سلیمانی

سلیمانی

سیمینار ''قدس عالم اسلام کی وحدت کا محور"  کا گزشتہ روز اسلام آباد شہر میں فاؤنڈیشن فار دی سپورٹ آف فلسطین آف پاکستان کے زیر اہتمام انعقاد کیا گیا، جس میں پاکستان کی اہم سیاسی، مذہبی اور سماجی شخصیات نے تقریر کی۔

مقررین نے حالیہ دنوں میں مسجد الاقصی پر صیہونی قابض افواج کے حملے اور بے حرمتی اور کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی اداروں بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ سے بیان بازی اور بیان جاری کرنے کےبجائے عملی اقدام اٹھانے کا مطالبہ کیا۔

مقرریں نے اسرائیلی تسلط سے فلسطینی عوام  کے بچانے اور بیت المقدس کی آزادی کا انحصار صرف مسلمانوں اور امت مسلمہ کے اتحاد و یکجہتی پر ہے۔

پاکستان میں ''قدس عالم اسلام کی وحدت کا محور" کے سیمینار کا انعقاد؛ فلسطین کی حمایت کے تسلسل پر زور

پاکستانی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ آج کی دنیا میں، فلسطین اور مشرق وسطیٰ جنگ کے لیے دو اہم مقامات ہیں۔عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینی عوام کا دفاع کریں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بیت المقدس فلسطینیوں کی ملکیت میں ہے اور اسرائیل نے غیر قانونی طور پر اور زبردستی سے فلسطینی سرزمین پر قبضہ کیا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور خطے میں سمجھوتہ کرنے والے حکمرانوں کا تعاون بین الاقوامی قوانین خاص طور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی دنیا کو درپیش مسائل خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے، شام، یمن اور فلسطین کے بحرانوں کے حل کے لیے سنجیدہ کردار ادا کرنا چاہیے۔

پاکستان کے اس مذہبی رہنما نے مزید کہا کہ اسرائیل ایک غاصب حکومت ہے اور یقیناً وہ ناکام ہو چکی ہے اس لیے مزاحمتی فرنٹ کو کمزور کرنے کے لیے بعض عربوں کے ساتھ تعاون کرنے کی سازش ناکامی سے دوچار ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید نیر حسین بخاری نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے صرف الفاظ ہی کافی نہیں ہیں بلکہ ہمیں عملی اقدام اٹھانا چاہیے۔ اقوام متحدہ بالخصوص عرب لیگ کو چاہیے کہ وہ فلسطین اور اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے روکنے کے لیے اپنے فرائض پر عمل کریں۔

انہوں نے فلسطینیوں پر اسرائیل کےظلم اور بیت المقدس پر حملے کو "ظالمانہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے اختلافات  کو ختم کریں اور مسئلہ فلسطین کے حل میں مدد کریں۔

فلسطین فاؤنڈیشن کے سربراہ صابر ابو مریم نے کہا کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کے نام سے منسوب کرنے کے امام خمینی کے تاریخی اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ امام خمینی نے فلسطین کی آزادی کی تحریک اور صہیونی دشمن کے خلاف جنگ سمیت دنیا کی مظلوم اقوام کی آزادی کی تحریکوں میں نئی ​​جان ڈالی۔

انہوں نے خطے اور عرب دنیا کے بعض ممالک کی طرف سے ناجائز صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول لانے پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایک عظیم اسرائیل اور عظیم مشرق وسطیٰ کے قیام کی سازشیں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔

سیمینار کے اختتام پر شرکاء نے ایک قرارداد منظور کی جس میں پاکستانی حکومت سے سرکاری طور پر رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کے طور پر منانے کا مطالبہ کیا گیا۔

انہوں نے مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کے حالیہ حملے کی شدید مذمت کی۔

انہوں نے شام، لبنان، عراق، افغانستان، لیبیا اور یمن میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت اور جارحیت کی بھی مذمت کی۔

ایرانی صدر مملکت سید ابراہیم رئیسی نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں اسکولوں اور مساجد میں دہشت گردانہ دھماکوں جن کے نتیجے میں بہت افغان شہری شہید اور زخمی ہوئے، کے تسلسل کے بعد، اپنے ایک پیغام میں افغانوں اور خطے کی قوموں کے خلاف خطرات کے پھیلاؤ کے بارے میں خبردار کیا۔

ڈاکٹر رئیسی نے افغانستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس ملک خاص طور پر اسکولوں، مساجد اور مذہبی مراکز میں عوام کی سلامتی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ حملوں کے ملوث دہشت گردوں کی شناخت اور انہیں سزا دینے میں افغان حکمرانوں کی ذمہ داری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران تکفیری دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کرنے اور ان واقعات کی روک تھام کے لیے تعاون اور اپنے تمام وسائل بروئے کار لانے کے لیے تیار ہے۔

رئیسی نے بتایا کہ ہم طب کے شعبے میں ان دہشت گردانہ حملوں کے متاثرین اور زخمیوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کیلیے آمادہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق حالیہ دنوں میں، دہشت گردوں نے کابل، مزار شریف اور قندوز سمیت افغانستان کے مختلف صوبوں میں اسکولوں، مساجد پر کئی بزدلانہ دھماکے کیے ہیں، جن میں خواتین اور بچوں سمیت متعدد شیعہ اور سنی مسلم شہید ہوگئے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی مبارک زندگی اور سیرت ولادت سے لے کر شہادت تک خوشنودی خدا اور رضائے الہی میں بسر ہوئی۔مولائے کائنات خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور مسجد کوفہ میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔

 آپ (ع) کی پیشانی ایک دن بھی غیر خدا کے سامنے نہیں جھکی۔ آپ  ان پانچ ہستیوں میں سے ایک ہیں کہ جن کی طہارت و پاکیزگی کی گواہی کے لئے قرآن مجید میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ نیز قرآن مجید میں اسکے علاوہ بھی متعدد آیات حضرت علی (ع)  کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ جن میں سے آیہ تبلیغ، آیہ اکمال دین، آیہ ولایت، آیہ اولی الامر اور آیہ مباہلہ قابل ذکر ہیں۔

امیر المومنین ؑ حضرت علی(ع) کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ آپ ؑ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی۔

امیر المومنین ؑ حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو رسول اللہ ؐ سے اتنی عقیدت تھی کہ جس طرح آپ کی دنیا میں ظاہری آمد سے پہلے آپ کے والدین نے ہر لمحہ رسول اللہ ؐ  کا ساتھ دے کر نصرت و حفاظت کا فریضہ سر انجام دیا اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام نے بھی ہر لمحہ اور ہر وقت دشمنان خدا و دشمنان رسول (ص)کے مقابلے میں رسول اللہ ؐ کی حمایت اور حفاظت و دفاع کا فریضہ انجام دیا۔

