سلیمانی
حقیقی عید
پيغمبر اكرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عید فطر کے خطبے میں فرمایا: أَلا إِنَّ هٰذَا الْيَوْمَ يَوْمٌ جَعَلَهُ اللّٰهُ لَكُمْ عِيداً، وَجَعَلَكُمْ لَهُ أَهْلاً، فَاذْكُرُوا اللّٰهَ يَذْكُرْكُمْ، وَادْعُوهُ يَسْتَجِبْ لَكُمْ، وَأَدُّوا فِطْرَتَكُمْ فَإِنَّها سُنَّةُ نَبِيِّكُمْ ؛ اگاہ رہو کہ خداوند متعال نے اج کے دن کو تمھارے لئے عید کا دن قرار دیا ہے لہذا خدا کو یاد کرو تاکہ وہ تمہیں یاد رکھے، اس کا ذکر کرو تاکہ وہ تمھاری دعائیں قبول کرے ، استغفار کرو تاکہ تمھیں بخش دے ، اپنا فطرہ دو کہ یہ تمھارے رسول کی سنت ہے ۔ (۱)
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے بھی عید الفطر کے سلسلہ میں فرمایا : أَلْیَومُ لَنا عِیْدٌ وَ غَدا لَنا عِیْدٌ وَ کُلُّ یَوْمٍ لانَعْصِى اللّه َ فیهِ فَهُوَ لَنا عِیْدٌ ؛ اج ہمارے لئے عید کا دن ہے اور کل بھی ہمارے لئے عید کا دن ہے ، ہر وہ دن جس دن گناہیں سرزد نہ ہوں اور خدا کی معصیت و نافرمانی نہ ہو وہ دن ہمارے لئے عید کا دن ہے ۔ (۲)
امام حسن مجتبی علیہ السلام سے منقول ہے کہ "وَ نَظَرَ اَلْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ إِلَى أُنَاسٍ فِي يَوْمِ فِطْرٍ يَلْعَبُونَ وَ يَضْحَكُونَ فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ وَ اِلْتَفَتَ إِلَيْهِمْ «إِنَّ اَللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ شَهْرَ رَمَضَانَ مِضْمَاراً لِخَلْقِهِ يَسْتَبِقُونَ فِيهِ بِطَاعَتِهِ إِلَى رِضْوَانِهِ فَسَبَقَ فِيهِ قَوْمٌ فَفَازُوا وَ تَخَلَّفَ آخَرُونَ فَخَابُوا فَالْعَجَبُ كُلُّ اَلْعَجَبِ مِنَ اَلضَّاحِكِ اَللاَّعِبِ فِي اَلْيَوْمِ اَلَّذِي يُثَابُ فِيهِ اَلْمُحْسِنُونَ وَ يَخِيبُ فِيهِ اَلْمُقَصِّرُونَ وَ اَيْمُ اَللَّهِ لَوْ كُشِفَ اَلْغِطَاءُ لَشُغِلَ مُحْسِنٌ بِإِحْسَانِهِ وَ مُسِيءٌ بِإِسَاءَتِهِ» حضرت نے عید کے دن کچھ لوگوں کو دیکھا جو لہو و لعب ، کھیل کود اور ہنسی مزاق میں مصروف ہیں تو حضرت نے اپنے ہمراہ موجود افراد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: خداوند عزّوجل نے ماہ مبارک رمضان کو قرار دیا تاکہ اس کی مخلوق کے درمیان اس کی اطاعت و رضایت کے میدان میں مقابلہ رہے ، بعض لوگوں نے سبقت حاصل کرلی اور کامیاب ہوگئے اور بعض پیچھے رہ گئے اور وہ مایوس و نا امید ہوگئے ، تعجب ہے ان لوگوں پر جو اج کے دن ہنسنے اور کھیلنے میں مصروف ہیں ، وہ دن کہ جس دن نیکوکار افراد نے اپنے اعمال کی جزا پائی ہے اور کوتاہی کرنے والے نقصان اور گھاٹے میں رہے ہیں ، خدا کی قسم اگر پردے ہٹ جائیں تو نیکوکار یہ سوچے گا کہ کیوں مزید اعمال انجام نہیں دیئے اور بدکار یہ سوچے گا کہ کیوں ہم نے اعمال انجام نہیں دیئے ، اس طرح کہ اپنے سروں میں کنگھی کرنے اور کپڑوں کو صاف کرنے سے گریز کریں گے ۔ (۳)
کربلائی خواتین
کربلا ہمارے لئے درسگاہ ہے اس کی ہرچیز ہمارے لئے مشعل راہ ہے،ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت،بوڑھا ہو یا جوان اگر عبرت اور سبق لینے کی غرض سے کربلا کا مطالعہ کرے تو اسے بہترین نمونے مل جائیں گے آئیے ہم بات کرتے ہیں کہ کربلا میں روز عاشورا یا بعد عاشورا ،خواتین نے کون سے کام انجام دیئے؟
۱۔مردوں میں شوق جہاد و شہادت کو پروان چڑھانا:
کربلا کے عظیم حماسہ میں بعض مردوں کا حاضر و شریک ہونا خواتین کے عزم پیہم کا مرہون منت ہے اگر یہ خواتین اپنے مردوں کو محاذ حق پر باطل کے خلاف جہاد کرنے کے لئے آمادہ نہ کرتیں اور انھیں فرزند زہرا(س) کی نصرت کے لئے تیار نہ کرتیں تو شاید وہ اس مقام پر نہ پہنچ پاتے اور اسی طرح قافلہ حسینی ؑکی خواتین کا صبر و استقامت اور اپنے عزیزوں کے فراق میں جوانمردی کا مظاہرہ اپنی مثال آپ ہے۔
