سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے 3 ستمبر 2022 کو اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی کے ارکان اور اس اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے شرکاء سے ملاقات کی۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شرکاء سے اپنے خطاب میں عالم اسلام میں اہلبیت کی عظمت و عقیدت کو بے نظیر بتایا اور زور دے کر کہا: آج اسلامی معاشروں کو تمام میدانوں میں اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات کی اشد ضرورت ہے چنانچہ اہلبیت ورلڈ اسمبلی کو چاہئے کہ صحیح پروگرام تیار کرکے اور منطقی اور مؤثر وسائل سے استفادہ کر کے، اس سنگین ذمہ داری کو ادا کرے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کو یکجہتی اور تعاون کا علمبردار ہونا چاہیے، انہو نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے پہلے دن سے کہا ہے، اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی، غیر شیعوں سے مقابلے اور دشمنی کے لئے ہرگز نہیں ہے اور ابتدا سے ہی ہم نے غیر شیعہ برادران کا، جو صحیح راستے پر بڑھ رہے ہیں، ساتھ دیا ہے. 

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق عالم اسلام میں فاصلوں اور تقسیم کرنے والے خطوط کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا سامراج کی موجودہ سازش ہے آپ نے کہا: شیعہ اور سنی، عرب اور عجم، شیعہ کے ساتھ شیعہ اور سنی کے ساتھ سنی کی جنگ کے لیے سازشیں تیار کرنا اور انھیں ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کرنا بڑے شیطان یعنی امریکا کی چال ہے جو بعض ملکوں میں دیکھی جا رہی ہے جس سے ہوشیار رہنا چاہیے۔

انھوں نے عالمی سامراج کے مقابلے میں اسلامی جمہوری نظام کے لہراتے پرچم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں اور شیعوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ اسلامی نظام، تسلط پسندانہ نظام کے سات سروں والے اژدہا (ڈریگن) کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑا ہے اور خود سامراجی طاقتیں اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ ان کی بہت سی سازشیں کو اسلامی جمہوریہ نے شکست سے دوچار کر دیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ کے استحکام کا راز اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات کی پیروی ہے۔ آپ نے کہا: ان درخشاں ستاروں نے اپنی فکری اور عملی تعلیمات سے ہمیں سکھایا ہے کہ کس طرح قرآن مجید پر غور و فکر اور عمل کے ذریعے، اسلام عزیز کے راستے پر چلا جائے۔

انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے پرچم کو انصاف و روحانیت کا پرچم بتایا اور کہا: واضح سی بات ہے کہ سامراجی دنیا، جس کے تمام افکار و اعمال ظلم و زیادتی اور مادہ پرستی و دولت پرستی پر مبنی ہیں، اس پرچم سے ٹکراؤ اور دشمنی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگئی۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکا کو استکباری اور سامراجی خیمے کا سرغنہ بتایا اور کہا: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن سے الہام حاصل کر کے سبھی کو سکھایا کہ اسلامی معاشروں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی لائنوں کو کنارے کر دیں اور فاصلے کی صرف ایک لائن کو قبول کریں جو عالم اسلام اور کفر و سامراج کے درمیان حدبندی کی لائن ہے۔

آپ نے کہا: اسی گہرے عقیدے کی بنیاد پر، بالکل ابتدائي دنوں سے فلسطین کی حمایت، اسلامی انقلاب کے ایجنڈے میں شامل ہو گئي اور امام خمینی نے پورے وجود سے فلسطین کا ساتھ دیا اور اسلامی جمہوریہ ایران آج بھی عظیم الشان امام خمینی کے ذریعے طے پانے والے خطوط پر گامزن ہے اور مستقبل میں بھی فلسطین کے ساتھ رہے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ایرانی قوم سے پورے عالم اسلام کی تمام اقوام کی یکجہتی کا سبب، امام خمینی کی حکمت عملی یعنی عالم اسلام میں مذہبی، فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ خطوط کی ایرانی قوم کی طرف سے نفی کرنا ہے۔ انھوں نے کہا: اسی بنیاد پر ہم نے ہمیشہ اسلامی ممالک کو شیعہ اور سنی، عرب اور عجم اور اسی طرح کے دوسرے فاصلہ پیدا کرنے والے خطوط کو نظر انداز کرنے اور اصولوں اور بنیادی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دی ہے۔

انھوں نے دیگر اقوام کو منہ زوری کے مقابلے میں استقامت کی ترغیب دلانے کو، تسلط پسندانہ نظام کی ناراضگی اور دشمنی کی ایک اور وجہ بتایا اور کہا: مختلف ملکوں میں امریکا کی مجرمانہ سازشوں کو ناکام بنانا، جس کا ایک نمونہ (دہشت گرد گروہ) داعش تھا، ایرانوفوبیا اور شیعہ فوبیا کے زہریلے پروپیگنڈوں اور ایران پر دیگر ملکوں میں مداخلت کا الزام عائد کیے جانے کا سبب بنا ہے۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، دوسرے ممالک میں مداخلت نہیں کر رہا ہے، کہا کہ تسلط پسند طاقتوں کی یہ الزام تراشی اسلامی نظام کی حیرت انگیز پیشرفت کے مقابلے میں ان کی بے بسی کا نتیجہ ہے لیکن سبھی کو سامراج کی ان چالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور اس کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔

انھوں نے عالم اسلام کی فکری اور عملی گنجائشوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عالم اسلام کے پاس دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی بھرپور توانائی موجود ہے۔

آپ نے کہا کہ حقائق اور اسلامی تعلیمات، اللہ پر توکل، تاریخ پر پرامید نظر اور مہدویت کا عقیدہ، عالم اسلام کی فکری توانائياں ہیں. 

رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب اور لبرل ڈیموکریسی کے نظام کے فکری تعطل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: البتہ عملی میدان میں سامراجی طاقتوں نے، مختلف حیلوں سے عالم اسلام کے ذخائر سے استفادہ کر کے اور طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر کے اپنے آپ کو مضبوط بنا لیا ہے لیکن پیشرفت کے لیے عالم اسلام کے قدرتی وسائل بہت زیادہ ہیں جن میں سے ایک یعنی تیل اور گیس کی اہمیت آج سب کے لیے پوری طرح واضح ہو چکی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ عالم اسلام کا مستقبل بہت روشن ہے اور شیعہ مکتب اس میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

اس ملاقات کے آغاز میں اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی کے سیکریٹری جنرل حجۃ الاسلام و المسلمین رمضانی نے 117 ملکوں کی اہم شخصیات کی شرکت سے منعقد ہونے والے اس اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی جو "اہلبیت، عقلانیت، انصاف اور وقار کے محور" کے عنوان سے منعقد ہوا۔

عزاداری اور شیطانی وسوسہ!

ہمیں اور آپکو اپنی گفتگو میں بالخصوص محرم اور صفر کے ان مہینوں میں کہ جو اسلامی برکتوں اور اسکی بقاء کے مہینے ہیں،چاہیے کہ محرم کو صفر کو مصائب اہل بیت کے ذریعے زندہ رکھیں۔مصائبِ اہل بیت کے ذکر کے دم ہی سے یہ مذہب آج تک زندہ ہے ،اسی روایتی مرثیہ خوانی و نوحہ خوانی کے ساتھ۔ممکن ہے کہ شیطان آپکے ذہن میں یہ وسوسہ ڈالے کہ ہم نے انقلاب برپا کیا،اب ہمیں انقلاب کے ہی مسائل پہ بات کرنی چاہیے اور جو مسائل ماضی کا حصہ تھے اب انہیں نظر انداز کردینا چاہیے۔نہیں!

 

 

 

عزاداری ،عوام اور خواص کا کردار!

ہمیں ان اسلامی روایات کا محافظ،ان مبارک اسلامی شعار کا محافظ ہونا چاہیے جو عاشوراء،محرم و صفر کے دوران انجام پاتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ اس پہ عمل پیرا ہونے کی تاکید بھی کرنی چاہیے۔یہ محرم و صفر ہیں کہ جہنوں نے اسلام کو برقرار رکھا ہے۔یہ سید الشہداء کی قربانی ہے کہ جس نے ہمارے لئے اسلام کو زندہ رکھا ہے۔خطیب حضرات کی طرف سے عاشوراء کو اسی روایتی حیثیت کے ساتھ زندہ رکھنا،عوام الناس کی جانب سے اسی سابقہ انداز میں زندہ رکھا جانا کہ جس میں منظم انداز میں ماتمی جلوس اور دستے عزاداری برپا کرتے تھے۔

 

 

روایتی انداز سے عزاداری کا بچاؤ!

یہ جان لیں کہ اگر عزاداری کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ان روایتوں کو محفوظ رکھنا ہوگا۔البتہ ماضی میں اگر نامناسب طریقے رائج تھے اور عزاداری اسلام سے ناواقف افراد کے ہاتھوں میں رہی ہو تو اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن اس سے ہٹ کر عزاداری کو اسی قوت کے ساتھ باقی رہنا چاہیے اور حالات حاضرہ بتانے کے بعد نوحہ خوانی اور مرثیہ خوانی اسی سابقہ انداز میں ہونی چاہیے اور عوام کو فداکاری کے لئے تیار کرنا چاہیے۔

 

 

 

 

عہد بصیرت

 ایران کے صوبہ مغربی آذربائیجان میں تبلیغاتِ اسلامی کے سرپرست حجۃ الاسلام منصور امامی نے ارومیہ کی مسجد "حاجی خان" میں مذہبی تنظیموں کی تعظیم و خراجِ تحسین پیش کرنے کے سلسلہ میں منعقدہ ایک تقریب میں خاطب کرتے ہوئے کہا: ارومیہ کے لوگوں نے "یوم العباس" نامی مراسم میں یہ واضح کیا کہ اتحاد و وحدت کے ساتھ ہی انتہائی اچھے اور مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ایامِ محرم میں ارومیہ شہر کے اندر 400 اور اسی طرح پورے صوبے میں 1455 مذہبی ہیئتوں اور مختلف ماتمی و عزاداری سنگتوں نے عزاداریٔ امام حسین علیہ السلام کا اہتمام کیا۔

