سلیمانی
مسجد جامع« الفار» ؛ سری لنکا میں سیاحوں کا مرکز
آستانہ مقدس حسینی میں مراسم شعبانیه
یمن کے خلاف اقتصادی جنگ کا مقصد ہماری قوم کو اذیتیں پہنچانا ہے
یمن کی حکومت کے نگران اعلی نے کہا ہے کہ ہم جارح سعودی اتحاد کی جانب سے یمن کا محاصرہ جاری رہنے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور اس نے ملت یمن کے خلاف بہت سے جرائم کا ارتکاب کیا ہے
یمن کی تحریک انصاراللہ کے سربراہ اور یمنی حکومت کے نگران اعلی عبدالملک بدرالدین الحوثی نے صوبہ البیضاء میں الزاہر قبائل کے وفود سے ملاقات میں کہا کہ یمن کے خلاف اقتصادی جنگ کا مقصد ہماری قوم کو اذیتیں پہنچانا اور ان کی پریشانیوں کو بڑھانا ہے۔
الحوثی نے مزید کہا کہ یمن کے خلاف جارحیت کے پہلے دن سے ہی دشمن جان بوجھ کر جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے اور یمنی عوام کا محاصرہ کئے ہوئے ہے۔
الحوثی نے مزید کہا کہ وہ صوبہ البیضاء میں امن و استحکام کو مضبوط بنانے اور اس علاقے کے عوام اور حکومت کے درمیان تعاون کے خواہاں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب اور امارات کے حکام نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے ساتھ کھلا اتحاد تشکیل دے رکھا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ ماسکو
ایرانی وزیر خارجہ نے ماسکو دورے پہنچنے پر کہا کہ یوکرین کا بحران، پابندیاں اور ویانا مذاکرات ان ملاقات کا اہم محور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم واضح طور پر یوکرین ، افغانستان،یمن اور دنیا کے کسی کونے میں جنگ کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جیسا کہ ہم پابندیوں کی مذمت کرتے ہیں اور ممالک اور اقوام کے خلاف یکطرفہ پابندیوں کے رویے کوغلط طریقہ سمجھتے ہیں، اسی طرح ہم یوکرین کے مسئلے کے سیاسی حل پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ خیالات اور خبروں میں کہا گیا ہے کہ اگر ہم امریکہ اور دیگر مغربی فریقین کے ساتھ ویانا میں کسی معاہدے پر پہنچ جائیں، تو ممکن ہے کہ روسی فریق ویانا مذاکرات میں کافی حمایت اور مدد نہ کرے۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے گزشتہ ہفتے مسٹر لاوروف کے ساتھ اپنی ٹیلی فون پر بات چیت سے ایسے نتیجے کا اخذ نہیں کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ ہم آج کی بات چیت میں ویانا میں ایران کے ساتھ ایک مضبوط، پائیدار اور اچھے معاہدے تک پہنچنے کیلیے روس کے چلنے والے راستے میں ایک واضح نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔
ویانا میں معاہدے تک پہنچنے کیلیے روس کی کوششوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں: امیر عبداللہیان
ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ ہم ویانا میں پابندیوں کے ہٹانے کے لیے مذاکرات میں معاہدے تک پہنچنے کیلیے روس کی تعمیری کوششوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے ایرانی صدر کے حالیہ دورہ روس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم آج دونوں ممالک کے تعلقات میں ہونے والی پیش رفت پر بات چیت کے لیے یہاں آئے ہیں۔ کسی بھی بین الاقوامی پیش رفت سے قطع نظر روس کے پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات کی ترقی اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے اہم ہے اور ڈاکٹر رئیسی کے حالیہ دورے اور مسٹر پیوٹن کے ساتھ حالیہ ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے درمیان اہم معاہدوں پر دستخط کئے گئے ہیں۔
امیر عبداللہیان نے بتایا کہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اور میں نے سنجیدگی سے دونوں صدور کےدرمیان معاہدوں کے نفاذ کیلیے پوری کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج یوکرین، افغانستان، یمن، شام، فلسطین اور دیگر بین الاقوامی مسائل میں پیش رفت پر بات چیت اور مشاورت کا ایک اہم موقع ہے۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ایرانی وفد کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ہم سیاسی سطح پر تفصیلی اور مسلسل بات چیت کر رہے ہیں جو ماسکو میں صدارتی سطح پر طے پانے والے معاہدوں پر عملدرآمد کا باعث بنے گی۔
انہوں نے دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان واقعات کے باوجود، دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 80 فیصد بڑھ کر تقریباً 4 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قدرتی طور پر، بین الاقوامی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان تعاون بہت اچھا ہے اور ہم آستانہ عمل کے فریم ورک میں شام کے بحران کو مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جوہری معاہدے کی بحالی کیلیے مذاکرات آخری مرحلے میں پہنچ گئے ہیں: لاوروف
روس کے وزیر خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران جوہری معاہدے کی بحالی سے متعلق بات چیت آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور دونوں ممالک تعاون کی نئی سطح کو حتمی شکل دینے کے لیے نئی دستاویزات تیار کر رہے ہیں۔
روس کی سپوتنک خبر رساں ایجنسی نے لاوروف کے حوالے سے کہا کہ ہم ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کے حل کے لیے جوہری معاہدے کی بحالی کے آخری مرحلے میں پہنچ چکے ہیں اسی لیے مجھے یقین ہے کہ اس معاہدے کا بہت امکان ہے۔
لاوروف نے کہا کہ ایران اور روس دونوں باہمی تعاون کی نئی سطح کو باضابطہ شکل دینے کے لیے نئی دستاویزات تیار کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے دعویداروں کی معنی دار خاموشی پر ایران کی نکتہ چینی
ایکنا نیوز کے مطابق ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے انسانی حقوق کے دعویدار ملکوں کے دوغلے موقف پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بے گناہوں کو سزائے موت دئے جانے پر ان کی خاموشی ایک مذموم حرکت ہے۔
صدر مملکت سید ابراہیم رئیسی نے سعودی عرب میں بے گناہ انسانوں کی سزائے موت پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی ملکوں کا دوہرا معیار اور انسانی حقوق کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرنا اور اسی طرح بے گناہوں کی سزائے موت پر انسانی حقوق کے دعویدار ملکوں کی خاموشی شدیدا قابل مذمت ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ممالک انسانی حقوق کے مسئلے کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ بین الاقوامی اداروں، تنظیموں اور اسی طرح دنیا کے آزاد ذرائع ابلاغ کو چاہئے کہ اس سلسلے میں اپنی خاموشی توڑیں۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں ہفتے کے روز اکیاسی افراد کو سزائے موت دی گئی ہے جن میں سے اکتالیس افراد شیعہ تھے۔ سعودی حکومت نے انہیں مختلف بہانوں سے گرفتار کر کے جیلوں میں بند کر دیا تھا اور پھر سزائے موت دیدی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کا حاج آیت اللہ سید محمد علی علوی گورگانی کی رحلت پر تعزیتی پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حاج سید محمد علی علوی گورگانی کی رحلت پر تعزیتی پیغام ارسال کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
