سلیمانی

سلیمانی

ایرانی وزارت خارجہ میں امریکی امور کے ڈائریکٹر جنرل عیسیٰ کمیلی نے تہران میں سوئس سفارت خانے کے قائم مقام سربراہ کو وزارت خارجہ میں طلب کیا۔

انہوں نے امریکی اشتعال انگیز بیانات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ 

کمیلی نے باضابطہ طور پر ایران کی سفارتی تنبیہ سے آگاہ کرتے ہوئے ملک کے خلاف کسی بھی خطرے کا فوری جواب دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔

اس دوران سوئس نمائندے نے ایرانی حکام کو یقین دلایا کہ یہ پیغام فوری طور پر امریکی حکومت تک پہنچا دیا جائے گا۔

 سپاہ پاسداران کی فضائیہ کے کمانڈر جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ جو شیشے کے گھر میں بیٹھا ہو، وہ دوسروں پر پتھر نہیں پھینکتا۔

امریکی حکام کے دھمکی آمیز بیانات پر ردعمل میں انہوں نے کہا کہ امریکیوں کے خطے میں خصوصا ایران کے آس پاس کم از کم 10 فوجی اڈے موجود ہیں، جہاں 50 ہزار سے زائد فوجی تعینات ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ شیشے کے گھر میں بیٹھے ہوں۔ جو شخص شیشے کے گھر میں ہو، وہ دوسروں پر پتھر نہیں پھینکتا۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ سمیت امریکی حکام نے ایران کو مذاکرات کی پیشکش کے ساتھ حملے کی دھمکی دی ہے جس کو ایران نے اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

فارس نیوز ایجنسی کے سیاسی نامہ نگار کے مطابق، عید الفطر کے موقع پر حکومتی حکام، اسلامی ممالک کے سفیروں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے عید کے دن رہبر معظم انقلاب اسلامی سے حسینیہ امام خمینی (رہ) میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلام کے بڑھتے ہوئے وقار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑی طاقتوں کی غنڈہ گردی سے مقابلے کو ملت اسلامیہ کے اتحاد اور بصیرت میں قرار دیا۔ انہوں نے تمام اسلامی ممالک کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے بھائی چارے پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین اور لبنان میں صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے بے مثال جرائم کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کا واحد راستہ اسلامی ریاستوں کے درمیان اتحاد، ہمدردی اور مشترکہ موقف ہے۔ اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے عید الفطر کے موقع پر امت اسلامیہ اور ایرانی قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس عید کو اسلام، عالم اسلام  اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت قرار دیا۔

انہوں نے اس ات پر زور دیا ہے کہ اسلام کے بڑھتے ہوئے وقار کو حاصل کرنے کی بنیادی شرط امت اسلامیہ کا اتحاد، عزم اور بصیرت ہے۔ انہوں نے تیز رفتار اور پے درپے عالمی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان تیز رفتار واقعات کے جواب میں اسلامی حکومتوں کو اپنے موقف کو فوری اور درست سمت میں تعین کرنا چاہیئے اور ان امور کے لیے سوچنا اور منصوبہ بندی کرنا چاہیئے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بڑی تعداد میں مسلم آبادی، قدرتی دولت کی فراوانی اور دنیا کے حساس جغرافیہ میں موجودگی کو عالم اسلام کے لیے اہم مواقع قرار دیا اور اس بات پر تاکید کی کہ ان مواقع اور حساس حالات سے فائدہ اٹھانے کی شرط عالم اسلام کا اتحاد ہے۔ بلاشبہ، اتحاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومتیں ایک ہو جائیں یا وہ تمام سیاسی رجحانات میں یکساں سوچیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشترکہ مفادات کو تسلیم کیا جائے اور اپنے مفادات کو اس طرح بیان کیا جائے، جس سے آپس میں اختلاف، تصادم یا جھگڑے نہ ہوں۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پوری اسلامی دنیا ایک خاندان ہے اور اسلامی حکومتوں کو اس تناظر میں سوچنا اور عمل کرنا چاہیئے۔ رہبر انقلاب نے مزید کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ تمام اسلامی حکومتوں کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتی ہے اور اپنے آپ کو عمومی اور بنیادی محاذ پر اپنا بھائی قرار دیتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی حکومتوں کے مابین تعاون اور اتفاق رائے کو جارحیت، جبر اور بلیک میلنگ کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج بدقسمتی سے بڑی طاقتوں کی طرف سے بلیک میلنگ اور بھتہ خوری کو ایک مشترکہ اور واضح عمل بنادیا گیا ہے۔ رہبر معظم نے صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے جرائم سے فلسطین اور لبنان کو لگنے والے زخموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور عالم اسلام کو ان مصائب پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ "اسلامی حکومتوں کے اتحاد، باہمی ہمدردی اور مشترکہ موقف کے ساتھ امت واحدہ کے تصور کو عملی شکل دی جاسکتی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک کے ذمہ داران حقیقی معنوں میں امت اسلامی کی تشکیل کے لیے کوشش کریں گے۔

اس موقع پر صدر ایران نے کہا ہے کہ ہم پیداوار کے لیے سرمایہ کاری کے نعرے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ صدر ایران مسعود پزشکیان نے مسلمانوں کے لیے "عزت، فخر، اتحاد، معافی، بھائی چارہ، اور مظلوموں کی مدد" کو رمضان کے مقدس مہینے کی اہم ترین تعلیمات قرار دیا۔ انہوں نے اسلامی ممالک کے سفیروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج عالم اسلام کا کام اختلافات کو پس پشت ڈال کر صیہونی حکومت اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دینا ہے۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کی کہ اسلامی جمہوریہ تمام اسلامی ممالک کی طرف دوستی اور بھائی چارے کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں صدر مملکت نے اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنے کے لیے دشمن کے پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی کہ مسلم قومیں کبھی کمزور نہیں ہوں گی کیونکہ وہ خدا پر بھروسہ کرتی ہیں۔
  