مغربی آذربائیجان میں تبلیغاتِ اسلامی کے سرپرست نے کہا: ایامِ محرم الحرام میں 1200 سے زیادہ دینی مبلغین اور مبلغات دینی و تبلیغی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔

حجۃ الاسلام امامی نے کہا: اربعین واک الہی معجزات میں سے ہے اور تحریک سید الشہداء علیہ السلام کی عظمت اور قدرت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس منفرد اجتماع سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سید الشہداء علیہ السلام سے محبت دشمنانِ اسلام کے تمام مذموم پروپیگنڈوں سے دینِ حق کو محفوظ رکھنے کا باعث ہے۔

انہوں نے کہا: جو لوگ اربعین واک میں شرکت نہیں کر سکتے انہیں اربعین کی ترویج کے لیے کوشش کرنی چاہیے جیسا کہ اس سال بھی ایران کے دوسرے شہروں کی طرح ارومیہ میں بھی شہداء چوک سے مزار شہداء تک اربعین واک منعقد کی جائے گی۔

حجۃ الاسلام امامی نے مزید کہا: جس طرح ایک مومن کا وجود ایک شہر سے ہزاروں آفتوں کو دور کرتا ہے اسی طرح دینی تقاریب کا انعقاد بھی شہر میں برکات لانے اور آفات کو دور کرنے کا باعث ہوتا ہے۔

 ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران اور روس کے درمیان تعلقات صحیح راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔

یہ بات حسین امیر عبدالہیان جنہوں نے اپنے روسی ہم منصب کی دعوت پر سرکاری دو طرفہ ملاقات کے لیے ماسکو کا دورہ کیا ہے، بدھ کے روز سرگئی لاوروف سے ملاقات اور گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نےایران اور روس کے دوطرفہ تعلقات کے صحیح راستے کا حوالہ دیتے ہوئے مختلف دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے مشترکہ کوششوں کے تسلسل کی ضرورت پر زور دیا۔

حسین امیر عبداللہیان نے اشک آباد اور تہران میں ایران اور روس کے صدور کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت کو اہم قرار دیا۔

انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس حصے میں مسائل اور حائل رکاوٹوں کے دور کرنے کو دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے حجم کی مضبوطی کا موقع قرار دیا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے اس ملاقات کے دوران علاقائی اور بین الاقوامی مسائل بشمول یوکرین، افغانستان، شام، یمن، عراق، فلسطین اور جنوبی قفقاز کے مسائل پر بھی بات چیت کی۔

اس موقع پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اشک آباد میں دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے ان پر عمل درآمد کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔.

انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ اور تجارتی تعلقات کی بہتری پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ طے پانے والے معاہدوں اور دونوں ممالک کے تجارتی وفود کے تبادلے کے فروغ سے سب شعبوں میں باہمی تعلقات کے پہلے سے کہیں زیادہ فروغ دیکھیں گے۔

لاوروف نے جنوبی قفقاز میں ہونے والی پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے لاوروف نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیانات کی تصدیق کے لیے جیوپولیٹیکل اور بین الاقوامی سرحدوں کو تبدیل نہ کرنے کے لیے روس کے عزم پر زور دیا۔

روسی وزیر خارجہ نے اپنے بیانات کے ایک اور حصے میں کہا کہ جیسا کا روس نے شنگھائی تعاون تنظیم مین ایران کی مکمل رکنیت کی حمایت کی ویسا بھی یوریشین اقتصادی یونین میں بھی ایران کی رکنیت کی حمایت کرے گا۔

 انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کے آئندہ اجلاس کو مختلف شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو آسان بنانے اور ضروری دستاویزات پر تبادلہ خیال اور دستخط کرنے کا ایک اور موقع بھی سمجھا۔

روسی وزیر خارجہ نے پارلیمانی تعاون کی مضبوطی کیلیے اپنے ایرانی ہم منصب کی تجویز کا خیرمقدم کرتے ہوئے دستاویزات کی منظوری اور بنیادی شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی توسیع کے لیے پارلیمنٹ کے کردار کو اہم قرار دیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان آج بروز بدھ روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کی دعوت پر سرکاری دو طرفہ ملاقات کے لیے روسی دارالحکومت ماسکو روانہ ہوگئے۔

ن، ارنا -  ایران میں فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے نمائندے نے ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جناب اردوغان کو ہمارا جواب وہی جواب ہے جنہوں نے خود متحدہ عرب امارات اور صہیونی کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے جواب میں دیا۔

یہ بات ناصر ابوشریف نے ارنا کے نمائندے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے صہیونی حکومت کے بارے میں فلسطینی قوم کے واضح موقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس رجیم کا بیج مغربیوں کی جانب سے مغرب کی لامحدود حمایت اور فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم سے بویا گیا ہے۔ اور اس حکومت کی بنیاد فلسطین میں انسانیت کے خلاف جرائم پر قائم کی گئی ہے۔

