سلیمانی
عالمی سامراجیت سے تعلق رکھنے والوں کی دہشتگردی کاروائی میں ایک ایرانی مدافع حرم کی شہادت
پاسداران اسلامی انقلاب کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عالمی سامراحیت سے تعلق رکھنے والوں کی دہشتگردی کاروائی میں ایرانی مدافع حرم کرنل "صیاد خدایی" کی شہادت ہوئی۔
ارنا رپورٹ کے مطابق، آج شام چار بجے کے قریب تہران میں "مجاہدین اسلام" سڑک کے قریب دو موٹر سائیکل سواروں نے ایرانی مدافعین حرم میں سے ایک کو اس وقت پانچ گولیاں مار کر شہید کر دیا جب وہ گھر میں داخل ہونے والا تھا۔
باخبر ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے حملہ آوروں کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔
سپاہ نیوز کے مطابق، آئی آر جی سی کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بیان میں انسدادِ انقلاب کے مجرمانہ دہشت گردانہ اقدام اور عالمی سامراجیت سے متعلق عناصر کے ہاتھوں، مدافعین حرم میں سے ایک کی شہادت کا اعلان کرتے ہوئے مزید کہا کہ آج شام (اتوار) کو مشرقی تہران میں مجاہدین اسلام سڑک کی ایک گلی میں عالمی سامراجیت سے وابستہ عناصر اور انقلاب مخالفوں نے کرنل صیاد خدایی کو نشانہ بنایا۔
اس بیان میں شہید کرنل صیاد خدایی کی شہادت پر ان کے اہل خانوں کو تعزیت اور تہنیت کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس مذموم واقعے میں ملوثین کی شناخت کے ضروری اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
**9467
ایرانی صدر کا عمان کا دورہ پانچواں غیر ملکی دورہ ہے
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے حکومتی ترجمان علی بہادر جہرمی نے کہا ہے کہ ایرانی صدرسید ابراہیم رئیسی کا عمان کا دورہ پانچواں غیر ملکی دورہ ہے جو ایران کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کا مظہر ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی صدر عمان کے دورے سے قبل تاجیکستان، ترکمنستان، روس اور قطر کا دورہ کرچکے ہیں ، عمان پانچواں ملک ہے جس کا آج پیر کے دن صدر رئیسی دورہ کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی ، عمان کے بادشاہ ہیثم بن طارق آل سعید کی سرکاری دعوت پر آج ایک اعلی سیاسی اور قاتصادی وفد کے ہمراہ عمان روانہ ہوں گے۔ جہاں وہ عمان کے بادشاہ او ردیگر اعلی حکام کے ساتھ دو طرفہ تعلقات ، علاقائي اور عالمی امور کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔
قطر میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکی ایلچی سے ملاقات کی
مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ قطر میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹامس ویسٹ سے ملاقات اور گفتگو کی۔ اطلاعات کے مطابق افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹامس ویسٹ نے طالبان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ملاقات کی۔
ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے افغانستان میں امن و امان، لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمتوں سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا جب کہ افغان عوام کے لیے امدادی پیکیجز کی فراہمی کے طریقہ کار پر بھی گفتگو کی گئی۔
ملاقات میں امریکہ کے خصوصی مندوب نے طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کو بتایا کہ افغانستان میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں کی بندش اور خواتین کی ملازمتوں پر واپسی سے متعلق فیصلوں کی عالمی سطح پر مخالفت کی جا رہی ہے۔
اس سے قبل افغانستان میں طالبان کے عبوری وزير داخلہ سراج الدین حقانی نے سی این این کے ساتھ گفتگو میں امریکہ اور طالبان کے درمیان تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ طالبان کا دشمن نہیں بلکہ دوست ہے۔
مسجد «شاه فیصل» اسلام آباد
امریکا نے مشرقی یمن میں فوجی اڈے بنانا شروع کردئے، سربراہ انصار اللہ