خود کو رسول اللہ ؐ  کا غلام کہہ کر مولائے متقیان امیر المومنین ؑ  فخر کیا کرتے تھے جبکہ خود رسول  اکرم  نے آپ کو دین و دنیا میں اپنا بھائی قرار دیا تھا۔ حضرت علی (ع) فرماتے تھے کہ رسول اللہ (ص)  نے مجھ کو علم کے ہزار باب تعلیم فرمائے اور میں نے ہر باب سے ہزاز ہزار باب مزید سیکھ لئے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ؐ  نے خود کو علم و حکمت کا شہر اور حضرت علی (ع) کو اس شہر علم کا دروازہ قرار دیا۔ اور پھر کہا کہ جو شخص علم و حکمت حاصل کرنا چاہے اسے دروازے سے آنا پڑے گا۔

رسول اللہ (ص) نے اپنے دل کی ٹھنڈک اور اکلوتی بیٹی حضرت فاطمۃ زہرا سلام اللہ علیہا کا نکاح فرمان خداوندی سے حضرت علی ؑسے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر علی ؑنہ ہوتے تو کائنات میں خاتون جنت فاطمۃ زہرا سلام اللہ علیہا کا کوئی ہمسراورکفو نہ ہوتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت علی ؑو حضرت فاطمہ زہرا (س) کو ایک دوسرے کے لئے خلق فرمایا۔ اور پھر دین مبین اسلام کی خدمت و بقا کی خاطر اللہ تعالی نے حضرت علی ؑاور حضرت زہرا(س)کو امام حسن و امام حسین اور جناب زینب اور بی بی ام کلثوم (سلام اللہ علیہم) کی صورت میں اولاد عطا کی۔

قرآن و سیرت اور احادیث رسول (ص) میں امیر المومنین حضرت علی ؑاور اہلبیت ؑکی شان و عظمت کی وضاحت کے باوجود پتہ نہیں کیوں رسول اللہ (ص) کے وصال کے فوراً بعد دشمنان خدا نے اہلبیت رسول (ص) بالخصوص حضرت بی بی فاطمہ زہرا (س) اور امیرالمومنین ؑپر ظلم و جبر کے پہاڑ ڈھائے حتٰی کہ خاتون جنت (س) زوجہ امیرالمومنین ؑجناب فاطمہ بتول سلام اللہ علیہ کو یہاں تک فریاد کرنا پڑی۔ کہ اے میرے بابا (ص) آپکے جانے کے بعد مجھ پر ایسی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ روشن دنوں پر پڑتیں تو وہ بھی تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے۔ اور پھر اسکے بعد بھی اہلبیت اطہار ؑو آل رسول (ص) پر اسلام کے لبادے میں موجود دشمنان اسلام خوارج، بنی امیہ اور بنی عباس کے مظالم کا سلسلہ جاری رہا۔

رسول اللہ (ص) کی حضرت علی کے بارے میں واضح حدیث ہے کہ علی ؑحق کے ساتھ ہے اور حق علی ؑکے ساتھ، خدایا حق کا رخ ادھر موڑ دے جس طرف علی ؑجائے، اس صریح حدیث کے باوجود بھی دشمنان دین اسلام نے امیرالمومنین ؑکو اتنی اذیتیں دے کر مظالم کا نشانہ بنایا کہ جس کی نظیر ملنا شاید مشکل ہو۔ رسول اللہ (ص) کے وصال کے بعد ایک مرتبہ حضرت زہرا (س) نے حضرت علی ؑسے پوچھا کہ اے ابو الحسن ؑسنا ہے، کوئی آپ کو سلام نہیں کرتا۔ تو حضرت علی نے مظلومیت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :بات اس سے آگے نکل چکی ہے، اب حالت یہ ہے کہ سلام تو دور کی بات، جب میں سلام کرتا ہوں تو کوئی جواب تک نہیں دیتا۔

خوارج کے فتنے نے امیر المومنین حضرت علی ؑ(ع) کے مقابلے میں سر اٹھایا اور یہاں تک کہ اس فتنے نے خلیفہ رسول (ص) امیر المومنین ؑکو مسجد و محراب میں دوران عبادت شہید کر دیا۔ نماز، روزہ اور دوسری تمام عبادات کی ادائیگی کے علاوہ خوارج میں سے ایک بڑی تعداد حافظان قرآن کی تھی، مگر حال یہ تھا کہ وہ اپنے علاوہ باقی تمام مسلمانوں کو کافر قرار دے کر اسلام کے لبادے میں ظلم و جبر اور عوام الناس پر دہشت گردی کا بازار گرم کرکے یہ شعار اور نعرہ بلند کرتے تھے کہ لا حکم الا للہ۔ یعنی حکومت صرف اللہ کے لئے ثابت ہے۔

حضرت علی ؑ(ع) خوارج کے اس نعرے کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہ نعرہ اور شعار تو برحق ہے لیکن اس کے پیچھے خوارج کے مقاصد باطل اور فساد پر مبنی ہیں۔ انہی خوارج کی طرح آج بھی اسلام کے نام اور لبادے میں موجود القاعدہ ، داعش اور طالبان کے غیر انسانی و غیر اسلامی افعال و کردار اور دہشت گردی پر نظر دوڑائیں تو دہشت گرد تنظیمیں بھی خوارج کی تصویر پیش کررہی ہیں۔

اسلام کا لبادہ پہن کر اور منبر رسول پر بیٹھ کر مساجد میں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف خطبے دیئے جاتے تھے اور سب و شتم بھی کیا جاتا تھا۔

