سلیمانی

سلیمانی

تہران(ایکنا) صیہونی فورسز اور فلسطینی نماز گزاروں کے درمیان جھڑپ میں ۱۱۷ فلسطینی زخمی ہوئے۔

 

نیوز ایجنسی رای الیوم نیوز کے مطابق گذشتہ روز صبح سحری کے وقت غاصب صیہونی فورسز کی جانب سے مسجد اقصی میں موجود نمازیوں پر حملہ جس کے نتیجے میں ابھی تک 150 کے قریب افراد زخمی ہو چکے ہیں اور دسیوں افراد کو مسجد کے اندر اور باہر سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

 جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا جب صیہونی فورسز نے فلسطینی نماز گزاروں کو مسجد میں عبادت سے روکا اور انہیں زبردستی مسجد سے نکالنے کی کوشش کی اسرائیلی فورسز نے آنسو گیس اور ربڑی گولیوں سے نماز گزاروں کو نشانہ بنایا جس کے بعد قریب میں موجود ہسپتال پر بھی حملہ کیا جس میں زخمی کا علاج کیا جا رہا تھا۔

 حماس اور جہاد اسلامی کی جانب سے اس وحشی گری کی شدید مذمت کی اور اسرائیلیوں کو اس کے سنگین نتائج کے لیے تیار رہنے کا کہا۔ اس جھڑپ میں تین اسرائیلی افسروں سمیت کچھ فوجی بھی زخمی ہوئے .

 

مختلف دیگر فلسطینی تنظیموں نے اس تشدد اور خیانت کی شدید مذمت کی ہے اور دوسری جانب مسجدالاقصی کے خطیب شیخ اکرمہ صبری نے  جمعے کو مسجدالاقصی پر صیہونیوں کے حملوں پر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی فوجیوں نے مسجدالاقصی پر حملے میں نمازیوں کو فائرنگ کا نشانہ بنایا اوراس کا سلسلہ بدستورجاری ہے

عکرمہ صبری نے زور دے کر کہا کہ صیہونی چاہتے ہیں کہ مسجدالاقصی کوفلسطینیوں سے خالی کرالیں ۔

 

مسجد اقصی میں فلسطینی نمازیوں اور اسرائیلی فورسز میں شدید جھڑپیں

 

مسجدالاقصی کے مفتی کی جانب سے صیہونیوں کا مقابلہ کرنے پرمبنی فتوی دہرائے جانے کے بعد فلسطین کے تمام شہروں سے دسیوں بسیں مسجدالاقصی کی جانب روانہ ہونے ہوچکے ہیں۔

 

اسلامی تعاون کی تنظیم OIC نے بھی مسجد الاقصی پر صیہونی فورسز اور انکے افراد کے حملوں کی شدید مذؐت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے امت اسلامی کے احساسات مجروح ہوں گے۔

 

 یمن کی انصار اللہ تحریک کے ترجمان اور نیشنل سالویشن گورنمنٹ کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد عبدالسلام نے جمعہ کی رات کہا کہ بحیرہ احمر میں امریکی نقل و حرکت یمن میں جنگ بندی کی حمایت کے واشنگٹن کے دعووں کے برعکس ہے۔

ارنا کے مطابق عبدالسلام نے سوشل میڈیا پر اپنے ذاتی صفحے پر لکھا: "امریکیوں کی یہ کارروائی یمن میں انسانی اور فوجی جنگ بندی کے سائے میں ہو رہی ہے۔"

یمنی انصار اللہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ یمن پر جارحیت اور محاصرے کو طول دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن، جن کے ملک نے سعودی عرب کو دنیا کے غریب ترین عرب ملک کے خلاف گزشتہ سات سالوں میں بڑے پیمانے پر حملے کرنے کی ہری جھنڈی دی، یمن میں دو ماہ کی جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کیا۔

جنگ بندی کے اپنے عزم پر زور دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ جنگ کا خاتمہ ضروری ہے۔

یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ہانس گرینڈ برگ نے یکم اپریل کو ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ یمن میں تنازع کے فریقین نے دو ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ معاہدے کے فریقین نے دو ماہ کی جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی تجویز کا مثبت جواب دیا، جس کا اطلاق کل 2 اپریل (12 اپریل) شام 7 بجے سے ہوگا۔

بیان میں کہا گیا ہے: "دونوں فریقوں نے یمن کے اندر اور اس کی سرحدوں سے باہر تمام فضائی، زمینی اور سمندری فوجی کارروائیوں کو معطل کرنے پر اتفاق کیا۔  

گرانڈ برگ کے مطابق، دونوں فریقوں نے ایندھن کے جہازوں کو حدیدہ کی بندرگاہوں میں داخل ہونے اور صنعا ایئرپورٹ سے خطے میں پہلے سے طے شدہ مقامات پر تجارتی پروازیں چلانے کی اجازت دینے پر بھی اتفاق کیا۔

سعودی عرب نے 26 اپریل 1994 کو یمن کے خلاف بڑے پیمانے پر جارحیت کا آغاز کیا جس میں متحدہ عرب امارات سمیت متعدد عرب ممالک کے اتحاد کی صورت میں امریکہ کی مدد اور ہری جھنڈی سے بے دخل کی واپسی کے بہانے یمن پر حملہ کیا گیا۔ مفرور صدر عبد المنصور ہادی اقتدار میں آ گئے، انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد اور عزائم کے حصول کے لیے استعفیٰ دے دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں بشمول عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف نے بارہا خبردار کیا ہے کہ یمن کے عوام کو قحط اور انسانی تباہی کا سامنا ہے جس کی پچھلی صدی میں مثال نہیں ملتی۔

بہت سے ماہرین یمن پر سعودی اتحاد کے حملوں میں حالیہ اضافے کو یمن میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں اتحاد کی ناکامی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے یمن میں جاری تنازعات اور یمن پر غیر انسانی محاصرے کو پچھلی صدی کے بے مثال قحط اور انسانی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

سپاہ پاسداران اسلامی انقلاب نے مسجد الاقصی پر ناجائز صہیونی ریاست کے وحشیانہ اور قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزاحمت کے میدان میں نوجوان فلسطینی نسل میں نئی اور عظیم انتفاضہ کا ظہور ہوگا۔ صیہونیوں اور ان کے علاقائی اور بین علاقائی حامیوں کا ڈراؤنا خواب ہے۔

سپاہ پاسداران انقلاب کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے دیے گئے بیان میں درج ذیل بیانات استعمال کیے گئے:

ناجائز صیہونی ریاست کی طرف سے مسجد الاقصی کے خلاف نئی قتل اور عصمت دری کی کارروائیاں بالخصوص اسرائیل کے قلب میں فلسطینی نوجوانوں کی مہاکاوی کارروائیوں کے بعد، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ صیہونی ایک نئی اور مہاکاوی انتفاضہ کے ظہور سے خوفزدہ ہیں۔

 مزاحمتی میدان میں نوجوان فلسطینی نسل، اور یہ کہ صیہونی مزاحمتی محاذ کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔

مسلمانوں کے مقدس اقدار کی بے حرمتی اور رمضان المبارک کے دوران مسجد الاقصی پر صیہونی فوجیوں کے حملے، جس میں 150 فلسطینی زخمی ہوئے، شکست سے دوچار ہیں اور انتفاضہ مجاہدین کی بہادرانہ بغاوت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ یہ صہیونیوں کو مزید سنگین خوابوں اور چیلنجوں سے دوچار کرے گا۔

عالمی برادری کو فلسطین میں ہونے والی پیش رفت اور القدس شریف پر قابض حکومت کے مسجد الاقصی اور دیگر مقدس سرزمینوں پر ہونے والے قتل و غارت پر ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔

بلاشبہ اسلامی ممالک میں خاموشی اختیار کرنے والے اور بین الاقوامی اداروں میں انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کو ایسی حرکتیں اور خطرناک سازشیں پکڑیں گی اور عالمی رائے عامہ کی نظر میں ان کے برے نتائج ہوں گے۔

بعض عرب ممالک کی طرف سے جھوٹی اور خبیث صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے نے صیہونیوں کے لیے مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں مسلمانوں کی عزت و حرمت کا لالچ دینے کی راہ ہموار کر دی ہے۔

فلسطینی انتفاضہ کے کامیاب عمل کی شدت اور جعلی اور بچوں کو قتل کرنے والی حکومت کے خاتمے اور فلسطین کے غاصبوں کی الٹا ہجرت کی طرف پیش رفت کی علامت ہوگی۔

.taghribnews.

مہر خبررساں ایجنسی نے ایکس پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ بھارت میں رمضان المبارک میں بھی مسلمان کے خلاف ہندو دہشت گردوں کے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاست اترپردیش میں ہندوانتہاپسندوں نے ایک اور مسجد شہید کردیا۔ بھارت میں ہندوتہوارکے موقع پرہندوانتہاپسند مسلمانوں کے گھروں اوراملاک پرحملے کررہے ہیں۔ گجرات،مدھیہ پردیش اوراترپردیش میں مسلمانوں کے گھروں اوراملاک کولوٹنے کے بعد آگ لگائی جارہی ہے۔ اترپردیش میں ہندودہشت گردوں نے مسجد کوآگ لگا کرشہید کردیا۔گجرات میں ہندوانتہاپسندوں کے جتھے نے مسجد کے سامنے تلواریں لہرا کررقص کیا اورجنگی نعرے لگائےاورمسلمانوں کو دھمکیاں دیں ۔ انتہاپسندوں نے مسجد پردھاوا بول کرتوڑپھوڑ بھی کی۔ مدھیہ پردیش اوردیگرعلاقوں میں پولیس حملہ آوروں کوگرفتارکرنے کے بجائے ہندودہشت گردوں  کا ساتھ دے رہی ہے۔ بھارت کی حکمراں جماعت کی ایمار پر ہندو دہشت گرد مسلمانوں کا قافیہ حیات تنگ کررہے ہیں۔ عالمی برادری نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہند دہشت گرادنہ حملوں پر تشیوش کا اظہار کیا ہے امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نے گزشتہ روز بیان میں بھارت کی صورتحال کوتشویشناک قراردیتے ہوئے سرکاری افسروں اورپولیس اہلکاروں کواس کا ذمہ دارقراردیا تھا۔

صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوںپر لکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ

برطانوی تشیع اور امریکائی اہل سنت دونوں ہی بین الاقوامی  استعمار کے آلہ کار ہیں۔۔۔ان کا وجود ہی عالم اسلام بالخصوص مخلص افراد کے اتحاد اور ایک پرچم تلے ہونے کو توڑنا ہے۔۔ رھبر مسلمین جہاں آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا اہل اسلام میں بڑھتے نفوذ کو کم اور پھر ختم کرنے اور ساتھ ساتھ آستعمار دشمن مقاوتی گروہوں کی مضبوطی کے خلاف میدان عمل میں اترنے کے اہداف سے انہیں مضبوط کیا جارہا ہے۔۔۔

 

 ۔ MI6 ایک برطانوی خفیہ ادارہ ہے جس نے چند سال قبل سے  بہت بڑے پیمانے پر چند علمائے کرام اور ذاکرین کے ذریعے جہان تشیع کو مقاومتی گروہوں سے دور کرنے کے لئے ایک بہت بڑے پراجیکٹ کو شروع کیا ہے جس کی جانب رھبر معظم نے 7 سال پہلے متوجہ کردیا تھا۔۔

 