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بیانات کے اہم نکات
اسلامی حکومتوں کو آج کل کے واقعات پر باریک بین اور سرعت کے ساتھ کڑی نظر رکھنی چاہیئے۔ امت اسلامیہ میں اتحاد، عزم اور بصیرت ہوگی تو عید الفطر ’’عظیم تر‘‘ ہوگی۔ آج کے واقعات کی رفتار ان تمام لوگوں سے متقاضی ہے، جو خود کو ان واقعات میں ملوث یا متاثر سمجھتے ہیں کہ ان واقعات پر تیزی اور احتیاط سے عمل کریں اور اپنی پوزیشن کا خود تعین کریں۔ آج یہ فرض اسلامی حکومتوں پر عائد ہوتا ہے۔ عید الفطر عالم اسلام کو متحد کرتی ہے۔ درحقیقت آج عالم اسلام کو ایسے نکات کی ضرورت ہے، جو ان کو جوڑیں اور انہیں ایک فعال اور موثر اکائی بنائیں۔ عیدالفطر اسلام اور پیغمبر اسلام کی عظمت و بزرگی کی علامت ہے۔ آج عالم اسلام کا ایک حصہ شدید زخمی ہے۔ آج فلسطین زخمی ہے، لبنان زخمی ہے۔ اس خطے میں ہونے والے کچھ جرائم ایسے ہیں جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ ہمیں تاریخ میں یاد نہیں ہے کہ ہم نے دو سال سے کم عرصے میں تقریباً بیس ہزار بچوں کو فوجی لڑائی میں مارے جانے کے واقعات کا مشاہدہ  کیا ہو یا اس طرح کے واقعات کے بارے میں پڑھا ہو۔

فارس نیوز ایجنسی کے سیاسی نامہ نگار کے مطابق، عید الفطر کے موقع پر حکومتی حکام، اسلامی ممالک کے سفیروں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے عید کے دن رہبر معظم انقلاب اسلامی سے  حسینیہ امام خمینی (رہ) میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلام کے بڑھتے ہوئے وقار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑی طاقتوں کی غنڈہ گردی سے مقابلے کو ملت اسلامیہ کے اتحاد اور بصیرت میں قرار دیا۔ انہوں نے تمام اسلامی ممالک کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے بھائی چارے پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین اور لبنان میں صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے بے مثال جرائم کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کا واحد راستہ اسلامی ریاستوں کے درمیان اتحاد، ہمدردی اور مشترکہ موقف ہے۔

اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے عید الفطر کے موقع پر امت اسلامیہ اور ایرانی قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس عید کو اسلام، عالم اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام کے بڑھتے ہوئے وقار کو حاصل کرنے کی بنیادی شرط امت اسلامیہ کا اتحاد، عزم اور بصیرت ہے۔ انہوں نے تیز رفتار اور پے درپے عالمی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان تیز رفتار واقعات کے جواب میں اسلامی حکومتوں کو اپنے موقف کو فوری اور درست سمت میں تعین کرنا چاہیئے اور ان امور کے لیے سوچنا اور منصوبہ بندی کرنا چاہیئے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بڑی تعداد میں مسلم آبادی، قدرتی دولت کی فراوانی اور دنیا کے حساس جغرافیہ میں موجودگی کو عالم اسلام کے لیے اہم مواقع قرار دیا اور اس بات پر تاکید کی کہ ان مواقع اور حساس حالات سے فائدہ اٹھانے کی شرط عالم اسلام کا اتحاد ہے۔

بلاشبہ، اتحاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومتیں ایک ہو جائیں یا وہ تمام سیاسی رجحانات میں یکساں سوچیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشترکہ مفادات کو تسلیم کیا جائے اور اپنے مفادات کو اس طرح بیان کیا جائے، جس سے آپس میں اختلاف، تصادم یا جھگڑے نہ ہوں۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پوری اسلامی دنیا ایک خاندان ہے اور اسلامی حکومتوں کو اس تناظر میں سوچنا اور عمل کرنا چاہیئے۔ رہبر انقلاب نے مزید کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ تمام اسلامی حکومتوں کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتی ہے اور اپنے آپ کو عمومی اور بنیادی محاذ پر اپنا بھائی قراردیتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی حکومتوں کے مابین تعاون اور اتفاق رائے کو جارحیت، جبر اور بلیک میلنگ کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج بدقسمتی سے بڑی طاقتیوں کی طرف سے بلیک میلنگ اور بھتہ خوری کو ایک مشترکہ اور واضح عمل بنادیا گیا ہے۔

رہبر معظم نے صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے جرائم سے فلسطین اور لبنان کو لگنے والے زخموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور عالم اسلام کو ان مصائب پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ "اسلامی حکومتوں کے اتحاد، باہمی ہمدردی اور مشترکہ موقف کے ساتھ امت واحدہ کے تصور کو عملی شکل دی جاسکتی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک کے ذمہ داران حقیقی معنوں میں امت اسلامی کی تشکیل کے لیے کوشش کریں گے۔ اس موقع پر صدر ایران نے کہا ہے کہ ہم پیداوار کے لیے سرمایہ کاری کے نعرے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ صدر ایران مسعود پزشکیان نے مسلمانوں کے لیے "عزت، فخر، اتحاد، معافی، بھائی چارہ، اور مظلوموں کی مدد" کو رمضان کے مقدس مہینے کی اہم ترین تعلیمات قرار دیا۔

انہوں نے اسلامی ممالک کے سفیروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج عالم اسلام کا کام اختلافات کو پس پشت ڈال کر صیہونی حکومت اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دینا ہے۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کی کہ اسلامی جمہوریہ تمام اسلامی ممالک کی طرف دوستی اور بھائی چارے کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں صدر مملکت نے اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنے کے لیے دشمن کے پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی کہ مسلم قومیں کبھی کمزور نہیں ہوں گی، کیونکہ وہ خدا پر بھروسہ کرتی ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بیانات کے اہم نکات اسلامی حکومتوں کو آج کل کے واقعات پر باریک بین اور سرعت کے ساتھ کڑی نظر رکھنی چاہیئے۔