فلسطینی اسلامی جہاد تحریک کے نمائندے نے ترکی اور صیہونی حکومت کے تعلقات کے پس منظر کے بارے میں کہا کہ ترکی 1948 سے اب تک کئی مراحل سے گزرا ہے۔ بدقسمتی سے اس ملک نے اعلان کیا کہ وہ صیہونی حکومت کو تسلیم کرتا ہے اور صیہونی حکومت کی حفاظتی پٹیوں میں سے ایک بن گیا ہے۔

ناصر ابوشریف نے ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے آغاز کے بعد مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ترکی کے بیانات اور موقف میں مثبت تبدیلیاں آئی تھیں۔ ہم نے ترکی کے عوام اور حکومت کی جانب سے فلسطین کی حمایت اور صہیونی رجیم کے خلاف جنگ کیلیے کچھ اقدامات کو دیکھا مثال کے طور پر مرمرہ جہاز کا مسئلہ۔ لیکن ترکی کی حکومت کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر میرے خیال میں اس حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی قابل قدر اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے فلسطینی عوام کی مکمل اور بھرپور حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران وہ واحد ملک ہے جو اس طرح کا بوجھ اٹھاتا ہے اور مسلمان کو پوری طرح فلسطینی عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم صہیونی ریاست کے ساتھ کسی بھی تعلقات کے مخالف ہیں اور ہمارے یقین ہے کہ یہ کام غلط ہے اور فلسطینی عوام کے لیے نقصان دہ اور صیہونی حکومت کے مفاد میں ہے۔

ابوشریف نے کہا کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جناب اردوغان کو ہمارا جواب وہی جواب ہے جنہوں نے خود متحدہ عرب امارات اور صہیونی کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے جواب میں دیا۔

نجف اشرف کے مقتدی الصدر کے پریس کانفرنس سے خطاب کے بعد بغداد سمیت تمام شہروں میں مظاہرے ختم ہو کر دئے گئے اور عراق میں امن و امان کی صورتحال دوبارہ برقرار ہو گئی ہے، ان مظاہروں میں اصل کامیابی عراق کی مذہبی قیادت اور حشد الشعبی کے حصے میں آتی ہے جس کا اعتراف مقتدی الصدر نے خود اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا۔

صدری گروہ کے بعض مسلح اور افراطی اور امریکہ و عرب ریاستوں کے چھوڑے ہوئے مسلح جاسوس یہ چاہتے تھے کہ عراق میں خانہ جنگی مچ جائے اور ہم اس فتنے کا ذمہ دار مقاومت اسلامی اور ایران کو ٹھہرا کر اپنا حساب چکتا کریں، لیکن حشد الشعبی اور دیگر مذہبی قیادت نے زیرکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زخم کھا کر بھی جوابی کارروائی نہیں کی یہاں تک کہ مقاومتی ہیرو شھید ابو مھدی المھندس اور دیگر ریڈ لائنز کو پار کیا گیا لیکن حشد الشعبی نے اپنوں کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے اور بالآخر دشمن کے ذریعہ پیدا کی گئے مصنوعی جھاگ کی عمر ختم ہو گئی اور فتنہ بیٹھ گیا۔

ایک بار پھر مقاومت اسلامی کی بابصیرت قیادت نے بحران کو فرصت میں بدل کر اپنی شائستگی ثابت کر دی ہے، اسی طرح کل سے بندہوئے ایران، عراق بارڈرز بھی زائرین کے لیے کھول دئیے گئے ہیں اور ایران کے راستے اربعین پہ جانے والے زائرین اب عراق جا سکیں گے۔اربعین ہمیشہ کی طرح ایک تمدن ساز تحریک کے عنوان سے منعقد ہوگی۔

http://www.taghribnews.

 

 

مفہوم جنگ نرم

نرم جنگ یا سافٹ وار سے مراد ایسی کثیر الجہتی جنگ ھے جو مختلف پیچیدہ ثقافتی وساٰیل [جھوٹ‘ پروپیگنڈہ‘ میڈیاوار] کے ذریعے دینی انقلابی افراد اور سماج کے نظریات کو مشکوک بنا دے۔ ۱ 

 

سافٹ وار کی نوعیت:
آج یہ بات سب پر واضح ہوچکی ہے کہ عالمی استکبار کے نظام اسلامی جمہوری ایران سے مقابلے کی نوعیت انقلاب کی پہلی دہائی جیسی نہیں ہے۔ انقلاب کے آغاز میں استکبار نے آٹھ سالہ جنگ تحمیلی(مسلّط کردہ جنگ) کے ذریعے زورآزمائی کی۔ نظام انقلاب کو داخلی طور پر کمزور کرنے کے لیے بغاوت اور شورش کو ہوا دینے کی کوشش کی لیکن اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ آج دشمن ہارڈ وار یا عسکری جارحیت کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ آج نظام انقلاب کے بارے میں دشمن اپنی جنگی ترجیحات بدلنے پر مجبور ہوا ہے۔ آج عالمی استکبار کی اسٹرٹیجی نرم جنگ کی ہے جہاں جدید مواصلاتی اور ثقافتی وسائل (میڈیا وار،سائبروار )سے لیس پروپیگنڈے کے ذریعے دینی معاشرے میں حاکم انقلابی افکار کو تنقید کا نشانہ بنا کر نظام کی بیخ کنی کے در پے ہیں۔گویا جنگ نرم دشمن کے جدید جنگی تحرک کا حامل پلان ہے جیس کے بارے میں ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

