سلیمانی

سلیمانی

تہران، ارنا – ایرانی صدر مملکت نے کہا ہے کہ صہیونی کی چھوٹی سی حرکت بھی ہماری مسلح افواج، انٹیلی جنس اور سیکورٹی فورسز سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

یہ بات سید ابراہیم رئیسی نے آج کی صبح ایرانی آرمی کے قومی دن (18 اپریل کو) کی مناسبت سے ایرانی انقلاب کے بانی  حضرت امام خمینی (رہ) کے حرم مطہر میں منعقدہ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے صہیونی کی معمولی سی حرکت ہماری مسلح افواج، انٹیلی جنس اور سیکورٹی فورسز کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے۔

ایرانی صدر نے مزید بتایا کہ اگر صہیونی رجیم ہمارے خلاف ذراسی بھی حرکت کرے تو ہماری مسلح افواج صیہونی حکومت کا مرکز کو نشانہ بنائے گی۔

انہوں نے کہا کہ  رہبر معظم انقلاب کے دو بازو کے طور پر ایرانی مسلح افواج اور سپاہ پاسداران کے درمیان بھائی چارہ، دوستی اور اتحاد منفرد اور بے نظیر ہے۔

صدر رئیسی نے ایرانی مسلح افواح کی بہت سی صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ہمارے ملک میں طاقت کا سب سے اہم جزو انقلابی لوگ ہیں۔آج ہماری عسکری صلاحیتیں نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا میں مشہور اور بے نظیر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری فوج نے پابندیوں سے فائدہ اٹھایا اور بااختیار بن گئی اور آج ہماری فوجی صنعت ملک میں بہترین حالت میں ہے لہذا ہمیں اپنی فوجی صنعت کو ملکی صنعتوں میں استعمال کرنا ہوگا۔

رئیسی نے بتایا کہ صیہونی حکومت کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ اگر آپ خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تو جان لیں کہ تمہاری ذرا سی حرکت بھی ہماری مسلح افواج اور ہماری انٹیلی جنس اور سیکورٹی فورسز کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہوگی ہے اور یہ بھی جاں لیں کہ آپ ہماری قوم کے خلاف ذرا سی حرکت کریں تو ہماری فوج صہیونی ریاست کی سرزمین کو نشانہ بنائے گی۔

انہوں نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے آج دنیا کو جو کچھ کہا وہ یہ تھا کہ ہم ایران پر پابندیوں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ میں شرمناک شکست سے دوچار ہوئے ہیں اور یہ ان لوگوں کی سرنوشت ہے جو اسلامی نظام کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔

ایرانی صدر نے دنیا کے تمام محروموں اور مظلوموں کے لیے پیغام یہ ہے کہ آج ہماری مسلح افواج ان کے لیے امید کی کرن ہیں کیونکہ مظلوم کو حمایت کرنا اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی کے اصولوں میں سے ایک ہے۔

پاکستانی صوبے بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں قائم ایرانی خانہ فرہنگ کے زیر اہتمام میں حضرت امام حسن (ع) کے یوم ولات کی مناسبت سے قرآن کریم سے انس کی محفل کا انعقاد کیا گیا جس میں شیعی اور سنی قارئین نے حصہ لیا تھا۔

کریم آل ابا امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر صوبہ بلوچستان میں واقع کوئٹہ میں اتحاد ویکجہتی اجتماع کا ایرانی خانہ فرہنگ کے زیر اہتمام میں انعقاد کیا گیا جس میں کوئٹہ کے ممتاز علمائے کرام، مذہبی مفکرین شیعی اور سنی قارئین اورمذہبی شخصیات نے شرکت کی۔

اس روحانی اجتماع میں ایران کے قونصل جنرل "حسن درویش وند"، ہمارے ملک کے ثقافتی نمائندے کے سربراہ سید "حسن تقی زادہ وقفی" اور کوئٹہ کی متعدد مذہبی شخصیات، ممتاز قارئین بشمول نوجوان قارئین نے شرکت کی۔

اس شاندار اجتماع میں سنی اور شیعہ قراء کرام، مقیم ایرانیوں کی ایک جماعت اور روزہ دار مومنین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی قارئین نے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کی۔

اس موقع پر کوئٹہ میں ایرانی خانہ فرہنگ کے سربراہ نے قرآنی علوم کے فروغ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسلامی معاشروں میں اسلامی علوم کے فروغ کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم سب کو اپنی ذاتی اور معاشرتی زندگی میں قرآن سے مدد حاصل کرنی ہوگی کیونکہ قرآن انسانیت کا بہترین ضامن ہے۔

اس تقریب کے آخر میں حفظ و قرأت کے شعبوں میں بہترین افراد کو انعامات سے نوازا گیا۔

Monday, 18 April 2022 06:34

ولایت ائمہ (ع)

دین اسلام ، ھر انسان ، ھر زمانہ اور ھر جگہ کے لئے آیا ھے ۔ اسلام کے قوانین ساری دنیا کے لئے ھیں اور ھمیشہ باقی رھنے والے ھیں ۔

 ایسا نھیں ھے کہ دین اسلام صرف پیغمبر اسلام(ص) کے زمانہ سے مخصوص رھا ھو اور ان کی وفات کے بعد دین اسلام کے احکام معطل ھو گئے ھوں نیز رسول خدا (ص)کے بعد کے زمانہ کے لئے کوئی منصوبہ(plan) موجود نہ ھو ۔