امیر المومنین علیہ السلام اور اہلبیت اطہار(ع) پر لعن طعن کے لئے کئی ہزار مساجد کے منبر و محراب درہم و دینار سے خریدے گئے تھے۔ جہاں سے باقاعدہ جمعہ کے خطبات اور دیگر مواقع پر امیر المومنین علی علیہ السلام اور اولاد رسول (ص) پر لعن طعن کی جاتی تھی۔ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ جب انیس رمضان کی صبح مسجد کوفہ میں نماز فجر کے لئے آنے والے امیر المومنین حضرت امام علی ؑپر اس وقت کے شقی ترین انسان ابن ملجم لعین نے سجدے میں وار کرکے مسجد کوفہ کے محراب کو خون میں تر کر دیا۔ اور جب یہ خبر بنی امیہ کے پایہ تخت شام تک پہنچی کہ امیر المومنین  علی (ع) کو مسجد کوفہ میں شہید کردیا گیا، تو لوگ ایک دوسرے سے تعجب سے پوچھنے لگے کہ علی (ع) مسجد میں کیا کر رہے تھے؟ جب بتایا گیا کہ نماز فجر پڑھنےگئے تھے تو لوگ اور زیادہ تعجب سے پوچھنے لگے کہ کیا علی ؑنماز پڑھتے تھے؟  یہ تھا اسلام کے لبادے میں مسلط خوارج و بنی امیہ کے پروپیگنڈے اور اس زمانے کے باطل ذرائع ابلاغ کا کردار کہ اپنے ناجائز مفادات اور اقتدار کے حصول کے لئے خلیفہ وقت امیر المومنین ؑعلی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حوالے سے اتنا غلیظ اور گمراہ کن منفی پروپیگنڈہ کر رکھا تھا کہ زمانے کی متقی ترین ہستی کو  نعوذ باللہ بے نمازی اور بے دین قرار دے کر عوام میں مشہور کر دیا گیا تھا۔ اس سے خوارج اور بنی امیہ کی اسلام اور اہلبیت اطہار کے خلاف شدید دشمنی اور بغض و عداوت کا پتہ چلتا ہے۔

انیس رمضان نماز فجر کے وقت خوارج و بنی امیہ کی زہر میں ڈوبی تلوار کے زخم کے بعد مسجد کوفہ میں امیر المومنین ؑنے یہ جملہ ادا کیا۔" فزت و رب الکعبہ " (رب کعبہ کی قسم علی ؑکامیاب ہو گیا)، اور اسکے دو دن بعد اکیس رمضان المبارک کو امیر المومنین ؑحضرت امام علی علیہ السلام شہید ہو گئے اور یوں علی ؑکا ظاہری سفر خانہ کعبہ میں ولادت سے شروع ہو کر مسجد کوفہ میں شہادت پر اختتام پذير ہوگیا لیکن اسلام اور پیغمبر اسلام کی حفاظت کے سلسلے میں آپ کی شجاعت ، حلم و بردباری کے کارنامے تاریخ کے درخشاں صفحات پر موجود ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق کابل میں ایرانی سفیر کے معاون اور اس کے ہمرہ وفد نے افغانستان میں حالیہ  دہشت گردی کے واقعات سے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا شہداء کے اہل خانہ کے نام تعزیتی پیغام پیش کیا۔ واضح رہے کہ دہشت گردوں نے تعلیمی مرکز ممتاز اور کابل شہر میں واقع عبدالرحیم شہید کالج پر دہشت گردانہ حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں متعدد افغان طلباء شہید اور زخمی ہوگئے تھے۔ جس کے بعد کابل میں ایرانی سفارتخانہ نے اس حادثے میں زخمی ہونے والوں کو علاج کے لئے تہران منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ایکنا نیوز- قرآن کریم میں کہا گیا ہے: «قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ». (رعد/ 16)

یہ قرآن کی توحیدی ترین آیت ہے۔ اس میں خدا اور انسانوں کی سرپرستی کے حوالے سے سوالات پوچھے گیے ہیں، ابتدا میں سوال کیا گیا ہے«پروردگار آسمان و زمین کون ہے» اور جواب دیتا ہے «خدا» اور پھر سوال ہوتا ہے «کیوں ایسے لوگوں کو سرپرست چنے  جاتے ہیں جو اپنے نفع و نقصان پر قادر نہیں؟

 

اس آیت میں اللہ تعالی کی قبولیت پر بات نہیں بلکہ خدا کی «ربوبیت» یعنی دنیا کو سنبھالنے اور پرورش کی بات ہے۔ یہاں بہت باریک نکتہ ہے۔ فرعون نہیں کہتا تھا کہ «میں الله هوں»، بلکه کہتا تھا «انا ربکم الاعلی»(نازعات/ 24)؛ یعنی میں دنیا کا سنبھالنے والا ہوں، نه خلق کرنے والا. قرآن کہتا ہے: «وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَی» (زمر/ 3) یعنی اگر بت پرست بتوں کی پوجا کرتے تو اس وجہ سے کہ وہ اللہ تک پہنچے، اسی وجہ سے انکو ہم مشرک کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے خدا کا شریک انتخاب کیا ۔

 

تاہم جنہوں نے قبول کیا کہ خدا انکے سرپرست بنے نہ صرف باتوں کی حد تک بلکہ عمل میں انکا کردار الہی کردار رہا اور اسی معیار پر انکا اخلاق رہا اور خدا کی راہ پر قایم رہے۔ اسی لیے اس آیت میں یوں سوال کیا جاتا ہے کہ انسان اپنے راستے کو خود تعین کرے اور درست راستے پر چلے یا نادرست کا انتخاب کرے۔؟  ایک بینا اور ہوشیار بنے یا نابینا اور غفلت زدہ رہے؟