امت اسلامیہ میں اتحاد، عزم اور بصیرت ہوگی تو عیدالفطر ’’عظیم تر‘‘ ہوگی۔ آج کے واقعات کی رفتار ان تمام لوگوں سے متقاضی ہے، جو خود کو ان واقعات میں ملوث یا متاثر سمجھتے ہیں کہ ان واقعات پر تیزی اور احتیاط سے عمل کریں اور اپنی پوزیشن کا خود تعین کریں۔ آج یہ فرض اسلامی حکومتوں پر عائد ہوتا ہے۔ عیدالفطر عالم اسلام کو متحد کرتی ہے۔ درحقیقت آج عالم اسلام کو ایسے نکات کی ضرورت ہے، جو ان کو جوڑیں اور انہیں ایک فعال اور موثر اکائی بنائیں۔ عیدالفطر اسلام اور پیغمبر اسلام کی عظمت و بزرگی کی علامت ہے۔ آج عالم اسلام کا ایک حصہ شدید زخمی ہے۔ آج فلسطین زخمی ہے، لبنان زخمی ہے۔ اس خطے میں ہونے والے کچھ جرائم ایسے ہیں، جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ ہمیں تاریخ میں یاد نہیں ہے کہ ہم نے دو سال سے کم عرصے میں تقریباً بیس ہزار بچوں کو فوجی لڑائی میں مارے جانے کے واقعات کا مشاہدہ کیا ہو یا اس طرح کے واقعات کے بارے میں پڑھا ہو۔

تحریر: محمد رضا دہقان

شوال کا پہلا دن عید سعید فطر ہے ،پورے عالم اسلام میں اس دن اجتماعی طور پر نماز عید پڑھی جاتی ہے ، اس دن کو عید فطر اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن کھانے پینے کی محدودیت ختم ہو جاتی ہے مؤمنین دن میں افطار کرتے ہیں۔

فطر اور فطور کا معنی کھانے پینے کا ہے، کھانے پینے کے آغاز کرنے کو بھی کہا گیا ہے ۔ جب کبھی کھانے پینے سے دوری کرنے کے بعد جب دوبارہ کھانا پینا شروع کیا جاۓ تو اسے افطار کہتے ہیں اور اسی لۓ رمضان المبارک میں دن تمام ہونے اور مغرب شرعی ہونے پر روزہ کھولنے کو افطار کہا جاتا ہے ۔

روایات میں اس دن کے بارے میں فضائل اور اعمال ذکر ہوئے ہیں جنہیں قارئیں کے لئے مختصر طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔
پیغمبر اسلام (ص) نے اس دن کی فضیلت کے بارے میں فرمایا: ’’اذا کان اول یوم من شوال نادی مناد : ایھا المؤمنون اغدو الی جوائزکم، ثم قال : یا جابر ! جوائز اللہ لیست کجوائز ھؤلاء الملوک ، ثم قال ھو یوم الجوائز۔‘‘
(جب شوال کا پہلا دن ہوتا ہے ، آسمان سے منادی نداء دیتا ہے : اے مؤمنو! اپنے تحفوں کی طرف دوڑ پڑو ، اس کے بعد فرمایا: اے جابر ! خدا کا تحفہ بادشاہوں اور حاکموں کے تحفوں کی طرح نہیں ہے ۔ پھرفرمایا" شوال کا پہلا دن خدا کی جانب سے تحفوں کا دن ہے ۔
امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے عید فطر کے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا:
’’ اے لوگو! یہ دن وہ ہے جس میں نیک لوگ اپنا انعام حاصل کرتے ہیں اور برے لوگ ناامید اور مایوس ہوتے ہیں اوریہ دن قیامت کے دن سے بہت زیادہ شباہت رکھتا ہے اس لۓ گھر سے نکلتے وقت اس دن کو یاد کرو جس دن قبروں سے نکال کرخدا کی کی بارگاہ میں حاضر کۓ جاؤ، نماز میں کھڑے ہونے کے وقت خدا کے سامنے کھڑے ہونے کو یاد کرو اور اپنے گھروں میں واپس آنے میں اس وقت کو یاد کرو جس وقت بہشت میں اپنی منزلوں کی طرف لوٹو گے۔ اے خدا کے بندو ! سب سے کم چیز جو روزہ دار مردوں اور خواتین کو رمضان المبارک کےآخری دن عطا کی جاتی ہے وہ فرشتے کی بشارت و خوشخبری ہے جو صدا دیتا ہے :
اے اللہ کے بندوں مبارک ہو! جان لے تمہارے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئے گئے ہیں اب اگلے دن کے بارے میں ہوشیار رہنا کہ کیسے گذارو گے ۔‘‘
عید فطر کے لئے اعمال ذکر ہوئے ہیں جنہیں انجام دینے کے بارے میں معصومین علیہم السلام نے بہت تاکید فرمائی ہے۔
حضرات معصومینؑ کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ عید فطر اعمال اور عبادات کا انعام حاصل کرنے کا دن ہے اس لۓ مستحب ہے کہ اس دن بہت زیادہ دعا کی جائے ، خدا کی یاد میں رہا جائے ، لاپرواہی نہ کی جائے اور دنیا اور آخرت کی نیکی طلب کی جائے ۔
عید کی نماز کے قنوت میں پڑھتے ہیں :
"... اسئلک بحق ھذا الیوم الذى جعلتہ للمسلمین عیدا و لمحمد صلى اللہ علیہ و آلہ ذخرا و شرفا و کرامۃ و مزیدا ان تصلى على محمد و آل محمد و ان تدخلنى فى کل خیر ادخلت فیہ محمدا و آل محمد و ان تخرجنى من کل سوء اخرجت منہ محمدا و آل محمد، صلواتک علیہ و علیہم اللہم انى اسالک خیر ما سئلک عبادک الصالحون و اعوذ بک مما استعاذ منہ عبادک المخلصون‏"
بار الھا ! اس دن کے واسطے جسے مسلمانوں کیلۓ عید اور محمد صلی اللہ علیہ والہ کیلۓ شرافت ، کرامت اور فضیلت کا ذخیرہ قرار دیا ہے ۔ تجھ سے سوال کرتا ہوں محمد و آل محمد پر درود بھیج اور مجھے اس خیر میں شامل فرما جس میں محمد و آل محمد کو شامل فرمایا ہے اور مجھے ہر بدی سے نکال دے جن سے محمد و آل محمد کو نکالا ۔ ان پر آپ کا درود وسلام ہو، خدایا تجھ سے وہی کچھ مانگتا ہوں جو تیرے نیک بندے تجھ سے مانگتے ہیں ، اور تجھ سے ان چیزوں سے پنا ہ مانگتا ہوں کہ جن سے تیرے مخلص بندے پناہ مانگتے تھے ۔
صحیفہ سجادیہ میں امام زین االعابدین علیہ السلام کی ماہ مبارک رمضان اور عید فطر کے استقبال کیلۓ اس طرح سے دعا ذکر ہوئی ہے :
«اللهم صل على محمد و آله و اجبر مصیبتنا بشهرنا و بارک لنا فى یوم عیدنا و فطرنا و اجعله من خیر یوم مر علینا، اجلبه لعفو و امحاه لذنب و اغفرلنا ما خفى من ذنوبنا و ما علن ... اللهم انا نتوب الیک فى یوم فطرنا الذى جعلته للمؤمنین عیدا و سرورا و لاهل ملتک مجمعا و محتشدا، من کل ذنب اذنبناه او سوء اسلفناه او خاطر شرا اضمرناه توبة من لا ینطوى على رجوع الى.»
خداوند متعال ہم سب کو اس دن نیک اعمال کرنے اور معصیت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