اسی وجہ سے پیغمبر اسلام (ص)ھمیشہ اپنے بعد اسلام کے لئے فکر مند رھے ۔ پیغمبر(ص)کامشن صرف اسی وقت آگے بڑھ سکتا تھا جب انکے بعد انکا کوئی جانشین ھو جو دین ، اخلاق ، شرافت ، پاکیزگی ، غلطی اور خطا سے دور، کام کرنے کی لیاقت ، خوف خدا ، عزم محکم ، تقویٰ اور شجاعت میں خود رسول خدا (ص) کی شبیہ ھو ۔ جن صفات اور خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا ھے وہ ایک مکمل اور نمونہٴ عمل رھبر کے لئے ضروری ھیں ۔ یہ سارے صفات پیغمبر(ص) میں موجود تھے ۔ اگر کوئی شخص ان کا جانشین بنے اور انکے بعد انکے مشن کو آگے بڑھائے تو اسکے لئے ضروری ھے کہ وہ بھی انھیں صفات کا مالک ھو جن صفات کے مالک پیغمبر(ص) تھے ۔
اب سوال یہ ھے کہ جانشین کو ن ھوتا ھے ؟ اور کس طرح اسکی شناخت ممکن ھے ؟ اور کس طرح ا س کا انتخاب ھو نا چاھئے ؟ ۔
عقیدے کی رو سے جس طرح نبوت اور پیغمبری کے لئے کسی شخص کا اتنخاب خدا کی طرف سے ھوتا ھے اور یہ ایک الٰھی عھدہ ھے ، ٹھیک اسی طرح پیغمبر(ص) کے ” وصی“ اور جانشین کا اتنخاب بھی خدا کی جانب سے ھوتا ھے اور یہ عوام کی ذمہ داری اور ان کا وظیفہ نھیں ھے کہ پیغمبر (ص)کے جانشین کا انتخاب کریں ۔ کیونکہ پیغمبر (ص)کے جانشین کی ولایت بھی ایک الٰھی عھدہ اور منصب ھے جسے خدا معین کرتا ھے کیونکہ لوگوں کے پاس اطلاعات اور علم کم ھوتا ھے یا پھر معمولاً عوام کا کسی خاص شخص یا گروہ (party)کی طرف میلان ھوتا ھے ۔ اس لئے لوگ سب سے لائق اور بھترین شخص کا انتخاب پیغمبر (ص) کے جانشینی کے لئے نھیں کر سکتے اور اگر جا نشین معین کر بھی دیا تو سبھی لوگ عقلاً اس کی رھبری کو تسلیم نھیں کر سکتے خصوصاً ان صفات کے ساتھ جو پیغمبر(ص) کے جانشین کےلئے بیان کی گئیں ھیں ۔
شیعوں کے بارہ امام ہیں جن میں اولین حضرت علی (ع)اور آخری حضرت مھدی(ع) ھیں جو خدا کی جانب سے لوگوں کی ھدایت کے لئے منتخب ھوئے ھیں اور ان کا انتخاب بھی انکے کمال اور صفات کی وجہ ھی سے ہے نا کہ رسول خدا (ص)سے رشتہ دار ی کی بنا پر ۔
حضرت رسول خدا (ص)نے اپنی بعثت کے پھلے سال ھی حضرت علی (ع)کو اپنے جانشین کے عنوان سے پھچنوا دیا تھا اور بھت سے دیگر مواقع کے علاوہ جب رسول خدا (ص)آخری بار خدا کے گھر کی زیارت کر کے لوٹ رھے تھے تو غدیرخم میں ھزاروں حاجیوں کے مجمع میں حضرت علی(ع) کو جانشین معین کیا اور حضرت علی (ع)کو اپنے بعد کے لئے مسلمانوں کا مولیٰ ، سر پرست ، رھبر اور پیشوا بنایا ۔ جس وقت رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع)کی جانشینی کا اعلان کیا تو اسی وقت لوگ آئے اور اس جانشینی کے لئے حضرت علی (ع) کو مبارکباد دی اور انکے ھاتھوں پر بیعت کی خدا کا حکم تھا اس لئے رسول خدا (ص)نے حکم خدا کی اطاعت کی اور غدیر خم میں حضرت علی (ع) کو اپنا خلیفہ اور جا نشین بنا دیا ۔ قرآن فرماتا ھے :” اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پھونچا دیں ، جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے اور اگر آپ نے یہ نھیں کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں پھونچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا “ (۱)
مقصد یہ تھا کہ پیغمبر (ص)کے بعد حضرت علی(ع) اور دوسرے اماموں کے ذریعہ لوگوں کی ھدایت اور رھبری کا سلسلہ چلتا رھے اور قرآن کے احکام پر عمل ھوتا رھے تا کہ صرف مسلمان ھی نھیں بلکہ تمام بنی آدم دین اسلام سے فائدہ اٹھا سکیں اور انسانوں کے لئے الٰھی اور آسمانی ھدایت کا سلسلہ اسی طرح جاری رھے جس طرح پیغمبر(ص) کی حیات طیبہ میں جاری تھا ۔
ایک سماج میں کیسی حکومت ھو ، کون حاکم ھو ، حاکم کے لئے کیا شرائط ھونے چاھئیں اور خود قوانین بنانا وغیرہ مسائل فلسفہ سیاست کے تحت آتے ھیں ۔ اسلام میں فلسفہٴ سیاست سمٹ کر ” امامت “ میں آجاتا ھے ۔ امام ھی لوگوں کے اتحاد اور انکے افکارکو بلند کرنے کا مرکز ھوتا ھے ۔ نھج البلاغہ میں ارشاد ھوتا ھے کہ امامت تسبیح یا ھار کی اس ڈوری کی طرح ھے جو اپنے دانوں کو بکھیرنے اور غائب ھونے سے بچاتی ھے ۔ امامت اسلامی امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتی ھے اس کو ایک نظام اور نظم و نسق دیتی ھے (۲) امامت اور ولایت، پیغمبر اسلام (ص)کے بعد ، سماج کو کنٹرول اور منسجم کرنے کا ایک ایسا پلان اور پروگرام ھے جس کا اعلان خدا نے کیا ھے ۔ پیغمبر اسلام(ص) نے جانشینی کے سلسلہ میں لوگوں کی ذمہ داری کو اپنی طرف سے پوری طرح روشن اور واضح کر دیا تھا لیکن پھر بھی پیغمبر(ص) اپنے بعد کے آنے والے دنوں کے لئے مضطرب تھے ۔ افسوس ھے کہ پیغمبر (ص)کوجس بات کا خوف اور ڈر تھا ان کی وفات کے بعد وھی پیش آیا یعنی کچھ مسلمانوں نے انکی وصیت کی پروا نھیں کی اور انکے حکم کے خلاف غلط الکشن ، وحشت اور خوف کا ماحول ایجاد کر کے ایک دوسرے شخص کو انکی جگہ پر منتخب کر لیا اور لوگوں سے خواھش کی کہ اسکی بیعت کریں ۔ اسکے بعد دو دوسرے اشخاص بھی غلط طریقہ سے اس الٰہی منصب پر قابض ھو گئے ۔
پچیس سال بعد ، جب تیسرے خلیفہ کو قتل کر دیا گیا تو لوگ حضرت علی (ع)کے پاس آئے اور ان کو اپنا خلیفہ تسلیم کرتے ھوئے ان کے ھاتھوں پر بیعت کر لی ۔ حضرت علی(ع) کی حکومت کے سبب ، اسلامی خلافت اپنے اصلی اور صحیح راستے پر لوٹ آئی اور لوگوں کے امور کا ذمہ دار وہ شخص ھو گیا جو عدالت سے کام لیتا تھا ،جسے خدا کی خوشی و رضایت نیز اسلام اور قرآن کے مطابق عمل کرنے کے علاوہ کوئی دوسری فکر نھیں تھی لیکن مخالفین فتنہ اور فساد پر آمادہ ھو گئے اور حضرت علی(ع) کی شھادت کے بعد اس طرح کے حالات پیش آئے کہ امام حسن (ع) کو خلافت معاویہ کے لئے چھوڑنا ھی پڑی ۔ معاویہ کے بعد بنی امیہ اوربنی عباس دو صدی سے زیادہ جھان اسلام پر چھائے رھے ۔ ائمہ جو معصوم تھے اس عھدہ اور منصب کے لئے بھترین اور اصلی حقدار بھی تھے ، انکو اس حق سے محروم کر دیا گیا اور سب کو مختلف طریقوں سے شھید کر دیا گیا ۔
اس درمیان سماج میں دو مختلف راستے وجود میں آچکے تھے ، ایک خلافت کا راستہ اور دوسرا امامت کا راستہ جو پیغمبر خدا(ص) اور انکے اھلبیت (ع)کے وفادار تھے وہ امامت و خلافت کو صرف ائمہ معصومین (ع)کا حق جانتے تھے ۔ جن میں سے زیادہ تر افراد کا خلفاء کے ساتھ اختلاف رھاکرتا تھا ۔ اسی لئے وہ حکومتوں کے ظلم سے محفوظ نھیں رھتے تھے ۔ ائمہ معصومین (ع)بھی شمشیر اور زھر دغا سے شھید کئے جاتے رھے ۔ جنھوں نے حکومت کو زبر دستی اور دھوکے سے حاصل کیا تھا ، وہ خلیفہ بھی اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ حق پیغمبر کے اھلبیت (ع) کا ھے اور صرف وھی حضرات علم ، تقویٰ اور فضیلت میں بھترین افراد ھیں لیکن دنیا اور حکومت کی محبت نے انکو اس بات کی اجازت نھیں دی کہ حق کو حقدار تک پھونچا دیں ۔ انکی سیاست یہ تھی کہ لوگ ائمہ معصومین (ع) سے رابطہ نہ رکھیں اور اس طرح لوگوں کے محبوب اماموں(ع) کو اذیت دی جائے اور انکے چاھنے والوں کو پریشان کیا جائے ۔ خلفاء کی اس سیاست اور غلط پروپگنڈے کے سبب شیعوں کے اماموں کو یکے بعد دیگرے شھید کیا جاتا رھا ۔
جب بارھویں امام حضرت مھدی(ع) کی نوبت آئی تو آپ حکم خدا اور اسکی قدرت سے عوام کی نظروں سے پوشیدہ ھو گئے تاکہ وہ بھی شھید نہ کردے جائیں ۔ نیز آپ پردہ میں ھی رہ کر دنیا کی ھدایت ،اصلاح اور انسانیت کی نجات کے لئے اقدامات فرماتے ھیں ۔ شیعوں کے لئے آخر کار وہ زمانہ بھی آگیا جو ” عصر غیبت “ کے نام سے مشھور ھے جو ابھی بھی جاری ھے اور جس میں ھم زندگی گذار رھے ھیں ۔
ائمہ معصومین(ع)اپنے زمانہ میں حکومت کی جانب سے ھر قسم کی اذیتوں اور مصیبتوں کے با وجود اپنے فرض کو پورا کرنے ، دین کے احکام بیان کرنے اور لوگوں کو گمراھی سے بچانے کے لئے حتی الامکان کوششیں کرتے رھتے تھے ۔ وہ شیعہ جو انکے پیشوا اور رھبر ھونے پرعقیدہ رکھتا تھا ھر طرح کے فکری ، عقیدتی اور شریعت کے احکام کے علاوہ ، سماج اور حکومت کے مسائل میں بھی ائمہ(ع) کی نظر کے مطابق عمل کرتا تھا ۔ ائمہ معصومین (ع)ھمیشہ اس کوشش میں رھتے تھے کہ اگر صادق اور وفادار ساتھی مل جائیں اور حالات بھی سازگار ھوں تو لوگوں کی رھبری اور اسلامی خلافت کو اپنے ھاتھوں میں لے لیں جو کہ ان کا حق بھی تھا لیکن افسوس کہ وفادار ساتھیوں کی کمی ، خلفاء کا طاقت ور ھونا اور دوسری شرطوں کے نہ ھونے کی وجہ سے ائمہ معصومین(ع)نے خلفاء کے خلاف کوئی انقلابی تحریک کو شروع نھیں کی اور صرف دین اور علمی سر گرمیوں میں مصروف رھے مگر جب کبھی بھی موقع فراھم ھوتا تھا آپ حضرات اپنے چھینے جانے والے حق کے لئے صدائے احتجاج کو بلند کرتے تھے ۔ خلفاء بھی ائمہ معصومین (ع)کو اپنی حکومت کا دشمن سمجھتے تھے ۔ کیونکہ ان کو خوف تھا کہ اگر لوگ اماموں کے ساتھ جمع ھوں گئے تو انقلاب آجائے گا اور اس طرح حکومت انکے ھاتھوں سے نکل جائے گی ۔ اس لئے وہ ھمیشہ ائمہ معصومین (ع)اور انکے چاھنے والوں پر ظلم کے پھاڑ توڑا کرتے تھے ۔ یہ زمانہ بھت سخت تھا ۔ حضرت علی(ع) چار سال اور نو مھینے اور امام حسن (ع)صرف کچھ مھینے ھی مسلمانوں پر حکومت کر سکے لیکن ھر صورت میں ، چاھے حکومت انکے ھاتہ میں رھی ھو یا نہ رھی ھو ، ولایت کا وہ حق جو خدا نے انکو عطا کیا تھا، اپنی جگہ پر باقی تھا ۔ جن مسلمانوں نے خدا اور اسکے رسول کی ولایت کو قبول کیا تھا وہ ائمہ معصومین (ع) کے زمانہ میں ائمہ کی ولایت پر عقیدہ اور یقین رکھتے تھے اور بغیر کسی شش و پنج کے انکی پیروی کرنااپنے لئے لازم سمجھتے تھے لیکن ان افراد کی تعداد بھت کم تھی اور بیشتر لوگ خوف ، دنیا و دولت سے محبت یا خود ائمہ معصومین (ع)کی بخوبی معرفت نہ ھونے کی وجہ سے ،خلفاء کی پیروی کرتے تھے ۔ یہ ایک تاریخی سچ ھے کہ تقریبا ۲۵۰سال تک ائمہ معصومین (ع)حکومت (جو کہ ان کا حق تھا) سے جدا رھے اور انکی جگہ فاسد ، بد کار ، عیاش اور ستم گر خلفاء لوگوں پر ناجائز حکومت کرتے رھے ۔ اگر انکی جگہ حکومت اور سیاست کی باگڈور ائمہ معصومین (ع)کے قبضہ میں ھوتی تو سماج اور دنیا آج کتنی حسین ھوتی اور دین مبین اسلام کس طرح انسانیت کی زندگی میں تحول ایجاد کر دیتا ۔ یہ اس وقت ایک خواب ھی سا ھو کر رہ گیا ھے مگر افسوس ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حوالہ
۱۔سورہ مائدہ / ۶۷۔
۲۔نھج البلاغہ ،حکمت ۲۴۴۔


