ابوظہبی : اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ طے پاگیا ، جس کے تحت تجارتی حجم 2 ارب ڈالر سے بڑھنے کا امکان ہے، ابوظہبی میں اسرائیل کے وزیر معیشت اور صنعت اورنا باربیوا اور ان کے اماراتی ہم منصب وزیر معیشت عبداللہ بن طوق المری نے کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد معاہدے پر دستخط کیے۔معاہدہ کے تحت دونوں ممالک کے تاجروں کو مارکیٹوں تک کم ٹیرف میں تیز تر رسائی ملے گی جس سے دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان قابل تجدید اشیا، اشیائے صرف، سیاحت اور لائف سائنس کے شعبوں میں مزید تعاون بڑھایا جائے گا۔دبئی تیزی سے اسرائیلی کمپنیوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے، سال رواں کے آخر تک تقریباً ایک ہزار اسرائیلی کمپنیاں متحدہ عرب امارات میں یا اس کے ذریعے کام کر رہی ہوں گے، اور اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی.

سلیمانی
آیت اللہ اعرافی کی پوپ فرانسس سے ملاقات، رہبر انقلاب اسلامی کا اہم پیغام پہنچایا
ویٹی کن : ایران کے حوزات علمیہ کے سربراہ آیت اللہ علی رضا اعرافی نے ویٹیکن میں کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس سے ملاقات کی۔ پوپ فرانسس نے آیت اللہ اعرافی کا پرتپاک استقبال کیا۔ آیت اللہ اعرافی نے کیتھولیک عیسائی رہنما تک قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کا زبانی پیغام پہنچایا۔
انہوں نے پوپ فرانسس سے ملاقات میں کہا کہ قائد اسلامی انقلاب نے میرے دورے کے بارے میں جاننے کے بعد آپ کو سلام کہا اور آپ کے کارنامہ اور لاطینی امریکہ کے ساتھ آپ کے تعلقات کی تعریف کی، اور اسلام اور عیسائیت کے درمیان تعلقات کو نرم کرنے اور مظلوموں کے دفاع میں آپ کے بعض موقف کی تعریف کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم آپ سے توقع کرتے ہیں کہ دنیا کے مظلوموں بالخصوص فلسطین اور یمن کے مظلوموں کے دفاع میں کام جاری رکھیں گے اور واضح اور شفاف موقف اپنائیں گے۔
اس ملاقات میں حوزات علمیہ کے ڈائریکٹر نے عصر حاضر کے انسان کی فکری، ثقافتی اور سماجی چیلنجز کو حل کرنے کے لیے اسلام، تشیع اور ادیان الٰہی کے درمیان تعامل کے لیے مدارس اور حوزات علمیہ کی فکری اور علمی صلاحیتوں پر زور دیا۔ ایران کے حوزہ علمیہ کے منتظم اعلیٰ نے عصر حاضر کی انسانیت کے چند اہم ترین چیلنجوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قوموں کے خلاف جابرانہ تشدد، غربت، بھوک، جنگ پر اکسانا، غاصبانہ قبضہ اور بین الاقوامی سطح پر منظم ظلم و جبر، ماحولیاتی انحطاط اور دنیا کی اقتصادی طاقتوں کی طرف سے لوگوں کو نظرانداز کیا جانا اور انتہا پسندی کا فروغ زمانے کے سب سے بڑے چیلنجز اور بحرانوں میں سے سب سے اہم بحران ہے۔ ان چیزوں پر ادیان الٰہی کے موثر کردار کے بغیر قابو نہیں پایا جا سکتا اور مدارس و حوزات علمیہ کیتھولک چرچ سمیت بین الاقوامی سائنسی و مذہبی اداروں کو سمجھنے اور ان سے بات چیت کے لئے تیار ہیں۔
فلسطینیوں کی پیٹھ میں ایک اور خنجر، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات میں آزاد تجارت کا معاہدہ
زوال کا شکار امریکی اسٹریٹجیز
جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف “زیادہ سے زیادہ دباو” پر مبنی حکمت عملی کا اعلان کیا تو اسی وقت متعدد تھیوریشنز، سیاست دانوں اور تجزیہ کاران نے اس کی ممکنہ ناکامی کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ یہ سب کچھ مشترکہ نکات پر تاکید کر رہے تھے جن میں مختلف شعبوں میں ایران کی صلاحیتیں، زمینی حقائق کا غلط جائزہ، عالمی سطح پر ابھرتا ہوا ملٹی پولر نظام اور مغربی ایشیا میں زوال پذیر ہوتا امریکی اثرورسوخ وغیرہ شامل تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم اس مسئلے کا گہرائی میں جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ایران کے خلاف امریکی محاذ ہر پہلو سے ناکامی اور شکست کا شکار ہو رہا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر ولید فارس، جو ایران کی مخالفت میں مشہور ہیں، نے حال ہی میں اس بارے میں اہم اعترافات کئے ہیں۔
