سلیمانی

سلیمانی

مناسکِ حج کا آغاز ہوگیا، 10 لاکھ عازمین حج طواف کے بعد قافلوں کی صورت میں منیٰ پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔

عازمین آج منیٰ میں پورا دن قیام اور عبادت کریں گے۔ منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشا اور کل نماز فجر ادا کریں گے۔

عازمین کل میدان عرفات پہنچ کر حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ ادا کریں گے۔ طلوع آفتاب کے بعد واپس منیٰ جائیں گے، شیطان کو کنکریاں ماریں گے اور قربانی دیں گے۔

11 اور 12 ذی الحج کو تمام مناسک سے فارغ ہونے کے بعد عازمین ایک مرتبہ پھر مکہ مکرمہ جا کر مسجد الحرام میں الوداعی طواف کریں گے۔

خیال رہے کہ اس سال ۳۹ ہزار ۶۳۵ ایرانی، حج پر مشرف ہونے کی سعودت حاصل کر رہے ہیں جبکہ مجموعی طور پر اس سال حاجیوں کی تعداد دس لاکھ بتائی جاتی ہے۔

تہران، ارنا - پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس نے تہران میں غیر ملکی سفارت خانوں میں کام کرنے والے کچھ سفارت کاروں کی نگرانی اور گرفتاری کے لیے پہل کی، جن میں ملک میں جاسوسی کی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے برطانوی معاون سفیر  بھی شامل ہیں ۔

پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس کی جانب سے پوسٹ کی گئی ویڈیو کے مطابق، اس نے غیر ملکی سفارت خانوں کے کچھ سفارت کاروں کو بے نقاب کیا ہے جو اپنی سفارتی ذمہ داریاں نبھانے کے بجائے جاسوسی کر رہے تھے۔

ان سفارت کاروں کی نگرانی پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس نے اس وقت کی تھی جب وہ جاسوسی کا کام کر رہے تھے اور ملک کے مختلف ممنوعہ علاقوں سے مٹی کے نمونے لے رہے تھے۔

جن افراد کو دیکھا گیا ان میں سے ایک برطانوی اسسٹنٹ سفیر بھی ہے جو سیاحت کی آڑ میں  ایران کے جنوب مشرقی صوبے کرمان کے صحرائے شہداد میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گیا تھا لیکن لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مٹی کے نمونے لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ 

اس علاقے میں جب یہ عمل ہو رہا تھا جس میں پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس کی میزائل مشقوں کا انعقاد کیا گیا تھا۔

امام اول اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی تیسری پشت اور ھدایت کے پانچویں امام، حجت خدا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت پہلی رجب57 قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، اور94 ہجری قمری میں امام علی ابن الحسین زین العابدین علیہم السلام کی شہادت کے بعد امامت تفویض ہوئی اور 114 ہجری قمری کو 18 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

آپ ؑ کی والدہ

 دوسرے امام حضرت حسن بن علی علیہ السلام کی بیٹی تھیں اور والد علی بن حسین بن علی علیہم السلام تھے ،اس اعتبار سے آپ ؑ پہلے شخص ہیں جو ماں اور باپ کی طرف سے علوی ؑ فاطمی ؑ ہیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور امویوں اور عباسیوں کے سیاسی اختلافات اور اسلام کا مختلف فرقوںمیں تقسیم ہونے کے زمانے سے مصادف تھا جس دور میں مادی اور یونانی فلسفہ اسلامی ملکوں میں داخل ہوا جس سے ایک علمی تحریک وجود میں آئی۔ جس تحریک کی بنیاد مستحکم اصولوں پر استوار تھی ۔ اس تحریک کے لئے ضروری تھا کہ دینی حقایق کو ظاہر کرے اور خرافات اور نقلی احادیث کو نکال باہر کرے ۔ ساتھ ہی زندیقوں اور مادیوں کا منطق اور استدلال کے ساتھ مقابلہ کرکے انکے کمزور خیالات کی اصلاح کرنا۔ نامور دھری اور مادہ پرست علماء کے ساتھ علمی مناظرہ و مذاکرہ کرنا تھا یہ کام امام وقت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بغیر کسی اور سے ممکن نہ تھا ۔ آپ علیہ السلام نے حقیقی عقاید اسلامی کی تشہیرکی راہ میں علم کے دریچوں اور درازوں کو کھول دیا اور اس علمی تحریک کو پہلی اسلای یونورسٹی کے قیام کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔آپ کے بارے میں امام حنبل اور امام شافعی جیسے اسلام شناس کہتے ہیں:
ابن عباد حنبلی کہتے ہیں : ابو جعفر بن محمدؑ مدینہ کے فقہا میں سے ہیں ۔آپ ؑ کو باقر کہا جاتا ہے اس لئےکہ آپ ؑ نے علم کو شکافتہ کیا اور اس کی حقیقت اور جوہر کو پہچانا ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔
محمدبن طلحہ شافعی کہتے ہیں: محمد بن علی ؑ، دانش کو شکافتہ کرنے والے اور تمام علوم کے جامع ہیں آپ کی حکمت آشکار اورعلم آپ کے ذریعہ سر بلند ہے۔آپ ؑ کے سرچشمہ و جود سے دانش عطا کرنے والا دریا پر ہے۔آپ کی حکمت کے لعل و گہر زیبا و دلپذیر ہیں۔ آپ ؑ کا دل صاف اور عمل پاکیزہ ہے۔ آپ مطمئن روح اور نیک اخلاق کے مالک ہیں۔ اپنے اوقات کو عبادت خداوندمیں بسر کرتے ہیں۔ پرہیز گاری و ورع میں ثابت قدم ہیں۔ بارگاہ پرور دگار پروردگار میں مقرب اور برگذیدہ ہونے کی علامت آپ ؑ کی پیشانی سے آشکار ہے۔آپ ؑکے حضور میں مناقب و فضائل ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نیک خصلتوں اور شرافت نے آپ سے عزت پائی ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔

پانچویں امام ؑ نے پانچ خلیفوں( اسلامی بادشاہوں )کا دور دیکھا:
1. ولیدبن عبد الملک 86-96ھ۔
2. سلیمان بن عبدالملک 96-99 ھ۔
3. عمر بن عبد العزیز 99-101ھ۔
4. یزید بن عبد الملک 101-105 ھ۔
5. ھشام بن عبد الملک 105-125 ھ۔
مذکورہ اسلامی ممالک کے حاکموں( خلیفوں) میں عمر بن عبد العزیز جو کہ نسبتاً انصاف پسند اور خاندان رسول اﷲ ﷺوآلہ کے ساتھ نیکی کے ساتھ رفتار کرنے والا منفرد اسلامی بادشاہ (خلیفہ) تھا جس نے معاویہ علیہ ہاویہ کی سنت یعنی” معصوم دومؑ،امام اولؑ اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب ؑکے نام 69 سال تک خطبوںمیں لعنت کہنے کی شرمسار بدعت اور گناہ کبیرہ کو ممنوع کیا ۔
پانچویں امام اور پہلی اسلامی دانشگاہ کے بانی حضرت محمد باقر علیہ السلام سے اصحاب پیغمبر اسلامﷺ میں سے جابر بن عبداﷲ انصاری اور تابعین میں سے جابر بن جعفی، کیسان سجستانی،اور فقہا میں سے ابن مبارک،زھری، اوزاعی، ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور زیاد بن منزر نھدی آپ ؑ سے علمی استفادہ کرتے رہے۔معروف اسلامی مورخوں جیسے طبری، بلاذری، سلامی، خطیب بغدادای، ابو نعیم اصفہانی و مولفات و کتب جیسے موطا مالک ، سنن ابی داوود، مسند ابی حنیفہ، مسند مروزی، تفسیر نقاش،تفسیر زمخشری جیسے سینکڈوں کتابوں میں پانچویں امام ؑ کی دریای علم کی دُرّبی بہا باتیں جگہ جگہ نقل کی گئی ہیں اور جملہ قال محمد بن علی یا قال محمد الباقر دیکھنے کو ملتا ہے۔(ابن شھر آشوب ج 4 ص 195)۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی قایم کردہ اسلامی مرکز علم(یونیورسٹی) میں سے مایہ ناز علمی شخصیتیں فقہ، تفسیر اور دیگر علوم میں تربیت حاصل کر گئے جیسے محمد بن مسلم، ذرارہ بن اعین، ابو بصیر ، بُرید بن معاویہ عجلی، جابر بن یزید، حمران بن اعین اور ھشام بن سالم قابل ذکر ہیں۔
پانچویں امام ؑ نے دوسرے ائمہ کے مانند اپنی زندگی کو نہ صرف عبادت اور علمی مصروفیت میں بسر کی بلکہ زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی سرگرم تھے، جبکہ کچھ سادہ لوح مسلمان جیسے محمد بن مُنکَدِر ایسے اعمال کوامام ؑ کی دنیا پرستی تصور کرتے تھے ، موصوف کہتا ہے” امام کا کھیت میں زیاد کام کرتے دیکھنے کی وجہ سے میں نے اپنے آپ سے کہا کرتا تھا کہ حضرت ؑ دنیا کے پیچھے پڑے ہیں لہٰذامیں نے سوچا کہ ایک دن انہیں ایسا کرنے سے روکنےکی نصیحت کروں گا، چنانچہ میں نے ایک دن سخت گرمی میں دیکھا کہ محمد بن علی زیادہ کام کرنیکی وجہ سے تھک چکے تھے اور پسینہ جاری تھا میں آگے بڑھا اور سلام کیا اور کہنے لگا اے فرزند رسول ﷺ آپ مال دنیاکی اتنی کیوں جستجو کرتے ہیں؟ اگر اس حال میں آپ پر موت آجائے تو کیا کرینگے، آپ ؑ نے فرمایا یہ بھترین وقت ہے کیونکہ میں کام کرتا ہوں تاکہ میں دوسروں کا محتاج نہ رہوں اور دوسروں کی کمائی سے نہ کھاوں اگرمجھ پر اس حالت میں موت آئے تومیں بہت خوش ہونگا، چونکہ میں خدا کی اطاعت و عبادت کی حالت میں تھا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دیگر ائمہ ھدی کے مانند تمام علوم و فنون کے استاد تھے۔ ایک دن خلیفہ ھشام بن عبد الملک نے امام ؑ کو اپنی ایک فوجی محفل میں شرکت کی دعوت دی جب امامؑ وہاں پہنچے وہاں فوجی افسران سے محفل مذین تھی کچھ فوجی افسران تیرکمانوں کو ہاتھوں میں لئے ایک مخصوص نشانے پر اپنا اپنا نشانہ سادتے تھے، چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :"جب ہم دربار میں پہنچے تو ھشام نے احترام کیا اور کہا آپ نذدیک تشریف لائیں اور تیر اندازی کریں میرے والد گرامی نے فرمایا میں بوڈھا ہو چکا ہوں لہٰذا مجھے رہنے دے، ھشام نے قسم کھائی میں آپ سے ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں۔ میرے والد بذرگوار ؑ نے مجبور ہو کر کمان پکڑی اور نشانہ لیا تیر عین نشانہ کے وسط میں جاکر لگا آپ ؑ نے پھر تیر لیا اور نشانہ پر جاکر تیر مارا جو پہلے تیر کو دو ٹکڑے کردیئے اور اصل نشانہ پر جا لگا آپ تیر چلاتے رہے یہاں تک کہ 9 تیر ہوگئے ھشام کہنے لگا بس کریں اے ابو جعفر آپ تمام لوگوں سے تیر اندازی میں ماہر ہیں"۔
آخر میں امام محمد باقر ؑکی جابر بن جعفی کو کئے وصیت کا مختصر حصہ آپ قارئین محترم کے نذر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے امید کرتا ہوں امام کے اقوال ہمارے لئے مشعل راہ اور نمونہ عمل قرار دے۔
1. میں تمہیں پانچ چیزوں کے متعلق وصیت کترا ہوں:
2. اگر تم پر ستم ہو تو تم ستم نہ کرنا۔
3. اگرتمہارے ساتھ خیانت ہو تم خائن نہ بنو ۔
4. اگر تم کو جھٹلایا گیا تو تم غضبناک نہ ہو۔
5. اگر تمہاری تعریف ہوئی تو خوشحال نہ ہو اگر تمہاری مذمت ہوئی تو شکوہ مت کرو۔تمہارے متعلق لوگ جو کہتے ہیں اس پر غور کرو۔پس اگر واقعاً ویسے ہی ہو جیسا لوگ خیال کرتے ہیں ۔تو اس صورت میں اگر تم حق بات سے غضبناک ہوئے تو یاد رکھو خدا کی نظر سے گرگئے۔ اور خدا کی نظر سے گرنا لوگوں کہ نظر میں گرنےسے کہیں بڑی مصیبت ہے۔ لیکن اگر تم نے اپنے کولوگوں کے کہنے کے برخلاف پایا تو اس صورت میں تم نے بغیر کسی زحمت کے ثواب حاصل کیا۔
یقین جا نو! تم میرے دوستوں میں صرف اسی صورت میں ہو سکتے ہو کہ اگر تمام شہر کے لوگ تم کو برا کہیں اور تم غمغین نہ ہو، اور سب کے سب کہیں تم نیک ہو تو شادمان نہ ہو، اور لوگوں کے برائی کرنے پر خوف زدہ مت ہو، اس لئے کہ وہ جو کچھ کہیں گے اس سے تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا ، اور اگر لوگ تمہاری تعریف کریں جبکہ تم قرآن کی مخالفت کر رہے ہو بھر کس چیز نے تم کو فریفتہ کر رکھا ہے؟ بندہ مومن ہمیشہ نفس سے جہاد میں مشغول رہتا ہے تا کہ خواہشات پر غالب ہو جائے اور اس امر کیلئے اہتمام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت امام محمد باقر ۴۱۱ھ میں خلیفہ ھشام بن عبد الملک کے حکم پر زہر دے کر شہید کردئےگئے۔آپ ؑ 57 سا ل تک وحی الہٰی کی ترجمانی کرتے رہے۔ آپ کے بعد آٹھویں معصوم اور چھٹے امام حضرت جعفر صادق ؑ آپکے جانشینی پر فائز ہوئے اور آپ ؑ کے قائم کردہ اسلامی مرکز علم کو وسعت عطا کرکے اسلام ناب محمدی ﷺ کی توضیع و تفسیر بیان فرمائی اور دینی محفل میں قال الصادق قال الصادق کی گونج سنائی دی اورامام جعفر صادق کی بتائی ہوئی اسلام کی تشریح پر چلنے والوں کو جعفری کہا گیا۔
خداوند ہمیں ان علوم کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،(آمین)

