سلیمانی

سلیمانی


تمدن یعنی مل جل کر رھنا، تعلقات انسانی کو نبھانا۔ تخلیق کائنات سے ھی اللہ تعالٰی نے کائنات کی تمام مخلوقات کو جوڑا جوڑا خلق فرما کر ایک تمدنی مرکز قائم کیا اور آدم (ع) کو اسی کی مرکزیت عطا کی۔
لھذا ایک مسلمان اپنے تمدن و فرھنگ میں مطلق العنان نھیں ہے بلکہ وہ اپنے خالق کی رھنمائی کا محتاج ہے۔ اسی لئے خداوند متعال نے اپنے خاص لطف سے انسان کی عملی رھنمائی کے لئے حضرت آدم (ع) کو تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا۔ پس اس سے معلوم ھوا کہ ابتداء انسان سے لے کر ھر دور میں چاھے ایک مختصر سا گروہ ھی سھی، مگر اس کی ھدایت و رھنمائی کے لئے خدا نے ایک نمونہ عمل خلق کیا ہے۔
یاد رھے کہ خدا کی یھی سنت حضرت آدم (ع) سے لے کر حضرت خاتم (ص) کے نظام ھدایت میں جاری و ساری رھی۔ حتٰی کہ ھر زمانے میں خداوند متعال نے جو بھی نبی مبعوث کیا، حتماً اسکے کے بعد اس کے لئے اس کا جانشین بھی قرار دیا، تاکہ اس نبی کے بعد اسکی امت بے وارث و بے یار ومددگار نہ رھے۔
خداوند متعال کی یہ روش فقط سابقہ ادیان کے ساتھ مخصوص نھیں تھی، بلکہ اس کی یہ سنت اسلام میں بھی کارفرما ہے اور ایسا ھرگز نھیں ہے کہ خدا کی یہ سنت باقی ادیان میں تو ھو، مگر دین اسلام میں یہ سنت باقی نہ رھی ھو، بلکہ جانشین و رھبر کی جتنی ضرورت حضرت خاتم (ص) کے بعد کے زمانے کو تھی، شاید ھی ایسی ضرورت کسی اور زمانے میں پیش آئی ھو، کیونکہ حضرت خاتم (ص) کے بعد دین کے اکمال کا مرحلہ تھا۔ کیونکہ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ھونے کے ناطے عالمگیر حاکمیت کا بھی خواھاں ہے اور جب اسلام نے انسان کی رھبری کی ذمہ داری اٹھائی ہے تو ضروری ہے کہ اسلام کے قوائد و ضوابط کے نفوذ کے لئے ایک مرد کامل موجود ھو۔
اب یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ایک ناقص کسی کامل کا انتخاب نھیں کرسکتا تو پھر یہ کسے ممکن ھوسکتا ہے کہ وہ انسان کہ جو خود ھدایت و رھنمائی کے محتاج ہیں، وہ اپنے لئے کسی مناسب ھادی و رھنما کا انتخاب کریں اور اگر ایسا ھوتا بھی تو یہ ھرگز ممکن نھیں تھا کہ چند افراد کے انتخاب پر تمام امت کا اتفاق ھوتا، کیونکہ فطرتاً ھر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔
لھذا اس بناٗ پر امت میں بعد از رسول (ص) رھبر و جانشین کے انتخاب کی ذمہ داری یا تو خود رسول اکرم (ص) کے ذمہ تھی یا پھر حاکم شارع خود خداوند متعال کے ذمہ۔ جبکہ صاحبان قرآن اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ رسول خدا (ص) نے اپنی پوری زندگی میں اپنی مرضی سے نہ ھی کوئی قدم اٹھایا اور نہ ھی کبھی اپنی مرضی سے کوئی کلام کیا۔ لھذا اس بنا پر فقط ایک ذات یعنی ذات خدا وندی ھی ہے کہ جو بعد از رسول خدا (ص) انسانوں کے لئے مناسب رھنما کا انتخاب کرے۔
تاریخ سے آشنائی رکھنے والے افراد اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں یہ کام خود خدا وند متعال نے ھی اپنے رسول (ص) کے توسط سے مقام غدیر خم میں انجام دیا کہ جس پر اکثر علماء اسلام کا اتفاق ہے۔ اس پر قرآن کی صریح آیت (یاایھا الرسول بلغ ما انزل۔۔۔۔۔۔) دلالت کر رھی ہے اور وہ مسئلہ، مسئلہ رھبر و امامت ھی تھا کہ جس کی خاطر خداوند متعال نے اپنے حبیب سے اس لھجے میں بات کی کہ اے رسول (ص) اگر آپ نے یہ پیغام نہ پھنچایا تو گویا اپنی تمام رسالت کو انجام نھیں دیا اور یھی وہ حقیقت ہے کہ جس کو پھچاننے و سمجھنے میں امت مسلمہ نے خطا کی۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ وہ تمام واقعہ کہ جو مقام خم میں رونما ھوا، آیا کیا وہ تمام کا تمام اتفاقی تھا؟ اور اس واقعہ سے پھلے رسول خدا (ص) کا تمام علاقائی و قبائلی سرداروں کو خطوط لکھ کر اس سال حج کی دعوت دینا، آیہ غدیر کا نازل کا ھونا، مقام خم میں اگلوں کو پیچھے جبکہ پچھلوں کا انتظار کرنا، کیا یہ سب اتفاقی تھا؟ پھر ایک بڑے انتظام کے بعد گرمی کی اس شدت میں، پھلے اپنی ولایت کا اقرار لینا اور پھر علی کو بلند کرکے لوگوں کے سامنے لانا، کیا یہ سب فقط اس لئے تھا کہ رسول خدا (ص) فقط یہ بتانا چاھتے تھے کہ "جس جس کا میں دوست ھوں، آج سے علی بھی اسکے دوست ہیں؟ اور پھر موقع پر تمام صحابہ اکرام (رض) کا علیؑ کو مبارک دینا، کیا دوستی کے سبب تھا؟
لمحہ فکریہ ہے کہ انتے سال گزرنے کے باوجود بھی امت مسلمہ نے غدیر کو اس زاویے سے کیوں نہ سوچا۔ اس کے دو سبب ھوسکتے ہیں یا تو واقعہ غدیر امت مسلمہ کی نظر مورد اھمیت ھی نھیں یا پھر آج تک غدیر کے معاملے میں خیانت سے کام لیا گیا ہے۔
تحریر: اشرف سراج گلتری

