سلیمانی

سلیمانی

ائب ایرانی صدر اور ایرانی ایٹمی ادارے کے سربراہ 'محمد اسلامی' نے اپنے ذاتی انسٹاگرام پیج پر لکھا کہ جوہری صنعت کی سولہویں قومی سالگرہ کے ساتھ ساتھ ریڈیو فارماسیوٹیکل، پلازما، صنعت، لیزر، اور کنٹرول اور فوٹو گرافی کے نظام کے شعبوں میں 9 کامیابیوں کی نقاب کشائی کی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے ان مبارک دنوں میں جوہری کی صنعت کے 20 سالہ افق کیلیے اسٹریٹجک دستاویز کی کی نقاب کشائی کے ساتھ  ہم رکاوٹوں کو دور کرنے اور جوہری صنعت کے اسٹریٹجک امور کو آگے بڑھانے کے لیے ایک مؤثر قدم اٹھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس دستاویز نے ایٹمی توانائی کی تنظیم کے لیے عالمی سطح کو حاصل کرنے کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کے مختلف پہلوؤں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس دستاویز کا ایک اور ہدف 10,000 میگاواٹ بجلی کی فراہمی اور ایرانی سائنسدان  کے ذریعے دارخوین میں 360 میگاواٹ پاور پلانٹ کی تعمیر ہے۔

جیسا کہ صدر رئیسی نے جوہری ٹیکنالوجی کی قومی سالگرہ کے موقع پر کہا جوہری ٹیکنالوجی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ملک کی ترقی کا پیش خیمہ ہے جس کو اختراع اور تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے حفظ کیا جانا چاہیے۔

اسلامی نے کہا کہ اس کے علاوہ، صدر نے جوہری صنعت کی کامیابیوں کو تجارتی بنانے کے حوالے سے ایک بہت اہم نکتہ اٹھایا جو انشاء اللہ ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم میں مستقبل کے اقدامات کا اہم جزو ہوگا۔

یوں تو تاریخ اسلام میں بہت سی اعلی مرتبت خواتین گزریں، لیکن جن خواتین کو تمام نساءالعالمین پر فوقیت بخشی گئی ان میں سے ایک جناب خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا ہیں۔
آپ کا سلسلہ نسب  لوی بن غالب سے جا ملتا ہے جو جناب رسول اکرمؐ کے جد اعلیٰ ہیں۔ کسی بھی شخصیت کے فضائل و کمالات کے جاننے کا ایک وسیلہ  اس کے القابات ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں بیبی خدیجہؑ منفرد مقام رکھتی ہیں کیونکہ آپ وہ ہستی ہیں جن کی پاک و پاکیزگی کردار اور علو عفت کا یہ عالم تھا کہ دورِ جاہلیت میں بھی آپ نے "طاہرہ" لقب پایا۔ اس کے علاوہ آپ کو سیدۃ نساء بھی کہا جاتا تھا۔ 
البتہ قرآن نے آپ کو جس لقب سے سرفراز کیا وہ "ام المومنین" ہے۔ آپ کو اس سے بڑھ کر مقام اس وقت عطا ہوا جب آپ "ام ام ابیھا" قرار پائیں۔
یہ مرتبہ بھی جناب خدیجہؑ کو حاصل ہے کہ آپ جناب  سیدہ فاطمہؑ کی اولاد میں ہونے والے تمام معصومینؑ کی جدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جناب امیرالمومنینؑ کی تربیت کرنے والی بھی ہیں۔
 
رسول اللہ پر فدا کاری کا یہ عالم تھا کہ جس رات عقد منعقد ہوا اسی رات رسول اللہ کا دامن تھام کر فرمایا۔۔
"سیدی! إلی بیتک فبیتی بیتک و أنا جاریتک"
اے میرے سید و سردار! آپ اپنے گھر تشریف لے آئیے، میرا گھر اب آپ کا گھر ہے، بلکہ میں خود بھی آپ کی کنیر ہوں!(عباس، قمی: سفینةالبحار،ج1،ص379)
 
آپ وہ خاتون جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ امیرالومنینؑ خطبہ قاطعہ میں فرماتے ہیں۔۔
"جس روز رسول اللہ کو رسالت ملی مکے میں کوئی گھر ایسا نہ تھا جس میں اسلام داخل ہوا ہو سوائے رسول اللہ اور خدیجہ کے گھر کے اور میں ان کا تیسرا تھا، جو نور وحی و رسالت کو دیکھتا اور عطرِ نبوت کو سونگھتا تھا۔
(نهج البلاغه فیض الاسلام، ص811)
 