 تہران کے مصلائے امام خمینی میں رہبر معظم کی امامت میں نماز عید فطر ادا کی گئی۔

رہبر معظم نے عید الفطر کے خطبے میں عید سعید فطر، عید نوروز اور یوم جمہوریہ ایران کی مناسبت سے عید مبارک پیش کی۔

رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ روزہ، قرآن سے انس، لیلۃ القدر اور ماہ رمضان میں توسل اور دعائیں انسان ساز ہیں۔ الحمد للّہ اس سال فوائد سے بھرپور ماہ رمضان گزرا۔ یوم القدس کی ریلیوں کا پیغام دنیا بھر میں منعکس ہوا۔ اللہ سے دعا کریں کہ اس ماہ رمضان میں حاصل ہونے والے فوائد کو آپ کے لئے محفوظ کرے۔

رہبر معظم نے کہا کہ غزہ اور لبنان کے تلخ واقعات نے ماہ رمضان میں مسلمانوں کا دل چھلنی کردیا۔

رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ اس خطے میں صرف ایک پراکسی ہے جوکہ غاصب اور فاسد صہیونی حکومت ہے جوکہ استعمار کی نیابت میں دوسرے ممالک میں پر تجاوز کرتی ہے۔ شخصیات کو قتل کرنا صہیونی حکومت کی عادت ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک اس کی حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین سے صہیونی حکومت کو جڑ سے اکھاڑنا ضروری ہے۔ اللہ کی مدد سے اسرائیل ریشہ کن ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگر دشمن کوئی شیطانی حرکت کرے تو ایران سخت اور بھرپور جواب دے گا

روزہ انسانی زندگی میں تقوی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے کہ یہ عمل صرف خدا کے لئے ہو تا ہے اور اسمیں ریا کا ری کا امکان نہیں ہے ۔روزہ صرف نیت ہے اور نیت کا علم صرف پروردگار کو ہے ۔پھر روزہ قوت ارادی کے استحکام کا بہترین ذریعہ ہے جہاں انسان حکمِ خدا وندی کی خاطر ضروریات زندگی اور لذّات حیات سب کو ترک کر دیتا ہے کہ یہی جذبہ تمام سال باقی رہ جا ئے تو تقوی کی بلند ترین منزل حاصل ہو سکتی ہے ۔ روزہ کی زحمت کے پیش نظر دیگر اقوام کا حوالہ دے کر اطمینان دلا یا گیا ہے اور پھر سفراور مرض میںمعافی کا اعلان کیا گیا ہے اور مرض میں شدت یا سفر میں زحمت کی شرط نہیں لگا ئی گئی ہے ۔یہ انسان کی جہالت ہے کہ خدا آ سانی دینا چاہتا ہے اور وہ آج اور کل کے سفر کا مقابلہ کر کے دشواری پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس طرح خلاف حکم ِ خدا روزہ رکھ کر بھی تقویٰ سے دور رہنا چاہتا ہے ۔
آیہ کریمہ میں ''لَعلَّکم''(شاید)کا لفظ علم خدا کی کمزوری کی بنا پر نہیں نفس بشری کی کمزوری کی بنا پر استعمال ہو ا ہے ! اور یہ یاد رہے کہ روزہ صرف روزہ بھی تقویٰ کے لئے کا فی نہیں ہے ۔روزہ کی کیفیت کا تمام زندگی باقی رہنا ضروری ہے اور یہ ضروری ہے کہ سارا وجود روزہ دارہو۔برے خیالات ،گندے افکار ،بد عملی ،بد کر داری وغیرہ زندگی میں داخل نہ ہو نے پا ئیں ۔
روزہ برائیوں سے پر ہیز اور محرمات سے اجتناب کی ایک ریاضت ہے ۔روزہ بھوک ،پیاس اورمحنت و مشقت کا نام نہیں ہے،روزہ دار کے ذہن اور دل و دماغ کو غلط تصورات و خیالات سے ویسے ہی پاک و پاکیزہ ہو نا چائیے جس طرح اس کا شکم کھانے اور پینے سے خالی اور صاف رہتا ہے ۔
روزہ بھوک و پیاس کی مشق کے لئے واجب نہیں کیا گیا بلکہ محرمات اور گناہوں سے پرہیز کا عادی بنانے کے لئے واجب کیا گیا ہے ۔