لہذا ہمارے معاشرے میں بھی خواتین اہم کردار ادا کرسکتیں ہیں،اپنے مردوں اور بچوں کو دینداری، دین شنانسی اور حق کی حمایت کے لئے تیار کرسکتی ہیں کربلا سے الہام لے کر آج کی خواتین اپنے معاشرہ کو خیر و سعادت کی ڈگر پر لگا سکتیں ہیں،حق و باطل کا محاذ آج بھی برپا ہے اور وہی جوانمرد حق کا ساتھ دیتے ہیں اور باطل کے خلاف نبرد آزما ہوتے ہیں جن کے گھروں کی عورتیں انھیں ترغیب دلاتی ہیں۔
۲۔ہر مصیبت کے مقابل صبر و استقامت کا مظاہرہ :
کربلا کی خواتین کی دوسری خصوصیت ان کی استقامت تھی اگرچہ وہ اپنے عزیزوں کو کھو چکی تھیں اور ایسے حساس موقعوں پر خواتین جلد جذباتی اور حساس ہوجاتی ہیں لیکن وہ سورما اور دلاور خواتین ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے موقف یعنی نصرت دین سے پیچھے نہیں ہٹیں بلکہ انھوں نے دوسری خواتین اور بچوں کی ڈھارس بندھائی چنانچہ ارباب مقاتل رقمطراز ہیں کہ جب حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو علی اکبر(ع) کی شہادت کی خبر ملی شہزادی کے لب پر یہ صدا تھی:”اے میرے پیارے اے میرے بھتیجے“! لیکن آپ اس حالت میں بھی امام حسین(ع) کو تسلی اور حضرت کی ڈھارس بنی رہیں۔
کربلا کے یہ کردار آج کی خواتین کے لئے عبرت ہیں اگر راہ خدا میں تمہارے مرد مشکلات و مصائب میں چاروں طرف سے گھر جائیں تو ان کا سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ انھیں تسلی دیں ان کی ڈھارس بندھائیں۔
۳۔امامت و ولایت کا دفاع:
کربلا کے حماسہ میں موجود خواتین کی گفتار و کردار سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے امامت و ولایت کے دفاع میں کسی قربانی سے دریغ نہ کیا چنانچہ جب شمر امام حسین(ع) کے سر مبارک کو جسم اقدس سے جدا کرنا چاہتا تھا حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا امام علیہ السلام کی جان کے نجات کے لئے یا اتمام حجت کے لئے عمر سعد کو خطاب کرتی ہیں:اے پسر سعد میرا بھائی قتل ہورہا ہے اور تو دیکھ رہا ہے؟
اور اسی طرح ابن زیاد کے دربار میں جب وہ علی ابن الحسین(ع) کو قتل کرنا چاہتا تھا حضرت زینب(س) ابن زیاد کے اس ارادے کے درمیان حائل ہوئیں اس طرح کہ ابن مرجانہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:تو نے ابھی تک ہمارا جتنا خون بہایا ہے کیا یہ کافی نہیں ہے؟خدا کی قسم میں اس سے ہرگز جدا نہ ہونگی یہاں تک کہ پہلے مجھے قتل کردے۔شہزادی کا یہ خطاب سن کر ابن زیاد اپنے ارادے سے منصرف ہوگیا۔
۴۔مقصد کربلا کی تبلیغ:
حماسہ کربلا کا سب سے عظیم ،سخت و مشکل کام عاشورا کے بعد یہ تھا کہ جس مقصد کے لئے یہ سب کچھ ہوا اس مقصد کو لوگوں تک پہونچایا جائے اور یہ اس حماسہ کا سب سے حساس پہلو ہے کہ خواتین کے کاندھوں پر یہ عظیم کام آیا،اور ان خواتین نے اس طرح اس پیغام کو پہونچایا کہ رہتی دنیا تک اسلام ان کا ممنون و مشکور رہے گا۔
فلسطین کی آزادی کا واحد راستہ مزاحمت ہے، مذاکرات یا معاہدے نہیں، میجر جنرل حسین سلامی