ایسی خاتون جس کے بارے میں رسول اکرمؐ نے فرمایا:
اے خدیجہؑ! خداوندعالم ہر روز متعدد بار تیرے وجود کی وجہ سے ملائکہ پر فخر و مباہات کرتا ہے۔
(علی اکبر، بابا زاده، تحلیل سیده فاطمه زهرا، ص37)
 
وہ خاتون جس کے عمل کو خدا نے اپنا عمل کہا اور جس کی دولت سے رسول اکرمؐ کو ثروت بخشے ہوئے اس طرح اس کا قصیدہ پڑھا:
و وجدک عائلا فأغنی
اے رسول میں نے تجھے بے مال و ثروت پایا تو غنی کر دیا۔
روایات میں وارد ہوا ہے کہ یہاں  ثروت سے مراد مال خدیجہؑ ہے۔
(علی اکبر، بابا زاده: سیمای زنان در قرآن، ص23)
 
معصومینؑ سے اس بیبی دو عالم  کی شان میں  متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں، ہم ان میں سے چند ہدیہ قارئین کرتے ہیں: 
۱۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا:
جبرائیل میرے پاس آئے اور گویا ہوئے، اے رسول اللہ! جب بھی خدیجہؑ آپ کے پاس آیا کریں انہیں خدا کا اور میرا سلام پہنچایا کیجیے، اور انہیں جنت میں زبرجد سے بنے ایک گھر کی بشارت دیجیے جس میں رنج و غم نہیں ہونگے۔
(مجلسی :بحار، ج16، ص8)
 
۲۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا:
مردوں میں سے تو بہت سے درجہ کمال تک پہنچے ہیں لیکن خواتین میں سے چار ایسی ہیں جو درجہ کمال کو پا گئیں۔۔ آسیہ، مریم، خدیجہ اور فاطمہ۔
(محمدی اشتهاردی: ام الومنین خدیجہ ص189)
 
۳۔ امیرالمومنینؑ نے فرمایا:
"سادات نساءالعالمین اربع خدیجه بنت خویلد و فاطمه بنت محمد و آسیه بنت مزاحم و مریم بنت عمران"
عالمین کی خواتین کی سردار چار خواتین ہیں، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، آسیہ بنت مزاحم، مریم بن عمران.
(معتزلی: شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدیدمعتزلی، ج10، ص266)
 
۴۔ رسولؐ اللہ نے اپنی اس باوفا اور سلیقہ شعار و ہمدم و ہمدرد اور  سکون بخشنے والی بیوی کا ان الفاظ میں تعارف کروایا:
خدیجه بنت خویلد زوجة النبی فی الدنیا وآلاخرة۔
خدیجہؑ میری بیوی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
(بحار؛ ج43، ص53،54)
 
۵۔ جب رسولؐ اللہ کو معراج پر لے جایا گیا تو آپ نے جبرائیل سے پوچھا، کیا تیری کوئی حاجت ہے؟ جبرائیل نے عرض کی جی ہاں ہے! آپ جب زمین پر تشریف لے جائیے گا تو میری اور خدا کی طرف سے خدیجہؑ کو سلام کہیے گا۔ رسولؐ اللہ تشریف لائے اور خدا و جبرائیلؑ کا سلام بیبی تک پہنچایا تو جناب خدیجہؑ نے یوں جواب دیا:
ان الله هو السلام، وفیه السلام، الیه السلام، وعلی جبرئیل السلام۔
بے شک خدا خود سلام ہے، اور  اس کی طرف سے سلام ہے اور سلام اسی کی طرف جاتا ہے اور جبرائیل پر بھی سلام ہو۔
(بحار: ج16، ص7)
 
۶۔ کتاب خصائص فاطمیہ میں نقل ہوا ہے کہ جناب خدیجہؑ کے مقام و منزلت کے تحت فرشتے اس بیبی دو عالم کے لیے بہشتی کفن لے کر آئے اور رسولؐ اللہ نے انہیں اس پارچے میں کفنا کر ان کی قبر خود تیار کی اور پھر انہیں سپرد خاک کرنے سے پہلے خود بیبی کی قبر میں لیٹے اور اس کے بعد فضیلت کے اس ستارے کے جسم خاکی کو سپردِ لحد کر دیا۔
 
خدا کا سلام ہو ان پر اس دن جس دن وہ متولد ہوئیں اور اس دن جس دن انہیں دوبارہ مبعوث کیا جائے گا.
 
بشکریہ: عبدالحسین: سید سبطین علی نقوی امروہوی الحیدری.