﷽
آیت اللہ حاج سید محمد علی علوی گورگانی کی رحلت مدرسہ قم کو اور ان کے تمام شاگردوں، عقیدت مندوں اور تقلید کرنے والوں کو، خاص کر گلستان کے مومنین کو جو اس بزرگ اور ان کے والد محترم جناب حاج سید سجاد علوی سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے۔ ۔ میں ان سے اور ان کے معزز بچوں سے تعزیت کرتا ہوں۔
اس عظیم مجتہد نے انقلاب کے مختلف مسائل اور ملکی مسائل میں ہمیشہ عوام کے ساتھ وفاداری اور مقدس نظام کی حمایت کی ہے اور انہوں نے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں جن سے خدا کے فضل اور رحمت کا حصول ہوتا ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے ان کی سربلندی کے لیے دعا گو ہوں اور مجھے امید ہے کہ وہ اپنے پاکیزہ اجداد سے مل جائیں گے۔
taghribnews
اہل سنت علماء اور دانشوروں کی نظر میں امام مہدی(ع)
مہدویت کا نظریہ تمام ادیان میں پایا جاتا ہے، خواہ وہ الٰہی ادیان ہوں جیسے اسلام، مسیحیت، یہودیت یا غیر الٰہی جیسے بودیزم، صابئین وغیرہ۔ ان سب نے آخری زمانے میں ایک مصلح کے ظہور کرنے کی خبر دی ہے اور ان تمام مکاتب فکر کے پیروکار اسی پر اپنا عقیدہ بھی رکھتے ہیں۔ درحقیقت یہ تمام انسانوں کی ایک فطری خواہش ہے کہ دنیا سے ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو، تبعیض کی دیواریں منہدم ہوں اور پوری دنیا میں عدالت کا راج ہو۔ اسی فطری آواز کی تائید تمام آسمانی کتابوں نے بھی کی ہے اور اس کی کافی تاکید ہوئی ہے کہ اللہ تعالٰی کائنات کو ظلم، شرک اور بت پرستی سے نجات دے کر پاک کرے گا اور اپنے پاکیزہ اور صالح بندوں کو زمین کا وارث قرار دے گا۔ غرض سارے انسان اس دن کے منتظر ہیں کہ جس دن منجی ظاہر ہوں گے، ظلم و ستم کی دیواروں کو وہ منہدم کریں گے اور عدل و انصاف کا ایک عالمی نظام نافذ کریں گے، لیکن انسانی معاشرے میں مختلف افکار و اعتقادات رکھنے والے افراد کے ہونے کے باعث ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے عقیدے سے مطابقت رکھنے والی خاص خصوصیات کے ساتھ ان کے ظہور کی خوشخبری دی ہے۔(1)
لیکن اسلام جو فطرت انسانی کے عین مطابق ایک جامع نظام حیات اور تمام الٰہی شریعتوں کے نچوڑ کا نام ہے، اس حوالے سے خاص اہتمام کیا ہے، اہل سنت میں سے 120 سے زائد قدیم و جدید برجستہ علماء نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ شیعوں کے گیارہویں امام حضرت امام حسن العسکریؑ کے ہاں "ابوالقاسم محمد بن الحسن" نامی ایک بیٹا ہوا، ان کا لقب حجت، قائم، خلف صالح، منتظر اور مہدی ہیں، ساتھ ہی ان سب نے صراحت یا اجمال کے ساتھ اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ یہی اسلام کی نظر میں جو مہدی موعود ہے اس کا مصداق ہے، پیغمبر اکرمؐ نے بھی خبر دی ہے کہ مہدیؑ ظہور کرکے اس دنیا کو بحرانی حالت سے نکال کر وہ ایک عالمگیر حکومت قائم کریں گے۔(2)
ہم یہاں اس حوالے سے اہل سنت کے چار مشہور فرقوں کے علماء میں سے بعض برجستہ شخصیات کے اقوال کو ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
شافعی علماء کی نظر میں امام مہدیؑ:
بعض شافعی علماء امام مہدیؑ کی خصوصیات کے حوالے سے شیعوں کے ہم عقیدہ ہیں۔
کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی (متوفی قرن ہفتم ہجری): انھوں نے "مطالب السوال فی مناقب آل الرسول" کے آخری باب کو امام مہدیؑ سے مختص کیا ہے، ان کا اعتقاد ہے کہ امام مہدی امام حسن العسکریؑ کے فرزند ارجمند ہیں اور اب بھی قید حیات میں ہیں۔ اپنے اس مدعا کو ثابت کرنے کے لئے انھوں نے یہاں اہل سنت منابع سے متعدد روایات کو ذکر کرنے کے علاوہ مہدویت کے حوالے سے بعض شبہات کا جواب بھی دیا ہے۔
کنجی شافعی (متوفی قرن ہفتم ہجری) نے بھی اسی نظریئے کو اپنی کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان " میں بیان کیا ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ میں نے اس کتاب کی جمع آوری میں شیعہ روایات کو نقل کرنے سے اجتناب کیا ہے، خواہ ان کی سند صحیح ہی کیوں نہ ہو، یہ صرف ان کے لئے مفید ہے اور غیر شیعہ روایات سے استدلال اس مسئلے کی اہمیت کو زیادہ اجاگر کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے: مہدیؑ کے باقی ہونے میں کوئی ممنوعیت نہیں ہے کیونکہ اولیاء خدا میں سے عیسٰیؑ، الیاسؑ اور خضر ؑ زندہ ہیں، ساتھ ہی دشمنان خدا ہونے کے باوجود شیطان اور دجال بھی زندہ ہیں، ان کا زندہ ہونا قرآن و سنت سے ثابت ہے، جب ان کے حوالے سے سب کا اجماع ہے، لہذا امام مہدیؑ کا بھی طولانی مدت تک زندہ رہنا بھی کوئی بعید نہیں ہے۔
(اسماعیل بن کثیر 774ہجری): انھوں نے اپنی کتاب "النھایہ فی الفتن و الملاحم" میں ایک باب "فصل فی ذکر المھدی الذی یکون فی آخر الزمان" کھولا ہے، اس فصل کی ابتداء میں وہ لکھتے ہیں: مہدیؑ خلفاء راشدین اور ہدایت کرنے والے اماموں میں سے ہوگا، رسول خداؐ سے ان کے بارے میں روایات منقول ہیں، ان روایات کی صراحت یہ ہے کہ حضرت آخرالزمان میں آئیں گے اور میری نظر میں ان کا ظہور عیسٰیؑ کی آمد سے پہلے ہوگا، مہدی موعود ؑ رسول خدا کی ذریت سے فاطمہ زہراؑ کی اولاد میں سے ہوں گے۔
سعدالدین تفتازانی (متوفی793ہجری): انھوں نے اپنی کتاب "شرح المقاصد" کی بحث امامت میں امام مہدیؑ کے ظہور کو موضوع بحث قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: صحیح (السند) روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ فاطمہؑ کی نسل سے ایک پیشوا ظہور کریں گے، وہ دنیا کو ظلم و جور سے بھر جانے کے بعد عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
جلال الدین سیوطی (متوفی911ہجری) یہ اہل سنت کے بارز اہل قلم علماء میں سے ہیں، اس نے تفسیر، حدیث اور علوم قرآنی جیسے مختلف موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہدیؑ ان بارہ خلیفوں میں سے ایک ہیں، جن کا نام جابری سمرہ کی حدیث میں آیا ہے۔ مہدی ؑ عباس بن عبدالمطلب کے بیٹوں میں سے ایک نہیں ہوسکتے، "لامھدی الا عیسی بن مریم" والی حدیث ضعیف ہے کیونکہ مہدی ؑ کے ظہور پر متواتر روایات دلالت کرتی ہیں اور وہ رسول خدا کے فرزندوں میں سے ہوں گے اور عیسٰی ؑ ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔
ابن حجر ہیتمی (متوفی974ہجری) نے اپنی کتاب"الصواعق المحرقہ" میں فضائل اہل بیت سے متعلق بارہویں آیت کو نقل کرنے کے بعد امام مہدیؑ سے مربوط روایات کو کافی تفصیل کے ساتھ اہل سنت منابع سے ذکر کرنے کے بعد ان کا کہنا ہے: بہترین قول یہ ہے کہ مہدیؑ کا خروج عیسٰیؑ کے ظہور سے پہلے ہوگا، البتہ بعض نے ان کے بعد کا بھی ذکر کیا ہے۔ ابوالحسن آبری کا کہنا ہے: مہدیؑ کے ظہور سے متعلق جو روایات رسول خداؐ سے نقل ہوئی ہیں وہ متواتر و مستفیض ہیں، ان کی دلالت یہ ہے کہ ان کا تعلق پیغمبر اکرمؐ کی اہل بیت سے ہوگا، وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، عیسٰیؑ کے ساتھ خروج کریں گے اور وہ دجال کو "لد" فلسطین میں قتل کرنے کے لئے عیسٰی ؑ کی مدد کریں گے، وہ اس امت کے امام ہوں گے اور عیسٰیؑ ان کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے۔ ابن حجر نے ابی القاسم محمد الحجہ کے حالات کو یوں ذکر کیا ہے: ان کے والد (گرامی) کی وفات کے وقت ان کی عمر پانچ سال تھی، اسی عمر میں اللہ تعالٰی نے انھیں حکمت عطا کی تھی۔
حنبلی علماء کی نظر میں امام مہدیؑ:
امام احمد بن حنبل (متوفی241ہجری) یہ حنبلی مذہب کے سربراہ ہیں اور ان کے سب سے قدیمی اور مفصل حدیثی کتاب کے مؤلف بھی ہیں۔ انھوں نے اس حدیثی مجموعے میں امام مہدیؑ کے حوالے سے متعدد روایات نقل کی ہیں، بعد میں ان احادیث کو الگ سے ایک کتابی صورت دی گئی ہے، "احادیث المہدی ؑ من مسند احمد بن حنبل" کے یہ عنوان سے یہ کتاب چھپی ہے۔ اس کتاب میں 136 احادیث کو مسند احمد سے استخراج کیا گیا ہے اور ان کو چند ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، اس میں امامؑ کے ظہور کی نشانیاں، ظہور کا وقت اور اس وقت کی وضعیت کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
ابن تیم جوزیہ حنبلی (متوفی 751ہجری): یہ اہل سنت کے مشہور اہل قلم میں سے ہیں، انھوں نے اپنی کتاب "المنار المنیف فی الصحیح و الضعیف" کی پانچویں فصل کو امام مہدیؑ سے متعلق بحث سے مختص کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے (روایات میں) تواتر پایا جاتا ہے کہ حضرت کا تعلق سے اہل بیت رسول خداؐ سے ہے، ظہور کے وقت عیسٰیؑ بھی آئیں گے اور ان کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے۔
یحیی بن محمد حنبلی (متوفی قرن دہم): اس نے مہدویت کے کسی مدعی اور اصل مہدویت کے منکروں کے جواب میں یوں لکھا ہے: تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں، جس نے اپنے اذن سے اس مورد میں حق کی طرف ہماری ہدایت فرمائی، جس میں لوگ اختلاف میں پڑے تھے، مذکورہ عقیدہ بغیر کسی شک و شبہ کے باطل ہے، کیونکہ اس کا لازمہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے جو صحیح روایات آئی ہیں، ان سب کو رد کرنا ہے، ان روایات میں مہدیؑ کے آخری زمانے میں ظہور کی خبر دی گئی ہے، ساتھ ہی ان کی انفرادی خصوصیات اور ظہور کے وقت پیش آنے والے واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے، مہدیؑ کے ظہور کی مہم ترین علامات میں سے ایک کہ جس کا کوئی اور ادعا بھی نہیں کرسکتا یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ آسمان سے اتر آئیں گے اور امام مہدیؑ کے پہلو میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے۔ اسی طرح دجال خروج کرے گا اور وہ مارا جائے گا، جو مہدی موعودؑ کی تکذیب کرے تو ایسے شخص کے کافر ہونے کے حوالے سے رسول خداؐ نے خبر دے رکھی ہے۔
حنفی علماء کی نظر میں امام مہدیؑ:
بعض حنفی علماء اور اہل قلم نے بھی مہدویت اور مہدی آخرالزمان پر اعتقاد کے حوالے سے بہترین اور باارزش آثار تحریر کئے ہیں، بعض موارد میں امام مہدی ؑ کے ظہور پر اعتقاد کے علاوہ شیعوں کی مانند ان کے زندہ ہونے پر بھی اعتقاد رکھنے کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں بعض علماء کا تذکرہ کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں:
ابن جوزی (متوفی650ہجری): اس نے اپنی مشہور کتاب "تذکرۃ خواص الامۃ فی خصائص الائمہ علیھم السلام" میں الگ ایک فصل امام مہدی ؑ سے مختص کیا ہے اور مختلف جہات سے اس میں بحث کی گئی ہے، اس فصل کی ابتدا میں امام کا سلسلہ نسب بیان کرنے کے بعد اہل سنت منابع سے امام مہدیؑ کے حوالے سے روایات کو ذکر کیا ہے، پھر امام مہدی ؑ کے زندہ ہونے پر شیعہ نظریئے اور دلائل کو بیان کرنے کے بعد اسے منطقی اور قابل قبول قرار دیا ہے۔
ابن طولون دمشقی (متوفی935ہجری): یہ حدیث، فقہ اور تاریخ میں صاحب نظر شمار ہوتے ہیں، انہوں نے بھی مختلف موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے، ان کی ایک کتاب "الائمہ الاشاعہ" ہے، اس کا ایک حصہ انھوں نے "الحجۃ المھدی" سے مختص کیا ہے، یہاں انہوں نے امام مہدیؑ کے حوالے سے بحث میں امام مہدیؑ کی ولادت اور آپ کے زندہ ہونے کا تذکرہ بھی کیا ہے۔
عبدالوہاب شعرانی (متوفی973ہجری): یہ اپنی کتاب "الیواقیت و الجواھر" میں امام مہدی ؑ کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں: وہ (امام مہدیؑ) امام عسکریؑ کے بیٹوں میں سے ہیں، ان کی ولادت نیمہ شعبان 255 ہجری کو ہوئی اور وہ عیسٰیؑ کی آمد تک زندہ رہیں گے۔
سلیمان بن ابراہیم قندوزی (متوفی1294ہجری): انھوں نے اپنی مشہور کتاب "ینابیع المودۃ" کو اہل بیتؑ کے فضائل کے بیان سے مختص کیا ہے، اس کا زیادہ تر حصہ امام مہدیؑ سے مربوط ابحاث پر مشتمل ہے، اس کتاب میں انھوں نے ان آیات کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کی تاویل و تفسیر امام مہدیؑ سے مختص ہیں، علاوہ ازیں ان کے حوالے سے بہت ساری روایات کو مختلف منابع سے نقل کیا ہے، ساتھ ہی وہ روایات جن میں بارہ خلیفوں کا تذکرہ آیا ہے اور ان کے بارے میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ موصوف نے اسی کتاب کے ایک اور باب میں امام ؑ سے جو خارق العادہ امور انجام پائے ہیں، ان کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان افراد کا بھی ذکر کیا ہے،جنہوں نے غیبت کے زمانے میں امام مہدی ؑسے ملاقات کی ہے۔
ابوالبرکات آلوسی (متوفی1371ہجری): انھوں نے اپنی کتاب "غایۃ المواعظ" میں قیامت واقع ہونے کی نشانیوں میں امام مہدی ؑ کے ظہور کو بھی ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر علماء اور دانشوروں کے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ امام مہدیؑ کا ظہور و خروج بھی ان نشانیوں میں سے ہیں۔
امام مہدیؑ مالکیوں کی نگاہ میں:
اس فرقے کے علماء نے بھی دوسرے مذاہب کے علماء کی مانند ظہور و فرج امام مہدی کو اپنے اعتقادات کا حصہ قرار دیا ہے، ساتھ ہی اس بات پر بھی تاکید کی گئی ہے کہ یہ حقیقت و واقعیت تحریروں اور آثار میں مکمل طور پر نمایاں ہیں۔