 اس گروپ کا تعارف یعنی mi6 کا اجمالی تعرف : mi6  برطانیہ کا خفیہ جاسوسی ادارہ ہے جسے عرف عام میں ( intelligence Service ) سے پہچانا جاتا ہے ، دوسری عالمی جنگ ( Second world war ) کے دواران اس نے مزکورہ خفیہ ایجنسی کا تہران ( ایران ) میں ایک مرکز قائم کیا تھا جس کے بہت سے ڈاکومنٹ انقلابیوں کے سامنے آئے جس کے سبب انہیں دشمن کی چالوں کا اندازہ ہوگیا۔۔۔

 

 عالم اسلام کو اس خفیہ ایجنسی ،اس کے سازشوں اور ہتھکنڈوں سے ہر لمحہ ہوشیار رہنا چاہیئے رھبر معظم اور چند دیگر اہل خبرہ نے اس عنوان کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔۔۔

 

 عصر حاضر میں mi6 نے عالم اسلام میں تفرقہ پیدا کرنے کے لئے کچھ شرپسند نام نہاد علماء،ذاکرین اور موالیوں کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ جمہوری اسلامی ایران اور رھبریت سے نسل جدید کو دور کریں  تاکہ استعمار اپنے اہداف تک با آسانی پہنچ سکے۔۔۔

 

ان میں سے بعض افراد یہ ہیں۔۔

 

۱_ یاسر الحبیب

۲ _ حسن الہیاری

۳ _ مجتبی شیرازی

۴ _  آیت اللہ صادق شیرازی

 

 *صادق شیرازی چنل الانوار کے ساتھ 17 دیگر چنلز چلاتے ہیں اور ان ٹی وی چینلوں کو چلانے کیلئے ایک خطیر رقم درکار ہے ۔ اتنی رقم نہ تو ایرانی گورئمنٹ فراہم کر سکتی ہے  اور نہ خمس سے فراہم ہوسکتی ہے ؟ ایرانی حکومت اپنے تمام تر وسائل کے باوجود عالمی سطح کے صرف پانچ چنل چلاتی ہے، مگر آیت اللہ صادق شیرازی 18 چینلز چلارہے ہیں۔ اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ کوئی سنی پلیٹ فارم یا پھر استعمار جدید و قدیم ان کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ تعاون

 چند ٹی وی  چینلزکے نام درج ذیل ہیں۔۔۔:

۱۔ الانوار            ۲ ۔ الانوار حسین         ۳ ۔ امام حسینؑ

۴ ۔ مرجعیت      ۵ ۔ اباالفضل العباسؑ      ۶۔ ظہور

۷ ۔ البقیع            ۸۔ فدک ۔۔۔۔

 

 ظاہرا ان مقدس نام کے چینلز پر کون شک کرسکتا ہے ؟ اسی وجہ سے محبان اہل بیت ؑ اور سادہ لوح عوام آسانی سے دھوکہ کھا جاتے ہیں ۔ اور ان کے فریبانہ جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ یہاں پر جنگ صفین کی تاریخ اپنے آپ کو دہراتی معلوم ہوتی ہے ۔

 

 اھداف و مقاصد۔۔۔

 

1۔۔۔۔ان کا پہلا بنیادی ھدف وحدت اسلامی میں تفرقہ ڈالنا تاکہ شیعہ و  سنی ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر قتل و غارت میں مصروف رہیں اور یہ سکون و اطمینان سے دنیا پر حکومت کرتے ہوئے اپنی استعمارانہ طاقت میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جائیں۔۔۔

 

2۔۔۔۔ان کا دوسرا بنیادی ھدف عزاداری کی اصلی صورت مسخ کرنا تاکہ عوام الناس نعوز باللہ اس عظیم عبادت سے نفرت کرنے لگیں ۔ جہاں ایک زمانہ مین اہل سنت عزاداری میں مکمل شرکت کیا کرتے تھے وہاں اب انہیں عزاداری اور ذکر اہل بیت علیہم السلام سے بالکل دور کیا جائے ۔۔۔۔

 