يہي وجہ تھي کہ خلافت شروع ہونے کے بعد امام ط‘ کي جانب سے کوئي ايسي بات ديکھنے ميں نہيں آئي کہ ان کي گفتگو يا عمل سے (اسلام کي طاقت کي حفاظت کے خيال سے)خلفاء کي طاقت اور دبدبے کو نقصان پہنچے يا ان کي طاقت گھٹنے يا ان کي شان اور رعب ميں بٹا لگنے کا سبب بنتي ، خلفاء کي ان کارروائيوں کے باوجود جو آپ ديکھتے تھے اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے گھر ميں بيٹھے رہے يہ تمام احتياطيں محض اس ليے تھيں کہ اسلام کے فائدے محفوظ رہيں اور اسلام اور مسلمانوں کے اتحاد اور ميل جول کے محل ميں کوئي خرابي اور دراڑ پيدانہ ہو چنانچہ يہ احتياط لوگوں نے آپ ہي سے سيکھي سمجھي -

حضرت عمر ابن خطاب بار بار کہتے تھے:

لاَ کُنتُ لِمُعضَلَۃٍ لَيسَ لَھَا اَبُو الحَسَن :- خدا نہ کرے کہ ميں ايسي مشکل ميں پڑوں کہ جہاں ابوالحسن نہ ہوں-

يا

لَولاَ عَلِّيٌ لَھَلَکَ عُمَرُ :- اگر علي نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا -

 (نوٹ، 1-صحيح بخاري، کتاب المحاربين ، باب الايرجم المجنون ،سنن ابي داود، باب مجنون يسرق صفحہ 147، مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 140 و 154،سنن دار قطني، کتاب الحدود صفحہ 346، کنرالعمال، علي متقي، جلد 3 صفحہ 95،فيض القدرير ،منادي،جلد 4 صفحہ 356، موطا، مالک، کتاب الاشر بہ صفحہ 186 ، مسند، شافعي، کتاب الاشربہ صفحہ 166 ، مستدرک حاکم جلد 4 صفحہ 375، سنن بيہقي صفحہ 123 ، رياض النضرہ، محب طبري، جلد 2 صفحہ 196، طبقات ابن سعد جلد 2 باب 2 صفحہ 102، شرح معافي الآثار، طحاوي، کتاب القضاء صفحہ 294 ، استيعاب، ابن عبدالبر، جلد 2 صفحہ 463، نورالابصار، ثعلبي، صفحہ 566، درمنشور، سيوطي، سورہ مائدہ آيت خمر)

امام حسين ط‘ کي روش بھي کبھي بھلائي نہيں جاسکتي کہ انہوں نے کس طرح اسلام کي حفاظت کي خاطر معاويہ سے صلح کي، جب آپ نے ديکھا کہ اپنے حق کے دفاع کے ليے جگ پر اصرار کرنا، قرآن اور عادلانہ حکومت ہي کونہيں بلکہ اسلام کے نام کو ہميشہ ہميشہ کے ليے مٹادے گا اور شريعت الہٰيہ کو بھي نابود کردے گا تو آپ نے اسلام کي ظاہري نشانيوں اور دين کے نام کي حفاظت ہي کو مقدم سمجھا-

اگرچہ يہ رويہ اس کے برابر ٹھہرا کہ ان ظالموں کے باوجود جن کے بارے ميں يہ انتظار تھا کہ آپ پر اور آپ کے شيعوں پر ڈھائے جائيں گے، معاويہ جيسے اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن اور آپ سے اور آپ کے شيعو سے دل ميں بغض اور کينہ رکھنے والے دشمن سے صلح کي جائے- اگرچہ بني ہاشم اور آپ کے عقيدت مندوں کي تلواريں نيام سے باہر آچکي تھيں اور حق کے بچاۆ اور حصول کے بغير نيام ميں واپس جانے کو تيار نہيں تھيں ليکن امام حسن ط‘ کي نظر ميں اسلام کے اعليٰ فوائد اور مقاصد کي پاسداري ان تمام معاملات پر فوقيت رکھتي تھي- ( جاري ہے)

 

 


 

متعلقہ تحریریں:

اہل تشيع کے اصول عقائد

''و عترتي اہل بيتي '' صحيح ہے يا ''و سنتي''؟

 

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا کوئی بھی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرسکا ، جس کی اصل وجہ امریکہ اور سعودی عرب کا پاکستان میں گہرا نفوذ ہے۔ امریکہ کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے جو پاکستان میں امریکہ اور سعودی عرب کے گہرے نفوذ کا مظہر ہے، امریکہ پاکستان میں بعض جگہ براہ راست مداخلت کرتا رہتا ہے اور بعض جگہ وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سعودی عرب کے پاکستان میں نفوذ سے استفادہ کرتا ہے۔

