سلیمانی

سلیمانی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام بند نہ کیا تو مارچ میں ایران پر بمباری کرکے اس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر دیا جائے گا۔ حیرت ہے ڈونلڈ ٹرمپ ایک طرف ایران کیساتھ ’’بات چیت‘‘ کے ذریعے مسائل حل کرنے کیلئے کوشاں ہے تو دوسری جانب دھمکیاں بھی دے رہا ہے، بلکہ کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ کسی بھی خود مختار ملک، جس کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کیلئے ہے، اُسے اس انداز میں دھمکیاں نہیں دی جا سکتیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، ان ممالک کیلئے جو امریکہ سے کوئی اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی دوستی اُس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔ امریکہ دوستی کی آڑ میں زیادہ نقصان پہنچاتا ہے، چہ جائیکہ وہ کھلا دشمن ہو۔

ایران کی جانب سے چاہیئے تو یہ تھا کہ ایرانی صدر ہی اپنے امریکی ہم منصب کو دھمکی کا جواب دیتے، یا وزارت خارجہ اس پر ردعمل دیتی، مگر صدر یا ایرانی وزارت خارجہ کی بجائے رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا امریکہ کو جواب دینا کہ ’’ایران پر حملے کی حماقت کی تو امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ ایران ’’بھرپور اور تباہ کن‘‘ جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے محمد بن سلمان کیساتھ گفتگو میں واضح پیغام دیا ہے کہ ایران جنگ نہیں چاہتا، مگر اپنے دفاع کیلئے سب کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

امریکی صدر کی یہ دھمکیاں، صرف ایران کو نہیں ہیں، بلکہ ان کا نشانہ دیگر مسلم ممالک بھی بنیں گے، ایران پر اگر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو بہت سے مسلم ممالک بے ساختہ اس جنگ کی لپیٹ میں آجائیں گے، کچھ امریکہ کی دشمنی تو کچھ امریکہ کی دوستی میں اس آگ کا ایندھن بنیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے یہ دھمکی کیوں دی ہے؟ تو مبصرین کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی اس دھمکی کا مقصد نیتن یاہو کا اقتدار بچانا ہے، کیونکہ اسرائیل میں نیتن یاہو  کا اقتدار ہچکولے کھا رہا ہے۔ اب نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ اسرائیل کیخلاف کوئی جنگی محاذ کھلے اور اسرائیل کے جو عوام دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، وہ ایک پیج پر آجائیں۔

اسرائیل میں ایک طبقہ سیکولر ہے، دوسرا بنیاد پرست، سیکولر طبقہ وہ ہے، جو بیرونی ممالک سے لا کر اسرائیل میں بسائے گئے تھے، انہیں بڑے بڑے سبز باغ دکھائے گئے تھے، مگر اب اسرائیل کا دفاع تارِعنکبوت ثابت ہونے پر یہ لوگ خوفزدہ ہیں اور کئی تو اسرائیل چھوڑ کر اپنے اپنے آبائی ممالک جا چکے ہیں، جو اسرائیل میں موجود ہیں، وہ حکومت پر مسلسل دباو ڈال رہے ہیں کہ حماس کی قید سے اسرائیلی قیدیوں کو رہا کروایا جائے، جنگ بند کی جائے اور غزہ پر حملے روکے جائیں، تاکہ اسرائیل پر جوابی وار نہ ہو، اسرائیلیوں کا یہ دھڑا نیتن یاہو کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔

دوسرا دھڑا بنیاد پرست یہودی ہیں، یہ وہ اسرائیلی ہیں، جو عرب ہیں اور مقامی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل ہو اور اس کیلئے جنگ کو جنتا وسیع کیا جائے، اسے وسعت دی جائے۔ یوں ان دونوں دھڑوں کے درمیان بھی کشیدگی ہے۔ اس کشیدگی اور دباو کے باعث سارا پریشر نیتن یاہو پر ہے۔ اس لئے نتین یاہو کی خواہش ہے کہ اسرائیل پر جنگ مسلط کروا دی جائے۔ یہ دنیا بھر کا اصول ہے کہ جب کسی ملک پر حملہ ہوتا ہے، تو اس کے عوام خود بخود اپنی لڑائی اور اختلافات چھوڑ کر ایک پیج پر متحد ہو جاتے ہیں۔ نیتن یاہو کی بھی یہی خواہش ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کا جو دھڑا اس کے اقتدار کیلئے خطرہ بن رہا ہے، وہ اسرائیل پر جنگ مسلط ہونے سے حکومت کی مخالفت چھوڑ کر حمایت میں آ جائے گا۔ اس سے تھوڑا بہت نقصان تو ہوگا، لیکن نیتن یاہو کا اقتدار بچ جائے گا۔