شہزادی کو نین دختر نبی اکرم ۖ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے فرمایا : ''وہ روزہ دار جو اپنی زبان ، اپنے کان، اپنی آنکھوں اور اپنے جوارح کو گناہ سے محفوظ نہ کرسکے تو اسکا روزہ روزہ نہیں ہے۔''
امیر المو منین علیہ السلام نے فرمایا:قلب کاروزہ زبان کے روزہ سے بہتر ہے اور زبان کا روزہ شکم کے روزہ سے افضل ہے ۔
کتنی اچھی اور قابل غور بات علامہ ذیشان حیدر جوادی مرحوم نے کہی ہے کہ :روزہ ترک لذّات کا نام ہے تیاری ٔ لذّات کا نہیں ۔'' مگر افسوس آج مسلمان معاشرہ کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ مسلمان کا وقت ،روزہ کے زمانے میں بھی زیادہ حصہ کھانے کی تیاری پر صرف ہو جا تا ہے ۔ عورتیں دو پہر کے بعد مستقل باورچی خانہ کی نذر ہو جاتی ہیں اور انواع و اقسام کے کھانے کی تیاری میں مشغول رہتی ہیں ایسا معلوم ہو تا ہے کہ روزہ بھوک و پیاس کے ذریعہ عبرت اور اصلاح نفس کی تحریک نہیں ہے بلکہ بہترین کھانوں کی تحریک ہے ۔آپ دیکھیں گے کہ مسلمان معاشروں میں ماہ مبارک رمضان میں کھانے کا بجٹ عام زمانوں سے زیادہ ہو تا ہے اور مسلمانوں کی توجہ کھانے کے انواع و اقسام پر سال بھر سے زیادہ ہو تی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ روزہ ترک لذات اور ریاضت کا ذریعہ نہیں بلکہ بھوکے رہ کر کھانوں سے لذت اندوزی کا ذریعہ ہے ! ''
روزہ بہترین عبادت ہے جسے پروردگارنے استعانت کا ذریعہ قرار دیا ہے اور آل محمد نے مشکلات میں اسی ذریعہ سے کام لیا ہے ۔کبھی نماز ادا کی ہے اور کبھی روزہ رکھا ہے ۔یہ روزہ ہی کی برکت تھی کہ جب بیماری کے موقع پر آل محمدۖ نے روزہ کی نذر کر لی اور وفا ئے نذر میں روزے رکھ لئے تو پروردگار نے پورا سورۂ دہر نازل کر دیا ۔
آل محمد کے ماننے والے اور سورہ ٔ دہر کی آیات پر وجد کرنے والے کسی حال میں روزے سے غافل نہیں ہو سکتے اور صرف ماہ مبارک رمضان میں نہیں بلکہ جملہ مشکلات میں روزہ کو سہارا بنا ئیں گے ۔ کیونکہ یہ مہنیہ تمام مہینوں کا سردار ہے اس ماہ مبارک میں تما م چیزیں یکجا ہو جا یا کرتی ہیں جتنی فضیلت اس مہینہ کو حاصل ہے کسی اور مہینہ کو نہیںحاصل ہے اس ماہ میں روزہ داروں کا ہر ہر لمحہ کبھی قرآن مجید کی تلاوت ،کبھی دعا اور کبھی نماز واجبہ کے ہمراہ نماز مستحبی پڑھنے میں گذرتا ہے ۔ اس ماہ میں نزول قرآن کے سبب اس کی عظمتوں میں اور چار چاند لگ گیا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ معصوم نے فرمایا ہے کہ''مَنْ قَرَأَ فِیْ شَھْرِ رَمْضَانَ ٰاٰٰ یَةً مِنْ کِتٰابِ اللّٰہِ کَانَ کَمَنْ خَتَمَ اَلْقُرْٰانَ فِیْ غَیْرِہِ مِنَ اَلْشُّھُوْرِ۔''یعنی امام رضا فرماتے ہیں کہ:جو بھی ماہ رمضان میں کتاب اللہ کی ایک آیت کی تلاوت کریگا تووہ اس شخص کے مانند ہے جو بقیہ مہینوں میں پورے قرآن کی تلاوت کرے۔
رسول اکرم ۖ نے فرمایا ''یہ جان لو کہ جو بھی قرآن کو سیکھے اور اسکے بعد دوسروں کی اس کی تعلیم دے اوراس پر عمل کرے تو میں جنت کی طرف اس کی رہنمائی کرنے والا ہوں۔''نیز آپ ۖ نے فرمایا کہ ''اے میرے بیٹا! قرآن پڑھنے سے غافل نہ رہو ،کیونکہ قرآن دل کو زندہ کرتا اور فحشاء و گناہ سے دور رکھتا ہے ۔