 

استکبار کا مطلب:

استکبار سے مراد صرف امریکہ اور یورپی مماک نہیں ہے بلکہ ایک وسیع نیٹ ورک کا نام ہے جس میں یہ ممالک بھی آتے ہیں۔ عالمی صہیونی تاجروں اور مالی مراکز پر مشتمل نیٹ ورک جو عالمی وسائل پر قبضہ جما کر کثیر الجہتی پیچیدہ استبدادی ہتھکنڈوں کے ذریعے قوموں کا استحصال کرتا ہے اور عالمی سیاست کو اپنے کنٹرول میں رکھنیے کے لیے مذموم منصوبہ بندی کرتا ہے اور کٹھ پتلی حکومتیں تشکیل دیتا ہے۔

 

امریکہ اور یورپی ممالک پر مشتمل استکباری مجموعے کو بصیرت کے حامل آپ انقلابی جوان شکست دے سکتے ہیں جس کے لیے آپ کو علمی، معاشی اور سکیورٹی کے میدان میں ترقی حاصل کرنا ہوگی تا کہ ملک اور نظام کو ناقابل تسخیر سطح تک پہنچا سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان چند سالون میں یونیورسٹیز کو سائنسی تحقیقق، اختراع،سافٹ ویئر موومنٹ اور انڈسٹری کے موضوعات پر کام کرنے کی مسلسل تاکید کر رہا ہوں، خاص طور سے انڈسٹری اور جامعات (یونیورسٹیز) کا باہمی رابطہ مستحکم ہونا چاہیے۔ کیونکہ سائنسی پیشرفت، کسی بھی قوم اور ملک کی طویل المدت سکیورٹی کی ضامن ہوتی ہے۔ ۲


انقلاب کے خلاف ثقافتی یلغار کا سبب:

دشمن کی نگاہ میں انقلاب کے خلاف ثقافتی یلغار کی دلیل یہ ہے کہ مغربی ایشیا جیسے حساس اور سٹریٹیجک خطے میں عالمی استکبار کے تسلّط پسندانہ اور ظالمانہ نظام کے خلاف انقلاب ایک طاقتور حریف کے طور پر ابھرا ہے اور استکبار کے توسیع پسندانہ مفادات کو چیلینجز سے دوچار کر رہا ہے۔
مغربی ایشیا جغرافیائی اعتبار سے انتہائی حسّاس خطہ ہے جہاں خلیج فارس، بحیرہ احمر(red sea)، شمالی آفریقا، اور میڈیٹیرین سی کے علاوہ خلیجی ممالک کامجموعہ وجود رکھتا ہے۔ دنیا کی چھے بڑی آبیِ گزرگاہوں میں سے حیاتی اہمیت کی حامل تین گزرگاہیں مغربی ایشیا میں پائی جاتی ہیں۔ آبنائے ہرمز، نہر سوئز، اور باب‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌المندب. عالمی تجارت کا سارا دارومدار ان تینوں گزرگاہوں پر ہے. عالمی نقشے پر نگاہ کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ تمام بین الاقوامی تجارتی اور معاشی رابطوں کے لیے یہ گزرگاہیں کس قدر اہمیت کی حامل ہیں۔ اس حساس خطے میں ایک ایسی طاقت زور پکڑ رہی ہے جو عالمی استکبار کے مذموم مقاصد کے حامل معاشی نیٹ ورک کو چیلینج کر رہی ہے۔ خطے میں ایسی طاقت کا وجود عالمی استکبار اور اس کے مقامی چیلوں کو یقینا گوارا نہیں۔


دشمن کی جنگ نرم کے اہداف

انقلابی ارادوں کو کمزور کر دینا:

آج دشمن کا پلان یہ ہے کہ انقلابی ارادوں کے حامل افراد کے جنگی تخمینوں اور منصوبوں کو تبدیل کردیا جائے۔ مختلف معاشی پابندیوں اور پرپپیگنڈوں کے ذریعے دباو ڈال کر انقلاب اسلامی کے مسؤلین کو اس بات پر مجبور کر دیں کہ وہ اسکتبار کے مقابلے میں لچک دکھانے کو ہی صلاح سمجھیں۔ دشمن کی تمام تر کوشش یہی ہے کہ مقاومت کے راستے کو چھوڑ کر استکبار سے مسالمت کی راہ اپنا لیں۔ ایک عرصہ پہلے بعض افراد یہ کہنے لگے کہ آقا فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے کو چھوڑیں، عالمی ایشوز میں عدالت کی رعایت کے مطالبے سے دستبردار ہو جایئں۔ انصاف پسند اقوام عالم کا ساتھ نہ دیں۔(اس طرح کی باتیں کرنے والوں کا مقصد یہی ہے کہ ہم انقلاب اور نظام اسلامی کی ریڈ لائنز( بنیادی اصول اور اہداف) پر سمجھوتہ کریں۔ گویادشمن کے آگے تسلیم ہوجائیں۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ دشمن یہی چاہتا ہے کہ راہ مقاومت کو چھوڑیں۔ یہی تو استکبار کی جنگی چال ہے۔)۳


جنگ نرم کے ہتھیار

(1 اختلاف کے ذریعے عوام میں بدبینی پیدا کرنا:
جنگ نرم کے ہتھیاروں سے میں سے ایک نہایت خطرناک ہتھیار، کسی معاشرے کے افراد کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر نفرت اور بدبینی پیدا کرنا۔ مختلف بہانوں سے اختلافی ایشوز گھڑ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں راٗی عامہ انتشار سے دوچار ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف منافرت پھیلا کر لاشعوری طور پر دشمن کے لیے استعمال ہوجاتے ہیں۔


(2 حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا (مایوسی پھیلانا):

جنگ نرم کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ حالات و واقعات کو دگرگوں اور غیرمستحکم دکھا کر عوام کے اندر مایوسی اور ناامیدی پیداکرنا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے میڈیا وار لانچ کی جاتی ہے۔ پروپیگنڈے کے نت نئے ( انٹرنیٹ کے ذرائع سے لے کر صوتی اور تصویری) طریقے استعمال میں لا کر رای عامّہ کو نظام اسلامی کے خلاف ابھارنا چاہتے ہیں۔ ملکی معاشی مسائل کے بارے میں بے یقینی اور ناامیدی پھیلا کر عوام کو نظام سے مایوس کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ یہ میڈیاوار دشمن کی کمزوری کی دلیل ہے۔ کیونکہ دشمن حقائق کی دنیا میں مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ جب بھی دشمن اصلی میدان میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن کھو بیٹھتا ہے تو وہ وسیع پروپیگنڈے کا سہارا لیتا ہے۔ یہ دشمن کی نفسیاتی(سافٹ وار) شکست کی واضح دلیل ہے۔ آج دشمن انقلاب کی عظیم حرکت اور عوام کی استقامت کے سامنے بے بس ہوچکا ہے۔۴


 (3افواہ سازی :
آج دشمن کی سافٹ وار کا نہایت اہم ہتھیار افواہ سازی ہے۔ آج دشمن کی طاقت کاراز نیوکلئیر ٹیکنالوجی میں نہیں ہے بلکہ مضبوط معیشت اور میڈیا (پروپیگنڈا) وار میں پوشیدہ ہے۔ مؤثر ترین نشریاتی افواہ سازی کے ذریعے عالمی معاشرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ نشریاتی اداروں کے ذریعے اپنی اواز کو پوری دنیا میں پہنچاتے ہیں۔ جھوٹی خبروں کے انبار لگا کر معاشرتی فضا کو عدم استحکام سے دوچار کر دیتے ہیں۔ ہمیں دشمن کے اس ہتھیار کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔آج ہمارے جوانوں کی ذمّہ داریاں اس لحاظ سے بڑھ گئی ہیں۔ یہ نہایت سنگین ذمّہ داری ہے کہ افواہ سازی کے ماحول میں حقیقت کی درست تشخیص اور شناخت فراہم کی جائے۔ ملکی فضا اور ماحول کو بھی اپنے ساتھ با بصیرت بنایئں اور ان پر بھی حقائق کو واضح کرے تا کہ کسی قسم کا ابھام باقی نہ رہے۔۵


میدان جنگ نرم کے سپاہی:

آج نظام انقلاب اسلامی کو بہت بڑی جنگ کا سامنا ہے۔ الحمدللَّہ آپ جوانان جنگ نرم کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔ یہ میرے لیے خوشی کی بات ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کن لوگوں کو جنگ نرم کے میدان میں اترنا چاہیے؟

واضح سی بات ہے کہ فکری ماہرین(تھینک ٹینکس) ہی اس میدان کے اصل سپاہی ہیں۔ یعنی آپ جوان آفیسرز جنگ نرم کے محاذ کو سنبھالیں۔ اپنے فکری حلقوں میں اس حوالے سے منصوبہ بندی کریں، پالیسیز مرتب کریں۔ جنگ نرم کا ہدف معین ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی نظام اور جمہوری اسلامی کا دفاع کرنا ہے۔اور دشمن کی ہمہ جانبہ (طاقت، سازش اور جدید وسائل سے آراستہ ) شیطانی مہم کا مقابلہ کرنا ہے۔ دشمن کی طرف سے ہمیں چیلینجز کا سامنا ہے۔ لیکن خداوند متعال کی قدرت کا کرشمہ دیکھیں کہ وہ اپنے اہداف کی طرف ہماری ہدایت فرما رہا ہے۔ جب انسان ایک وسیع افق یا ویژن سے مسائل کا تجزیہ کرتا ہے تو قدرت الہی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ خدا کی ذات ہی ہے جو میں اور آپ کو درست راستے پر گامزن کر رہی ہے.