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی فورس کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے کہا ہے کہ فلسطین معاہدوں یا مذاکرات سے آزاد نہیں ہوگا۔ آزادی کا واحد راستہ مزاحمت ہے۔امریکی ثالثی میں مذاکرات اور معاہدوں کا مقصد صرف اسرائیل کے لیے وقت خریدنا اور فلسطینی مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنا ہے۔ غزہ میں یوم القدس کمیٹی کی تقریب سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں ایرانی کمانڈر نے کہا کہ کیمپ ڈیوڈ، اوسلو اور شرم الشیخ جیسے نام نہاد امن معاہدوں کے نتیجے میں فلسطین آزاد ہوا نہ ہی ہوسکے گا۔ ایسے تمام معاہدے اور سنچری ڈیل جن پر سابق امریکی صدور اور اسرائیلی وزرائے اعظم نے دستخط کئے ان کا مقصد مزاحمت کو پس پشت ڈالنے، مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنے، وقت خریدنے اور قوموں کے شعور کو مٹانے کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جعلی اور غاصب حکومت کی شکست قریب ، قطعی اور یقینی ہے۔ امریکا دنیا میں اسرائیل کا سب سے بڑا حامی ملک ہے جو اسرائیل کے سنگین اور وحشیانہ جرائم میں برابر کا شریک ہے۔ امریکا کی ہڈیاں اب بوسیدہ اور کمزور ہوگئی ہیں اور وہ بھی روزبروز زوال اور تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایران فلسطینی عوام کی حمایت میں ثابت قدم ہے، ہم فلسطینیوں کی مکمل فتح تک ان کے ساتھ ہیں۔ ہم اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
کابل کی شیعہ مسجد میں دہشتگردانہ حملے کے شہداء کی تعداد 50 ہو گئی
اسکائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسجد خلیفہ آغا گل جان میں جمعہ کے دن اُس وقت دہشتگردانہ حملہ ہوا جب وہاں نماز جمعہ ادا کی جارہی تھی اور سیکڑوں نمازی شریک تھے۔
دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ مسجد کے دروازے اور شیشے ٹوٹ گئے جب کہ آس پاس کی عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ دھماکے کے بعد بھگدڑ مچ گئی ۔
ریسکیو ادارے نے امدادی کاموں کے دوران کئی درجن افراد کو اسپتال منتقل کیا جن میں سے 50 کے شہید ہونے کی تصدیق کردی گئی ہے جب کہ 78 افراد شدید زخمی ہیں جن میں سے 6 کی حالت نازک ہے۔ بعض ذرائع نے شہداء کی تعداد 66 بتائی ہے۔
دھماکے کے بعد طالبان اہلکاروں نے جائے وقوعہ کا محاصرہ کرلیا۔ تاحال دھماکے کی نوعیت کا تعین نہیں ہوسکا ہے۔ اس حوالے سے طالبان سیکیورٹی فورسز تفتیش کر رہی ہیں۔
تاحال کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم گزشتہ برس اگست کے وسط میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مساجد اور سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے کی ذمہ داری وہابی دہشت گرد تنظیم داعش قبول کرتی رہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران قریب پندرہ دہشتگردانہ حملوں میں تین سو کے قریب افراد جان بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں، ان میں زیادہ تر حملے مسجدوں میں ہوئے۔ زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
ایران میں خلیج فارس کا قومی دن
خلیج فارس جنوب مغربی ایشیا میں ایران اور جزیرہ نما عرب کے درمیان واقع ہے۔ یہ تجارتی نقطہ نظر سے دنیا کے اہم ترین آبی علاقوں میں شمار ہوتی ہے۔ مختلف زبانوں میں اس سمندری علاقے کا تاریخی نام خلیج فارس ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران خلیج فارس کا نام تحریف اور تبدیل کرنے کی بے پناہ کوششیں کی جاتی رہی ہیں جبکہ تاریخی دستاویزات اس بات کی گواہ ہیں کہ اس آبی علاقے کا نام قدیم زمانے سے خلیج فارس تھا اور آئندہ بھی رہے گا۔
دنیا میں تیل کی اہم ترین آبی گزرگاہ یعنی خلیج فارس ایرانی تہذیب و تمدن کا اٹوٹ حصہ ہے اور دنیا بھر کی تاریخی دستاویزات، معاہدوں نیز مختلف اقوام کے درمیان اس آبی گزرگاہ کی پہنچان کے لیے یہی نام استعمال کیا جاتا ہے۔
اس مناسبت پراسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے کمانڈر نے اس مناسبت پر ایران کے عوام اور مسلح افواج کو مبارکباد دی
قدس ہمارا ہے۔۔۔۔۔۔ اور سارے کا سارا ہے