مؤلف: آغاعبدالحسین بڈگامی

امام اول اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی تیسری پشت اور ھدایت کے پانچویں امام، حجت خدا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت پہلی رجب57 قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، اور94 ہجری قمری میں امام علی ابن الحسین زین العابدین علیہم السلام کی شہادت کے بعد امامت تفویض ہوئی اور 114 ہجری قمری کو 18 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

آپ ؑ کی والدہ

 دوسرے امام حضرت حسن بن علی علیہ السلام کی بیٹی تھیں اور والد علی بن حسین بن علی علیہم السلام تھے ،اس اعتبار سے آپ ؑ پہلے شخص ہیں جو ماں اور باپ کی طرف سے علوی ؑ فاطمی ؑ ہیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور امویوں اور عباسیوں کے سیاسی اختلافات اور اسلام کا مختلف فرقوںمیں تقسیم ہونے کے زمانے سے مصادف تھا جس دور میں مادی اور یونانی فلسفہ اسلامی ملکوں میں داخل ہوا جس سے ایک علمی تحریک وجود میں آئی۔ جس تحریک کی بنیاد مستحکم اصولوں پر استوار تھی ۔ اس تحریک کے لئے ضروری تھا کہ دینی حقایق کو ظاہر کرے اور خرافات اور نقلی احادیث کو نکال باہر کرے ۔ ساتھ ہی زندیقوں اور مادیوں کا منطق اور استدلال کے ساتھ مقابلہ کرکے انکے کمزور خیالات کی اصلاح کرنا۔ نامور دھری اور مادہ پرست علماء کے ساتھ علمی مناظرہ و مذاکرہ کرنا تھا یہ کام امام وقت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بغیر کسی اور سے ممکن نہ تھا ۔ آپ علیہ السلام نے حقیقی عقاید اسلامی کی تشہیرکی راہ میں علم کے دریچوں اور درازوں کو کھول دیا اور اس علمی تحریک کو پہلی اسلای یونورسٹی کے قیام کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔آپ کے بارے میں امام حنبل اور امام شافعی جیسے اسلام شناس کہتے ہیں:
ابن عباد حنبلی کہتے ہیں : ابو جعفر بن محمدؑ مدینہ کے فقہا میں سے ہیں ۔آپ ؑ کو باقر کہا جاتا ہے اس لئےکہ آپ ؑ نے علم کو شکافتہ کیا اور اس کی حقیقت اور جوہر کو پہچانا ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔
محمدبن طلحہ شافعی کہتے ہیں: محمد بن علی ؑ، دانش کو شکافتہ کرنے والے اور تمام علوم کے جامع ہیں آپ کی حکمت آشکار اورعلم آپ کے ذریعہ سر بلند ہے۔آپ ؑ کے سرچشمہ و جود سے دانش عطا کرنے والا دریا پر ہے۔آپ کی حکمت کے لعل و گہر زیبا و دلپذیر ہیں۔ آپ ؑ کا دل صاف اور عمل پاکیزہ ہے۔ آپ مطمئن روح اور نیک اخلاق کے مالک ہیں۔ اپنے اوقات کو عبادت خداوندمیں بسر کرتے ہیں۔ پرہیز گاری و ورع میں ثابت قدم ہیں۔ بارگاہ پرور دگار پروردگار میں مقرب اور برگذیدہ ہونے کی علامت آپ ؑ کی پیشانی سے آشکار ہے۔آپ ؑکے حضور میں مناقب و فضائل ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نیک خصلتوں اور شرافت نے آپ سے عزت پائی ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔

پانچویں امام ؑ نے پانچ خلیفوں( اسلامی بادشاہوں )کا دور دیکھا:
1. ولیدبن عبد الملک 86-96ھ۔
2. سلیمان بن عبدالملک 96-99 ھ۔
3. عمر بن عبد العزیز 99-101ھ۔
4. یزید بن عبد الملک 101-105 ھ۔
5. ھشام بن عبد الملک 105-125 ھ۔
مذکورہ اسلامی ممالک کے حاکموں( خلیفوں) میں عمر بن عبد العزیز جو کہ نسبتاً انصاف پسند اور خاندان رسول اﷲ ﷺوآلہ کے ساتھ نیکی کے ساتھ رفتار کرنے والا منفرد اسلامی بادشاہ (خلیفہ) تھا جس نے معاویہ علیہ ہاویہ کی سنت یعنی” معصوم دومؑ،امام اولؑ اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب ؑکے نام 69 سال تک خطبوںمیں لعنت کہنے کی شرمسار بدعت اور گناہ کبیرہ کو ممنوع کیا ۔
پانچویں امام اور پہلی اسلامی دانشگاہ کے بانی حضرت محمد باقر علیہ السلام سے اصحاب پیغمبر اسلامﷺ میں سے جابر بن عبداﷲ انصاری اور تابعین میں سے جابر بن جعفی، کیسان سجستانی،اور فقہا میں سے ابن مبارک،زھری، اوزاعی، ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور زیاد بن منزر نھدی آپ ؑ سے علمی استفادہ کرتے رہے۔معروف اسلامی مورخوں جیسے طبری، بلاذری، سلامی، خطیب بغدادای، ابو نعیم اصفہانی و مولفات و کتب جیسے موطا مالک ، سنن ابی داوود، مسند ابی حنیفہ، مسند مروزی، تفسیر نقاش،تفسیر زمخشری جیسے سینکڈوں کتابوں میں پانچویں امام ؑ کی دریای علم کی دُرّبی بہا باتیں جگہ جگہ نقل کی گئی ہیں اور جملہ قال محمد بن علی یا قال محمد الباقر دیکھنے کو ملتا ہے۔(ابن شھر آشوب ج 4 ص 195)۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی قایم کردہ اسلامی مرکز علم(یونیورسٹی) میں سے مایہ ناز علمی شخصیتیں فقہ، تفسیر اور دیگر علوم میں تربیت حاصل کر گئے جیسے محمد بن مسلم، ذرارہ بن اعین، ابو بصیر ، بُرید بن معاویہ عجلی، جابر بن یزید، حمران بن اعین اور ھشام بن سالم قابل ذکر ہیں۔
پانچویں امام ؑ نے دوسرے ائمہ کے مانند اپنی زندگی کو نہ صرف عبادت اور علمی مصروفیت میں بسر کی بلکہ زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی سرگرم تھے، جبکہ کچھ سادہ لوح مسلمان جیسے محمد بن مُنکَدِر ایسے اعمال کوامام ؑ کی دنیا پرستی تصور کرتے تھے ، موصوف کہتا ہے” امام کا کھیت میں زیاد کام کرتے دیکھنے کی وجہ سے میں نے اپنے آپ سے کہا کرتا تھا کہ حضرت ؑ دنیا کے پیچھے پڑے ہیں لہٰذامیں نے سوچا کہ ایک دن انہیں ایسا کرنے سے روکنےکی نصیحت کروں گا، چنانچہ میں نے ایک دن سخت گرمی میں دیکھا کہ محمد بن علی زیادہ کام کرنیکی وجہ سے تھک چکے تھے اور پسینہ جاری تھا میں آگے بڑھا اور سلام کیا اور کہنے لگا اے فرزند رسول ﷺ آپ مال دنیاکی اتنی کیوں جستجو کرتے ہیں؟ اگر اس حال میں آپ پر موت آجائے تو کیا کرینگے، آپ ؑ نے فرمایا یہ بھترین وقت ہے کیونکہ میں کام کرتا ہوں تاکہ میں دوسروں کا محتاج نہ رہوں اور دوسروں کی کمائی سے نہ کھاوں اگرمجھ پر اس حالت میں موت آئے تومیں بہت خوش ہونگا، چونکہ میں خدا کی اطاعت و عبادت کی حالت میں تھا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دیگر ائمہ ھدی کے مانند تمام علوم و فنون کے استاد تھے۔ ایک دن خلیفہ ھشام بن عبد الملک نے امام ؑ کو اپنی ایک فوجی محفل میں شرکت کی دعوت دی جب امامؑ وہاں پہنچے وہاں فوجی افسران سے محفل مذین تھی کچھ فوجی افسران تیرکمانوں کو ہاتھوں میں لئے ایک مخصوص نشانے پر اپنا اپنا نشانہ سادتے تھے، چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :"جب ہم دربار میں پہنچے تو ھشام نے احترام کیا اور کہا آپ نذدیک تشریف لائیں اور تیر اندازی کریں میرے والد گرامی نے فرمایا میں بوڈھا ہو چکا ہوں لہٰذا مجھے رہنے دے، ھشام نے قسم کھائی میں آپ سے ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں۔ میرے والد بذرگوار ؑ نے مجبور ہو کر کمان پکڑی اور نشانہ لیا تیر عین نشانہ کے وسط میں جاکر لگا آپ ؑ نے پھر تیر لیا اور نشانہ پر جاکر تیر مارا جو پہلے تیر کو دو ٹکڑے کردیئے اور اصل نشانہ پر جا لگا آپ تیر چلاتے رہے یہاں تک کہ 9 تیر ہوگئے ھشام کہنے لگا بس کریں اے ابو جعفر آپ تمام لوگوں سے تیر اندازی میں ماہر ہیں"۔
آخر میں امام محمد باقر ؑکی جابر بن جعفی کو کئے وصیت کا مختصر حصہ آپ قارئین محترم کے نذر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے امید کرتا ہوں امام کے اقوال ہمارے لئے مشعل راہ اور نمونہ عمل قرار دے۔
1. میں تمہیں پانچ چیزوں کے متعلق وصیت کترا ہوں:
2. اگر تم پر ستم ہو تو تم ستم نہ کرنا۔
3. اگرتمہارے ساتھ خیانت ہو تم خائن نہ بنو ۔
4. اگر تم کو جھٹلایا گیا تو تم غضبناک نہ ہو۔
5. اگر تمہاری تعریف ہوئی تو خوشحال نہ ہو اگر تمہاری مذمت ہوئی تو شکوہ مت کرو۔تمہارے متعلق لوگ جو کہتے ہیں اس پر غور کرو۔پس اگر واقعاً ویسے ہی ہو جیسا لوگ خیال کرتے ہیں ۔تو اس صورت میں اگر تم حق بات سے غضبناک ہوئے تو یاد رکھو خدا کی نظر سے گرگئے۔ اور خدا کی نظر سے گرنا لوگوں کہ نظر میں گرنےسے کہیں بڑی مصیبت ہے۔ لیکن اگر تم نے اپنے کولوگوں کے کہنے کے برخلاف پایا تو اس صورت میں تم نے بغیر کسی زحمت کے ثواب حاصل کیا۔
یقین جا نو! تم میرے دوستوں میں صرف اسی صورت میں ہو سکتے ہو کہ اگر تمام شہر کے لوگ تم کو برا کہیں اور تم غمغین نہ ہو، اور سب کے سب کہیں تم نیک ہو تو شادمان نہ ہو، اور لوگوں کے برائی کرنے پر خوف زدہ مت ہو، اس لئے کہ وہ جو کچھ کہیں گے اس سے تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا ، اور اگر لوگ تمہاری تعریف کریں جبکہ تم قرآن کی مخالفت کر رہے ہو بھر کس چیز نے تم کو فریفتہ کر رکھا ہے؟ بندہ مومن ہمیشہ نفس سے جہاد میں مشغول رہتا ہے تا کہ خواہشات پر غالب ہو جائے اور اس امر کیلئے اہتمام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت امام محمد باقر ۴۱۱ھ میں خلیفہ ھشام بن عبد الملک کے حکم پر زہر دے کر شہید کردئےگئے۔آپ ؑ 57 سا ل تک وحی الہٰی کی ترجمانی کرتے رہے۔ آپ کے بعد آٹھویں معصوم اور چھٹے امام حضرت جعفر صادق ؑ آپکے جانشینی پر فائز ہوئے اور آپ ؑ کے قائم کردہ اسلامی مرکز علم کو وسعت عطا کرکے اسلام ناب محمدی ﷺ کی توضیع و تفسیر بیان فرمائی اور دینی محفل میں قال الصادق قال الصادق کی گونج سنائی دی اورامام جعفر صادق کی بتائی ہوئی اسلام کی تشریح پر چلنے والوں کو جعفری کہا گیا۔
خداوند ہمیں ان علوم کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،(آمین)

