این کے حوالے سے، اسلامی انقلاب کی چھیالیسویں سالگرہ کی ریلی آج بروز پیر پورے ملک میں عوام کی بھرپور شرکت کے ساتھ منعقد ہوئی۔ یہ ریلی تہران کے ساتھ ساتھ ملک کے 1400 اضلاع، شہروں اور 35,000 سے زائد دیہاتوں میں بھی منعقد کی گئی۔ عوام کی وسیع شرکت کو بین الاقوامی میڈیا میں نمایاں کوریج ملی۔
لبنان کے المیادین چینل نے تہران میں ہونے والی ریلی کو براہ راست نشر کیا، جبکہ المنار چینل نے بھی اس کا آغاز ہوتے ہی کوریج دی۔ لبنان کے العہد چینل نے رپورٹ کیا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی چھیالیسویں سالگرہ کے موقع پر عوامی جشن منعقد کیے گئے۔ اس چینل نے اسلامی جمہوریہ ایران کی فتح کے موقع پر حاج قاسم میزائل کی نمائش کا بھی ذکر کیا۔
دوسری جانب، روسی خبر رساں ایجنسی ریانووستی نے ایران کے مختلف شہروں میں اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی ریلیوں اور عوام کی بڑی تعداد میں شرکت کی اطلاع دی۔ ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ ایران کے مختلف شہروں، بشمول تہران، میں آج صبح پیر کے روز عوام کی وسیع شرکت کے ساتھ ریلیوں کا آغاز ہوا۔ ریانووستی نے مزید کہا کہ ایرانی حکام نے ان عوامی سرگرمیوں کے بڑے پیمانے پر انعقاد پر زور دیا ہے، اور ان ریلیوں کو ایک سیاسی پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو ملک کی حکومت اور اس کے علاقائی و بین الاقوامی مؤقف کے لیے عوامی حمایت کو ظاہر کرتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق، مختلف علاقوں سے آنے والے شرکاء کی ایک بڑی تعداد نے ایرانی پرچم اور شہید قاسم سلیمانی، جو کہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سابق کمانڈر تھے، کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔ اس کے علاوہ، اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی (رح) کی تصاویر بھی عوام کے ہاتھوں میں نظر آئیں۔ ریانووستی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے ہر سال یہ ریلیاں عوام کی ان اصولوں سے وفاداری کے اظہار کے لیے منعقد کی جاتی ہیں، جن پر یہ انقلاب قائم ہوا تھا۔
روسی خبر رساں ایجنسی اسپوتنیک نے بھی اپنی رپورٹ میں ایران کے مختلف علاقوں میں 22 بہمن کی تقریبات کے انعقاد کا ذکر کیا اور کہا کہ ایرانی عوام نے آج (پیر) ملک بھر میں اسلامی انقلاب کی چھیالیسویں سالگرہ کے موقع پر بڑے عوامی مظاہروں میں شرکت کی۔ اسپوتنیک نے مزید لکھا کہ ایران میں اسلامی انقلاب 7 جنوری 1979 کو برپا ہوا، جس نے امریکہ کی حمایت یافتہ شاہی حکومت کا خاتمہ کر کے ملک کو امام خمینی (رح) کی قیادت میں ایک اسلامی جمہوریہ میں تبدیل کر دیا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی رپورٹ کیا کہ ہزاروں ایرانیوں نے 1979 کے اسلامی انقلاب کی سالگرہ منائی۔ ایجنسی کے مطابق، یہ پہلی ریلی ہے جب سے ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکہ کے صدر بنے ہیں اور انہوں نے تہران کے خلاف اپنی "زیادہ سے زیادہ دباؤ" مہم کو دوبارہ شروع کیا ہے۔
ایجنسی نے مزید لکھا کہ اس سال ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح کی تقریبات ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہیں جب ملک شدید اقتصادی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، جو اس کی معیشت کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ یہ پابندیاں ایسے وقت میں لگائی جا رہی ہیں جب ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر کسی معاہدے تک پہنچنا چاہتے ہیں۔/
.