دو دنوں سے دل بڑا رنجیدہ ہے، صیہونی فورسز مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملہ آور ہیں اور تمام حدیں پار کرتے ہوئے مسجد کے اصل کمپاونڈ جہاں نماز جماعت ہوتی ہے، وہاں داخل ہوگئی ہیں۔ نہتے نمازی اسرائیلی بربریت سے بچنے کے لیے بار بار مسجد کے ستونوں کی پناہ لے رہے ہیں اور مسجد اقصیٰ میں دھواں بھرا ہوا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر مسلمان ایسا دیوار گریہ پر اسرائیلیوں کے ساتھ کرتے تو دنیا کے یہودیوں کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ اسی طرح اگر مسلمان آرمی ویٹی کن پر قبضہ کرکے وہاں آنے والے مسیحی عبادت گزاروں کے ساتھ ایسا کرے تو مسیحی دنیا کیا ردعمل دے گی؟ اور تو چھوڑیں اگر بابری مسجد شہید کرکے زیر تعمیر رام  مندر پر کسی نے ہندووں یاتریوں کے ساتھ ایسا ظلم و تشدد کیا ہوتا تو اس وقت دنیا بھر کے ہندووں کا کیا ردعمل ہوتا۔؟ افسوس ہے کہ کسی ملک کے پرچم کو جلا دینے  پر جتنا ردعمل وہ ملک دیتا ہے، ہم نے بطور امت اتنا ردعمل اپنے قبلہ اول پر حملے پر بھی نہیں دیا۔ کیا اس سے دشمن کے حوصلے بلند نہیں ہوں گے؟ کیا وہ مزید ظلم و جبر کا مظاہرہ نہیں کرے گا؟ اس نے پورے قدس شہر کی ڈیموگرافی ہی تبدیل کر دی ہے۔ وہ شہر جو غالب مسلم اکثریت کا شہر تھا، اب مشرقی بیت المقدس میں بھی مسلمان اقلیت میں جا رہے ہیں۔