قرطبی مالکی (متوفی671ہجری): ان کا شمار مشہور اہل سنت علماء اور اہل قلم میں ہوتا ہے، ان کی بہت ساری کتابیں ہیں، ان میں سے ایک "التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الآخرۃ" ہے اس کتاب میں انہوں نے چند ابواب کو امام مہدیؑ سے مختص کیا ہے۔ انھوں نے اہل سنت منابع سے متعدد روایات کو امام مہدیؑ کے حوالے سے ذکر کیا ہے، ان احادیث میں سے بعض کی وضاحت میں انھوں نے خود بھی امام مہدی ؑ سے مربوط کچھ مطالب ذکر کئے ہیں۔ انھوں نے سورہ توبہ کی تینتیسویں آیت جس میں اللہ تعالٰی نے دین اسلام کے غلبے کا وعدہ دیا ہے، کی تفسیر میں اس زمانے کو امام زمانؑ کے ظہور کے زمانے سے تطبیق دی ہے۔
ابن صباغ مالکی (متوفی855ہجری): یہ اپنے زمانے کے مالکی فرقے کے بزرگ علماء میں سے ہیں۔ ان کی ایک کتاب "الفصول المھمۃ فی معرفۃ احوال" میں امام مہدیؑ کی شخصیت، ان کے ظہور کی کیفیت، ان کی تشکیل حکومت کا ذکر کرنے کے بعد ایسی شخصیت کی آمد کے حوالے سے تمام اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے معتقد ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی بارہویں فصل میں انھوں نے امام ؑ کی شرح حال، ان کی خصوصیات کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مباحث من جملہ امام مہدی ؑ کے حوالے سے متعدد احادیث ذکر کی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ بھی امام مہدیؑ کی ولادت باسعادت اور ان کے قید حیات میں ہونے کے معتقد ہیں۔
شیخ محمد الصبان (متوفی1307ہجری): انھوں نے اپنی کتاب "اسعاف الراغبین" میں ایک باب امام مہدی ؑ سے مختص کیا ہے۔ اس میں انھوں نے امام کا نسب، محل ظہور اور ظہور کی نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے، اس حوالے سے مختلف روایات کو ذکر کرنے کے علاوہ ان مطالب کی تائید میں محی الدین عربی اور شعرانی جیسے بزرگ علماء سے مختلف مطالب ذکر کئے ہیں۔
محمد بن جعفر بن ادریس الکتانی المالکی (متوفی1345ہجری): اپنی کتاب "نظم المتناثر من الحدیث المتواتر" جس میں متواتر احادیث کو جمع کیا گیا ہے، امام مہدیؑ سے مربوط روایات کو بھی متواتر احادیث میں سے قرار دینے کے علاوہ مشہور و معروف اہل سنت دانشوروں کے حوالوں کے ساتھ اس کی تائید بھی لائے ہیں، علاوہ ازیں وہ یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ امام مہدیؑ کی آمد اور ظہور ان احادیث کی بنیاد پر واضح اور بدیہی ہے، ساتھ ہی جو وعدے ان روایات میں دیئے گئے ہیں، وہ بھی بدیہی حتمی ہیں۔(3)
ابن ابی ثلج بغدادی (326) کا کہنا ہے: محمد بن الحسن کی ولادت کے وقت حضرت عسکری نے فرمایا: دشمن مجھے قتل کرنے کے درپے تھے، تاکہ ہماری نسل ختم کرے، لیکن انھوں نے خدا کی طاقت کا مشاہدہ کیا اور اسے (امام مہدی کو) امید انسانیت قرار دیا۔ ائمہ کی مائیں والی فصل میں ان کا کہنا ہے کہ قائم کی ماں حکیمہ ہے، جسے نرجس اور سوسن کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں، محمد بن ہمام نے کہا: حکیمہ حضرت عسکری کی پھوپھی ہیں، اسی نے ہی صاحب الزمان کی ولادت کو نقل کیا ہے، ساتھ ہی اسی نے نقل کیا ہے کہ ان کی ماں "نرجس" ہے۔
علی بن حسین مسعودی (346م) کا کہنا ہے: ابو محمد حسن بن علی...بن حسین بن علی بن ابیطالب 260 ہجری کو خلافت معتمد کے زمانے میں 29 سال کی عمر میں وفات پاگئے، یہی مہدی منتظر، امامیہ کے بارہویں امام کے والد ہیں۔ ابوبکر خوارزمی (383م) نے اپنی کتاب مفاتیح العلوم میں امامیہ کے نزدیک ائمہ کی صفات کے باب میں لکھا ہے کہ علی مرتضٰی، حسن مجتبٰی، حسین سید الشہداء...حسن العسکری، محمد مہدی القائم المنتظر، شیعوں کے نزدیک نہ یہ مرا ہے اور نہ مرے گا، یہاں تک کہ یہ زمین کو ظلم وجور سے بھر جانے کے بعد عدل و انصاف سے بھر دے گا۔(4)
ان کے علاوہ عصر حاضر کے مشہور دانشور شیخ منصور علی ناصف جامعۃ الاظہر مصر نے "التاج" نامی کتاب میں اہلسنت کے صحاح ستہ کی روایات کی جمع آوری کی ہے، اس کتاب پر مصر کے صف اول کے پانچ علماء نے تقریظ بھی لکھی ہے اور غایۃ المامول کے نام سے اس کی شرح کو بھی ساتھ ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کی پانچویں جلد میں صحاح ستہ میں امام زمان ؑ سے مربوط معتبر روایات کو اس عنوان کے ساتھ ذکر کیا ہے: "ساتویں فصل خلیفہ مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں" اس کے بعد ان روایات کی شرح اس نے یوں کی ہے: گذشتہ اور موجودہ اہل سنت علماء کے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ آخری زمانے میں سلالہ پیغمبر سے ایک ہستی "مہدی" کے نام سے ظہور کرے گی، اسلامی ممالک پر وہ مسلط ہوں گے، مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کی پیروی کریں۔ مہدی لوگوں کے درمیان عدالت برقرار کریں گے اور دین اسلام کی حمایت کریں گے۔ ان کے ظہور کے بعد دجال بھی ظاہر ہوگا، عیسی ابن مریم آسمان سے اتر کر اسے قتل کرے گا، یا وہ مہدی کی مدد سے اسے قتل کرے گا۔ مہدی سے مربوط احادیث کو پیغمبر اکرمؐ کے برگزیدہ اصحاب میں سے ایک گروہ نے نقل کیا ہے، اور ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، طبرانی، ابو یعلی، بزاز، امام احمد(بن حنبل) و حاکم (نیشاپوری) رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے بڑے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔(5)
غرض مہدویت ایک عالمگیر نظریہ ہے، بالخصوص تمام اسلامی مکاتب فکر میں یہ اعتقاد پایا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی نسل سے ایک باعظمت ہستی نے آکر ظلم و جور کو عدل و انصاف میں بدل کر فطرت انسانی کے عین مطابق ایک خدائی نظام نافذ کرے گا، علماء قدیم و جدید میں سے تمام بڑے علماء نے اسے اپنے اعتقاد کا حصہ قرار دیا ہے، آج کے دور میں اگر کوئی مہدویت کا انکار کرے تو گویا اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں، ایسا شخص امام مہدی کے منکر ہونے کے ساتھ ساتھ تمام علماء و اسلاف کو جھٹلانے والا ہوگا۔
____________________
1۔ العہدالعتیق،ج5، ص92،انجیل لوقا، باب21، ناقل حضرت مہدی در روایات شیعہ و سنی، احمد علی طاہری ورسی، ص13
2۔ دانشمندان عامہ و مہدی موعود، علی دوانی، ص2
3۔ امام مہدی علیہ السلام در مذاہب چہارگانہ اہلسنت، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، 1386، شمارہ91
4۔ دانشمندان عامہ، ایضاً
5۔ ایضاً
تحریر: ایس ایم شاہ
ماہ شعبان کی فضیلت واعمال(حصہ دوم)
﴿۱﴾ ہر روز ستر مرتبہ کہے :اَسْتغْفِرُ اﷲ وَ اَسْئَلُه التَّوْبَةَ
﴿۲﴾ ہر روز ستر مرتبہ کہے : اَسْتغْفِرُ اﷲ الَّذِیْ لَا
بخشش چاہتا ہوں اﷲ سے اور توبہ کی توفیق مانگتا ہوں بخشش کا طالب ہوں اﷲ سے کہ جس کے سوا کوئی
اِلَه اِلَّا هوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَیْهبعضروایات میں الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ کے الفاظ
معبودنہیں وہ بخشنے والا مہربان ہے زندہ نگہبان ہے اورمیں اسکے حضور توبہ کرتا ہوں زندہ و پائندہ بخشنے والا مہربان
الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ سے قبل ذکر ہوئے ہیں۔
بخشنے والا مہربان