* ایرانی مفسر قرآنی اور محقق سیدمجتبی حسینی کی باتوں سے اقتباس

تاریخ انسانیت نے شاید مولاعلی علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑا کوئی مظلوم نہ دیکھا ہو!!
اگرسرکار امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام کی بے پناہ فضائل و مصائب اور فداکاریوں سے بھری زندگی کا غائرانہ مطالعہ کیاجائےتو یہ حقیقت بآسانی مجسم ہوکر سامنے آسکتی ہےکہ واقعاً آپ تاریخ آدم و عالم کے سب سے بڑے مظلوم ہیں !!!!چونکہ :
آپ ہی تنہا وہ ذات ہیں جسے الہی انتظام و اہتمام کےتحت بیت اللہ الحرام " خانہ کعبہ" میں پیدا کیا گیا ہے ۔
آپ ہی تنہاوہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سرکارسید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی الہی و آسمانی آواز پر لبیک کہی ہے۔
آپ ہی تنہاوہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے خداوند احد کی وحدانیت اور سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی کھل کر گواھی دی اور اس پر اپنے مکمل ایمان و ایقان کا اظہار فرمایا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلےحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء میں خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی انجام دی ہے۔
آپ ہی وہ پہلے مرد اور جناب خدیجہ علیھا السلام ہی وہ پہلی عورت ہیں، جنھوں نے کئی سال تک سرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتدا میں نماز اداکی اور کلمہ " لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ " زبان پر جاری وساری رکھا ہے۔
آپ ہی وہ پہلے مرد ہیں جو ہرجگہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ سائے کی طرح رہتے اور ہر مقام پرآپ کا دفاع کرتے نیز کفار قریش کے آزار و استہزاء سے آپ کوبچاتے تھے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے دعوت ذوالعشیرہ کے انعقاد کا انتظام و اہتمام بھی کیا، سرکار سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سرسخت مخالفین کے مقابلے میں کھل کر آپ کی نصرت و حمایت کا وعدہ بھی کیا اور اسی دعوت میں ابولہب جیسے غلیظ و شدید دشمنوں کے طعن و تشنیع کو خندہ پیشانی سے برداشت بھی کیا۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جو شعب ابی طالب میں ہزار سختیوں کے باوجود شمع رسالت کا ہروقت پروانہ وار طواف کرتے رہے اور ایک دو دن نہیں ، تین سال تک وجود پیغمبر کی پاسداری میں آپ نے دن رات ایک کردیئے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے طائف کی طرف سرکار خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور آنحضرت کے ہمراہ وہاں کے ناگوارحالات کا مشاہدہ و مقابلہ کیا۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں ، جوشب ہجرت بستر رسالت پر چالیس قبیلوں کی کھنچی ہوئی خونخوار تلواروں کے سائے میں خوشی سے اس لئےسوگئے تاکہ اللہ عزوجل کے رسول کی جان محفوظ رہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں، جنھوں نے شب ہجرت کی قربانگاہ میں ایثارو فداکاری کے لازوال نقوش ثبت کر کے صبح ہجرت رسول اللہ کے قرضوں کو ادا ، آپ کےکئے ہوئےعہد و پیمان کو وفا اور اہل مکہ کی آنحضرت کے پاس رکھی ہوئی امانتوں کو واپس کیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے مکہ سے قافلہ فواطم اور ناموس رسول کو بعزت و حفاظت مدینہ پہنچایا ہے اور اس سفر ہجرت کے دوران اپنی شجاعت ، دلیری ، صلابت ، جوانمردی ، عفت ، غیرت ، حمیت اور ذمہ دارانہ شخصیت کی مثال قائم کی ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے دین اسلام اور آنحضرت پرکفار و مشرکین کی طرف سے مسلط کی گئی تمام جنگوں میں پورے جوش و خروش اور اخلاص و شجاعت کے ساتھ شرکت کی ہے اور بڑے بڑے فیل پیکر دشمنوں کو ہلاکت کے گھاٹ اتارا ہے ، البتہ بعض جنگوں میں آپ نےخود بھی دسیوں زخم کھائے ہیں۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے خداوند سبحان و قدوس اور اس کے رسول کی ایک لمحہ کے لئے بھی نافرمانی نہیں کی اور حکم خداو رسول کو کسی کی ملامت ، طعن و تشنیع ، تہدید و عداوت کی پروراہ کئے بغیر ہمیشہ جامہ عمل پہنایا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے حکم خداو رسول کی اطاعت کرتے ہوئے مکہ پہنچ کر اسلام اور مسلمانوں کے کٹر اور خونخوار دشمنوں ( کفار و مشرکین مکہ) کے درمیان سورہ برائت کی تبلیغ و تبیین کا خطیر فریضہ انجام دیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جو میدان جنگ میں پہنچ جاتے تو دشمن درخت بید کی طرح کانپنے لگتے اور دوستوں کے چہرے امید فتح و ظفر کی وجہ سے کھل اٹھتے تھے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھیں آیہ مباھلہ نے"نفس و جان رسول " قرار دیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھیں " کل ایمان " کا لقب دیا گیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں کہ جوخداوندسبحان کی نہایت محترم و مقدس کنیز اور سیدالمرسلین کی اکلوتی اور چہیتی بیٹی حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے کفو و شوہر ہیں۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں کہ ادیب عرب خلیل ابن احمد فراھیدی کے بقول " جن کے فضائل دوستوں نے خوف اور دشمنوں نے بغض و عداوت کی وجہ سے چھپائے ہیں ، اس کے باوجود کائنات کے شرق و غرب آپ کی عظمتوں اور فضیلتوں سے بھرے نظر آتے ہیں ( روضۃ المتقین ، ج ۱۳ ، ص ۲۶۵)

آپ ہی تنہا وہ مرد پیں جن کے سلسلہ میں اہل سنت کے امام احمد ابن حنبل نے یہ اظہار کیا ہے:

جتنی روایات صحیح سندوں کے ساتھ علی ابن ابی طالب کے فصائل کے بارے میں نقل ہوئی ہیں ، اتنی رسول اللہ کے کسی ایک صحابی کےبارے میں بھی نقل نہیں ہوئی ہیں۔(طبقات الحنابله، ابن ابی یعلی، چاپ دارالمعرفہ بیروت ، ج۲،ص۱۲۰)