زندہ قومیں اپنے مقدسات کے تحفظ اور اپنی میراث کے تحفظ سے پہنچانی جاتی ہیں۔ فرانس کے صدر اسرائیل کے دورے پر جاتے ہیں، جہاں اسرائیلی سپاہی ان کے ساتھ اس چرچ میں داخل ہوتے ہیں، جو صدیوں سے فرانس کی ملکیت ہے اور ترک زمانہ خلافت میں فرانس کو بطور تحفہ لوٹایا گیا تھا۔ فرانسی صدر اسرائیلی سپاہیوں پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ صدر میکخواں نے پولیس اہلکاروں پر اُن قواعد کی خلاف ورزی کا الزام لگایا، جن کے تحت اسرائیلی پولیس اہلکاروں کا اُس چرچ میں داخلہ ممنوع ہے، جس کا وہ دورہ کر رہے تھے۔ صلیبی جنگوں کے زمانے کا سینٹ این نامی چرچ فرانس کی سرزمین سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے انگریزی زبان میں وارننگ دیتے ہوئے کہا "آپ نے جو میرے سامنے کیا ہے، وہ مجھے پسند نہیں آیا۔ یہاں سے نکل جائیں، پلیز،" کسی کو مشتعل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ پہلی بار ایسا نہیں ہوا بلکہ 1996ء میں اِسی چرچ کا دورہ کرتے ہوئے فرانس کے اُس وقت کے صدر ژاک شیراک بھی اسرائیلی اہلکاروں پر برہم ہوگئے تھے۔ اسرائیلی سکیورٹی اہلکاروں نے صدر شیراک کے ساتھ آنے والے فلسطینیوں، صحافیوں اور مشیروں کو باہر نکال دیا تھا۔