3۔۔۔۔ان کا تیسرا بنیادی ھدف لوگوں کو نظام امامت و ولایت اور بالخصوص نظام مرجعیت اور ولایت فقیہ سے دور کرنا تاکہ شیعوں کی طاقت کے اصلی سرچشمہ پر ضرب لگا کر اس مکتب کو کمزور کیا جاسکے۔۔۔حیران اس امر پر ہوتی ہے کہ برصغیر میں جہاں کوئی سادہ سا افسر یا سیاست دان نعرہ حیدری لگادے یا امام ضامن باندھ لے تو ہماری عوام کس قدر خوش ہوتی ہے اور پھولے نہیں سماتی وہاں جمہوری اسلامی ایران میں ایک ملک کا صدر اور اس کی کابینہ اور مکمل اسمبلی اور سینٹ تمام عدلیہ ذکر حسین بھی کرتی ہے گریہ بھی کرتی ہے اور ماتمی حلقوں میں ماتم بھی کرتے ہیں مگر پاک و ھند کی عوام بالخصوص ماتمی طبقہ اس امر سے یا تو غافل ہے یا پھر ان سے کبھی اس امر کے سلسلے میں اچھے جملے سننے کو نہیں ملے۔۔۔جمہوری اسلامی ایران نے پوری دنیا کی تشیع کو قوی کرنا شروع کیا ہے مگر استعمار پراپگنڈے کے ذریعے محبان اہل بیت علیہم السلام کو ایران سے دور کرنے کے لئے سینکڑوں منصوبوں پر عمل کررہا ہے جس میں سے ایک عمار نقشوانی یا پھر وادی سندھ سے جانی شاہ اور اس نوعیت سے افراد کو ہوادینا ہے۔۔تاریخ میں اہل سندھ تو بہت بابصیرت رہے ہیں نہیں معلوم اس مرتبہ اہل سندھ نے ان بے لگام حیوانوں کو ابھی تک کیوں لگام نہیں دی

 

 4۔۔۔۔۔چوتھا بنیادی ھدف عوام الناس کو نظام مرجعیت سے دور کرنا کیونکہ یہی وہ نظام ہے جو طاقت بن کر استعماری منصوبوں کو نیست و نابود کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے چند سال قبل جب امریکی افواج حرم امام حسین علیہ السلام اور حرم امام حسن عسکری علیہ السلام پر حملہ آور ہوئی تھی تو ان کا دفاع کرنے والی شخصیات مجتھدین تھے یا وہ موالی جو آج مرجعیت کے خلاف بولتی نظر آرہی ہے۔۔اسی مانند 7 سال قبل جب امریکہ اور آل سعود نے داعش کے ذریعے حرم حضرت عباس اور حرم بی بی زینب کو گرانا چاھا تو کہاں تھے یہ موالی کیوں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے نہیں پہنچے۔۔۔۔حیرانی کی بات یہی ہے کہ جس سسٹم اور نظام نے اپنی جانوں پر کھیل کر دفاع حرم کیا اور ہزاروں شھداء دئیے آج یہ موالی انہی کو برا بھلا کہتے ہین اور عوام ان کے جھوٹے پروپگنڈے میں آجاتی ہے۔

 

 ہمیں ہوشیار رہنا چاہیئے اور ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ دشمن دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ دشمن جو ظاہر و آشکار ہے اور اسلام پر ضرب لگانا چاہتا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ خطرناک دوست نما دشمن ہے جو دوست بن کر اسلام کی پشت میں خنجر گھونپ رہا ہوتا ہے ۔۔۔

 

 جہان تشیع میں عمار نقشوانی اور ان جیسے دسیوں خطیب راہ ولایت سے دور ہونے کے سبب دشمن کی اس چال کو سمجھ نہ پائے اور جانے انجانے میں دشمن اسلام کا ساتھ دینے پر تلے ہوئے ہیں۔۔ اور ساتھ ساتھ ان افراد کی بے بصیرتی پر دکھ ہوتا ہے جو ان بین الاقوامی معاملات اور دشمن کی چالوں کو اپنی سادہ لوحی کے سبب نظر انداز کردیتے ہیں۔