ارنا رپورٹ کے مطابق، ایرانی مرکز برائے بچوں اور نوعمروں کی فکری نشو ونما نے کہا ہے کہ امریکہ میں منعقدہ چوتھے انڈیکس فلم فیسٹیول کے جیوری نے جون مہینے کی بہترین شارٹ فلم کے شعبے کے خصوصی ایوارڈ کو ایرانی ساختہ انمیشین The sprayerکو دے دیا۔

انڈیکس فلم فیسٹیول ہر مہینے میں دنیا کی منتخب فلموں کے درمیان نومینیٹس اور فاتحوں کا اعلان کرتا ہے۔

اس میلے کے ہر دور میں دو اصل فاتح (تمام سیکشنز کے درمیان منتخب شدہ) کیلئے بطور بہترین شارٹ فلم اور غیر ملکی زبان میں بہترین شارٹ فلم کے علاوہ دو خصوصی ایوارڈز کا تعین کیا جاتا ہے۔

انیمیشن The sprayer کی کہانی ایک ایسی سرزمین کے بارے میں ہے جس میں ہر قسم کے پھول اور پودے اگانے پر پابندی ہے اور سپرے کرنے والی نامی فوج وہ پودے اور ان افراد جن کی حفاظت کرتے ہیں، کو شکار کرنے پر ذمہ دار ہیں۔ کہانی میں سائنس فکشن کا ماحول ہے اور اس میں کھنڈرات کے مقابلے یوٹوپیا ہیں؛ اس کھنڈارت کے ماحول میں کوئی روشن مستقل کا تصور نہیں کیا جا سکتا تا ہم ایک فوج کی ایک پودے سے ملاقات سے اس کی زندگی کا راستہ بدل جاتا ہے۔

واضح رہے کہ چوتھے انڈیکس فلم فیسٹیول 19 اگست 2022 کو اپنے حتمی فاتحین کا اعلان کرے گا۔

تہران، ارنا – نائب ایرانی وزیر خارجہ برائے مغربی ایشیا نے کہا ہے کہ بائیڈن کے علاقائی دورے کا تلخ پھل بغاوت، جنگ، برادرانہ قتل اور سازش ہے۔

یہ بات محمد صادق فضلی نے اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ میں کہی۔

انہوں نے جو بائیڈن کے دورہ مغربی ایشیائی کے آغاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سفر کا تلخ پھل بغاوت، فتنہ، جنگ، برادرانہ قتل اور سازش ہے۔

فضلی نے کہا کہ بائیڈن کے اس بدقسمت قدم کا مقصد کینسر زدہ حکومت(اسرائیل) جو خطے میں تمام بد امنی اور خطرات کی جڑ ہے ، کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ جیسا کہ خدا نے وعدہ کیا ہے فتح اسلامی مزاحمت کے لیے ہوگی۔

Tuesday, 12 July 2022 07:32

قربانی اور ہم

|قال امیر المومین علی ابن ابیطالب علیہما السلام : لَيُغْفَرُ لِصَاحِبِ اَلْأُضْحِيَّةِ عِنْدَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا

ترجمہ : قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ جب زمین پر گرتا ہے تو صاحب قربانی کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں ۔

قربانی کا لغوی معنی ۔فدا کرنا ، نثار کرنا اور نزدیک ہونے کے ہیں ۔اور اصطلاح میں قربانی یعنی انسان خدا سے قریب ہونے کے لئے اپنی کسی پسندیدہ چیز کو اسکی راہ میں فدا کردے ۔

قربانی ایک ایسا وسیع مفہوم ہے جسکے بہت سارے مصادیق ہیں اُن میں سے ایک دس ذی الحجۃ کو کسی جانور کا ذبح کرنا ہے جو حاجیوں کے لئے واجب اور غیر حاجیوں کے لئے مستحب تاکیدی ہے ۔ زمین پر سب سے پہلی قربانی جو تقرب خدا کے لئے دی گئی تھی قابیل و حضرت ھابیل علیہ السلام کی قربانیاں تھیں جن میں سے خداوندمتعال نے حضرت ھابیل ؑ کے خلوص اور انکے تقوی کیوجہ سے اُنکی قربانی کو قبول فرمایا جیسا کہ اس کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے ۔وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَأَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ ۖ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ (مائدہ ۔ آیت ۲۷)( ترجمہ : اے رسول (ص)! تم ان لوگوں سے آدمؑ کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کا سچا قصہ بیان کردو کہ جب ان دونوں نے خدا کی درگاہ میں نیازیں چڑھائیں تو ان میں سے ایک ( قابیل) کہ نہ قبول ہوئی تو حسد کے مارے ( ہابیل) سے کہنے لگا میں تو تجھے ضرور مار ڈالوں گا اُس نے جواب دیا کہ ( بھائی ) اس میں اپنا کیا بس ہے خدا تو صرف پرہیزگاروں کی نذر قبول کرتا ہے ۔ ترجمہ فرمان علی صاحب

اسی طرح طول تاریخ میں یہ عمل سلسلہ وار چلتے ہوئے خلیل خدا حضرت ابراھیم علیہ السلام تک پہونچا اور آپ کو خداوندمتعال کی طرف سے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ہوا جسے قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔

فلمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّی أَرَی فِی الْمَنَامِ أَنِّی أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی ۚ قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِی إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِینَ (صافات، آیت ۱۰۲) (ترجمہ : ہم نے اُن کو بڑے نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی پھر جب اسماعیل علیہ السلام اپنے باپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے لگا تو (ایک دفعہ) ابراہیم علیہ السلام نے کہا بیٹا ! میں خواب میں (وحی کے ذریعہ کیا) دیکھتا ہوں کہ میں خود تمہیں ذبح کر رہا ہوں تو تم بھی غور کرو کہ اس میں تمہاری کیا جائے ہے ، اسماعیل علیہ السلام نے کہا بابا جان ! جو آپ کو حکم ہوا ہے اسکو ( بی تامل) کیجئے اگر خدا نے چاہا تو مجھے آپ صبر کرنے والوں میں سے پائے گا ۔فرمان ۔۔

دور جاہلیت میں قربانی دینے کا انداز یہ تھا کہ وہ لوگ جب کسی جانور کی قربانی دیتے تھے تو اسکے خون کو خانہ کعبہ کی دیواروں پر لگاتے تھے اور اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ قربانی میں جانور کا گوشت و خون وغیرہ خدا تک پہونچتا ہے لہٰذا خدا نے قرآن میں اس طرح کے اعتقادات و تصورات کو غلط قرار دیتے ہوئے تقوی اور خلوص عمل کو قربانی کا اصل مقصد قرار دیا اور فرمایا کہ خدا سے قریب ہونے کا معیار تقوی ہے جو جتنا زیادہ خدا کی معرفت اور خوف خدا اپنے دل میں رکھتا ہوگا اتنا ہی وہ خدا سے قریب ہوتا جائےگا ۔