آج یوم القدس ہے، آج یوم الاسلام ہے۔ آج یوم اللہ ہے، آج یوم حمایت مظلومین جہان ہے۔ آج یوم مظلومین فلسطین ہے، آج یوم آزادی القدس ہے، آج یوم حریت ہے، آج یوم استقامت ہے۔ آج یوم مزاحمت ہے، آج یوم امید ہے، آج یوم جہاد ہے، آج یوم اتحاد امت ہے، آج یوم قبلہ اول ہے، آج یوم شہداء ہے، آج یوم مستکبرین پر مستضعفین کی فتح کا دن ہے، آج طاغوت کے خلاف قیام کا دن ہے، آج استکبار کے خلاف کھڑے ہونے کا دن ہے، آج امام خمینی کے بتائے ہوئے راستے پر عمل کا دن ہے۔ آج امام خامنہ ای کی پیشین گوئی کو سچ ثابت کرنے کا دن ہے، آج سید حسن نصر اللہ کی فاتحانہ مسکراہٹوں پر درود و سلام بھیجنے کا دن ہے، آج شہید القدس شہید سلیمانی کی شہادت اور جدوجہد کے مقصد پر عمل درآمد کا دن ہے۔ آج شہید احمد یسٰین، شہید فتحی شقاقی، شہید ڈکٹر رنتیسی، شہید حاج رضوان کی شہادت کا بدلہ چکانے کا دن ہے۔
آج قبلہ اول بیت المقدس کیلئے اپنی جانوں کو نچھاور کرنے والے جوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔ آج اپنی دھرتی، اپنے آبائی وطن کی حفاظت کیلئے غاصبوں سے ٹکرانے والے فداکاروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔ آج دنیا بھر میں امت مسلمہ کے قدیم ترین مسئلہ کو پہلا مسئلہ بنا کر پیش کرنے کا دن ہے۔ آج ارض مقدس کی ان مائوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے، جنہوں نے اتنا عرصہ تک مسلسل ایسے سپوت دیئے، جنہوں نے اپنے خون کی سرخی سے اس کتاب قربانی و ایثار کے ورق ورق پر آزادی و حریت کے ابواب لکھے اور لکھ رہے ہیں، ایسے ابواب جو مسلسل جوانوں کے خون سے لکھے جا رہے ہیں اور بہنون کی عزتوں کی پائمالی سے بھی خالی نہیں، بچوں کی مسکراہٹیں چھینتے، بوڑھوں کی آنکھوں کی نورانیت چورانے سے عبارت ہیں، مگر اس داستان شجاعت، حریت و آزادی، ایثار و قربانی کے چراغوں کی لو کم نہیں ہونے دی ہے۔
غاصبوں کے ظلم و تشدد، قتل و غارت، طاقت کے مظاہروں نے اہل فلسطین جو اس پاک و مقدس سر زمین کے مالک ہیں، ان کے جذبہ حریت و مالکیت کو ماند نہیں پڑنے دیا۔ آپ لوگوں نے وہ تصویریں ضرور دیکھی ہون گی، جن میں اہل فلسطین جو اس مقدس سرزمین کے اصل مالک ہیں، غاصب صیہونی فوجیوں کی بندوقوں کی گھن گرج اور رعب و دبدبہ کو کسی خاطر میں لائے بنا مسجد الاقصیٰ میں ایسے بیٹھے جیسے واقعی کسی اصل مالک کو اپنی زمین پر بیٹھنا چاہیئے۔ اس قدر اطمینان، سکون اور اعتماد کہ تصویریں دیکھنے والا بھی دنگ رہ جائے کہ اتنے جدید اسلحہ کے ساتھ غاصب فوجی ان کے سامنے موجود ہیں اور وہ اپنے اطمینان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے سینہ تان کر بیٹھے ہیں یا کھڑے ہیں بلکہ بعض تصویروں میں لیٹے بھی ہیں، جبکہ صیہونی فوج مسجد اقصیٰ میں حملہ آور ہے۔
اس جذبے کو کیسے ماند کیا جا سکتا ہے، اس اعتماد کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے، اس جراءت کو اگر اتنے طویل عرصہ میں ختم نہیں کرسکے تو یہ تو اگلی نسلوں میں منتقل ہوتا رہیگا، فلسطینی مائوں کو اس لئے بھی سلام پیش کرنا چاہیئے کہ اس سرزمین کی باسی مائوں نے اپنے بچوں کو بیت المقدس کی آزادی، قربانیوں، اس کیلئے مرنے مارنے اور جہاد کرنے کی لوریاں کانوں میں رس گھول کے پلانے کی طرح ازبر کرا د ی ہوتی ہیں، تب ہی ایسا ممکن ہوا ہے کہ پچھتر برس سے ایسے ایسے جوانوں نے اپنی جانیں نچھاور کی ہیں کہ جن پہ سر فخر سے بلند ہے۔ ارض مقدس فلسطین کے باسیوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے کسی بھی غیر کی طاقت، قوت، حمایت، مدد اور نصرت پر انحصار نہیں کیا۔ اگر کسی بھی طرف سے اس لمبے عرصہ کے دوران ان کو مدد ملی ہے تو یہ اس وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ بذات خود ان کے اندر حریت و آزادی، مزاحمت و مقاومت کا جذبہ صادق موجود ہے۔