پاکستان کے سال 1947میں معرض وجود میں آنے کے بعد سے اب تک کسی بھی منتخب وزیر اعظم نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی اور عمران خان اس فہرست میں شامل 19ویں شخص ہیں۔

ڈان کے مطابق عمران خان پہلے وزیراعظم ہیں جنہیں عدم اعتماد کی قرارداد کے آئینی اقدام کے ذریعہ ہٹایا گیا ہے۔

ملک کے سب سے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ان کے بعد 7 وزرائے اعظم مستعفی ہوئے، 5 کو برطرفی کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ 4 وزرائے اعظم کی حکومتیں فوجی بغاوتوں کے ذریعے معزول کر دی گئیں۔

نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی وہ دو افراد تھے جنہیں سپریم کورٹ کی جانب سے سزا سنائے جانے کی باعث نااہل قرار دیا گیا تھا۔

شوکت عزیز، راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی وہ اشخاص ہیں جنہوں نے قومی اسمبلی کی 5سالہ مدت پوری ہونے پر عہدہ چھوڑا لیکن انہوں نے اپنے پیش رووں کی نااہلی اور استعفیٰ کے بعد باقی ماندہ مدت پوری کرنے کے لیے ہی یہ عہدہ سنبھالا تھا۔

اس فہرست میں شامل نواز شریف واحد شخص ہیں جنہیں اپنے تین ادوار میں چار مرتبہ ملک کا اعلیٰ عہدہ چھوڑنا پڑا۔

سعودی عرب کا پاکستان میں اتنا نفوذ ہے کہ اس نے  پاکستان کے معزول وزیر اعظم عمران خان کو ملائشیا میں او آئي سی کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے سے روک دیا تھا جبکہ اس اجلاس کے ایک میزبان خود عمران خان تھے۔ پاکستانی وزیر اعظم سعودی عرب کے جہاز میں سوار ہوکر اقوام متحدہ گئے لیکن واپس کسی دوسرے جہاز سے آئے۔ سعودی عرب نے اپنا جہاز واپسی پر دینے سے انکار کردیا تھا ۔ سعودی عرب نے بہت پہلے امریکہ کے ساتھ ملکر عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ پاکستان سعودی عرب کے سامنے بالکل بے بس نظر آتا ہے۔ عمران خان نے سعودی عرب اور امریکہ کو سمجھنے میں بہت دیر کی جس کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑا ۔

 

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے ایک اجلاس سے خطاب میں امریکہ کے رویہ پر گروپ 1+4 کی تنقید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے کا کوئی فائدہ نہیں، ہم اپنی ریڈ لائنوں سے عبور نہیں کریں گے۔ امیر عبداللہیان نے کہا کہ ویانا مذاکرات میں گروپ 1+4 کے ارکان بھی امریکہ کے رویہ سے خوش نہیں ہیں۔ امریکہ مذاکرات میں تعمیری کردار ادا نہیں کررہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم پابندیوں کے مکمل خاتمہ کے خواہاں ہیں لیکن ہم اپنی اقتصادی اور معاشی پالیسیوں کو ویانا مذاکرات سے منسلک نہیں کریں گے۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ امریکہ پابندیوں کے خاتمہ کے سلسلے میں اپنے شرائط مسلط کرنے کی کوشش کررہا ہے جو مشترکہ ایٹمی معاہدے کی روح کے خلاف ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم ایک اچھے معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں لیکن امریکہ اب بھی اپنے شرائط مسلط کرنے کی کوشش کرہا ہے جو ناقابل قبول ہیں۔  انھوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں ایران کا کوئي فائدہ نہیں۔ ہم اچھے معاہدے تک پہنچنے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گے، البتہ ہمیں اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں اپنی اندرونی توانائيوں پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے ترجمان طارق عزالدین نے ہفتے کے روز العالم کو بتایا کہ قابض حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ بیک وقت کئی محاذوں پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتی۔

فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے سرکردہ رکن نے مغربی کنارے کے جنین کیمپ میں مقیم فلسطینیوں پر صیہونی فوج کے آج کے حملے کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: حکومت کی زندگی کا خاتمہ قریب ہے اور وہ مزاحمت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

آج مغربی کنارے میں فلسطینیوں اور قابض فلسطینیوں کے درمیان شدید جھڑپ میں احمد السعدی شہید اور تقریباً 15 دیگر فلسطینی زخمی ہو گئے ۔