لَن یَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَکِن یَنَالُهُ التَّقْوَی مِنکُمْ ۔ اور تقوی جس طرح قربانی کی قبولیت کی شرط ہے اسی طرح تمام اعمال کی قبولیت کی بھی شرط ہے اور بغیر تقوی کے کوئی بھی عمل بارگاہ خدا میں قابل قبول نہیں ہے اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ (مائدہ ، آیت ۲۷) (ترجمہ : خدا تو صرف پرہیزگاروں کی نذر قبول کرتا ہے لہٰذا ہمیں اور بالخصوص وہ افراد جنہیں خدا نے قربانی دینے کی توفیق دی ہے چاہیے کہ جانور کے ذبح کے وقت اپنی نیت پر توجہ دیتے ہوئے خدا کی راہ میں اس نیک کام کو خلوص کے ساتھ انجام دے کر تقرب الٰہی حاصل کریں اور مقصد قربانی سے غافل ہوکر ذاتی مفاد میں گم نا ہوں لہٰذا مقصد قربانی (جو کہ خدا کی مرضی حاصل کرنا اور کمالات کی بلند ترین منزلوں کو طے کرنا ہے ) کو ذھن میں رکھتے ہوئے اپنی عزیز ترین چیز کو خدا کی راہ میں فدا کرنے کا جذبہ پیدا کریں یہ پسندیدہ چیز چاہے مال ہو ، چاہے وہ اولاد اور چاہے وقت آنے پر جان کی قربانی ہی کیوں نا ہو ، اُسی مقصد کے لئے جب انسان خدا کی راہ میں جان کی قربانی دیتا ہے تو خدا اُسے ذبحِ عظیم سے تعبیر فرماتا ہے اور انسان اگر قربانی کو اس کے تمام مفاہیم کے ساتھ عملی طور پر دیکھنا چاہے تو کربلاء کے شہداء علیہم السلام کی قربانیاں دیکھ لے ۔

قربانی کی مصلحتوں میں سے ایک مصلحت یہ ہے کہ انسان معاشرہ میں موجود تنگدست ، ضرورت مند اور مساکین کا خیال رکھتے ہوئے انہیں قربانی میں سے حصہ دے اور ان کی زندگی کے تمام حالات میں اُن کا ساتھ دے کر اللہ کی خوشی حاصل کرے اور اُسی بات کی طرف قرآن و روایات میں کثرت کے ساتھ تذکرہ ہوا ہے ۔

فَکُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِیرَ (حج۔ آیت ۲۸)۔

( تم لوگ ( قربانی کے گوشت ) خود بھی کھاو اور بھوکے محتاج کو بھی کھلاو۔ ترجمہ فرمان صاحب

فَکُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ (حج، آیت ۳۶)۔ ( ان میں سے تم خود بھی کھاو اور قناعت پیشہ فقیروں اور مانگنے والے محتاجوں کو بھی کھلاو ۔ ترجمہ فرمان صاحب ۔۔

اسی طرح مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اسلام (ص) نے مجھے قربانی کے گوشت کو تقسیم کرنے کا حکم دیا تو میں نےان کے حکم کے مطابق قربانی کے پورے گوشت یہاں تک کہ جانور کے چمڑے کو بھی فقراء کے درمیان تقسیم کیا۔ فَأَمَرَنِى فَقَسَّمْتُ لُحُومَها ثُمَّ امَرَنِى فَقَسَّمْتُ جَلالَها وَ جُلُودَها۔

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں کہ :۔اِنَّما جَعَلَ اللَّهُ الْأضْحَى لَيشْبَعَ مِنْهُ مَسَاكِيْنَكُمْ مِنَ اللَّحْم فَاطْعِمُوهم۔ ( ترجمہ : اللہ نے قربانی اس لئے رکھا ہے کہ اس کے گوشت کو تمہارے ضرورت مند بھائیوں کو کھلا کر شکم سیر کرو۔ )مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ج ۱۰، ص ۱۱۰

پس مذکورہ آیات و روایات سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قربانی کے گوشت کو اپنے شکم سیری کے لئے رکھنے کے بجائے فقراء و پڑسیوں کا خیال رکھتے ہوئے تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیئے۔ ۱۔ خود کے لئے ۔۲۔ فقراء کے لئے ۔۳۔ مومنین و پڑوسیوں کے لئے۔۔ یہی عمل انسان اگر ذاتی غرض و مفاد سے ہٹ کر خدا کی رضایت کے لئے انجام دے اور مستحق لوگوں تک اُن کا حق پہونچا کر اُن کے دلوں کو خوش کرے تو یہ حقیقت میں قربانی کہلایا جاسکتا ہے لیکن اگر یہی عمل تقوی اور خلوص سے خالی ہو اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انجام دے تو یہ قربانی نہیں ہوگی اور خدا ، رسول اور آل رسول علیہم السلام کی نگاہ میں بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ عمل میں دکھاوا اور ریاکاری شامل ہوجائے تو مقصدِ قربانی کے بالکل خلاف ہے اور قابل ثواب بھی نہیں ہے ۔

تحریر: ڈاکٹر سید نثار حسین ( حیدر آقا) صدر کل ہند شیعہ مجلس علماء و ذاکرین حیدرآباد

حوزہ نیوز ایجنسی

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے حج بیت اللہ اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ حج اور عید کے روحانی اور عظیم لمحات میں سے ایک اللہ سے دعا کرنا ہے کہ امتِ مسلمہ کو بیداری اور ابراہیمی قربانی کا شعور، امت کے رہنماؤں کو نمرودِ وقت کی شناخت اور سنتِ ابراہیمی کے مطابق اپنے اسماعیل کو قربان کرنے کا حوصلہ عطا کرے اور اسلام کے مشترکہ مفادات کے دفاع اور حفاظت کے لئے متحد ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