11 فروری، انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی پر شکوہ تقریبات تہران میں عظیم الشان ریلی، اسرائیل کا تابوت اور ٹرمپ کے لئے عوامی مکے

.png)
ایران طاقتور ہے اور دھمکیوں کی پروا نہیں کرتے، سردار حاجی زادہ
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے آج صبح 22 بہمن مارچ میں شرکت کی۔ ایران کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹرمپ میں اتنی ہمت نہیں ہے، ایران طاقتور ہے دھمکی آمیز الفاظ کا اثر نہیں لیتے۔

ٹرمپ کی تقریر 22 بہمن کے مارچ میں لوگوں کی زیادہ شرکت میں اضافہ کا باعث بنی، میجر جنرل موسوی
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف میجر جنرل سید عبدالرحیم موسوی نے 22 بہمن مارچ کے موقع پر کہا کہ ٹرمپ کے دعووں نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جشنِ انقلاب میں شرکت کرنے میں مدد دی ہے کیونکہ ان کی وجہ سے لوگ 22 بہمن کے مارچ میں زیادہ سنجیدگی سے شریک ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام لوگ مارچ میں ٹرمپ کے منہ پر مکے مارنے کے لیے اپنی بند مٹھیوں کے ساتھ شریک ہیں۔
صدر مملکت ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی ریلی موجودگی:
تقریب شروع ہونے کے چند منٹ بعد صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے انقلاب کی فتح کی سالگرہ کے موقع پر مارچ میں شرکت کی۔

وزیر دفاع کی عوام میں موجودگی
امیر ناصر زادہ، وزیر دفاع اور مسلح افواج کی عسکری لیڈرشپ نے انقلاب اسلامی کے جشن کے موقع پر ہونیوالے مارچ میں شرکت کی۔
محسن رضائی کی مارچ میں شرکت
محسن رضائی، قومی اقتصادی رابطہ کاری کی سپریم کونسل کے سیکرٹری نے 22 بہمن کے مارچ میں شرکت کی۔

سابق صدر حسن روحانی کی ریلی میں شرکت
11ویں اور 12ویں حکومتوں کے صدر حسن روحانی نے بھی آج کے مارچ میں شرکت کی۔

عدلیہ کے سربراہ کی عوام میں موجودگی
عدلیہ کے سربراہ محسنی ایجی نے بھی 22 بہمن کے مارچ میں شرکت کی اور لوگوں کیساتھ گفتگو کی۔

دفاعی صنعت کی کامیابیوں کی نمائش:
وزارت دفاع اور مسلح افواج نے 22 بہمن کی پریڈ میں وزارت کی دفاعی کامیابیوں کی نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ بکتر بند گاڑی طوفان -4، 8 میٹر گشتی کشتی (گالف)، 11 میٹر گشتی کشتی (رِب)؛ خرمشہر-4 میزائل، صفیر امید سیٹلائٹ کیریئر، حج قاسم میزائل، اور سکس بیرل لانچر فتح 360 میزائل لانچر ایرو اسپیس انڈسٹری کے شعبے کی کامیابیوں میں شامل ہیں جن کی نمائش کی گئی ہے۔


تہران کی سڑکوں پر اسرائیلی تابوت:

ہم سب سربلند اور فتح سے سرشار ہیں
حماس کی قیادت کونسل کے سربراہ اور اراکین نے آج صبح رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی، ملاقات کے آغاز میں حماس کی قیادت کونسل کے سربراہ محمد اسماعیل درویش نے غزہ میں مزاحمت کی عظیم فتح پر مبارکباد پیش کی اور رہبر انقلاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ"ہم غزہ میں مزاحمت کی فتح اور انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی ایک ساتھ آمد کو نیک شگون سمجھتے ہیں اور امید ہے کہ یہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کا باعث بنے گا"۔
ملاقات میں حماس کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ جناب خلیل لحیہ نے رہبر انقلاب اسلامی کو غزہ مزاحمت کی فتح پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ آج ہم ایک ایسے موقع پر آپ سے ملاقات کر رہے ہیں کہ ہم سب سربلند اور فتح سے سرشار ہیں اور یہ عظیم فتح ہماری اور اسلامی جمہوریہ کی مشترکہ جیت ہے۔
اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے غزہ کے شہداء بالخصوص شہید اسماعیل ھنیہ کو خراج تحسین پیش کیا اور حماس کے رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خداوند متعال نے آپ اور اہل غزہ کو عزت اور فتح عطا فرمائی اور غزہ کو اس آیت کا مصداق قرار دیا جس میں کہا گیا ہے کہ "خدا کے اذن سے ایک چھوٹے سے گروہ کو ایک بڑے گروہ پر فتح اور غلبہ حاصل ہوتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ آپ نے صیہونی رژیم اور حقیقت میں امریکہ کو شکست دی اور خدا کے فضل سے آپ نے انہیں کسی بھی اہداف میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ان مصائب کا ذکر کرتے ہوئے جو غزہ کے عوام نے ڈیڑھ سال کی مزاحمت میں برداشت کئے، کہا کہ ان تمام مصائب کا نتیجہ بالآخر باطل پر حق کی فتح کی صورت میں سامنے آیا اور غزہ کے عوام ان تمام لوگوں کے لیے مثال بن گئے جن کے دل مزاحمت کے لئے دھڑکتے ہیں۔
انہوں نے حماس کے مذاکرات کاروں کو سراہتے ہوئے معاہدے کی کامیابی کو عظیم قرار دیا اور کہا: آج تمام عالم اسلام اور مزاحمت کے تمام حامیوں کا فرض ہے کہ وہ غزہ کے عوام کے مصائب کو کم کرنے کے لیے ان کی مدد کریں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ثقافتی سرگرمیوں کے لیے منصوبہ بندی کرنے اور عسکری امور اور غزہ کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ تبلیغی سرگرمیوں کے موجودہ راستے کو جاری رکھنے کو ضروری قرار دیا اور مزید کہا: مزاحمتی قوتوں اور حماس نے میڈیا کے میدان میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اس عمل کو جاری رکھنا چاہیے۔
انہوں نے ایمان کو دشمن کے مقابلے میں مزاحمتی محاذ کا اہم عنصر اور مضبوط ہتھیار قرار دیتے ہوئے کہا: اسی ایمان کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ اور مزاحمتی محاذ دشمنوں کے مقابلے میں کمزوری محسوس نہیں کرتے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران اور عوام کے خلاف امریکہ کی حالیہ دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے تاکید کی: اس قسم کی دھمکیوں کا ہماری قوم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کا دفاع اور فلسطینی عوام کی حمایت ایرانی عوام کے لئے ایک حل شدہ مسئلہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب نے فرمایا: مسئلہ فلسطین ہمارے لیے ایک اہم مسئلہ ہے اور فلسطین کی فتح بھی ہمارے لیے یقینی مسئلہ ہے۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ حتمی فتح فلسطینی عوام کی ہوگی، فرمایا: واقعات اور اتار چڑھاؤ کو شک کا باعث نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایمان اور الہی مدد کی امید کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب نے حماس کے قائدین سے فرمایا: خدا کے فضل سے وہ دن آئے گا جب آپ سب نے پورے فخر کے ساتھ عالم اسلام کے لیے قدس کا مسئلہ حل کر دیا ہو گا اور وہ دن ضرور آئے گا۔
اس ملاقات میں حماس کی قیادت کونسل کے چیئرمین محمد اسماعیل درویش، حماس کے نائب چیئرمین خلیل لحیہ اور مغربی کنارے میں حماس کے چیئرمین ظہیر جبرین نے مزاحمت کے شہداء خاص طور پر شہید اسماعیل ہانیہ، سید حسن نصراللہ، یٰحیی السنوار، صالح العاروی کو خراج تحسین پیش کیا۔
انہوں مغربی کنارے کی تازہ ترین صورتحال اور موجودہ حالات میں حاصل کردہ فتوحات اور کامیابیوں سے متعلق رپورٹ پیش کی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلسل حمایت کو سراہتے ہوئے خصوصی شکریہ ادا کیا۔
عورت کی آدھی گواہی ، کیا اسلام میں عورت کی تکریم نہیں؟