صنعا : امریکا نے یمن کے مشرقی صوبوں، جنوبی ساحلی شہر عدن اور بحیرہ احمر کے ساحل پر فوجی اڈے بنانا شروع کردئے ہیں۔ یہ انکشاف انصار اللہ کے سربراہ عبدالمالک بدرالدین الحوثی نے قبائلی رہنماؤں کے وفد سے خطاب کے دوران کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا تکفیری گروپوں کی مدد سے مشرقی صوبوں حضرموت اور المحرہ میں فوجی اڈے بنارہا ہے۔ یمنی قوم امریکی احکامات کو قبول نہیں کر سکتی، انہوں نے خبردار کیا کہ دشمن لوگوں کے درمیان تفرقہ اور تفرقہ کے بیج بونے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہمیں مقامی حکام کے درمیان سمجھوتہ اور تعاون کے ذریعے صوبہ ابب میں سلامتی اور سماجی استحکام کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ہم امریکیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے بارے میں فیصلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ دشمنوں نے اقوام متحدہ کی ثالثی میں جنگ بندی کا فائدہ اٹھا کر فوجی کمک کو متحرک کرنا شروع کر دیا ہے، جس سے واضح طور پر جنگ کے اگلے مرحلے کی طرف انکا رجحان ظاہر ہوتا ہے اور پچھلے مرحلے میں ان کی ناکامی کی گواہی دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت سے تعلقات کی بحالی خطے کو اس کے حوالے کرنے کا پیش خیمہ ہے۔
امریکہ کے مقابلے میں ایران کی فتح
1979ء میں ایران میں انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے ہی ہم نے اس کا جائزہ لینا شروع کر دیا تھا۔ ہم نے (امام) خمینی کے بارے میں تحقیق کی، ایران کے (بشار) اسد سے اتحاد کے بارے میں تحقیق کی، 1980ء میں (تہران میں امریکی شہریوں کو) یرغمال بنانے کے بحران کا جائزہ لیا، اسرائیل کے خلاف ایران کی پراکسی وار کی تحقیق کی، ایران کے جوہری پروگرام میں پھیلاو اور گذشتہ ایک عشرے کے دوران چار عرب ممالک پر مسلح عناصر کے کنٹرول کا جائزہ بھی لیا۔ یہاں تک میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کم از کم اس وقت تک تہران کے حکام کو فتح نصیب ہوئی ہے۔ میں نے ایران کی اسٹریٹیجیز کے بارے میں پہلی کتاب اس وقت لکھی جب میں بیروت میں تھا۔ اس کے بعد 1992ء میں میں نے متعدد مجلوں میں تحقیقی مقالے اور مختلف کالم لکھے۔
میں نے اپنے ان مقالات اور کالمز میں واشنگٹن کو ایک نئے بلاک کی ممکنہ تشکیل کے بارے میں خبردار کیا۔ میں گذشتہ 41 برس سے ایران پر تحقیق کر رہا ہوں۔ اس دوران میں نے کانگریس کے بیشمار اجلاس میں شرکت بھی کی اور سکیورٹی و دفاعی اداروں کے سیمینارز میں بھی شریک ہوا۔ میری تحقیق زیادہ تر ایران میں رونما ہونے والی تبدیلیوں، اس کے جیوپولیٹیکل پہلووں اور ایران میں رونما ہونے والے ہنگاموں پر مرکوز رہی ہے۔ ابتدا سے آج تک اسلامی جمہوریہ ایران کے تاریخی سفر کو آسان الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے: "تہران نے امریکہ، اسرائیل اور بعض مغربی ممالک کے ساتھ مسلسل ٹکراو کی پالیسی جاری رکھتے ہوئے سرد جنگ، 1990ء کے عشرے میں یونی پولر سسٹم، نائن الیون کے بعد کے عرصے، عرب اسپرنگ اور عراق اور افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے بعد والے حالات سے کامیابی سے عبور کیا ہے۔"
ایران نے اندرونی سطح پر اپنی فوجی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کو پروان چڑھایا ہے اور مسلح گروہوں کے ذریعے خطے میں اپنے اثرورسوخ میں بھی اضافہ کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایران نے اپنے ساتھ جوہری معاہدے کی جذابیت کا سہارا لیتے ہوئے مغربی دنیا میں بھی اچھا خاصہ اثرورسوخ پیدا کر لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایران کیوں فاتح قرار پایا ہے؟ اور کیا اس کی کامیابیوں کے سلسلے کو روکا جا سکتا ہے؟ اس کی چند وجوہات ہیں۔ ایران نے لبنان سے لے کر عراق تک سینکڑوں امریکی فوجیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ دوسری وجہ خطے میں موجود ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہ ہیں۔ تیسری وجہ امریکہ کی پالیسیاں ہیں۔ چوتھی وجہ ایران کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ ہے جبکہ پانچویں وجہ بعض مغربی ممالک کی جانب سے ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کی حمایت ہے۔