علامہ امین شہیدی نے فلسفۂ حج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حج، اللہ کی طرف سے مسلمانوں پر مخصوص شرائط کے ساتھ واجب قرار دیا گیا ہے؛ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ حج کے پس منظر میں موجود فلسفے کے مطابق اسےانجام دیں۔ حج کے دوران خدا تعالیٰ کے حکم مطابق حجاج کرام بہت سی حلال اشیاء سے خود کو روک دیتے ہیں؛ اس مشق کا مقصد خدا کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ اسی طرح شیطان کو کنکریاں مارنے کا فلسفہ یہ ہے کہ کنکر مارنے والا ہر شخص شیطان کی شیطانیت سے برأت و بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حقیقی بیزاری یہی ہے کہ حج سے واپس آنے کے بعد تمام حجاج ابلیسی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی زندگی کا آغاز اللہ کی اطاعت اور مظلوم انسانوں کی مدد سے کریں۔

امت واحدہ پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ حج سے مراد خود کو شیطان کے شر سے آزاد کرنا ہے۔ اس کے بعد جب حجاج کرام کعبة اللہ کی طرف لوٹیں تو "لبیک اللھم لبیک” کہہ کر اس بات کا اعلان کریں کہ ہم اللہ کی طرف پلٹ آئے ہیں اور دوبارہ شیطان کی طرف نہیں جائیں گے۔

علامہ امین شہیدی نے امت مسلمہ کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ مسلمان حکمرانوں اور عوام کو مشترکہ مفادات کے حصول کے لئے مغربی طاقتوں کی فکری غلامی سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ مسلمان حکمرانوں کی اپنے ہم مذہب و ہم عقیدہ لوگوں کے ساتھ اللہ کے گھر میں ایک ساتھ نماز کی ادائیگی کافی نہیں۔ اسلام تہذیبِ نفس کا دین ہے، جو اللہ اور بندوں کے درمیان پاکیزہ رابطہ کو برقرار رکھنے کا درس دیتا ہے۔ اللہ کے گھر کی طرف آنے والے تمام انسان اللہ کے مطیع ہیں اور ظلم سے نفرت کرتے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ امتِ مسلمہ کے مفادات کو اپنے اقتدار پر ترجیح دیں اور جہاں جہاں طاغوت نے مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس کے خلاف مسلمان عوام کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ اگر مسلمان حکمرانوں نے امہ کے مسائل کی طرف توجہ نہ دی تو حج جیسی اہم اور اجتماعی عبادت اصل روح سےخالی رہے گی۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، "علی بہادری جہرمی" نے پیر کو ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ پچھلے 27 سالوں میں اور ایسی دنوں میں 8 ہزار سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو "موت کا راستہ" جس پر سلامتی علاقے کا نام رکھا گیا تھا، میں قتل عام کردیا گیا؛اب اسی جرم کے ملے گئے 50 نئے اجساد سپرد خاک کیے جائیں گے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس منظم یافتہ نسل کشی پر انسانی حقوق کی عالمی برادری کی سنگین خاموشی، کبھی بھی قوموں کی تاریخی یادداشت سے مٹ نہیں جائے گی۔

واضح رہے کہ جولائی 1995 کو سرب فورسز نے مشرقی بوسنیائی قصبے سربرینتسا کے آس پاس آٹھ ہزار سے زائد بوسنیائی مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا تھا اور اب اس جرم میں قربان ہونے والے 50  نئے اجساد مل گئے ہیں جن کی پہچان کے بعد سپرد خاک ہوجائیں گے۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، "محمد باقر قالیباف" نے اپنے اسلامی ممالک کے ہم منصبوں سمیت دنیائے اسلام کے بعض مذہبی اور سیاسی شخصیات کے نام میں الگ الگ پیغامات میں ان کو عیدالاضحی کی آمد پر مبارکباد دی۔

ایرانی پارلیمنٹ کے پیغامات میں کہا گیا ہے کہ میں عیدالاضحی کی آمد پر سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں۔

قالیباف نے کہا ہے کہ عیدالاضحی؛ دنیاوی رشتوں کو ذبح کرنے، اللہ رب العزت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے، عبادت کا شاندار مظہر، کسی بھی رنگ و نسل، مذہب اور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے۔

انہوں نے اس امید کا اظہار کرلیا کہ اس عظیم دن کی برکت سے تمام اسلامی ممالک میں قیام امن اور استحکام برقرار ہوجائے گا اور مسلمانوں کے درمیان برادرانہ اور دوستانہ تعلقات مزید مستحکم ہوجائیں گے۔