سید برھان حسینی

 قائد اسلامی انقلاب نے کہا ہے کہ جوہری مذاکرات اچھے سمیت میں آگے بڑھ رہے ہیں تا ہم ملک کی منصوبہ بندیوں میں ان مذاکرات کے نتائج پر بالکل منحصر نہ رہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ نے جوہری معاہدے کی وعدہ خلافی کی اور اب وہ ڈیڈ اینڈ میں پھنس گیا ہے

ان خیالات کا اظہار حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے آج بروز منگل کو رمضان المبارک کے موقع پر نظام کے عہدیداروں سے ایک  ملاقات کے دوران، گفتگو کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ ملکی منصوبہ بندیوں کو جوہری مذاکرات کے نتائج پر بالکل منحصر نہ کریں تا کہ اگر مذاکرات کے نتائیج مثبت، نیم مثبت یا کہ منفی ہو تو آپ کے کام پر منفی اثرات مرتب نہ ہوجائیں؛ آپ اپنے کام آگے بڑھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جوہری مذاکرات میں بھی معاملات ٹھیک چل رہے ہیں، اور مذاکراتی ٹیم، صدر اور سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل اور دیگر اراکین، فیصلے کر رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہماری مذاکراتی ٹیم نے اب تک فریقین کی جبر اور لالچ کے سامنے مزاحمت کی ہے اور انشاء اللہ یہ جاری رہے گی۔

سپریم لیڈر نے کہا کہ عہدیداروں کے اقدامات پر تنقید کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن تنقید پر امید اور شکوک و شبہات سے پاک ہونی ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میدان کے بیچوں بیچ اور فرسٹ لائن میں کھڑا ہونے والے پر شک نہیں کرنا ہوگا۔ البتہ میں نے تمام حکومتوں میں کہا ہے کہ تنقید، امید  کیساتھ ہونی ہوگی  اور مایوسکن نہیں ہونی ہوگی۔

قائد اسلامی نے اس بات پر زور دیا کہ جس نے غلطی کی ہے وہ دوسری فریق (امریکہ) ہے؛ وہ اب بھی اپنی بدعہدی کے نتائج کا شکار ہوگیا ہے اور اب وہ ہی جو ڈیڈ اینڈ میں پھنس گیا ہے نہ کہ ہم۔

.taghribnews

Wednesday, 13 April 2022 13:38

روزہ قرآن کی نظر میں

"يا ايها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون". "اياما معدودات فمن كان منكم مريضا او على سفر فعدة من ايام اخر