صیہونی غاصبوں نے آج جنین کیمپ پر اپنے حملے میں شہید "رعد فتحی حازم" کے والد کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جو فلسطینی عوام کے ساتھ جھڑپوں اور شہید کے خاندان کے گھر کا محاصرہ کرنے کے بعد اس کے والد کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ فلسطینی شہید اور کیمپ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔

فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے ترجمان نے بھی تل ابیب میں شہدا آپریشن پر بعض ممالک کے موقف کے ردعمل میں کہا: "ہم بعض ممالک کے ایسے بیانات کی مذمت کرتے ہیں جو دشمن کو فلسطینی عوام کے خلاف اپنی جارحیت جاری رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔"

گزشتہ جمعرات کی رات (18 اپریل) کو تل ابیب کے قلب میں ڈیزنگوف اسٹریٹ پر، شہر کی سب سے بڑی سڑکوں میں سے ایک، شہادت کی مزاحمتی کارروائیوں میں تین آباد کار ہلاک اور 11 زخمی ہوئے، جس سے زمین میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی۔

اس کارروائی کے مرتکب، شمال مغرب میں واقع جنین کیمپ سے تعلق رکھنے والے "رعد فتحی حازم" نامی 29 سالہ فلسطینی شخص کو کئی گھنٹے کی تعاقب کے بعد جمعہ کی صبح صہیونی عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مقبوضہ فلسطین میں یہ چوتھی شہادت ہے۔

اس آپریشن کے بعد، جس کا فلسطینیوں اور مزاحمتی گروپوں نے خیر مقدم کیا، متحدہ عرب امارات، ترکی اور بحرین سمیت بعض اسلامی ممالک نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ 

.taghribnews.

یوم القدس مظلومین جہاں خصوصاٙٙ مظلومین فلسطین کی حمایت اور ظالم و مستکبر قوتوں کیخلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا دن ہے، قدس کا مسئلہ فقط کسی ایک مسلک کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔

آئی ایس او پاکستان ڈویژن کراچی، محمد حیدر نقوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ قدس کا مسئلہ فقط کسی ایک مسلک کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ امت مسلمہ کا مسئلہ ہے، انہوں نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی آزادی القدس ریلی کا انعقاد جمعتہ الوداع 4 بجے شام نمائش تا تبت سینٹر کیا جائے گا۔

 عالمی یوم القدس اس سال بھی پاکستان میں بھر پور انداز میں منایا جائے گا،مختلف شہروں میں یوم القدس آگاہی مہم کے تحت مختلف سیمنار، آغاہی کیمپس، بینرز اور پوسٹرز آویزاں کیئے جائیں گے۔

ان خیالات کا اظہار ترجمان آئی ایس او کراچی ڈویژن محمد حیدر نقوی نے المصطفیٰ ہاوس سے جاری بیان میں کیا، انہونے مزید کہا کہ مرکزی آزادی القدس ریلی کا انعقاد جمعتہ الوداع 4 بجے شام نمائش تا تبت سینٹر کیا جائے گا۔

 جس سے مختلف مکاتب فکر کے علماء اکرام خطاب کریں گے جبکہ ریلی سے مرکزی خطاب صدر آئی ایس او پاکستان ذاہد مہدی کریں گے۔
.taghribnews.

ماہ صیام اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہے، جس چیز کی جانب نظر اٹھے، وہ نور علی نور کا مصداق نظر آتی ہے، پورا ماحول ایک خاص ربانی و رحمانی رنگ میں رنگا ہوا ہے، ضعیف چہروں پر موجود ہشاشت و بشاشت، نوجوانوں اور بچوں کی صورتوں کی مسکان سے یہ دنیا معطر ہے۔ آسمان نور برسا رہا ہے، زمین قدم بوسی کر رہی ہے، گرد و غبار راستہ صاف کر رہے ہیں کہ خدا کا بندہ حکم خدا و خوف خدا دل میں لئے فرشتوں کے ہمراہ نیکیوں اور انعامات خداوندی کو یقین کے بندھن میں باندھے ہوئے چلا آرہا ہے۔ یقیناً خالق کائنات نے اس ماہ کو بنایا ہی کچھ ایسا ہے کہ چاہ کر بھی شیطان مسلمانوں کو اپنی دلفریب اداؤں میں الجھا نہیں سکتا، لاکھ پیہم سعی کر لے، پھر بھی راہِ ثواب سے رخ پھیر نہیں سکتا، کیونکہ یہ ماہ دیگر مہینوں کی طرح فقط ایک مہینہ نہیں بلکہ خدا کی عظیم عطیات میں سے ایک نہایت ہی اہم عطیہ ہے، اس ماہ کو رب کائنات نے کئی اوصاف سے سجا سنوار کر امت محمدیہ کو بطور تحفہ دیا ہے، اس میں ملعونین کو جکڑ دیا جاتا ہے، عبادات میں معمول سے زیادہ اضافہ کر دیا جاتا ہے، تاکہ بندہ زیادہ سے زیادہ جنت کا حقدار بن سکے۔