ولید فارس کا شمار ایسے افراد میں ہوتا ہے جو گذشتہ طویل عرصے سے ایران کے بارے میں تحقیق کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ریپبلکن پارٹی سے قریب اخبار “نیوز مکس” میں ایک کالم شائع کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: “آغاز سے اب تک ایران حکومت کے بارے میں تحقیق کی ہے جس میں 1980ء میں امریکیوں کو یرغمال بنانے کا واقعہ، اسرائیل کے خلاف ایران کی پراکسی جنگ، ایران کے جوہری پروگرام میں پھیلاو وغیرہ شامل ہیں۔ میں تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کم از کم اس وقت تک ایرانی حکام فاتح قرار پائے ہیں۔ ایران نے اپنی فوجی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے، مسلح گروہوں کے ذریعے اپنا اثرورسوخ بڑھایا ہے اور جوہری معاہدے کی بدولت مغرب میں بھی اثرورسوخ حاصل کیا ہے۔”
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرگرم اور فعال رکن کے طور پر شامل رہا ہے۔ خود ایران بھی دہشت گردی کا شکار ہوا ہے۔ منافقین خلق (ایم کے او) نے امریکہ کی بھرپور مدد اور حمایت کے ذریعے ایران میں 17 ہزار سے زائد انسانوں کو قتل کیا۔ سابق امریکی وزیر دفاع مائیک پمپئو نے البانیا کے دورے میں اس گروہ کی سربراہ مریم رجوی سے ملاقات کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی حمایت اب تک جاری ہے۔ علاقائی سطح پر بھی خود ڈونلڈ ٹرمپ اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ امریکہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا خالق ہے۔ یہ ایسا گروہ ہے جو عراق، شام اور افغانستان میں لاکھوں بیگناہ انسانوں کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ لہذا امریکہ ہر گز اپنے دامن سے اس کالے دھبے کو ختم نہیں کر سکتا کہ وہ دہشت گردوں کا سرپرست ہے۔
پراکسی جنگوں کے بارے میں ایران پر جو الزام عائد کیا جاتا ہے اس کے بارے میں اتنا کہنا ہی کافی ہو گا کہ ان کے بقول عراق، شام اور یمن میں ایران کے جو حمایت یافتہ مسلح گروہ موجود ہیں وہ تو دراصل تکفیری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ان دہشت گرد عناصر کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ جیسا کہ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا ہے، امریکہ کی حکومت دراصل ایک “مافیا رژیم” ہے۔ اس رژیم نے دنیا بھر میں اپنی مخالف حکومتوں کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں دباو کا شکار کرنے کیلئے جگہ جگہ دہشت گرد گروہ پال رکھے ہیں اور انہیں اپنے پست مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے۔ اعلی سطحی امریکی عہدیدار اس حقیقت کا بھی اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ خطے میں ایران کا اثرورسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران اس وقت کئی قسم کی صلاحیتوں کا مالک بن چکا ہے۔ مزید برآں، خطے میں اسلامی مزاحمت کی بڑھتی ہوئی طاقت بھی اہم ہے۔ ان دونوں نے مل کر خطے میں امریکی اثرورسوخ کا بیڑہ غرق کر ڈالا ہے۔ امریکی حکام ایران پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ پراکسی گروہوں کی مدد سے امریکہ کے مفادات کو زک پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران بیرونی جارح قوتوں کے مقابلے میں اپنا اور خطے کی اقوام کا تحفظ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی بلاک نے ایران کی مدد سے خطے کی لوٹ مار پر مبنی امریکی اہداف و مقاصد کو خاک میں ملا دیا ہے۔ یہ اقدام حقیقت میں حب الوطنی اور اپنا دفاع کہلاتا ہے اور اسے دہشت گردی کہنا ناانصافی ہو گی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے کہیں پہلے سے امریکہ خطے میں مداخلت اور لوٹ مار میں مصروف ہے۔