اس لئے نیتن یاہو ٹرمپ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ ایک محدود پیمانے پر جنگ ہوسکتی ہے کہ امریکہ ایران پر کوئی میزائل داغ دے اور جواب میں ایران اسرائیل کو نشانہ بنا دے، تو یوں اسرائیلی عوام متحد ہو جائیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ ایران واقعی جنگ نہیں چاہتا، ایرانی صدر نے بھی یہی پیغام دیا ہے، لیکن اب ایران کی دفاعی پوزیشن بہت زیادہ مضبوط ہے، اسے دفاعی میدان میں نمایاں کامیابیاں ملی ہیں۔ ایران کو دفاعی میدان میں چین اور روس کی بھی حمایت حاصل ہے۔ چین اور روس نے جو جدید ہتھیار بنائے ہیں، ایران کیساتھ امریکی جنگ کی صورت میں انہیں بھی آزمایا جا سکتا ہے اور اس صورتحال سے امریکہ و اسرائیل دونوں اچھی طرح آگاہ ہیں۔

ایران کے میزائل سسٹم اور ڈرون ٹیکنالوجی نے امریکیوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ امریکی و اسرائیلی دفاعی نظام بھی ایران کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ اگر ایران پر حملے کی حماقت کرتا ہے تو جوابی وار برداشت نہیں کر پائے گا۔ کیونکہ ایرانیوں کیساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی کیساتھ ساتھ ایک ایسی چیز بھی ہے، جو امریکہ و اسرائیل کے پاس نہیں، وہ ہے، جذبہ شہادت، ایرانیوں میں یہ جذبہ بدرجہ اُتم موجود ہے اور اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی ٹیکنالوجی نہیں کرسکتی۔ ایرانی فوجی، شہادت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں، جہاں موت کا خوف ختم ہو جائے وہاں، ٹیکنالوجی کو بھی شکست ہو جاتی ہے۔

ایران نے اپنے میزائلوں کا رُخ امریکی اڈوں کی طرف کر دیا ہے۔ یمن میں بھی حملوں کو ’’وقتی طور پر‘‘ روک دیا گیا ہے، جس کا مقصد ایران کا یو ٹرن نہیں، بلکہ یمن کی پوزیشن کو مزید مضبوط بنانا ہوسکتا ہے۔ اس لئے جو حلقے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایران نے یمن سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے، وہ یہ یاد رکھیں کہ یمن ایران کا دفاع ہے اور ایرانی اپنے دفاع سے غافل نہیں، بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور بیدار ہیں اور اس صورتحال میں ایران پر حملے کی حماقت امریکہ و اسرائیل کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

تحریر: تصور حسین شہزاد

 یہ جنگ نہیں، انسانیت کا قتلِ عام ہے، جہاں بچے پرندوں کی طرح آزاد ہونے کی بجائے، ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں۔ غزہ کی فضا میں اب پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں، بلکہ دھویں کے بادل ہیں۔ جہاں سے خون کی بارش برس رہی ہے۔ ہر منظر ایک المیہ ہے، ہر سانس درد سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کے بچے خواب نہیں دیکھتے، وہ تو بس اگلے بم سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ کاش دنیا کی آنکھیں کھل جائیں، کاش یہ آہیں کسی کے دل کو چھو جائیں۔ مگر ظلم تو یہ ہے کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انسانیت مر رہی ہے، وہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔"  

آج مغربی تہذیب کا جنازہ اُٹھ رہا ہے، مگر اس کے ماتم میں کوئی ہاتھ نہیں بڑھا رہا۔۔۔۔۔کیونکہ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "انسانیت" کے نام پر ہولوکاسٹ کیا، جس نے ہیروشیما کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا اور جس کے ہاتھوں فلسطین، کشمیر اور عراق کے بچوں کے خون سے تاریخ کے اوراق رنگین ہوئے۔ یہ وہ تمدن ہے، جس نے "جمہوریت" کے نام پر دنیا کو تقسیم کیا، "آزادی" کے نعرے لگا کر قوموں کو غلام بنایا اور "انسانی حقوق" کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کے سینے چھلنی کیے۔ کیا یہی وہ روشن خیالی تھی، جس کا دعویٰ کیا جاتا تھا۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں تو مغربی میڈیا کی زبان گونگی ہوچکی ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے، جو اونٹ کی کٹی ہوئی ٹانگ پر "حقوقِ بشر" کے نام واویلا کرتے ہیں۔ یہ وہی میڈیا ہے، جس نے ۹/۱۱ پر آنسو بہائے تھے، مگر فلسطین کے ہزاروں ۹/۱۱ پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "Holocaust Memorial" بنایا، مگر غزہ کے بچوں کے لیے کوئی میوزیم نہیں بننے دیا۔ کیا انسانیت کی موت کا یہی ثبوت کافی نہیں؟ اور افسوس! مسلمانوں کی خاموشی اس ظلم پر مہرِ تصدیق ہے۔۔۔۔۔ وہ امت جو "وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُم" کی حامل تھی، آج اپنے ہی بہن بھائیوں کے لیے ایک ٹویٹ تک نہیں کر پا رہی۔ کیا یہی وہ ورثہ تھا، جو ہمیں رسولِ کریمﷺ نے دیا تھا؟ تاریخ ہمیں کیسے یاد رکھے گی۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں، مسلم ممالک کی دوغلی پالیسیاں بھی عیاں ہوچکی ہیں۔ "پاکستان، ترکی، اردن، سعودی عرب، مصر اور شام" کی حکومتیں مغرب کے سامنے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں، جو فلسطین پر تقریریں تو کرتے ہیں، لیکن عملی اقدامات سے گریز کرتے ہیں۔ پاکستان اقتصادی و سیاسی بحران کے نام پر فلسطین کی مدد کو معطل رکھے ہوئے ہے جبکہ امریکہ کی غلامی پر فخر، ترکی منافق اعظم مغرب کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مقدّم سمجھتا ہے، سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے راستے پر چل نکلا ہے، جبکہ مصر اور اردن غزہ کی بند سرحدوں کو کھولنے میں ناکام رہے ہیں۔ شام کی حکومت ظالموں کے خلاف اٹھنے کے بجائے اسرائیل کےلئے لے پالک کا کام رہی ہے۔ اسرائیل سے زیادہ قصوروار نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے۔