اگر ان کے اندر جذبہ صادق نہ ہوتا تو شاید کسی کی مدد و نصرت اور امداد کام نہ کرتی۔ جو کام آج نظر آرہا ہے کہ اسرائیل دنیا کی جدید ترین آرمی، اسلحہ، ایٹمی قوت، اقتصادی پاور ہونے کے باوجود غلیلوں سے شروع ہونے والے اور پتھروں سے لڑی جانے والی جنگ سے خوف زدہ نظر آتا ہے، کل جن کے ہاتھوں میں پتھر اور غلیلیں تھیں، آج تمام تر سختیوں، تمام تر پابندیوں، مظالم، تشدد، جیلوں، اسارتوں کے باوجود فلسطینی مزاحمتی قوتیں راکٹ اور میزائل کیساتھ ڈرون خودکش کو بھی استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ گذشتہ ایام میں جس جرات و شجاعت کیساتھ فلسطینی نوجوانوں نے مقبوضہ علاقوں میں تمام تر پابندیوں اور سختیوں، سکیورٹی حصارز کو توڑتے ہوئے کامیاب کارروائیاں کی ہیں، اس نے غاصب صیہونیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
میرے خیال میں ہمارے کشمیری مسلمانوں کیلئے فلسطینی جدوجہد اور مزاحمت کے جانبازوں کی شکل اور حکمت عملی نیز جذبہ صادق میں بہت سی رہنمائی کی علامات موجود ہیں۔ ہندوستان نے اسرائیلی غاصب حکومت کے سفاکانہ طریقہ کار پر عمل شروع کر رکھا ہے تو اس کا توڑ بھی اہل فلسطین کی حکمت، جہاد و ایثار نیز مقاومت سے ہی ممکن ہے۔ کسی کو انکار نہیں کہ کشمیری مسلمانوں نے بھی ہزاروں کی تعداد میں جانیں قربان کی ہیں، کشمیری مائوں بہنوں کی عزتیں تار تار ہو رہی ہیں، ان کے گھر بار اور املاک تاراج کیے گئے ہیں، ان کے جوانوں کو بھی بدترین اذیتیں دی جا رہی ہیں اور ان کے جوان بھی ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں ہیں، مگر ان پر بیرونی عوامل زیادہ موثر اور طاقتور تھے، جس کی وجہ سے اندر کے کشمیری نوجوان کے جذبہ حریت و استقامت کو عالمی سطح پر اس طرح تسلیم نہیں کیا گیا،جیسے فلسطینی نوجوانوں کی جدوجہد کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
فلسطین میں مقاومت و مزاحمت کرنے والے بیرونی لوگ نہیں ہیں، یہ اصلی و نسلی فلسطینی ہیں، لہذا آزادی کی جنگ لڑنا ان کا قانونی حق ہے، اپنے حق کیلئے غاصبوں سے ٹکرا جانا ان کا بنیادی حق ہے، جسے کوئی بھی تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اہل کشمیر کو اپنی جدوجہد آزادی، مزاحمت کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگا۔ ملت فلسطین کی جدوجہد آزادی، حریت، مزاحمت کی تاریخ میں اپنا الگ مقام رکھتی ہے، جو دنیا بھر کی آزادی و حریت کے پیروکاروں کیلئے روشن مثال کے طور پر موجود ہے اور رہیگی۔ یوم القدس امام خمینی کے فرمان پر ان کی عظیم جدوجہد، ان کیساتھ اظہار یکجہتی، امت مسلمہ، انسانی آزادی کے علمبرداروں، انسانی حقوق کیلئے بر سرپیکار تنظیموں اور مہذب اقوام کیلئے ایک پیغام ہے کہ ارض مقدس فلسطین کی بازیابی سے کم اس ملت مظلوم کو کچھ بھی قبول نہیں ہوگا۔
اگرچہ بعض نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی خیانت اور ارض مقدس سے ان کی غداری، صیہونیوں سے ان کی قربتیں کچھ نیا نہیں، اس سے اہل فلسطین یا آزادی و حریت کے علمبردار گھبرانے والے نہیں، یہ تو پہلے سے واضح و روشن ہے کہ نام نہاد مسلم حکمران اپنی کرسیاں اور سلطنتیں بچانے کیلئے عالمی طاقتوں کی جھولی میں گر جاتے ہیں، فلسطین کا فیصلہ فلسطین کی غیور و غیرت مند عوام نے کرنا ہے، جو انہیں قبول ہوگا، اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا۔ یوم القدس کا دن دنیا بھر کے مسلمانوں کی اہل فلسطین کے ساتھ یکجہتی اور اہل فلسطین کے اس دن بلند ہوتے شعار ثابت کریں گے کہ ان کا فیصلہ کیا ہے، فلسطینیوں کا فیصلہ یہی ہے کہ "قدس ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے۔"