 و على الذين يطيقونه فدية طعام مسكين فمن تطوع خيرا فهو خير له و ان تصوموا خير لكم ان كنتم تعلمون". "شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن هدى للناس و بينات من الهدى و الفرقان فمن شهد منكم الشهر فليصمه و من كان مريضا او على سفر فعدة من ايام اخر يريد الله بكم اليسر و لا يريد بكم العسر و لتكملوا العدة و لتكبروا الله على ما هديكم و لعلكم تشكرون". (سوره بقره، آيات ۱۸۳ تا ۱۸۵)
صاحبان ایمان تمھارے اوپر روزہ اس طرح لکھ دئے گئے ہیں جس طرح تمھارے پھلے والوں پر لکھ دئے گئے تھے۔ شاید تم اس طرح متقی بن جاو۔ یہ روزے صرف چند دنوں کے ہیں لیکن اس کے بعد بھی کوئی شخص مریض ہے یا سفر میں ہے تو اتنے ھی دن دوسرے زمانے میں رکھ لے گا۔ اور جو لوگ صرف شدت اور مشقت کی بنا پر روزے نھیں رکھ سکتے وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اور اگر اپنی طرف سے زیادہ نیکی کر دیں گے تو زیادہ بھتر ہے۔ لیکن روزہ رکھنا بھر حال تمھارے حق میں بھتر ہے اگر تم صاحبان علم و خبر ھو۔ ماہ رمضان وہ مھینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ھدایت ہے اور اس میں ھدایت اور حق و باطل کی امتیاز نشانیاں موجودہیں لھذا جو شخص اس مھینہ میں حاضر رھے اس کا فرض ہے کہ روزہ رکھے اور جو مریض یا مسافر ھو وہ اتنے ھی دن دوسرے زمانے مِیں رکھے خدا تمھارے بارے میں آسانی چاھتا ہے زحمت نھیں چاھتا۔ اور اتنے ھی دن کا حکم اس لیے ہے کہ تم عدد پورے کر دو اور اللہ کی دی ھوئی ھدایت پر اس کا اقرار کر دو اور شاید تم اس طرح اس کے شکر گذار بندے بن جاو۔
تفسیر:
روزہ انسانی زندگی میں تقوی پیدا کرنے کا بھترین ذریعہ ہے کہ یہ عمل صرف خدا کے لیے ھوتا ہے اور اس میں ریا کاری کا امکان نھیں ہے روزہ صرف نیت ہے اور نیت کا علم صرف پروردگار کو ہے پھر روزہ قوت ارادی کے استحکام کا بھترین ذریعہ ہے جھاں انسان حکم خداکی خاطر ضروریات زندگی اور لذات حیات سب کو ترک کر دیتا ہے کہ یھی جذبہ تمام سال باقی رہ جائے تو تقوی کی بلند ترین منزل حاصل ھو سکتی ہے۔
روزہ کی زحمت کے پیش نظر دیگر اقوام کا حوالہ دے کر اطمیان دلایا گیا ہے اور پھر سفر اور مرض میں معانی کا اعلان کیا گیا ہے اور مرض میں شدت یا سفر میں زحمت کی شرط نھیں لگائی گئی ہے یہ انسان کی جہھالت ہے کہ خدا آسانی دینا چاھتا ہے اور آج اور کل کے سفر کا مقابلہ کرکے دشواری پیدا کرنا چاھتا ہے اور اس طرح خلاف حکم خدا روزہ رکھ کر بھی تقوی سے دور رھنا چاھتا ہے ۔
قرآن مجید میں شاید کا لفظ علم خدا کی کمزوری کی بنا پر نھیں بشر کی کمزوری کی بناپر استعمال ھوا ہے صرف روزہ ھی تقوی کے لیے کافی نھیں ہے ۔ روزہ کی کیفیت کا تمام زندگی باقی رھنا ضروری ہے اور یہ ضروری ہے کہ سارا وجود روزہ دار رھے۔ برے خیالات، گندے افکار، بد عملی، بدکرداری وغیرہ زندگی میں داخل نہ ھونے پائے۔
روزہ وہ بھترین عبادت ہے جسے پروردگار نے استعانت کا ذریعہ قرار دیا ہے اور آل محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مشکلات میں اسی روزہ سے کام لیا ہے کبھی نماز ادا کی ہے اور کبھی روزہ رکھا ہے یہ روزہ ھی کی برکت تھی کہ جب بیماری کے موقع پر آل محمد (ص) نے روزہ کی نیت نذر کر لی اور وفائے نذر میں روزہ رکھ لیے تو پروردگار نے پورا سورہ "دھر" نازل کر دیا۔ آل محمد(ص) کے ماننے والے اور سورہ دھر کی آیات پر وجد کرنے والے کسی حال میں روزہ سے غافل نھیں ھو سکتے اور صرف ماہ رمضان میں نھیں بلکہ جملہ مشکلات میں روزہ کو سھارا بنائیں گے۔
اقتباس از ترجمہ قرآن علامہ جوادی

ایکنا نیوز کے مطابق شامی قرآنی محقق عبدالدائم الکحیل لکھتا ہے: سالوں سے روزہ کو ایک عبادت کے طور پر بے فایدہ مشق قرار دیاجاتا رہا ہے تاہم سال ۲۰۱۹ کو ایک رپورٹ شایع ہوئی جسمیں روزے کے حیرت انگیز فواید بتائے گیے۔