لیکن اس تاریک منظر نامے میں "ایران اور یمن" کی کارروائیاں قابلِ تحسین ہیں۔ ایران نے فلسطین کی حمایت میں واضح موقف اختیار کیا ہے اور یمن کے انصاراللہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنا کر ایک نئی مزاحمتی لکیر کھینچ دی ہے۔ ایران اور یمن کی جرات مندانہ کارروائیاں ثابت کرتی ہیں کہ اگر عزم ہو تو وسائل کی کمی بھی راہ نہیں روک سکتی۔ وقت آگیا ہے کہ مسلم حکمران اپنی پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لیں اور ظلم کے خلاف ایک متحد محاذ بنائیں۔۔۔۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔"

آج انسانیت کا مقدمہ ان کی لاشوں پر کھڑا ہے۔ اے امتِ محمدﷺ! کیا تم نے کبھی سوچا کہ جنت کی مٹی بھی شرمندہ ہوگئی ہوگی کہ وہ اتنی جلدی ان کلیوں کو تھام رہی ہے؟ وہ معصوم جو سورۃ الفاتحہ صحیح سے پڑھ نہ سکے، آج شہداء کے سرداروں میں کھڑے ہیں۔ مگر تم؟ تم آج بھی بے حس نیندوں میں گم ہو۔ یاد رکھو، وہ لمحہ آئے گا، جب انہی بچوں کی روحیں تمہارے ضمیر کے دروازے پر دستک دیں گی، اور چیخ کر پوچھیں گی: "جب ہم ٹکڑوں میں آسمان کی طرف جا رہے تھے، تو تمہیں ہماری چیخیں کیوں نہ سنائی دیں۔؟

تحریر: عارف بلتستانی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it. 

Sunday, 06 April 2025 07:19

نیا منظر نامہ

افسانوی شہرت کا حامل، دیوہیکل سورما ”عمر بن عبدود“ جب رجز خوانی کرتے ہوئے اپنے راستے میں کھودی گئی خندق کو پھلانگ کر اور اپنے مقابل کے سر چڑھ کر للکارنے لگا اور بدکلامی کرنے لگا تو اس موقعے پر اس کے مدمقابل لشکر میں قبرستان کی سی خموشی چھا گئی۔ یوں لگا جیسے لشکریوں کے سروں پر پرندے بیٹھ گئے ہیں۔ اس خموشی کو کاٹتے ہوئے آخر ”سردارِ لشکر“ کی گرجدار آواز بلند ہوئی کہ ”کوئی ہے جو اس نجس کی زبان بند کرے؟“۔

تین بار یہ جملے دھرائے گئے لیکن ہر بار بھرے لشکر میں سے محض ایک جانفروش، اپنی ہتھیلی پر اپنی جاں لیے، اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے، اس للکارنے والے سے جنگ آزمائی کے لیے کھڑا ہوا، لیکن سردار لشکر نے ہر بار اسے اپنے اشارے سے بٹھا دیا۔ شاید وہ اس مرحلے پر ہر کسی کو یہ موقع فراہم کرنا چاہتا تھا کہ وہ میدان میں اپنی طاقت کا لوہا منوا لے اور اپنی تلوار کے جوہر آزمالے، تاکہ کل کلاں کوئی کسی سے یہ نہ پوچھے کہ:
کون ہم سب پہ لے گیا بازی
ہم سے پہلے یہ کس کا نام آیا
آخر کار وہ جس کی ماں نے اس کا نام ”حیدر“ رکھا تھا اور جس کے نامہء اعمال میں ایک ایسی ”ضربِ یداللہٰی“ لکھی گئی تھی جسے ثقلین کی تمام عبادت سے افضل ہونا تھا، آگے بڑھا اور للکارنے والے کی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔

لمحہء موجود میں بھی ایسا ہی ایک منظر ہمارے سامنے ہے جب ایک طرف سرخ بالوں والا آج کا عمر بن عبدود اپنی طاقت کے نشے میں اسی کے وارثوں کو للکار رہا ہے جس نے خندق کے بعد خیبر میں بھی دشمنان خدا کی ناک رگڑی تھی۔ آج کا میڈیا بھی اسی طرح آج کے سب سے بڑے طاغوت کی طاقت کا اشتہار بنا ہوا ہے جس طرح جنگ خندق میں بعض کم ہمت لوگ عمر بن عبدود کی طاقت و جبروت کے قصیدے پڑھ رہے تھے۔

آج بھی ایران کے سوا باقی اکثر اسلامی ممالک کے سروں پر اسی طرح پرندے بیٹھے ہوئے ہیں جس طرح عمر بن عبدود کے للکار کے مقابلے میں، بجز حیدر کرارؑ، تمام لشکریوں کے سروں پر پرندے اپنا ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ آج تمام عالمِ اسلام ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے سامنے ایک طرف زمانے کے تمام مرحب و انتر اور عمر بن عبدود ہیں اور دوسری جانب وارثانِ خیبر شکن۔ ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ  اِس طرف ہے یا اُس طرف، درمیانی راستہ کوئی نہیں۔
تحریر: سید تنویر حیدر
 
 
 
امریکہ نے یمن پر فضائی حملے زیادہ شدید کر دیے ہیں لیکن اس کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تحریک انصاراللہ کے سربراہ عبدالملک بدرالدین الحوثی نے حال ہی میں اپنی تقریر میں بھوت کے نام سے معروف جدید ترین امریکی بمبار طیاروں کے ذریعے یمن پر امریکی فضائی حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "بعض دن تو امریکہ کے فضائی حملوں کی تعداد 90 تک جا پہنچتی ہے لیکن اس کے باوجود الحمد للہ امریکہ کو شکست ہوئی ہے اور ہماری فوجی طاقت پر ان حملوں کا کوئی برا اثر نہیں پڑا۔ امریکہ کے فضائی حملے ملت فلسطین کی حمایت میں جاری ہماری فوجی کاروائیوں کو نہیں روک پائے اور نہ ہی بحیرہ احمر، بحیرہ عرب اور خلیج عدن میں اسرائیل اور اس کے حامیوں کی تجارتی کشتیوں کی آمدورفت بحال ہو سکی ہے۔ امریکہ کو یمن کے حریت پسند رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی شکست ہوئی ہے۔"
 
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکہ کو شکست ہوئی ہے اور خدا کی مدد سے مستقبل میں بھی اسے شکست ہو گی اور وہ اپنے مذموم اہداف حاصل نہیں کر پائے گا کیونکہ ہماری عوام خدا پر بھروسہ کرتی ہے، کہا: "یمن پر شدید فضائی حملے کوئی نئی بات نہیں ہے اور امریکہ نے گذشتہ آٹھ سال سے ہمارے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ امریکہ کی وزارت دفاع کے عہدیداران یمن میں اپنی شکست اور ہماری فوجی طاقت کم کرنے میں ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ہماری قوم کے سامنے خدا کے راستے پر جہاد کا طویل راستہ موجود ہے۔ ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کے دسویں سال میں ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل سے براہ راست جنگ ہماری خواہش تھی۔ موجودہ جنگ ہمارے اور اسرائیلی دشمن کے درمیان ہے جبکہ امریکہ بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ ہم ان کی طرح نہیں ہیں جو اسرائیلی دشمن کے مجرمانہ اقدامات پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔"
 
سوشل میڈیا پر جنگ کی منصوبہ بندی
یمن کے خلاف ٹرمپ حکومت کی فوجی کاروائی کی تفصیلات گذشتہ ہفتے اس وقت منظرعام پر آ گئیں جب امریکہ کے اعلی سطحی سیکورٹی عہدیداران نے غلطی سے ایک صحافی کو بھی سگنل نامی میسنجر پر اپنے خصوصی گروپ میں شامل کر لیا تھا۔ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے سگنل کے چیٹ گروپ میں لکھا کہ "انصاراللہ کے معروف ترین میزائل محقق اپنی منگیتر کے گھر میں داخل ہوتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں"۔ اس نے اس بارے میں کچھ نہیں لکھا کہ آیا اس کے اہلخانہ بھی شہید ہو گئے ہیں یا نہیں اور یہ کہ عام شہریوں کا جانی نقصان کم کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی گئی تھی۔ امریکہ کے نائب صدر جیرالڈ وینس نے اس کا جواب دیا "بہت اعلی" اور اس کے بعد امریکی پرچم، آگ کے شعلے اور انگوٹھے کی ای موجیز بھی ارسال کیں۔
 