تحریر: ارشاد حسین ناصر
اسلامی حکومت کی ضرورت حدیث کی روشنی میں از امام خمینی
عقل، احکام اسلام کی ضرورت، رسول اکرمؐ اور امیر المومنینؑ کا رویہ اور آیات و حدیث کے مفاد سے، حکومت اسلامی کی تشکیل واجب اور لازم ہے۔ بطور نمونہ ایک روایت امام رضاؑ سے نقل کرتا ہوں۔ حدیث کا آخری حصہ ہمارےمطلب کے لئے مفید ہے اس لئے اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔
خدا نے ’’اولی الامر‘‘ کیوں معین فرمایا؟
’’ اگر کوئی پوچھے کہ خدا نے ’’اولی الامر‘‘ کیوں معین فرمایا؟ جن کی اطاعت ہم پر واجب ہے۔ اس کا جواب یوں دینا چاہئے کہ بہت سی حکمتوں اور دلیلوں کے پیش نظر خدا نے ایسا کیا ہے، ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ لوگوں کو ایک طریقہ کا پابند کر دیا گیا ہے اور یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اس کے حدود و قوانین سے آگے نہ بڑھیں ورنہ مبتلائے فساد ہوجائیں گے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک فرد (یا قدرت) ان کے لئے امین و پاسبان نہ ہو، جس کا فریضہ ہو کہ لوگوں کو ان کے حقوق سے آگے نہ بڑھنے دیں۔ دوسروں کے حقوق پر کوئی ظلم و تعدی نہ کر سکے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو لوگ اپنی لذت و منفعت کے حصول کے لئے دوسروں پر ظلم سے باز نہیں آئیں گے۔
ایک دلیل یہ بھی کہ دنیا کہ دنیا کے مختلف فرقوں اور مذہبوں میں کسی بھی ملت یا مذہب یا فرقے کا وجود بغیر رئیس کے ممکن نہیں ہوا ہے (اس لئے مسلمانوں میں بھی ایک حاکم اور رئیس ہونا چاہئے) کیونکہ دین و دنیا کے امور میں ایسے شخص کا وجود ضروری ہے۔
اسی لئے خدا خدا وند عالم کی حکمت میں یہ بات نا جائز ہے اپنے بندوں کو بغیر رہبر اور سرپرست کے چھوڑ دے۔ کیونک خدا جانتا ہے کہ مخلوق کے لئے ایسا رہبر ہونا ضروری ہے جو دشمنوں سے جنگ کر کے آمدنی کو ان کے درمیان تقسیم کرے، ان کے جمعہ و جماعت قائم کرے، مظلوموں کے دامن تک ظالموں کے ہاتھوں کو نہ پہنچنے دیں۔ علاوہ بر ایں
رہبر و امام کے تعیین کا فلسفہ
خدا اگر مخلوق کے لئے امام، امین، رہبر اور حافظ معین نہ کرے تو ملت کہنہ ہوجائے، دین برباد ہوجائے، سنت اور اس کے احکام متغیر ہو جائیں، بدعتی لوگ دین میں اضافہ کر دیں، ملحدین کمی کر دیں۔ اور اس طرح کر دیں کہ دین مسلمانوں پر مشتبہ ہو کر رہ جائے، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ ناقص ہیں، کمال کے محتاج ہیں، اس کے علاوہ آپس میں اختلافات رکھتے ہیں، ان کے حالات ان کی خواہشیں الگ الگ ہیں۔
لہذا خدا اگر لوگوں کے لئے دین کا قیم اور محافظ معین نہ کرتا تو جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں لوگ فساد میں مبتلاء ہوجاتے، شریعتیں، سنن، احکام، ایمان سب میں تغیر ہوجاتا اور اس میں پوری مخلوق کا فساد ہی فساد ہوتا۔
کتاب: حکومت اسلامی، ص ۲۷ سے ۲۸، امام خمینی رح؛ سے اقتباس
صالحین سے توسل قرآن کے رو سے
ایکنا نیوز- توسل ان بنیادی مفاہیم میں شامل ہے جن پر دعاوں میں تاکید کی جاتی ہے اور دعا اس سے جلد قبول ہوجاتی ہے توسل میں انسان ایک صالح ولی کا واسطہ دیتا ہے جنکی وجہ سے جلد بخشش ممکن ہوجاتی ہے اور شب قدر کے بعض اعمال میں اس پر تاکید کی گیی ہے مگر کیا قرآن اس چیز کی تائید کرتا ہے؟
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ: اے وہ جو ایمان لائے ہو خدا کی پرواہ کرو
[توسل و] قرب کی کوشش کرو اور اسکی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاو» (مائده: 35).
