سلیمانی

سلیمانی

یوم القدس امام خمینیؒ بت شکن کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے رمضان کے آخری جمعے کو منایا جاتا ہے۔ یہ فلسطین کی آزادی اور صہیونی جارحیت کے خلاف ایک مشترکہ اسلامی تحریک ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام نے اس دن کو متنازع بنانے کے لیے کئی قسم کے پروپیگنڈے پھیلا رکھے ہیں، جس کا بنیادی ہدف اہل سنت مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے انہیں اس دن سے دور رکھنا ہے۔ دشمنوں نے سب سے زیادہ جو پروپیگنڈہ پھیلایا، وہ یہ کہ یوم القدس صرف شیعہ مسلمانوں کا دن ہے اور اس کا مقصد ایران کی خارجہ پالیسی کو فروغ دینا ہے۔اس پروپیگنڈے کے تحت یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ چونکہ اس دن کی بنیاد امام خمینیؒ نے رکھی ہے، لہذا اہل سنت کو اس میں شریک نہیں ہونا چاہیئے۔ اس نظریئے کو تقویت دینے کے لیے مغربی، صہیونی اور بعض عرب میڈیا ادارے مسلسل ایسی خبریں اور تجزیے پیش کرتے ہیں، جن میں یوم القدس کو ایک "شیعی ایونٹ" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

یہ پروپیگنڈہ نہ صرف تاریخی حقائق کے خلاف ہے بلکہ اسلامی اتحاد کو کمزور کرنے کی ایک منظم سازش بھی ہے، کیونکہ فلسطین کا مسئلہ کسی مخصوص مسلک یا قوم کا نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ مسجد اقصیٰ صرف ایک مقدس مقام نہیں، بلکہ مسلمانوں کے قبلہ اول کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی آزادی کے لیے ہر مسلمان، خواہ وہ کسی بھی فقہ یا مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو، برابر کی ذمہ داری رکھتا ہے۔ یوم القدس کا مقصد اسرائیلی جارحیت کے خلاف امت مسلمہ کو متحد کرنا ہے۔ امام خمینیؒ نے جب یوم القدس کا اعلان کیا تو ان کے پیش نظر صرف ایران یا شیعہ دنیا نہیں، بلکہ پوری مسلم امت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یوم القدس کے مظاہرے نہ صرف ایران میں بلکہ دنیا بھر کے ممالک میں بھی منعقد ہوتے ہیں، جہاں مسلمان مشترکہ طور پر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔

دشمن قوتوں کا اصل مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا ہے، تاکہ وہ فلسطین کے مسئلے پر تقسیم ہو جائیں اور اسرائیل کو مزید استحکام ملے۔ اسی لیے وہ یوم القدس کو فرقہ واریت کی نظر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ اہل سنت عوام کو یہ باور کرایا جا سکے کہ یہ دن ان سے متعلق نہیں، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر یوم القدس کو کسی مخصوص مکتب فکر سے منسوب کرکے محدود کر دیا جائے تو اس سے صرف اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو فائدہ پہنچے گا، جبکہ امت مسلمہ مزید کمزور ہو جائے گی۔ بعض عرب اور مغربی میڈیا ادارے یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ یوم القدس کا اصل مقصد اہل سنت ممالک میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔ اس نظریئے کو فروغ دینے کے لیے وہ مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ سیاسی تجزیے، ٹی وی پروگرامز، سوشل میڈیا مہمات اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں بیانات۔

بعض عرب حکومتوں کے زیر اثر میڈیا چینلز بھی اس پروپیگنڈے کو تقویت دیتے ہیں، تاکہ اپنے عوام کو یوم القدس سے دور رکھا جا سکے۔ ان ذرائع میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ایران یوم القدس کو صرف ایک سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، تاکہ وہ خطے میں اپنی گرفت مضبوط کرسکے اور عرب دنیا میں اپنے اتحادی پیدا کرسکے۔ اس پروپیگنڈے کے تحت بعض اوقات یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایران کی جانب سے فلسطین کی حمایت درحقیقت ایران کے اپنے اسٹریٹیجک مفادات کا حصہ ہے اور اس کا مقصد صرف اپنی عسکری اور سیاسی طاقت کو بڑھانا ہے نہ کہ فلسطینی عوام کے حق میں کوئی خالص انسانی یا دینی ہمدردی۔ اس بیانیے کو خاص طور پر ان ممالک میں زیادہ پھیلایا جاتا ہے، جو پہلے ہی ایران کے ساتھ سیاسی اختلافات رکھتے ہیں، جیسے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بعض دیگر خلیجی ریاستیں۔ یہ ممالک یوم القدس کو ایران سے جوڑ کر اپنے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس میں شرکت دراصل ایران کے ساتھ وفاداری کا اظہار ہے، نہ کہ فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی۔

چنانچہ اس پروپیگنڈے کے ذریعے اہل سنت مسلمانوں کو یوم القدس سے متنفر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ وہ اسے ایک خالص اسلامی مسئلہ کے بجائے ایک مخصوص ملک یا مکتب فکر کی تحریک سمجھیں۔ اس کوشش میں بعض شدت پسند مذہبی گروہ بھی شامل ہوتے ہیں، جو پہلے ہی ایران کے خلاف سخت رویہ رکھتے ہیں اور فرقہ واریت کو ہوا دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ یوم القدس کو "شیعہ تہوار" قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ اہل سنت عوام اس میں شرکت کرنے سے ہچکچائیں اور فلسطین کے مسئلے پر ایک متحد موقف اختیار نہ کرسکیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غزہ اور فلسطین کی حمایت ایک دینی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ بیت المقدس کی آزادی کا مسئلہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اسلامی فریضہ ہے، جس کی حفاظت اور آزادی کی کوشش ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اگر کسی ملک، خواہ وہ ایران ہو یا کوئی اور، فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ مسئلہ اس ملک کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بن گیا ہے، بلکہ یہ ایک فطری اور دینی ردعمل ہے، جو ہر باشعور مسلمان اور انسان کو دکھانا چاہیئے۔

ایران اور بعض عرب حکومتوں کے درمیان کشیدگی رہی ہے، جو سیاسی، سفارتی اور بعض اوقات مذہبی اختلافات پر مبنی ہے، جس کی وجہ سے ان ممالک میں سرکاری اور نیم سرکاری میڈیا ادارے، اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر یہ بیانیہ عام کیا جاتا ہے کہ یوم القدس فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کا دن نہیں، بلکہ دراصل ایک گہری ایرانی چال ہے، جس کا مقصد عرب دنیا میں بدامنی پھیلانا ہے اور عرب ممالک میں بغاوت اور عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ خاص طور پر ان عرب ممالک میں زیادہ شدت سے پھیلایا جاتا ہے، جو ایران کے ساتھ علاقائی معاملات میں تنازعات کا شکار ہیں، جیسے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بعض دیگر خلیجی ریاستیں۔ چونکہ ان ممالک کی خارجہ پالیسی اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی طرف مائل ہے، وہ نہیں چاہتے کہ ان کے عوام فلسطین کے مسئلے پر زیادہ جذباتی ہوں یا یوم القدس جیسی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ لہٰذا وہ اس دن کو ایک سیاسی تنازعے کے طور پر پیش کرتے ہیں، تاکہ عوام کو اس میں شامل ہونے سے روکا جا سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ یوم القدس کا انعقاد کسی ایک ملک یا حکومت کے خلاف نہیں بلکہ صہیونی ریاست اور اس کے ظالمانہ تسلط کے خلاف ہے۔ یہ دن کسی مخصوص سیاسی نظریئے یا حکمت عملی کا حصہ نہیں بلکہ ایک عالمی اسلامی بیداری کی علامت ہے، جو تمام مسلمانوں کے مشترکہ عقائد اور مقاصد پر مبنی ہے۔ ایک اور پروپیگنڈہ یہ کیا جاتا ہے کہ فلسطین دراصل صرف عربوں کا مسئلہ ہے اور غیر عرب مسلمان ممالک کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یوم القدس میں شرکت غیر عرب مسلمانوں کے لیے غیر ضروری ہے۔ حالانکہ اسلامی نقطہ نظر سے قبلہ اول کی آزادی کسی مخصوص قوم کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ مغربی اور صہیونی میڈیا اکثر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یوم القدس کے مظاہرے انتہاء پسندی کو ہوا دیتے ہیں اور یہ ایک "بنیاد پرست تحریک" ہے۔

اس بیانیے کے ذریعے عام سنی مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگر وہ یوم القدس میں شامل ہوں گے تو انہیں دہشت گرد یا شدت پسند قرار دیا جائے گا۔ صہیونی اور مغربی میڈیا مختلف طریقوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یوم القدس غیر مؤثر ہے اور اس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہے۔ اس پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو یوم القدس میں شرکت سے مایوس کرنے اور اس دن کو بے اثر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فلسطین، جو امت مسلمہ کے قلب کا حصہ ہے، صہیونی ظلم و ستم کا شکار ہے، غزہ کے مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور وہاں اکثریت کا تعلق اہلسنت مکتب فکر سے ہے۔ اس کے باوجود بدقسمتی یہ ہے کہ جہاد کے فتویٰ کا راگ الاپنے والے پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں اکثر اہل سنت علماء اور مذہبی رہنماء فلسطینی عوام کی حمایت میں واضح اور مؤثر آواز بلند کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ مالی، سیاسی اور مذہبی مفادات ہیں، جو انہیں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک سے وابستہ رکھتے ہیں۔

خاص طور پر پاکستان میں کئی بڑے اہل سنت علماء اور مذہبی تنظیمیں، جو خود کو اسلام کے حقیقی نمائندے قرار دیتی ہیں، فلسطین کے معاملے پر یا تو مکمل خاموشی اختیار کرتی ہیں یا پھر بہت کمزور اور غیر مؤثر بیانات دیتی ہیں۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان میں کئی مذہبی جماعتیں اور مدارس سعودی عرب سے مالی معاونت حاصل کرتے ہیں۔ سعودی عرب اپنی مذہبی اور سیاسی حکمت عملی کے تحت کئی دہائیوں سے پاکستان میں بہت سارے اہل سنت مدارس، مساجد اور علماء کو فنڈز فراہم کرتا رہا ہے۔ جس کا مقصد بظاہر اسلامی تعلیمات کی ترویج بتایا جاتا ہے، لیکن درحقیقت اس کے پیچھے کئی دیگر مقاصد بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ انہی مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ ان علماء کو ایسی پالیسیوں پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے، جو سعودی مفادات کے مطابق ہوں۔ فلسطین کے معاملے میں سعودی عرب کا مؤقف ہمیشہ مشکوک اور غیر واضح رہا ہے۔ عملی طور پر وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے خفیہ اور اب کھلم کھلا تعلقات استوار کر رہا ہے۔

سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ بڑھتا ہوا تعاون، عرب ممالک کی جانب سے صہیونی ریاست کے ساتھ معمول کے تعلقات کی پالیسی اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی مخالفت اس بات کا ثبوت ہیں کہ سعودی حکومت فلسطین کے مظلوم عوام کی حقیقی حمایت کے حق میں نہیں۔ چنانچہ پاکستان میں وہ مولوی حضرات جو سعودی مالی امداد پر انحصار کرتے ہیں، وہ فلسطین کے معاملے پر بھی سعودی بیانیے کے تابع رہتے ہیں اور کھل کر اسرائیل کی مخالفت نہیں کرتے۔ یہ سعودی نواز مولوی نہ صرف خود فلسطین کی حمایت سے گریز کرتے ہیں بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی اس مسئلے سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ امت مسلمہ کو فلسطین کے معاملے پر متحد کرنے کے بجائے فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں اور فلسطین کی حمایت کو صرف ایک مخصوص فرقے یا گروہ کی جدوجہد قرار دے کر عوام کو اس سے بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستانی عوام کو چاہیئے کہ وہ ان مولویوں کے دوہرے معیار کو پہچانیں اور فلسطین کی حمایت میں بغیر کسی مصلحت کے کھڑے ہوں۔ ہمیں سعودی پالیسیوں کے زیر اثر رہنے کے بجائے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے فیصلے کرنے چاہئیں، کیونکہ فلسطین کی حمایت کسی ملک، جماعت یا فرقے کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہر مسلمان کی شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نے اس ذمہ داری کو پس پشت ڈال دیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور ہم بھی ان ظالموں میں شمار ہوں گے، جو اسرائیلی جارحیت کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔ فلسطین اور غزہ کی آزادی کے لیے سب سے زیادہ اہل تشیع مسلمانوں نے قربانیاں دی ہیں۔ یہ قربانیاں صرف زبانی حمایت تک محدود نہیں، بلکہ عملی میدان میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف جدوجہد، فلسطینی عوام کے لیے مدد اور صہیونی سازشوں کے خلاف بے خوفی سے کھڑے ہونے پر مشتمل ہیں۔

اہل تشیع کی جانب سے فلسطینی عوام کی حمایت میں سب سے بڑی اور تاریخی قربانی وہ نظریاتی اور عملی تحریک ہے، جسے امام خمینیؒ نے شروع کیا۔ انہوں نے نہ صرف فلسطین کو امت مسلمہ کا ایک اہم مسئلہ قرار دیا بلکہ "یوم القدس" کے اعلان کے ذریعے دنیا کے تمام مظلوموں کو صہیونی استعمار کے خلاف متحد ہونے کی دعوت دی۔ امام خمینیؒ نے ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد اسرائیلی سفارتخانے کو بند کروا کر اسے فلسطینی سفارتخانے میں تبدیل کر دیا، جو عملی طور پر فلسطین کے لیے ایک بڑی سفارتی حمایت تھی۔ شہید جنرل قاسم سلیمانی نے فلسطین اور غزہ کی حمایت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی تحریکوں، خاص طور پر حماس اور اسلامی جہاد کو ہر ممکن مدد فراہم کی، چاہے وہ عسکری تربیت ہو، وسائل کی فراہمی ہو یا سفارتی حمایت ہو۔ وہ عملی طور پر فلسطینی مجاہدین کے ساتھ میدان میں موجود رہے اور مزاحمت کو مضبوط کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا۔

یہی وجہ تھی کہ اسرائیل اور اس کے اتحادی، خصوصاً امریکہ، انہیں فلسطینی جدوجہد کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے تھے اور بالآخر انہیں بغداد میں ایک امریکی ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا۔ اسی طرح سید عباس موسوی، جو حزب اللہ لبنان کے بانی رہنماؤں میں سے تھے، فلسطین کی آزادی کے لیے انتہائی فعال تھے۔ وہ نہ صرف اسرائیلی قبضے کے خلاف برسرپیکار تھے بلکہ فلسطینی عوام کے لیے ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھاتے تھے۔ اسرائیل نے انہیں 1992ء میں ان کی اہلیہ اور بچے سمیت شہید کر دیا، کیونکہ وہ فلسطین کی مزاحمت میں ایک مضبوط ستون بن چکے تھے۔ عماد مغنیہ حزب اللہ کے وہ رہنماء تھے، جنہوں نے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے لیے دفاعی اور عسکری حکمت عملی ترتیب دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ فلسطین کے لیے سرگرم عمل رہے اور اسرائیل کے خلاف کئی کامیاب کارروائیاں انجام دیں۔ اسرائیل نے ان کی طاقت اور حکمت عملی سے خوفزدہ ہو کر 2008ء میں شام میں انہیں شہید کروا دیا۔

شہید مقاومت سید حسن نصراللہ نے اپنی پوری زندگی اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے وقف کر دی ہے۔ حزب اللہ نے 2006ء میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں جو کامیابی حاصل کی، وہ دراصل فلسطین کی مزاحمت کے لیے ایک بڑی مثال بنی، جس نے ثابت کر دیا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں۔خلاصہ امام خمینیؒ کی نظریاتی جنگ سے لے کر قاسم سلیمانی، عباس موسوی اور عماد مغنیہ کی عملی مزاحمت تک، اہل تشیع نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ یہ قربانیاں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے لیے فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر امت مسلمہ متحد ہو جائے اور ان شہداء کے راستے پر چلے تو اسرائیلی قبضے کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔ ان شہداء کا خون ہمیں یاد دلاتا ہے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری امت کا مسئلہ ہے اور جب تک القدس آزاد نہیں ہوتا یہ مزاحمت جاری رہے گی۔
 
 
تحریر: محمد حسن جمالی
Thursday, 27 March 2025 21:56

یوم القدس کیوں اہم ہے؟

ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کے فرامین کی روشنی میں یوم القدس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یوم القدس حق اور باطل کے درمیان صف آرائی کی علامت
ان سالوں میں انہوں نے یوم القدس کو کمزور کرنے کی کس قدر کوشش کی ہے جو حق اور باطل کے درمیان صف آرائی کی علامت ہے۔ یوم القدس حق اور باطل کے درمیان صف آرائی اور انصاف اور ظلم کے درمیان صف آرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ صیہونزم جیسے مہلک کینسر کے خلاف مسلمانوں کی صدائے احتجاج کا دن ہے جو غاصب، جارح اور استعماری طاقتوں نے اسلامی دنیا میں ڈالا ہے۔ روز قدس چھوٹی چیز نہیں ہے، روز قدس ایک عالمی دن ہے، ایک عالمی پیغام رکھتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امت مسلمہ ظلم کے سامنے نہیں جھکتی چاہے اس ظلم کو دنیا کی طاقتور ترین حکومتوں کی حمایت بھی حاصل کیوں نہ ہو۔ روز قدس کو کمزور کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ (20 ستمبر 2009ء)
 
دنیا کے نقشے سے فلسطین ختم کرنے میں رکاوٹ
روز قدس حقیقی معنی میں بین الاقوامی اسلامی دن ہے۔ وہ دن جب ایرانی قوم دنیا کی دیگر اقوام کے ہمراہ حق کی آواز اٹھاتی ہے، ایسی آواز جسے خاموش کرنے کے لیے گذشتہ ساٹھ سال سے استکباری طاقتیں سرگرم عمل ہیں، البتہ غاصب رژیم کی تشکیل سے ساٹھ سال گزرے ہیں ورنہ شاید سو سال سے زیادہ عرصہ ہے کہ دنیا کے نقشے سے فلسطین ختم کرنے کے درپے ہیں۔ کافی حد تک اس کام میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ اسلامی انقلاب نے ان کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ اسلامی جمہوریہ نظام کی تشکیل، عالمی یوم القدس کے اعلان اور غاصب صہیونی رژیم کے سفارت خانے کی جگہ فلسطین کا سفارت خانہ قرار دینے کے بعد ایک نئی تحریک نے جنم لیا جو استکباری سازشوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ آج خوش قسمتی سے یہ تحریک روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ (24 اگست 2011ء)
 
مسئلہ فلسطین فراموش کر دیے جانے کی سازش کا مقابلہ
روز قدس بہت اہم اور فیصلہ کن دنوں میں سے ایک ہے۔ کئی سالوں سے مسئلہ فلسطین کو فراموشی کا شکار کر دیے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ روز قدس وہ تیر ہے جس نے اس سازش کو نشانہ بنایا ہے۔ ایسی تحریک ہے جس نے اس منحوس سازش کو ناکام بنا دیا ہے جو استکبار اور صیہونزم کی جانب سے تشکیل پائی تھی۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین کو فراموش کر دیے جانے کی پوری کوشش کی ہے۔ روز قدس کو اہمیت دیں۔ یہ دن صرف ایران سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں مومن اور جذبہ ایمان سے سرشار عوام اپنی حکومتوں کی جانب سے پیدا کردہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود مناتے ہیں۔ انشاءاللہ مجھے امید ہے کہ اس سال بھی روز قدس فلسطینی قوم اور اسلامی دنیا کے دشمنوں کے منہ پر شدید طمانچہ ثابت ہو گا۔ (8 جنوری 1999ء)
 
وہ دن جب مظلوم فلسطینی عوام حمایت کا احساس کرتے ہیں
آج آپ جو مظاہرہ کرنا چاہ رہے ہیں وہ انتہائی اہم ہے، اس کی خبریں عالمی میڈیا میں آتی ہیں اور مظلوم فلسطینی عوام محسوس کرتے ہیں کہ دنیا کی اقوام ان کی حامی ہیں۔ البتہ ہماری قوم نے الحمدللہ کبھی بھی سستی کا مظاہرہ نہیں کیا اور جب بھی انہیں فلسطین کے لیے بلایا گیا ہے وسیع پیمانے پر حاضر ہوئے ہیں۔ عالمی اداروں اور اقوام کو بیدار ہونا چاہیے۔ یہ عالمی ادارے جو اکثر اوقات استکباری اہداف کی تکمیل کے لیے سرگرم رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ ایک بار ہی سہی استکباری طاقتوں کی مرضی کے خلاف اقوام عالم کے حق میں عمل کریں اور عالمی رائے عامہ کی توجہ حاصل کریں اور ظالم اور غاصب کی مذمت کر کے مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کریں۔ اگر عرب حکومتیں، اسلامی حکومتیں، مسلمان اقوام اور عالمی ادارے فعال ہوں تو فلسطینیوں کو ان کا حق مل سکتا ہے۔ (5 اپریل 2002ء)
 