اسٹریٹجک علاقوں پر بمباری
امریکہ نے یمن کے دارالحکومت صنعا، ساحلی شہر حدیدہ اور اسٹریٹجک علاقے صعدہ کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ حملے جو برطانیہ کی مسلح افواج کے تعاون اور پشت پناہی سے انجام پا رہے ہیں زیادہ تر گنجان آباد علاقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جہاں عام شہری بھی ان کی زد میں ہیں۔ انصاراللہ یمن سے قریب سبا نیوز ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ نے دو بار ایک کینسر اسپتال کو بمباری کا نشانہ بنایا جو یمن کے شمال میں واقع ہے۔ رپورٹ میں اس اقدام کو عام شہریوں اور شہری تنصیبات کو نشانہ بنانے پر مبنی جنگی جرم قرار دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں دسیوں عام شہری شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ اس بارے میں خودمختار ذرائع نے بھی بڑی تعداد میں عام شہریوں کے جانی نقصان کی اطلاع دی ہے۔
 
سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کے دوران بھی امریکہ نے گذشتہ برس اکتوبر میں دو اسٹریٹجک بی 2 بمبار طیاروں کے ذریعے یمن پر فضائی بمباری کی تھی۔ امریکہ ان طیاروں کے ذریعے اپنے بقول انصاراللہ کی زیر زمین سرنگوں کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔ اگرچہ ان حملوں میں کئی سرنگیں تباہ بھی ہوئیں لیکن سیٹلائٹ تصاویر نے امریکہ کی شکست کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ امریکہ میں مقیم مغربی ایشیا امور کے ماہر محمد الباشا اس بارے میں کہتے ہیں: "کہا گیا ہے کہ امریکی حملوں میں کئی سرنگیں تباہ ہوئی ہیں لیکن سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف سرنگوں کے دہانے تھے اور یمنیوں نے نئے دہانے کھول لیے ہیں۔" فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک یمن پر زمینی حملہ انجام نہیں پاتا فضائی بمباری کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اس سے انصاراللہ کی فوجی طاقت کمزور نہیں کی جا سکتی۔
 
یمن میں امریکہ کے جنگی جرائم
یمن پر فضائی جارحیت کا جائزہ لینے والے تحقیقاتی گروپ یمن ڈیٹا پراجیکٹ نے ایکس پر اپنے پیغام میں اعلان کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے یمن پر فضائی جارحیت شروع ہونے کے پہلے ہفتے میں چار بچوں سمیت 25 عام شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ کے نصف سے زیادہ فضائی حملے شہری تنصیبات، اسکول، شادی ہال، شہری آبادی اور قبائلی خیموں پر انجام پائے ہیں۔ پہلا حملہ 15 مارچ کی سہ پہر انجام پایا جس میں کم از کم 13 عام شہری شہید اور 9 زخمی ہو گئے۔ ایئر وارز نامی ایک اور تحقیقاتی گروپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکی حملوں میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شہید ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ کم از کم دو بچے جن کی عمریں 6 ماہ اور 8 برس تھیں، صعدہ کے شمال میں شہید ہوئے ہیں جبکہ تیسرا گمشدہ ہے۔
 
تحریر: علی احمدی
 
 

اللہ تعالی نے انسان کو خلق فرمانے کے بعد اس کے ذریعہ اپنی دیگر مخلوقات پر فخر و مباہات کی۔ انسان ہی کے لئے اللہ تعالی نے اس کے ماحول میں پائی جانے والی تمام اشیاء کو خلق فرمایا اور ہر چیز کو اس کے لئے مسخر فرمایا۔ یہی درحقیقت مشیت خداوندی کا تقاضا تھا کہ تمام قدرتی ماحول اور فطری مناظر کو انسان کے لیے مسخر کیا جائے۔

 ان تمام اشیاء کو انسان کے لئے تسخیر کرنے کے بدلے اللہ تعالی نے اس کا تحفظ اور اس کا درست استعمال بھی انسان پر لازم قرار دیا کیونکہ فطری ماحول سے ہی انسان وجود میں آتا ہے اور اسی کی طرف پلٹنا بھی ہے ۔

چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کو اس کائنات کی واضح نشانیوں پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے جسے اللہ تعالی نے بہترین شکل میں رکھا ہے۔ اسےخلق کرنے  کے بعد اسے منظم انداز میں  قائم رکھنے کا اللہ تعالی نے خاص انتظام فرمایا ہے۔ چنانچہ اس کے بارے میں غور و ((أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ * وَالأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُل زَوْجٍ بَهِيجٍ))(سورة ق ـ 6ـ 7).

"کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا اور مزین کیا؟ اور اس میں کوئی شگاف بھی نہیں ہے۔ اور اس زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں ہم نے پہاڑ ڈال دیے اور اس میں ہر قسم کے خوشنما جوڑے ہم نے اگائے،