توسل کسی چیز کے محبت کے ساتھ قریب ہونے کے معنی میں ہے لہذا لفظ «وسیله» کا وسیع معنی ہے اور ہر اس چیز کے معنی میں ہے جس سے خدا کے نزدیک ہونا ممکن ہوسکے۔
«قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ: اے والد گرامی ہمارے لیے بخشش مانگو اور ہم واقعی میں خطا کار تھے»(یوسف: 97)
اس آیت کے رو س دوسروں سے استغفار و بخشش طلب کرنا توحید سے کسی طور متصادم نہیں بلکہ خدا کے لطف و کرم کی طرف ایک راستہ ہے وگرنہ کیسے ممکن تھا کہ یعقوب نبی اپنے فرزندوں کے تقاضے کو تسلیم کرتے اور انکے توسل کا مثبت جواب دیتے؟
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولیاء الھی سے توسل جایز ہے اور اس سے مخالفت قرآن مجید سے لاعلمی یا بیجا تعصب کی نشانی ہے جو حقیقی قرآنی تعلیمات سے دور رکھتی ہے۔
هدایت انسانی میں حقیقی پیشواوں کا کردار
توسل پر تأکید اس حوالے سے اہمیت رکھتی ہے کہ مومن اپنے حقیقی رہنماوں کے راستے پر الہی سمت کی جانب توجہ دیں اور اسکے علاوہ ایک محبت کا رشتہ مضبوط ہوتے ہیں۔
«وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا: ہم نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ توفیق الہی سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تو آپ کے پاس آتے اور خدا سے بخشش طلب کرتے اور پیغمبر بھی انکے لیے بخشش مانگتے، یقینا خدا توبہ کرنے والوں پر مہربان ہے۔»(نساء: 64).
یہ آیت واضح کہتی ہے کہ رسول گرامی (ص) کی سمت جانا اور انکو شفیع قرار دینا اور انکو وسیلہ بنانا گناہ کاروں کی بخشش میں موثر ہے۔/
پاکستان؛ ملک بھر میں یوم قدس جوش و خروش سے منایا گیا
ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق رمضان المبارک کے آخری جمعے کو انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی نے یوم قدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا اور اسی حوالے سے دنیا کے مختلف دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے اکثر شہروں میں بھی نمازیوں نے جمعہ کے بعد صیھونی مظالم اور فلسطینیوں سے یکجتہی کے لیے ریلی نکالی گئی اور قدس شریف کے دفاع کا عزم ظاہر کیا گیا۔
مجلس وحدت مسلمین، امامیہ طلبا تنظیم، اسلامی مرکز اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان سیمت مختلف اسلامی جماعتوں کے زیر اہتمام یوم القدس کے موقع پر فلسطینی مظلومین پر ڈھائے جانے والے صہیونی مظالم کے خلاف القدس ریلی کے راستے میں تصویریں آویزاں کی گئیں جبکہ القدس ریلی کے مرکزی راستہ پر امریکی و اسرائیلی پرچم زمین پر بچھائے گئے تھے۔
کوئٹہ میں نماز جمعہ کے بعد فلسطین حمایت اجتماع سے خطاب میں امام جمعہ سید ہاشم موسوی نے قدس ریلی کے اجازت نہ دینے پر انتظامیہ کی شدید مذمت کی اور کہا کہ شرم کا مقام ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک میں قدس شریف اور فلسطین کی حمایت پر پابندی لگائی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی حمایت سے کبھی نہیں ہٹے تھے اور نہ ہی یہ سلسلہ رکنے والا ہے۔
ایران بھر میں عالمی یوم القدس کے موقع پر "طاقتور مظلوم" کی حمایت میں عظیم الشان ریلیاں نکالی گئیں
ارنا رپورٹ کے مطابق 7 اگست 1979 ایک ایسے راستے کا آغاز تھا جس نے جعلی صہیونی ریاست کو تاریخ کو مسخ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ وہ دن جب اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی (رح) نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو "عالمی یوم القدس" کا نام دیا جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔
جب تک ایرانی عوام اور پوری دنیا کے آزادی پسندوں کی طرف سے اس کی یاد منائی جائے گی، وہ فلسطینی عوام پر صیہونی غاصبوں کے مظالم کو فراموش نہیں ہونے دے گا۔
اس نام کے 43 سال گزرنے کے بعد اب ایرانی عوام نے متفقہ، آزادانہ طور اور فرقہ واریت اور نسل پرستی کے بغیر قدس اور غزہ کی مظلومیت کا نعرہ لگایا۔
تہران اور دیگر شہروں میں فلسطین کے مظلوم اور مقتدر عوام کی حمایت میں ایرانی قوم کا عظیم مارچ مقامی وقت کے مطابق، صبح 10 بجے سے شروع ہوا لیکن اعلان کردہ مارچ میں شرکت کے لیے بہت سے لوگ صبح سویرے سڑکوں میں جمع ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ، کل رات سے، بہت سے مقبول گروپ، انقلابی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ، مختلف ثقافتی پروگراموں کو انجام دینے کے لیے مارچ کے راستوں پر تعینات ہیں۔