پس جیسے بھی عمل کرے مناسب ہے روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کا بہترین عمل استغفار ہے اور اس مہینے میں ستر مرتبہ استغفار کرنا گویا دوسرے مہینوں میں ستر ہزار مرتبہ استغفار کرنے کے برابر ہے۔
﴿۳﴾ صدقہ دے اگرچہ وہ نصف خرما ہی کیوں نہ ہو، اس سے خدا اسکے جسم پر جہنم کی آگ کو حرام کردے گا ۔
امام جعفر صادق -سے ماہ رجب کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایاتم ماہ شعبان کے روزے سے کیوں غافل ہو ؟ راوی نے عرض کی ، فرزند رسول(ص) ! شعبان کے ایک روزے کا ثواب کس قدر ہے؟ فرمایا قسم بخدا کہ اس کااجر و ثواب بہشت ہے۔ اس نے عرض کی۔ اے فرزند رسول(ص) ! اس ماہ کا بہترین عمل کیا ہے؟ فرمایا کہ صدقہ و استغفار ، جو شخص ماہ شعبان میں صدقہ دے ۔ پس خدا اس صدقے میں اس طرح اضافہ کرتا رہے گا، جیسے تم لوگ اونٹنی کے بچے کو پال کر عظیم الجثہ اونٹ بنا دیتے ہو چنانچہ یہ صدقہ قیامت کے روز احد کے پہاڑ کی مثل بڑھ چکا ہوگا۔
﴿۴﴾ پورے ماہ شعبان میں ہزار مرتبہ کہے:
لاَ اِلٰه اِلَّا اﷲ وَلَا نَعْبُدُ اِلَّا اِیَّاه مُخْلِصِیْنَ لَه الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِه الْمُشْرِکِیْنَ
اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہم عبادت نہیں کرتے مگر اسی کی ہم اس کے دین سے خلوص رکھتے ہیں اگرچہ مشرکوں پر ناگوار گزرے
اس ذکر کا بہت زیادہ ثواب ہے، جس میں ایک جز یہ ہے کہ جو شخص مقررہ تعداد میں یہ ذکر کرے گا اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار سال کی عبادت کا ثواب لکھ دیا جائے گا ۔
﴿۵﴾ شعبان کی ہر جمعرات کو دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد سو مرتبہ سورہ توحید پڑھے اور نماز کے بعد سو مرتبہ درود شریف پڑھے تاکہ خدا دین و دنیا میں اس کی ہر نیک حاجت پوری فرمائے واضح ہو کہ روزے کا اپنا الگ اجر و ثواب ہے اور روایت میں آیا ہے کہ شعبان کی ہر جمعرات کو آسمان سجایا جاتا ہے تو ملائکہ عرض کرتے ہیں ، خدایا آج کا روزہ رکھنے والوں کوبخش دے اور ان کی دعائیں قبول کر لے۔ ایک حدیث میں مذکور ہے کہ اگر کوئی شخص ماہ شعبان میں سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھے تو خدا وند کریم دنیا و آخرت میں اس کی بیس بیس حاجات پوری فرمائے گا۔
﴿۶﴾ ماہ شعبان میں درود شریف بکثرت پڑھے۔
﴿۷﴾ شعبان میں ہر روز وقت زوال اور پندرہ شعبان کی رات کو امام زین العابدین- سے مروی صلوات پڑھے:
اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ شَجَرَة النُّبُوَّة، وَمَوضِعِ الرِّسالَة، وَمُخْتَلَفِ
اے معبود! محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو نبوت کا شجر رسالت کا مقام، فرشتوں کی آمد و رفت
الْمَلائِکَة وَمَعْدِنِ الْعِلْمِ، وَٲَهلِ بَیْتِ الْوَحْیِ ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ
کی جگہ، علم کے خزانے اور خانہ وحی میں رہنے والے ہیں اے معبود! محمد(ص) وآل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما
الْفُلْکِ الْجارِیَة فِی اللُّجَجِ الْغامِرَة، یَٲْمَنُ مَنْ رَکِبَها، وَیَغْرَقُ مَنْ تَرَکَها، الْمُتَقَدِّمُ
جو بے پناہ بھنوروں میں چلتی ہوئی کشتی ہیں کہ بچ جائے گا جو اس میں سوار ہوگا اور غرق ہوگا جو اسے چھوڑ دے گا ان سے آگے نکلنے والا
لَهمْ مارِقٌ، وَالْمُتَٲَخِّرُ عَنْهمْ زاهقٌ، وَاللاَّزِمُ لَهمْ لاحِقٌ ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ
دین سے خارج اور ان سے پیچھے رہ جانے والا نابود ہو جائے گا اور ان کے ساتھ رہنے والا حق تک پہنچ جائے گا اے معبود! محمد(ص)
وَآلِ مُحَمَّدٍ الْکَهفِ الْحَصِینِ، وَغِیاثِ الْمُضْطَرِّ الْمُسْتَکِینِ، وَمَلْجَاََ الْهارِبِینَ
و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو پائیدار جائے پناہ اور پریشان و بے چارے کی فریاد کو پہنچنے والے، بھاگنے اور ڈرنے والے کیلئے جائے
وَعِصْمَة الْمُعْتَصِمِینَ ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ صَلاة کَثِیرَة تَکُونُ
امان اور ساتھ رہنے والوں کے نگہدار ہیں اے معبود محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما بہت بہت رحمت کہ جوان کے لیے وجہ خوشنودی
لَهمْ رِضاً وَ لِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ٲَدائً وَقَضائً بِحَوْلٍ مِنْکَ وَقُوَّة یَا رَبَّ الْعالَمِینَ
اور محمد(ص) وآل محمد(ع) کے واجب حق کی ادائیگی اور اس کے پورا ہونے کاموجب بنے تیری قوت و طاقت سے اے جہانوں کے پروردگار
اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ الطَّیِّبِینَ الْاَ بْرارِ الْاَخْیارِ الَّذِینَ ٲَوْجَبْتَ
اے معبود محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو پاکیزہ تر، خوش کردار اور نیکو کار ہیںجن کے حقوق تو نے واجب کیے
حُقُوقَهمْ وَفَرَضْتَ طاعَتَهمْ وَوِلایَتَهمْ ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاعْمُرْ
اور تو نے ان کی اطاعت اور محبت کو فرض قرار دیا ہے اے معبود محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور میرے دل کو اپنی
قَلْبِی بِطاعَتِکَ وَلاَ تُخْزِنِی بِمَعْصِیَتِکَ وَارْزُقْنِی مُواساة مَنْ قَتَّرْتَ عَلَیْه مِنْ رِزْقِکَ
اطاعت سے آباد فرما اپنی نافرمانی سے مجھے رسوا و خوار نہ کر اور جس کے رزق میں تو نے تنگی کی ہے مجھے اس سے ہمدردی کرنے کی
بِما وَسَّعْتَ عَلَیَّ مِنْ فَضْلِکَ، وَنَشَرْتَ عَلَیَّ مِنْ عَدْلِکَ، وَٲَحْیَیْتَنِی تَحْتَ ظِلِّکَ
توفیق دے کیونکہ تو نے اپنے فضل سے میرے رزق میں فراخی کی مجھ پر اپنے عدل کوپھیلایا اور مجھے اپنے سائے تلے زندہ رکھا ہے
وَهذا شَهرُ نَبِیِّکَ سَیِّدِ رُسُلِکَ شَعْبانُ الَّذِی حَفَفْتَه مِنْکَ بِالرَّحْمَة وَالرِّضْوانِ الَّذِی
اور یہ تیرے نبی(ص) کا مہینہ ہے جو تیرے رسولوں کے سردار ہیں یہ ماہ شعبان جسے تو نے اپنی رحمت اور رضامندی کے ساتھ گھیرا ہوا ہے
کانَ رَسُولُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْه وَآلِه وَسَلَّمَ یَدْٲَبُ فِی صِیامِه وَقِیامِه فِی لَیالِیه
یہ وہی مہینہ ہے جس میں حضرت رسول اپنی فروتنی سے دنوں میں روزے رکھتے اور راتوں میں صلوٰۃ و قیام کیا کرتے تھے
وَٲَیَّامِه بُخُوعاً لَکَ فِی إکْرامِه وَ إعْظامِه إلی مَحَلِّ حِمامِه اَللّٰهمَّ فَٲَعِنَّا عَلَی
تیری فرمانبرداری اور اس مہینے کے مراتب و درجات کے باعث وہ زندگی بھر ایسا ہی کرتے رہے اے معبود! پس اس مہینے میں ہمیں
الاسْتِنانِ بِسُنَّتِه فِیه، وَنَیْلِ الشَّفاعَة لَدَیْه اَللّٰهمَّ وَاجْعَلْه لِی شَفِیعاً مُشَفَّعاً،
ان کی سنت کی پیروی اور ان کی شفاعت کے حصول میں مدد فرما اے معبود؛ آنحضرت(ص) کو میرا شفیع بنا جن کی شفاعت مقبول ہے اور
وَطَرِیقاً إلَیْکَ مَهیَعاً وَاجْعَلْنِی لَه مُتَّبِعاً حَتّی ٲَلْقاکَ یَوْمَ الْقِیامَة عَنِّی راضِیاً، وَعَنْ