دین مقدس اسلام نے ایک مسلمان فرد اور اس ماحول کے درمیان پیار محبت کا رشتہ قائم کیا ہے۔ جبکہ جاندار اشیاء ہوں یا بے جان اشیاء، ان کا تحفظ کرنے میں ہی انسان کے لئے فائدے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کا دنیا میں فائدہ یہ ہے کہ انسان ایک صحت مند اور خوشگوار زندگی جی سکتا ہے اور اس کام کا آخرت میں بھی عظیم ثواب کی شکل میں فائدہ ملے گا۔ چنانچہ قرآن کریم کے اس جامع نظریے کی تاکید کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جو انسان اور کائنات کے درمیان موجود اس رشتے کی تصدیق کرتی ہیں۔ بلکہ یہ رشتہ انسان اور فطرت کے دوسرے عناصر کے درمیان ایک خاص اور بنیادی ربط ہے اور اس رشتے کی بنیاد اس بات پر ایمان ہے کہ انسان جب فطرت کے دیگر عناصر میں  سے  کسی عنصر کے ساتھ زیادتی کرے یا اس کا غلط استعمال کرے یا اس فطری نظام میں کوئی خلل ڈالے تو نتیجے میں خود انسان کو بھی کافی ضرر اور نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

چنانچہ شریعت  مقدس اسلام میں ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کی تاکید ہوئی ہے۔ شریعت نے اس بارے میں باقاعدہ فقہی قواعد بنائے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان: ( لا ضرر ولا ضرار...)  درحقیقت ایک قاعدہ ہے۔ یہ قاعدہ ماحول میں آلودگی  پھیلانے اور اسے خراب کرنے سے ہمیں خبردار کرتا ہے ۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : "اتَّقُوا الْـمَلاَعِنَ الثَّلاَثَةَ: الْبَرَازَ فِي الْـمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَالظِّلِّ".

لعنت کی  تین چیزوں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی جگہ، عمومی راستہ اور سائے میں پیشاب و پاخانہ کرنے سے پرہیز کرو۔

اسی طرح رسول اکرم نے راستے سے گزرنے والوں کے لیے اذیت کا باعث نہ بننابھی راستے کے حقوق میں سے ایک حق  قرار دیا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا:  راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو۔ لوگوں نے کہا: یہ ہم کیسے کرسکتے ہیں کیونکہ یہی تو ہماری بیٹھنے کی جگہ ہے جہاں بیٹھ کر ہم باتیں کرتے ہیں آپ نے فرمایاکہ اگر تم منع کرتے ہو اور راستے پر ہی بیٹھنا ہے تو راستے کو  اس کا حق دو۔ لوگوں نے پھر پوچھا: یا رسول اللہ، راستے کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اذیت دینے سے باز رہو۔

اسی طرح زمین کے حسن کو برقرار رکھنے، اسے آباد کرنے اور اس پر زراعت کرنے کے بارے میں مزید صراحت کے ساتھ رسول اللہ کا فرمان ہے:  "کوئی بھی مسلمان کوئی کاشت کاری کرےتو اس سے جو کچھ کھائے وہ اس کے لئے صدقہ ہے، اس سے اگر کوئی چیز چوری ہوجائے تو بھی صدقہ ہے اسے کوئی درندہ کھا لے تو بھی صدقہ  ہے یا کوئی پرندہ اسے کھا جائے تو بھی صدقہ ہے۔ اس کے ساتھ کوئی بھی بہانہ ہو جائے  تو وہ بھی اس  شخص کے لیے قیامت تک صدقہ ہے"

 رسول رحمت اللعالمین نے غیر آباد زمین کی بحالی جیسے سودمند کاموں کی طرف توجہ دلائی ہے چنانچہ پودے لگانا فصل اگانا یا کسی غیر آباد زمین کو پانی دینا نیکی اور احسان میں شامل فرمایا ہے۔  جیسا کہ ارشاد گرامی ہے  "مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَلَهُ مِنْهَا -يَعْنِي أَجْرًا- وَمَا أَكَلَتِ الْعَوَافِي مِنْهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ".

جس نے کسی غیر آباد زمین کو آباد کیا تو اس سے جو حاصل ہوا ، سوحاصل ہوا ۔ لیکن جو ضائع ہوا ہے وہ بھی اس کے لئے صدقہ ہے۔ چونکہ قدرتی ماحولیات میں پانی ایک اہم حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا اس کا درست استعمال اور اس کی پاکیزگی کا تحفظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی حضرت سعد کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: "مَا هَذَا السَّرَفُ يَا سَعْدُ؟ " یہ کیا اسراف ہے سعد؟ ! عرض کیا  ”أَفِي الْوُضُوءِ سَرَفٌ؟) “یا رسول اللہ) کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟! فرمایا:  "نَعَمْ، وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهْرٍ جَارٍ"  ہاں اگر تم کسی  نہرپر ہی کیوں نہ ہو۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے جاری ہونے والی یہ تنبیہ درحقیقت فطرت کے تحفظ کے حوالے سے ہمارے اوپر بہت بڑا احسان ہے جس سے فطرت کے تحفظ کی اہمیت کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر کا ایک خاص تصور پیدا ہوتا ہے کہ ماحولیات کی مختلف چیزیں اپنے ایک کائناتی اصول کے مطابق ہمیشہ ایک دوسرے کے لئے متمم و  مکمل ہیں اور اللہ تعالی کے ارادے سے اس کائنات کے حسن و جمال کو باقی رکھنے کے لئے فطرت کے تمام اجزاء ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

 

