سلیمانی
مولوی فائق رستمی: مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کو پائیدار بنانے کے لیے حج بہترین فرصت ہے
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہر سنندج کے اہل سنت امام جمعہ مولوی فائق رستمی نے نماز جمعہ کے خطبوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: صوبہ کردستان میں صنعت اور ثقافت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے راہ ہموار ہے۔
شہر سنندج کے امام جمعہ نے مزید کہا: مشکلات اور دشمن کی ظالمانہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود حکومت لوگوں کی معیشت میں بہتری لانے کے لئے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا: خوش آئند امر یہ ہے کہ صدر اسلامی جمہوریہ ایران آئندہ چند دنوں میں صوبہ کردستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔ امید ہے کہ ان کا یہ دورہ اس خطے کے عوام کے لئے بابرکت اور ترقی و پیشرفت کا باعث بنے گا۔
مولوی مولوی فائق رستمی نے کہا: اس سال صوبہ کردستان سے 450 افراد حج کے روحانی سفر پر روانہ ہو رہے ہیں اور یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ خداوندعالم ہم سب کو اس بابرکت روحانی سفر پر جانے اور اس کی برکتوں سے استفادہ کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
انہوں نے آخر میں کہا: حج دنیائے اسلام کے دشمنوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے درمیان اتحاد و وحدت کے رشتے کو مضبوط کرنے کی بہترین فرصت ہے۔
روسی وزیر خارجہ کا دورہ تہران، چند اہم نکات
روس کے وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے گذشتہ ہفتے 22 جون کے دن ایران کا دورہ کیا۔ ایران کے موجودہ صدر ابراہیم رئیسی کی مدت صدارت شروع ہونے کے بعد یہ ان کا پہلا دورہ تھا۔ یہ دورہ ایسے وقت انجام پایا ہے جب ایران اور روس دونوں مغربی اور یورپی ممالک کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں سے روبرو ہیں۔ دوسری طرف خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں روس یورپ سے ہر قسم کی مفاہمت اور تعاون سے ناامید ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنا تیل اور گیس پیچنے کیلئے مشرقی ممالک کی جانب متوجہ ہوا ہے۔ ایران اور روس کو ایکدوسرے سے قریب لانے کا ایک اور اہم سبب ایران اور مغرب میں جاری جوہری مذاکرات ہیں۔ ان مذاکرات میں پیشرفت کی صورت میں ایران پر عائد پابندیوں کی شدت کم ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔
لہذا روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف کے دورہ تہران کو دونوں ممالک میں جاری باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ دورہ کئی لحاظ سے اہم ہے، جیسے:
1)۔ علاقائی سطح پر خاص طور پر یوکرین کا بحران جنم لینے کے بعد مغربی اور یورپی ممالک مشرق وسطی میں بہت زیادہ سرگرم ہو گئے ہیں جس کا مقصد اپنے مفادات کا زیادہ سے زیادہ تحفظ ہے۔ روسی وزیر خارجہ کا دورہ تہران، یوکرین جنگ کے پرامن اور سفارتی حل میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایران نے شروع سے ہی یوکرین جنگ کی مخالفت کی ہے اور روس اور یوکرین پر باہمی تنازعات گفتگو اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ، برطانیہ اور نیٹو اس جنگ میں جلتی پر تیل ڈالنے کا کام انجام دے رہے ہیں۔
2)۔ سرگے لاوروف کے دو روزہ دورہ تہران کو ان کے گذشتہ دوروں کے تسلسل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تین ہفتے قبل سعودی عرب اور بحرین کا دورہ کیا تھا جس میں وہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اور فیصل بن فرحان سے ملے۔ اسی طرح روسی وزیر خارجہ نے دو ہفتے پہلے ترکی کا بھی دورہ کیا تھا۔ لہذا تہران کا دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی اور اس لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل تھا۔
3)۔ روسی وزیر خارجہ کے دورہ تہران میں بعض اہم مذاکرات بھی انجام پائے ہیں۔ ان میں سے ایک ماسکو اور تہران کے درمیان طویل المیعاد تعاون کا معاہدہ طے پانے کے بارے میں گفتگو تھی۔ سرگے لاوروف نے روس اور ایران کے درمیان باہمی تعاون کے مختلف پہلووں کی جانب اشارہ بھی کیا ہے۔