اقتصادی میدان میں بھی امریکہ کو ایران کے مقابلے میں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکہ ایران پر اقتصادی دباو ڈال کر مطلوبہ اہداف و مقاصد حاصل نہیں کر پایا۔ اگرچہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں نے ایرانی عوام کی زندگی مشکل کر دی ہے لیکن امریکہ ان کے ذریعے ایران کو اپنے سامنے جھکانے میں ناکام رہا ہے۔ اسی طرح امریکہ ایران کے اندر بدامنی اور انارکی پھیلانے میں بھی ناکامی کا شکار ہوا ہے۔ بہرحال، ایران کی دفاعی اور بعض اوقات جارحانہ حکمت عملی کے نتیجے میں امریکہ کا مطلوبہ عالمی نظام شدید طور پر متزلزل ہو چکا ہے۔ امریکی اثرورسوخ کو شدید دھچکہ پہنچنے کے نتیجے میں اس کا اسٹریٹجک زوال شدت اختیار کر چکا ہے۔ اب نہ تو امریکہ ماضی کی طرح اقتصادی دباو ڈال سکتا ہے اور نہ ہی فوجی حملوں کی دھمکیاں دینے کی پوزیشن میں ہے۔
تحریر: ڈاکٹر جواد
یکم ذیقعدہ یوم ولادت خواہر امام رضا علیہ السلام
عراق کے بعد یمن کا بھی اسرائیل سے تعلقات بحالی کیخلاف قانون سازی کا فیصلہ
صنعا : عراق کے بعد یمنی حکومت نے بھی صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خلاف قانون سازی کا فیصلہ کرلیا۔ یمنی وزیراعظم العزیز بن حبتور کہتے ہیں ہم بہت جلد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کی مخالفت میں ایک بل پاس کریں گے۔ اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے بھی تعلقات قائم نہ کرنے پر ایک قانونی مسودہ تیار کیا جائے گا۔ انہوں نے اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کو جرم قرار دینے والے قانون کو یمنی آئین کے تناظر اور یمنی عوام کی خواہشات کے مطابق قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ عالم اسلام کے اہم ترین مسئلے (فلسطین) پر یمن کا موقف بالکل واضح ہے۔ قومی نجات حکومت کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یمنی عوام ہمیشہ ملت فلسطین، فلسطینی مقاومت اور مقاومتی بلاک کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، تاکہ مسجد الاقصیٰ اور بیت المقدس کے خلاف صیہونی دھمکیوں کا مقابلہ کرسکیں۔
پاکستان کسی بھی صورت میں اسرائیل کی ناجائز اور غاصب ریاست کو تسلیم نہیں کرے گا
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ممتاز عالم دین اور قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ اسرائیلی ریاست غیر قانونی ، غاصب اور ناجائز ہے۔ پاکستان کسی بھی صورت میں اس ناجائز اور غاصب ریاست کو تسلیم نہیں کرےگا۔
اطلاعات کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ اسرائیلی ریاست جسکا وجود ناجائز ہے، عالمی استعمار مسلسل اس ناجائز ریاست کی پشت پناہی کئے ہوئے ہے،پاکستان کا اساسی موقف واضح ، کسی صورت اس ناجائز و غاصب ریاست کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا، صیہونیت نے انسانیت سوز مظالم کی تمام حدیں پار کردیں ، کچھ عرصہ سے نئے انداز میں یہ دھوکے بازریاست بین الاقوامی دنیا باالخصوص مسلم دنیا کو دھوکہ دینا چاہتی ہے ، جس نے انبیاءکی مقدس سرزمین سے اس کے اصل ورثا ءکو بے دخل کردیا ، اب یہ پرانے شکاری نئے جال کے مصداق نام نہاد " معاہدہ ابراہم " سے دھوکہ دینا چاہتے ہیں، ماضی میں کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر اسرائیل سے پینگیں بڑھانے کی کوشش کی مگر انہیں منہ کی کھانی پڑی ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے میڈیا میں ایک این جی او کے توسط سے چند افراد کے دورہ اسرائیل جس میں ایک یا دوپاکستانی شامل تھے کے حوالے سے غاصب ریاست کے حوالے سے بیان اور پاکستان کے اساسی موقف بارے مختلف شخصیات سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے اس دورے پر کہاکہ ماضی میں چند افراد نے انفرادی رابطے اور ملاقاتیں کرکے اپنی اہمیت جتانے اور ناجائز ریاست کےلئے راستہ ہموار کرنے کی ناکام کوشش کی ۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ناجائز اور غاصب ریاست کے حوالے سے واضح اور دوٹوک موقف اپنایا تھا وہی موقف پاکستان کا اساسی موقف ہے جبکہ حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ نے بھی اس حوالے سے امہ اور بالخصوص اپنی قوم کی رہنمائی فرمائی ہے پاکستان کسی صورت اپنے اس اساسی نظریہ سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا اور یہی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے۔
یادرہے کہ 1940ءمیں قرارداد پاکستان کے ساتھ دوسری قرار داد فلسطین کے بارے میں تھی ۔قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ صیہونیت نے انسانیت سوز مظالم کی تمام حدیں پار کردیں ، کچھ عرصہ سے نئے انداز میں یہ دھوکے بازریاست بین الاقوامی دنیا باالخصوص مسلم دنیا کو دھوکہ دینا چاہتی ہے ، جس نے انبیاءکی مقدس سرزمین سے اس کے اصل ورثا ءکو بے دخل کردیا ، اب یہ پرانے شکاری نئے جال کے مصداق نام نہاد ”معاہدہ ابراہم“ سے دھوکہ دینا چاہتے ہیں آج مظلوموں کے خون پر کھڑے ہوکر ”پارسائی“ کے دعوے کھلا دھوکہ ہے، بین الاقوامی دنیا اور سنجیدہ فکر حلقے کبھی بھی اس دھوکہ بازی میں نہیں آئینگے ، اسرائیل بین الاقوامی سطح پر اعتماد کھوچکا مگر نئے انداز میں دھوکہ دینا چاہتاہے جسے تمام باضمیر انسان نہ صرف ناکام بنائینگے بلکہ اسے آنے والے وقت میں مزید بے نقاب بھی کرینگے۔
اس موقع پر انہوں نے اسرائیل کے حوالے سے بین الاقوامی دہرے معیار پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ عالمی طاقتوں کا دہرا معیار عالمی امن کےلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
مرد و زن کے حقوق اسلام کی نگاہ میں
سوره طور کی ۲۱ ویں ایت کریمہ میں خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ «وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیتُهُمْ بِإِیمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَیءٍ کلُّ امْرِئٍ بِمَا کسَبَ رَهِینٌ » (۱) ؛ اورجو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا اتباع کیا تو ہم ان کی ذریت کو بھی ان ہی سے ملادیں گے اور کسی کے عمل میں سے ذرہ برابر بھی کم نہیں کریں گے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہے ۔
قران کریم کی تاکید باوجود وھابیت و داعش جیسے بعض منحرف اسلامی معاشرہ میں اج بھی خواتین مظلوم ہیں ، البتہ اس کا ھرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ مغربی تمدن امریکا اور یوروپ یا غیر اسلامی مذاھب میں خواتین کا بہت زیادہ احترام ہے ، ان کے یہاں خواتین کے حالات بہتر ہیں اور خواتین کے تمام حقوق کی مراعات کی جاتی ہے ، نہیں ! وہاں بھی خواتین کے حالات قابل بیان نہیں ہے ، مغربی دنیا نے ایک عرصہ سے خواتین کو فقط جنسی تسکین کا وسیلہ بنا رکھا ہے اور انہیں ازادی کی لالچ دے کر اپنے منافع کی تکمیل میں استعمال کیا ہے ، نفسانی خواہشات کی تکمیل میں بے لگام ہونے سے لیکر دکانوں کے شو روم تک ہر جگہ عورت کا بے استعمال ہوتا رہا ہے ۔