ایرانی اسپیکر نے مزید کہا کہ ان کا عقیدہ ہے کہ پارلیمانوں کے نمائندوں کے درمیان مشاورت اور گفتگو؛ دنیائے اسلام کے موجودہ مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوگی اور اس سلسلے میں ایرانی پارلیمنٹ باہمی تعلقات کی تقویت اور توسیع پر تعاون کیلئے اپنی تیاری کا اظہار کرتی ہے۔

قالیباف نے اسلامی ممالک کے اسپیکرز اور ان کے عوام اور حکومت کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرلیا۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، "احمد معصومی فرد" نے پیر کو ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ طبی سہولیات کی تیار کرنے والی سویڈش کمپنی، امریکی پابندیوں کا بہانہ کرکے ایران میں ایپی ڈرمولیسس بلوسا کا شکار بچوں کیلئے خاص پٹیوں کی فروخت کا انکار کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ معصوم فرشتہ (بیمار بچے) آئے دن انسانی حقوق کے دعویداروں کی آنکھوں کے سامنے سہتے ہیں۔ کیا یہ بچوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور انسانیت کیخلاف جرم نہیں ہے؟

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر "النا دوہان" نے مئی مہینے میں ایران کا دورہ کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مجھے ایپی ڈرمولیسس بلوسا کا شکار بچوں سے معلومات حاصل ہوا  اور مجھ سے کہا گیا کہ ان کیلئے ضروری ادویات اور پٹیوں کی درآمد کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمپنیوں نے کہا ہے کہ ان کو امریکی پابندیوں کا شکار ہونے سے خوف ہے؛ ہمیں اس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ ایران کیخلاف اٹھائے گئے اقدامات انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حسب دستور قدیم امسال بھی حجاج کرام کے نام رہنما پیغام جاری کیا جس میں آپ نے حج کے رموز و اسرار، عالم اسلام کی توانائیوں، انہیں درپیش چیلنجوں اور انکے سلسلے میں دشمنوں کی سازشوں کی نشاندہی کی۔

رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام حج حسب ذیل ہے؛

بسم ‌اللہ الرحمن ‌الرحیم

و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمد المصطفی و آلہ الطاھرین و صحبہ المنتجبین.

خداوند عزیز و حکیم کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ایک بار پھر حج کے مبارک ایام کو مسلمان اقوام کی وعدہ گاہ بنایا اور اپنے فضل و رحمت کا راستہ ان کے لیے کھولا۔ مسلم امہ ایک بار پھر اس شفاف اور ابدی آئينے میں اپنے اتحاد و یکجہتی کا مشاہدہ کر سکتی ہے اور انتشار و تفرقے کے محرکات سے منہ موڑ سکتی ہے۔

مسلمانوں کا اتحاد، حج کے دو بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے جو اگر ذکر اور روحانیت کے – جو اس پراسرار فریضۂ واجب کا دوسرا ستون ہے – ہمراہ ہو جائے تو امت مسلمہ کو عزت و سعادت کی چوٹی پر پہنچا سکتا ہے اور اسے وَلِلَّہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُؤْمِنِين (1) کا مصداق قرار دے سکتا ہے۔ حج، ان دو سیاسی اور روحانی عناصر کا مجموعہ ہے اور دین مقدس اسلام، سیاست و روحانیت کا ایک عظیم اور پرشکوہ مجموعہ ہے۔

حالیہ تاریخ میں مسلم اقوام کے دشمنوں نے ان دو حیات بخش عناصر یعنی وحدت اور روحانیت کو کمزور کرنے کے لیے ہماری اقوام کے درمیان بہت زیادہ ریشہ دوانیاں کی ہیں۔ وہ معنویت کو، مغربی طرز زندگي کا پرچار کر کے، جو روحانیت سے عاری اور مادی کوتاہ فکری کا نتیجہ ہے، بے رنگ اور بے جان کر رہے ہیں اور وحدت کو زبان، رنگ، نسل اور جغرافیائي حدود جیسے تفرقے کے بے بنیاد محرکات کو پھیلا کر اور ان میں شدت پیدا کرکے چیلنج کر رہے ہیں۔

امت مسلمہ کو، جس کا ایک چھوٹا سا نمونہ اس وقت حج کے علامتی مراسم میں دیکھا جا رہا ہے، اپنے پورے وجود کے ساتھ مقابلے کے لیے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ یعنی ایک طرف خدا کی یاد، خدا کے لیے عمل، کلام خدا میں غور و فکر اور اللہ کے وعدوں پر اعتماد کو اپنے اجتماعی ادراک میں مضبوط بنائے اور دوسری طرف تفرقے اور اختلاف کے محرکات کو قابو میں کرے۔

آج جو بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا اور عالم اسلام کے حالات، اس گرانقدر کوشش کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ مناسب اور سازگار ہیں۔