میرے لیے اپنی طرف کھلا راستہ قرار دے مجھے انکا سچا پیروکار بنادے یہاں تک کہ میںروز قیامت تیرے حضور پیش ہوں جبکہ تو مجھ
ذُ نُوبِی غاضِیاً، قَدْ ٲَوْجَبْتَ لِی مِنْکَ الرَّحْمَۃَ وَالرِّضْوانَ، وَٲَ نْزَلْتَنِی دارَ الْقَرارِ
سے راضی ہو اور میرے گناہوں سے چشم پوشی کرے ایسے میں تو نے میرے لیے اپنی رحمت اور خوشنودی لازم کر رکھی ہو اور مجھے
وَمَحَلَّ الْاَخْیارِ ۔
دارالقرار اور صالح لوگوں کے ساتھ رہنے کی مہلت دے
﴿۸﴾ابن خالویہ سے روایت ہے کہ امیرالمومنین -اور ان کے فرزندان ماہ شعبان میں روزانہ جو مناجات پڑھا کرتے تھے وہ یہ ہے:
اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاسْمَعْ دُعائِی إذا دَعَوْتُکَ، وَاسْمَعْ نِدائِی إذا
اے معبود! محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور جب میں تجھ سے دعا کروں تو میری دعا سن جب میں تجھے پکاروں تو میری
نادَیْتُکَ وَٲَ قْبِلْ عَلَیَّ إذا ناجَیْتُکَ فَقَدْ هرَبْتُ إلَیْکَ وَوَقَفْتُ بَیْنَ یَدَیْکَ مُسْتَکِیناً لَکَ
پکار کو سن جب میں تجھ سے مناجات کروں تو میری پر توجہ فرما کہ تیرے ہاں تیزی سے آیا ہوں میں تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں اپنی بے
مُتَضَرِّعاً إلَیْکَ راجِیاً لِما لَدَیْکَ ثَوابِی وَتَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَتَخْبُرُ
چارگی تجھ پر ظاہر کر رہا ہوں تیرے سامنے نالہ و فریاد کرتا ہوں اپنے اس ثواب کی امید میں جو تیرے ہاں ہے اور تو جانتا ہے جو کچھ
حاجَتِی وَتَعْرِفُ ضَمِیرِی، وَلاَ یَخْفی عَلَیْکَ ٲَمْرُ مُنْقَلَبِی وَمَثْوایَ
میرے دل میں ہے تو میری حاجت سے آگاہ ہے اور تو میرے باطن سے باخبر ہے دنیا اور آخرت میں میری حالت تجھ پرمخفی نہیں اور
وَما ٲُرِیدُ ٲَنْ ٲُبْدِیََ بِه مِنْ مَنْطِقِی، وَٲَ تَفَوَّہَ بِه مِنْ طَلِبَتِی، وَٲَرْجُوه لِعاقِبَتِی، وَقَدْ
جس کا میں ارادہ کرتا ہوں کہ زبان پر لاؤں اور اسے بیان کروں اور اپنی حاجت ظاہر کروں اور اپنی عافیت میں ا س کی امید رکھوںتو
جَرَتْ مَقادِیرُکَ عَلَیَّ یَا سَیِّدِی فِیما یَکُونُ مِنِّی إلی آخِرِ عُمْرِی مِنْ سَرِیرَتِی
یقینا تیرے مقدرات مجھ پر جاری ہوئے اے میرے سردار جو میں آخر عمر تک عمل کروں گا میرے پوشیدہ اور ظاہرا کاموں میں سے
وَعَلانِیَتِی وَبِیَدِکَ لاَ بِیَدِ غَیْرِکَ زِیادَتِی وَنَقْصِی وَنَفْعِی وَضَرِّی إلهی إنْ حَرَمْتَنِی
اور میری کمی بیشی اور نفع و نقصان تیرے ہاتھ میں ہے نہ کہ تیرے غیر کے ہاتھ میں میرے معبود! اگر تو نے مجھے محروم کیا
فَمَنْ ذَا الَّذِی یَرْزُقُنِی وَ إنْ خَذَلْتَنِی فَمَنْ ذَا الَّذِی یَنْصُرُنِی إلهی ٲَعُوذُ بِکَ مِنْ
تو پھر کون ہے جو مجھے رزق دے گا اور اگر تو نے مجھے رسو کیا تو پھر کون ہے جو میری مدد کرے گا میرے معبود! میں تیرے غضب اور تیرا
غَضَبِکَ وَحُلُولِ سَخَطِکَ إلهی إنْ کُنْتُ غَیْرَ مُسْتَٲْهلٍ لِرَحْمَتِکَ فَٲَنْتَ ٲَهلٌ ٲَنْ تَجُودَ
عذاب نازل ہونے سے تیری پناہ مانگتا ہوںمیرے معبود: اگر میں تیری رحمت کے لائق نہیں پس تو اس چیز کا اہل ہے کہ مجھ پر اپنے
عَلَیَّ بِفَضْلِ سَعَتِکَ إلهی کَٲَ نِّی بِنَفْسِی واقِفَه بَیْنَ یَدَیْکَ وَقَدْ ٲَظَلَّها حُسْنُ تَوَکُّلِی
عظیم تر فضل سے عطا و عنایت فرمائے میرے معبود! گویا میں خود تیرے سامنے کھڑا ہوں اور تجھ پر میرے حسن اعتماد اور توکل کا سایہ
عَلَیْکَ فَقُلْتَ مَا ٲَ نْتَ ٲَهلُه وَتَغَمَّدْتَنِی بِعَفْوِکَ ۔ إلهی إنْ عَفَوْتَ
پڑرہا ہے پس تو نے وہی کچھ کیا جو تیری شان کے لائق ہے اور تو نے مجھے اپنے دامن عفو میں لے لیا میرے معبود: اگر تو مجھے معاف
فَمَنْ ٲَوْلی مِنْکَ بِذلِکَ وَ إنْ کانَ قَدْ دَنا ٲَجَلِی وَلَمْ یُدْنِنِی مِنْکَ عَمَلِی فَقَدْ جَعَلْتُ
کرے تو کون ہے جو اس کا تجھ سے زیادہ اہل ہو اور اگر میری موت قریب آگئی ہے اور میرا کردار مجھے تیرے قریب کرنے والا نہیں تو
الْاِقْرارَ بِالذَّنْبِ إلَیْکَ وَسِیلَتِی ۔ إلهی قَدْ جُرْتُ عَلی نَفْسِی فِی النَّظَرِ لَها فَلَھَا
میں نے اپنے گناہ کے اقرار کو تیری جناب میں اپنا وسیلہ قرار دے لیا ہے میرے معبود! میںنے اپنے نفس کی تدبیر میں اس پر ظلم کیا
الْوَیْلُ إنْ لَمْ تَغْفِرْ لَها ۔ إلهی لَمْ یَزَلْ بِرُّکَ عَلَیَّ ٲَیَّامَ حَیاتِی فَلا تَقْطَعْ بِرَّکَ عَنِّی
اگر تو اسے بخشے تو یہ ہلاکت وبربادی ہے میرے معبود ایام زندگی میں تیرا احسان ہمیشہ مجھ پر ہوتا رہا پس بوقت موت اسے مجھ سے قطع
فِی مَماتِی ۔ إلهی کَیفَ آیَسُ مِنْ حُسْنِ نَظَرِکَ لِی بَعْدَ مَماتِی وَٲَ نْتَ لَمْ تُوَلِّنِی إلاَّ
نہ فرما میرے معبود! میں مرنے کے بعد تیرے عمدہ التفات سے کیونکر مایوس ہوں گا جبکہ میں نے اپنی زندگی میں تیری طرف سے
الْجَمِیلَ فِی حَیَاتِی ۔ إلهی تَوَلَّ مِنْ ٲَمْرِی مَا ٲَ نْتَ ٲَهلُه، وَعُدْ عَلَیَّ بِفَضْلِکَ عَلی
سوائے نیکی کے کچھ اور نہیں دیکھا میرے معبود! میرے امور کا اس طرح ذمہ دار بن جو تیرے شایاں ہے اور مجھ گنہگار پر اپنے فضل
مُذْنِبٍ قَدْ غَمَرَه جَهلُه ۔ إلهی قَدْ سَتَرْتَ عَلَیَّ ذُ نُوباً فِی الدُّنْیا وَٲَ نَا ٲَحْوَجُ إلی
سے توجہ فرما جسے نادانی نے گھیر رکھا ہے میرے معبود! تو نے دنیا میں میرے گناہوں کی پردہ پوشی فرمائی جبکہ میں آخرت میں
سَتْرِها عَلَیَّ مِنْکَ فِی الاَُْخْری إذْ لَمْ تُظْهرْها لاََِحَدٍ مِنْ عِبادِکَ الصَّالِحِینَ
اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کا زیادہ محتاج ہوں میرے معبود! یہ تیرا احسان ہے کہ تو نے میرے گناہ اپنے نیک بندوں میں سے کسی پر
فَلا تَفْضَحْنِی یَوْمَ الْقِیامَة عَلی رُؤُوسِ الْاَشْهادِ إلهی جُودُکَ بَسَطَ ٲَمَلِی
ظاہر نہیں کیے پس روز قیامت بھی مجھے لوگوں کے سامنے رسوا و ذلیل نہ فرما میرے معبود! تیری عطا میری امید پر چھائی ہوئی ہے اور
وَعَفْوُکَ ٲَفْضَلُ مِنْ عَمَلِی إلهی فَسُرَّنِی بِلِقائِکَ یَوْمَ تَقْضِی فِیه بَیْنَ عِبادِکَ
تیرا عفو میرے عمل سے برتر ہے میرے معبود! اپنی ملاقات سے مجھے شاد فرما جس روز تو اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرے گا
إلهی اعْتِذارِی إلَیْکَ اعْتِذارُ مَنْ لَمْ یَسْتَغْنِ عَنْ قَبُولِ عُذْرِه فَاقْبَلْ عُذْرِی یَا ٲَکْرَمَ
میرے معبود! تیرے حضور میری عذر خواہی اس شخص کی طرح ہے جو قبول عذر سے بے نیاز نہیں پس میرا عذر قبول فرما اے سب
مَنِ اعْتَذَرَ إلَیْه الْمُسِیئُونَ۔ إلهی لاَ تَرُدَّ حاجَتِی، وَلاَ تُخَیِّبْ طَمَعِی
سے زیادہ کرم کرنے والے کہ جس کے سامنے گنہگار عذر خواہی کرتے ہیں میرے مولا میری حاجت رد نہ فرما میری طمع میںمجھے
وَلاَ تَقْطَعْ مِنْکَ رَجائِی وَٲَمَلِی ۔ إلهی لَوْ ٲَرَدْتَ هوانِی لَمْ تَهدِنِی
ناامید نہ کر اور میں تجھ سے جو امید و آرزو رکھتا ہوں اسے قطع نہ کرمیرے معبود اگر تو میری خواری چاہتا ہے تو میری رہنمائی نہ فرماتا اور