ایران کے تمام سکیورٹی اداروں کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں برقرار رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔ ایران سے مذاکرات میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے باہر نکالنے پر راضی ہو جانا امریکہ کیلئے ایک اسٹریٹجک غلطی ہو گا۔ ایسا اقدام مولویوں (ایرانی حکام) کو فتح عطا کرے گا۔ (یاد رہے امریکہ نے مارچ 2019ء میں سپاہ پاسداران انقلابی اسلامی ایران کا نام بیرونی دہشت گرد تنظیموں یا ایف ٹی او کی فہرست میں داخل کر دیا تھا جس کے ردعمل میں ایران کی قومی سلامتی کونسل نے بھی خطے میں امریکی فوج کے کمان سنٹر "سینٹکام" کو دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا)۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی قدس فورس نے عراق، شام، لبنان اور یمن میں اثرورسوخ بڑھانے کیلئے مضبوط مسلح گروہ تشکیل دیے ہیں۔
دوسری طرف واشنگٹن نے نائن الیون کے بعد کئی بار ایران کے بارے میں اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے۔ تہران نے امریکہ کی پالیسی میں اسی تزلزل اور تبدیلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متعدد کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ جرج ڈبلیو بش کی حکومت نے ایران کو شیطنت کا محور قرار دیا جبکہ اس کے بعد برسراقتدار آنے والی براک اوباما کی حکومت نے نیا راستہ اختیار کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سازباز کی پالیسی اختیار کر لی۔ اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ برسراقتدار آئے اور انہوں نے 2016ء میں ایک بار پھر ایران سے متعلق یو ٹرن لیا اور امریکہ ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گیا۔ چار سال بعد جب حالیہ صدر جو بائیڈن نے حکومت سنبھالی تو انہوں نے دوبارہ گذشتہ حکومت کی پالیسی کو تبدیل کر دیا۔
ایران کی پوزیشن 2009ء میں مضبوط ہونا شروع ہوئی اور 2015ء میں اس کی طاقت عروج پر پہنچ گئی۔ اس کا نتیجہ یوں نکلا کہ ایران نے نہ صرف خطے میں اپنا اثرورسوخ بہت حد تک بڑھا لیا بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی اس کا اثرورسوخ محسوس ہونے لگا۔ بورجام نامی جوہری معاہدہ نہ صرف عرب ممالک بلکہ مغربی ممالک میں بھی ایران کے اثرورسوخ میں اضافے کا باعث بنا۔ مغربی ممالک نے ایران کے جوانوں، خواتین اور مذہبی اقلیتوں پر کام کرنے کی بجائے اپنی پوری توجہ ایرانی حکومت پر مرکوز کر رکھی ہے۔ بدقسمتی سے ایران اپنے جوہری معاہدے کو مزید طاقتور ہونے اور امریکی مفادات کو مزید زک پہنچانے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ فی الحال ایران جیت چکا ہے اور جب تک امریکہ اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی نہیں لاتا بدستور فاتح قرار پائے گا۔
پاکستان اور ایران باہمی تعاون سے دہشتگردی کو شکست دے سکتے ہیں، ایرانی قونصل جنرل حسن نوریان
اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے تجارتی حب شہر کراچی میں تعینات ایرانی قونصل جنرل حسن نوریان کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت اور عوام خطے کی اقوام کے مشترکہ دشمنوں کی طرف سے کسی بهی قسم کی بدامنی، انتشار اور خوف پهیلانے والے دہشتگردی پر مشتمل اقدامات کی مذمت کرتے ہیں۔ اپنے ایک بیان میں ایرانی قونصل جنرل حسن نوریان نے کراچی میں حالیہ دہشتگردی کے واقعات کی شدید مذمت اور ان واقعات سے متاثره خاندانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ ایران خود دہشتگردی کا شکار ہے اور انقلاب اسلامی کی کامیابی سے آج تک ستره ہزار ایرانی باشندے دہشتگردوں اور انکے آلہ کار اور حامیوں کے ہاتهوں اپنی جان گنوا بیٹهے ہیں۔ حسن نوریان نے کہا کہ ایرانی قوم دنیا میں سب سے زیاده دہشتگردی کا شکار ہے۔ کراچی میں تعینات ایرانی قونصل جنرل نے پاکستان اور ایران کی خطے میں اہمیت اور ان کے درمیان مشترکہ ہمکاری کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم دونوں ممالک علاقے میں اپنی اہمیت کو سمجهتے ہوئے باہمی تعاون سے دہشتگردی کو شکست دے سکتے ہیں۔
مسلح افواج کے ترجمان نے کہا؛ ایرانی مسلح افواج کا جاسوسی ڈرون کی تیاری پر دیگر ممالک سے تعاون