لیکن !!!!
اسی طرح کی ان گنت عظمتوں ، ناقابل شمارفضیلتوں ، عظیم ترین قربانیوں اور بے انتہا مسلسل فداکاریوں کے باوجود سرکار سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قیامت خیز وفات کے بعد آپ اسقدر مظلوم ہوگئے کہ :
آپ ہی وہ ہیں جنھوں نےفرط رنج و الم سے موسلادھار بارش کی طرح بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ تنہا رسول اللہ کو غسل دیا ، کفن پہنایا ، نماز میت پڑھی اور دل پر پتھر رکھ کر سپرد لحدکیا۔
آپ ہی وہ ہیں کہ وفات رسول جیسی حشر انگیز مصیبت پر تسلی دینے کے بجائےجن سے ان کا مسلم حق خلافت و حکومت انتہائی بے غیرتی کے ساتھ چھین لیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن کی نگاہوں کے سامنے اس مقدس دروازہ کو آگ لگائی گئی ، جس پر کھڑے ہوکر اللہ کے رسول اپنے " اھل بیت " پر سلام بھیجا کرتے تھے۔
آپ ھی وہ مظلوم ہیں جن کے ہوتے ہوئے ان کی شریک حیات شہزادئ کونین حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا کی ہتک حرمت کی گئی اور عین عالم شباب میں اس پاک و بے گناہ بی بی کو درو دیوار کے درمیان پیس ڈالا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن کے بیٹے " محسن " کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی شکم مادر میں نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن سے حق خلافت کے بعد "فدک" بھی چھین لیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں، اللہ و رسول کے حکم سے جن کے ہاتھوں پر میدان غدیر میں سوالاکھ مسلمانوں نے بیعت کی تھی ، اس کے باوجود جعلی و غاصب خلیفہ نے آپ سے زبردستی اپنی بیعت کا مطالبہ کیا اور آپ اور آپ کے معصوم اھل بیت پرظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ رسول خدا کے بعد " اعلم و افضل امت" ہونے کے باوجود جنھیں غصب خلافت و حکومت کے ہمراہ پچیس سال تک محراب و منبر سے دوررکھا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جنھوں نے پچیس سال کی طویل مدت اس کربناک حالت میں گزاری" فی العین قذیٰ و فی الحلق شجا" کہ آنکھ میں کانٹا کھٹک رہا تھا اور خلق میں ہڈی پھنسی ھوئی تھی۔( نہج البلاغہ ، خطبہ شقشقیہ)
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ قتل عثمان کے بعد جن کے ہاتھوں پر تمام امت نے شدید اصرار کے ساتھ بیعت کی اور آپ کو اپنا حاکم و خلیفہ تسلیم کیا ، لیکن اس ظاہری خلافت کی تقریباً پانچ سالہ مدت میں آپ پر نہایت خطرناک تین جنگیں مسلط کردی گئیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی سکون کی سانس نہیں لینے دی گئی۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جو ذوالعشیرہ سے لے کر آخر عمر تک اسلام و مسلمین اور انسانیت کے لئے شب و روز فداکاری میں مصروف رھے ، اور جب پروردگار سے دائمی ملاقات کی دی ہوئی سچی خبر کے ہنگام وقوع کو محسوس کرکے مسجد کوفہ کی محراب میں دنیا و مافیھا کو چھوڑ کر فقط اورفقط اپنےعزیز و محبوب خالق و مالک کی یاد و عبادت اور اس سے راز و نیاز میں غرق ہوئے تو عین اسی عالم میں آپ پر قاتلانہ حملہ کردیا گیا اور آپ نے اپنےخون میں نہانے کے باوجود شکر و فخر کے ملے جلے احساس کے ساتھ یہ نعرہ بلندکیا:
فزت و رب الکعبہ( رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہوگیا)۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ ۱۹ماہ رمضان کو بوقت فجر عالم نماز اور حالت روزہ میں جن کے سر مبارک پر زہر ہلاہل میں بجھی ہوئی تلوار سےضربت لگائی گئی ، تو آپ اس کے کرب سے دو دن تک تڑپتے رہے اور سن ۴۰ ہجری کے ماہ رمضان کی اکیسویں شب کے ابتدائی حصہ میں اس سرائے فانی کوچھوڑ کر ھمیشہ کے لئےاپنے رؤف ومہربان اور سبحان و قدوس پروردگار کی بارگاہ اقدس میں جاپہنچے اور اس وقت آپ کی اندوھناک شہادت پر حضرت جبریل علیہ السلام نے یہ مرثیہ پڑھا:
لتھدمت و اللہ ارکان الھدیٰ ، و انطمست اعلام التقیٰ،وانفصمت العروة الوثقى ، قتل ابن عم المصطفى ، قتل على المرتضى، قتله اشقى الاشقیاء.
قسم بخدا ہدایت کے ستون منہدم ہوگئے، تقوی کے نشانات مٹ گئے ، اللہ اور بندوں کے درمیان کی مضبوط رسی ٹوٹ گئی، مصطفے کے ابن عم علئ مرتضیٰ کو شہید کردیا گیا اور انھیں شقی ترین ( ابن ملجم ) نے قتل کرڈالا۔

مولائے کائنات علیہ الصلوۃ والسلام کی مظلومیت کی بنیادی وجہ :

نہایت اختصارکے ساتھ بطور خلاصہ یہ کہا جاسکتا ھے کہ مولا کی مظلومیت کی اصل وجہ آپ کی بہر صورت عدل و داد کی حمایت ، مظلوموں کی مدد و نصرت اور بہرحال و بہرقیمت ظلم و ستم اور ظالموں کی مخالفت کرنا تھی۔
تاریخ گواہ ھے کہ آپ جب تک زندہ رہے ھمیشہ عدل و داد کے حامی اور اس کے نفوذ و قیام کے لئےکوشاں ، مظلوموں کے مدگار و مدافع اور زندگی کی آخری سانس تک ظلم و ستم کے مخالف اور ظالموں سے بر سر پیکار رہے۔
یہ سچ ہے کہ مولا مظلوم رہے ، مگر کبھی بھی ظالموں اور ستمگروں کے محکوم نہیں رہے بلکہ آپ نے ان کے خلاف بلا وقفہ اپناجہاد و قیام جاری و ساری رکھا ہے ، یہانتک کہ بستر شہادت سے " کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا" کے ذریعہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کو بھی آپ "مظلوموں کی نصرت و حمایت اور ظالموں کی عداوت و مخالفت" میں یہ جہاد و قیام جاری و ساری رکھنے کی وصیت فرما کر گئے ہیں۔

مولا کے جہادو قیام کا اثر :

آپ کے اس مسلسل قیام و جہاد کا ایک عظیم اثر تو حسن ، حسین، زینب ، ام کلثوم ، ابوالفضل العباس ، عمار ، ابوذر ، مالک اشتر ، محمد ابن ابی بکر اور میثم تمار جیسے ان گنت ظلم ستیز چہروں کا نہ ٹوٹنے والا نہایت مبارک سلسلہ ھے۔
اور دوسرا اثر یہ ہے کہ ظالم و ستمگر اپنی ہزارہا مکاریوں اور عیاریوں کے باوجود بھی ظاہری دینداری کےچغےکی آڑ میں اپنے مکروہ چہروں کو نہ چھپا سکے اور وہ اتنے بےنقاب ہوگئےکہ تاریخ کا ہرمنصف و حقیقی طالب علم کسی بھی دور میں انھیں بآسانی پہچان سکتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے مکروہ چہروں کی پہچان کے ذریعہ اپنے دور کے ستمگروں کی بھی شناخت کرسکتا ہےاور ان سے نپٹنے کی جرائت و ھمت کو بھی اپنے وجود میں جنم دے سکتا ہے۔

ہماراافتخار اور ہماری ذمہ داری :

الحمدللہ ھمیں فخر ہے کہ ہم سب علی والے ہیں، لہذا بہت توجہ دیں کہ آج تک جس طرح ہم نے" حیدری نعروں" کے ذریعہ اپنی پہچان بنائی ہے ، اب بہت ضرورت ہے کہ اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ایرانی و لبنانی حزب اللہیوں اور مدافع حرم شہیدوں کی طرح " حیدری کاموں" سے اپنی شناخت قائم کریں اور یاد رکھیں کہ " حیدری کاموں" میں دین و ایمان کی پختگی کے بعد سر فہرست جو کام اور عمل ہے:
وہ مظلوموں کی نصرت و حمایت اور ظالموں سے عداوت و بیزاری نیز ان کے خلاف قیام کرنا ھے۔