دشمن کے خلاف جنگ نرم کا ہتھیار:

بصیرت:
دشمن کے اس مہلک ہتھیار کا توڑ صرف اور صرف بصیرت ہے۔ یعنی دشمن کی چالوں کو سمجھ کر بروقت درست اقدام کرنا۔ جو لوگ صاحب بصیرت ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دشمن کی چالوں کو درست تجزیہ و تحلیل کے ساتھ بیان کرے۔ یعنی تمام میدانوں میں پوری تیاری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ دشمن کی کثیر الجہتی (نفسیاتی، اخلاقی، ثقافتی، سیاسی، مذہبی) سازشوں کا مقابلہ کرنا اہم دینیِ و قومی فریضہ ہے۔ جنگ نرم کا میدان، عمّار یاسر جیسی بصیرت اور مالك‌اشتر جیسی استقامت چاہتا ہے۔ پوری طاقت کے ساتھ اپنے آپ کو اس میدان کے لیے تیّار کریں۔۶


مجاہدانہ کلچر ترویج دینےکی ضرورت:
محاذ حق کی تقویت کے لیے یونیورسٹیز میں مجاہدت(کوشش و محنت) کے کلچر کو فروغ دینےکی ضرورت ہے۔ یعنی معنوی اور اخلاقی ثقافت کی ترویج کی جائے۔ معنوی فضا سازی کے لیے یونیورسٹیز کے اساتذہ اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ یہ وہی لیڈنگ رول ہے جو جنگ نرم میں انجام پانا چاہیے۔ اساتیذ جنگ نرم کے کمانڈرز ہیں۔۷


سافٹ وار میں جوانوں (یونیورسٹیز کے طلبا) کا کردار:

جنگ نرم میں آپ جوانوں کا کردار مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ اب یونیورسٹیز کے طلبا یہ سوال نہ کریں کہ آج کی مسجد ضرار (جدید منافقت)کو ڈھانے کے لیے ہم کس طرح کا کردار ادا کریں؟ جائیے غور و فکر کریں اور اپنا ممکنہ کردار ادا کریں۔ سافٹ وار کے میدان میں آپ کی فعالیت کا بنیادی ترین عنصر امیدواری ہے۔ یعنی مسقبل کے بارے میں خوش بین اور پرامید رہیں۔آئندہ پیش آنے والے حالات کو مثبت زاویے سے دیکھیں۔ مسقبل کے بارے میں بدبین اور مایوس کن زاویہ نگاہ مت رکھیں۔ پرامید ہونے کا مطلب خیالی امیدواری نہیں ہے بلکہ بصیرت پر مبنی حقیقی امیدواری ہے۔ مایوسی اور بدبینی، انسان کو بے عملی کی طرف لے جاتی ہے، جس کے نتیجے میں سستی اور گوشہ نشینی اس کا مقدر ٹھرتی ہے۔ یوں انسان تحرّک اور فعالیت سے محروم ہو کر اپنی بے عملی کے ذریعے دشمن کے اہداف کو پورا کرتا ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ انقلابی جوان مایوسی کا شکار ہوں تاکہ وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوجائے۔۸

آج ہمیں جنگ نرم کا سامنا ہے۔ اس جنگ کے اصلی سپاہی آپ جوان طلبا اور جوان آفیسرز ہیں۔
سربازان (رسمی فوجی جوان) اس محاذ کے اصلی سپاہی نہیں ہیں۔ کیونکہ سرباز فقط عسکری احکامات کا پابند ہوتا ہے۔ یعنی اپنی طرف سے کسی فیصلے یا ارادے کا اختیار نہیں رکھتا بلکہ کمانڈر(سینئر) کے حکم کا پابند ہوتا ہے۔ عسکری حکام بھی اس جنگ کے مرکزی سپاہی نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ بڑی سطح کی عسکری منصوبہ بندی اور پلاننگ کرتے ہیں۔ آپ جوان آفیسرز میدان میں ہیں اور میدان پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ حالات کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس لیے پورے دل و جان کے ساتھ میدان کا عملی تجربہ کرتتے ہیں ۔ یعنی جوان آفیسرز پلاننگ اور عمل (پلاننگ کو عملی شکل دینے) کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔

 

سافٹ وار میں اساتذہ کا کردار:

جنگ نرم میں اساتذہ کا جو کردار بنتا ہے وہ کمانڈنگ رول(قائدانہ کردار) ہے۔اساتذہ کی ذمّہ داری یہ ہے کہ بڑی سطح کے مسائل کو دیکھیں اور دشمن کو درست انداز سے پہچنوائیں۔ دشمن کے پوشیدہ اہداف کو کشف کریں۔ دشمن کی تنصیبات کا گہرا مطالعہ کر کے وسیع اور دقیق پلاننگ ترتیب دیں اور اس پلاننگ کی بنیاد پر اپنے اہداف کی طرف حرکت کریں۔۹

پاکستان کی وفاقی حکومت نے ہفتوں کی طوفانی بارشوں اور سیلاب سے ملک کو کم از کم 10 ارب ڈالر کا نقصان پہنچنے کا تخمینہ لگایا ہے۔

خاص طور پر سندھ کو ایک ارب 60 کروڑ ڈالر (355 ارب روپے) سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے کیونکہ تمام بڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔

دریں اثنا وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر زراعت منظور وسان نے کہا کہ شدید بارشوں سے کپاس، چاول اور کھجور کی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں جس سے ایک کھرب 9 ارب 34 کروڑ 70 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ مرچ اور دیگر فصلیں بھی بارش سے تباہ ہو گئی ہیں۔

منظور وسان نے کہا کہ تقریباً 14 لاکھ ایکڑ پر کھڑی کپاس کی فصل، 6 لاکھ 2 ہزار 120 ایکڑ پر کھڑی چاول اور ایک لاکھ ایک ہزار 379 ایکڑ پر کھجور کے باغات تباہ ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 7 لاکھ 29 ہزار 582 ایکڑ پر گنے کی تقریباً 50 فیصد فصل کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والی موسلا دھار بارشوں اور سیلاب کے باعث مرنے والوں کی تعداد 1136 ہوگئی جب کہ متاثرین کی مجموعی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔

این ڈی ایم اے کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق اب تک 10 لاکھ 51 ہزار گھر تباہ ہوئے جبکہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 75 افراد جاں بحق اور 57 زخمی ہوئے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے عراق کے وزیر خارجہ فواد حسین سے ملاقات میں علاقے کے امور کے حوالے سے عراقی حکومت کی کوششوں کی قدردانی کی اور اغیار کی مداخلت کے بغیر علاقائی ممالک کے مابین باہمی تعاون کی فضا کی برقراری کو علاقائی ہم فکری کی تقویت کیلئے موثر قرار دیا۔

ایران کے صدر نے  تہران اور ریاض کے مابین عراق کے توسط سے مذاکرات کے گزشتہ پانچ مرحلوں کو مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ہونے والے معاہدوں پر عمل در آمد سے آگے کی سمت جانے کا راستہ ہموار ہو گا۔

سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ قانون کے دائرے میں عراق کے اندرونی مسائل کا حل اور تمام سیاسی دھڑوں کے مابین گفتگو، ایک نئی حکومت کی تشکیل کیلئے ضروری ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں مرجعیت کے کردار کو نہایت اہم قرار دیا۔

اس ملاقات میں عراق کے وزیر خارجہ فواد حسین نے عراق کی صورتحال، امن امان کی بحالی اور ایک نئی حکومت کی تشکیل کی راہ میں ایران کے اہم کردار کی کوششوں کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ عراق کی حکومت تہران اور بغداد کے تعلقات کی مزید تقویت کیلئے اپنی کوشش جاری رکھے گی۔

Sunday, 28 August 2022 11:25

پردہ

پردہ کا واجب ہونا اسلام کا ایک قطعی حکم ہے اور سارے فقہاء اس مسئلہ میں متفق ہیں ۔ عورتوں کا یہ فریضہ ہے کہ اپنے بدن کو نامحرم مردوں سے چھپائیں اور وہ اس کے لئے برقعہ ، چادر، لمبی قمیض ، عبا، کوٹ یا مقنعہ ، غرض کہ ہر وہ چیز استعمال کر سکتی ہیں جو بدن کو اچھی طرح چھپالے، پردہ کرنے کے لئے کسی مخصوص لباس کے استعمال کرنے کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔پردہ کے واجب ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔مسعدہ بن زیادہ کا بیان ہے میں نے امام جعفر صادق ؑ سے اس سوال کے جواب میں جو عورتوں کی ظاہری زینت کے بارے میں ہوا تھا آپؑ کی زبان مبارک سے یہ سنا ہے:’’ ظاہری زینت سے مراد چہرہ اور دونوں ہاتھ ہیں۔)علی بن جعفر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی امام موسیٰ کاظم ؑ سے سوال کیا: مرد ، نامحرم عورت کے کن اعضاء کو دیکھ سکتا ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا:چہرہ اور گٹے تک ہاتھ ۔‘‘امام رضا ؑ نے فرمایا:’’ جب تمہارے لڑکے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کے لئے کہو لیکن عورت اس وقت اس سے اپنے بالوں کو چھپائے جب وہ بالغ ہو جائیں ۔‘‘عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے امام موسیٰ کاظم ؑ سے اس لڑکی کے بارے میں سوال کیا جو ابھی بالغ نہ ہوئی ہو کہ وہ کس عمر میں نامحرم سے اپنا سر چھپائے اور کس عمر میں نماز کے لئے اپنے سر کو مقنعہ سے ڈھانپے؟ تو آپؑ نے فرمایا: بالوں اور سر کو چھپانے کے واجب ہونے کو بلوغ کے آثار میں سے بتایا ہے لیکن چہرہ چھپانے کے واجب ہونے کے بارے میں کچھ بیان نہیں کیا گیا درحالیکہ اگر یہ کام واجب ہوتا تو اس کو پہلے یہاں بیان کیا جاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں پر چہرہ چھپانا واجب نہیں ہے۔