آج کی دنیا میں مرد اور عورت کی برابری کا نعرہ مقبول عام ہے۔ہم ان سے پوچھتے ہیں عورت اور مرد کی برابری سے مراد کیا ہے؟کیا مرد اور عورت کی ذمہ داریوں کا الگ ہونا برابری کے خلاف ہے؟ مغربی فکر سے متاثر لوگ یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو مرد کے مساوی مقام حاصل نہیں ہے، اسلام مرد کے مقابلے میں عورت کی گواہی کو نصف قرار دیتا ہے۔یہ کسی فقیہ کا قول نہیں بلکہ قرآن مجید کی واضح نص ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
(وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ)، البقرة: 282
پھر تم لوگ اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو (گواہ بناؤ)
اس آیت مجیدہ سے انہیں وہم ہوا ہے کہ قرآن عورت کی تکریم کے خلاف ہے اور اسے برابر کے حقوق نہیں دیتا۔
سب سے پہلے تو ہم تاریخی طور پر یہ دیکھیں گے کہ اسلام نے عورت کے ساتھ کیسا معاملہ کیا ہے؟اسلام سے ہماری مراد ثقلین ہیں یعنی اللہ کی پاک کتاب قرآن مجید اور نبی اکرمﷺ کی اہلبیتؑ ،ان کے علاوہ ہم کسی طرف نہیں جائیں گے۔قرآن عورت اور مرد کو تخلیق میں بالکل برابر قرار دیتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًاالآية)، النساء:1
۱۔ اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ نگران ہے۔
قرآن ذمہ داریوں میں بھی مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا ،قرآن مجید میں اللہ جب احکامات نازل کرتا ہے تو اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں اس میں جنس کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
(إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا)، الأحزاب: 35
۳۵۔ یقینا مسلم مرد اور مسلم عورتیں، مومن مرد اور مومنہ عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، راستگو مرد اور راستگو عورتیں، صابر مرد اور صابرہ عورتیں، فروتنی کرنے والے مرد اور فروتن عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی عفت کے محافظ مرد اور عفت کی محافظہ عورتیں نیز اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں وہ ہیں جن کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔
یہ بات فقط انفرادی ذمہ داریوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اجتماعی ذمہ داریوں میں بھی عورت مرد کے ساتھ برابر کی شریک ہے۔جس طرح امر بالمعروف کرنا مرد پر فرض ہے بالکل اسی طرح عورت پر بھی فرض ہے۔قرآن مجیدمیں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
(وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)، التوبة: 71
۷۱۔ اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے ۔
اسی طرح اچھے عمل پر انعام میں بھی عورت مرد کے ساتھ شریک ہے اللہ قرآٓن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)، النحل: 97
۹۷۔ جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے ۔
یہاں سے ایک بات بالکل واضح ہو گئی کہ اسلام میں عورت اور مرد تخلیق برابر ہے،اسی طرح ذمہ داریوں میں بھی عورت شریک ہے اور اچھے عمل کے انعام میں بھی بالکل مرد کے برابر ہے۔یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام نے عورت کی نفسیات اور اس کی جسمانی ساخت کی وجہ سے اسے بعض امور میں آسانیاں دی ہیں۔امیمہ بنت رقیقہ ؓ کہتی ہیں میں دوسری خواتین کے ساتھ بیعت کرنے کے لیے نبی اکرمﷺ کے پاس آئی،آپﷺ نے فرمایا:جس کی تم استطاعت اور طاقت رکھتی ہو۔
قرآن اور نبی اکرمﷺ کی تاکید کے بعد مسلمانوں نے یہ سمجھاعورت کے حقوق برابر ہیں۔جیسے مرد کے حقوق ہیں ویسے ہی عورت کے حقوق ہیں۔حبر امت حضرت عبداللہ بن عباس ؓ روایت کرتے ہیں:میں اپنی بیوی کے لیے ویسے ہی اچھائی کو پسند کرتے ہوں جیسے اسے اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ایسا کیوں نہ ہو؟ قرآن مجید اسی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ.. الآية)، البقرة: 228