کیونکہ اول تو یہ کہ اسلامی ممالک میں دانشوروں اور عوام کی بہت بڑی تعداد، اپنے عظیم عرفانی و روحانی اثاثے کی طرف متوجہ ہو چکی ہے اور اس کی اہمیت اور قدر و قیمت کو سمجھ چکی ہے۔ مغربی تمدن کے سب سے اہم تحفے کی حیثیت سے آج لبرلزم اور کمیونزم اپنی سو سال اور پچاس سال پہلے کی جاذبیت کھو چکے ہیں۔ سرمائے کے محور پر قائم مغربی ڈیموکریسی کے اعتبار پر سنجیدہ سوالیہ نشان لگ چکے ہیں اور مغربی مفکرین اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ شناخت اور عمل کے لحاظ سے سرگرداں ہو چکے ہیں۔ عالم اسلام میں نوجوان، مفکرین اور علم اور دین کے میدان میں سرگرم افراد اس صورتحال کو دیکھ کر، اپنے عرفانی سرمائے اور اسی طرح اپنے ملکوں میں رائج سیاسی خطوط کے بارے میں نئی رائے قائم کر رہے ہیں۔ یہی اسلامی بیداری ہے جس کا ہم ہمیشہ ذکر کرتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ اس اسلامی خود آگہی نے عالم اسلام کے دل میں ایک حیرت انگيز اور معجز نما چیز پیدا کر دی ہے جس کا مقابلہ کرنے میں سامراجی طاقتوں کو دانتوں پسینہ آ جاتا ہے۔ اس چیز کا نام 'استقامت' ہے اور اس کی حقیقت ایمان، جہاد اور توکل کی طاقت کا مظاہرہ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کے ایک نمونے کے بارے میں اسلام کے ابتدائي دور میں یہ آيت نازل ہوئي تھی: " الَّذِينَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھمْ اِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ؛ فَانقَلَبُوا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللَّہ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْھُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّہِ وَاللَّہُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ (2) فلسطین کا میدان اس حیرت انگیز حقیقت کی ایک جلوہ گاہ ہے اور اس چیز نے تخریب کار صیہونی حکومت کو جارحانہ انداز اور شرانگیزی کی حالت سے نکال کر دفاعی پوزیشن اور پسپائي کی حالت میں لا کھڑا کیا ہے اور اس پر کھلی ہوئی سیاسی، سیکورٹی اور معاشی مشکلات مسلط کر دی ہیں۔ استقامت کے دیگر درخشاں نمونوں کو لبنان، عراق، یمن اور بعض دوسری جگہوں پر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

تیسرے یہ کہ ان سب کے ساتھ ہی آج دنیا اسلامی مملکت ایران میں، اسلام کی سیاسی حاکمیت و اقتدار کا ایک کامیاب اور سرفراز نمونہ دیکھ رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا استحکام، خود مختاری، پیشرفت اور عزت، ایک بہت عظیم، با معنی  اور پرکشش امر ہے جو ہر بیدار مسلمان کے افکار و جذبات کو اپنی جانب مائل کر سکتا ہے۔ اس نظام کے ہم ذمہ داروں اور عہدیداروں کی بعض کمیاں اور ناقص کارکردگياں، جن کے باعث اسلامی حکومت کی تمام برکتوں تک مکمل رسائی میں تاخیر ہوئی، اس نظام کے مضبوط ستونوں اور ٹھوس قدموں میں، جن کا سرچشمہ اس کے بنیادی اصول ہیں، کبھی بھی لرزش پیدا نہیں کر سکیں اور نہ ہی اس کی مادی و معنوی پیشرفت کو روک سکی ہیں۔ ان بنیادی اصولوں میں سرفہرست، مقننہ اور انتظامیہ میں اسلام کی حاکمیت، ملک کے سب سے اہم انتظامی امور میں عوام کی را‏ئے پر اعتماد، مکمل سیاسی خودمختاری اور ظالم طاقتوں کی طرف نہ جھکنا ہے۔ یہی اصول مسلم اقوام اور حکومتوں کے اتحاد کی بنیاد قرار پا سکتے ہیں اور امت مسلمہ کو فیصلوں اور تعاون میں متحد اور ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔

یہ وہ اسباب و عناصر ہیں جنھوں نے عالم اسلام کے متحد اور ہم آہنگ ہو کر آگے بڑھنے کے لیے موجودہ موافق اور سازگار حالات فراہم کئے۔ مسلمان حکومتوں، مذہبی شخصیات اور اسکالرز، خودمختار و آزاد منش روشن فکر افراد اور حقیقت کے متلاشی نوجوانوں کو ان سازگار حالات سے پہلے سے زیادہ استفادے کے بارے میں دوسروں سے بڑھ کر سوچنا چاہیے۔