ایسا کیوں ہے؟ کیوں تمام سفارتی آداب کو پس پشت ڈال کر فرانس کے صدور اسرائیل پر چڑھ دوڑتے ہیں؟ اس کی وجہ فرانس کی عزت نفس اور وہ روایت ہے، جس میں وہ اس چرچ کو فرانسیسی سرزمین قرار دیتے ہیں اور اس کے اندر کسی قسم کی ریاستی مداخلت کو فرانس میں مداخلت سمجھتے ہیں۔ اس لیے پوری دنیا کے میڈیا کے سامنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ قومیں اسی سے پہچانی جاتی ہیں اور اسی کے ذریعے دنیا میں انہیں مقام و مرتبہ دیا جاتا ہے۔ اسرائیل مسلمان عقیدتوں کے مراکز پر بار بار حملہ کرتا ہے اور ہر بار وہ معاشرتی تجربات کرتا ہے کہ اس پر مسلمانوں کا ردعمل کیا ہوگا؟ دیکھیں ہمارے قبلہ اول پر حملہ ہوا، اس پر پوری امت نے کیا ردعمل دیا؟ یہ افسوسناک نہیں بلکہ شرمناک ردعمل ہے۔ وہی فلسطینی جو اسرائیلی جبر کے نیچے ہیں، انہوں نے اسی دن اسی جگہ ساٹھ ہزار کی تعداد میں جمعہ کی نماز میں شرکت کرکے یہ پیغام دیا کہ ہم اقصیٰ کے فرزند اور اس سرزمین کے سپوت ہیں، ہم اقصیٰ کی عزت کی حفاظت کریں گے۔ یہ مجبور و محکوم لوگ اتنا ہی کرسکتے ہیں۔

عمران خان صاحب اور ہمارے وزیراعظم محترم شہباز شریف نے ایک ایک ٹویٹ کرکے امت کی اس ذمہ داری سے بری ہوگئے؟ کیا اتنا کافی ہے۔؟ اللہ کے نبیﷺ سے منسوب یہ فرمان مشہور ہے، آپ نے فرمایا: "من اصبح لایتھم بامور المسلمین فلیس بمسلم* "اگر کوئی مسلمان ایک دن گزارے اور اس دن مسلمانوں کے امور سے متعلق کوئی اہتمام نہ کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے۔" ایک اور حدیث میں فرمایا: من سمع عیال المسلمین۔۔۔۔۔ "اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مدد کے لیے فریاد سنے اور اس کی آواز پر لبیک نہ کہے تو وہ اسلام سے باہر ہے۔" اب تو لگتا ہے کہ یہ فرامین بھی ہمارے اوپر اثر انداز نہیں ہوتے، ہم سنتے ہیں اور سن کر سن ہو جاتے ہیں۔ مسلمان تو دور کی بات ہے، ہم آزاد مرد بھی نہیں بنتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر  کوئی مرد حر ہوگا تو وہ جہاں ظلم دیکھے گا، اس کی مذمت کرے گا اور مظلوم کی مدد و نصرت کی کوشش کرے گا۔ ہم مفادات کے اس قدر اسیر ہوچکے ہیں کہ ہمیں یہ ظلم نظر ہی نہیں آتا۔

میں دو تین دنوں سے سوشل میڈیا اور ٹویٹر کو فالو کر رہا تھا کہ کہیں ہم قدس کے لیے بھی آواز بلند کرتے نظر آئیں، مگر ایسا کچھ نہیں تھا۔ صیہونی ریاست یہودیت کی نمائندہ ریاست نہیں ہے، یہ فاشسٹ صیہونی ریاست ہے، جو مسلمانوں کی نہیں، انسانوں کی دشمن ہے۔ وہ اہل ایمان کی عقیدتوں پر حملہ کرکے انسانیت پر حملہ کرتی ہے اور بار بار ایسا کرکے اسے ایک نارمل چیز بنانا چاہتی ہے۔ کہاں وہ دن کہ مسجد اقصیٰ میں آگ لگنے کا سن کر پوری دنیا کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوں اور ایک لولی لنگڑی او آئی سی کھڑی کر دیں اور کہاں یہ دن کہ مسجد اقصیٰ میں گولیاں چلائی جائیں اور مسجد سے دھویں کے بادل اٹھتے نظر آئیں اور اس پر نہ ہونے کے برابر ردعمل آئے۔؟ یہ عمل اسرائیل کے دھوکے میں آکر اس سے معاہدے کرنے والے نام نہاد عرب حکمرانوں کے لیے بھی پیغام کہ اسرائیلی امن ایسا ہی ہے، جس میں وہ آپ کے مقدسات کو آگ لگاتا رہے گا۔

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

تہران، ارنا - قرآن کریم کی 29 ویں نمائش کا اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر اور وزیر ثقافت اور اسلامی گا‏ئیڈنس کی موجودگی میں تہران میں افتتاح ہوا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف اور وزیر ثقافت اور اسلامی گا‏ئیڈنس محمد مہدی اسماعیلی کی موجودگی میں قرآن کریم کی 29 ویں نمائش منعقد ہوئی۔

قرآن مجید کی نمائشگاہ کے افتتاح کے بعد " قرآن کریم و امام کریم " کے عنوان سے بہت بڑا سمینار منعقد کیا جائےگا جس میں ملک بھر کے مختلف صوبوں کے قرآنی اور ثقافتی اداروں کے 200 ڈائریکٹر شرکت کریں گے۔

قرآن مجید کی 29 ویں نمائش مصلی امام خمینی (رہ) میں شروع ہوئی قرآن مجید کی نمائشگاہ کا سلسلہ آج 14 رمضان المبارک سے لے کر 27 رمضان المبارک  تک جاری رہےگا۔.