ارنا رپورٹ کے مطابق، ان خیالات کا اظہار بریگیڈئیر جنرل "ابوالفضل شکارچی" نے ایران سرکاری ٹی وی کی نیوز چینل سے ایک انٹرویو کے دوران، گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے ایرانی مسلح افواج کے حالیہ دورہ تاجکستان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میجر جنرل "محمد باقری" کے اس سفر کے دوران، تاجکستان میں جاسوسی ڈرونز تیار کرنے کی ایک فیکٹری کا افتتاح کیا گیا۔
بریگیڈئیر جنرل شکارچی نے مزید کہا کہ ڈرونز کی تیاری میں اسلامی جمہوریہ ایران کی صلاحیتوں کی وجہ سے یہ فیکٹری صرف جاسوسی ڈرونز کو تیار کرے گی جو ہمارے علاقائی تعاون میں بہت موثر ثابت ہوگا۔
ایرانی مسلح افواج کے ترجمان نے کہا کہ ہم علاقے میں مختلف قسم کے ڈرونز کی تیاری میں سر فہرست ہونے سے اپنی ملک کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں لیکن دوسرے ممالک کے حوالے سے، ہمارے پاس فی الحال ان ممالک میں جاسوسی ڈرون کی برآمد یا پیداوار کے لیے دو طرفہ اور کثیر جہتی تعاون ہے۔
فلسطینیوں نے عرب ممالک سے امید چھوڑ دی ہے: سید حسن نصراللہ
حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے شام میں حزب اللہ کے سینئر کمانڈر مصطفی بدر الدین کی شہادت کی چھٹی برسی کے موقع پر کہا کہ مزاحمت نے لبنان کو آزاد کرایا ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں علاقائی اور لبنان کے مسائل پر روشنی ڈالی اور کہا کہ عرب ممالک پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
حزب اللہ لبنان کے سینئر کمانڈر مصطفی بدر الدین 13 مئی 2016 کو شام کے نواحی علاقے میں واقع فوجی ائیرپورٹ پر تکفیری دہشت گردوں کے راکٹ اور پوپخانے کے حملے میں شہید ہوگئے تھے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ عرب دنیا کبھی بھی لبنان کو صیہونی جارحیت سے نہیں بچا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ "شہید بدرالدین ایک ذہین کمانڈر تھے جنہوں نے نے شام میں صیہونی دشمن اور تکفیری گروہوں کے خلاف مختلف میدان جنگوں میں شرکت کی۔
سید نصر اللہ نے مزید کہا کہ "اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں لبنانی مزاحمت 1982 کے حملے کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔" "شہید بدرالدین کا تعلق اس مزاحمتی نسل سے ہے جس نے اسرائیلی دشمن سے لڑنے کے لیے عرب ممالک کی باضابطہ حمایت کا انتظار نہیں کیا۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ عرب ممالک کی حکومتیں کبھی بھی لبنان کو صیہونی جارحیت سے محفوظ نہیں رکھ سکتیں کیونکہ وہ اس وقت ناکام رہیں جب وہ طاقتور اور متحد تھیں۔
حزب اللہ کے رہنما نے کہا کہ لبنانی ریاست بھی 1982 میں قوم کو صیہونی حملے سے بچانے میں ناکام رہی؛ حتیٰ کہ اس نے 17 مئی کو دشمن کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط کرلئے۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ حزب اللہ، لبنان کی حفاظت اور اس کے تشخص اور تحفظ کے لیے سب سے پرعزم جماعت ہے۔
سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم نے برسوں پہلے کی اپنا فیصلہ کر لیا تھا اور موجودہ وقت میں وہ تمام محاذوں اور میدانوں میں موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم کو اب عرب ممالک، عرب یونین، اسلامی تعاون تنظیم، اقوام متحدہ اور سیکورٹی کونسل کی ضرورت نہیں ہے۔
امریکا حزب اللہ کو دبانے میں ناکام، نئی پابندیاں لگادیں
واشنگٹن : امریکا کو انتخابات میں حزب اللہ کی کامیابی ایک آنکھ نہ بھائی اور اس نے حزب اللہ پر نئی پابندیاں لگادیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے پابندیوں میں ان افراد اور اداروں کو ہدف بنایا ہے جو حزب اللہ کو فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ پابندیوں کی فہرست میں لبنانی کاروباری شخصیت احمد جلال رضا عبداللہ الوسیط سر فہرست ہیں۔ عبداللہ، اور ان سے وابستہ پانچ افراد، کی لبنان اور عراق میں ان کی 9 کمپنیاں بلیک لسٹ کی گئی ہیں اور امریکا کی غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول آفس میں درج پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں۔