فطری بات ہے کہ سامراجی طاقتیں اور سب سے بڑھ کر امریکا، عالم اسلام میں اس قسم کا رجحان دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوں اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں اور اس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میڈیا کے میدان میں ڈکٹیٹرشپ اور سافٹ وار کے مختلف طریقوں سے لے کر جنگ شروع کرنے اور پراکسی وار کے شعلے بھڑکانے تک اور سیاسی ترغیبوں اور جاسوسی سے لے کر دھمکی، لالچ اور رشوت دینے تک، یہ سارے حربے امریکا اور دوسری سامراجی طاقتوں کی جانب سے استعمال کئے جا رہے ہیں تاکہ اسلام کو، بیداری اور سعادت کی راہ سے ہٹایا جا سکے۔ اس خطے میں مجرم اور نفرت انگیز صیہونی حکومت بھی اسی ہمہ گیر کوشش کے حربوں میں سے ایک ہے۔

اللہ کے فضل اور اس کی مشیت سے زیادہ تر موقعوں پر یہ کوششیں ناکام رہی ہیں اور گھمنڈی مغرب، ہمارے حساس خطے اور حالیہ دنوں میں پوری دنیا میں روز بروز زیادہ کمزور ہوا ہے۔ خطے میں امریکا اور اس کے مجرم ساتھی یعنی غاصب صیہونی حکومت کی پریشانی اور ناکامیوں کو فلسطین، لبنان، شام، عراق، یمن اور افغانستان کے واقعات میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

اس کے مقابلے میں عالم اسلام جوش و جذبے والے نوجوانوں سے بھرا ہوا ہے۔ مستقبل کی تعمیر کے لیے سب سے بڑا سرمایہ، امید اور خود اعتمادی ہے جو آج عالم اسلام خاص طور پر اس خطے کے ممالک میں لہریں مار رہی ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس سرمائے کی حفاظت اور اس میں اضافہ کریں۔

ان سب کے باوجود دشمن کی چالوں سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔ غرور و غفلت سے دور رہنا چاہیے اور اپنی کوششوں اور بیداری میں اضافہ کرنا چاہیے۔ ہر حال میں اللہ تعالی کی طرف پوری توجہ اور خضوع کے ساتھ خدائے قادر و حکیم سے مدد مانگنی چاہیے۔

حج کے اعمال و مناسک میں شرکت، اللہ پر توکل و دعا اور اسی طرح غور و فکر اور فیصلے کا بڑا اہم موقع ہے۔ پوری دنیا میں اپنے مسلمان بھائيوں اور بہنوں کے لیے دعا کیجیے اور ان کی توفیق اور کامیابی، خداوند عالم سے طلب کیجیے۔ اپنے اس بھائي کی ہدایت اور مدد کی دعا کو بھی اپنی خالص دعاؤں میں شامل کیجیے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ

سید علی خامنہ ای

5  ذی الحجۃ 1443

14 تیر 1401 بمطابق 5 جولائي 2022

******

(1) سورۂ منافقون، آیت 8 (اور ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول اور مؤمنین کے لیے ہے۔)

(2) . سورۂ آل عمران، آیات 173 اور 174 (وہ کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمھارے خلاف بڑا لشکر اکٹھا کیا ہے لہٰذا تم ان سے ڈرو۔ تو اس بات نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کر دیا۔ اور انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بڑا اچھا کارساز ہے۔ تو یہ لوگ اللہ کی عنایت اور اس کے فضل و کرم سے اس طرح (اپنے گھروں کی طرف) لوٹے کہ انھیں کسی قسم کی تکلیف نے چھوا بھی نہیں تھا اور وہ رضائے الٰہی کے تابع رہے اور اللہ بڑے فضل و کرم والا ہے۔)

 

(بشکریہ: khamenei.ir)

مناسکِ حج کا آغاز ہوگیا، 10 لاکھ عازمین حج طواف کے بعد قافلوں کی صورت میں منیٰ پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔

عازمین آج منیٰ میں پورا دن قیام اور عبادت کریں گے۔ منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشا اور کل نماز فجر ادا کریں گے۔

عازمین کل میدان عرفات پہنچ کر حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ ادا کریں گے۔ طلوع آفتاب کے بعد واپس منیٰ جائیں گے، شیطان کو کنکریاں ماریں گے اور قربانی دیں گے۔

11 اور 12 ذی الحج کو تمام مناسک سے فارغ ہونے کے بعد عازمین ایک مرتبہ پھر مکہ مکرمہ جا کر مسجد الحرام میں الوداعی طواف کریں گے۔

خیال رہے کہ اس سال ۳۹ ہزار ۶۳۵ ایرانی، حج پر مشرف ہونے کی سعودت حاصل کر رہے ہیں جبکہ مجموعی طور پر اس سال حاجیوں کی تعداد دس لاکھ بتائی جاتی ہے۔