چنانچہ وہ مقام ِفلاح و نجاح کو پہنچے گا، جو اس ماہ کا پورا پورا حق ادا کرے گا، خود کو صوم و صلاۃ کا پابند اور احکام الہیٰ و تعلیمات نبوی کے تابع کرے گا، قارئین، ایسا نہیں ہے کہ روزہ فقط مذہب اسلام یا امت محمدیہ کے حصے میں آیا، بلکہ حضرتﷺ کی بعثت سے قبل جتنی امتیں آئیں، تمام کی تمام کو اس خاص طریقہ خوشنودی یعنی "روزہ" سے نوازا گیا، دنیا میں موجود تمام مذاہب میں روزہ کا تصور مذہبی شعائر میں شمار کیا جاتا ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ گذشتہ امتوں میں روزے کی کیفیت مختلف ہوتی تھی، کہیں خاموشی کا روزہ ہوتا تھا تو کہیں کئی کئی گھنٹوں اور دن کا، کہیں یہ حکم چند مخصوص لوگوں پر نافذ ہوتا تھا تو کہیں روزہ رہتے ہوئے کھانے پینے کا سلسلہ جاری رہتا، کسی مذہب کے طریقۂ صیام میں حد درجہ آسانیاں تھیں تو کسی میں کئی مشکلات، کچھ افراط کے شکار تھے تو کچھ تفریط کے قائل، غرض کہ تمام طریقے بے اعتدالیوں کی رسی میں جکڑے ہوئے تھے، پھر اسلام نے مکمل و معتدل نظام دیا، عاقل، بالغ، چھوٹا بڑا، امیر غریب، کالے گورے، عربی عجمی سب کو ایک نظام کا پابند و مکلف بنایا۔

اور پھر اس امت محمدیہ کو  روزے کا ایک ایسا میانہ طریقہ دیا، جس میں فائدہ روحانی بھی ہے، جسمانی بھی، یعنی روزہ کا یہ طریقہ جو رحمت اللعالمینﷺ نے بتایا ہے: ایسا ہے کہ جہاں اس سے جسم دھیرے دھیرے تندرست و توانائی حاصل کرتا ہے، وہیں روح پاک صاف ہو جاتی ہے، گناہ دھل جاتے ہیں، بدن خاکی میں تازگی آجاتی ہے۔ اسلام نے باقی مذاہب کے مقابلے میں نہایت معتدل راہ اپناتے ہوئے رمضان المبارک کے روزوں کو طلوع آفتاب سے لیکر غروب آفتاب تک ایک خاص مدت تک کے لیے متعین کیا، جبکہ دیگروں کے یہاں یکبارگی ہی کئی کئی دنوں کا روزہ یا پھر مختصر دنوں کا روزہ ہوتا تھا، اس سے نہ روح کا نفع ہوتا تھا نہ جسم کا، بلکہ اس طرح جسم بالکل ہی لاغر و کمروز ہو جاتا تھا، جبکہ اسلام نے ان غیر معقول و غیر مانوس رواجوں کو توڑ کر نہایت ہی حکیمانہ انداز میں ایک مہینے کو مقرر کیا، جب ایک مسلمان خوف خدا دل میں لئے ایک مہینے تک گناہوں سے بچا رہے گا۔