اور عورتوں کو دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسا مرتبہ ہے جو پروردگار نے مرد کو عورت سے زیادہ دیا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
(وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ)، البقرة: 228
البتہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے
یہاں پر اس برتری سے مراد وہ مقام ہے جو کسی بھی خاندان کو چلانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔خاندانی زندگی ایک اجتماعی زندگی ہے،یہ بات ہر عقل مند انسان سمجھتا ہے کہ ہر طرح کے اجتماعی یونٹ کے لیے ایک مدیر یا چلانے والا سربراہ ضروری ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کو بطور جنس عورتوں پر ترجیح دی جائے۔یہاں مرد کا خاندانی نظام کا سربراہ ہونا مساوات کے خلاف نہیں ہے۔یہ تو نظام میں کردار کی تقسیم ہے۔انسان اس چیز کا ذمہ دار ہے جو اس کی فطرت سے مطابقت رکھتا ہے جس کے ساتھ اسے پیدا کیا گیا ہے۔خواتین بھی ان شعبوں میں ذمہ دار ہیں جو ان کے کردار کے مطابق ہیں۔نبی اکرمﷺ کی حدیث شریف میں اس کی وضاحت کی گئی ہے آپﷺ نے فرمایا: خبردار تم میں سے ہر شخص اپنی رعیت کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) تم سے ہر شخص کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہونا پڑے گا ، لہٰذا امام یعنی سربراہ مملکت وحکومت جو لوگوں کا نگہبان ہے اس کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی، مرد جو اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اس کو اپنے گھر والوں کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے ، اس کو ان کے حقوق کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی اور غلام مرد جو اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اس کو اس کے مال کے بارے میں جواب داہی کرنا ہوگی لہٰذا آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک شخص نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک شخص اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہوگا۔(مجموعة ورام)، ج 1، ص 6
ضروری ہے کہ ہم عورت کی گواہی کے آیت میں موجود حکم کو اسی سیاق و سباق میں دیکھیں۔یہاں اسلام جنس مرد کا جنس عورت پر کوئی فضیلت نہیں دے رہا۔یہاں تمام حالات اور واقعات میں ایک خصوصیت کا لحاظ رکھا گیا ہے۔اگر اس کی وجہ اسلام کا مردوں کی طرف جھکاؤ تھا تو ضروری ہے کہ مرد کی گواہی کو ہر حال میں عورت کی گواہی پر ترجیح دی جائے، جب کہ ہمیں قرآن کریم میں ایسے احکامات ملتے ہیں جن میں عورت کی گواہی کو مرد پر ترجیح دی جاتی ہے۔قر آن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:
(وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (6) وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (7) وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (8) وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ)، النور: 6 9
۶۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا کوئی گواہ نہ ہو تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ سچا ہے۔۷۔ اور پانچویں بار کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔۸۔ اور عورت سے سزا اس صورت میں ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔۹۔ اور پانچویں مرتبہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر وہ سچا ہے۔