حماس تنظیم نے ہنگری کی جانب سے عالمی فوجداری عدالت سے نکلنے کے فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

عدالت سے نکلنے کے فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

حماس تنظیم کے بیان میں آیا ہے کہ ہنگری کی حکومت کا آئی سی سی سے نکل جانا جنگی مجرموں اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی حمایت کے مترادف ہے۔

اس بیان میں درج ہے کہ بوڈاپیسٹ نے اپنے اس فیصلے سے عالمی انصاف کے نظام پر کاری ضرب لگائی ہے۔

حماس کے بیان میں آیا ہے کہ یہ وہی دوہرا معیار ہے جو مغربی حکومتوں نے جنگی جرائم کے سلسلے میں اپنایا ہوا ہے۔

فلسطین کی استقامتی تنظیم نے خبردار کیا کہ ہنگری کے اقدام کے نتیجے میں نہ صرف عالمی انصاف کا نظام کمزور ہوگا بلکہ جنگی مجرموں کو سزا سے بھاگنے کا موقع بھی ملے گا۔

لبنان کی حزب اللہ نے ایک بیان جاری کر کے شام، یمن، غزہ اور لبنان پر امریکی اور صیہونی حملوں کی مذمت کی ہے۔ 

حزب اللہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ حملے خطے کی اقوام کے خلاف امریکی اور صیہونی شیطانی محور کی طرف سے چھیڑی جانے والی جنگ کا حصہ ہیں جس کا مقصد خطے کے ممالک پر دباؤ ڈال کر غاصب رژیم کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

 بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شام پر بار بار حملے اس ملک کو کمزور کرنے کے امریکی اور صیہونی ایجنڈے کا حصہ ہیں، کیونکہ وہ  اس ملک کی عوامی مزاحمت سے خوف زدہ ہیں۔

حزب اللہ نے زور دیا کہ صیہونی جارحیت کے خلاف شامی عوام کا جرات مندانہ موقف اس بات کا ثبوت ہے کہ شامی قوم اب بھی غاصبوں کا مقابلہ کرنے کے آبرومندانہ موقف پر قائم ہے۔

 حزب اللہ نے اپنے بیان میں یمن پر امریکی حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جارحیت یمن کو غزہ کی حمایت اور فلسطین میں مزاحمت سے روکنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ 

لبنانی مزاحمت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطین اور غزہ میں عالمی برادری کی آنکھوں کے سامنے اسرائیل کی جارحیت اور نسل کشی جاری ہے، جو کہ در اصل صیہونی دشمن کی فلسطینیوں کے جذبہ استقامت کو توڑنے میں واضح ناکامی کا ثبوت ہے۔ 

حزب اللہ نے لبنان پر امریکی دباؤ اور اس ملک پر صیہونی رژیم کے مسلسل حملوں کے مقابلے میں خطے کے ممالک کے اتحاد پر زور دیا۔

 اس بیان میں خطے کی اقوام سے کہا گیا کہ صرف دو ہی راستے ہیں؛ یا تو امریکی صیہونی جارحیت کا مقابلہ کرنا چاہیے یا پھر دشمن کے منصوبوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینا چاہیے جو صرف قوموں کے وسائل پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ 

حزب اللہ نے صیہونی اور امریکی جرائم کی مذمت کرتے ہوئے شام، یمن اور فلسطین کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور دنیا کے تمام آزادی پسندوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ان جرائم کے خلاف آواز بلند کریں اور عالمی برادری پر اس وحشیانہ جارحیت کو روکنے کے لیے دباؤ بڑھائیں۔

ایران کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر حمید رضا بابائی نے پارلیمانی وفد کے ہمراہ ازبکستان کے دورے کے دوران اس ملک کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نورالدین جان اسماعیلوف سے ملاقات کی۔

بابائی نے اس ملاقات میں کہا کہ ازبکستان میں پارلیمانی اجلاس کا انعقاد ہمارے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے، یہی وجہ ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ کا اعلی سطحی وفد اس اجلاس میں شریک ہے۔

 انہوں نے ایران اور ازبکستان کے درمیان تاریخی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران ایک آزاد ملک ہے اور اس کی تمام پالیسیاں کثیرالجہتی اور حسن ہمسائیگی پر مبنی ہیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ ایران ازبکستان کے ساتھ اقتصادی اور تکنیکی شعبوں میں تعلقات کی توسیع کا خواہاں ہے۔

حمید رضا نے کہا کہ اس وقت ایران اور ازبکستان کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 500 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے جوکہ موجودہ صلاحیتوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، ایران تعلقات کی سطح کو 5 بلین ڈالر تک بڑھانے کے لئے تیار ہے۔

 اس ملاقات کے دوران ازبکستان کے اسپیکر  نے کہا کہ ایران اور ازبکستان کے صدور کے درمیان دوستانہ تعلقات کی بدولت آج دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور نجی شعبوں میں تعاون کو فروغ مل رہا ہے۔