عبادتوں کے چمن کی بہار ہے رمضان
علاج گردش لیل و نہار ہے رمضان
پئے طہارت دل آبشا ر ہے رمضان
پیام رحمت پروردگا ر ہے رمضان
ہوا کریم کا احساں اسی مہینے میں
ملارسول (ص)کو قرآن اسی مہینے میں
پیام اعظمی

ماہ مبارک رمضان کی اتنی ہی زیادہ عظمت و فضیلت ہے کہ انسان اسے بیان کرنے سے قاصر ہے کیونکہ یہ مہینہ خدا کا مہینہ ہے جس طرح ماہ رجب ماہ ولایت(امیرالمومنین ) اور ماہ شعبان ماہ رسالت (رسول اکرم ۖ)ہے اسی طرح سے یہ بابرکت مہینہ بھی ماہ خدا وند عالم ہے جس کی عظمتوں کو ہمارا سلام ہو لہذا اگر کو ئی اسمیں داخل ہو نا چاہے تو سب سے پہلے درِولایت سے داخل ہو ۔اور انسان کے اعمال کی قبولیت بغیر ولایت اہلبیت علیہم السلام میسر ہی نہیں ہے !اس لئے ضروری ہے کہ انسان عقل سلیم سے کام لے اور اس ماہ میں خدا و رسول ۖ کے ساتھ ساتھ اہلبیت اطہار کی ولایت سے بھی متمسک ہو جا ئے تا کہ اس میں تزکیہ نفس کی خوی اور خدا شناسی کا شعور اور دعا کرنے کا سلیقہ پیدا ہو سکے ۔
ہم نے ماہ مبارک رمضان میں شائع ہو نے والے اکثر رسالوں کو دیکھا ہے ان میں مضامین تو بڑے عمدہ عمدہ شائع ہوا کرتے ہیں لیکن ان میں دعا وغیرہ کی کمی رہتی ہے لہذا ناچیز نے اس مختصر سے نوشتہ میں ماہ مبارک رمضان کے مشترک اعمال، دعا وغیرہ عربی عبارات کے ساتھ آپ روزہ داروں کی خدمت میں پیش کیا تا کہ آپ قرآن و نماز کے ساتھ ساتھ دعاؤ ں سے بھی کسب فیض حاصل کریں اور اپنے قلوب کو دعاؤں کے ذریعہ جلا بخشیں ۔
دعا کا معنی :
ارباب لغت نے یوں بیان کیا ہے کہ'' دعا'' یعنی: کسی کو صدا دینا وکسی کو پکارنا ۔یہ لغوی معنی ہے لیکن اصطلاح میں یہ ایسی شئی کا نام ہے جو انسان اور خدا کے درمیان کا ایک وسیلہ ہے انسان راز و نیاز کے ذریعہ ہی اپنے معبود حقیقی کی لقاء کو حاصل کرتا ہے روایت میں ہے کہ رسول اکرم ۖ کے ارد گرد اصحاب جمع تھے ایک دفعہ رسول اسلام ۖ اصحاب کی طرف ر خ کر کے فرماتے ہیں کہ ''کیا میں تمہیں ایک ایسے اسلحہ کی معرفی نہ کرو ںجو تمہیں تمہارے دشمن سے محفوظ رکھے گا اور تمہارے رزق میں کشادگی کا سبب بنے گا ؟آپۖ کی بزم میں جمع شدہ اصحاب نے عرض کیا کیوں نہیں آپ ضرور ہمیں اس کی رہنمائی فرما ئیں !پس رسول اکرم ۖ نے فرما یا کہ ''شب وروز تم اپنے پروردگار کی تسبیح کرو اور اسکا نام لو اور دعا کرو کیونکہ دعا مومن کا اسلحہ ہے ''فان سلاح المومن الدعا ''(اصول کافی جلد ٢ باب الدعا ح٣)
دعا انسان کو باطنی اور روحی توانا ئی عطا کرتا ہے قرآن مجید میں ہے کہ خدا وند عالم نے رسول اسلام سے فرما یا کہ اگر تم چا ہتے ہو کہ اس بار سنگین کو پا یہ تکمیل تک پہنچا دو تو دعا سے استفادہ کر و۔
سورہ بقرہ کی ١٨٦ ویں آیت میں ارشاد رب العزت ہے کہ ''و اذا سالک عبادی عنّی فانی قریب اجیب دعوةالدّاع اذا دعان فلیستجیبوالی ولیؤمنوا بی لعلھم یرشدون ۔''اور اے پیغمبر !اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں ۔ پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی وہ پکارتا ہے لہذا مجھ سے طلب قبولیت کریں اور مجھ ہی پر ایمان واعتماد رکھیں کہ شاید اس طرح راہ راست پر آجائیں ۔
حضرت ا مام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ''تین چیزیں ایسی ہیں جو انسان کو ضرر نہیں پہنچا تی ہیں:
١۔سختی اور پریشانی کی حالت میںدعا۔
٢۔گناہ کے وقت استغفار ۔
٣۔نعمت ملنے کے وقت خدا وند عالم کا شکر ۔(امالی شیخ طوسی صفحہ ٢٠٧ بحار الانوار جلد ٩٠صفحہ ٢٨٩)
رسول اکرم ۖ نے فرمایا:''انّ عاجز الناس من عجز عن الدعا ۔''''یعنی :عاجزترین شخص وہ ہے جو جو دعا کرنے سے عاجز ہو ! (حوالہ سابقہ صفحہ ٨٧ و صفحہ ٢٩١)
سواکرنے والوں نے امام علی بن ابیطالب علیہمالسلام سے سوال کیا کہ ''وہ کون سا کلام ہے جو خدا وندا عالم کے نزدیک سب سے افضل ہے ؟ آنحضرت ۖ نے فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ خدا وندعالم کو یاد کرنا ،گریہ وزاری کرنا اور اسکی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ اسکی بارگاہ میں دعا کرنا ۔(امالی صدوق صفحہ ٢٣٧ بحار الانوار جلد ٩٠ صفحہ ٢٩٠)
رسول اکرم ۖ نے فرمایا کہ ''ما من شیئٍ اکرم علی اللّٰہ تعالی من الدعا ''''یعنی :خدا وند عالم کے نزدیک دعا سے بہتر کو ئی شئی ہی نہیں ہے ۔'' اگر انسان اس ماہ مبارک میں ان احادیث کو پیش نظر رکھتے ہو ئے خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعا کرے تو اسکے آثار و برکات ایسے ہیں کہ یقیناً انسان کے وجود سے نور کی شعائیں پھوٹ پڑیں گی اور انسان کے اندر خدا سے راز و نیاز کا سلیقہ پیدا ہوگا اور جب یہ سلیقہ پیدا ہوگا تو اسے خود کی شناخت ہو گی اور جب وہ اپنے آپ کو پہچانے گا تو اسے خدا کی شناخت کے ساتھ ساتھ اسکی معرفت بھی حاصل ہو گی اور جب اسے اس معبود حقیقی کی معرفت حاصل ہو جا ئیگی تو اس کے اندر تواضع کی خوی پیدا ہو گی اور جب وہ تواضع کے لباس میں ملبوس ہو گا تو اس کے دل میں ولایت خدا اور ولایت رسول ۖ کے ساتھ ساتھ ولایت اہلبیت سے سرشار ہو جا ئیگا اور جب وہ ان تمام ولایت کے سر چشموں سے مستفید ہو گا تو اس کادل تمام ہمّ و غم ،شرک ،نفاق ، معاصیت ،بغض و حسد ،کینہ ،تعصب اور گناہ اور تمام بیماریوں سے پاک ہو کر اس حدیث کا مصداق ہو کر قلب ِ سلیم کا مصداق ہو جا ئیگا.
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ''القلب حرم اللّٰه فلا تسکن حرم اللّٰه غير اللّٰه '' یعنی! آپ نے فرمایا کہ ''قلب حرم ِخدا ہے لہذا اس میں کسی غیر خدا کو جگہ نہ دو۔ ''(بحار الانوار جلد ٢٧ باب حب اللہ .)
لہذا انسان اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نماز ،قرآن اور دعا کے ذریعہ خدا کے در پر دق الباب کرے کیونکہ قرآن مجید میں خود خدا تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ''الابذکر اللّٰه تطمئنُّ القلوب ''یعنی آگاہ ہو جاؤ یاد خدا کے ذریعہ دلوں کو سکون و اطمینان میسر ہوتا ہے ۔''

 وینزویلا کے دارالحکومت کراکس میں یوم القدس کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں اس ملک کے شہریوں اور فلسطینی حامیوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

 تقریب سے فلسطین کی حامی مختلف تنظیموں کے نمائندوں نے خطاب کرتے ہوئے صیہونی رژیم کے وحشیانہ اقدامات کی مذمت کی اور مسئلہ فلسطین کی حمایت میں عالمی یکجہتی کی اہمیت پر زور دیا۔