مرد و زن اگر چہ ظاھری طور سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر روح اور باطنی طور سے دنوں ہی انسان ہیں اور انسانوں کی عظمت و بزرگی و بلندی کے حوالے سے سورہ حجرات ۱۳ ویں شریفہ میں قران کریم کا یہ واضح پیغام ہے کہ «إِنَّ أَکرَمَکمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاکمْ ؛ بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے » ۔ (۲) یعنی نہ حسن ، نہ خاندان ، نہ قبیلہ ، نہ نسل ، نہ مال اور نہ ہی دولت بلکہ فقط و فقط تقوائے الھی اور پرھیزگاری انسان کے بلند اور بزرگ ہونے کا معیار ہے ۔
انسان جب تک خدا کا بندہ اور اس کے بتائے ہوئے راستہ پر گامزن معنویات کی منزلیں طے کررہا ہے اس کی اہمیت ہے وگرنہ "أَسْفَلَ سَافِلِينَ" کا مصداق ہے ۔ (۳) اور تقوا و معنویت دونوں ہی صنف یعنی مرد و زن دونوں کے لئے موجود ہے ، اس میدان میں کوئی کسی سے ایک قدم پیچھے یا کم نہیں ہے ۔ جیسا کہ قران کریم نے سورہ نساء کی پہلی ایت میں اس سلسلہ میں فرمایا کہ «یا أَیهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکمُ الَّذِی خَلَقَکمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا کثِیرًا وَنِسَاءً » (۴) ؛ انسانو! اس پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اوراس کا جوڑا بھی اسی کی جنس سے پیدا کیا ہے اور پھر دونوں سے بکثرت مرد وعورت دنیا میں پھیلا دئیے ہیں اور اس خدا سے بھی ڈرو جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کی بے تعلقی سے بھی ، اللہ تم سب کے اعمال کا نگراں ہے ۔
اس ایت کریمہ نے عالم انسانیت کو یہ کھلا پیغام دے دیا کہ خلقت کے حوالے سے مرد و زن دونوں ہی برابر ہیں ، کوئی کسی سے کم نہیں لہذا معنوی اور باطنی ترقی کے میدان میں بھی عورت، مرد سے پیچھے نہیں کیوں کہ خداوند متعال نے دونوں کے وجود میں رشد و کمال کا زمینہ ایک جیسا رکھا ہے ۔
جس طرح خلقت کے لحاظ سے دونوں ایک جیسے ہیں «یا أَیهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکمْ مِنْ ذَکرٍ وَأُنْثَىٰ ؛ اے لوگو ! ہم نے تمہیں مرد و زن سے پیدا کیا » یعنی اگر خداوند متعال نے مرد و زن کو اپنی خلقت کا وسیلہ قرار دیا ہے تو انہیں اجر و جزاء میں بھی برابر رکھا ہے جیسا کہ سورہ احزاب کی ۳۵ ویں ایت شریفہ میں ارشاد ہے « إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا » ۔ (۵) بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عفّت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں ، اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہّیا کر رکھا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سوره طور ایت ۲۱ ۔
۲: قران کریم ، سورہ حجرات ، ایت ۱۳ ۔
۳: ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ ، قران کریم ، سوره تین ، آیت ۵
۴: قران کریم ، سورہ نساء ، ایت ۱ ۔
۵: قران کریم ، سورہ احزاب ، ایت ، ۳۵ ۔
ur.btid.org
امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر راکٹوں کی بارش
صابرین کی رپورٹ کے مطابق عین الاسد فوجی اڈے پر دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔ عراق میں دہشت گرد امریکیوں کے اڈے عین الاسد پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا اور گزشتہ شب اس فوجی اڈے پر 6 راکٹ داغے گئے جو گراڈ قسم کے راکٹ تھے۔
رپورٹ کے مطابق عین الاسد فوجی اڈے پر حملوں کے بعد سی ریم «C-Ram» اور پیٹریاٹ اینٹی میزائل سسٹم فعال ہو گیا۔
عراقی پارلیمنٹ میں غیرملکی فوجیوں کو ملک سے باہر نکالنے کا بل پاس ہونے کے بعد بھی امریکی دہشتگرد عراق کو چھوڑنے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں جس کے باعث انکے کے قافلوں کو آئے دن حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسی بنا پر امریکی دہشتگردوں نے اپنے فوجی ساز و سامان کی منتقلی کا کام عراق کی پرائیویٹ کمپنیوں کے سپرد کر دیا ہے۔