تہران، ارنا - بین الاقوامی سائنسدانوں کی نصف صدی سے زیادہ کوششوں اور ایٹمی توانائی کے چشم کشا فوائد کے بعد، یہ ایک ناقابل تردید مسئلہ ہے کہ ممالک کو اپنی سلامتی اور ترقی کی ضمانت کے لیے پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنا ہوگی۔

اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ ممالک کو ایٹمی توانائی کیوں حاصل کرنی چاہیے؟ اور زیادہ اخراجات اور غیر ملکی دباؤ کو دیکھتے ہوئے یہ کیوں معقول لگتا ہے؟
دنیا میں توانائی کے موجودہ بحران اور توانائی کے اخراجات میں اضافے کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس کی منڈیوں میں عدم استحکام کے نتیجے میں، توانائی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے اور ممالک نے سلامتی کو برقرار رکھنے اور توانائی کے وسائل کو محفوظ بنانے کے لیے ایک وسیع مقابلہ شروع کر دیا ہے۔ مزید یہ کہ جیواشم کے وسائل ختم ہو رہے ہیں۔ لہذا، ممالک کو ایک متبادل تلاش کرنا چاہئے. جوہری معلومات کا حصول جوہری ایندھن کے ذریعے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں خود کفالت تک پہنچنے میں مدد کرتا ہے، جو دیگر علوم اور ٹیکنالوجیز میں بھی ترقی کا سبب بنتا ہے۔ اس طرح، ایران توانائی اور سلامتی کے میدان میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
عالمی جوہری ادارے (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے 2021 کے گلاسگو اجلاس کے موقع پر کہا کہ جوہری توانائی مستقبل میں توانائی کے بحران پر قابو پانے اور بین الاقوامی استحکام کو محفوظ بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔
گروسی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ فوکوشیما کی تباہی کے ایک دہائی بعد دنیا نے سیکورٹی کو بڑھانے کے لیے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں، لیکن جوہری تنصیبات ہمارے مسائل نہیں ہیں، لیکن ضابطوں کی عدم پاسداری مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
فوکوشیما آفت ان واقعات کا ایک سلسلہ ہے جو 11 مارچ 2011 کو 9 شدت کے زلزلے اور جاپان میں ایٹمی پاور پلانٹ اور مشینری میں خلل اور تابکار مواد کے اخراج کی وجہ سے سونامی کے بعد پیش آیا۔ ماہرین اس حادثے کو چرنوبل حادثے کے بعد سب سے بڑا جوہری سانحہ قرار دیتے ہیں اور اسے پیچیدگی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی جوہری تباہی کا درجہ دیتے ہیں کیونکہ فوکوشیما پلانٹ کے تمام ری ایکٹر یکے بعد دیگرے پھٹ گئے جس سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ چرنوبل حادثہ بھی شمالی یوکرین میں سوویت یونین کے زیر ملکیت نیوکلیئر پاور پلانٹ میں حفاظتی ٹیسٹ کے دوران پیش آیا۔

- جوہری توانائی قابل اعتماد اور صاف
ماحولیاتی طور پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کے ساتھ ساتھ جیواشم ایندھن کے استعمال نے زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ لہذا، ماہرین مسلسل گلوبل وارمنگ کے بارے میں خبردار کرتے ہیں.
گلوبل وارمنگ ایک ایسا رجحان ہے، جو زمین اور سمندروں کے اوسط درجہ حرارت میں اضافے پر ختم ہوتا ہے۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ 1990 سے 22007 کے درمیان 10 گرم ترین سال رونما ہوئے، یہ ایک رجسٹرڈ ریکارڈ ہے جس کی گزشتہ 150 سالوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جب آبی بخارات، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹروجن مونو آکسائیڈ اور اوزون کے حوالے سے صورتحال بگڑتی ہے تو ماحول پر گلوبل وارمنگ کے منفی اثرات واضح ہیں۔ صنعتی سرگرمیوں نے گلوبل وارمنگ کے مسئلے میں اضافہ کیا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے بغیر، زمین کا اوسط درجہ حرارت منفی 18 ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس ہوگا۔
گروسی نے ارجنٹائن کے اخبار لا ناسیون کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے، تمام ممالک سے زمین کے درجہ حرارت کو 1.5 سے 2 ڈگری تک کم کرنے میں مدد کی توقع کی جاتی ہے، جو کہ صنعتی ہونے سے پہلے کا مثالی درجہ حرارت ہے، اور یہ ہدف جوہری توانائی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا، کیونکہ گرین ہاؤس گیسوں کا اثر صفر فیصد تک کم کرسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2050 میں مقصد تک پہنچنے کے لیے، ہمیں اپنی مساوات سے صاف توانائی (جوہری توانائی) کو نہیں چھوڑنا چاہیے، بہت سے ماحولیاتی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ جوہری توانائی موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کا ایک مؤثر حل ہے۔
امریکہ میں 100 ری ایکٹر ہیں، جو 20 فیصد بجلی فراہم کرتے ہیں۔ دنیا کے تقریباً 30 ممالک جوہری توانائی کے مالک ہیں اور عالمی سطح پر 440 ری ایکٹر ہیں۔ ارجنٹائن کے پاس 6 دہائیوں سے تین ری ایکٹر ہیں، جو لاطینی امریکی ملک کو اس کی بجلی کی طلب کا 10 فیصد فراہم کرتے ہیں۔

قابل تجدید توانائی کے مسائل
حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے حالیہ برسوں میں صاف یا قابل تجدید توانائیوں پر بہت توجہ دی ہے، جیواشم ایندھن کے متبادل کے طور پر جیوتھرمل، شمسی، ہوا، سمندری اور لہر توانائی بشمول صاف توانائی کو تجویز کیا گیا ہے۔
توانائی کے اس قسم کے وسائل کو پوری دنیا میں استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ مکمل طور پر موسمیاتی عوامل پر منحصر ہیں۔ لہذا، ایسی توانائیاں ہر جگہ اور ہر وقت قابل اعتبار نہیں ہوتیں۔ اگر کسی وجہ سے سورج کی روشنی کی مقدار کم ہو جائے تو خاطر خواہ بجلی فراہم نہیں کی جا سکتی۔ یا اگر ہوا کم چلتی ہے تو پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار کم ہو جائے گی۔
ایک اور مسئلہ ایسی صاف توانائیاں پیدا کرنے کا عمل ہے، جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے، جب کہ جوہری توانائی ان قابل تجدید توانائیوں سے کہیں زیادہ صاف ستھری ہوتی ہے۔
اگرچہ جوہری توانائی کا طریقہ کار تابکار فضلہ پیدا کرتا ہے، لیکن ان فضلات کو ٹھیک ٹھیک کنٹرول کیا جا رہا ہے، لیکن فوسل فیول پر منحصر پاور پلانٹس گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرتے ہیں۔ جب جوہری پلانٹ کا ایندھن ختم ہوجاتا ہے تو، تابکار فضلہ کو ری ایکٹر سے نکال کر محفوظ جگہ پر ذخیرہ کیا جاتا ہے تاکہ فطرت میں تابکار اخراج کو روکا جا سکے۔
دوسرے لفظوں میں، ایٹمی توانائی دنیا میں توانائی کا سب سے صاف ذریعہ ہے۔

