سلیمانی

سلیمانی

مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے اعلیٰ فوجی وفد نے امام راحل حضرت امام خمینیؒ کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھا کر ان کی امنگوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔

وفد کی قیادت پاکستانی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل ندیم رضا کر رہے تھے۔

پاکستان کے اعلیٰ فوجی وفد کا امام خمینی ؒ کو خراج عقیدت

 

News Code 1911383

سحر نیوز/ عالم اسلام: طالبان حکومت کی آفات و بحران سے نمٹنے کی وزارت کے سربراہ نے کہا کہ افغانستان میں زلزلے کے بعد طالبان نے پڑوسی ممالک اور عالمی برادری سے رابطہ کیا تاکہ زلزلہ زدہ علاقوں میں فوری امداد بھیجی جا سکے۔

غلام غوث ناصری نے منگل کے روز کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ان پڑوسی ممالک میں پہلا ملک ہے جنہوں نے افغانستان میں زلزلہ زدگان کے لیے امداد بھیجنے کے لیے اقدام کیا۔

گزشتہ بدھ کے روز جنوب مشرقی افغانستان کے پکتیکا اور خوست صوبوں میں 6.1 شدت کے زلزلے نے تباہی مچا کر رکھ تھی جس میں سیکڑوں افغان ہلاک اور زخمی ہوئے۔

ناصری نے مزید کہا کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں تباہی کی شدت بہت وسیع ہے اور شروعات میں افغان عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا گیا اور اب جو چیز اہم ہے وہ مستقل پناہ گاہ ہے اور عالمی برادری کی اس سلسلے میں ذمہ داری ہے۔

طالبان عہدیدار نے واضح کیا کہ آئندہ چند مہینوں میں سردی کا موسم شروع ہونے کے ساتھ ہی زلزلہ زدہ علاقوں میں افغان عوام خیموں میں نہیں رہ سکتے اور ایسے حالات میں انسانی امداد پر سیاست نہیں کی جانی چاہیے تاہم مغرب نے اس معاملے کو سیاسی رنگ دے دیا ہے۔

غلام غوث ناصری نے زور دے کر کہا کہ اگر مغرب انسانی حقوق کا حامی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو افغانستان میں انسانیت متاثر ہوئی ہے اور اسے مدد کی ضرورت ہے لیکن اگر مغرب مدد نہیں کرتا تو کم از کم افغان عوام کی روکے ہوئے اثاثے جو کہ  9 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، آزاد کرے۔

ائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی عزت کا راز دشمنوں کے سامنے مزاحمت کرنے اور ان سے نہ ڈرنے کا ہے۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، ان خیالات کا اظہار حضرت سید علی خامنہ ای نے آج بروز منگل کو عدلیہ کے سربراہ اور عہدیداروں سے ایک ملاقات کے دوران، گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر انہوں نے "معاشرت میں ناقابل تبدیل الہامی آئین" کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 1981 کے انتہائی کڑے اور افسوناک واقعات کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیابی اور فتح کی وجہ دشمنوں کے سامنے مزاحمت کرنے اور ان سے نہ ڈرنے کا ہے۔ اور ان الہی آئین کو تمام عرصوں میں دھرایا جاسکتا ہےاور ہمیں یہ سمجھنا ہوگا  کہ 2022 کا اللہ وہی 1981 کا اللہ ہے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے 1981 کی صورتحال اور حادثے "ہفتم تیر" کے چند مہینوں پہلے کی صورتحال کی یاد دہانی کراتے ہوئے ایران کیخلاف آٹھ سالہ جنگ کی مشکل صورتحال اور مغرب اور جنوب میں کئی بڑے شہروں کے قریب صدام کی افواج کی پیش قدمی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ  جنگ کی ابتر صور تحال کے ساتھ ساتھ تہران میں منافقین نے عملی طور پر خانہ جنگی شروع کر دی تھی اور سیاسی طور پر  ہفتم تیر سے چند روز قبل پارلیمنٹ نے صدر کی سیاسی نااہلی کے حق میں ووٹ دیا تھا اور ملک میں صدر نہیں تھا اور اسی صورتحال میں پر انقلاب اور نظام شہید بہشتی جیسے عظیم شخصیت سے محروم ہوگیا۔

سپریم لیڈر نے حادثے ہفتم تیر کے دو مہینے بعد ایرانی صدر اور وزیر اعظم کی شہادت سیمت فضائی حملے میں ملک کے اعلی کمانڈروں کی شہادت پر تبصرہ کیا اور کہا کہ نوجوان اور نئے نسل ان واقعات سے واقف نہیں ہیں اور انہیں ان مسائل ک مطالعہ کرکے ان کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا؛ آپ کونسے حکومت اور ملک کو جانتے ہیں جو ایسے تلخ اور ہولناک واقعات کے سامنے کھڑا نہیں ہوتا؟

قائد اسلامی انقلاب نے کہا کہ بانی اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ خمینی (رہ) دماوند پہاڑوں کی طرح ان تمام واقعات کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہیں اور آپ کے ساتھ ساتھ ایرانی عہدیداروں اور انقلابی نوجوانوں نے بھی مزاحمت کا رویہ اپناتے ہوئے ملکی صورتحال کو بالکل بدل دی اور یکے بعد دیگری ناکامیاں، مسلسل فتوحات میں بدل گئیں، منافقین سڑکوں سے ہٹا دیے گئے فوج اور دستے مضبوط ہوتے گئے اور ملک کی صورتحال معمول پر آگئی۔

انہوں نے بعض عرصوں میں ملک میں کمروزی اور اندورنی خامیوں کی وجہ سے دشمن کی خوشی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 1981 اور ان گزشتہ چار دہائیوں کے دوران، دشمن عناصر بعض مواقع ہماری ملکی صورتحال سے خوش ہوکر امیداور ہوگئے  کہ اسلامی انقلاب اور ایرانی نظام کا خاتمہ ہونے والا ہے لیکن ان کی امیدیں یاس میں بدل گئیں اور ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کبھی اس یاس کے راز کو نہیں سمجھتے ہیں۔

سپریم لیڈر نے اس بات پر زور دیا کہ دشمن اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ اس دنیا میں سیاسی معاملات کے علاوہ دیگر معاملات بھی ہیں اور وہ الہی آئین ہیں۔

قائد اسلامی انقلاب نے  قرآن کریم میں خدائی روایات اور قوانین کی مثالوں کی طرف اشارہ کیا جو اللہ رب العزت کے دین کی مدد کے نتیجے میں یا خدا کی نعمتوں کے منکرین کے نتیجہ میں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ قرآن پاک الہی آئین کے مضامین سے بھر پور ہے اور ان سب کا مراد یہ ہے کہ  اگر معاشرے، دشمنوں کیخلاف کھڑے ہوکر االلہ رب العزت پر بھروسہ کرکے اپنی ذمہ داریاں پورا کریں تو اس کا نتیجہ فتح اور کامیابی ہے لیکن اگر ان میں اختلافات اور سستی ہو تو اس کا نتیجہ ناکامی ہوگا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے سماجی نقطہ نظر سے الہی روایات کے سائنسی مطالعہ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم 1981 میں الہی روایات کے مداروں میں سے ایک یعنی جہاد اورمزاحمت میں کھڑے ہونے سے دشمن کو مایوس کرسکی۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی یہی قانون جاری ہے اور 2022 کا اللہ وہی 1981 کا اللہ ہے لہذا ہمیں اس سلسلے میں اپنا راستہ جاری رکھنا ہوگا تا کہ اس کا نتیجہ فتح اور کامیابی ہو۔

ایکنا نیوز- قرآن مجید کو چودہواں سورہ «ابراهیم» کے نام سے منسوب ہے جسمیں 52 آیات ہیں اور یہ سورہ قرآن کریم کے تیرہویں پارے میں ہے۔ مکی سورہ ہے اور ترتیب نزول کے حوالے سے بہترواں سورہ ہے جو رسول گرامی (ص)  پر اترا ہے۔

ابراہیم کے نام سے منسوب کرنے کی وجہ اس سورہ میں حضرت ابراہیم کی داستاں ہے اور جو کوئی

حضرت ابراهیم (ع) کو جاننا چاہتا ہے تو سرفہرست یہی سورہ ہے جو اس کو متوجہ کرتا ہے۔

یہ سورہ صرف ابراهیم کے نام سے جانا جاتا ہے، اس سورہ میں پیغمبر خدا کو انکی دعاوں کے منظرکے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور یہ واحد سورہ ہے جسمیں حضرت ابراہیم کا ذکر کرتے ہوئے ان کی دعاوں کی طرف اشارہ ہوا ہے جو قرآن کی خاص دعاوں میں معروف ہیں۔

سوره ابراهیم میں بنیادی قوانین، بصیرت اور عقیدے کو پیش کیا گیا ہے اور مومنین کے لیے نماز قائم کرنے اور خدا کی راہ میں اعلانیہ یا چھپا کر خرچ کرنے پر تاکید گئی ہے۔

 

سوره ابراهیم کا بنیادی موضوع  توحید، توصیف قیامت اور اعمال کا محاسبہ ہے۔ علامه طباطبایی اس سورے کے اصلی مقصد کو توصیف قرآن بیان کرتا ہے کیونکہ اس میں رسالت پیغمبر پر نشانیاں موجود ہیں جن کی مدد سے رسول گرامی ظلمت سے نور کی طرف ہدایت کرتے ہیں اور خدائے بزرگ و برتر عزیز و حمید ہےاور سب کو نعمت سے مالا مال کرتا ہے جس کی دعوت قبول کرنی چاہیے اور عذاب سے ڈرنا چاہیے۔

اس سورہ میں رسولوں کی رسالت کو بیان کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ تمام انبیاء ایک ہی مقصد کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔

اس سورہ کے بڑے حصے میں کسی نبی کا نام لئے بغیر مخالفین سے سامنا کرنے کی بات کی گئی ہے کہ وہ کسطرح عمل یا ردعمل دکھاتے۔

اس سورہ میں نور و ظلمت کا مقایسہ کرنا یا «طیبه» و «خبیثه»، قرار و زوال ، امن و امان کی بات کی گیی ہے اور پیغمبروں کے مخالفوں سے مقابلہ اور انجام کا ذکر موجود ہے

 

 

ایرانی صدر مملکت نے عراقی وزیر اعظم سے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران، اس بات پر زور دیا کہ تہران- بغداد مالیاتی تعلقات میں سہولتیں لانے پر نئے اقدامات اٹھائے جائیں۔

 ایرانی صدر سید "ابرہیم رئیسی" اور تہران کے دورے پر آئے ہوئے عراقی وزیراعظم "مصطفی کاظمی" نے آج بروز اتوار کو ایک ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کی۔

اس موقع پر ایرانی صدر نے عراقی وزیر اعظم اور ان کے ہمراہ وفد کے دورہ ایران کی خوشامدید کہتے ہوئے کہا کہ ہمارے عراق سے تعلقات پڑوسی ملک سے کہیں زیادہ آگے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان گہرے تعلقات ہیں جس سے تعاون کی توسیع میں مدد ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پڑوسی ممالک سے تعلقات بڑھانے کی پالسی کے سلسلے میں عراق سے گہرے قریبی تعلقات قائم کیے ہیں۔

ایران-عراق مالیاتی تعلقات میں سہولتیں لانے پر نئے قدم اٹھانے ہوں گے

انہوں نے الکاظمی سے اپنی حالیہ ملاقات کے زیر بحث موضوعات سے متعلق کہا کہ شلمچہ اور بصرہ کو ریلوے کے ذریعے منسلک کرنے پر بات چیت ہوئی نیز اس بات سے اتقاق کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان مالیاتی تعلقات میں سہولتیں لانے پر نئے اقدامات اٹھائے جائیں۔

صدر رئیسی نے کہا پڑوسیوں سے تعلقات کی توسع کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے میں آج ہم عراق کو ایرانی قوم کے سب سے قریب دیکھتے ہیں اور ہمسابہ ممالک کے درمیان ہمارے عراق سے سب سے زیادہ تعلقات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات پر بات چیت ہوئی اور اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ ایران اور عراق کے اقتصادی تعلقات کا فروغ ہوجائے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ شلمچہ- بصرہ ریلوے لائن منصوبے پر مذاکرات کیے گئے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعاون بڑھانے کے مقصد سے اس منصوبے کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانے پر زور دیا گیا۔

عراق کیجانب سے زائرین کی آمد و رفت میں آسانی لانے کا اقدام قابل قدر ہے

ایرانی صدر نے ایرانی شہریوں کی عراق میں زیارت کے مقصد سے آمد و رفت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کو ان مقدس مقامات کی زیارت کرنے میں بہت دلچسبی ہے اور عراق کیجانب سے زائرین کی آمد و رفت میں آسانی لانے کا اقدام قابل قدر ہے جس سے امام حسین علیہ السلام سے خراج عقیدت پش کرنے والے زمینی اور فضائی کے راستوں کے ذریعے اور بغیر ویزے کی ضرورت سے عراق جاکر آسانی سے زیارت کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ عراق زائرین کیلئے مزید سہولیات کی فراہمی کرے اور اربعین حسینی کے زائرین زمینی اور فضائی سرحدوں سے عراق کی سفر کرسکیں اور گزشتہ سالوں میں موجودہ مسائل بھی حل ہوجائیں۔

صدر رئیسی نے کہا کہ عراق میں داخلے کے بعض مسائل کورونا پھیلاؤ کی وجہ سے تھے جو اب ایران اور عراق دونوں ممالک میں حل ہوچکے ہیں اور صورتحال مختلف ہوگئی ہے۔

انہوں نے علاقائی ممالک سے تعلقات سے متعلق کہا کہ دونوں فریقین نے ان تعلقات پر زور دیا اور ہمارا عقیدہ ہے کہ علاقائی حکام کے درمیان مذاکرات سے خطی مسائل کو حل کرسکتے ہیں اور ہم نے اس بات پر زور دیا کہ خطے میں اغیار کی موجودگی نہ علاقائی صورتحال میں بہتری لائے گی بلکہ مسائل میں بھی اضافہ کرے گی۔

ایرانی صدر نے کہا کہ اس ملاقات  خطی مسائل کے حل کیلئے علاقائی حکام اور عہدیداروں کے درمیان مذاکرات پر زور دیا گیا۔

یمنیوں کیخلاف ناکہ بندی کا اختتام اور یمن انٹراڈائیلاگ کے انعقاد پر زور دیا گیا

ایرانی صدر نے یمن می موجودہ مسائل اور مصائب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم یمنیوں کیخلاف ناکہ بندی کا اختتام اور یمن انٹراڈائیلاگ کے انعقاد پر زور دیتے ہیں کیونکہ صرف ان طریقوں سے یمنی بحران کا حل ہوگا اور کئی سالوں سے دکھ درد کا شکار یمنی عوام کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔

صدر رئیسی نے کہا کہ ہم بلاشبہ اس جنگ کے تسلسل کو لا حاصل سمجھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اس جنگ کا یمنی عوام کی دکھ درد میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا لہذا اس جنگ کا جلد از جلد خاتمہ دنیا ہوگا اور اس حوالے سے جنگ بندی یمنی مسائل کا حل اور یمن انٹراڈائیلاگ کے انعقاد میں بہت مدد ملے گی۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ناجائز صہیونی ریاست کی علاقائی ممالک سے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں اس ریاست کی سلامتی کو فراہم کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔

ایرانی صدر نے کہا کہ ایران اور عراق خطے میں قیام امن اور سلامتی پر زور دیتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ صرف اور صرف علاقائی ممالک کے حکام کے کردار ادا کرنے کی روشنی میں حاصل ہوجائے گا اور علاقے میں غیر ملکیوں کی موجودگی کے ساتھ صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا بھی خطے کے لیے پریشانی کا باعث بنے گا اور ہمارے علاقے کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ایران اور عراق کے درمیان اچھے تعلقات کو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر دونوں ممالک کے کردار ادا کرنے میں انتہائی موثر قرار دے دیا۔

صدر رئیسی نے کہا کہ  ہم  مشکل دنوں میں عراقی حکومت اور عوام کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے اور رہیں گے اور یہ تعلقات آئے دن بڑھتے جائیں گے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ  عراقی وزیر اعظم کا حالیہ دورہ ایران، دونوں ممالک کے تعلقات کی توسیع کا اہم موڑ ہوسکتا ہے۔

ایران سے تعلقات انتہائی اہم ہے: الکاظمی

در این اثنا عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے کہا کہ ہمارا دورہ ایران کا مقصد باہمی تعلقات پر تبادلہ خیال ہے اور آج ہم نے اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی، ثقافتی، تہذیبی اور مذہبی تعلقات پر بات چیت بھی کی۔

انہوں نے کہا کہ ایران سے تعلقات انتہائی اہم ہے اور ہم دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے فریم ورک کے اندر دونوں ممالک کے عوام کے مفادات کی فراہمی کی کوشش کریں گے تا کہ باہمی تجارتی تعلقات کو فروغ دے سکیں۔

عراقی وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں اربعین حسینی کے زائرین کے دورہ عراق کیلئے ایک ٹائم ٹیبل فراہم کرنے کا ارادہ ہے۔ اب تک ایرانی زائرین عراقی ہوائی اڈوں پر ویزا حاصل کر سکتے تھے لیکن حالیہ ہفتوں میں ہم نے ایرانی زائرین کو عراق میں داخل ہونے کے لیے ویزے کے حصول کے لیے سرحدی گزرگاہوں پر ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔

الکاظمی نے کہا کہ اربعین حسینی کی زیارت کے دونوں آنے والے ہیں اور ہم ایرانی زائرین کی خدمات فراہم کرنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم خطے میں قیام امن اور سلامتی کی کوشش کریں گے اور اور ہم نے یمن میں جنگ بندی کی حمایت کا اعلان کرنے کے لیے ان اہم مسائل کے بارے میں بات کی جن کا خطے کی اقوام کو سامنا ہے۔

عراقی وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے اتقاق کیا کہ یمنی جنگ کے خاتمے کیلئے مذاکرات کی حمایت کریں اور یوکرین میں جنگی طرز کے سیکورٹی چیلنج سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔

ایرانی صدر حجۃ الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی نے یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے چیئرمین مہدی المشاط کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں کہاکہ ہم یمنی مظلوم عوام کے لئے کورونا ویکسین بھیجنے کیلیے تیار ہیں۔

صدر رئیسی نے یمنی عوام کی مزاحمت کو سراہتے ہوئے یمن کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایران اس جنگ بندی کی حمایت کرتا ہے جو مکمل امن اور یمنی عوام کے خلاف ظالمانہ اقتصادی ناکہ بندی کے مکمل خاتمے کا باعث بنے گی۔

تہران، ارنا – ایرانی صدر مملکت نے ایرانی موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح پڑوسی ممالک کےساتھ تعلقات کو مزید بڑھانا ہے۔

 یہ بات سید ابراہیم رئیسی نے گزشتہ رات ایک ٹی وی پروگروام میں عوام سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے ہمسائیگی کی پالیسی کو اپنی حکومت کی پہلی ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ممالک کے ساھ تجارت میں 450 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور 18 پڑوسی ممالک کو تکنیکی اور انجینئرنگ کی خدمات برآمد کر رہے ہیں اور علاقائی ممالک میں ایران کی تکنیکی اور انجینئرنگ برآمدات کی قیمت 2.5ارب ڈالر ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ خطے میں تجارت اور ٹرانزٹ میں ایران کا حصہ بہت زیادہ ہے اور ہم ابھی راستے کے آغاز میں ہیں۔

انہوں نے شنگھائی، برکس اور ای سی او کے رکن ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کی اہمیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں سال کی پہلے تین مہینوں میں تجارت میں 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ہم نے انجینئرنگ تکنیکی خدمات کی برآمدات کے شعبے میں نمایان کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔

ایرانی صدر نے خطے میں تجارت کی ترقی کے لیے بہت بڑی صلاحیتین موجود ہیں۔

رئیسی نے کہا کہ ہم پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ پابندیوں کو بائی پاس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ پابندیاں ظالمانہ اور یورپ اور امریکہ  جو بورڈ آف گورنرز میں  ایران مخالف قرارداد پیش کرتے ہیں، کے وعدوں کے برعکس ہیں۔

صدر رئیسی نےامریکہ اور یورپ کی جانب سے ایران مخالف قرارداد پیش کرنے کا اقدام اچھا نہیں تھا اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نےاپنی 15 رپورٹوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے پر امن ایٹمی پروگرام کی تصدیق کی ہے۔

انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ اور جوزپ بورل کے درمیان ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم وقار اور عزت پر مبنی مذکرات کے عمل کو جاری رکھیں گے۔

ایرانی صدر نے بتایا کہ تیل کی مصنوعات کے شعبے دشمنن کی دہمکیوں اور پابندیوں کے باوجود آج اچھی صورتحال میں ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے آئندہ میں اس میں بہتری بھی آئے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملکی تیل کی فروخت کی صورت حال اچھی ہے اور ہم تیل اور غیر تیل کی برآمدات سے ماضی کی طرح مزید آمدنی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

صدر رئیسی نے کہا کہ ملک میں سرمایہ کاری کے دروازے کھلے ہیں اور 5 سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر اتفاق کیا گیا ہے۔

جوزپ بورل جو ایرانی حکام کے ساتھ تہران کا دورہ کیا نے، نے آج علی شمخانی کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔

شمخانی نے امریکہ کی وعدہ خلافیوں اور جوہری معاہدے سے غیر قانونی انخلاء جس سے ایرانی عوام کا مغرب اور امریکہ کے تئیں عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، کا حوالہ دیتے ہوئےکہا کہ ہم نے جوہری معاہدے میں اپنے تمام وعدوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ہرگز مذاکرات کی میز نہیں چھوڑی ہے اور ہم اب بھی ایک مضبوط، مستحکم اور قابل اعتماد معاہدے کے خواہاں ہیں۔

شمخانی نے خطے میں پائیدار سلامتی اور بین الاقوامی نظام کے قیام میں ایران کے تعمیری کردار پر یورپ کی عدم توجہی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے بعض ممالک جو دنیا میں برائی، عدم تحفظ اور ریاستی دہشت گردی کا مظہر ہیں،کے ساتھ یورپ کے اسٹریٹجک تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں۔

 انہوں نے جوہری معاہدے میں امریکہ کی بے عملی اور یورپ کی وعدہ خلافی کو ایرانی عوام کے لیے "تلخ تجربہ" قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ جوہری شعبے میں ایران کے انتقامی اقدامات امریکی یکطرفہ پسندی اور یورپ کی بے حسی پر قانونی اور عقلی ردعمل ہے اور مغرب کے اس غیر قانونی طریقے کی تبدیلی تک یہ اقدامات جاری ہوں گے۔

شمخانی نے ویانا مذاکرات میں ایران کی شرکت کا مقصد غیر قانونی پابندیوں کے خاتمے اور جامع اور دیرپا اقتصادی فوائد کو یقینی بنانا ہے اور ان دو اصولوں کے بغیر کوئی معاہدہ فائدہ مند نہیں ہوگا۔

انہوں نے مذاکرات کے دوران امریکہ کے متضاد رویے اور  واشنگٹن کی جانب سے دھمکیوں اور پابندیوں کے حربوں کے استعمال کو مذاکرات کو طول دینے اور کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کے اہم عوامل قرار دیا۔

 

انہوں نے بتایا کہ انتہائی پابندیوں کا شکار ملک کے ملک کے ساتھ غنڈہ گردی اور جبر اور زبردستی کے ساتھ انتہائی پابندیوں کا شکار ہونے والے ممالک کے ساتھ غنڈہ گردی، جبر اور زبردستی کی زبان کے ساتھ بات کرنا ممکن نہیں ہے۔

اس موقع پر جوزپ بورل نے کہا کہ تہران کی روانگی سے قبل امریکی حکام کے ساتھ اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بائیڈن کی حکومت مختلف وجوہات کی بنا پر جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے

تہران، ارنا – ایرانی وزیر خارجہ نے ایک ٹویٹ میں یورپی یونین کے اعلی نمائندے جوزپ بورل کے ساتھ ملاقات کو نتیجہ خیز قرار دیا۔

یہ بات حسین امیر عبداللہیان نےگزشتہ روز اپنی ایک ٹویٹ میں کہی۔

انہوں نے جوزپ بورل کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں کہا کہ ہم نے پابندیوں کے مذاکرات کی تازہ ترین صورتحال، دو طرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر نتیجہ خیز بات چیت کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر دیگر فریقین کا پختہ ارادہ ہوئے تو ایران ایک اچھے، مضبوط اور دیرپا معاہدے تک پہنچنے کے لیے پرعزم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایرانی عوام کے حقوق کی پامالی کے بغیر مذاکرات جاری رکھیں گے۔

انہوں نے اپنے انسٹاگرام پر بوریل کے سفر کے بارے میں بھی کہا کہ آج تہران میں، میں نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ مسٹر جوزپ بورل کی میزبانی کی۔ بورل جوہری مذاکرات کےتعطل کے خاتمے اور مذاکرات کو پٹڑی میں لانے کے مقصد سے تہران میں آیا تھا۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ میں نے بورل سے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے ساتھ متوازن تعلقات کا خواہاں ہے اور اس متوازن خارجہ پالیسی میں یورپی براعظم ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ اور اس براعظم کے ممالک کے ساتھ تعلقات کا فروغ ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جوہری معاہدے میں اپنے وعدوں پر عملدرآمد کیا ہے اور ہرگز مذاکرات کی میز نہیں چھوڑی ہے اور اب ایرانی عوام کے حقوق کو نظر انداز کرنے کے بغیر اس مذاکرات کو جاری رکھیں گے۔ امید ہے کہ اس بار امریکی فریق جوہری معاہدے کے آخری نقطہ تک پہنچنے کیلیے ایک حقیقت پسندانہ رویہ اپنائے گا۔