تاریخ انسانیت نے شاید مولاعلی علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑا کوئی مظلوم نہ دیکھا ہو!!
اگرسرکار امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام کی بے پناہ فضائل و مصائب اور فداکاریوں سے بھری زندگی کا غائرانہ مطالعہ کیاجائےتو یہ حقیقت بآسانی مجسم ہوکر سامنے آسکتی ہےکہ واقعاً آپ تاریخ آدم و عالم کے سب سے بڑے مظلوم ہیں !!!!چونکہ :
آپ ہی تنہا وہ ذات ہیں جسے الہی انتظام و اہتمام کےتحت بیت اللہ الحرام " خانہ کعبہ" میں پیدا کیا گیا ہے ۔
آپ ہی تنہاوہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سرکارسید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی الہی و آسمانی آواز پر لبیک کہی ہے۔
آپ ہی تنہاوہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے خداوند احد کی وحدانیت اور سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی کھل کر گواھی دی اور اس پر اپنے مکمل ایمان و ایقان کا اظہار فرمایا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلےحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء میں خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی انجام دی ہے۔
آپ ہی وہ پہلے مرد اور جناب خدیجہ علیھا السلام ہی وہ پہلی عورت ہیں، جنھوں نے کئی سال تک سرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتدا میں نماز اداکی اور کلمہ " لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ " زبان پر جاری وساری رکھا ہے۔
آپ ہی وہ پہلے مرد ہیں جو ہرجگہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ سائے کی طرح رہتے اور ہر مقام پرآپ کا دفاع کرتے نیز کفار قریش کے آزار و استہزاء سے آپ کوبچاتے تھے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے دعوت ذوالعشیرہ کے انعقاد کا انتظام و اہتمام بھی کیا، سرکار سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سرسخت مخالفین کے مقابلے میں کھل کر آپ کی نصرت و حمایت کا وعدہ بھی کیا اور اسی دعوت میں ابولہب جیسے غلیظ و شدید دشمنوں کے طعن و تشنیع کو خندہ پیشانی سے برداشت بھی کیا۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جو شعب ابی طالب میں ہزار سختیوں کے باوجود شمع رسالت کا ہروقت پروانہ وار طواف کرتے رہے اور ایک دو دن نہیں ، تین سال تک وجود پیغمبر کی پاسداری میں آپ نے دن رات ایک کردیئے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے طائف کی طرف سرکار خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور آنحضرت کے ہمراہ وہاں کے ناگوارحالات کا مشاہدہ و مقابلہ کیا۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں ، جوشب ہجرت بستر رسالت پر چالیس قبیلوں کی کھنچی ہوئی خونخوار تلواروں کے سائے میں خوشی سے اس لئےسوگئے تاکہ اللہ عزوجل کے رسول کی جان محفوظ رہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں، جنھوں نے شب ہجرت کی قربانگاہ میں ایثارو فداکاری کے لازوال نقوش ثبت کر کے صبح ہجرت رسول اللہ کے قرضوں کو ادا ، آپ کےکئے ہوئےعہد و پیمان کو وفا اور اہل مکہ کی آنحضرت کے پاس رکھی ہوئی امانتوں کو واپس کیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے مکہ سے قافلہ فواطم اور ناموس رسول کو بعزت و حفاظت مدینہ پہنچایا ہے اور اس سفر ہجرت کے دوران اپنی شجاعت ، دلیری ، صلابت ، جوانمردی ، عفت ، غیرت ، حمیت اور ذمہ دارانہ شخصیت کی مثال قائم کی ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے دین اسلام اور آنحضرت پرکفار و مشرکین کی طرف سے مسلط کی گئی تمام جنگوں میں پورے جوش و خروش اور اخلاص و شجاعت کے ساتھ شرکت کی ہے اور بڑے بڑے فیل پیکر دشمنوں کو ہلاکت کے گھاٹ اتارا ہے ، البتہ بعض جنگوں میں آپ نےخود بھی دسیوں زخم کھائے ہیں۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے خداوند سبحان و قدوس اور اس کے رسول کی ایک لمحہ کے لئے بھی نافرمانی نہیں کی اور حکم خداو رسول کو کسی کی ملامت ، طعن و تشنیع ، تہدید و عداوت کی پروراہ کئے بغیر ہمیشہ جامہ عمل پہنایا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھوں نے حکم خداو رسول کی اطاعت کرتے ہوئے مکہ پہنچ کر اسلام اور مسلمانوں کے کٹر اور خونخوار دشمنوں ( کفار و مشرکین مکہ) کے درمیان سورہ برائت کی تبلیغ و تبیین کا خطیر فریضہ انجام دیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جو میدان جنگ میں پہنچ جاتے تو دشمن درخت بید کی طرح کانپنے لگتے اور دوستوں کے چہرے امید فتح و ظفر کی وجہ سے کھل اٹھتے تھے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھیں آیہ مباھلہ نے"نفس و جان رسول " قرار دیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں جنھیں " کل ایمان " کا لقب دیا گیا ہے۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں کہ جوخداوندسبحان کی نہایت محترم و مقدس کنیز اور سیدالمرسلین کی اکلوتی اور چہیتی بیٹی حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے کفو و شوہر ہیں۔
آپ ہی تنہا وہ مرد ہیں کہ ادیب عرب خلیل ابن احمد فراھیدی کے بقول " جن کے فضائل دوستوں نے خوف اور دشمنوں نے بغض و عداوت کی وجہ سے چھپائے ہیں ، اس کے باوجود کائنات کے شرق و غرب آپ کی عظمتوں اور فضیلتوں سے بھرے نظر آتے ہیں ( روضۃ المتقین ، ج ۱۳ ، ص ۲۶۵)

آپ ہی تنہا وہ مرد پیں جن کے سلسلہ میں اہل سنت کے امام احمد ابن حنبل نے یہ اظہار کیا ہے:

جتنی روایات صحیح سندوں کے ساتھ علی ابن ابی طالب کے فصائل کے بارے میں نقل ہوئی ہیں ، اتنی رسول اللہ کے کسی ایک صحابی کےبارے میں بھی نقل نہیں ہوئی ہیں۔(طبقات الحنابله، ابن ابی یعلی، چاپ دارالمعرفہ بیروت ، ج۲،ص۱۲۰)