- جوہری توانائی کے فوائد اور استعمال
پچھلی نصف صدی میں جوہری ٹیکنالوجی کی ترقی نے صنعت، زراعت، طب اور دیگر شعبوں کو بہتر بنانے میں مدد کی۔
جوہری ٹیکنالوجی طبی تشخیص کرنے، اربوں انسانوں کو کھانا کھلانے، جانوروں کو بہتر صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے میں مددگار ہے۔
ایٹمی ٹیکنالوجی کے بے شمار فوائد ہیں جیسے کہ بجلی پیدا کرنا، کینسر جیسی کئی بیماریوں کا علاج کرنا، ریڈیو فارماسیوٹیکل تیار کرنا، اربوں لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنا اور سائنسی اور صنعتی علم کو فروغ دینا۔
بہت اہم اقتصادی فوائد کے علاوہ، توانائی کی فراہمی، ادویات، سائنس، ماحولیاتی فوائد وغیرہ جو جوہری توانائی کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں، جوہری ٹیکنالوجی، یہاں تک کہ اس کے پرامن پیمانے پر، موجودہ وقت میں سیکورٹی کے لحاظ سے ایک ناقابل تردید کردار ادا کرتی ہے۔ بین الاقوامی نظام وہ کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ممالک اپنے سیکنڈل کو بڑھانے کے لیے جوہری توانائی کے استعمال سے ٹیکنالوجی کی سیاست کو اہمیت دیتی ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ جوہری ٹیکنالوجی کے مختلف جہتوں کے استعمال کے پیمانے سے انھیں بہتر سیکیورٹی کا تجربہ کرنے اور غیر ملکی خطرات کے خلاف کھڑے ہونے میں مدد ملے گی۔


ایران کی پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی
ایران کا پرامن ایٹمی پروگرام 1950 میں شروع ہوا۔ اس کے بعد، یہ ملک 1958 میں IAEA میں شامل ہوا اور تہران نے 1968 میں عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) پر دستخط کیے۔ تاہم، ایرانیوں کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں کچھ متعصبانہ رپورٹس کو امریکہ اور یورپی یونین کے لیے ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ وہ مختلف ممالک پر پابندیاں لگا سکیں۔ ایران پر پابندیاں اس حقیقت کے باوجود کہ اس ملک کا IAEA سمیت بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ہر طرح کا تعاون رہا ہے۔
2015 کے جوہری معاہدے کے بعد مغربی طاقتوں نے پابندیوں کی پالیسی جاری رکھی جبکہ اسلامی جمہوریہ نے اپنے وعدوں کی پاسداری کی۔ مغرب نے دعویٰ کیا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کی نوعیت کے بارے میں فکر مند ہیں، جب کہ ایرانیوں نے واضح کیا ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کا پیچھا کرتے ہیں اور جوہری سرگرمیوں اور کسی بھی ایٹم بم کی تیاری کے درمیان تعلق کو مسترد کرتے ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کا حصول اور استعمال حرام ہے۔ رہبر معظم نے 22 فروری 2021 کو ایک اجتماع میں فرمایا کہ اسلامی اصول اسلامی جمہوریہ ایران کو کسی بھی قسم کے کیمیائی یا ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے منع کرتا ہے، کیونکہ یہ عام لوگوں کے قتل عام کا سبب بن سکتے ہیں۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے جوہری ٹیکنالوجی کی 16ویں قومی سالگرہ کے موقع پر کہا کہ پرامن جوہری توانائی سے استفادہ اور جوہری معلومات حاصل کرنے کا ایران کا حق ناقابل واپسی ہے۔
ایران کی ایٹمی سرگرمیوں سے متعلق ایک نمائش میں تین ریڈیو فارماسیوٹیکل، دو ریڈیو پلازما اور چار صنعتی کامیابیوں کی نقاب کشائی کی گئی۔
ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم 10 میگا واٹ جوہری توانائی پیدا کرنے اور دارخوین میں 360,000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے ایک آل ایرانی نیوکلیئر پاور پلانٹ تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
بجلی، پانی، طبی استعمال اور زراعت میں جوہری ٹیکنالوجی کے تمام فوائد کے نتیجے میں، توانائی کو نظر انداز کرنا ممالک کے لیے ایک سٹریٹجک غلطی معلوم ہوتی ہے، جو ممالک کو مستقبل میں توانائی پر انحصار کی طرف لے جاتی ہے۔

تہران، ارنا – ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے صیہونی حکومت کے ہاتھوں مسجد الاقصیٰ کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ مسلمانوں کو فلسطینی کاز کی حمایت میں متحد ہونا ہوگا۔

یہ بات سعید خطیب زادہ نے اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ علاقوں میں صہیونی رجیم کے نئے جرائم اور مسجد الاقصی کی بے حرمتی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اسرائیلی حکومت کے نئے مظالم شدید غم و غصے کا باعث ہیں اور ہم مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہیں۔

خطیب زادہ نے بتایا کہ اسرائیل کی نسل پرست حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے صرف صہیونی جابروں کو تشدد میں اضافہ کرنے کی ترغیب ملے گی اور امت مسلمہ کو فلسطینی کاز کی حمایت میں متحد ہونا چاہیے۔

قابل ذکر ہے کہ صہیونی فوج نے جمعہ کے روز مسجد الاقصیٰ کے صحنوں اور فلسطینی نمازیوں پر حملہ کرکے 344 فلسطینیوں کو زخمی کردیا۔

 

روایات کے مطابق جو سحر کے وقت بیدار ہوتا ہے اگر بغیر کسی سے بات کیے وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھے تو دو صف میں فرشتے اسکے پچھے نماز ادا کرتے ہیں۔

 

ایکنا نیوز- رسول اکرم اکرم(ص) سے منقول ہے: «سحور (وقت سحرکی خوراک) کھانا برکت کا باعث ہے». ایک اور حدیث میں کہا گیا ہے: «میری امت من هرگز سحور کو ترک نہیں کرے گی حتی اگر ایک کجھور ہی کیوں نہ ہو».