مسئلہ یوں ہے کہ ہمارے پاس شوہر کی گواہی ہے جو کہتا ہے کہ میری زوجہ نے زنا کیا ہے۔اس کے مقابل میں عورت کی گواہی ہے وہ کہتی ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے اور وہ انکار کرتی ہے۔یہاں پر اسلام عورت کی گواہی کو مرد کی گواہی پر مقدم کرتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ یہاں ایک جنس کو دوسری جنس پر ترجیح دینے کی بات ہی نہیں ہے۔قانون کی زبان میں اس کا تعلق (جرم ثابت کرنے کی دلیلوں) سے ہے۔اسلامی قانون صاحب حق کو حق دیا جاتا ہے اب اس کے لیے اصل میں کیا ہوا تھا؟اس کو جاننے کے لیے زیادہ دلیلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کی تفصیلات کو فقہ میں گواہیوں کے باب میں دیکھ سکتے ہیں۔کچھ جرائم بہت بڑے ہیں انہیں ثابت کرنے کے لیے زیادہ گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے زنا،اسے ثابت کرنے کے لیے دو گواہ کافی نہیں ہیں بلکہ چار گواہوں کی شہادت سے ثابت ہو گا۔دوسری طرف یہ صرف عورت کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے مرد کی گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ایسا کئی مقامات پر ہوتا ہے۔اس کا اطلاق کئی صورتوں میں ہوتا ہے مثلا لڑکی کے کنوارہ پن کی گواہی،نفاس کی گواہی اور ہر وہ مقام جسے مرد نہ دیکھ سکیں۔صحیحہ ابن سنان میں ہے وہ کہتے ہیں میں نے ابا عبداللہؑ سے سنا آپ فرما رہے تھے۔۔۔عورتوں کی مردوں کو شامل کیے بغیر ہر اس مقام میں گواہی قابل قبول ہے جہاں مرد کے لیے دیکھنا جائز نہیں ہے۔الوسائل 27 : 353 / كتاب الشهادات ب 24 ح 10
جیسے اسلامی فقہ کے قرض کے باب میں عورت کی گواہی کو اس وقت قبول کیا جب اس کے ساتھ اور عورت بھی گواہی دے۔کئی ایسے موارد ہیں جہاں اکیلے مردکی گواہی قابل قبول نہیں ہے اسے ساتھ میں دوسرے مرد ملانا پڑے گا تب گواہی قبول ہے۔فقہاء کے ایک گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ بھائی کی گواہی بھائی کے لیے قابل قبول نہیں ہے اس لیے کہ دونوں کے قربت زیادہ ہے۔بات منوانے کے لیے ایک اور گواہ کی ضرورت پڑے گی۔شیخ طوسی کی طرف منسوب ہے (النھایہ ص ۳۳۰) اس پر اسماعیل بن ابی زیاد سکونی کی ایک معتبر حدیث سے استدلال کیا گیا ہے۔وہ امام جعفرؑ سے اور وہ اپنے بابا سے روایت کرتے ہیں: ’’بھائی کی اپنے بھائی کے بارے میں گواہی قبول ہے اگر وہ تسلی بخش ہو اور دوسرا گواہ ہو۔‘‘الوسائل 27 : 368 / كتاب الشهادات ب 26 ح 5 ، التهذيب 6 : 286 / 790
سید مرتضیؒ کی طرف منسوب ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں ہے۔(حكاه في الجواهر 41: 75، وراجع الانتصار: 496)علامہ اپنی شہرہ آفاق کتاب میں اس حوالے سے متردد ہیں ۔(التحرير 2: 209)شہید نے دروس میں اسے قبول کیا ہے۔(الدروس 2: 132) بعض متاخر علماء بھی اسی نظریے کے قائل ہوئے ہیں۔
اسی طرح مرد کی گواہی اس صورت میں قبول نہیں ہے جب وہ جس کے بارے گواہی دے رہا ہے اس میں شریک ہو۔قرض لینے والے کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی کہ اسے مال کے استعمال سے حاکم شرع نے روک دیا ہے۔اسی طرح اس مالک کی گواہی بھی اس غلام کے حق میں قبول نہیں جسے اس نے تجارت کی اجازت دی تھی۔اس پر سماعہ کی معتبر حدیث دلالت کرتی ہے ،امام سے سوال ہوا کس کی گواہی قابل قبول نہیں ہے؟آپ نے فرمایا:ناقابل اعتبار،دشمن ،شریک، دافع مغرم،اجیر،غلام،تابع اور ملزم ان سب کی گواہیاں قابل قبول نہیں ہیں۔ الوسائل 27: 378 / كتاب الشهادات ب 32 ح 3
اسی طرح اگر کسی آدمی کے اور گواہ کے درمیان جھگڑا ہو جائے تو اس کی گواہی قبول نہیں ہوتی۔ اسماعیل بن مسلم کی معتبر حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔امام جعفر صادق بن محمد باقرؑ اپنے بابا سے اور وہ اپنے آباء سے روایت کرتے ہیں فرمایا:کینہ پرور اور دین کے معاملے میں غیرت سے عاری کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔الوسائل 27: 378 / كتاب الشهادات ب 32 ح 5، الفقيه 3: 27 / 73