لیکن !!!!
اسی طرح کی ان گنت عظمتوں ، ناقابل شمارفضیلتوں ، عظیم ترین قربانیوں اور بے انتہا مسلسل فداکاریوں کے باوجود سرکار سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قیامت خیز وفات کے بعد آپ اسقدر مظلوم ہوگئے کہ :
آپ ہی وہ ہیں جنھوں نےفرط رنج و الم سے موسلادھار بارش کی طرح بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ تنہا رسول اللہ کو غسل دیا ، کفن پہنایا ، نماز میت پڑھی اور دل پر پتھر رکھ کر سپرد لحدکیا۔
آپ ہی وہ ہیں کہ وفات رسول جیسی حشر انگیز مصیبت پر تسلی دینے کے بجائےجن سے ان کا مسلم حق خلافت و حکومت انتہائی بے غیرتی کے ساتھ چھین لیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن کی نگاہوں کے سامنے اس مقدس دروازہ کو آگ لگائی گئی ، جس پر کھڑے ہوکر اللہ کے رسول اپنے " اھل بیت " پر سلام بھیجا کرتے تھے۔
آپ ھی وہ مظلوم ہیں جن کے ہوتے ہوئے ان کی شریک حیات شہزادئ کونین حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا کی ہتک حرمت کی گئی اور عین عالم شباب میں اس پاک و بے گناہ بی بی کو درو دیوار کے درمیان پیس ڈالا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن کے بیٹے " محسن " کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی شکم مادر میں نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جن سے حق خلافت کے بعد "فدک" بھی چھین لیا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں، اللہ و رسول کے حکم سے جن کے ہاتھوں پر میدان غدیر میں سوالاکھ مسلمانوں نے بیعت کی تھی ، اس کے باوجود جعلی و غاصب خلیفہ نے آپ سے زبردستی اپنی بیعت کا مطالبہ کیا اور آپ اور آپ کے معصوم اھل بیت پرظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ رسول خدا کے بعد " اعلم و افضل امت" ہونے کے باوجود جنھیں غصب خلافت و حکومت کے ہمراہ پچیس سال تک محراب و منبر سے دوررکھا گیا۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جنھوں نے پچیس سال کی طویل مدت اس کربناک حالت میں گزاری" فی العین قذیٰ و فی الحلق شجا" کہ آنکھ میں کانٹا کھٹک رہا تھا اور خلق میں ہڈی پھنسی ھوئی تھی۔( نہج البلاغہ ، خطبہ شقشقیہ)
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ قتل عثمان کے بعد جن کے ہاتھوں پر تمام امت نے شدید اصرار کے ساتھ بیعت کی اور آپ کو اپنا حاکم و خلیفہ تسلیم کیا ، لیکن اس ظاہری خلافت کی تقریباً پانچ سالہ مدت میں آپ پر نہایت خطرناک تین جنگیں مسلط کردی گئیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی سکون کی سانس نہیں لینے دی گئی۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں جو ذوالعشیرہ سے لے کر آخر عمر تک اسلام و مسلمین اور انسانیت کے لئے شب و روز فداکاری میں مصروف رھے ، اور جب پروردگار سے دائمی ملاقات کی دی ہوئی سچی خبر کے ہنگام وقوع کو محسوس کرکے مسجد کوفہ کی محراب میں دنیا و مافیھا کو چھوڑ کر فقط اورفقط اپنےعزیز و محبوب خالق و مالک کی یاد و عبادت اور اس سے راز و نیاز میں غرق ہوئے تو عین اسی عالم میں آپ پر قاتلانہ حملہ کردیا گیا اور آپ نے اپنےخون میں نہانے کے باوجود شکر و فخر کے ملے جلے احساس کے ساتھ یہ نعرہ بلندکیا:
فزت و رب الکعبہ( رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہوگیا)۔
آپ ہی وہ مظلوم ہیں کہ ۱۹ماہ رمضان کو بوقت فجر عالم نماز اور حالت روزہ میں جن کے سر مبارک پر زہر ہلاہل میں بجھی ہوئی تلوار سےضربت لگائی گئی ، تو آپ اس کے کرب سے دو دن تک تڑپتے رہے اور سن ۴۰ ہجری کے ماہ رمضان کی اکیسویں شب کے ابتدائی حصہ میں اس سرائے فانی کوچھوڑ کر ھمیشہ کے لئےاپنے رؤف ومہربان اور سبحان و قدوس پروردگار کی بارگاہ اقدس میں جاپہنچے اور اس وقت آپ کی اندوھناک شہادت پر حضرت جبریل علیہ السلام نے یہ مرثیہ پڑھا:
لتھدمت و اللہ ارکان الھدیٰ ، و انطمست اعلام التقیٰ،وانفصمت العروة الوثقى ، قتل ابن عم المصطفى ، قتل على المرتضى، قتله اشقى الاشقیاء.
قسم بخدا ہدایت کے ستون منہدم ہوگئے، تقوی کے نشانات مٹ گئے ، اللہ اور بندوں کے درمیان کی مضبوط رسی ٹوٹ گئی، مصطفے کے ابن عم علئ مرتضیٰ کو شہید کردیا گیا اور انھیں شقی ترین ( ابن ملجم ) نے قتل کرڈالا۔

مولائے کائنات علیہ الصلوۃ والسلام کی مظلومیت کی بنیادی وجہ :

نہایت اختصارکے ساتھ بطور خلاصہ یہ کہا جاسکتا ھے کہ مولا کی مظلومیت کی اصل وجہ آپ کی بہر صورت عدل و داد کی حمایت ، مظلوموں کی مدد و نصرت اور بہرحال و بہرقیمت ظلم و ستم اور ظالموں کی مخالفت کرنا تھی۔
تاریخ گواہ ھے کہ آپ جب تک زندہ رہے ھمیشہ عدل و داد کے حامی اور اس کے نفوذ و قیام کے لئےکوشاں ، مظلوموں کے مدگار و مدافع اور زندگی کی آخری سانس تک ظلم و ستم کے مخالف اور ظالموں سے بر سر پیکار رہے۔
یہ سچ ہے کہ مولا مظلوم رہے ، مگر کبھی بھی ظالموں اور ستمگروں کے محکوم نہیں رہے بلکہ آپ نے ان کے خلاف بلا وقفہ اپناجہاد و قیام جاری و ساری رکھا ہے ، یہانتک کہ بستر شہادت سے " کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا" کے ذریعہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کو بھی آپ "مظلوموں کی نصرت و حمایت اور ظالموں کی عداوت و مخالفت" میں یہ جہاد و قیام جاری و ساری رکھنے کی وصیت فرما کر گئے ہیں۔