 مقررین نے کہا کہ فلسطین انسانیت کا مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے سامراجیت کے خلاف جدوجہد جاری رکھنا بہت ضروری ہے۔

 کاراکس کے یوتھ اسکوائر میں منعقدہ اس اجتماع میں فلسطینیوں کے خلاف صیہونی رژیم کے وحشیانہ جرائم اور نسل کشی کے اقدامات کی شدید مذمت کی گئی۔

  تقریب کے اختتام پر اسرائیل کی مذمت میں قرارداد پیش کی گئی اور شرکاء نے مذمتی پٹیشن پر دستخط کئے۔ 

 یوم القدس کی تقریب وینزویلا کی وزارت ثقافت اور اسلامی جمہوریہ ایران اور فلسطین کی حامی غیر سرکاری تنظیموں کے اشتراک سے منعقد ہوئی۔

 یہ پروگرام نہ صرف ایک سیاسی اجتماع کے طور پر جانا جاتا ہے بلکہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف انسانی یکجہتی کی علامت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

اسلامی ثقافت میں مثالی خاتون!

اسلامی نظام میں خواتین کو سیاسی سمجھ بوجھ ہونا ضروری ہے۔ انہیں گھر کی دیکھ بھال اور خاندان کی دیکھ بھال کے فن کا علم ہونا چاہیے۔ انہیں سماجی، سیاسی، سائنسی اور خدمت کے میدانوں میں تقویٰ، پاکیزگی اور عظمت کا مجسم ہونا چاہیے۔

 

مغربی ثقافت اور انسان کی پستی!

آج مغربی ثقافت پر غور کریں۔ مرد یا عورت کے وقت کا ایک بڑا حصہ خواتین سے متعلق مسائل، خوبصورتی، میک اپ، فیشن، خواتین کی کشش اور مرد اور عورت کے درمیان موجود جنسی ہوس کے مسئلے کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش میں صرف ہوتا ہے۔

 

حجاب کی پابندی اور خواتین کی آزادی!

یہ ظاہر ہے کہ مغربی ثقافت میں عورت اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے قاصر ہے، جو غلط اور خطرناک ہے۔ انہیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ اس کے لیے پہلی شرط ان کا حجاب کی پابندی ہے۔ کیونکہ حجاب کے بغیر عورت کو وہ ذہنی سکون حاصل نہیں ہوگا جو اعلیٰ درجات تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔

 

 

عہد زندگی ، آیت اللہ العظمی خامنہ ای

یوم القدس ہر سال ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو فلسطین کی آزادی اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے احتجاج کا مخصوص دن ہے۔ جب ایران میں انقلاب اسلامی کی تحریک پروان چڑھ رہی تھی، اس سے ٹھیک پہلے اسرائیل کے قیام کا باضابطہ اعلان کر دیا گیاتھا۔ 1948ء میں یہودیوں نے اسرائیلی ریاست کا باقاعدہ اعلان کیا، جس کی مخالفت روز اول ہی سے شروع ہوگئی تھی۔ اس ریاست کے قیام کا مقصد دنیا بھر میں منتشر اور آورہ یہودیوں کو ایک مستقل وطن فراہم کرنا تھا۔ انہوں نے عالمی استکبار کی مدد سے اس پورے علاقے کو اپنی مذہبی کتاب کی روشنی میں "پرومیسڈ لینڈ" سے تعبیر کیا، جس کا بنیادی ہدف "گریٹر اسرائیل" کی تشکیل پر مبنی تھا۔ عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ جیسے اداروں نے بھی مسئلۂ فلسطین کے حل پر خاص توجہ نہیں دی بلکہ ان کا کردار اسرائیل کی حمایت اور اس کے ناجائز وجود کو جواز فراہم کرانے میں متحرک رہا ہے۔ اسی بنا پر فلسطین کی خودمختارانہ حیثیت اور القدس کی بازیابی کئے یہ تحریک منصہ شہود پر آئی۔

یوم القدس کے آغاز کے متعلق بعض یہ کہتے ہیں کہ یہودی 1968ء سے ہر سال "یوم یروشلم" مناتے تھے، جو 1998ء میں قومی تعطیل میں بدل دیا گیا۔ "یوم یروشلم" کے خلاف امام خمینیؒ نے "یوم القدس" کا اعلان کیا، تاکہ "یوم یروشلم" کی طرز پر ہر سال ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو اسرائیلی ناجائز قبضے اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ دہرایا جاسکے۔ لیکن یہ پس منظر درست معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ یوم القدس کا مقصد "یوم یروشلم" کا جواب دینا نہیں تھا، بلکہ اس دن کو بطور احتجاج منانے کا مقصد یہ تھا کہ فلسطینی مظلوموں کی حمایت کی جائے اور مقدس سرزمین سے یہودی قبضے کو خالی کرانے کی تحریک میں روح پھونکی جائے، جو عربوں کی بے غیرتی کی بنیاد پر دم توڑ رہی تھی۔ امام خمینی نے جب 7 اگست 1979ء میں پہلی بار "یوم القدس" منانے کا اعلان کیا، اُس وقت اس کو شیعہ و سنّی کی عینک سے دیکھا گیا۔

مسلمانوں کی اکثریت نے یوم القدس کی مخالفت کی۔ خاص طور پر ماہ رمضان جس کو طاعت وعبادت کا مہینہ کہا جاتا ہے اور اس کا آخری جمعہ مسلمانوں کے لئے بڑی اہمیت کاحامل ہے، اس دن یوم القدس کی تحریک کو رمضان کی عظمتوں سے چشم پوشی اور عبادت و طاعت سے انحراف کا سبب قرار دیا تھا۔ اس کے پس پردہ صہیونی سازشیں کارفرما تھیں، تاکہ یوم قدس کی تحریک کو ابتدا ہی میں کچل دیا جائے۔ اس کے لئے انہوں نے تکفیری اور وہابی مولویوں اور مفتیوں کا بھی استعمال کیا۔ انجام کار مسلمانوں نے اس تحریک کے اثر کو باور کیا اور آج پوری دنیا میں "یوم القدس" منایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آیت اللہ خمینیؒ "یوم القدس" کی تحریک شروع نہ کرتے تو مسئلۂ فلسطین اپنے قیام کے فوراً بعد دم توڑ دیتا۔ یوم القدس نے آہستہ آہستہ رفتار پکڑی اور پھر پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے۔ جہاں صہیونی اثر تھا، وہاں انہوں نے اس نہضت میں خلل ڈالنے کی کوشش کی اور یہ مشہور کر دیا گیا کہ یوم القدس دراصل "ضد سامیت(Anti Semitism)" ہے۔ گویا کہ اسرائیل نے اس تحریک کو یہودی مخالف تحریک کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی، تاکہ دنیا اس کے پس پردہ کارفرما مقصد اور مسئلہ فلسطین پر توجہ مرکوز نہ کرسکے۔