اسلامی دنیا میں یہ عظیم عمل روز بروز رائج ہو رہا ہے اور مزید وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے، اس سال عالم اسلام میں اکثر مسلمان اقوام نے یوم القدس کی مناسبت سے مظاہرے منعقد کیے ہیں، عالم اسلام کے مشرقی حصے یعنی انڈونیشیا سے لے کر اسلامی دنیا کے مغربی حصے یعنی افریقہ اور نائیجیریا تک۔ اسلامی ممالک میں جہاں بھی عوام کو اجازت دی گئی ہے انہوں نے یوم القدس کے دن اپنی نیت اور ارادے کا اظہار کیا ہے، عوام سڑکوں پر نکلے ہیں اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ مسئلہ فلسطین ان کے لیے اہم ہے۔ حتی وہ مسلمان جو یورپی ممالک میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہاں اقلیت میں ہیں اور حکومت کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہیں وہ بھی یوم القدس منانے سڑکوں پر آئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں کی خواہش کے برعکس مسئلہ فلسطین روز بروز اسلامی دنیا میں زندہ ہوتا جا رہا ہے۔ (1 اکتوبر 2008ء)
 
امت مسلمہ کی رگوں میں نیا خون دوڑنے کا دن
یوم القدس، یہ عظیم اقدام جس کی بنیاد امام خمینی رح نے رکھی اور الحمد اللہ روز بروز بہتر اور ہر سال زیادہ پرجوش انداز میں منایا جا رہا ہے ایک بہت ہی گہرا اور معنی خیز اقدام ہے۔ یہ صرف ایک مظاہرہ یا ریلی نہیں ہے بلکہ وہ خون ہے جو اس دن امت مسلمہ کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ اگرچہ دشمن مسئلہ فلسطین اور ملت فلسطین کو فراموش کر دیے جانے کی بھرپور کوششیں انجام دے رہے ہیں لیکن یہ مسئلہ دن بدن زندہ ہوتا جا رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ اسلامی حکومتوں کے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ہمیں امید ہے کہ خدا سب کو ہدایت دے اور انہیں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کرے اور انہیں یہ ذمہ داریاں انجام دینے میں مدد فراہم کرے۔ (19 اگست 2012ء)
 
 
تحریر: علی احمدی

اعمال کا جسمانی ظہور!

روایت ہے کہ “جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ جنت میں ایک گروہ کام کر رہا ہے: اس انداز میں کہ کبھی کھڑے ہوتے ہیں، کبھی کام میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ قصہ کیا ہے؟ جبرئیل(علیہ السلام) نے کہا تھا کہ یہ لوگوں کے کرتوت اور اعمال ہیں۔جب دنیا سے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے تو وہ کام کرتے ہیں لیکن جب وہ لوگ دنیا میں نیک اعمال کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو یہاں یہ لوگ بھی کام چھوڑ دیتے ہیں”۔

 

 

 

فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یره!

تمام اعمال کا خلاصہ یہ کہ باہر کی دنیا سے سے آپ کو کوئئ فائدہ یا نقصان نہیں ملتا۔ سب کچھ آپ کو اپنے آپ اور اپنے اعمال ہی حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے انبیاء بھیجے اور تمام انبیاء بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کو(انسانوں)کو گناہوں کی دلدل سے بچائیں۔

 

 

 

 

 

دعوت انبیاء؛شہوت کی نظر!

وہ مشکلات کی دلدل کہ جسے ہم اپنے ہاتھوں سے بنا رہے ہیں۔وہ مشکلات کہ جنہیں آپ خود اس دنیائے آخرت کے لیے تیار کررہے ہیں۔ تمام انبیاء ہمیں اس چیز سے بچانے کے لیے آئے ہیں جو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے۔لیکن افسوس اس کام میں،اس تبلیغ میں انکی زحمتوں اور دعوتوں پر ہماری نفسانی خواہشات نے غلبہ حاصل کرلیا۔

 

 

 

 

 

1 ـ قالَ الاْمامُ علىّ بن أبی طالِب أمیرُ الْمُؤْمِنینَ (عَلَیْهِ السلام) : إغْتَنِمُوا الدُّعاءَ عِنْدَ خَمْسَةِ مَواطِنَ: عِنْدَ قِرائَةِ الْقُرْآنِ، وَ عِنْدَ الاْذانِ، وَ عِنْدَ نُزُولِ الْغَیْثِ، وَ عِنْدَ الْتِقاءِ الصَفَّیْنِ لِلشَّهادَةِ، وَ عِنْدَ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ، فَاِنَّهُ لَیْسَ لَها حِجابٌ دوُنَ الْعَرْشِ.(1)
اپنی دعا اور مرادیں مانگنے کے لئے پانچ مواقع کو غنیمت سمجھو تلاوت قرآن کے وقت 'اذان کے وقت 'بارش کے وقت 'خدا کی راہ میں جنگ اور جہاد کےوقت 'اورجس وقت مظلوم آہ نالہ کر رہا ہو ان مواقع پر دعا قبول ہونے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی.
2ـ قالَ(علیه السلام): اَلْعِلْمُ وِراثَةٌ کَریمَةٌ، وَ الاْدَبُ حُلَلٌ حِسانٌ، وَ الْفِکْرَةُ مِرآةٌ صافِیَةٌ، وَالاْعْتِذارُ مُنْذِرٌ ناصِحٌ، وَ کَفى بِکَ أَدَباً تَرْکُکَ ما کَرِهْتَهُ مِنْ غَیْرِکَ.(2)
علم ایک بیش قیمت اور اچھی میراث ہے 'ادب بہترین زیور ہے 'غور وفکر ایک صاف آئینہ ہے 'معذرت خواہی ایک ڈرانے والا ناصح ہے تمھارے باادب ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ جسے تم دوسروں سے ناپسند کرتے ہو اسے خودبھی ترک کردو .
3ـ قالَ(علیه السلام): اَلـْحَقُّ جَدیدٌ وَ إنْ طالَتِ الاْیّامُ، وَ الْباطِلُ مَخْذُولٌ وَ إنْ نَصَرَهُ أقْوامٌ.( 3)

حقّ و حقیقت تمام حالات میں نئی اور تازی ہوتی ہے چاہےجتنی مدت گذر چکی ہو اور باطل ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتا ہے چاہے جتنے لوگ اس کی حمایت کرنے والے ہوں .

4ـ قالَ(علیه السلام): اَلدُّنْیا تُطْلَبُ لِثَلاثَةِ أشْیاء: اَلْغِنى، وَ الْعِزِّ، وَ الرّاحَةِ، فَمَنْ زَهِدَ فیها عَزَّ، وَ مَنْ قَنَعَ إسْتَغْنى، وَ مَنْ قَلَّ سَعْیُه ُإسْتَراحَ.(4)
دنیا اور اس کے مال و دولت کو تین چیزوں کے لئے حاصل کیا جاتا ہے بے نیازی ' عزت ' آرام وسکون لہذا جو دنیا میں زہد اختیار کرتا ہے وہ عزت پاتا ہے جو قناعت کرتا ہے وہ بے نیاز رہتا ہے اور جو حصول دنیا کے لئے کم زحمت برداشت کرتا ہے وہ آرام سے رہتا ہے.

5ـ قالَ(علیه السلام): لَوْ لاَ الدّینُ وَ التُّقى، لَکُنْتُ أدْهَى
الْعَرَبِ.(5)
اگر دین کی پابندی اور تقوی کا خیال نہ ہو تا تو میں عرب کا سب سے بڑا سیاست باز ہوتا
6ـ قالَ(علیه السلام): اَلْمُلُوکُ حُکّامٌ عَلَى النّاسِ، وَ الْعِلْمُ حاکِمٌ عَلَیْهِمْ، وَ حَسْبُکَ مِنَ الْعِلْمِ أنْ تَخْشَى اللّهَ، وَ حَسْبُکَ مِنَ الْجَهْلِ أنْ تَعْجِبَ بِعِلْمِکَ.(6)
بادشاہ لوگوں پر حاکم ہوتے ہیں اور علم ان پر حکومت کرتا ہے تمھارے صاحب علم ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ تم اللہ سے ڈرو اور تمھاری جہالت کے لئے یہی کافی ہے کہ تمھیں اپنے علم پر ناز ہو.
7ـ قالَ(علیه السلام): ما مِنْ یَوْم یَمُرُّ عَلَى ابْنِ آدَم إلاّ قالَ لَهُ ذلِکَ الْیَوْمُ: یَابْنَ آدَم أنَا یَوُمٌ جَدیدٌ وَ أناَ عَلَیْکَ شَهیدٌ. فَقُلْ فیَّ خَیْراً، وَ اعْمَلْ فیَّ خَیْرَاً، أشْهَدُ لَکَ بِهِ فِى الْقِیامَةِ، فَإنَّکَ لَنْ تَرانى بَعْدَهُ أبَداً.(7)
انسان پر کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرتا جب وہ دن اس انسان سے یہ نہ کہے کہ میں نیادن ہوں اور میں تمھارے اوپر شاہداور گواہ ہوں لہذااس دن میں اچھی باتیں بولو نیک عمل کرو تو میں قیامت میں تمھارے لیے گواہی دوں گااور آج کے بعد تم مجھے کبھی نہیں دیکھو گے.
8ـ قالَ(علیه السلام): فِى الْمَرَضِ یُصیبُ الصَبیَّ، کَفّارَةٌ لِوالِدَیْهِ.(8)
بچے کی بیماری اس کے والدین کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے .
9ـ قالَ(علیه السلام): الزَّبیبُ یَشُدُّ الْقَلْبِ، وَیُذْهِبُ بِالْمَرَضِ، وَ یُطْفِىءُ الْحَرارَةَ، وَ یُطیِّبُ النَّفْسَ.(9)
منقیٰ دل کو مضبوط کرتا ہے ' بیماری کو دور کرتا ہے گرمی کو کم کرتا ہے اورسانس کوخوشبداراور پاکیزہ بناتا ہے .
10ـ قالَ(علیه السلام): أطْعِمُوا صِبْیانَکُمُ الرُّمانَ، فَإنَّهُ اَسْرَعُ لاِلْسِنَتِهِمْ.(10)
اپنے بچوں کو انار کھلاؤ اس سے ان کی زبان جلدی کھلتی ہے .
11ـ قالَ(علیه السلام): أطْرِقُوا أهالیکُمْ فى کُلِّ لَیْلَةِ جُمْعَة بِشَیْء مِنَ الْفاکِهَةِ، کَیْ یَفْرَحُوا بِالْجُمْعَةِ.(11)
ہر شب جمعہ کچھ پھل یا مٹھائی لیکر اپنے اہل خانہ کے پاس آیا کرو تا کہ وہ جمعہ کی آمد سے خوش ہوں .
12ـ قالَ(علیه السلام): کُلُوا ما یَسْقُطُ مِنَ الْخوانِ فَإنَّهُ شِفاءٌ مِنْ کُلِّ داء بِإذْنِ اللّه ِعَزَّوَجَلَّ، لِمَنْ اَرادَ أنْ یَسْتَشْفِیَ بِهِ.(12)
کھانے کے برتن یا دستر خوان سے جو گرجائے اسے کھا لیا کرو اسلیے کہ اگر کوئی اس کے ذریعہ شفا چاہے تو خدا کے اذن سے یہ اس کے لئے بہترین شفا ہے
13ـ قالَ(علیه السلام):لا ینبغى للعبد ان یثق بخصلتین: العافیة و الغنى، بَیْنا تَراهُ مُعافاً اِذْ سَقُمَ، وَ بَیْنا تَراهُ غنیّاً إذِ افْتَقَرَ.(13)
بندوں کےلئے یہ مناسب نہیں کہ دو حالتوں پر بھروسہ کریں صحت وعافیت اور مالداری وتوانگری اس لئے کہ ممکن ہے دیکھتے ہی دیکھتے کوئی بیماری آجائے اور صحت و سلامتی سے ہاتھ دھونا پڑجائے یا اچانک غریبی اور تنگ دستی آجائے اور مال ودولت ہاتھ سے نکل جائے .
14ـ قالَ(علیه السلام): لِلْمُرائى ثَلاثُ عَلامات: یَکْسِلُ إذا کانَ وَحْدَهُ، وَ یَنْشطُ إذاکانَ فِى النّاسِ، وَ یَزیدُ فِى الْعَمَلِ إذا أُثْنِىَ عَلَیْهِ، وَ یَنْقُصُ إذا ذُمَّ.(14)
ریا کار کی تین نشانیاں ہیں جب اکیلا ہو تو سستی اور کاہلی سے کام لیتا ہے اورجب لوگوں کے درمیان ہو تو بہت تازہ دم اور فعال دکھائی دیتا ہے 'جب تعریف کی جائے توبہت کام کرتا ہے ' جب مذمت کا سامنا ہو تو اس کے عمل میں کمی ہو جاتی ہے
15ـ قالَ(علیه السلام): اَوْحَى اللّهُ تَبارَکَ وَ تَعالى إلى نَبیٍّ مِنَ الاْنْبیاءِ: قُلْ لِقَوْمِکَ لا یَلْبِسُوا لِباسَ أعْدائى، وَ لا یَطْعَمُوا مَطاعِمَ أعْدائى، وَ لا یَتَشَکَّلُوا بِمَشاکِلِ أعْدائى، فَیَکُونُوا أعْدائى.(15)
خدا وند عالم نے اپنے ایک نبی کو وحی فرمائی کہ آپ اپنی قوم سے کہ دیں کہ میرے دشمنوں کا لباس نہ پہنا کریں میرے دشمنوں کے کھانے نہ کھایا کریں اور میرے دشمنوں جیسی وضع وقطع نہ بنائیں ورنہ وہ میرے دشمن شمار ہوں گے.
16ـ قالَ(علیه السلام): اَلْعُقُولُ أئِمَّةُ الأفْکارِ، وَ الاْفْکارُ أئِمَّةُ الْقُلُوبِ، وَ الْقُلُوبُ أئِمَّةُ الْحَواسِّ، وَ الْحَواسُّ أئِمَّةُ الاْعْضاءِ.(16)
عقلیں فکروں کی امام اور رہنما ہیں 'فکریں دلوں کے امام اور رہنما ہیں 'دل احساسات کے لئے امام ہیں اور احساسات اعضاء وجوارح کے لئے امام اور رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں.
17ـ قالَ(علیه السلام): تَفَضَّلْ عَلى مَنْ شِئْتَ فَأنْتَ أمیرُهُ، وَ اسْتَغِْنِ عَمَّنْ شِئْتَ فَأنْتَ نَظیرُهُ، وَ افْتَقِرْ إلى مَنْ شِئْتَ فَأنْتَ أسیرُهُ.(17)
جس کسی کے ساتھ چاہو احسان اور نیکی کرو ایسا کرنے سے تم اس کے حاکم اور سردار بن جاؤ گے ' جس کسی سے چاہو بے نیازی کا رویہ اختیار کرو اس طرح اس کے مثل و نظیر کہلاؤ گے جس کسی کے سامنے چاہو ہاتھ پھیلاکر اپنی غربت اور فقر کا رونا رو اس طرح تم اس کے اسیر بن جاؤگے .
18ـ قالَ(علیه السلام): أعَزُّ الْعِزِّ الْعِلْمُ، لاِنَّ بِهِ مَعْرِفَةُ الْمَعادِ وَ الْمَعاشِ، وَ أذَلُّ الذُّلِّ الْجَهْلُ، لاِنَّ صاحِبَهُ أصَمُّ، أبْکَمٌ، أعْمى، حَیْرانٌ.(18)
سب سے بڑی عزت علم ہے اس لئے کہ اس کے ذریعہ روز قیامت اور امور حیات کی معرفت حاصل ہوتی ہے ' سب سے بڑی ذلت جہالت ہے اس لئے کہ جاہل گونگا 'بہرہ ' اندھا اور حیران و سر گرداں ر ہتا ہے .
19ـ قالَ(علیه السلام): جُلُوسُ ساعَة عِنْدَ الْعُلَماءِ أحَبُّ إلَى اللّهِ مِنْ عِبادَةِ ألْفِ سَنَة، وَ النَّظَرُ إلَى الْعالِمِ أحَبُّ إلَى اللّهِ مِنْ إعْتِکافِ سَنَة فى بَیْتِ اللّهِ، وَ زیارَةُ الْعُلَماءِ أحَبُّ إلَى اللّهِ تَعالى مِنْ سَبْعینَ طَوافاً حَوْلَ الْبَیْتِ، وَ أفْضَلُ مِنْ سَبْعینَ حَجَّة وَ عُمْرَة مَبْرُورَةمَقْبُولَة، وَ رَفَعَ اللّهُ تَعالى لَهُ سَبْعینَ دَرَجَةً، وَ أنْزَلَ اللّهُ عَلَیْهِ الرَّحْمَةَ، وَ شَهِدَتْ لَهُ الْمَلائِکَةُ: أنَّ الْجَنَّةَ وَ جَبَتْ لَهُ.(19)
علماء کے پاس ایک گھنٹہ بیٹھنا خدا وند عالم کو ایک ہزار سال کی عبادت سے زیادہ پسند ہے 'عالم کے چہرہ کو دیکھنا خانۂ خدا میں ایک سال اعتکاف کرنے سے زیادہ پسند ہے علماء کے دیدار کے لئے جانا خانۂ کعبہ کے گرد ستر مرتبہ طواف کرنے سے زیادہ پسند اور ستر مقبول بارگاہ حج و عمرہ بجا لانےسے زیادہ بہتر ہے خداند عالم ایسا کرنے والے کے ستر درجہ بلند کرتا ہے اس پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے لئے ملائکہ گواہی دیتے ہیں کہ کہ اس پر جنت واجب ہے .
20ـ قالَ(علیه السلام): یَا ابْنَ آدَم، لا تَحْمِلْ هَمَّ یَوْمِکَ الَّذى لَمْ یَأتِکَ عَلى یَوْمِکَ الَّذى أنْتَ فیهِ، فَإنْ یَکُنْ بَقِیَ مِنْ أجَلِکَ، فَإنَّ اللّهَ فیهِ یَرْزُقُکَ.(20)
اے آدم کے فرزند جو دن ابھی نہیں آیا اس کے ھم و غم کا بوجھ آج پر نہ ڈالو اگر تمھاری زندگی کے دن باقی ہوں گے تو خداوندعالم ان میں بھی تمھیں رزق وروزی دے گا .
21ـ قالَ(علیه السلام): قَدْرُ الرَّجُلِ عَلى قَدْرِهِمَّتِهِ، وَ شُجاعَتُهُ عَلى قَدْرِ نَفَقَتِهِ، وَ صِداقَتُهُ عَلى قَدْرِ مُرُوَّتِهِ، وَ عِفَّتُهُ عَلى قَدْرِ غِیْرَتِهِ.(21)
انسان کی قدر ومنزلت اس کی ہمت اور عزم و حوصلہ کے برابر ہو تی ہے اس کی شجا عت و بہادری اس کے راہ خدا میں خرچ کرنے کے کی مقدار کے برابر ہو تی ہے اس کی صداقت اس کی مرؤت اور جواں مردی کے برابر اور اس کی عفت و پاک دامنی اس کی غیرت و حمیت کے برابر ہوتی ہے
22ـ قالَ(علیه السلام): مَنْ شَرِبَ مِنْ سُؤْرِ أخیهِ تَبَرُّکاً بِهِ، خَلَقَ اللّهُ بَیْنَهُما مَلِکاً یَسْتَغْفِرُ لَهُما حَتّى تَقُومَ السّاعَةُ.(22)
اگرکوئی مومن بھائی تبرک کےطوراپنے مومن بھائی کا جھوٹا پی لیتا ہے تو خدا وند عالم ان دو نوں کے لئے ایک ملک کو پیداکرتا ہےجو قیا مت تک ان دونوں کے لئے استغفار کرتا ہے .
23ـ قالَ(علیه السلام): لا خَیْرَ فِى الدُّنْیا إلاّ لِرَجُلَیْنِ: رَجَلٌ یَزْدادُ فى کُلِّ یَوْم إحْساناً، وَ رَجُلٌ یَتَدارَکُ ذَنْبَهُ بِالتَّوْبَةِ، وَ أنّى لَهُ بِالتَّوْبَةِ، وَالله لَوْسَجَدَ حَتّى یَنْقَطِعَ عُنُقُهُ ما قَبِلَ اللهُ مِنْهُ إلاّ بِوِلایَتِنا أهْلِ الْبَیْتِ.(23)
دنیا میں خیر و سعادت کسی کے لئے نہیں ہے سوائے دو لو گوں کے ایک وہ شخص جو ہر روز اپنی نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے اور دوسر ا وہ شخص جو توبہ کے ذریعہ اپنے گناہوں کی بیماری کا علاج کرتا ہے اور توبہ کے لئے بھی اگر کوئی شخص اتنے سجدے کرے کہ اس کے سروتن میں جدائی ہوجائےاس کےباوجودخداوند عالم اس کی توبہ اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک توبہ کرنےوالاہماری ولایت کااقرار کرنےوالا نہ ہو .