 

اس رپورٹ کے مطابق ہر مہینے میں صرف ایک دن اگر کوئی روزہ رکھتا ہے تو وہ ۷۱ فیصد دیگر افراد کے مقابل امراض قلب سے محفوظ رہتا ہے۔

 

ڈاکٹر بنجامین ڈی ہورن کا اس بارے کہنا تھا: حیرت انگیز نتائیج سامنے آئے اور ماہرین کے توقعات سے بڑھ کر روزہ فایدہ مند ظاہر ہوئے۔

 

امریکہ امراض قلب تحقیقاتی مرکز کے مطابق روزہ کے ایسے نتاِیج حیرت انگیز ہیں امراض قلب سے محفوظ رکھنے کے ساتھ طول عمر اور بہتر صحت روزے کے نتائیج میں شامل ہیں۔

 

تحقیق کے مطابق روزے کے آغاز کے ساتھ ہی خود پر کنٹرول کرنے اور خواہشات کو محدود رکھنے میں معاونت مل جاتی ہے۔

 

رپورٹ میں دو اہم نتایج سامنے آئے:

 

پہلا: روزه انسان کو مختلف بیماریوں بالخصوص جان لیوا امراض قلب سے محفوظ رکھتا ہے جیسے سنن ابن ماجہ میں رسول گرامی(ص) فرماتے ہیں:: «الصوم جنّة» روزہ حفاظت کرتا ہے۔

 

دوسرا: روزه کنٹرول میں معاون ہے جیسے رسول گرامی (ص) جوانوں کو روزہ رکھنے بارے تاکید فرماتے ہیں: «اے جوانو تم میں سے جو شادی کرسکتے ہیں شادی کریں اور جو اس پر قادر نہیں ہو روزہ رکھے جو [کنٹرول] عطا کرتا ہے».

 

قابل ذکر ہے کہ ماہرین اعتراف کرتے ہیں کہ دیگر ڈائٹنگ یا کم خوراکی مشقوں کے مقابلے میں اسلامی طرز پر ایک مہینہ روزہ رکھنے کے فواید بہت زیادہ حیرت انگیز ا ور موثر ہیں۔

ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک- فلسطین کے مزاحمتی گروہ نے اپنے ہفتہ وار اجلاس کے بعد ایک بیان جاری کرکے کہا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ ہماری جنگ براہ راست اور وسیع ہے، صیہونی حکومت کے اقدامات اس جنگ کو جاری رکھنے میں رکاوٹ پیدا نہيں کر سکتے۔

 

فلسطینی گروہوں نے فلسطین کے مختلف علاقوں خاص طور پر جنین میں فلسطینی عوام کی مزاحمت اور پائمری کی قدردانی کی۔

 

صفا نیوز نے اس بیان کو نقل کرتے ہوئے بتایا کہ جنین کے عوام کا انقلاب، صیہونی حکومت کی زور زبردستی کا مقابلہ کرنے کے لئے بدستور جاری ہے اور حالیہ دنوں میں بہنے والے شہداء فلسطین کا خون پامال نہیں ہوگا۔

 

اس بیان کے مطابق مقبوضہ فلسطین کے تل الربیع میں شہید رعد حازم کی جرآتمندانہ کارروائی نے صیہونی حکومت کی سیکورٹی کمزوری اور اس کے چھوٹے دعوے کی پول کھول دی۔

 

فلسطین کے مزاحمتی گروہوں نے صیہونی حکومت اور جارح صیہونیوں کے مسجد الاقصی کی توہین اور وہاں پر اپنے پروگرام منعقد کرنے کی بابت خبردار کرتے ہوئے تاکید کی کہ صیہونی حکومت اس یہودی رنگ دینے والے اقدامات کے خطرناک نتائج کے ذمہ دار ہو گی