امام خمینیؒ نے پہلی بار جب فلسطین کی آزادی اور یہودی قبضے کے خلاف آواز احتجاج بلند کرتے ہوئے یوم القدس منانے کی اپیل کی تو ان کا درد دل اس طرح جھلکا: ’’میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیں اور اس دن فلسطین کے مسلمان عوام کے قانونی حقوق کی حمایت میں اپنے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ میں عرصۂ دراز سے تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے سے آگاہ کر رہا ہوں، جس نے ان دنوں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں پر اپنے مظالم میں اضافہ کر دیا ہے اور خاص طور پر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کے خاتمے کے لیے ان کے گھروں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ میں پورے عالم اسلام کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن جو ایام قدر میں سے بھی ہے اور فلسطینی عوام کی تقدیر کو واضح کرنے کا دن بھی ہوسکتا ہے، اس کو یوم القدس قرار دیں اور کسی پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی طور پر ان مسلمان عوام کے ساتھ تمام مسلمانوں کی ہمدردی کا اعلان کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو کافروں پر فتح عنایت کرے۔‘‘

اس تحریک کے اثر کو عرب ملکوں نے بھی محسوس کیا اور آہستہ آہستہ ان کے عوام بھی فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے لگے۔ 1989ء میں اردن کی حکومت نے بھی سرکاری سطح پر یوم القدس کا اہتمام کیا تھا۔ معروف مفکر ایڈورڈ سعید لکھتے ہیں: ’’اگر مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنا مقصود ہے تو فلسطینیوں کے مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرنا ہوگا۔‘‘ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسئلۂ فلسطین کے حل تک مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ جنگ اور بدامنی اسی طرح جاری رہے گی۔ دنیا کی کوئی طاقت فلسطینیوں کو ان کے مطالبے اور جائز حق سے دست بردار نہیں کرسکتی۔ عالمی یوم القدس کے اثرات ہمہ گیر اور مسلمانوں کے ساتھ دنیا بھر کے انسانوں کے جذبات و احساسات پر محیط ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی حق پسند اور منصف مزاج انسان اب مسئلۂ فلسطین پر دُہرے رویّے کا اظہار نہیں کرتا۔ اس رائے کی تشکیل و تعمیر میں یوم القدس کی تاثیر اور مزاحمتی محاذ کی قربانیوں کا بڑا دخل ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ : "عالمی یوم القدس دنیا کے غیور مسلمانوں کو مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع اور حمایت کی سنگین ذمہ داری کی پہلے سے زیادہ تاکید اور یاد دہانی کراتا ہے۔ امام خمینی ؒ نے اس دن کا اعلان کرکے انسانی ضمیروں کی سطح پر مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا اور صیہونی حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ایک نقطے پر مرکوز کر دیا۔‘‘

آیت اللہ خمینی نے یہودی ریاست کو "سرطان" سے تعبیر کیا تھا۔ یہ سرطان اب پورے شباب پر ہے اور اس کی تکلیف پوری دنیا محسوس کر رہی ہے۔ خاص طور پر وہ عرب ملک جو  "گریٹر اسرائیل" کی زد میں ہیں، وہ بھی امام خمینیؒ کی دوراندیشی اور سیاسی حکمت عملی کے قائل ہوچکے ہیں۔ گو کہ اب ان میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ اس "سرطان" کا علاج کرسکیں، مگر ان کے عوام اس کی تکلیف کی شدت سے چیخ رہے ہیں۔ یمن جو اسرائیلی ریاست کے قیام کے فوراً بعد اُردن، مصر، شام اور عراق کے ساتھ جنگ میں شامل نہیں ہوا تھا، آج اسرائیل کے خلاف میدان عمل میں ہے۔ اُردن جس کے حکمرانوں کو صہیونیوں نے اپنا ہم نوا بنا لیا تھا، وہ بھی غرب اردن میں صہیونیت مخالف تحریکوں کو پنپنے سے نہیں روک پا رہے ہیں۔ اسی طرح لبنان جس کی حکومت میں صہیونی حامی عناصر ہمیشہ شامل رہے ہیں، اب اس سرطان کے بڑھتے ہوئے دائرۂ اثر سے پریشان ہے۔ اس کی حکومت بھی حزب اللہ جیسی تنظیم کو وجود میں آنے سے نہیں روک سکی۔ اسی طرح شام اور عراق میں صہیونیت کے خلاف عوامی بیداری میں بہت تیزی آئی ہے۔

اسرائیل کے ہم سایہ ملکوں کے علاوہ غیر مسلم ملک بھی اسرائیل کے فساد سے روشناس ہو رہے ہیں اور ان کے یہاں بھی صہیونت مخالفت تحریکیں پنپ رہی ہیں۔ یوم القدس کی تاثیر پر گفتگو کرتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: ’’اگر عالم اسلام اس دن کو کما حقہ منائے اور صیہونیوں کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کرنے کے لئے اس دن کا بخوبی استعمال کرے تو کافی حد تک دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے، اسے پسپائی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔‘‘ مختصر یہ کہ امام خمینیؒ کی آواز نے پوری دنیا کی توجہات مسئلہ فلسطین کی جانب مبذول کیں اور اس انتقاضہ کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر یوم القدس کی تحریک معرض وجود میں نہ آتی تو جس شدت سے آج مسئلہ فلسطین دنیا کے سامنے موجود ہے، شاید نہیں ہوتا۔ خاص طور پر جس استقامت اور مقاومت نے خطے میں نمو پائی ہے، اس کے عناصر کو پنپنے کے لئے مزید وقت درکار ہوتا۔
 
 
تحریر: عادل فراز
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.