مولا کے جہادو قیام کا اثر :

آپ کے اس مسلسل قیام و جہاد کا ایک عظیم اثر تو حسن ، حسین، زینب ، ام کلثوم ، ابوالفضل العباس ، عمار ، ابوذر ، مالک اشتر ، محمد ابن ابی بکر اور میثم تمار جیسے ان گنت ظلم ستیز چہروں کا نہ ٹوٹنے والا نہایت مبارک سلسلہ ھے۔
اور دوسرا اثر یہ ہے کہ ظالم و ستمگر اپنی ہزارہا مکاریوں اور عیاریوں کے باوجود بھی ظاہری دینداری کےچغےکی آڑ میں اپنے مکروہ چہروں کو نہ چھپا سکے اور وہ اتنے بےنقاب ہوگئےکہ تاریخ کا ہرمنصف و حقیقی طالب علم کسی بھی دور میں انھیں بآسانی پہچان سکتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے مکروہ چہروں کی پہچان کے ذریعہ اپنے دور کے ستمگروں کی بھی شناخت کرسکتا ہےاور ان سے نپٹنے کی جرائت و ھمت کو بھی اپنے وجود میں جنم دے سکتا ہے۔

ہماراافتخار اور ہماری ذمہ داری :

الحمدللہ ھمیں فخر ہے کہ ہم سب علی والے ہیں، لہذا بہت توجہ دیں کہ آج تک جس طرح ہم نے" حیدری نعروں" کے ذریعہ اپنی پہچان بنائی ہے ، اب بہت ضرورت ہے کہ اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ایرانی و لبنانی حزب اللہیوں اور مدافع حرم شہیدوں کی طرح " حیدری کاموں" سے اپنی شناخت قائم کریں اور یاد رکھیں کہ " حیدری کاموں" میں دین و ایمان کی پختگی کے بعد سر فہرست جو کام اور عمل ہے:
وہ مظلوموں کی نصرت و حمایت اور ظالموں سے عداوت و بیزاری نیز ان کے خلاف قیام کرنا ھے۔

تحریر : مولانا ظہور مہدی مولائی

 

رمضان المبارک کے آخری جمعہ (جمعۃ الوادع) کو عظیم بانی و رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ کی دور اندیشی اور عالمی نقطہ نظر کے تناظر میں عالمی یوم قدس قرار دیا۔ یوم القدس ایک پائیدار اور امام خمینی ؒ کی اہم ترین یادگاروں میں سے ایک اعلیٰ یادگار ہے۔ یوم القدس کا انعقاد حق اور باطل کے درمیان تقابل اور ظلم و ستم  کے خلاف انصاف کی صف آرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ امام خمینیؒ کا یہ یادگار جملہ "فلسطین اسلام  کے جسم کا حصہ ہے"، اس لیے تھا کہ مختلف زمانوں میں مسئلہ فلسطین فراموشی کے سپرد کر دیا گیا تھا، جو امام خمینیؒ کے سیاسی نقطہ نگاہ کی برکت کی بدولت لوگوں کے ذہنوں میں دوبارہ زندہ ہوچکا ہے۔

یہ دن نہ صرف فلسطین کا دن ہے بلکہ امت مسلمہ کا بھی دن ہے، اس لیے کئی سالوں سے قدس اور فلسطین کا مسئلہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کا سب سے تشویشناک مسئلہ بن چکا ہے۔ عالمی یوم القدس ایک ایسا دن ہے، جب پوری اسلامی دنیا غاصب صیہونی حکومت کے خلاف بیزاری کا اظہار کرتی ہے اور مقدس شہر القدس (بیت المقدس) کی آزادی کے لیے ایک بار پھر ہم نوا ہو رہے ہیں۔ آج چالیس سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد یوم القدس کو مسلمانوں کے قبلہ اول کا عنوان دینے میں امام خمینیؒ کے ہوشمندانہ اقدام کے سبب فلسطینی عوام اور دنیا کے تمام مظلوموں کی فریاد پوری دنیا اور آزادی کے مفکرین کے کانوں تک پہنچ چکی ہے اور صہیونی حکومت کی امریکہ کی حمایت سے ریاستی دہشت گردی تمام دنیا پر آشکار ہوچکی ہے۔

ملت ایران، پاکستان کے دوست اور برادر عوام کے ساتھ جنہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی رہنمائی اور علامہ محمد اقبال ؒ کے افکار کی روشنی میں صہیونی حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کیا، جوں جوں یوم القدس قریب آرہا ہے، صہیونی رژیم کے مقبوضہ فلسطین اور دیگر اسلامی ممالک میں مغربی اور بعض عرب حامیوں کی حمایت کی سرزنش کرتے ہوئے اور نہتے مسلمانوں کے ساتھ اپنی حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔

تحریر: احسان خزاعی
ثقافتی قونصلر سفارت اسلامی جمہوریہ ایران، اسلام آباد

ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک- اسلامی جمہوریہ ایران نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
 
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے افغانستان میں یکے بعد دیگرے ہونے والے دہشتگردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس صورتحال پرسخت تشویش ظاہر کی ہے ۔
 
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں افغانستان میں جمعرات کو مزار شریف کی مسجد اور اسی طرح کابل میں ہونے والے دہشتگردانہ حملوں کی جانب اشارہ کیا اورکہا کہ افغانستان میں ماہ رمضان میں جب مسجدوں میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے روزہ دارنمازیوں کو بزدلانہ اور دہشتگردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنانا نفرت انگیزہے۔
 
ترجمان وزارت خارجہ نے مزارشریف میں دہشت گردانہ دھماکے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کے لئے صبر اور زخمیوں کے لئے صحت وسلامتی کی دعا کی۔

 خبر رساں ذرائع نے صوبہ قندوز کی امام صاحب مسجد میں دھماکے کی اطلاع دی ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اب تک 30 افراد شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جنہیں شہر کے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

طالبان نے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

دریں اثنا، کل قندوز ہوائی اڈے کے قریب طالبان کی ایک چوکی کے سامنے ایک وین میں دھماکہ ہوا، جس میں 17 افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

افغانستان میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مہلک دھماکوں کا مشاہدہ کیا گیا ہے، جن میں کابل میں ایک اسکول میں ہونے والے دھماکے میں 26 طلباء اور ایک اور مزار شریف کی مسجد میں ہونے والے دھماکے میں 30 نمازی جاں بحق ہوئے۔

.taghribnews

 بے شک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے