سلیمانی

سلیمانی

تہران، ارنا - ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کو جان لینا چاہیے کہ ایرانی قوم کے خلاف دھمکی کی زبان استعمال کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

یہ بات حسین امیرعبداللہیان نے ہفتہ کے روز اپنے ٹوئٹر پیج میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ نے امریکہ کو یہ سکھایا ہوگا کہ ایران اور ایرانیوں کے خلاف دھمکی کی زبان سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
امیرعبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ انحراف کی فضول کوششیں امریکہ کو ہمارے خطے میں دہشت گردی کے جرائم میں ملوث ہونے کے ہزاروں ایرانیوں اور دیگر متاثرین کی ذمہ داری سے بچنے کی اجازت نہیں دے گی۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے منگل کے روز اپنے ایک ٹویٹ میں خیام سیٹلائٹ کے خلا میں بھیجنے کو، پرامن مقاصد کے لیے ایرانی سائنسدانوں کی نئی ایرو اسپیس کامیابی اور ایران کے سائنسی اعزازات کی تاریخ میں ایک اور سنہری باب قرار دیا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ دشمن کی جانب سے عائد پابندیوں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کے باوجود ایران کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کا شاندار سلسلہ جاری ہے۔

واضح رہے کہ مقامی سیٹلائٹ خیام کو منگل کی صبح دس بجکر بائیس منٹ پر قازقستان کے بایکونور خلائی اسٹیشن سے  خلا میں روانہ کیا گیا تھا جس نے طے شدہ مدار میں پہنچنے کے بعد سکنگل بھی ارسال کرنا شروع کر دئے ہیں۔

آسمان امامت و ولایت کے درخشاں ستارے فرزند رسول اور شیعیان عالم کے چوتھے امام، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم شہادت اور اہل حرم کی اسیری کی یاد میں پورے ایران میں مجالس عزا اور نوحہ و ماتم کا سلسلہ جاری ہے۔

آپ کی تاریخ شہادت کے سلسلے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں تاہم سبھی تواریخ محرم میں ذکر ہوئی ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ۱۲ محرم، بعض کے مطابق ۱۸ محرم جبکہ بعض روایات کی بنا پر ۲۵ محرم کو آپ کی شہادت واقع ہوئی ہے۔ اسکے علاوہ بعض روایات کے آپ کے سالِ شہادت کو ۹۴ ہجری جبکہ بعض نے ۹۵ ہجری نقل کیا ہے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ستاون برس کی تھی۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے عاشورا کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم تحریک کا سنگین بار اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور بعدِ کربلا خونخوار اموی حکام  کے ایجاد کردہ گھٹن کے ماحول میں بھی آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے پیغام اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا کام انتہائی خوش اسلوبی اور باکمال طریقے سے انجام دیا اور تحریک عاشورا کے مقصد اور اس کے بنیادی فلسفے کو دنیا کے سامنے بڑے انوکھے اور منفرد انداز میں واضح فرمایا۔

مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام کے فرزند امام سجاد علیہ السلام نے واقعۂ کربلا کے بعد اپنی حیات طیبہ میں اپنے آنسو اور گریے کو تبلیغ دین کے ایک موثر ذریعے کے طور پر استعمال کیا اور دین اسلام کے عظیم معارف کو آفاقی دعاؤں کے پیرائے میں دنیا والوں کے سامنے پیش کیا۔ کثرت عبادت اور شب زندہ داری کے باعث آپ دنیا میں زین العابدین اور سید الساجدین جیسے عظیم القاب سے معروف ہوئے۔ ایک قول میں آپ فرماتے ہیں: مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جس کی اکائیاں اُس کی دہائیوں پر غالب آجائیں، آپ سے دریافت کیا گیا کہ اکائی اور دھائی سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا: اکائیاں وہ گناہ ہیں جن کے کرنے پر ایک ہی سزا مقرر ہوتی ہے مگر دہائیاں وہ نیکیاں ہیں جن کو انجام دینے پر خدا دس گنا ثواب بندے کو عطا فرماتا

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے عاشورا کے دن کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم عاشورا کے دن نائیجریا کے عزاداروں پر مسلح چڑھائی کی مذمت کرتے ہیں۔  

تفصیلات کے مطابق حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے خطاب میں عوام اور رہبر انقلاب کو عاشورا کی مناسبت سے تعزیت و تسلیت پیش کی اور رواں سال عاشورا کے موقع پر لبنانی عوام کے وسیع پیمانے پر شرکت کرنے کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک مرتبہ پھر سید الشہدا امام حسین ﴿ع﴾ کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں اور آپ سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی نداء پر لبیک کہتے ہیں؛ جس طرح گزشتہ چالیس سالوں کے دوران، تمام میدانوں میں اور تمام مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں، اب بھی کہتے ہیں لیبک یا حسین۔ 
سید حسن نصر اللہ نے زور دے کر کہا کہ موجودہ حالات میں عربیت، انسانیت اور مسلمانیت کا معیار فلسطینی ملت کی مظلومیت کے مقابلے میں ہمارا موقف ہے۔ فلسطینی ملت غزہ اور نابلس میں لڑ رہی ہے اور اپنی قوت اور توازن کو صہیونی رجیم پر مسلط  کر رہی ہے، یہ لوگ اپنی ان مجاہدتوں کے ذریعے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مقاومت کے سوا کوئی دوسرا راستہ یا انتخاب موجود نہیں ہے۔  

در ایں اثنا انہوں نے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں ایک مرتبہ پھر فلسطین کے مسئلے کے ساتھ تجدیدِ عہد کرتے ہوئے اس مجاہد اور مزاحمت کی حامل قوم کے ساتھ کھڑے رہنے کا تاکید کے ساتھ یقین دلاتے ہیں۔ 

حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے موجودہ محاصرے کے حالات میں یمنی قوم کی کئی سالہ مقاومت اور پائیداری کو سراہتے ہوئے کہا کہ یمنی قوم ان تمام تکالیف اور درد و رنج کے باوجود جو وہ سہی رہی ہے، عالم اسلام کے اصلی مسائل کو نہیں بھولی ہے۔ ملتِ یمن کی جد و جہد اور مجاہدت امام حسین ﴿ع﴾ کی کربلا کا حقیقی تجسم اور عملی نمونہ ہے۔ 
سید حسن نصر اللہ نے عراق کے حالات کے حوالے سے کہا کہ ہم عراقیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان خطرات کے پیش نظر جو آپ کے ملک کو درپیش ہیں، اپنے اختلافات دور کریں۔ انہوں نے شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی محنتوں اور مجاہدتوں کو یاد دلاتے ہوئے زور دیا کہ ایران بدستور عالم اسلام کا قبلہ اور مقاومت کے محور کا قلب باقی رہے گا۔ 
انہوں نے محاصرے اور پابندیوں میں جکڑے لبنان کے سنگین حالات کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا کہ جو ہاتھ لبنان کے سمندری ذخائر کی جانب بڑھے گا اسے اسی ہاتھ کی طرح کاٹ دیا جائے گا جو لبنان کی سرزمین کی طرف بڑھا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم آنے والے دنوں میں صہیونی رجیم کے جوابات کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ سمندری حدود کی حدبندی کے معاملے میں لبنان کے مطالبات کا کیا جواب دیتے ہیں۔ ہم دشمن سے کہتے ہیں کہ لبنان اور قوم اب اپنے ملک کے قدرتی وسائل سے چھیڑ چھاڑ کو قبول نہیں کریں گے اور کسی بھی ممکنہ صورتحال کے لئے تیار ہیں۔  
سید حسن نصر اللہ نے غزہ کی حالیہ صورتحال کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا ہم نے غزہ کی پٹی سے مطلوب پیغام دریافت کیا اور ان کی مقاومت اور پائیداری کا مشاہدہ کیا، تاہم تمہارا ﴿صہیونی رجیم﴾ ہمارے ساتھ لبنان میں معاملہ، ایک الگ معاملہ ہے۔ آج مقاومت ہر دور سے زیادہ طاقتور ہے اور ہرگز لبنان اور اس کی ملت کے بارے میں غلطی نہ کرنا۔    
انہوں نے کہا کہ دشمن کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے مد مقابل کون کھڑا ہے، لبنان کی مقاومت ثابت کر چکی ہے کہ جو فوج ناقابل شکست کہلاتی تھی اسے شکست سے دوچار کردیتی ہے۔ 
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے زور دیا کہ ہم لبنان کے قومی اقتدار اور خودمختاری کے خلاف ہونے والی کسی بھی کوشش کے مخالف ہیں اور ہرگز یہ بات تسلیم نہیں کریں گے کہ ہمارے اوپر جو ہم چاہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی چیز مسلط کی جائے۔ ہم اپنے مستقبل کو خون کی تلوار پر فتح کے اصول کی بنیاد پر امید افزا، واضح اور روشن سمجھتے ہیں۔ 
انہوں نے عاشورا کے موقع پر اپنے خطاب کے ایک حصے میں کہا ہم نے سنا ہے کہ صہیونی قوتیں فلسطینی رہنماوں کی ٹارگٹ کلنک کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں، اگر یہ کاروائیاں لبنان میں انجام دی گئیں تو قطعی طور پر بغیر جواب نہیں رہیں گی۔ 

سید حسن نصر اللہ نے غزہ اور نابلس میں پیش آنے والے حالیہ واقعات اور ان کے نتیجے میں دسیوں فلسطینیوں کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا فلسطین ہمارا اصلی مسئلہ ہے۔ جو لوگ عربیت کا دعوا کرتے ہیں انہوں نے مغربی کنارے، غزہ اور قدس میں بہائے گئے خون کے مقابلے میں کیا اقدامات کئے ہیں؟ وہ لوگ کہاں ہیں؟

کیا ہمارا ذکر کرتے ہو؟

اِنَّ تلكَ المَجالِسَ اُحِبُّها و فأحْيوا أمْرَنا۔انجمن کی بنیاد ائمہ کے صحابیوں نے ڈالی اور انہوں نے اسے شروع کیا۔واقعہِ کربلا کے بعد ساتھ میں بیٹھتے تھے۔امام جعفر صادق علیہ السلام راوی سے سوال پوچھتے ہیں کہ تَجلِسونَ و تُحَدِّثونَ یعنی کیا تم ہمارے مسائل/ذکر کو مطرح کرتے ہو؟

 

ہم ان مجالس کو پسند کرتے ہیں!

وہ راوی امام کے سوال پہ جواب دیتا ہے:ہاں!ہم ایسا کرتے ہیں۔یعنی اس سے مراد یہی ماتمی دستے اور انجمنیں ہیں،اسکے بعد امام فرماتے ہیںاِنَّ تلكَ المَجالِسَ اُحِبُّهامیں ان مجالس کو پسند کرتا ہوں۔

 

 

ہمارے ذکر کو زندہ رکھو!

اس دلِ نازنیں پہ قربان، جو کہتے ہیںاِنَّ تلكَ المَجالِسَ اُحِبُّها و فأحْيوا أمْرَنا۔ہمارے ذکر کو زندہ رکھو وہ بنیادی موضوع کہ جسے ہم امر کہتے ہیں۔اگر ہم آج کل کہ زبان میں کہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ہماری راہ و مکتب کو زندہ رکھو۔صلی الله علیک یا ابا عبد الله۔

 

کائنات کا حسین ترین جوان!

یہ نوجوان اپنے باپ کے پاس آیا۔علی اکبر(ع‌)کی عمر اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان لکھی گئی ہے۔ یعنی کم از کم اٹھارہ سال اور زیادہ سے زیادہ پچیس سال۔ وہ کہتا ہے: "علی ابن الحسین باہر آئے” علی ابن الحسین لڑنے کے لیے خیمہ گاہ سے نکلے۔ یہاں ایک بار پھر راوی کہتا ہے: "یہ نوجوان کائنات کے خوبصورت نوجوانوں میں سے ایک تھا۔” خوبصورت،رشید اور بہادر۔ اس نے اپنے باپ سے جا کر لڑنے کی اجازت مانگی، امام نے بغیر تاخیر کے اجازت دے دی۔

 

 

 

علی اکبر(ع)کو اذن جنگ!

قاسم ابن الحسن کے معاملے میں،پہلے امام نے اجازت نہیں دی،اور پھر قاسم ع نے کچھ دیر تقاضا کیا یہاں تک کہ امام نے اجازت دے دی۔لیکن "علی اکبر بن الحسین” جیسے ہی آئے،کیونکہ وہ انکا اپنا بیٹا تھا،جیسے ہی اس نے اجازت مانگی،امام نے کہا کہ جاؤ۔پھر امام ع نے اپنے نوجوان کو مایوس نظروں سے دیکھا جو میدان کی طرف جا رہا ہے اور اب واپس نہیں آئے گا۔امام ع نے اپنی آنکھیں موند لیں اور بلند آواز سے رونے لگے۔یہ رونا بے صبری کے باعث نہیں تھا بلکہ یہ شدتِ جذبات کی عکاسی کررہا تھا۔اسلام ان جذبات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

 

 

شبیہ پیغمبر،اکبر!

پھر امام فرماتے ہیں: "جب بھی ہمیں نبی(ص) کی یاد آتی، ہم اس نوجوان کی طرف دیکھتے۔” لیکن یہ نوجوان بھی اب میدان کی طرف گیا۔ "پھر امام نے بلند آواز سے عمر سعد کو بد دعا دی اور کہا اے ابن سعد خدا تیری نسل قطع کرے جس طرح تو نے میری نسل قطع کی”۔

 

 

 

 

 

رسول اللہ،ساقی اکبر!

پھر راوی بیان کرتا ہے کہ علی اکبر میدان میں گئے اور بہت بہادری سے جنگ کی اور دشمن کی ایک بڑی تعداد کو قتل کیا۔ پھر وہ واپس آئے اور کہا کہ مجھے پیاس لگی ہے۔ وہ پھر میدان کی طرف پلٹے۔ جب انہوں نے اپنی پیاس کا اظہار کیا تو امام نے فرمایا: میرے عزیز! تھوڑی دیر اور لڑو اب زیادہ دیر نہیں کہ تمہیں تمہارے جد نبی ص سیراب کریں گے۔جب امام حسین نے یہ جملہ علی اکبر ع سے کہا تو علی اکبر نے آخری لمحے میں اپنی آواز بلند کی اور کہا: "اے بابا علیک السلام” بابا خدا حافظ ” رسول اللہ آئے ہیں اور آپ(ع)کو سلام دے رہے ہیں”۔ اور وہ آپ سے فرماتے ہیں کہ جلدی کرو اور ہمارے پاس آؤ۔

 

امریکی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے غزہ میں تل ابیب کی وحشیانہ جارحیت کو، دفاعی عمل قرار دیا ہے۔ اس بیان میں واشنگٹن کی جانب سے غاصب صیہونی حکومت کی مکمل حمایت اور صیہونیوں کی بمباری کو نظرانداز کرتے ہوئے فریقین سے کشیدگی سے دور رہنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے بھی غزہ پٹی پر غاصب اسرائیلیوں کے حملے کو اپنی حفاظت اور حق کا دفاع قرار دیا تھا۔

ادھر، روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے غزہ پر بمباری کے سلسلے کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان کی جانب سے جاری شدہ بیان میں زور دیکر کہا گیا ہے کہ غزہ پر صیہونی حکومت کے حملوں کا کوئی جواز نہیں ہے اور اسے فورا روکنے کی ضرورت ہے۔

دریں اثنا، غزہ کی صورتحال کے پیش نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بعض ارکان نے اس ادارے کی ہنگامی نشست کا مطالبہ کیا ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل رکن چین بھی ان ممالک میں شامل ہے جس نے اس نشست پر زور دیا ہے۔ فرانس، آئرلینڈ، ناروے اور چین سمیت متحدہ عرب امارات نے بھی ہنگامی نشست کا مطالبہ کیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق سلامتی کونسل کی یہ نشست پیر کے روز متوقع ہے ۔

واضح رہے کہ اب تک ایران، عراق، سعودی عرب، ترکی، الجزائر، تونس، اردن، قطر اور کویت نے غزہ کے مظلوم عوام پر صیہونیوں کے بھیانک حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔امریکہ اور بین الاقوامی اداروں کی خاموشی کی آڑ میں غاصب صیہونی حکومت نے غزہ پر حملے جاری رکھے ہیں۔ صیہونی فضائیہ کے حملوں میں مظلوم فلسطینی عوام کے گھر مسمار اور عام شہری اور معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران اور برصغیر پاک و ہند سمیت پوری دنیا میں نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری عروج پر پہنچ چکی ہے۔

کربلائے معلی سے ہمارے نمائندے نے بتایا ہے کہ نواسہ رسول حضرت امام حسین اور علمدار کربلا حضرت ابوالفضل العباس علیہم السلام کے روضہ ھای مبارک ، بین الحرمین اور اطراف کی سڑکیں ماتمی دستوں، زائرین اور عزاداروں سے مملو ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر سے بہت بڑی تعداد میں زائرین کربلائے معلی پہنچے ہیں جن میں ہندوستان اور پاکستان کے ہزاروں زائرین بھی شامل ہیں۔

ایران اسلامی میں آج اتوار کو نو محرم ہے اور اس مناسبت سے مشہد مقدس، قم اور دارالحکومت تہران سمیت پورے ملک میں مجالس اور نو محرم کے مخصوص جلوسہائے عزا نکالے جانے کا سلسلہ جاری ہے ۔

دوسری جانب پاکستان اور ہندوستان میں آج آٹھ محرم کے مخصوص ماتمی دستے اور جلوس برآمد ہورہے ہیں ۔

کراچی، لاہور، ملتان، کوئٹہ، اور پشاور سمیت پاکستان کے تقریبا سبھی چھوٹے بڑے شہروں میں آٹھ محرم کے مخصوص ماتمی جلوس برآمد ہوئے ہیں جو اپنے مخصوص راستوں سے ہوتے ہوئے، مختلف امام بارگاہوں اور مساجد کی جانب رواں دواں ہیں جہاں پہنچ کے یہ جلوس عظیم الشان حسینی اجتماع میں تبدیل ہوجائیں گے ۔

ادھر ممبئی، حیدرآباد، بنگلور، دہلی، لکھنؤ، پٹنہ اور کولکتہ سمیت ہندوستان کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں سے بھی آٹھ محرم کے مخصوص جلوس برآمد کئے جارہے ہیں ۔ ہندوستان کے مختلف شہروں میں آٹھ محرم کے ماتمی جلوسوں میں بہت بڑی تعداد میں غیر مسلم عزاداروں کے دستے بھی شامل ہیں۔

سپاہ پاسداران نے اتوار کے روز اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ناجائز صیہونی ریاست کی غلط فہمی فلسطین کی اسلامی مزاحمت کو مضبوط اور قابض صہیونیوں کے خاتمے کو مزید قریب تر بنا دے گی۔

بیان میں اسرائیل کو جعلی، نسل پرست اور بچوں کی قاتل حکومت قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ نئی فوجی کارروائی اور فلسطینی مزاحمتی کمانڈروں کے قتل، جو کہ امریکہ اور دیگر غیر انسانی حکومتوں کی حمایت سے ہو رہے ہیں، نے ایک بار پھر صیہونیوں اور ان کے حامیوں کی خطے اور اس سے باہر جارحانہ نوعیت، مجرمانہ اور غیر انسانی حکومتوں کا بے نقاب کر دیا ہے۔

سپاہ پاسداران نے اپنے بیان میں غزہ کے خلاف جاری اسرائیلی جارحیت کو ایک غلط اندازہ اور اقدام قرار دیا ہے جس کا مقصد مزاحمت کی طاقت اور فلسطینی قوم کے خلاف ہمہ گیر جنگ کی صورت میں اس کے ردعمل کے معیار کا جائزہ لینا ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جرائم کا تسلسل بعض عرب ریاستوں کی جانب سے حکومت کے ساتھ روابط کو معمول پر لانے اور استکباری طاقتوں کی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا نتیجہ ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ معمول پر آنا نہ صرف ناجائز صیہونی ریاست کی سلامتی کو یقینی بنانے میں ناکام رہے گا بلکہ اس سے فلسطین کے غاصبوں کے خلاف مسلم ممالک کی مزاحمت میں بھی اضافہ ہوگا۔

سپاہ پاسداران نے القدس شہر کی آزادی کے ساتھ ساتھ تمام گروہوں کی شرکت والی ایک آزاد فلسطینی حکومت کی تشکیل کے لیے ایرانی قوم سمیت عالم اسلام کی طرف سے ہر طرح کی حمایت کی اہمیت پر زور دیا۔

بیان میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ناجائز صیہونی ریاست کے جرائم پر بے عملی کو روکیں اور فلسطینی عوام کے حقوق کی پاسداری میں مدد کریں۔

سپاہ پاسداران نے ناجائز صیہونی ریاست کے خلاف فلسطینیوں کی بغاوت کی حمایت کا اظہار کیا جسے انتفاضہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور کہا کہ فلسطینی عوام بلاشبہ نسل پرست صیہونیوں کے خلاف فتح حاصل کر کے ابھریں گے اور اپنی سرزمین کو آزاد کرائیں گے۔