عراق کے استقامتی گروہوں کا کہنا ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے بل کی بنیاد پر امریکی فوجیوں کو عراق سے باہر نکل جانا چاہئے ورنہ انہیں اسی طرح ہر ممکن شکل میں نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔
شہید صیاد خدائی کے اہل خانہ کو سپاہ پاسداران چیف کی تسلی، انتقام ضرور لیں گے
سحر نیوز/ایران: سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے شہید حسن صیاد خدائی کے اہل خانہ سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ ہم ظالم ترین لوگوں یعنی صیہونیوں کے ہاتھوں شہید صیاد خدائی کے قتل کا بدلہ انشاء اللہ دشمنوں سے ضرور لیں گے۔
انہوں نے اس شہید کی بہادری و شجاعت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے شہداء بہت ہی اعلیٰ مرتبے کے حامل ہیں کیونکہ انہیں بدترین لوگوں نے شہید کیا ہے اور انشاء اللہ ہم دشمنوں سے اس کا بدلہ لیں گے۔
جنرل سلامی نے کہا کہ یہ شہادتیں دین اسلام کے استحکام کا باعث ہیں کیونکہ اسلام کی بنیاد شروع سے ہی شہادت پر ہے اور اگر حضرت امام حسین علیہ السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی شہادت نہ ہوتی تو آج اسلام بھی نہ ہوتا۔
قابل ذکر ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس بریگیڈ کے رکن حسن صیاد خدائی کو گزشتہ ہفتہ تہران میں صیہونی دشمن کے آلۂ کار دہشتگردوں نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔
عصر حاضر کی بے مثال شخصیت امام خمینی رح کے بعض منفرد اوصاف
انسان کی پہچان کا ایک اہم ذریعہ ان کے وہ اوصاف ہیں جن سے وہ شخصیت مزین ہوں چاہے وہ نیک صفات ہویا ٖصفات رذیلہ۔ اسی لیے قرآن جہاں انسان کے لئے نیک وبد دونوں کی مثالیں پیش کرتا ہے۔ ساتھ ہی ان کے اوصاف کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ تاریخ میں جہاں بہت سارے شیطانی افکار کے حامل لوگ گزرچکے ہیں اور ان پیروکار اب بھی موجود ہیں وہاں الٰہی و رحمانی صفات کے مالک ہستیاں گزری ہیں تو ان کے نقش قدم پر چلنے والے بھی موجود ہیں ۔ جنہوں نے معاشرے میں الہٰی اقدار کی خاطر ایسے اوصاف کو اپنے اندر پیدا کیا جو سب کے لئے قابل تقلید ٹھہرے۔
اس تمہید کا مقصد عصر حاضر کی بے مثال شخصیت امام خمینی رح کے بعض منفرد اوصاف پر روشنی ڈالنا ہے۔ یوں تو امام ایک عارف کامل،معلم اخلاق اور الہی انسان کا نمونہ تھے۔جس میں مختلف اوصاف جمع تھے۔ہم یہاں فقط چند اوصاف کی جانب اشارہ کریں گے۔
1۔نظم وضبط اور وقت شناسی
امام خمینی نظم وضبط کی رعایت میں مولا علیؑ کے فرمان کی مکمل عملی تصویر تھی جس میں آپ فرماتے ہیں : اوصيكم بتقوي الله و نظم امركم۔(نھج البلاغہ نامہ 47)
مرحوم امام مکمل طور پر اس حدیث پر عمل پیرا تھے۔آپ تقویٰ الٰہی کے ساتھ اپنے امور میں نظم کی رعایت کرتے تھے ۔امام وقت شناس تھے۔امام خمینی رح نے اپنے دن اور رات کے اوقات کو تقسیم کیا تھا اور ان کی عبادت، آرام، مطالعہ، سفر وغیرہ کے اوقات مشخص تھے اورنظم وضبط آپ کے گھروالوں کی بھی عادت بن گئی تھی۔ امام کے طرز عمل اور کارکردگی پر توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام معاملات میں نظم و ضبط پر سختی سے عمل پیراتھے اور اپنے کام کو ایک خاص ترتیب اور منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔
جب امام وضو کے لیے اسٹڈی روم سے باہر نکلتے تو نوکرانی سمجھ جاتی تھی کہ چاول پکانے کا وقت ہو گیا ہے اور کچن میں جا کر چولہا آن کرتی تھی ۔ یعنی امام کے وضو کرنے کا بھی ایک خاص وقت تھا۔(سیرہ امام خمینی ج 2 ص 4)
یہاں تک کہ امام نے رح نے رات کے کھانے یا دوپہر کے کھانے یا خبروں سے پہلے مختصر وقت کے لیے بھی منصوبہ بندی کر رکھی تھی تاکہ یہ وقت ضائع نہ ہو۔ نقل کیا گیا ہےکہ جب امام خمینی رح کو کھانے کے لیے بلایا گیا تو آپ فرماتے کہ : ابھی کھانے میں دس منٹ باقی ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کا نظم دوسروں اور گھریلو معاملات میں موثر رہا ہے۔(سیرہ امام خمینی ص 9 ج 2)