امام صادق(ع) فرماتے ہیں بہترین اوقات جسمیں تم خدا کو پکارتے ہو وہ سحر ہے، جیسے خدا کا ارشاد ہے: «وبالاسحارهم یستغفرون(سوره الذاریات، آیه 18)؛ مؤمنین سحر میں خدا سے استغفار طلب کرتے ہیں».

 

سحری کے اوقات میں رمضان مبارک کی بہترین دعائیں

رمضان المبارک میں ائمہ معصومین(ع) سے کافی دعائیں نقل کی گئیں ہیں جنمیں سے ایک دعائے «ابوحمزه ثمالی» ہے جو امام زین العابدین(ع) سے منقول ہے اور اسی طرح ایک دعائے «سریع‌الاجابه» ہے جو امام باقر(ع) سے نقل شدہ ہے۔

 رمضان میں نماز شب یا نافلہ شب پر خاص تاکید کی گیی ہے اور روایات میں کہا گیا ہے کہ مناسب ہے کہ رمضان کی راتوں میں نافلہ شب ترک نہ ہو۔

منبع: «كنز المرام في اعمال شهر الصيام»

* «كنز المرام في اعمال شهر الصيام» رمضان میں عبادات و اعمال کی خاص کتاب ہے جو سيدمحمد فقيه احمدآبادي(1919-1959 میلادی) نے  آيت‌الله سيدمحمد باقر موحد ابطحي اصفهاني کی زیر نگرانی تصنف کی ہے۔

 
 
ہر شخص ایک خاص نظریہ کے ساتھ دنیا کو دیکھتا ہے اور خدا کی تعریف کرتا ہے اب اگر کوئی شخص رسول اسلام(ص) کی تربیت شدہ ہو تو اسکا ایک خاص نظریہ ہوتا ہے۔

 

حسن بن علی رسول اسلام(ص) و علی بن ابی طالب کے تربیت شدہ ہیں اور معاشرے پر خاص توجہ فرماتے۔

تربیت نبوی(ص)، کا اثر تھا کہ وہ دنیا پر انکی گہری نگاہ تھی اور اس نکتہ نگاہ میں دنیا کی مشکلات خدا کی طرف سے ایک ہدیہ شمار کی جاتی ہے اور مشکلات انکی زندگی میں رکاوٹ نہیں بنتی اور وہ ہر حال میں اپنے کو کنٹرول میں رکھنے پر قادر ہوتا ہے۔

 

مثلا جب ایک شخص آپ کی مدح سرائی کرنا چاہتا ہے تو آپ فرماتے ہیں: «هر سپاس وحمد صرف اس خدا کے لیے مخصوص ہے کہ جس کے نہ آغاز سے ہم آگاہ ہے نہ اختتام سے۔ وہ قابل درک نہیں اور اس کی کوئی حد و محدود نہیں۔ وہ عقل و تصور میں جگہ نہیں ہوتا اور افکار میں اس کی گنجائش نہیں اور ذہین اس کے درک سے عاجز ہے۔ وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا ہے اور ہر چیز اس سے پیدا ہوا ہے۔

 

وہ عالم ہستی سے جدا نہیں، خلق کو اس نے پیدا کیا ہے ، وہ آغاز کنند ہے جس کا اغاز کیا ہے، بغیر کسی سابقہ کے اور جس کا ارادہ کیا انجام دیا، یہ ہے خدا بزرگ عالمین». (توحید اثر شیخ صدوق) شیخ صدوق اس کتاب میں مسئله توحید اور ذات پروردگار پر بحث کرتا ہے۔/

ایکنا نیوز- امام حسن مجتبی(ع) نواسہ رسول اکرم(ص) اور فرزند گرامی امام علی بن ابوطالب(ع) و فاطمه(س) ہے۔ وہ پندرہ  رمضان  سال 625 کو پیدا ہوئے اور ، سات سال رسول اکرم (ص) کے ہمراہ زندگی گزارتے رہیں اور پھر تمام واقعات میں والد گرامی کے ہمراہ تھے، شهادت امام علی(ع)، کے بعد  حسن بن علی(ع) امام علی کے جانشین اور امام بنے۔

ایکنا نیوز کے مطابق  شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں یوم القدس ملّی جذبہ کے ساتھ بھر پور انداز میں منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرکزی، صوبائی، ڈویژنل، ضلع، تحصیل اور یونٹ کی سطح پر تمام عہدیداران و کارکنان ملک بھر میں جمعة الوداع کے موقع پر القدس ریلیاں اور سیمینار کے انعقاد کیلئے تمام تر انتظامات و عملی اقدامات کریں۔ اپنے ایک بیان میں علامہ ساجد نقوی نے قبلہ اول پر اسرائیلی ناجائز قبضے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قبلہ اول کی آزادی تک جدوجہد جاری رہے گی، اسرائیل نے ظلم کی انتہاء کردی ہے، ہم فلسطینیوں کی آئینی، جمہوری اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے، اقوام متحدہ، او آئی سی اور مسلم ممالک اپنا مثبت کر دار ادا کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت رکوائیں۔

 

علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے بھی اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا۔ مسئلہ فلسطین و کشمیر بین الاقوامی دنیا کے سلگتے ہوئے مسائل ہیں ابھی یہ بھی حل نہ ہوپائے تھے کہ استعمار نے شام، افغانستان، عراق، یمن، لبنان اور بحرین میں ایک سازش کے تحت آگ بھڑکانا شروع کردی۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ یوم القدس تمام مظلوموں کی حمایت کا دن ہے، اسرائیلی ظلم و ستم کی انتہاء ہوچکی ہے، مسلم ممالک بھی موثر کردار ادا نہیں کر پارہے جو افسوس ناک امر و باعث تشویش ہے۔ لہٰذا امت مسلمہ کو متحد ہو کر قبلہ اول کی آزادی کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی اور فلسطینیوں کو اسرائیل کے شکنجے سے آزاد کرانا ہوگا۔