وَلَوْ ٲَرَدْتَ فَضِیحَتِی لَمْ تُعافِنِی ۔ إلھِی مَا ٲَظُنُّکَ تَرُدُّنِی فِی حاجَة قَدْ ٲَفْنَیْتُ
اگر تو میری رسوائی چاہتا تو میری پردہ پوشی نہ کرتا، میرے معبود! میں یہ گمان نہیں کرتا کہ تو میری وہ حاجت پوری نہ کرے گا جو میں عمر
عُمْرِی فِی طَلَبِها مِنْکَ ۔ إلهی فَلَکَ الْحَمْدُ ٲَبَداً ٲَبَداً دائِماً سَرْمَداً یَزِیدُ وَلاَ یَبِیدُ
بھر تجھ سے طلب کرتا رہاہوں، میرے معبود! حمد بس تیرے ہی لیے ہے ہمیشہ ہمیشہ پے در پے اور بے انتہا جو بڑھتی جاتی ہے اور کم
کَما تُحِبُّ وَتَرْضی إلهی إنْ ٲَخَذْتَنِی بِجُرْمِی ٲَخَذْتُکَ بِعَفْوِکَ وَ إنْ ٲَخَذْتَنِی
نہیں ہوتی جو تجھے پسند ہے اور تجھے بھلی لگتی ہے، میرے معبود! اگر تو مجھے جرم پر پکڑے گا تو میں تیری بخشش کا دامن تھام لوں گا اگر
بِذُنُوبِی ٲَخَذْتُکَ بِمَغْفِرَتِکَ، وَ إنْ ٲَدْخَلْتَنِی النَّارَ ٲَعْلَمْتُ ٲَهلَها ٲَ نِّی ٲُحِبُّکَ
مجھے گناہ پر پکڑے گا تو میں تیری پردہ پوشی کا سہارا لوں گا اور اگرتو مجھے جہنم میں ڈالے گا تو میں اہل جہنم کو بتاؤں گا کہ میں تیرا چاہنے
إلهی إنْ کانَ صَغُرَ فِی جَنْبِ طاعَتِکَ عَمَلِی فَقَدْ کَبُرَ فِی جَنْبِ رَجائِکَ ٲَمَلِی
والا ہوں میرے خدا! اگر تیری اطاعت کے سلسلے میں میرا عمل کمتر ہے تو بھی تجھ سے بخشش کی امید رکھنے میں میری آرزو بہت بڑی
إلهی کَیْفَ ٲَنْقَلِبُ مِنْ عِنْدِکَ بِالْخَیْبَۃِ مَحْرُوماً وَقَدْ کانَ حُسْنُ ظَنِّی بِجُودِکَ ٲَنْ
ہے، میرے خدا! کس طرح میں تیری درگاہ سے مایوسی میں خالی ہاتھ پلٹ جاوں جبکہ میں تیری عطا سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ تو مجھے
تَقْلِبَنِی بِالنَّجاة مَرْحُوماً إلهی وَقَدْ ٲَ فْنَیْتُ عُمْرِی فِی شِرَّة السَّهوِ عَنْکَ، وَٲَبْلَیْتُ
رحمت و بخشش کے ساتھ پلٹائے گا، میرے خدا ہوا یہ کہ میں نے تجھے فراموش کرکے اپنی زندگی برائی میں گزاری اور میں نے اپنی
شَبابِی فِی سَکْرَة التَّباعُدِ مِنْکَ ۔ إلهی فَلَمْ ٲَسْتَیْقِظْ ٲَیَّامَ اغْتِرارِی بِکَ، وَرُکُونِی
جوانی تجھ سے دوری اور غفلت میںگنوائی میرے خدا؛ تیرے مقابل جرأت کرنے کے دوران میں ہوش میں نہ آیا اور تیری ناخوشی
إلی سَبِیلِ سَخَطِکَ إلهی وَٲَنَا عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ قائِمٌ بَیْنَ یَدَیْکَ مُتَوَسِّلٌ بِکَرَمِکَ
کے راستے پر چلتا گیا پھر بھی اے معبود؛ میں تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا ہوں اور تیرے ہی لطف و کرم کو وسیلہ بنا کر تیری بارگاہ
إلَیْکَ إلهی ٲَنَا عَبْدٌ ٲَتَنَصَّلُ إلَیْکَ مِمَّا کُنْتُ ٲُواجِهکَ بِه مِنْ قِلَّة اسْتِحْیائِی مِنْ
میں آکر کھڑا ہوں، میرے خدا! میں وہ بندہ ہوں جو خود کو تیری طرف کھینچ لایا ہے جبکہ میں تیری نگاہوں کا حیا نہ کرتے ہوئے تیرے
نَظَرِکَ، وَٲَطْلُبُ الْعَفْوَ مِنْکَ إذِ الْعَفْوُ نَعْتٌ لِکَرَمِکَ ۔ إلهی لَمْ یَکُنْ لِی حَوْلٌ
مقابل اکڑا ہوا تھا میں تجھ سے معافی مانگتاہوں کیونکہ معاف کردینا تیرے لطف و کرم کا خاصہ ہے میرے خدا! میں جنبش نہیں کرسکتا تا
فَٲَنْتَقِلَ بِه عَنْ مَعْصِیَتِکَ إلاَّ فِی وَقْتٍ ٲَیْقَظْتَنِی لَِمحَبَّتِکَ، وَکَما ٲَرَدْتَ ٲَنْ ٲَکُونَ
کہ تیری نافرمانی کی حالت سے نکل آؤں مگر اس وقت جب تو مجھے اپنی محبت کی طرف متوجہ کرے کہ جیسا تو چاہے میں ویساہی بن
کُنْتُ فَشَکَرْتُکَ بِ إدْخالِی فِی کَرَمِکَ، وَ لِتَطْهیرِ قَلْبِی مِنْ ٲَوْساخِ الْغَفْلَة
سکتا ہوں پس میں تیرا شکر گذار ہوں کہ تو نے مجھے اپنی مہربانی میں داخل کیا اور میں تجھ سے جو غفلت کرتا رہاہوں میرے دل کو اس
عَنْکَ ۔ إلهی انْظُرْ إلَیَّ نَظَرَ مَنْ نادَیْتَه فَٲَجابَکَ، وَاسْتَعْمَلْتَه بِمَعُونَتِکَ
سے پاک کردیا میرے خدا! مجھ پر وہ نظر کر جو تو تجھے پکارنے والے پر کرتا ہے تو اس کی دعا قبول کرتا ہیپھر اس کی یوں مدد کرتا ہے گویا
فَٲَطاعَکَ، یَا قَرِیباً لاَ یَبْعُدُ عَنِ الْمُغْتَرِّ بِه، وَیا جَواداً لاَ یَبْخَلُ عَمَّنْ رَجا
وہ تیرا فرمانبردار تھا اے قریب کہ جو نافرمان سے دوری اختیار نہیں کرتا اور اے بہت دینے والے جو ثواب کے امیدوار کے کیے کمی
ثَوابَه ۔ إلهی هبْ لِی قَلْباً یُدْنِیه مِنْکَ شَوْقُه، وَ لِساناً یُرْفَعُ إلَیْکَ صِدْقُه، وَنَظَراً
نہیں کرتا، میرے خدا! مجھے وہ دل دے جس میں تیرے قرب کاشوق ہو۔ وہ زبان عطا فرما جو تیرے حضور سچی رہے اور وہ نظر دے
یُقَرِّبُہُ مِنْکَ حَقُّه۔ إلهی إنَّ مَنْ تَعَرَّفَ بِکَ غَیْرُ مَجْهولٍ، وَمَنْ لاذَ بِکَ غَیْرُ مَخْذُولٍ
جس کی حق بینی مجھے تیرے قریب کرے، میرے خدا! بے شک جسے تو جان لے وہ نامعلوم نہیں رہتا جو تیری محبت میں آجائے وہ بے
وَمَنْ ٲَ قْبَلْتَ عَلَیْہِ غَیْرُ مَمْلُولٍ ۔ إلهی إنَّ مَنِ انْتَهجَ بِکَ لَمُسْتَنِیرٌ، وَ إنَّ مَنِ
کس نہیں ہوتا اور جس پر تیری نگاہ کرم ہو وہ کسی کا غلام نہیں ہوتا، میرے خدا! بے شک جو تیری طرف بڑھے اسے نور ملتا ہے اور جو تجھ
اعْتَصَمَ بِکَ لَمُسْتَجِیرٌ، وَقَدْ لُذْتُ بِکَ یَا إلهی فَلا تُخَیِّبْ ظَنِّی مِنْ رَحْمَتِکَ،
سے وابستہ ہو وہ پناہ یافتہ ہے، ہاں میں تیری پناہ لیتا ہوں اے خدا؛ مجھے اپنے دوستوں میں قرار دے جن کا مقام یہ ہے
وَلاَ تَحْجُبْنِی عَنْ رَٲْفَتِکَ ۔ إلهی ٲَقِمْنِی فِی ٲَهلِ وِلایَتِکَ مُقامَ مَنْ رَجَا
کہ وہ تیری محبت کی بہت امید رکھتے ہیں، میرے خدا! مجھے اپنے ذکر کے ذریعے اپنے ذکر کا
الزِّیادَة مِنْ مَحَبَّتِکَ ۔ إلهی وَٲَ لْهمْنِی وَلَهاً بِذِکْرِکَ إلی ذِکْرِکَ، وَهمَّتِی فِی رَوْحِ
شوق اور ذوق دے اور مجھے اپنے اسمائ حسنیٰ سے مسرور ہونے اور اپنے پاکیزہ مقام سے دلی سکون حاصل کر
نَجاحِ ٲَسْمائِکَ وَمَحَلِّ قُدْسِکَ إلهی بِکَ عَلَیْکَ إلاَّ ٲَلْحَقْتَنِی بِمَحَلِّ ٲَهلِ طاعَتِکَ
نیکی ہمت دے میرے خدا تجھے تیری ذات کا واسطہ ہے کہ مجھے اپنے فرمانبردار بندوں میں شامل کرلے
وَالْمَثْوَی الصَّالِحِ مِنْ مَرْضاتِکَ، فَ إنِّی لاَ ٲَقْدِرُ لِنَفْسِی دَفْعاً، وَلا ٲَمْلِکُ لَها نَفْعاً ۔
اور اپنی خوشنودی کے مقام تک پہنچادے کیونکہ میں نہ اپنا بچاؤ کرسکتا ہوں اورنہ اپنے آپ کو کچھ فائدہ پہنچاسکتاہوں ،
إلهی ٲَ نَا عَبْدُکَ الضَّعِیفُ الْمُذْنِبُ، وَمَمْلُوکُکَ الْمُنِیبُ فَلا تَجْعَلْنِی مِمَّنْ صَرَفْتَ
میرے خدا؛ میں تیرا ایک کمزور و گنہگار بندہ اور تجھ سے معافی کا طلب گار غلام ہوں پس مجھے ان لوگوں میں نہ رکھ جن سے تو نے توجہ
عَنْه وَجْهکَ وَحَجَبَه سَهوُه عَنْ عَفْوِکَ ۔ إلهی هبْ لی کَمالَ الانْقِطاعِ إلَیْکَ، وَٲَنِرْ
ہٹالی اور جن کی بھول نے انہیںتیرے عفو سے غافل کر رکھا ہے میرے خدا مجھے توفیق دے کہ میں تیری بارگاہ کا ہوجاؤں اور ہمارے
ٲَبْصارَ قُلُوبِنا بِضِیائِ نَظَرِها إلَیْکَ، حَتَّی تَخْرِقَ ٲَبْصارُ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ
اورہمارے دلوں کی آنکھیں جب تیری طرف نظر کریں تو انہیں نورانی بنادے تا کہ یہ دیدہ ہائے دل حجابات نور کو پار کرکے تیری
فَتَصِلَ إلی مَعْدِنِ الْعَظَمَة، وَتَصِیرَ ٲَرْواحُنا مُعَلَّقَة بِعِزِّ قُدْسِکَ ۔ إلهی وَاجْعَلْنِی
عظمت و بزرگی کے مرکز سے جاملیں اور ہماری روحیں تیری پاکیزہ بلندیوں پر آویزاں ہوجائیں میرے خدا؛ مجھے ان لوگوں میںرکھ
مِمَّنْ نادَیْتَہُ فَٲَجابَکَ، وَلاحَظْتَه فَصَعِقَ لِجَلالِکَ، فَناجَیْتَه سِرّاً
جن کو تو نے پکارا تو انہوں نے جواب دیا تو نے ان پر توجہ فرمائی تو انہوں نے تیرے جلال کا نعرہ لگایا ہاں تو نے انہیں باطن میں پکارا
وَعَمِلَ لَکَ جَهراً ۔ إلهی لَمْ ٲُسَلِّطْ عَلی حُسْنِ ظَنِّی قُنُوطَ الْاَیاسِ، وَلاَ انْقَطَعَ
اور انہوں نے تیرے لیے ظاہر میں عمل کیا ، میرے خدا؛ میں نے اپنے حسن ظن پر ناامیدی کو مسلط نہیںکیا اور تیرے
رَجائِی مِنْ جَمِیلِ کَرَمِکَ ۔ إلهی إنْ کانَتِ الْخَطایَا قَدْ ٲَسْقَطَتْنِی لَدَیْکَ فَاصْفَحْ
لطف و کرم کی توقع قطع نہیں ہونے دی ہے، میرے خدا؛ اگر تیرے نزدیک میری خطائیں نظر انداز کردی گئی ہیںتو میری جو توکل تجھ
عَنِّی بِحُسْنِ تَوَکُّلِی عَلَیْکَ ۔ إلهی إنْ حَطَّتْنِی الذُّنُوبُ مِنْ مَکارِمِ لُطْفِکَ فَقَدْ
پر ہے اس کے پیش نظر میری پردہ پوشی فرمادے، میرے خدا؛ اگر گناہوں نے مجھے تیرے کرم کی برکتوں سے دور کردیا ہے تو بھی
نَبَّهنِی الْیَقِینُ إلی کَرَمِ عَطْفِکَ ۔ إلهی إنْ ٲَنامَتْنِی الْغَفْلَة عَنِ الاسْتِعْدادِ
یقین نے مجھے تیری عنایت و مہربانی سے آگاہ کر رکھا ہے میرے خدا؛ اگر میں نے خواب غفلت میں پڑکر تیری بارگاہ میں حاضری کی
لِلِقائِکَ فَقَدْ نَبَّهتْنِی الْمَعْرِفَة بِکَرَمِ آلائِکَ ۔ إلهی إنْ دَعانِی إلَی النَّارِ عَظِیمُ عِقابِکَ
تیاری نہیں کی تو بے شک معرفت نے مجھے تیری مہربانیوں سے باخبر کردیا ہے، میرے خدا؛ اگر تیری سخت سزا مجھے جہنم کی طرف
فَقَدْ دَعانِی إلَی الْجَنَّة جَزِیلُ ثَوابِکَ ۔ إلهی فَلَکَ ٲَسٲَلُ وَ إلَیْکَ ٲَبْتَهلُ
بلارہی ہے تو بھی تیرا بہت زیادہ ثواب مجھے جنت کی سمت لیے جاتا ہے، میرے خدا؛ میں بس تیرا سوالی ہوں تیرے آگے زاری کرتا
وَٲَرْغَبُ، وَٲَسْٲَ لُکَ ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَنْ تَجْعَلَنِی مِمَّنْ یُدِیمُ
ہوں تیرے پاس آیا ہوں اور تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ مجھے ایسا قرار دے جو ہمیشہ تیرا
ذِکْرَکَ، وَلاَ یَنْقُضُ عَهدَکَ، وَلاَ یَغْفُلُ عَنْ شُکْرِکَ، وَلاَ یَسْتَخِفُّ بِٲَمْرِکَ ۔
ذکر کرتا رہا، جس نے تیری نافرمانی نہیں کی، جو تیرا شکر ادا کرنے سے غافل نہیںہوا اور جس نے تیرے فرمان کو سبک نہیں سمجھا،
إلهی وَٲَلْحِقْنِی بِنُورِ عِزِّکَ الْاَ بْهجِ فٲَکُونَ لَکَ عارِفاً وَعَنْ سِواکَ مُنْحَرِفاً، وَمِنْکَ
میرے خدا؛ مجھے اپنی روشن تر عزت کو نور تک پہنچادے تا کہ میں تجھے پہچان لوں، تیرے غیر کو چھوڑدوں اور تجھ سے
خائِفاً مُراقِباً یَا ذَا الْجَلالِ وَالْاِکْرامِ وَصَلَّی اﷲُ عَلی مُحَمَّدٍ رَسُولِه وَآلِه
ڈرتے ہوئے تیری جانب متوجہ رہوں اے سب مرتبوں اور عزتوں کے مالک اور اللہ اپنے رسول محمد مصطفی(ص) پررحمت نازل فرمائے
الطَّاهرِینَ وَسَلَّمَ تَسْلِیماً کَثِیراً ۔
اور ان کی پاکیزہ آل(ع) پر اور سلام بھیجے کہ جو سلام بھیجنے کاحق ہے۔
علی اکبر (ع) کی آمد پر یوم نوجوان مبارک
سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے فرزند، حضرت علی اکبر علیہ السلام تاریخی قرائن و شواہد کی بنیاد پر مرسل اعظم حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے شکل و شمائل اور رفتار و کردار کے لحاظ سے بہت زیادہ شباہت رکھتے تھے جس کے سبب آپ کو شبیہ پیغمبر کہا جاتا ہے۔۱۱ شعبان المعظم آپ کا یوم ولادت باسعادت ہے جسے ایران میں یوم نوجوان کا عنوان دیا گیا ہے۔
حضرت علی اکبر علیہ السلام
(شبیہ پیغمبر)
ولادت:۱۱ شعبان المعظم سنہ ۳۳ ہجری
شہادت: ۱۰ محرم الحرام سنہ ۶۱ ہجری
والد: امام حسین بن علی علیہما السلام
والدہ: ام لیلہ سلام اللہ علیہا
حضرت علی اکبر علیہ السلام تاریخی قرائن و شواہد کی بنیاد پر مرسل اعظم حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے شکل و شمائل اور رفتار و کردار کے اعتبار سے بہت زیادہ شباہت رکھتے تھے جس کے سبب آپ کو شبیہ پیغمبر کہا جاتا ہے۔
تقوا و پرہیزگاری، علم و آگہی، بصیرت، شجاعت، اطعام مساکین، حسن و جمال اور نیک اخلاق و کردار آپ کی بارز ترین خصوصیات میں سے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی آپ کے پدر بزرگوار امام حسین علیہ السلام اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی زیارت کے مشتاق ہوتے تو اپنے جوان بیٹے علی اکبر (ع) کے چہرے کا دیدار کر لیا کرتے تھے۔
امیر المومنین علی علیہ السلام آپ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام کی شہادت کے وقت آپ کی عمر سات برس کی تھی۔
واقعہ کربلا کے موقع پر آپ کی عمر مبارک ۲۸ یا پچیس برس بتائی جاتی ہے، جبکہ بعض کتب میں اٹھارہ اور انیس سال بھی ذکر ہوئی ہے۔
روز عاشور آپ بنی ہاشم کے پہلے شہید ہیں۔
آپ کی شہادت کے بعد آپ کے پدر بزرگوار امام حسین علیہ السلام نے یہ جگر سوز نوحہ پڑھا: ’’علیٰ الدنیا بعدک العفیٰ‘‘؛ بیٹا علی اکبر، تمہارے چلے جانے کے بعد اب خاک ہو دنیا پر!
یمنی فوج کا بڑا آپریشن، 500 سے زائڈ سعودی اور سوڈانی ایجنٹ ہلاک و زخمی
فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یمنی فوج اور رضاکار فورس نے صوبہ حجہ میں آپریشن کے دوران سعودی اتحاد میں شامل 500 سے زائد سعودی اور سوڈانی آلہ کاروں کو ہلاک اور زخمی کر دیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یمنی فوج اور رضاکار فورس نے ملک کے شمال مغربی صوبے الحجہ کے الحرض شہر کے مغربی علاقے میں سعودی اور سوڈانی ایجٹنوں کے ٹھکانے پر وسیع حملہ کیا۔
انصار اللہ ویب سائٹ نے رپورٹ دی ہے کہ یمنی فوج نے اس آپریشن کے دوران دسیوں علاقوں اور گاوؤں کو آزاد کرا لیا گیا ہے۔ یہ آپریشن دو دن تک چلا اور یمنی فوج نے اس آپریشن کے دوران سعودی اتحاد کے آلہ کاروں اور ایجنٹوں کے قبضے سے 54 کلومیٹر کے علاقے کو آزاد کرا لیا۔
اس ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ یمنی فوج نے اس آپریشن کے دوران الراکب، بنی عوید، بنی فراس، العسیلہ اور العوارض نامی گاؤں کو آزاد کرا لیا۔
اس آپریشن کے دوران سعودی اتحاد میں شامل 500 یمنی، سعودی اور سوڈانی آلہ کار اور ایجنٹ ہلاک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق 80 سے زائد سوڈانی ایجنٹ اور 15 سعودی آلہ کار ہلاک ہوئے جبکہ درجنوں زخمی اور قیدی بنے۔
اس آپریشن کے دوران یمنی فوج کو بڑی مقدار میں ہتھیار اور گولہ بارود، بکتر بند گاڑیاں، ٹینک، ہلکے اور بھاری ہتھیار بھی ملے جبکہ باقی ایجنٹ فرار ہونے میں کامیاب رہے۔