عالمی یوم القدس مارچ کے راستے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی کامیابیوں کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
خیبرشکن میزائل؛ ایران کا جدید ترین بیلسٹک میزائل جس کی رینج 1450 کلومیٹر ہے جو کہ دنیا کا سب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والا ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائل ہے اور عماد میزائل اسلامی انقلابی گارڈ کور کا تیار کردہ جدید ترین میزائل ہے۔
خیبرشکن میزائل کے ساتھ شہید کمانڈر حاج قاسم سلیمانی کی تصویر کے ساتھ لگا ہوا یمنی شہداء کا بینر تہران میں یوم القدس کے موقع پر ان شاندار مناظر میں سے ایک ہے جس میں اسلامی انقلاب اور مزاحمتی محاذ کے دشمنوں کے لیے ایک اہم پیغام ہے۔
انقلاب اسکوائر میں فلسطینی پرچم تقسیم کیا جاتا ہے، اور بچے اور نوجوان صہیونی حکومت کے جھنڈے اور قابض اور بچوں کو مارنے والی حکومت کے رہنماؤں کی تصویر کو مارچ کرنے والے مختلف راستوں پر ڈارٹس کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ ڈارٹس کو نشانہ بنانے میں ان کی درستگی کی پیمائش کی جا سکے۔
انقلاب کی طرف جانے والی سڑکوں اور اس کے پویلین کو شہداء کی تصاویر، ثقافتی مصنوعات اور کتابوں سے سجایا گیا ہے، اور آزادی اسکوائر اور انقلاب اسکوائر کے درمیان یوم القدس کے جلوس ساتھ لگائے گئے ثقافتی پویلین بے شمار اور متنوع ہیں۔
اس سال یوم القدس مارچ کے دوران، "فلسطینی قوم کے تیسرے انتفاضہ" کے لیے ایک پویلین قائم کیا گیا تھا، جس نے مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے میں حالیہ شہادتوں کی کارروائیوں کی روشنی میں ناجائز صہیونی ریاست کی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے تیسرے انتفاضہ کے آغاز کو بیان کیا ہے۔
شہید "یحیی عیاش" کی تصویر جو عزالدین القسام بریگیڈز (حماس کی عسکری شاخ) کے اعلی ترین کمانڈروں میں سے ایک ہے، جس کی ان دنوں مقبوضہ علاقوں میں شہادت کی کارروائیوں نے ان کی صیہونی مخالف سرگرمیوں کی یاد تازہ کردی۔ اور اسرائیلیوں میں خوف و ہراس پھیلا، مارچ کے دوران دکھایا گیا۔
نیز قدس کے عالمی دن کے موقع پر ولی عصر (ع) کے چوراہے پر انفوگرافکس کی شکل میں یمن میں سعودی حکومت کے جرائم کا بینر نصب کیا گیا ہے۔
یوم القدس کے مارچ کے راستے میں ایرانی عوام کی لے جانے والی شہداء حاج قاسم سلیمانی، "احمد متوسلیان" اور "محسن فخر زادی" کی تصاویر، تہران کی سڑکوں پر دیکھنے والوں میں سے ایک ہے۔
اس سال یوم القدس مارچ میں بچوں اور نوجواں کی موجودگی خاص طور پر انقلاب اسکوائر میں چشم کشا ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ نئی نسل ہر معاملے میں مختلف ہے۔ فلسطینی عوام کے ظلم کی حمایت تمام نسلوں کا مشترکہ نقطہ ہے۔
تہران میں ولی عصر چوراہے پر بچوں کا ایک گروپ فلسطین کی حمایت میں فارسی اور انگریزی میں پرفارم کر رہا ہے اور تہران یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک تھیٹر گروپ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
کالج چوراہے پر امام علی (ع) بٹالین کے بسیجی جوان یوم القدس کے جلوس میں موجود ہیں اور فوجی دستے بھی جلوس میں شریک ہیں۔
کھیلاڑی بھی تہران کے میدانوں جیسے میدان جنگ میں فلسطین کی حمایت میں نعرے لگانے کے لیے آئے؛ مارشل آرٹ کا مظاہرہ کرنے کے لیے ولی عصر اسکوائر کے ارد گرد تائیکوانڈو کے جنگجوؤں اور کراٹے کاروں کی موجودگی نمایاں ہے۔
مارچ کے پہلے ہی لمحات سے فوجی اور قومی حکام نے ایران کی عظیم قوم کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ صیہونیوں سے اپنی نفرت اور فلسطین اور القدس کی آزادی کی حمایت کا اظہار کیا۔
گریٹر تہران کے پولیس کمانڈر سردار "حسین رحیمی"، شہید حاج قاسم سلیمانی کی بیٹی اورتہران سٹی کونسل کی رکن "نرگس سلیمانی"، نائب ایرانی صدر اور شہداء اور ویٹرنز افیئرز فاؤنڈیشن کے سربراہ سید امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی" مارچ میں موجود پہلے عہدیداروں میں شامل ہیں۔
نیز پاسداران اسلامی انقلاب کے کمانڈر بریگیڈئیر جنرل "اسماعیل قآنی" نے مقدس شہر مشہد میں عوام کیساتھ مارچ میں حصہ لیا۔
ایرانی صدر مملکت آیت اللہ سید "ابراہیم رئیسی" نے بھی عوام کے بڑے اجتماع میں حاضر ہوکر عالمی یوم القدس کے مارچ میں حصہ لیا۔