24ـ قالَ(علیه السلام): عَجِبْتُ لاِبْنِ آدَم، أوَّلُه ُنُطْفَةٌ، وَ آخِرُهُ جیفَةٌ، وَ هُوَ قائِمٌ بَیْنَهُما وِعاءٌ لِلْغائِطِ، ثُمَّ یَتَکَبَّرُ.(24)
مجھےتعجب ہوتا ہے اس شخص پر جس کا آغاز نطفہ اور جس کا انجام مردار ہے اور وہ ان دونوں کے درمیان گندگی کو اٹھا پھرتا ہے اس کے با وجود غرور و تکبر کا شکار رہتا ہے .
25ـ قالَ(علیه السلام): إیّاکُمْ وَ الدَّیْن، فَإنَّهُ هَمٌّ بِاللَّیْلِ وَ ذُلٌّ بِالنَّهارِ.(25)
قرض لینے سے بچو اس لئے کہ قرض لینا راتوں میں بے چینی اور دن میں ذلت و دسوائی کا باعث ہوتا ہے .
26ـ قالَ(علیه السلام): إنَّ الْعالِمَ الْکاتِمَ عِلْمَهُ یُبْعَثُ أنْتَنَ أهْلِ الْقِیامَةِ، تَلْعَنُهُ کُلُّ دابَّة مِنْ دَوابِّ الاْرْضِ الصِّغارِ.(26)
جو عالم اپنے علم کو چھپائے وہ قیامت میں سب سے زیا دہ بد بو دار صورت میں اٹھایا جائے گا یہاں تک کہ اس پر ہر چھوٹی سے چھوٹی مخلوق لعنت کرے گی.
27ـ قالَ(علیه السلام): یا کُمَیْلُ، قُلِ الْحَقَّ عَلى کُلِّ حال، وَوادِدِ الْمُتَّقینَ، وَاهْجُرِ الفاسِقینَ، وَجانِبِ المُنافِقینَ، وَلاتُصاحِبِ الخائِنینَ.(27)
اے کمیل ہر حال میں حق بولو صاحبان تقویٰ سے محبت کرو فاسقوں سے دور رہو منافقوں سے کنارہ کشی رکھو اور خیانت کرنے والوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہ رکھو
28ـ قالَ(علیه السلام): فى وَصیَّتِهِ لِلْحَسَنِ (علیه السلام): سَلْ عَنِ الرَّفیقِ قَبْلَ الطَّریقِ، وَعَنِ الْجارِ قَبْلَ الدّارِ.(28)

حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہؤے ادشاد فرمایا: راستے سے پہلے ہم سفر کے بارے میں معلوم کر لیا کو اور گھر لینے سے پہلے پڑوسیوں کے بارے میں معلومات حاصل کر لیا کرو
29ـ قالَ(علیه السلام): اِعْجابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ دَلیلٌ عَلى ضَعْفِ عَقْلِهِ.(29)
انسان کا اپنے اوپر فخر کرنا اس کی کم عقلی کی نشانی ہے
30ـ قالَ(علیه السلام): أیُّهَا النّاسُ، إِیّاکُمْ وُحُبَّ الدُّنْیا، فَإِنَّها رَأْسُ کُلِّ خَطیئَة، وَبابُ کُلِّ بَلیَّة، وَداعى کُلِّ رَزِیَّة.(30)
اے لوگو دنیا کی محبت سے بچو اس لئے کہ وہ ہر غلطی اور گناہ کی جڑ ' ہر بلا و آزمائش کا دروازہ اور ہر مصیبت کی آماجگاہ ہے .
31ـ قالَ(علیه السلام): السُّکْرُ أرْبَعُ السُّکْراتِ: سُکْرُ الشَّرابِ، وَسُکْرُ الْمالِ، وَسُکْرُ النَّوْمِ، وَسُکْرُ الْمُلْکِ.(31)
نشہ چار طرح کا ہرتا ہے شراب کانشہ 'مال ودولت کانشہ' نیند کانشہ اور حکومتی عہدہ و منصب کا نشہ.
32ـ قالَ(علیه السلام): أللِّسانُ سَبُعٌ إِنْ خُلِّیَعَنْهُ عَقَرَ.(32)
زبان ایک درندہ ہے جو اگر آزاد رہے تو پھاڑ کھائےگا .
33ـ قالَ(علیه السلام): یَوْمُ الْمَظْلُومِ عَلَى الظّالِمِ أشَدُّ مِنْ یَوْمِ الظّالِمِ عَلَى الْمَظْلُومِ.(33)
ظالم کے خلاف مظلوم کا دن مظلوم کے خلاف ظالم کے دن سے زیادہ سخت ہوتا ہے .
34ـ قالَ(علیه السلام): فِى الْقُرْآنِ نَبَأُ ما قَبْلَکُمْ، وَخَبَرُ ما بَعْدَکُمْ، وَحُکْمُ ما بَیْنِکُمْ.(34)
قرآن مجید میں تم سے پہلے کی خبریں تمھارے بعد کے حالات اور تمھارے موجودہ دور کے احکام پائے جاتے ہیں .
35ـ قالَ(علیه السلام): نَزَلَ الْقُرْآنُ أثْلاثاً، ثُلْثٌ فینا وَفى عَدُوِّنا، وَثُلْثٌ سُنَنٌ وَ أمْثالٌ،وَثُلْثٌ فَرائِض وَأحْکامٌ.(35)
قرآن مجید تین حصوں میں نازل ہوا ایک حصہ ہم اہل بیت ع کے فضایل و کمالات اور ہمارے دشمنوں کی مذمت کے بارے میں ہے دوسرے حصے میں سنتوں اور ضرب الامثال کا تذکرہ ہے اور تیسرے حصہ میں احکام اور فرائض بیان ہوئے ہیں
36ـ قالَ(علیه السلام): ألْمُؤْمِنُ نَفْسُهُ مِنْهُ فى تَعَب، وَالنّاسُ مِنْهُ فى راحَة.(36)
مومن خود تکلیف میں رہتا ہے لیکن لوگوں کو اس کے وجود سے آرام و سکون نصیب ہو تا ہے .

37ـ قالَ(علیه السلام): کَتَبَ اللّهُ الْجِهادَ عَلَى الرِّجالِ وَالنِّساءِ، فَجِهادُ الرَّجُلِ بَذْلُ مالِهِ وَنَفْسِهِ حَتّى یُقْتَلَ فى سَبیلِ اللّه، وَجِهادُ الْمَرْئَةِ أنْ تَصْبِرَ عَلى ماتَرى مِنْ أذى زَوْجِها وَغِیْرَتِهِ.(37)
خدا وند عالم نے مردوں اور عورتوں دونوں پر جہاد فرض کیا مرد کا جہاد جان و مال کی قربانی سے ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے اور عورت کا جہاد اس کے شوہر اور اس کی غیرت کی بنا پردر پیش مشکلات پرصبر کے ذریعہ ہوتا ہے .
38ـ قالَ(علیه السلام): فى تَقَلُّبِ الاْحْوالِ عُلِمَ جَواهِرُ الرِّجالِ.(38)
حالات کےبدلنےسےلوگوں کی حقیقت سامنےآجاتی ہے .
39ـ قالَ(علیه السلام): إنّ الْیَوْمَ عَمَلٌ وَلاحِسابَ، وَغَداً حِسابٌ وَ لا عَمَل.(39)
آج یعنی جب تک زندگی ہے عمل کا موقعہ ہے اس میں حساب وکتاب نہیں ہے اورکل یعنی موت کے بعدحسا ب وکتا ب کا موقعہ ہوگا عمل کا نہیں .
40ـ قالَ(علیه السلام): إتَّقُوا مَعَاصِیَ اللّهِ فِى الْخَلَواتِ فَإنَّ الشّاهِدَ هُوَ الْحاکِم.(40)
تنہائوں میں بھی خدا وند عالم کی نا فرمانی سے بچو اس لئے کہ ان پر گواہ ہی ان کے بارے میں فیصلہ کر نے والا ہے
.........................................................
حوالے
[1] ـ أمالى صدوق : ص 97، بحارالأنوار: ج 90، ص 343، ح 1.
[2] ـ أمالى طوسى : ج 1، ص 114 ح 29، بحارالأنوار: ج 1، ص 169، ح 20.
[3] ـ وسائل الشّیعة: ج 25، ص 434، ح 32292.
[4] ـ وافى: ج 4، ص 402، س 3.
[5] ـ أعیان الشّیعة: ج 1، ص 350، بحارالأنوار: ج 41، ص 150، ضمن ح 40.
[6] ـ أمالى طوسى: ج 1، ص 55، بحارالأنوار: ج 2، ص 48، ح 7.
[7] ـ أمالى صدوق: ص 95، بحارالأنوار: ج 68، ص 181، ح 35.
[8] ـ بحار الأنوار: ج 5، ص 317، ح 16، به نقل از ثوابالأعمال.
[9] ـ أمالى طوسى : ج 1، ص 372، بحارالأنوار: ج 63، ص 152، ح 5.
[10] ـ أمالى طوسى: ج 1، ص 372، بحارالأنوار: ج 63، ص 155، ح 5.
[11] ـ عدّة الدّاعى: ص 85، ص 1، بحارالأنوار: ج 101، ص 73، ح 24.
[12] ـ مستدرک الوسائل : ج 16، ص 291، ح 19920.
[13] ـ بحارالأنوار: ج 69، ص 68، س 2، ضمن ح 28.
[14] ـ محبّة البیضاء: ج 5، ص 144، تنبیه الخواطر: ص 195، س 16.
[15] ـ مستدرک الوسائل: ج 3، ص 210، ح 3386.
[16] ـ بحارالأنوار: ج 1، ص 96، ح 40.
[17] ـ بحارالأنوار: ج 70، ص 13.
[18] ـ نزهة الناظر و تنبیه الخاطر حلوانى: ص 70، ح 65.
[19] ـ عدّة الدّاعى: ص 75، س 8، بحارالأنوار: ج 1، ص 205، ح 33.
[20] ـ نزهة الناظر و تنبیه الخاطر حلوانى: ص 52، ح 26.
[21] ـ نزهة الناظر و تنبیه الخاطر حلوانى: ص 46، ح 12.
[22] ـ اختصاص شیخ مفید: ص 189، س 5.
[23] - وسائل الشیعة: ج 16 ص 76 ح 5.
[24] ـ وسائل الشّیعة: ج 1، ص 334، ح 880.
[25] ـ وسائل الشّیعة: ج 18، ص 316، ح 23750.
[26] ـ وسائل الشّیعة: ج 16، ص 270، ح 21539.
[27] ـ تحف العقول: ص 120، بحارالأنوار: ج 77، ص 271، ح 1.
[28] ـ بحارالأنوار: ج 76، ص 155، ح 36، و ص 229، ح 10.
[29] ـ اصول کافى: ج 1، ص 27، بحارالأنوار: ج 1، ص 161، ح 15.
[30] ـ تحف العقول: ص 152، بحارالأنوار: ج 78، ص 54، ح 97.
[31] ـ خصال : ج 2، ص 170، بحارالأنوار: ج 73، ص 142، ح 18.
[32] ـ شرح نهج البلاغه ابن عبده: ج 3، ص 165.
[33] ـ شرح نهج البلاغه فیض الاسلام: ص 1193.
[34] ـ شرح نهج البلاغه فیض الاسلام: ص 1235.
[35] ـ اصول کافى، ج 2، ص 627، ح 2.
[36] ـ بحارالأنوار: ج 75، ص 53، ح 10.
[37] ـ وسائل الشّیعة: ج 15، ص 23، ح 19934.
[38] ـ شرح نهج البلاغه فیض الإسلام: ص 1183.
[39] ـ شرح نهج البلاغه ابن عبده: ج 1، ک 41.
[40] ـ شرح نهج البلاغه ابن عبده: ج 3، ص 324.