انہوں نے ایران اور روس کے درمیان جاری باہمی تعاون کو سراہتے ہوئے اس کی سطح بڑھانے اور اسٹریٹجک سطح تک لے جانے پر زور دیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت کو بھی انتہائی اہم قرار دیا اور علاقائی تنظیموں اور عالمی سطح پر ایران کے کردار میں وسعت لانے کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔ ایران اور روس کے درمیان جاری باہمی تعاون کا ایک اہم حصہ کیسپین سمندر سے متعلق تعاون پر مشتمل ہے۔ کیسپین سمندر کے ساحلی ممالک اس سمندر میں بیرونی فوجی موجودگی نہ ہونے پر اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ روس اور ایران کے درمیان تعاون کے دیگر شعبے باہمی تجارت کے فروغ، مشترکہ معیشتی منصوبوں، دوطرفہ سرمایہ کاری میں سہولیات فراہم کرنے اور مغرب کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا مقابلہ کرنے پر مشتمل ہیں۔
4)۔ روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف کے دورہ تہران میں دیگر اہم موضوعات پر بھی گفتگو انجام پائے ہے۔ ان موضوعات میں ایران اور مغرب کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے برجام کا احیاء، شام کی صورتحال، افغانستان کے مسائل اور طالبان کی صورتحال وغیرہ شامل ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ شروع ہونے والے ایران کے جوہری مذاکرات میں روس اور چین نے ابتدا سے ہی انتہائی اہم اور تعمیری کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح برجام معاہدہ طے پانے میں بھی روس ایک موثر کھلاڑی رہا تھا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے برجام معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو جانے اور ایران کے خلاف مزید اقتصادی پابندیاں عائد کر دیے جانے کے بعد بھی روس نے اس معاہدے کے دوبارہ احیاء کی کوشش جاری رکھی ہے۔
مختصر یہ کہ یوکرین میں بحران جنم لینے کے بعد روس اور امریکہ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ چالیس برس سے امریکہ کو اپنا اصلی دشمن قرار دے رکھا ہے۔ لہذا یوکرین جنگ کے بعد ایران اور روس کا ایکدوسرے سے مزید قریب آنا ایک فطری عمل ہے۔ یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک نے روس کے خلاف شدید سرد جنگ کا آغاز کر رکھا ہے۔ وہ روس کو زیادہ سے زیادہ دباو کا شکار کرنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہیں۔ روس کی اقتصاد کا بڑا حصہ گیس اور تیل کی فروخت پر منحصر ہے لہذا امریکہ اور مغربی ممالک نے روس سے تیل اور گیس خریدنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ایسی صورتحال میں ایران اور روس ایکدوسرے کے تعاون سے مغربی پابندیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
تحریر: معصومہ محمدی
کعبہ تاریخ میں پہلا مرکز عبادت
ایکنا نیوز- ماه ذیالحجه حج کی عظیم الشان عبادت کا موسم ہے اور اس حوالے سے جو قرآن میں ایا ہے سب سے پہلے حضرت ابراهیم(ع) کے توسط سے یہ عبادت کا گھر خدا کےحکم سے تعمیر ہوا جب اللہ تعالی نے ابراھیم سے خطاب میں کہا:
«وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ؛ اور لوگوں میں [فریضہ] حج کے لیے ندا دو تاکہ [زائرین] پيدل اور [سوار] اونٹوں پر جس راستے سے آتے ہیں وہ تمھاری طرف آئیں»(حج، 27).
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ قرآن این گھر کو خدا کی پرستش کے لیے پہلا گھر قرآر دیتا ہے اور پھر ماضی کی طرف اشارہ کے ساتھ حج کا حکم دیا جاتا ہے، دیگر مختلف آیات میں واضح بیان ہوا ہے کہ حج کا انجام دینے کے لیے طریقے یا مناسک حج کے احکامات کیا ہیں۔
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ؛ یقیناً پہلا گھر جو [راز و نیاز و عبادت] لوگوںں کے لیے تیار ہوا ہے وہی مکه میں ہے جو باعث برکت اور وسیله هدایت تمام عالمین کے لیے ہے. (آل عمران، 96).
کعبه عالمی مرکز ہدایت
علامه طباطبایی تفسیر المیزان میں کہتے ہیں کہ کعبہ یعنی تمام ذھنی وابستگیوں سے آزادی اور دنیا سے کٹ کر ہدایت کی طرف آنا اور واضح ہے کہ ایسا سب کے لیے ممکن نہیں مگر سوایے مخلصین کے۔ کعبہ اسلامی دنیا کو دنیا کی سعادت کی طرف بھی ہدایت کرتا ہے اور یہ سعادت عبارت ہے وحدت و اتحاد سے۔
کعبه مسلمانؤں کے علاوہ دیگر کو بھی دعوت دیتا ہے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائے اور دیکھے کہ وحدت کی وجہ سے تمام لوگ کیسے بلا تمیز رنگ و بو متحد ہوتے ہیں اسی لیے حج میں وحدت سب سے اہم عامل ہے۔
یہاں سے دونکات واضح ہوتے ہیں پہلا یہ کہ کعبه عامل هدایت دنیا و آخرت کےلیے باعث سعادت ہے اور دوسرا یہ کہ کعبہ ہدایت کا گھر ہے نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے۔
دیگر نکات
محسن قرائتی تفسیر نور میں اس بارے میں فرماتے ہیں:
1- كعبه، پہلا گھر ہے جو عبادت و پرستش کے لیے بنا ہے. «اوّل بیت وضع للناس»
2- عبادت خانوں کی ماضی ایک قدر شمار کی جاتی ہے. «انّ اوّل بیت وضع...»
3- خیر و بركت كعبه، نہ صرف مومنین بلکہ سب کے لیے ہے «وضع للناس»
4- كعبه کا عوامی ہونا ایک ویلیو ہے. «وضع للناس»
5 - كعبه، سب کے لیے باعث ہدایت ہے. «هدى للعالمین»
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ
بیشک سب سے پہلا مکان جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے وہ مکّہ میں ہے مبارک ہے اور عالمین کے لئے مجسم ہدایت ہے
سورہ آل عمران96
ہمارے میزائلوں کی طاقت اور بہتری میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، انصار اللہ یمن
مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انصار اللہ یمن کے قائد سید عبدالمالک الحوثی نے کہاکہ ہم سعودیہ امریکہ اتحاد کی جارحیت کے آٹھویں سال میں کٹھن مراحل اور چیلنجز سے گزر چکے ہیں۔ ہم نے شروع سے ہی اس جارحیت کے خلاف شاندار اور فیصلہ کن کردار ادا کیا اور دفاع وطن کے لیے ہزاروں شہداء کی قربانیاں دیں۔
انہوں نے کہاکہ اللہ کی مدد سے ہم نے عسکری پہلو سے شاندار نتائج حاصل کیے ہیں، جن میں سے پہلا یہ ہے کہ دشمن کو ملک پر ہرگز قبضہ نہیں کرنے دیا ، لیکن دشمن سے توقع ہے کہ وہ اپنی کوششیں جاری رکھے گا ، لہٰذا ہمیں بھی اپنی عسکری قوت کو مضبوط کرنا ہوگا۔ بحمد اللہ ہم عسکری قوت کی اس سطح پر پہنچ چکے ہیں جو بہت سے عرب ممالک کے پاس نہیں ہے۔
روس سے اسٹریٹجک تعلقات کے فریم میں میں رابطے میں رہیں گے: ایرانی صدر
ارنا رپورٹ کے مطابق، سید "ابراہیم رئیسی نے" بدھ کی رات کو اپنے دورے ترکمانستان کے منصبوں کے سلسلے میں اپنے روسی ہم منصب "ولادیمیر پیوٹین سے ملاقات اور گفتگو کی۔
اس موقع پر صدر رئیسی نے کہا کہ ان کے حالیہ دورے روس کے بعد، دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کے نفاذ کا تعاقب کرنے کے سلسلے میں ایران اور روس کے عہدیداروں نے کئی بار ایک دوسرے ممالک کا دورہ کیا اور ان معاہدوں کے نفاذ کا عمل مزید تیزی سے آگے جار رہا ہے۔
انہوں نے دونوں ممالک کیجانب سے شمال- جنوب راہداری کی تقویت پر حمایت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور روس کے درمیان توانائی کے شعبوں بشمول توانائی کی منتقلی کیلئے تعاون کی بہت بڑی صلاحتیں ہیں۔
صدر رئیسی نے دونوں ملکوں کے درمیان بینکنک اور مالیاتی تعلقات کی تقویت کیلئے مناسب میکنزم کے نفاذ کی ضرورت پر زور ددیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مالیاتی تبادلہ ایک آزاد فریم ورک کے اندر ہونا ہوگا جس میں مغربی مالیاتی تبادلے کے نظام کو وسعت دی جائے تاکہ کوئی ملک اس پر اثر و رسوخ یا دباؤ نہ ڈال سکے۔
دراین اثنا روسی صدر نے کیسپین کے ساحلی ممالک کے چھٹے سربراہی اجلاس کے موقع پر ایرانی صدر سے پھر سے ملقات ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ مہینوں میں دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات اور تجارتی لین دین کے حجم میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔
پیوٹین نے ایرانی صدر کیجانب سے توانائی کے شعبوں بشمول توانائی کے تبادلے اور منتقلی میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے کی تجویز کا خیر مقدم کیا۔
روسی صدر نے اپنے ایرانی ہم منصب سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے سلام کو قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای تک پہنچادیں۔
واضح رہے کہ ایرانی صدر بدھ کے روز اپنے ترکمان ہم منصب "سردار محمد بردی اف" کی باضابطہ دعوت پر ایک اعلی سطحی وفد کی قیادت میں اشک آباد ائیر پورٹ پہنچ گئے جہاں ترکمانستان کے وزرا کے کابینہ کے سربراہ "رشید مردوف" نے ان کا استقبال کیا۔
ایرانی صدر نے اس دورے کے موقع پر بحیرہ کیسپین کے ساحلی ممالک کے چھٹے سربراہی اجلاس میں حصہ لینے کے علاوہ اپنے ترکمان ہم منصب "سردار محمد بردی اف"، آذری صدر "الہام علی اف" اور روسی ہم منصب "ولادیمیر پیوٹین" سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔
واضح رہے کہ بحیرہ کیسپین کے ساحلی ممالک کے چھٹے سربراہی اجلاس جو اس بحیرہ کے قانونی نظام کا جائزہ لینے اور اقتصادی اور ٹرانزٹ کے شعبوں مین تعلقات کے فروغ کے مقصد سے منقاد ہوا تھا کل رات کو اختتام پذیر ہوا
امام جواد علیہ السلام کا مختصر تعارف
نام : محمد بن علی
نام پدر : علی بن موسی الرضا
نام مادر : سبیکہ ( پیامبر اسلام کی بیوی ماریہ قبطیہ کے خاندان سے )(1)
کنیت : ابو جعفر ثانی
القاب : تقی ، جواد
تاریخ ولادت : ماہ رمضان 195 ھ مدینہ منورہ (2)
تاریخ شھادت : ۲۲۰ ھ بغداد
ھمعصر خلفاء
امام جواد علیہ السلام اپنے دور امامت میں دو عباسی خلفاء کے ھمعصر تھے :
۱۔ مامون الرشید ( ۱۹۳ ۔ ۲۱۸ )
۲۔ معتصم ( مامون کا بھائی ) ( ۲۱۸ ۔ ۲۲۷ )
امام علیہ السلام کے زندگی کا مختصر جائزہ
علماء کا بیان ہے کہ امام محمدتقی علیہ السلام بتاریخ ۱۰/ رجب المرجب ۱۹۵ ھ ( ۸۱۱ میلادی ) یوم جمعہ بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے(3)
شیخ مفیدعلیہ الرحمة فرماتے ہیں چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کے کوئی اولاد آپ کی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اولادکا ہونا خداکی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولاد قرار دیا ہے اورعنقریب میرے یہاں مسندامامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی(4)
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاتھا کہ میرے ہاں عنقریب جوبچہ پیداہوگا وہ عظیم برکتوں کاحامل ہوگا(15)
ولادت سے متعلق لکھا ہے کہ امام رضاعلیہ السلام کی بہن جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی نے مجھے بلاکر کہاکہ آج تم میرے گھرمیں حاضر رہو،کیونکہ خیزران کے بطن سے آج رات کوخدا مجھے ایک فرزندعطافرمائے گا ،میں نے خوشی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی ، جب رات ہوئی تو ہمسایہ کی چندعورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زیادہ گزرنے پریکایک وضع حمل کے آثارنمودارہوئے یہ حال دیکھ کر میں خیزران کوحجرہ میں لے گئی، اورمیں نے چراغ روشن کردیا تھوڑی دیرمیں امام محمدتقی علیہ السلام پیداہوئے ، میں نے دیکھاکہ وہ مختون اورناف بریدہ ہیں ، ولادت کے بعد میں نے انہیں نہلانے کے لیے طشت میں بٹھایا، اس وقت جوچراغ روشن تھا وہ گل ہوگیا مگر پھر بھی اس حجرہ میں اتنی روشنی بدستور رہی کہ میں نے آسانی سے بچہ کونہلادیا. تھوڑی دیرمیں میرے بھائی امام رضاعلیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے میں نے نہایت عجلت کے ساتھ صاحبزادے کوکپڑے میں لپیٹ کر حضرت (ع) کی آغوش میں دیدیا آپ نے سر اورآنکھوں پربوسہ دیے کر پھرمجھے واپس کردیا، دودن تک امام محمدتقی علیہ السلام کی آنکھیں بند رہیں تیسرے دن جب آنکھیں کھولیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی طرف نظرکی پھرداہنے بائیں دیکھ کرکلمہ شہادتین زبان پرجاری کیا میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئی اورمیں نے سارا ماجرا اپنے بھائی سے بیان کیا، آپ نے فرمایا تعجب نہ کرو، یہ میرا فرزندحجت خدا اور وصی رسول خدا ہیں اس سے جوعجائبات ظہورپذیرہوں ،ان میں تعجب کیا ، محمدبن علی ناقل ہیں کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان اسی طرح مہر امامت تھی جس طرح دیگرآئمہ علیہم السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان مہریں ہواکرتی تھیں(6)
آپ کی ازواج اوراولاد
علماء نے لکھا ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے چند بیویاں تھیں ، ام الفضل بنت مامون الرشید اورسمانہ خاتون یاسری . امام علیہ السلام کی اولاد صرف جناب سمانہ خاتون جوکہ حضرت عماریاسر کی نسل سے تھیں، کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ہیں، آپ کے اولادکے بارے میں علماء کااتفاق ہے کہ دونرینہ اوردوغیرنرینہ تھیں، جن کے نام یہ ہیں ۱ ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام، ۲ ۔ جناب موسی مبرقع علیہ الرحمة، ۳ ۔ جناب فاطمہ، ۴ ۔ جناب امامہ(7)
پر برکت مولود
امام رضا علیہ السلام کے خاندان اور شیعہ محافلوں میں ، حضرت امام جواد علیہ السلام کو مولود خیر پر برکت کے عنوان سے یاد کیا جاتا تھا ۔ جیسا کہ ابویحیای صنعانی کہتا ہے : ایک دن میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں بیھٹا تھا ، آپ کا بیٹا ابوجعفر جو کہ کمسن بچہ تھا لایا گیا ، امام علیہ السلام نے فرمایا : ہمارے شیعوں کیلئے اس جیسا کوئی مولود بابرکت پیدا نہیں ہوا ہے(8)
شاید ابتداء میں یہ تصور ہوجائے کہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ امام جواد علیہ السلام پہلے تمام اماموں کی نسبت زیادہ بابرکت ہیں ، حالانکہ اس طرح نہیں ہیں ، بلکہ جب موضوع کی جانچ پڑتال کی جائے اور قرائن و شواھد کا ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ امام جواد علیہ السلام کی ولادت ایسے گھٹن حالات میں واقع ہوئی ہے جو شیعوں کیلئے خاص خیر و برکت کا تحفہ کہا جاسکتا ہے ۔ کیوں اس لئے کہ امام رضا علیہ السلام کا زمانہ ایک خاص عصر میں پڑھا تھا کہ آنحضرت (ع) اپنے ما بعد کا جانشین اور امام کے پہچنوانے میں مشکلات کا سامنا ہوچکا تھا جو اس سے پہلے کے اماموں کے دور میں ایسا نہیں ہوا تھا ۔ کیونکہ ایک طرف امام کاظم علیہ السلام کے شہادت کے بعد واقفیہ کا گروہ امام رضا علیہ السلام کی امامت کا منکر ہوچکے تھے تو دوسری طرف امام رضا علیہ السلام ۴۷ سال کی عمر شریف تک کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی جس کی وجہ سے دشمن طعنہ دے رہا تھا کہ امام رضا مقطوع النسل ہیں اور ہم خود امامت زیر سوال آچکی تھی کہ اس کے بعد کوئی امام کا نام و نشان نہیں ہے جبکہ پیغمبر اسلام کے حدیث شریف کے مطابق بارہ امام ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے نسل سے ۹ امام پیدا ہونگے ۔
کمسن امام :
امام جواد علیہ السلام کی زندگی کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت سب سے پہلا وہ امام ہیں جو بچپنی کے عالم میں امامت کی منصب پر فائز ہوچکے ہیں اور لوگوں کیلئے یہ سوال بن چکا تھا کہ ایک نوجوان امامت کی اس سنگین اور حساس مسئولیت کو کیسے سنبھال سکتا ہے ؟ کیا کسی انسان کیلئے یہ ممکن ہے کہ اس کمسنی کی حالت میں کمال کی اس حد تک پہنچ جائے اور پیغمبر کے جانشین ہونے کا لائق بن جائے ؟ اور کیا اس سے پہلے کے امتوں میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہے ؟
اس قسم کے سوالات کوتاہ فکر رکھنے والے لوگوں کے اذھان میں آکر اس دور کے جامعہ اسلامی مشکل کا شکار ہوچکی تھی لیکن جب قادر مطلق و حکیم کے خاص لطف و عنایت جو ہر زمانے میں جامعہ بشریت کیلئے ارمغان لاچکی ہے اپنے آپ کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا تھا۔ اس مطلب کے ثبوت کیلئے ہمارے پاس قرآن و حدیث کی روشنی میں شواہد و دلائل فراوان موجود ہیں ۔
۱۔ حضرت یحیی علیہ السلام : یا یحیی خذالکتاب بقوۃ و آتیناہ الحکم صبیا ( سورہ مریم آیہ ۱۲ )
۲۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا بچپنی میں تکلم کرنا ( سورہ مریم آیات ۳۰ سے ۳۲ تک کا تلاوت )
یہ بات ہمارے ائمہ کے اقوال میں بھی استفادہ ہوتا ہے اور واقعات جو تاریخ میں موجود ہیں ۔ (والسلام)
--------------
(1)کلینی ، اصول کافی ، ج1 ص 315 و 492 ، تہران ، مکتبہ الصدوق ، 1381ہـ ؛ ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابیطالب ، ج 4 ، ص 379 ، قم ، المطبعہ العلمیہ
(2)کلینی ، اصول کافی ، ج 1 ، ص 492 ، تہران ، مکتبہ الصدوق ، 1381ہـ ؛ شیخ مفید ، الارشاد ، ص 316 ، قم ، مکتبہ بصیرتی . بعض علماء نے آپ کی ولادت اسی سال کے ۱۵ رجب کو قرار دیا ہے ( طبرسی ، اعلام الوری ، ص 344 ، الطبعہ الثالثہ ، دارالکتب الاسلامیہ )
(3)روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ؛ شواہدالنبوت ص ۲۰۴ ، انورالنعمانیہ ص ۱۲۷
(4)ارشاد ص ۴۷۳
(5)اعلام الوری ص ۲۰۰
(6)المناقب، ج4، ص394
(7)ارشاد مفید ص ۴۹۳ ؛ صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ؛ روضة الشہداء ص ۴۳۸ ؛ نورالابصار ص ۱۴۷ ؛ انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ؛ کشف الغمہ ص ۱۱۶ ؛ اعلام الوری ص ۲۰۵
(8) شیخ مفید ، الارشاد ، ص 319 ، قم ، مکتبہ بصیرتی ؛ طبرسی ، اعلام الوری ، ص 347 ، الطبعہ الثالثہ ، المکتبہ الاسلامیہ ؛ فتال نیشابوری ، روضہ الواعظین ، ص 261 ، الطبعہ الاولی ، بیروت ، موسسہ الاعلمی للمطبوعات 1406 ہـ ؛ کلینی ، اصول کافی ، ج1 ، ص 321 ، تہران ، مکتبہ الصدوق ؛ علی بن عیسی الاربلی ، کشف الغمہ ، ج3 ، ص 143 ، تبریز ، مکتبہ بنی ہاشئ 1381 ہـ .
ایران کے راستے آذربائیجان کو ترکمانستان کے گیس کی منتقلی کی صلاحیت کو بڑھانے پر تیار ہیں: صدر رئیسی
ارنا رپورٹ کے مطابق، سلامی جمہوریہ ایران کے صدر مملکت سید "ابراہیم رئیسی" اور ان کے ترکمان هم منصب " سردار بردی محمد اف" نے آج بروز بدھ کو اشک آباد میں منعقدہ کیسپین ساحلی ممالک کے چھٹے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات اور گفتگو کی۔
اس موقع پر انہوں نے 30 سالہ اشک باد- تہران کے دوستانہ اور برادارنہ تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی 13 ویں حکومت کی ترجیح ہمسایہ ممالک سے تعاون بڑھانے پر مبنی ہے۔
ایرانی صدر مملکت نے کہا کہ ایران اور ترکمانستان کے باہمی اعتماد اور پڑوسیوں کے درمیان تعاون بڑھانے پر مبنی تعلقات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے ترکمان صدر کے حالیہ دورہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دورہ تہران کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے باہمی تعلقات کے فروغ میں تیزی لانے میں بہت مددگار ثابت ہوں گے۔
صدر رئیسی نے اس بات پر زور دیا کہ کاروباری ویزوں کے اجرا میں سہولت اور دونوں ممالک کے تاجروں کے سفر میں اضافے سے دوطرفہ تجارتی تعلقات کے حجم میں توسیع اور اضافہ کی راہ ہموار ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ نیز جمہوریہ آذربائیجان کی درخواست کے پیش نظر ہم ایران کے راستے آذربائیجان کو ترکمانستان کے گیس کی منتقلی کی صلاحیت کو بڑھانے پر تیار ہیں۔
نیز صد رئیسی نے اس امید کا اظہار کرلیا کہ کیسپین ساحلی ممالک کے چھٹے سربراہی اجلاس میں ان ہمسایہ کی صلاحیتوں کا استعمال کرنے کیلئے اچھے فیصلے اور معاہدے کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بلاشبہ، اس سربراہی اجلاس اور اس کی سائڈ لائن میں اس طرح کی مشاورت ماحولیاتی تحفظات کا احترام کرتے ہوئے اور غیر ملکیوں کی موجودگی کی روک تھام پر زور سے بحیرہ کیسپین کی صلاحیتوں کو پرامن مقاصد کے لیے بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
در این اثنا سردار بردی محمد اف نے تہران- اشک آباد کے درمیان تعلقات کے فروغ پر صدر رئیسی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ان کا ملک، ایران اور ترکمانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کے نفاذ پر پُر عزم ہے۔
انہوں نے بحیرہ کیسپین کو 5 ساحلی ممالک کیللئے ایک مشترکہ قیمتی سرمایہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مشترکہ تعاون اور کوششوں سے اللہ رب العزت کیجانب سے دی گئی اس صلاحیت کا صحیح طرح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے تحفظ کی کوشش کرنی ہوگی۔
نیز دونوں فریقین نے ایران اور ترکمانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کے نفاذ کی ترقی کا جائزعہ لیتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ ان معاہدوں کا نفاذ؛ تہران- اشک آباد کے اقتصادی تعلقات کے میں ایک نیا باب کھلے گا۔
بحیرہ کیسپین علاقے کا "امن اور دوستی" علاقے کے طور پر تحفظ کریں: ایرانی صدر
ارنا رپورٹ کے مطابق، سید "ابراہیم رئیسی" نے بروز بدھ کو اشک آباد میں منعقدہ کیپسین ساحلی ممالک کے چھٹے سربراہی اجلاس میں مختلف شعبوں میں اقتصادی تعاون بڑھانے پر شریک ممالک کے صدور کی حکمت عملیوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، بحیرہ کیسپین کو امن اور دوستی اور علاقائی عوام کے درمیان گہرے قریبی تعلقات پیدا کرنے کا باعث سمجھتا ہے اور باہمی احترام پر مبنی ہمہ جہتی تعاون پر اپنی تیاری کا اظہار کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بحیرہ کیسپین؛ ہمارا مشترکہ ورثہ اور سرمایہ؛ جوڑنے اور دوستی کا مرکز اور اس کے ساحلی ممالک کے 270 ملین سے زیادہ لوگوں کے لیے خیر و برکت کا ذریعہ ہے، جو پانچ ممالک کو ایک آبی علاقے کے آئینے میں ظاہر کرتا ہے۔
صدر رئیسی نے اس بات پر زور دیا کہ ہم بحیرہ کیسپین کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے پڑوسی ممالک کے طور پر اور دوسرے ممالک اور خطوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کی سرزمین استعمال کرتے ہیں، اس آبی علاقے کے ساتھ ساتھ اس کے ساحلی ممالک کے لیے ہمارے بہت سے حقوق اور ذمہ داریاں ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم بطور بحیرہ کسپین کے ساحلی ممالک کے طور پر یکطرفہ اقدامات سے نمٹنے، پانچ جہتی تعاون پر زور دینے، موجودہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور تعاون بڑھانے سے بجیرہ کیسپین کے علاقے کو بطور " امن اور دوستی" کے علاقے کی حفاظت کرنی ہوگی اور خطے اور ساحلی ممالک کے طویل مدتی مفادات اور بحیرہ کیسپین سے متعلق تمام فیصلوں میں " اتفاق رائے کے اصول " کی پاسداری پر سنجیدگی سے توجہ دیںی ہوگی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ عدل اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کی تشکیل کی بنیادوں میں سے ایک ہے، اس کے مطابق عدل و انصاف کے باہمی تعلقات کا قیام اور ایک منصفانہ کثیرالجہتی نظام کی تشکیل؛ ایران کی خارجہ پالیسی کی اہم سمتوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ منصفانہ نظام کے فائدوں میں سے ایک ہمسایہ ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کا فروغ ہے جس سے باہمی مفادات کی فراہمی بھی ہوگی۔
ایرانی صدر نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ان کا ملک بحیرہ کیسپین کے ساحلی ممالک کے صدور کیجانب سے نقل و حمل، سرمایہ کاری، سیاحت اور دیگر شعبوں میں اقتصادی تعاون کی توسیع کی حکمت عملیوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کی حمایت کرتا ہے اورخاص طور ثقافتی تعلقات کو مضبوط بنانے اور بحیرہ کیسپین کے نازک ماحول کو محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
صدر رئیسی نے تقریر کے اختتام پر اس عزم کا اعادہ کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران بحیرہ کیسپین کے ساحلی ممالک کے ساتویں اجلاس کی میزبانی پر تیار ہے۔
امام مہدی (عج) کا لشکر تیار ہے؟
اسرائیل کے صدر سے جب پوچھا گیا کہ اسرائیل کے تین بڑے دشمن کون ہیں تو اسرائیلی صدر نے تین بار کہا ایران، ایران، ایران۔ اسرائیل اس قدر ایران سے خوف زدہ کیوں ہے؟ آخر اسرائیل کو ایران سے کیسا خوف ہے؟ اسرائیل میں رہنے والے لاکھوں یہودی اپنے مسیحا یعنی دجال کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسی طرح سے ایران بھی امام مہدی کا انتظار کر رہا ہے۔ سعودی عرب کے بادشاہ محمد بن سلمان سے صحافی نے پوچھا کیا سعودی عرب ایران سے مذاکرات کرے گا تو محمد بن سلمان نے کہا ہرگز نہیں، کیونکہ وہ امام مہدی کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔ محمد بن سلمان کا یہ مضحکہ خیز بیان دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے حیرت انگیز اور شرمناک تھا۔ امام مہدی کا انتظار تو دنیا بھر کے مسلمان کر رہے ہیں۔ اہل سنت کے مطابق وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے، لیکن قیامت سے پہلے وہ آئیں گے۔ دوسری طرف اہل تشیع کا ماننا ہے کہ وہ کئی سو سال پہلے پیدا ہوچکے ہیں۔ پہلے وہ اپنے خلفاء سے ملتے تھے، ان کی رہنمائی کرتے تھے، لیکن خدا کے حکم سے وہ غائب ہوچکے ہیں اور جب خدا کا حکم ہوگا، وہ ظاہر ہوں گے۔
دنیا بھر کے اہل تشیع ہی وہ واحد طبقہ ہے، جو امام مہدی کا شدت سے انتظار کرتا ہے۔ دن رات ان کی سلامتی کی دعائیں کرتے ہیں اور ان کے جلد آنے کی دعا کرتے ہیں۔ اہل تشیع جمعرات اور جمعہ کو تمام مقدس مقامات پر اور روزانہ نماز کے بعد امام مہدی کے جلد آنے کی دعا کرتے ہیں، انہیں اپنی مدد کیلئے پکارتے ہیں۔ اہل تشیع کا یہ ماننا ہے کہ امام مہدی ہمارے اعمال سے واقف ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں۔ اہل تشیع امام مہدی کے آنے کی مکمل تیاری کر رہے ہیں، وہ اپنے بچوں کو بچپن میں ہی یہ سکھاتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر امام مہدی کے سپاہی بنیں گے، کیونکہ جب امام مہدی ظہور کریں گے تو دنیا بھر میں ایک حکومت بنائیں گے۔ وہ دجال سے جنگ کریں گے، ان کا ایک لشکر ہوگا، لشکر میں 313 کمانڈر اور ہزاروں سپاہی ہوں گے۔ ہر شیعہ مسلمان یہ دلی خواہش رکھتا ہے کہ جب امام مہدی دنیا میں خدا کے حکم سے ظاہر ہوں گے اور حکومت بنائیں گے تو وہ ان کی ملٹری کا حصہ بنے گا۔ جب تک امام مہدی دنیا میں ظاہر نہیں ہوتے اور وہ غائب ہیں، تب تک وہ اپنے نیک اعمال سے امام مہدی کی حکومت کے لئے زمینہ سازی کرتا رہے گا۔
ایران وہ واحد ملک ہے، جو امام مہدی کے ظہور سے پہلے ایک لشکر تیار کرچکا ہے، ہمہ وقت لاکھوں نوجوان کمربستہ ہیں۔ وہ امام مہدی کے ظہور کی کوششوں اور دعاوں کے ساتھ ساتھ مکمل تیاری کے ساتھ تیار ہیں۔ کچھ دستے تو ایسے بھی ہیں، جو صرف ایک اشارے، ایک حکم پر اپنی جان قربان کرنے اور امام مہدی کے لشکر میں شامل ہونے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ اس لشکر کو کس نے بنایا اور کب سے یہ لشکر تیار ہو رہا ہے، اس لشکر میں کتنے سپاہی شامل ہیں، اُن کے پاس کونسا اسلحہ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا 40 سال قبل ایران میں اسلامی انقلاب برپا کیا گیا اور یہ انقلاب کوئی اور نہیں امام خمینی لائے تھے۔ امام خمینی سے پوچھا گیا کہ ایران میں یہ حکومت کیوں بنائی گئی، انہوں نے فرمایا ہم ایک لشکر تیار کریںگے، جس میں دس کروڑ ایسے سپاہی ہوں گے، جو امام مہدی کی دنیا بھر میں عالمی حکومت بنانے کی کوشش کریں گے، اس لشکر میں، عراق، یمن، شام، ہندوستان، پاکستان، افریقہ، امریکہ سمیت دنیا بھر سے باعلم، بابصیرت اور مستعد جوان ہوں گے۔ اس کے بعد ہم پھر ایک اور لشکر بنائیں گے، جو ایران میں بنے گا، اس میں دو کروڑ سپاہی ہوں گے۔
امام خمینی نے کہا جب تک امام مہدی ظہور نہیں کریں گے، یہ کروڑوں جوان ان کی حکومت قائم کرنے کی زمینہ سازی کریں گے، جب امام مہدی آجائیں گے تو ہمارا یہ لشکر ان کے لشکر میں ضم ہو جائے گا، یوں دنیا میں امام مہدی کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ ایران کے امام خمینی تو 30 سال پہلے وفات پا چکے ہیں، مگر یہ دونوں لشکر تیار ہو چکے ہیں، ان کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہ کروڑوں جوان دنیا کے کونے کونے میں آباد ہیں۔ سال میں ایک بار یہ جوان عراق کے شہر نجف میں جمع ہوتے ہیں اور امام حسین کے چہلم کے دن نجف سے کربلا 90 کلومیٹر کا سفر پیدل کرتے ہیں اور امام مہدی سے دعا کرتے ہیں کہ آپ آجائیں ہم تیار ہیں۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران میں امام مہدی کی مدد کیلئے بننے والے لشکر کا کوئی مستند حوالہ روایات سے بھی ملتا ہے؟ یا یہ صرف ایک خیال ہے۔؟
تمام مسالک کی معتبر کتابوں کی روایت مطابق ایک لشکر خراسان سے آئے گا، جن کے ہاتھوں میں کالے پرچم ہوں گے، وہ خراسان سے کوفہ پہنچیں گے اور جب امام مہدی کا ظہور ہو جائے گا، تو ان میں سے کچھ افراد کو ان کی بیعت کے لئے بھیجا جائے گا. یہ قافلہ خراسان سے کوفہ تک کا راستہ تھوڑی ہی مدت میں طے کرے گا۔ سید خراسانی وہ شخص ہے کہ جس کا ذکر امام مہدی کے ظہور کی نشانیوں سے متعلق روایات میں ہوا ہے اور وہ شخص امام مہدی کے چاہنے والوں میں سے ہے۔ مستند روایات کے مطابق اس کے دائیں ہاتھ پر علامت ہے اور اپنے لشکر کے ہمراہ شعیب بن صالح کی سپاہ سالاری میں، کوفہ کی طرف جائے گا اور سفیانی کے لشکر کو شکست دے گا۔ یہ خراسانی کون ہے؟ کہاں رہتا ہوگا؟ روایات کے مطابق وہ امام حسن اور امام حسین کی اولاد سے ہے کہ اسے ہاشمی خراسانی کے عنوان سے یاد کیا ہے اور اس کی جسمی صفات، نورانی صورت، گال پر ایک تل یا دائیں ہاتھ کی نشانی بتائی جاتی ہیں۔ سید خراسانی کا لشکر سفیانی سے جنگ کے بعد آخر میں امام مہدی سے بیعت کرے گا۔
قارئین کرام ایک اور مستند روایت کے مطابق خراسانی، سفیانی اور یمانی" تینوں ایک ہی سال، ایک ہی ماہ اور ایک ہی دن قیام کریں گے۔ ان روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتے چلیں کہ چند سال قبل ایک فلم نشر کی گئی تھی، اس فلم کا نام "ظہور بہت نزدیک" ہے۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای، سید خراسانی ہیں اور حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ، وہی یمانی ہے۔ کیا واقعی آیت اللہ خامنہ ای ہی وہ شخصیت ہیں، جنہیں روایات کے مطابق سید خراسانی کہا گیا۔ آیت اللہ خامنہ ای، ایران میں انقلاب کے بعد امام خمینی کے جانشین ہیں اور امام خمینی کے بنائے ہوئے دونوں بڑے لشکر جس میں کروڑوں جوان شامل ہیں، ان کے ایک حکم کے طابع ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای کا ایران میں جمعہ کے خطبہ کے دوران بم دھماکہ سے دایاں ہاتھ مفلوج ہوگیا تھا، اس نشانی سے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وہی سید خراسانی ہوسکتے ہیں۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ چند ماہ قبل آیت اللہ خامنہ ای نے ماہ رمضان میں دنیا بھر کے منقبت خواں اور شاعروں سے ملاقات کی اور ان سے امام مہدی کے بارے میں ایک ترانہ بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ شاعروں اور منقبت خوانوں نے سر جوڑ لئے ایک ترانہ بنایا۔ یہ ترانہ تین ماہ پہلے نشر ہوا ہے، نشر ہوتے ہی یہ دنیا بھر میں وائرل ہوگیا۔ یہ پہلی بار تھا کہ کوئی ترانہ دنیا میں سنا گیا تھا۔ ایران کے 83 شہروں میں کروڑوں لوگوں نے مل کر یہ ترانہ پڑھا ہے۔ یہ ترانہ اب دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ ہر ملک میں پڑھا جا رہا ہے۔ اس ترانہ میں امام مہدی کو سلام پیش کیا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ دنیا میں مظالم بڑھ چکے ہیں، ہم آیت اللہ خامنہ ای کی صدا پر تیار ہیں۔ امام مہدی آپ آجائیں اور عالمی حکومت قائم کریں، ہم آپ پر جان قربان کر دیں گے۔ یہ ترانہ دنیا بھر کے شیعوں کے گھر گھر میں بچے بچے کی زبان پر ہے، ہر بچہ بوڑھا جوان اس ترانہ سے امام مہدی کو اپنی مکمل تیاری کے بارے میں بتا رہا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای بے قرار ہیں کہ امام مہدی ظہور فرمائیں اور وہ کروڑوں جوانوں پر مشتمل اس لشکر کو امام مہدی کے حوالے کر دیں، تاکہ دنیا بھر میں ایک عالمی حکومت قائم ہو جائے۔ امت مسلمہ مسائل کا شکار ہے، پوری امت عالمی کفر کے خلاف ایک ہو جائے گی اور پھر صرف عدل و انصاف ہوگا اور ہر طرف خدا والوں کی حکومت ہوگی۔
تحریر و تحقیق: توقیر کھرل