امام اس بارے میں فرماتے ہیں: اگر ہم اپنی زندگیوں میں، اپنے طرز عمل اور حرکات و سکنات کو ترتیب دیں تو قدرتی طور پر ہمارے خیالات کو منظم کیا جائے گا۔ جب دماغ نظم و ضبط میں ہے ... یہ یقینی طور پر اس کامل الہی نظم و ضبط سے لطف اندوز ہوگا.(سرگذشتهای ویژه از زندگی حضرت امام خمینی ج4 ص 49)
منصوبہ بندی
امام کے منفرد اوصاف میں سے ایک صفت یہ بھی تھی کہ بغیر منصوبہ بندی کے کوئی کام انجام نہیں دیتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں: کوئی بھی ملک بغیر منصوبہ بندی کے کامیاب نہیں ہوتا ۔ لہٰذا نوجوانوں ، منتظمین اور ان تمام لوگوں کے لیے بہترین نصیحت ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے اجتماعی زندگی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، شروع سے ہی کوشش کریں، ترتیب اور منصوبہ بندی کریں اور کام کو تقسیم کرکے زندگی کو جاری رکھیں:۔امام علیؑ فرماتے ہیں: ورزش سے پہلے کے حربے انسان کو پھسلنے سے بچاتے ہیں۔
اخلاق امام
حسن خلق کی تعریف میں کہا گیا ہے: یہ روح کی وہ کیفیت ہے جو روح کی صفات کے باہم رابطہ سے حاصل ہوتی ہے اور وہ باطنی نیکی ہے جو عقلی ادراک کی صورت ہے۔ امام خمینی نے بھی اس باطنی خوبی کو ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے حاصل کیا اور اعلیٰ مزاج کے مالک بنے۔ ان کی باتوں میں لطافت،سکون اور دل کی نرمی ایسی تھی کہ گھر کے تمام افراد۔ یہاں تک کہ بچوں نے خود کو ان کے ساتھ مذاق کرنے کی جرات کرتے تھےن وہ ہمیشہ اس حد تک مسکراتے رہتےتھے کہ امام کی نواسی بیان کرتی ہے: ہم سب سمجھتے تھے کہ امام ہم سے دوسروں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ سب کو دیکھ کر مسکراتے تھے۔(مهر و قهر، ص ۲۲۲)
سلام میں پہل کرنا
ان کے شاگردوں سے نقل ہوا ہے کہ جب ہم ان کی خدمت میں پہنچتے تو وہ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتےجیسے ہم ایک ہی درجے کے دو طالب علم ہوں اور بعض اوقات جب ہم ان کی خدمت میں جاتے تو فاصلہ کچھ میٹر رہتے تو ہم سلام کرنے کی کوشش کرتے تھے۔مگر امام ہم سے پہلے ہی سلام کرتے ۔ اور کبھی بھی اپنے آپ کو استاد نہیں سمجھا اور سب کو خوش دلی سے خوش آمدید کہتے تھے۔
بچوں کے ساتھ محبت
امام خمینی رح کے کلام کی نرمی نے بچوں کو امام سے عجیب وابستگی پیدا کر دی تھی۔ امام کو بچوں سے بہت محبت تھی۔ اسی وجہ سے بچے بھی امام سے اس قدر محبت کرتے تھے اپنی جان تک امام پر نچھاور کرنے کے لئے تیار تھے ۔
بشکریہ:حوزہ نیوز ایجنسی
انسان کی پہچان کا ایک اہم ذریعہ ان کے وہ اوصاف ہیں جن سے وہ شخصیت مزین ہوں چاہے وہ نیک صفات ہویا ٖصفات رذیلہ۔ اسی لیے قرآن جہاں انسان کے لئے نیک وبد دونوں کی مثالیں پیش کرتا ہے۔ ساتھ ہی ان کے اوصاف کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ تاریخ میں جہاں بہت سارے شیطانی افکار کے حامل لوگ گزرچکے ہیں اور ان پیروکار اب بھی موجود ہیں وہاں الٰہی و رحمانی صفات کے مالک ہستیاں گزری ہیں تو ان کے نقش قدم پر چلنے والے بھی موجود ہیں ۔ جنہوں نے معاشرے میں الہٰی اقدار کی خاطر ایسے اوصاف کو اپنے اندر پیدا کیا جو سب کے لئے قابل تقلید ٹھہرے۔
اس تمہید کا مقصد عصر حاضر کی بے مثال شخصیت امام خمینی رح کے بعض منفرد اوصاف پر روشنی ڈالنا ہے۔ یوں تو امام ایک عارف کامل،معلم اخلاق اور الہی انسان کا نمونہ تھے۔جس میں مختلف اوصاف جمع تھے۔ہم یہاں فقط چند اوصاف کی جانب اشارہ کریں گے۔
1۔نظم وضبط اور وقت شناسی
امام خمینی نظم وضبط کی رعایت میں مولا علیؑ کے فرمان کی مکمل عملی تصویر تھی جس میں آپ فرماتے ہیں : اوصيكم بتقوي الله و نظم امركم۔(نھج البلاغہ نامہ 47)