رہبر انقلاب اسلامی نے سنہ 1404 ہجری شمسی کے پہلے دن مختلف عوامی طقبات سے ملاقات میں، متبرک مقامات پر دعا و توسل کے ساتھ نیا سال شروع کرنے کی ایرانیوں کی روایت کو نوروز کے سلسلے میں ایرانی قوم کے معنوی رجحان کے پہلو کی ایک نشانی بتایا اور پوری تاریخ میں حق کے محاذ کی عظیم فتوحات میں دعا اور استقامت کے اثرات کی تشریح کرتے ہوئے پچھلے سال کو ایرانی عوام کے صبر، استقامت اور معنوی طاقت کے ظہور کا سال قرار دیا۔

آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ان ایام کو امیر المومنین علیہ السلام سے متعلق بتایا اور کہا کہ ایرانی قوم اور تمام مسلم اقوام، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد سب سے برتر انسان کی حیثیت سے امیر المومنین کے دروس سے استفادے کے لیے نہج البلاغہ کا رخ کرتی ہیں اور ثقافتی و علمی میدان میں کام کرنے والوں کو اس عظیم کتاب کے مطالعے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

انھوں نے شبہائے قدر کو بارگاہ الہی میں دعا و مناجات کا بہترین موقع بتایا اور کہا کہ ان شبوں کا ہر گھنٹہ، ایک عمر جتنی قدر و قیمت رکھتا ہے اور ائمہ علیہم السلام سے توسل اور عوام الناس خاص طور پر جوانوں کی دعائیں ان کے مستقبل اور ایک قوم کے مستقبل کو بدل سکتی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایران کے سلسلے میں امریکی سیاستدانوں کے بیانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کو جان لینا چاہیے کہ ایران کے ساتھ معاملات میں دھمکیوں سے انھیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ امریکیوں اور دوسروں کو جان لینا چاہیے کہ اگر انھوں نے ایران کے خلاف کوئی بھی حماقت کی تو وہ زودار تھپڑ کھائیں گے۔

انھوں نے امریکی اور یورپی سیاستدانوں کی جانب سے مزاحمتی مراکز کو ایران کی پراکسی فورسز بتائے جانے کو ایک بڑی غلطی اور ان تنظیموں کی توہین بتایا اور کہا کہ اس میں پراکسی کی کوئي بات ہی نہیں ہے اور یمنی قوم اور خطے میں مزاحمت کے دیگر مراکز میں صیہونیوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے کا اندرونی محرّک پایا جاتا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو کسی پراکسی کی کوئي ضرورت نہیں ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے صیہونی حکومت کی خباثتوں اور مظالم کے مقابلے میں استقامت و مزاحمت کو خطے کی ایک دیرینہ روش بتایا اور کہا کہ فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے وقت سے ہی اس ظلم کے خلاف پہلی صف میں کھڑے ہونے والے ممالک میں سے ایک یمن تھا اور اس ملک کے اس وقت کے حکمراں نے ایک بین الاقوامی نشست میں شرکت کر کے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی مخالفت کی تھی۔

انھوں نے غیر مسلم اقوام میں بے رحم صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف احتجاج بڑھنے اور امریکا اور یورپی ملکوں میں اس کے خلاف عوام اور اسٹوڈنٹس کے مظاہروں میں شدت آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی حکام اس یونیورسٹی کا بجٹ کاٹنے جیسے کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں کے اسٹوڈنٹس نے فلسطین کے حق میں مظاہرے کیے ہیں اور یہ اقدام ان کے آزادئ اطلاعات (فریڈم آف انفارمیشن) لبرلزم اور انسانی حقوق کے دعووں کی پول کھول دیتا ہے۔

رہبر انقلاب نے اقوام کی جانب سے صیہونی حکومت کی خباثتوں کی مخالفت اور اس کے خلاف ہر طرح کی مزاحمت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی ان خباثتوں کے خلاف مضبوطی سے ڈٹا ہوا ہے اور اس نے اپنے دائمی موقف اور روش کا کھل کر اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کا دفاع کرنے والے فلسطینی اور لبنانی مجاہدین کی حمایت کرتا ہے۔

انھوں نے ایک بار پھر ایران کے دشمنوں کی دھمکیوں کے جواب میں کہا کہ ہم کبھی بھی دوسروں سے ٹکراؤ اور جھڑپ شروع کرنے والے نہیں رہے ہیں لیکن اگر کسی نے خباثت کے ساتھ ٹکراؤ شروع کیا تو وہ جان لے کہ اسے سخت تھپڑ کھانا پڑے گا۔

انھوں نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں باطل کے محاذ کے سامنے حق کے محاذ کی جانب سے ہمیشہ ادا کی جانے والی قیمت ک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پچھلے ہجری شمسی سال کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ حق و باطل کے درمیان جنگ میں یقینی طور پر فتح حق کے محاذ کی ہوتی ہے لیکن اس راہ میں کچھ قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہیں جس طرح سے کہ یہ الہی سنت، مقدس دفاع کے دوران بھی جاری رہی تھی۔

آيت اللہ خامنہ ای نے پچھلے ہجری شمسی سال کے واقعات میں بڑی بڑی شخصیات کو کھو دینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ان تلخ واقعات کو برداشت کرنے، استقامت کرنے اور پروردگار عالم سے مدد طلب کرنے کا حتمی نتیجہ، دشمنوں خاص طور پر فاسد، فاسق اور خبیث صیہونی حکومت کی شکست بتایا اور کہا کہ پچھلے سخت سال میں ایرانی قوم کی معنوی طاقت، بہادری اور شجاعت بہت نمایاں ہو کر سامنے آئي۔

انھوں نے مرحوم صدر شہید رئیسی کے عظیم الشان جلوس جنازہ، دشمن کی دھمکیوں کے باوجود فاتحانہ نماز جمعہ میں عوام کی بے نظیر شرکت، صدارتی انتخابات میں لوگوں کی بھرپور شرکت اور شہید ہنیہ اور صیہونی حکومت کے حملوں میں شہید ہونے والے دیگر کمانڈروں کے زبردست جلوس جنازہ کو ایرانی قوم کی معنوی طاقت اور جذبے کی جھلک قرار دیا۔

رہبر انقلاب نے اسی طرح کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے موقع پر نکالی جانے والی ریلیاں، اس عمل کا نقطۂ عروج تھیں جن میں اسلامی انقلاب سے ایرانی قوم کی وفاداری اور اسلامی جمہوریہ سے ان کا عشق پوری دنیا کے بدمعاشوں اور منافقوں کو دکھا دیا گيا اور اس نے پوری دنیا کو بتا دیا کہ ایرانی قوم کیا ہے۔

انھوں نے ایرانی قوم کی خصوصیات اور تشخص کو صحیح طریقے سے ملک کے اندر بھی سمجھے جانے کو ضروری بتایا اور کہا کہ بڑھتے ہوئے معاشی اور اقتصادی مسائل ہر جگہ کے لوگوں کو افسردہ اور مایوس کر سکتے ہیں لیکن ایران کی مضبوط اور شجاع قوم، پچھلے سال کی تمام تر مشکلات کے باوجود میدان میں آئي اور اس نے اسلامی نظام کا دفاع کیا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے حالیہ برسوں کے نعروں میں پروڈکشن کے مسئلے کو دوہرانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ملک کے اقتصادی حالات اور عوام کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں پروڈکشن کا بنیادی کردار ہے۔ انھوں نے پروڈکشن کے میدان میں ہر طرح کی چھوٹی بڑی سرمایہ کاری کو مفید اور ضروری بتایا اور کہا کہ سبھی کو پروڈکشن کے میدان میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے چاہے وہ محدود اثاثے والے لوگ ہوں یا بڑی سطح پر معاشی سرگرمیاں انجام دینے والے افراد ہوں۔

انھوں نے عوامی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنے اور اس کام میں سہولت پیدا کرنے کو، اس سال کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے عمل میں حکومت کی اہم ترین ذمہ داری بتایا۔

رہبر انقلاب نے کہا کہ حکومتی عہدیداران، عوام کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں لیکن صرف عوام کی امداد جیسے کاموں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے بنیادی کاموں کی ضرورت ہے، جن میں سے ایک سرمایہ کاری ہے۔

 تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاج القرآن کے شہر اعتکاف سے عشق الٰہی اور لذت توحید کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی نافرمانیاں بڑھ جائیں تو رحمتیں اور برکتیں اُٹھ جاتی ہیں۔ اُمت آج ایسے ہی المیہ سے دو چار ہے۔ رمضان المبارک بالخصوص آخری عشرہ خود شناسی، خوداحتسابی اور قرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اُمت غفلت کی زندگی ترک کر دے، یہ تباہی کا راستہ ہے، توبہ سے اللہ کو راضی کیا جائے۔ انہوں نے نوجوانوں کو بطور خاص نصیحت کی قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے اخلاق و کردار سنواریں۔ دین کے عشق اور سیرت مصطفیؐ کی محبت میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ مشکلات میں عشق الٰہی کا پتہ چلتا ہے، راہ حق میں تکلیفیں برداشت کرنیوالے منزل پا لیتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے مولائے کائنات حضرت علی ؑکے یوم شہادت کی نسبت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت علی ؑکی شہادت اسلامی تاریخ اور امت مسلمہ کا ایک المیہ ہے، امت آج بھی اس زخم کا دکھ سہہ رہی ہے، حضرت علی ؑاصولوں، عدل و انصاف اور شجاعت کا پیکر تھے۔ آپ ؑکی شہادت نے امت مسلمہ کو یہ پیغام دیا کہ دنیا کی فانی خواہشات کے بجائے آخرت کی کامیابی کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں۔ حضرت علی ؑکی زندگی میں ہمیں بے شمار ایسے اصول ملتے ہیں جو آج بھی ہماری اجتماعی زندگی کیلئے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان کی تعلیمات میں صبر، تحمل، عدل، انصاف، اور انسانیت کی خدمت کا درس ملتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت کے بعد بھی آپ کی تعلیمات امت مسلمہ کی رہنمائی کیلئے زندہ ہیں۔ منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں 50 فیصد سے زائد نوجوان شریک ہوئے۔ 5ہزار کے لگ بھگ خواتین شریک ہیں، 15ہزار افراد کے سحر و افطار کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ 
 
 
 

وہ اہم کام جس کے ہم محتاج ہیں!