امتوں سے برتر بنایا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آیۃ اللہ محسن فقیہی نے حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے، عید سعید غدیر اور عشرۂ ولایت و امامت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ خدا نے انسانوں کو بہت سی نعمتیں دی ہیں،لیکن جس نعمت کی زیادہ قدردانی اور شکریہ ادا کرنے کی لائق ہے وہ خدا کی طرف سے ولایت کی نعمت ہے۔

جامعۂ مدرسین کے رکن نے کہا کہ قرآن مجید کی آیات میں خدا نے سرپرستی کی نعمت کو ایک ایسی نعمت کے طور پر ذکر کیا ہے جو شکر اور قدردانی کا مستحق ہے اور اس نعمت کی حامل قوموں کو دوسری اقوام پر برتری حاصل ہے۔

حوزہ علمیہ کے استاد نے مزید کہا کہ خدا قرآن کی آیات میں بنی اسرائیل سے اپنی ایک خاص اور اہم نعمت کا ذکر کرنے کو کہتا ہے اور خدا اس نعمت کو ولایت کی نعمت سمجھتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر خدا،موسیٰ (ع) کو بنی اسرائیل کے لئے نبی کے طور پر منتخب نہیں کرتا،تو آپ واضح طور پر گمراہی اور ضلالت میں ہوتے اور تاریخ کے پیش نظر پوری دنیا میں اسرائیل کے لوگوں کی برتری کی وجہ، بہت سے پیغمبروں کا وجود اور ولایت کی نعمت ہے۔

آیۃ اللہ فقیہی نے بیان کیا کہ خدا نے انبیاء،رسول خدا (ص)آئمہ (ع) اور فقہاء کی ولایت کی نعمت سے امت اسلامیہ کو ایک نمونہ اور دیگر امتوں سے برتر بنایا ہے اور علامہ طباطبائی کے مطابق بنی اسرائیل صرف ایک مورد میں دوسری قوموں سے برتر ہیں اور وہ نعمت،بہت سے انبیاء کا وجود اور متعدد معجزات کا رونما ہونا ہے۔

جامعۂ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے رکن نے مزید کہا کہ قرآن مجید کی آیات میں، پرہیزگاروں کےلئے ذکر کردہ ایک اور صفت، ولایت مداری کے علاوہ،خدا سے ملاقات میں یقین کی نعمت ہے۔ اس ضمن میں قرآن کی آیات میں صفت ظن کا ذکر کیا گیا ہے جس کا مطلب گمان ہے اور بعض مفسرین نے قرآن میں صفت ظن کا ترجمہ گمان(شک)کے معنی میں کیا ہے،لیکن علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ یہاں ظن کا مطلب وہی گمان ہے،لیکن یہ ظن؛ یقین کا مقدمہ ہے اور انسان پہلے کسی چیز میں شک کرتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ اسی چیز کے بارے میں یقین بن پیدا کر لیتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ خدا سے ملاقات کے یقین کے بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس یقین کا معنی قیامت کے دن خدا سے ملاقات ہے،لیکن علامہ طباطبائی  کہتے ہیں: ان آیات میں خدا سے ملنے کا مطلب اسی دنیا میں خدا سے ملنا ہے اور اس دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی انا کو چھوڑ کر پوری دنیا کو خدا کی تعبیر دیکھی ہے اور دنیا کے ساتھ مکمل اتحاد میں ہیں اور اسی دنیا میں ہی وہ خدا سے ملے ہیں، البتہ اس ملاقات کا مطلب ظاہری ملاقات نہیں ہے،کیونکہ ظاہری آنکھوں سے خدا کو دیکھنا ناممکن ہے ، بلکہ خدا سے ملنے کا مقصد اس دنیا میں تمام وجود کے ساتھ خدا کی موجودگی کا درک کرنا ہے۔

آیۃ اللہ فقیہی نے کہا کہ عام زندگی میں،ہمارے لئے ایسے لمحات پیش آئے ہیں کہ آزمائشوں اور مصیبتوں میں،ہم نے خدا کی موجودگی اور اس کی حمایت اور ولایت کو درک کیا ہے لہذا اس ملاقات کا مطلب،مختلف مراحل میں خدا کی موجودگی کا فہم و ادراک ہے۔

تہران (ارنا) سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میرین فورس کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق، خلیج فارس کے وسطی پانیوں میں ایندھن کی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس سے وابستہ "اسٹار 1" اور "ونٹیج" نامی دو غیر ملکی آئل ٹینکروں قبضے میں لیا گیا۔

یہ دونوں ٹینکر، 25 عملے کے ارکان کے ساتھ، خلیج فارس کے وسطی پانیوں میں ایندھن کی منظم اسمگلنگ میں ملوث تھے، جن میں مجموعی طور پر 30 لاکھ لیٹر سے زیادہ اسمگل شدہ ایندھن لدا تھا۔

 مذکورہ دونوں آئل ٹینکروں کو عدالتی حکم کے مطابق قبضے لیکر اور اسمگل شدہ ایندھن آف لوڈ کرنے کے لیے بوشہر آئل گودی میں منتقل کیا جا رہا ہے۔