مرحوم امام مکمل طور پر اس حدیث پر عمل پیرا تھے۔آپ تقویٰ الٰہی کے ساتھ اپنے امور میں نظم کی رعایت کرتے تھے ۔امام وقت شناس تھے۔امام خمینی رح نے اپنے دن اور رات کے اوقات کو تقسیم کیا تھا اور ان کی عبادت، آرام، مطالعہ، سفر وغیرہ کے اوقات مشخص تھے اورنظم وضبط آپ کے گھروالوں کی بھی عادت بن گئی تھی۔ امام کے طرز عمل اور کارکردگی پر توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام معاملات میں نظم و ضبط پر سختی سے عمل پیراتھے اور اپنے کام کو ایک خاص ترتیب اور منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔
جب امام وضو کے لیے اسٹڈی روم سے باہر نکلتے تو نوکرانی سمجھ جاتی تھی کہ چاول پکانے کا وقت ہو گیا ہے اور کچن میں جا کر چولہا آن کرتی تھی ۔ یعنی امام کے وضو کرنے کا بھی ایک خاص وقت تھا۔(سیرہ امام خمینی ج 2 ص 4)
یہاں تک کہ امام نے رح نے رات کے کھانے یا دوپہر کے کھانے یا خبروں سے پہلے مختصر وقت کے لیے بھی منصوبہ بندی کر رکھی تھی تاکہ یہ وقت ضائع نہ ہو۔ نقل کیا گیا ہےکہ جب امام خمینی رح کو کھانے کے لیے بلایا گیا تو آپ فرماتے کہ : ابھی کھانے میں دس منٹ باقی ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کا نظم دوسروں اور گھریلو معاملات میں موثر رہا ہے۔(سیرہ امام خمینی ص 9 ج 2)
امام اس بارے میں فرماتے ہیں: اگر ہم اپنی زندگیوں میں، اپنے طرز عمل اور حرکات و سکنات کو ترتیب دیں تو قدرتی طور پر ہمارے خیالات کو منظم کیا جائے گا۔ جب دماغ نظم و ضبط میں ہے ... یہ یقینی طور پر اس کامل الہی نظم و ضبط سے لطف اندوز ہوگا.(سرگذشتهای ویژه از زندگی حضرت امام خمینی ج4 ص 49)
منصوبہ بندی
امام کے منفرد اوصاف میں سے ایک صفت یہ بھی تھی کہ بغیر منصوبہ بندی کے کوئی کام انجام نہیں دیتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں: کوئی بھی ملک بغیر منصوبہ بندی کے کامیاب نہیں ہوتا ۔ لہٰذا نوجوانوں ، منتظمین اور ان تمام لوگوں کے لیے بہترین نصیحت ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے اجتماعی زندگی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، شروع سے ہی کوشش کریں، ترتیب اور منصوبہ بندی کریں اور کام کو تقسیم کرکے زندگی کو جاری رکھیں:۔امام علیؑ فرماتے ہیں: ورزش سے پہلے کے حربے انسان کو پھسلنے سے بچاتے ہیں۔
اخلاق امام
حسن خلق کی تعریف میں کہا گیا ہے: یہ روح کی وہ کیفیت ہے جو روح کی صفات کے باہم رابطہ سے حاصل ہوتی ہے اور وہ باطنی نیکی ہے جو عقلی ادراک کی صورت ہے۔ امام خمینی نے بھی اس باطنی خوبی کو ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے حاصل کیا اور اعلیٰ مزاج کے مالک بنے۔ ان کی باتوں میں لطافت،سکون اور دل کی نرمی ایسی تھی کہ گھر کے تمام افراد۔ یہاں تک کہ بچوں نے خود کو ان کے ساتھ مذاق کرنے کی جرات کرتے تھےن وہ ہمیشہ اس حد تک مسکراتے رہتےتھے کہ امام کی نواسی بیان کرتی ہے: ہم سب سمجھتے تھے کہ امام ہم سے دوسروں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ سب کو دیکھ کر مسکراتے تھے۔(مهر و قهر، ص ۲۲۲)
سلام میں پہل کرنا
ان کے شاگردوں سے نقل ہوا ہے کہ جب ہم ان کی خدمت میں پہنچتے تو وہ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتےجیسے ہم ایک ہی درجے کے دو طالب علم ہوں اور بعض اوقات جب ہم ان کی خدمت میں جاتے تو فاصلہ کچھ میٹر رہتے تو ہم سلام کرنے کی کوشش کرتے تھے۔مگر امام ہم سے پہلے ہی سلام کرتے ۔ اور کبھی بھی اپنے آپ کو استاد نہیں سمجھا اور سب کو خوش دلی سے خوش آمدید کہتے تھے۔
بچوں کے ساتھ محبت
امام خمینی رح کے کلام کی نرمی نے بچوں کو امام سے عجیب وابستگی پیدا کر دی تھی۔ امام کو بچوں سے بہت محبت تھی۔ اسی وجہ سے بچے بھی امام سے اس قدر محبت کرتے تھے اپنی جان تک امام پر نچھاور کرنے کے لئے تیار تھے ۔