بندہ حقیر کی نگاہ میں جو(کام)زیادہ اہمیت کا حامل ہے وہ یہ کہ ہم(عمومی طور پہ تمام)معاشروں کو، (اس کے علاوہ)ہمارے اپنے معاشرے کو اولین ترجیح(کے طور)پہ، قرآن مجید کے نہ ختم ہونے والے سرچشمے سے سیراب کریں۔ ہمیں اس چیز(قرآن پہ عمل)کی ضرورت ہے، اور شدت کے ساتھ اس(قرآن پہ عمل)کے محتاج ہیں۔

 

اجتماعی زندگی کے دو پہلو!

ہماری انفرادی زندگی میں، ذاتی زندگی میں، اخلاقیات میں، رویّوں میں، آپسی سلوک میں، ایسے مسائل(درپیش) ہیں جو قرآن(کی برکت)سے حل کئے جاسکتے ہیں۔ (اس کے علاوہ)ہماری اجتماعی زندگی میں بھی، کہ اجتماعی زندگی کا ایک حصہ جو ہمارے اپنے معاشرے کے تعلقات پہ مبنی ہے۔

 

بیرونی معاشرے سے متعلق مسئلہ !

(مسلمان معاشرے کے)باہمی تعلقات، کہ جس میں ہمارا باہمی تعاون، ہمارا(آپسی)تعامل، ہماری(آپسی)محبت ہیں۔ (لیکن)ہماری(اجتماعی)زندگی کا ایک اور حصہ بھی ہے کہ جو دوسرے(غیر مسلم یا غیر ملکی)معاشروں سے(تعلقات)پہ مبنی ہے۔ یہ(مذکورہ بالا)ہمارے(اجتماعی)مسائل ہیں۔ ان تمام(مسائل)میں انفرادی مسائل میں بھی، اپنے معاشرے کے مسئل میں، دیگر معاشروں کے مسائل میں، ان سب میں ہمارے لئے آزمائشیں ہیں کہ یہ آزمائشیں قرآن سے حل ہوسکتی ہیں۔ قرآن اس سلسلے میں ہماری راہنمائی کرسکتا ہے اور ہمارا ہاتھ تھام سکتا ہے۔

 

 

Tuesday, 18 March 2025 22:52

اب وہ دور گزر گیا


16 مارچ بروز اتوار، اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی نے ایران کے خلاف امریکی حکام کے مداخلت پسندانہ بیانات کے جواب میں کہا ہے کہ امریکی حکومت کو ایران کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کسی قسم کا حکم دینے کا کوئی حق نہیں، انہوں نے امریکی حکام کو یاد دلایا کہ ایران کے خلاف مداخلت کا وہ دور 1979ء میں ختم ہوا، جب امریکی یہاں حکم چلایا کرتے تھے۔ وزیر خارجہ نے امریکی حکام سے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی نسل کشی اور دہشت گردی کی حمایت ختم اور یمن کے لوگوں کا قتل عام بند کریں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 15 مارچ بروز ہفتہ یمن پر نئے حملوں کا حکم دیا تھا، یمن پر امریکہ اور برطانیہ کے حملوں کا ایک نیا دور شروع ہونے کے بعد ان حملوں میں  یمن کے دو شہروں صنعاء اور صعدہ میں درجنوں افراد شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ سکیورٹی اور فوجی حکام نے یمن کے شہریوں پر وحشیانہ حملوں کے بعد ایران اور یمن کو دھمکی دی ہے۔ اس حوالے سے امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے کہا ہے کہ جو میراث ہمیں پچھلی انتظامیہ سے ملی ہے، وہ بہت خوفناک تھی، انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کے خلاف تمام آپشنز میز پر ہیں اور ایران کو حوثیوں (یمن انصار اللہ) کی حمایت بند کرنی چاہیئے۔ امریکی وزیر جنگ پیٹ ہیگسیٹ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حملے اس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک حوثی اپنی فوجی کارروائیاں بند نہیں کر دیتے۔ ایران ایک طویل عرصے سے حوثیوں کی مدد کر رہا ہے اور اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ ایسا کرنا بند کر دے۔"

ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں کی جانب سے یمن کے انصاراللہ کے لیے ایران کی حمایت کے بارے میں نئے الزامات اور ساتھ ہی یہ دھمکی کہ ایران کے خلاف تمام آپشنز میز پر ہیں، درحقیقت اس پالیسی کا تسلسل ہے، جس پر امریکہ کئی دہائیوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عمل پیرا ہے۔ خاص طور پر، "ایران کے خلاف تمام آپشنز میز پر ہیں، ایسا کلیدی جملہ ہے، جسے جارج بش اور براک اوباما سے لے کر جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ تک تمام امریکی صدور نے بار بار استعمال کیا ہے۔ ان کا مقصد ہمیشہ ایک ہی رہا ہے اور وہ ایران کو دھونس، جبر اور آمرانہ موقف کے ذریعے ڈرانا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے نام ٹرمپ کے حالیہ خط کے بعد بھی امریکہ نے اس غیر منطقی انداز کو ترک نہیں کیا۔

تاہم ایران نے کبھی بھی امریکی دھمکیوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور اس سلسلے میں ایران کے ردعمل کا اظہار رہبر معظم انقلاب اسلامی نے چند بار کیا ہے۔ ٹرمپ کے خط کے اعلان کے ایک دن بعد، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے واضح کیا ہے  کہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ بدمعاش حکومتیں مذاکرات پر اصرار کرتی ہیں۔ ان کا مقصد مسائل کو حل کرنا نہیں، بلکہ غلبہ حاصل کرنا ہے "مذاکرات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ "امریکہ کی طرف سے جو مذاکرات کی کوشش کی گئی ہے، وہ ایران کے جوہری پروگرام تک محدود نہیں رہے گی۔ یہ حکومتیں مسائل کے حل کے لیے بات چیت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں، وہ اپنے فیصلے مسلط کرنا چاہتی ہیں۔

امریکی صدور بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران پر سخت ترین اور وسیع ترین پابندیاں عائد کرنے کی کوششوں کا مقصد تسلط قائم کرنا اور ایران کو امریکہ کے غیر قانونی اور غیر معقول مطالبات کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ہے، جن میں جوہری ٹیکنالوجی، علاقائی پالیسیوں اور اس کی میزائل صلاحیتوں کے شعبے شامل ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کا نقطہ نظر بھی ایک طرح سے ایران کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا تسلسل تھا، جو یقیناً اب تک بے نتیجہ ثابت ہوا ہے، ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں دوبارہ داخل ہونے کے بعد، وہی پرانی پالیسی، یعنی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی، کو ایران کے خلاف وسیع پیمانے پر لاگو کیا گیا ہے اور اس میں ایک نیا عنصر شامل کیا گیا ہے، جس کا نام فوجی دھمکی ہے۔ ایک ایسی پالیسی جس کی ناکامی صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران ثابت ہوچکی ہے۔

اب ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ سکیورٹی اور فوجی اہلکار وہی پرانی زبان استعمال کر رہے ہیں۔ وہ مزاحمت کے محور کے طور پر ایران اور یمن کے انصاراللہ کے خلاف دھمکیاں دے رہے ہیں۔ تاہم، ایرانی وزیر خارجہ نے  سینیئر امریکی حکام کی جانب سے حالیہ دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ امریکی حکومت کو ایران کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کسی قسم کا کوئی حکم دینے کا کوئی حق نہیں ہے، وہ دور 1979ء میں ختم ہوچکا ہے۔ ایران امریکی دھمکیوں کے سامنے نہیں جھکے گا اور جس طرح اس نے گزشتہ سالوں میں امریکہ کی طرف سے وسیع پیمانے پر عائد کی گئی پابندیوں کی مزاحمت کی ہے، اسی طرح مستقبل میں بھی کرتا رہے گا۔
 
 
تحریر: سید رضا میر طاہر
کیا خوارج کا ظہور خواہ مخواہ ہوگیا تھا؟ کیا وہ قوتیں جو خوارج کی تشکیل میں ملوث تھیں اور جنہوں نے ان سے مسلسل سیاسی اور نظریاتی فائدہ اٹھایا، وہ امام علیؑ کے قتل سے لا عِلم تھیں۔؟ کیا قتلِ امام علیؑ کا الزام خوارج پر عائد کرنا اور اس کے سیاسی محرک کو بھول جانا دانشمندی ہے۔؟ کیا یہ جاننا ضروری نہیں کہ خوارج کا نظریہ اور ان کا ظہور کس سیاسی و تاریخی پس منظر میں ہوا؟ یہ سوالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہمیں صرف سطحی تجزیے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیئے بلکہ گہرائی سے اس تمام معاملے کی تحلیل کرنی چاہیئے۔ یہ کہنا کہ خوارج کو صرف طالبان یا داعش کی طرح بدنام کیا گیا، یہ ایک معقول تجزیے کا نتیجہ نہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی بغور جائزہ لینا ہوگا کہ ماضی میں ان گروپوں کے ظہور کے اسباب کیا تھے اور ان کے سیاسی و مذہبی بیانیے کو کس طرح مختلف حالات میں "بیانیہ سازی" (narrative building) کے لئے عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔

خوارج کے سیاسی تناظر میں جب ہم نبی اکرمﷺ کے غزوات کا جائزہ لیتے ہیں، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عہدِ نبویؐ میں کفر کے نمائندہ قائدین میں سب سے نمایاں شخصیت ابو سفیان کی تھی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ فتح مکہ کے روز ابو سفیان کے لیے سوائے بیعتِ رسولﷺ کے کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ اس بات کو "سیاسی ضروریات" (political necessities) کے دائرے میں سمجھا جا سکتا ہے، جہاں قریش کے ایک طاقتور مگر مغلوب سردار نے اسلام کے خلاف اپنی جدوجہد کی  بقا کے لیے بانی اسلامؐ کے ساتھ ایک "تاریخی مفاہمت" (historical compromise) کی۔ آگے چل کر تاریخ اسلام میں یہ مفاہمت مسلمانوں کے درمیان ایک سیاسی تبدیلی کا تسلسل ثابت ہوئی۔ معتبر منابع کے مطابق خلیفہ اوّل کے دور میں ابو سفیان نے امام علیؑ کو بغاوت پر اُکسانے کی کوشش کی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قریش کے مغلوب شُدہ سردار کی طرف سے  اقتدارکے حصول کے لیے سازش اسی دور میں شروع ہوچکی تھی، جسے "سیاسی سازش" (political conspiracy)  کہا جاتا ہے۔