نفسانی خواہشات کا قلع قمع کرے گا، ذکر و عبادات میں مشغول رہے گا، غریبوں اور فاقہ کشوں کی مانند بنا رہے گا، نیکی کا حکم برائی سے روکے گا، گالی گلوچ، شراب و کباب سے کنارہ کش رہے گا تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایسا روزہ روحانی اعتبار سے قلب و بدن پر کیا اثرات مرتب کرے گا، جبکہ دنیاوی لحاظ سے اسے باہمت، مضبوط، حالت مجبوری میں شدت بھوک و پیاس برداشت کرنے کی قوت عطا کرے گا۔ طبی لحاظ سے بقول ڈاکٹر معروف صاحب: "اس دوران اعضا کا فعل بھرپور قوت سے چلنے لگتا ہے اور آپ کی یادداشت اور ارتکاز کی قوت بہتر ہو جاتی ہے اور آپ کے اندر زیادہ توانائی آجاتی ہے۔ اگر فاقہ کشی کئی دن تک مسلسل جاری رہے تو جسم پٹھوں کو پگھلانا شروع کر دیتا ہے، لیکن رمضان میں ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ روزہ ایک دن میں ختم ہو جاتا ہے، اسی طرح روزہ نہ صرف ذیابطیس (sugar) بلند فشار خون (pressure blood) اور انسانی وزن کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے بلکہ دماغی افعال کو بہتر طریقے سے سرانجام دینے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق روزہ نہ صرف انسان کو مختلف طبی امراض سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ انسانی عمر میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے، نیز ہندی اخبار دینک جاگرن کی رپورٹ کے مطابق رمضان میں بیس رکعت تراویح یعنی کہ چھ کلومیٹر کے دوڑ کی ورزش، صرف یہ اخبار ہی نہیں کئی غیر مسلم علماء بھی روزہ کے طبی و روحانی فوائد کے قائل ہیں اور اپنے تاثرات میں قدرے تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کو حاصل اس ایک مہینے کے تزکیہ و تطہیر ِنفس کے نصاب کے بارے میں لکھتے نظر آتے ہیں، یہ تو اللہ رب العزت کی طرف سے بندوں پر ابتدائی احسانات و انعامات ہیں۔ ورنہ مسلمانوں کے لیے تو آخرت میں ایک اجر عظیم کا وعدہ اظہر من الشمس ہے۔

تحریر: اظفر منصور
مدیر مجلہ سراغ زندگی لکھنؤ

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان نے اپنے ایک بیان میں اسرائيل کے دارالحکومت تل ابیب میں شہادت طلبانہ حملے اور فلسطینی عوام کی جانفشانی و قربانی کی تعریف و تمجید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تل ابیب میں شہادت طلبانہ حملے کے بعد صہیونی حکومت کی کمزوری و سرگردانی نمایاں ہوگئی۔

حزب اللہ لبنان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تل ابیب میں شہادت طلبانہ حملہ فلسطینیوں کی طاقت کا مظہر ہے اور اس حملے سے ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینی ہر جگہ اسرائیل کی غاصب صہیونی حکومت کے جرائم اور مظالم کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ تل ابیب حملے نے اسرائيلی حکومت کی کمزوری اور ناتوانی کو بھی ظاہر کردیا ہے۔ ایک فلسطینی مجاہد نے اسرائيل کے سکیورٹی اداروں کی تمام کوششوں کو ناکام بنادیا ۔

واضح رہے کہ کل رات ایک فلسطینی مجاہد نے تل ابیب میں فائرنگ کرکے 2 صہیونیوں کو ہلاک اور 14 کو زخمی کردیا تھا۔

کوئی سیاست دان ایسا نہیں ہو گا جسے 2006ء میں لبنان پر اسرائیل کی فوجی جارحیت کے موقع پر اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کینڈولیزا رائس کا یہ بیان یاد نہ ہو کہ: "یہ جدید مشرق وسطی کی پیدائش کا درد زہ ہے۔" اس وقت کے امریکی صدر جارج بش جونیئر اور مغربی ممالک نے بھرپور انداز میں غاصب صہیونی رژیم کی حمایت کی۔ لیکن اسلامی مزاحمت کے خاتمے پر مبنی ان کی آرزوئیں برباد ہونے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان نے غاصب صہیونی رژیم پر ایسی کاری ضرب لگائی جو وہ ہر گز بھلا نہیں پائے گی۔ اسلامی مزاحمت کے ہاتھوں غاصب صہیونی رژیم کی اس ذلت آمیز شکست کے بعد خطے کی مساواتیں یکسر تبدیل ہو گئیں اور خطے میں اسٹریٹجک تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔
 
اس فیصلہ کن معرکے کے بعد امریکہ نے اس شکست کا بدلہ لینے کیلئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا۔ ان کیلئے اس حقیقت کو قبول کرنا بہت مشکل تھا کہ حزب اللہ لبنان جیسے ایک چھوٹے سے گوریلا جنگجووں پر مشتمل گروہ نے ایک ماہ کے اندر اندر دنیا کی سب سے بڑی فوجی مشینری کو شکست سے دوچار کر ڈالا ہے۔ جارج بش کے بعد براک اوباما امریکہ صدر کے طور پر برسراقتدار آئے۔ انہوں نے ماضی سے عبرت سیکھنے کی بجائے شام میں دوبارہ اسلامی مزاحمت سے پنجہ آزمائی شروع کر دی۔ افغانستان اور عراق میں جنگ کے شعلے لگانے کے بعد یہ ان کی تیسری جنگ تھی۔ شام میں انہوں نے بھرپور انداز میں تکفیری دہشت گرد عناصر کا استعمال کیا اور انہیں اپنی پراکسی کے طور پر میدان میں اتار دیا۔
 