پوری بحث کو خلاصہ کریں اور گواہی کی بحث پیش نظر رہے تو یہ بات سامنے آتی ہےکہ اس آیت کا مردوں کی عورتوں پر فضیلت دینےسے کوئی تعلق نہیں ہے۔اسلامی قانون اور شریعت واقع کے مطابق ہے۔اس میں چھان بین کے ذریعے حقیقت تک پہنچا جاتا ہے تاکہ حق تلفیوں کا خاتمہ ہو اور تنازعات کا فیصلہ کیا جائے۔
شیخ مقداد الربیعی: محقق و استاد حوزہ علمیہ
شیاطین کی خام خیالی
لیکن اس کے باوجود ٹرمپ اپنے اس مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر سو فیصد یقین رکھتا ہے۔ اس کی وجہ عرب حکام کا زبانی کلامی جمع خرچ ہے۔ اس کے علاوہ ٹرمپ کے اس یقین کے پیچھے چند اور وجوہات و اسباب بھی ہیں۔ بعض تجزیہ کار امریکی انتظامیہ کی جانب سے امداد کا لالچ اور فنڈز بند کرنیکی دھمکیاں، نتن یاہو سے دباو کے ذریعے معاہدہ کروانے، کولمبیا پر دباو ڈال کر تارکین وطن کو واپس بھیجنے، نتن یاہو سے دباو کے ذریعے معاہدہ کروانے، مصر کی اقوام متحدہ میں اسرائیل کیخلاف قرارداد پر پسپائی اختیار کرنے اور ٹرمپ کے گزشتہ دور صدارت میں امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی جیسی مثالوں کو مدنظر رکھ کر موجودہ امریکی صدر کے عزم کے مضبوط ہونے اور اہل غزہ کو اپنی زمین سے بے دخل کر کے امریکی افواج کی وہاں منتقلی اور اسرائیل کیساتھ مل کر امریکہ کے قبضے کے عملی ہونیکی پشین گوئی کر رہے ہیں۔ ذیل میں انہی مثالوں کو سامنے رکھ چند نکات پیش کیے جا رہے ہیں۔
نتن یاہو سے دباو کے ذریعے معاہدہ کروانا:
اسی طرح 2025 مالی سال کے لیے مختص امریکی بجٹ میں اردن کے لیے 1.45 ارب ڈالر کی رقم شامل ہے۔ مصر کو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے اب تک جو امداد ملی ہے، وہ 75 ارب ڈالر سے زائد ہے اور 2025ء کے لیے مختص بجٹ مصر کے لیے 1.4 ارب ڈالر کی رقم شامل ہے۔ ٹرمپ اپنے بیک گراونڈ کے لحاظ سے ایک کاروباری شخصیت ہے، جو سودوں پر یقین رکھتا ہے، اس کی حکومتی پالیسیوں میں بھی یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ وہ جس ملک کو امداد دیتا ہے اس کے بدلے میں اسے کیا مل رہا ہے۔ خاص طور پر ان دو ممالک کے حوالے سے جو دنیا کے سب سے زیادہ تناؤ والے علاقوں میں واقع ہیں۔ جہاں تک غزہ کی بات ہے، اہل غزہ عزت و وقار کے لئے قربانیاں دینا جانتے ہیں، پندرہ مہیوں کی جنگ میں انہوں استقامت اور تدبیر کیساتھ اسرائیل کو ملنے والی اربوں ڈالر کی امریکی امداد کے باوجود جس جرات کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ انہیں امریکہ جیسے کسی ملک کی امداد کی سرے سے ضرورت ہی نہیں بلکہ امریکی سرپرستی میں ان پر جنگ کے ذریعے تسلط قائم کرنیکی کوشش والی اسرائیل جیسی طاقت کو اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ممکن نہیں رہا۔
ان سابقہ تجربات کے پیش نظر ٹرمپ اب بھی عرب حکام کی ڈھینگوں کے باوجود غزہ کے حوالے سے اپنے مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر یقین کامل رکھتا ہے۔ کسی بھی فیصلے اسباب، عوامل اور محرکات میں سے ماضی کی کامیابیوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ لیکن غزہ کے باسی ان مذکورہ عوامل سے کہیں زیادہ مضبوط، مستحکم اور گہری جڑیں رکھتے ہیں، جو انہیں بدر سے طوفان الاقصیٰ تک میدان جنگ میں اپنے سے کئی گنا بڑے، طاقتور اور جدید ٹیکنالوجی سے مسلح حریف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے جیسی مثالوں سے مملو ہیں۔ آج شہید یحییٰ سنوار کی اگلی نسل کربلا کو اپنے لئے مثال سمجھتی ہے، یمن، عراق، ایران اور لبنان سے
آنیوالی مسلمان بھائیوں کی امداد کو خدائی نصرت قرار دیتے ہیں، اور خدائی خزانے اور طاقت کے ذخیرے کبھی ختم نہیں ہوتے، یہ امر نہ امریکی صدر سمجھتا ہے، نہ صیہونی ظالم اور نہ عرب خائن حکمران۔ لیکن اہل غزہ اسی یقین کے جیتے، مرتے اور کٹتے ہیں، انہیں یہ شیطانی طاقتیں نہیں جھکا سکتیں۔