اسی طرح، خلیفہ دوم کے قتل کی واردات میں ابو لولو فیروز کا کردار بھی اہم ہے۔ ابو لولو نامی شخص تو مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا اور مغیرہ بن شعبہ خود آلِ ابوسفیان کا ہم نوالہ و ہم پیالہ تھا۔ یہ شخص دراصل ایک "پراکسی" (proxy) تھا، جس کا استعمال خلیفہ دوّم کے خلاف سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کیا گیا۔ اس کی کہانی میں ہمیں واضح طور پر "پولٹیکل گیمز" (political games) کی جھلک ملتی ہے۔ بظاہر وہ اپنے ذاتی مفادات کے تحت خلیفہ دوم پر حملہ کرتا ہے، لیکن اس کے پیچھے دراصل مغیرہ بن شعبہ اور بنو امیہ کے مفادات کارفرما تھے۔ صاحبانِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت تو خلیفہ دوّم نے عجمی حضرات کے مدینے میں داخلے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ پابندی کے اس دور میں ابو لولو کو مدینے میں رہنے کی خصوصی اجازت مغیرہ بن شعبہ کی سفارش پر ہی ملی تھی۔ اس قتل کو "پریکٹیکل اسٹرٹیجی" (practical strategy) کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس کے ذریعے اس وقت کی رائج خلافت میں تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی۔

اسی طرح، خلیفہ سوم کے خلاف ہونے والی عوامی بغاوت کو ہم "سوشل ڈسکانٹینٹ" (social discontent) کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جو کہ ایک وسیع تر سیاسی عمل کا حصہ تھی۔ اس بغاوت میں مروان بن حکم اور بنو امیہ کے سیاسی مفادات نظر آتے ہیں، جو اسلامی خلافت کو اپنے قابو میں لانے کے خواہاں تھے۔ اس سلسلے میں امام علیؑ کے اقتدار کے آغاز کو اُس وقت کے "سیاسی جغرافیہ" (political geography) کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، جہاں مختلف سیاسی طاقتوں کے مفادات آپس میں متصادم تھے۔ یہ تصادم واضح کرتا ہے کہ خلافت کا ملوکیت میں تبدیل ہونا ایک "باہدف حکمت عملی" (strategic agenda) تھا اور اس تبدیلی کے پیچھے کئی سالوں کی "منظم سیاسی تدابیر" (organized political maneuvering) کارفرما تھیں۔

جب امام علیؑ کو شہید کیا گیا تو ان کے قتل میں جو لوگ شامل تھے، وہ صرف خوارج یا ابن ملجم جیسے افراد تک محدود نہیں تھے۔ یہ ایک "سیاسی سازش" (political conspiracy) تھی، جس میں ماضی کی متصادم سیاسی طاقتوں کے مشترکہ  مفادات کا حصول شامل تھا۔ ان سب کا مشترکہ مقصد علی ابن ابیطالبؑ کو راستے سے ہٹانا تھا۔ منصوبہ ساز اپنے نقشے کے مطابق جانتے تھے کہ اس قتل کے بعد اسلامی حکومت درخت پر کسی پکے ہوئے پھل کی مانند کس کی گود میں گرے گی۔ اس کے بعد ہم اس بات کو "سیاسی تجزیہ" (political analysis) کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں کہ خوارج یا ابن ملجم نے اسلامی حکومت کے درخت پر فقط کلہاڑا چلایا، لیکن اس کا پھل نہ انہوں نے چکھا اور نہ ہی نقشے کے مطابق اُنہیں اس پھل میں سے کچھ چکھایا جانا تھا۔ پس خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنا کی ایک گہری حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امام علیؑ کے قتل کا نقشہ ابن ملجم اور خوارج کا تیار کردہ نہیں تھا بلکہ خوارج تو خود کسی اور کے نقشے کے مطابق وجود میں آئے تھے۔ خوارج نے تو اپنے وجود میں لائے جانے کے ہدف کو پورا کیا اور یوں شہادتِ امام علی ؑ کے بعد اصلی قاتل، اسلامی اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اس بات کو "سیاسی تجزیہ" (political analysis) اور "تاریخی حقیقت" (historical truth) کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ ان اصل قاتلوں کو بے نقاب کرنے کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس کے ذریعے ہم نہ صرف امام علیؑ کے قتل کے محرکات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں بلکہ اس سے جڑے وسیع تر سیاسی  مفادات اور اثرات کا آج بھی مشاہدہ  کرسکتے ہیں۔ امام علیؑ کے قتل کے بعد جو قوتیں اقتدار میں آئیں، ان کی سیاست اور حکمت عملی یہ بتاتی ہے کہ ان کی تدابیر نے عام افراد کیلئے اس قتل کو سمجھنا مزید سنگین اور مشکل بنا دیا۔ اس سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ ماضی کے خوارج ہوں یا آج کے خوارج جو کہ ہمیشہ  ایسی کاروائیوں کا الزام اپنے سر لیتے ہیں اور یہ دراصل طاقتور گروہوں کے آلہ کار ہوتے ہیں۔

کربلا کے میدان میں امام حسینؑ کے خطاب کو ہم "فلسفہ آزادی" (philosophy of freedom) کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جہاں امام حسینؑ نے ابو سفیان کے پیروکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "اگر تم دین سے بے بہرہ ہو اور قیامت سے نہیں ڈرتے تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد رہو۔" اس جملے میں امام حسینؑ نے نہ صرف مذہبی آزادی کی بات کی، بلکہ انسانیت کے اس بنیادی اصول کو بھی اجاگر کیا، جو سیاسی اقتدار کے غلط استعمال کو چیلنج کرتا ہے۔ امام حسینؑ نے ایک "سیاسی تجزیہ" (political critique) پیش کیا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح کچھ سیاسی حکام نے اسلامی تعلیمات کو اپنی طاقت کے لیے مسخ کر دیا ہے۔ حضرت زینبؑ کا خطاب بھی کربلا کے "سیاسی بیانیے" (political discourse) کا حصہ تھا، جس میں انہوں نے یزید کے دربار میں ابو سفیان اور اس کے خاندان کے منفی سیاسی کردار کو بے نقاب کیا۔

حضرت زینبؑ نے یزید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "اے ہمارے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد! تم نے اپنی مستورات کو پردے میں بٹھا رکھا ہے، جبکہ رسول اللہ کی بیٹیوں کو بے پردہ در بدر پھرا رہے ہو۔" یہ جملے ایک "سیاسی تفصیل" (political exposition) کے متقاضی ہیں، جو نہ صرف فتح مکّہ کے روز ابو سفیان کی بیعت کی حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں، بلکہ اس امر کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ اس دور میں مذہب اور سیاست کو کس طرح گمراہ کن مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ان تمام حقائق کو غیر جانبدار ہو کر جاننا ضروری ہے، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ان حقائق کو کسی اور نے نہیں بلکہ ماضی کی مقتدر نام نہاد اسلامی قوّتوں نے ہی نسل در نسل اقتدار کے مرکز پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ رعایا سے چھپایا ہے۔

یہ اسی صدیوں پر محیط منظّم حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ آج پورے جہانِ اسلام میں مسلمانوں کے پاس کوئی ایک ایسی جامع  الشرائط شخصیت نہیں ہے کہ جس پر ساری دنیا کے مسلمان بطورِ ملت جمع ہونے کیلئے سوچیں۔ گویا 14 سو سال پہلے ہی حضرت امام علی ؑ کو شہید کرکے قیامت تک کے مسلمانوں کو منتشر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ خلیفہ سوّم کے قتل کے وقت بھی ایسا ہی انتشار وجود میں آیا تھا۔ اُس زمانے میں لوگوں نے اس خلا کو حضرت امام علی ؑ کی بیعت  کرکے پُر کیا تھا۔ عقلِ سلیم کا یہ فیصلہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے کی طرح آج بھی اس خلا کو صرف اِس موجودہ زمانے کا علیؑ ہی پُر کرسکتا ہے۔ چودہ سو سال کے بعد بھی ۱۹ رمضان المبارک کی شب مسلمانوں کی عقل پر دستک دیتی ہے کہ مسلمانو! اس زمانے کا خلا پُر کرنے کیلئے اس دور کا علیؑ کون ہے۔؟

کیا خاتم النبیین ؐ یہ بتا کر نہیں گئے کہ تھے کہ میرے بعد میرا خلیفہ کون ہے۔؟ میرے بعد کتنے علی ہونگے اور آخری علیؑ کی نشانیاں کیا ہونگی۔؟ مطمئن رہیں کہ جب بھی ہم ماضی کی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر اس سوال کا جواب ڈھونڈیں گے تو ہمیں اپنے زمانے کے علیؑ کا سُراغ مل جائے گا۔ اپنے زمانے کے علی ؑ کو تلاش کیجئے، لیکن یہ جان لیجئے کہ علی کے سر کے زخم اور علی کے دل کے دُکھ دونوں کا درد برابر ہے۔ ابنِ ملجم کے خنجر کے لگائے ہوئے زخم پر رونا اور علی کے دل کے زخموں کا احساس نہ کرنا یہ علی ؑ کو نہ پہچاننے کی نشانی ہے۔ اس لئے کہ ظاہری زخم تو غیروں کو بھی نظر آتے ہیں، لیکن دل کے زخموں کو فقط جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ کیا ہم میں سے ہے کوئی جو علی ؑ کے دل کے دکھوں کو جانتا ہے۔؟ علی ؑ کے دِل کا ایک گہرا دکھ "علی ؑ کے چاہنے والوں کا علیؑ کے دشمنوں کی سیاست کو نہ سمجھنا ہے۔"
 
 
تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

تہران (ارنا) جرنل آف فزیکل کیمسٹری لیٹر، فزیکل کیمسٹری کے میدان میں سب سے زیادہ معتبر اشاعتوں میں سے ایک اور منتخب کردہ نیچر-انڈیکس جرنلز میں سے ایک کا سرورق، شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے شعبہ کیمسٹری کی پروفیسر زہرہ جمشیدی کے ایک تحقیقی مقالے کے لیے وقف کیا گیا ہے۔

پروفیسر زہرہ جمشیدی کا تحقیقی مقالہ، بعنوان "کوانٹم ڈائنامکس آف پلاسمون کپلنگ فار سلور نینو پارٹیکل ڈائمر: پاپولیشن اینڈ انرجی اینھانسمینٹ اینڈ انٹرایکشن ود دا ایمیٹر" کا عنوان جرنل آف فزیکل کیمسٹری لیٹر، فزیکل کیمسٹری کے سرورق پر چھپا ہے۔

یہ ریسرچ، تجرباتی نتائج پر مبنی ہے۔

The Journal of Physical Chemistry Letters  کا H-index  252 ہے۔ یہ جنرل فزیکل کیمسٹری کے میدان میں سب سے زیادہ با اعتماد جریدے میں سے ایک ہے اور اسے Nature-Index کا ایک منتخب جریدہ سمجھا جاتا ہے۔