شام میں یہ امریکی سعودی سازش بھی بری طرح ناکام ہوئی اور اب تکفیری دہشت گرد عناصر کو افغانستان اور یوکرین بھیجا جا رہا ہے۔ ماضی کی ان جنگوں میں امریکہ کے اخراجات اس قدر شدید تھے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے رہا نہیں گیا اور انہوں نے گذشتہ حکمرانوں کے کرتوت فاش کرتے ہوئے افغانستان اور عراق میں ہزاروں بیگناہ انسانوں کے قتل عام کا اعتراف کر لیا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں کہا: "ہمیں ابتدا سے ہی افغانستان نہیں جانا چاہئے تھا۔" اسی طرح انہوں نے فاکس نیوز کے معروف اینکر شان ہائیٹی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: "جب ہم نے مشرق وسطی میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا تھا تو وہ ہماری ملکی تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا۔ بعد میں معلوم ہوا وہاں دلدل ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔"
 
گریٹر مڈل ایست اور نیو مڈل ایسٹ جیسے امریکی منصوبوں کی شدید ناکامی کے نتیجے میں علاقائی اور عالمی سطح پر امریکی اثرورسوخ زوال پذیر ہونے لگ گیا۔ لہذا ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد برسراقتدار آنے والے نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کا اصل مقصد امریکہ کی اس تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ اور زوال پذیر ہوتی ہوئی طاقت کو سہارا دینا ہے اور اسے روکنا ہے۔ جو بائیڈن نے اپنی پالیسیوں کی بنیاد معروف امریکی تھنک ٹینک جوزف نائی کے نرم جنگ سے متعلق نظریات پر استوار کی۔ یوں جو بائیڈن کی سربراہی میں ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی حکمرانوں نے ماضی کی شان و شوکت لوٹانے کی کوشش شروع کر دی۔ نرم جنگ کا میدان اختیار کرنے کی بنیادی وجہ فوجی جارحیت میں ہونے والے بھاری اخراجات سے بچ کر مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرنا تھا۔
 
فوجی اور سکیورٹی نقطہ نظر سے اسرائیل کے غاصب صہیونی حکام شدید مشکل اور تاریک دن گزار رہے ہیں۔ وہ اس وقت مقبوضہ فلسطین میں نئے انتفاضہ کے ممکنہ آغاز سے شدید خوفزدہ ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں میں مقبوضہ فلسطین کے اندر انجام پانے والی متعدد شہادت پسند کاروائیوں کے نتیجے میں صہیونی رژیم شدید خوف و ہراس کا شکار ہے۔ صہیونی رژیم کو درپیش سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کے خلاف شہادت پسند کاروائیاں انجام دینے والے فلسطینی شہریوں کا تعلق کسی خاص گروہ سے نہیں ہے لہذا وہ ایک انجان دشمن سے روبرو ہیں۔ دوسری طرف مغربی کنارے میں بھی ان کے خلاف مسلح کاروائیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں بھی مسلح مزاحمت شروع ہو جانا ان کیلئے ایک ڈراونا خواب ہے۔ ایسے حالات میں صہیونی رژیم ایسے خطرات سے روبرو ہے جن کی نوعیت سے وہ بالکل بے اطلاع ہے۔
 
لبنان میں شدید ترین پابندیوں کے باوجود اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان بھرپور انداز میں ملک کے سیاسی اور دفاعی میدان میں حاضر ہے۔ حزب اللہ لبنان کی مرکزی کونسل کے رکن شیخ نبیل قاووق کے بقول: "جب تک حزب اللہ کے پاس اسلحہ موجود ہے اور جب تک اس کے پاس وفادار حامی ہیں، ایسا دن نہیں آئے گا جب لبنان کے قومی فیصلے امریکہ کی مرضی سے انجام پائیں۔ حزب اللہ لبنان ہمیشہ ملک کی قومی سلامتی، خودمختاری اور حق خود ارادیت کے دفاع کیلئے مضبوط قلعہ ثابت ہو گی۔" لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ آج خطے کی تقدیر اسلامی مزاحمتی بلاک کے ہاتھ میں ہے۔ خطے سے متعلق کوئی ایسا منصوبہ یا پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی جسے اسلامی مزاحمتی بلاک کی حمایت حاصل نہ ہو۔ اس مسئلے میں غاصب صہیونی رژیم، آل سعود رژیم اور تکفیری دہشت گردوں میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔

تحریر: سید جعفر قناد باشی

اسلام ٹائمز