مؤلف: آغاعبدالحسین بڈگامی

امریکہ کی جانب سے دنیا کے مختلف حصوں میں انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزیاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ دنیا کے مختلف ادارے اور شخصیات ان خلاف ورزیوں پر امریکہ کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی مختلف مواقع پر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔ تحریر حاضر میں ہم رہبر معظم انقلاب اسلامی کی نظر میں انسانی حقوق سے متعلق امریکی حکومت کے رویوں کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
1)۔ امریکی حکمران انسانی حقوق کے قائل نہیں ہیں
ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے اپنی ایک تقریر میں امریکی انسانی حقوق کے بارے میں فرمایا: “امریکی حکمران یہ دعوی تو کرتے ہیں کہ ہم انسانی حقوق کے حامی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کے قائل ہی نہیں ہیں۔”

آپ نے امریکی حکمرانوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا: “آپ کمپنیوں کے حقوق پر یقین رکھتے ہیں اور بڑے امریکی سرمایہ داروں کے حقوق کے قائل ہیں۔ آپ دنیا بھر میں امریکہ کی ناجائز رژیم کے مفادات پر عقیدہ رکھتے ہیں۔” امام خامنہ ای کی اس بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ امریکی حکمرانوں کی جانب سے انسانی حقوق کی طرفداری کے دعوے محض ڈھونگ ہے جس کا مقصد دنیا والوں کو دھوکہ دینا ہے۔ ولی امر مسلمین ایک اور جگہ فرماتے ہیں: “امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کا نعرہ لگانے کا مقصد دوسروں کو دھوکہ دینا اور ان پر دباو ڈالنا ہے۔” دنیا بھر خاص طور پر مشرق وسطی، افغانستان، براعظم افریقہ، لاطینی امریکہ اور حتی خود امریکہ کے اندر رونما ہونے والے سیاسی واقعات کا مختصر جائزہ لینے سے بھی یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ خود امریکی حکمران انسانی حقوق کے سب سے بڑے خلاف ورزی کرنے والے ہیں۔

2)۔ انسانی حقوق سے متعلق امریکہ کا سیاہ نامہ اعمال
رہبر معظم انقلاب اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں: “امریکی حکمرانوں کو انسانی حقوق کا نام زبان پر لیتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہوتی؟ دنیا میں کوئی بھی انسانی حقوق کی طرفداری کا دعوی کر سکتا ہے لیکن امریکی حکمران ایسا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ان کا نامہ اعمال انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں سے بھرا پڑا ہے۔” حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں اگر کوئی کتاب لکھی جائے تو وہ ہزاروں بلکہ لاکھوں صفحات پر مشتمل ہو گی۔ امریکی حکمرانوں نے ہمیشہ سے عرب دنیا میں موجود آمرانہ حکومتوں کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت کی ہے۔ بحرین میں آل خلیفہ جیسی ڈکٹیٹر رژیم جو اپنی ہی عوام کے خلاف طاقت کا کھلا استعمال کرنے میں مصروف ہے۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ کے فوجی قبضے کے دوران بیشمار بیگناہ انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔

3)۔ سیاہ فام امریکی شہریوں کے خلاف انسان سوز جرائم
امریکی حکومت ایک طرف تو انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کے دعوے کرتے دکھائی دیتی ہے جبکہ دوسری طرف خود اپنی ہی سیاہ فام شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ امریکہ کے سیاہ فام شہری طویل عرصے سے حکومتی اداروں کی جانب سے شدید امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ اس بارے میں آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں: “امریکہ کے سیاہ فام شہری بدستور دباو، ظلم و ستم اور امتیازی رویوں کا شکار ہیں۔ داودی فرقے سے تعلق رکھنے والے تقریباً 80 افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ایک گھر میں جمع تھے اور امریکی سکیورٹی اداروں نے انہیں زندہ زندہ جلا کر راکھ بنا دیا۔ کیا یہ انسانی حقوق کی پابندی ہے؟ امریکہ کیسے خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہتا ہے؟”

4)۔ فلسطین اور یمن میں امریکہ کا اصلی چہرہ عیاں ہوا ہے
یمن اور فلسطین میں امریکی حکومت نے جو اقدامات انجام دیے ہیں اس سے انسانی حقوق سے متعلق امریکی حکمرانوں کا اصل چہرہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں: “(امریکی حکمران) سعودی حکمرانوں کی مدد کرنے میں مصروف ہیں جبکہ وہ یمن کے بازاروں، مساجد، عزاداری کی مجالس اور خوشی کے جشن پر بم برسا کر یمنی شہریوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ اوپر سے وہ انسانی حقوق کی حمایت کا دعوی بھی کرتے ہیں۔” ایک اور جگہ پر رہبر معظم انقلاب فرماتے ہیں: “دنیا کے لوگ مختلف مواقع پر ہمیشہ امریکی حکمرانوں کی زبان سے انسانی حقوق کا حامی ہونے کا نعرہ سنتے رہتے ہیں جبکہ فلسطین میں ان کا قبیح چہرہ مشاہدہ کرتے ہیں۔”

مسئلہ فلسطین میں امریکہ ہمیشہ سے غاصب صہیونی رژیم کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت کرتا آیا ہے۔ اسی طرح امریکہ آل سعود رژیم کو بھی جدید ترین فوجی سازوسامان مہیا کرتا آیا ہے جن کے ذریعے سعودی حکمران بیگناہ یمنی شہریوں کا خون بہاتے آئے ہیں۔ فلسطینی شہریوں کے خلاف غاصب صہیونی رژیم اور یمنی شہریوں کے خلاف آل سعود رژیم کے مجرمانہ اقدامات اس قدر واضح ہیں کہ حتی مغربی ممالک کے شہری ان کی مذمت کرنے میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں دنیا بھر میں انسانی حقوق سے متعلق سرگرم وکلاء نے “انتڑنیشنل ریسرچ کمیشن” قائم کیا ہے اور امریکی پولیس کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی پولیس طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت سیاہ فام شہریوں کو ٹارچر اور قتل کرتی ہے۔

تحریر: رامین حسین

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولوی عبدالرحمن خدائی نے شہر بانہ کے دینی مدارس کے طلباء سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا: جو وحدت قرآن پاک، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے کلام میں موجود ہے وہی مسلمانوں کے لیے دشمنوں کی سازشوں سے نجات کا راستہ ہے۔

شہر بانہ کے امام جمعہ نے کہا: مسلمانوں کے درمیان وحدت ہی دنیائے اسلام میں جنگ اور قتل و غارت کے خاتمے کا باعث ہے۔ کیونکہ مسلمانوں میں حقیقی معنی میں وحدت کا وجود داعش، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے لیے موت ہے۔

انہوں نے مزید کہا: اتحاد و وحدت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بنیادی اہداف میں سے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو توحید اور یکتا پرستی کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے بہت کوششیں کیں اور منافقین کی شرارتوں کے باوجود اس سلسلے میں بہت اہم اقدامات کئے۔

مولوی خدا ئی نے کہا: جو لوگ دنیائے اسلام میں ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں نہ وہ اہل سنت ہیں اور نہ ہی شیعہ؛ بلکہ یہ افراد مغربی دنیا اور عالمی استعمار کے آلہ کار ہیں۔

شہر بانہ کے امام جمعہ نے کہا: اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ دنیا کے لئے کچھ کہنے کو ان کے پاس ہو تو انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا: بزرگان دین کے کلام میں تفرقہ اور جدائی نامی کوئی چیز نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا: بزرگان دین کی سیرت میں تفرقہ اور اختلاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

اہلسنت کے عالم دین نے کہا: دشمن مسلمانوں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی سیرت سے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان بزرگانِ دین کی سیرت پر عمل کریں۔

حوزہ نیوز ایجنسی | اللہم ارزقنا حج بیتک الحرام فی عامنا ھذا و فی کل عام واغفرلنا تلک الذنوب العظام فانہ لایغفرھا غیرک یا رحمان یا علام ۔

موسم حج قریب ہے اور بہت سے اہل توفیق حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے مکہ معظمہ کی مقدس سرزمین پر باریاب ہو چکے ہیں۔

ہم اس عظیم مناسبت کی تعظیم کرتے ہوئے تمام مسلمانوں کی خدمت میں " مناسک حج کا فلسفہ اور پیغام " کے عنوان سے ایک دینی و معنوی سوغات پیش کرنے کی کوشش کر ر ہے ہیں۔

امید ہے کہ اس سوغات کے ذریعہ ان شاءاللہ ہم سب کی حج بیت اللہ سے متعلق معرفت و عقیدت میں ضرور اضافہ ہوگا۔

 

حج کا معنیٰ و مفہوم :

1- حج کے لغوی معنی ارداہ کے ہیں (1) اور ظاہر ہے کہ ارادہ کے لئے متعلق کا ہونا ضروری ہے یعنی حج کا مطلب ہے ارادہ !! تو سوال یہ ہے کس کا ارادہ ؟

جواب : اللہ کا ارادہ ، اس کی رضا و خوشنودی کا ارادہ ، اس کی طاعت و عبادت کا ارادہ ، اور اس کی قربت و نزدیکی کا ارادہ۔

2- بلاشبہ یہ ارادہ بڑا عظیم ارادہ ہے اور یہ عظیم اس لئے ہے کہ خدا وندعظیم سے متعلق ہے۔

انسان جب یہ ارادہ کرتا ہے تو اپنا ملک ، اپنی سرزمین ، اپنا وطن ، اپنی جائیداد ، اپنا گہر ، اپنا کاروبار ، اپناخاندان اور اپنے اقارب و احباب سب کو چھوڑدیتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حج اپنے نام ھی سے ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ دیکہواگر تم چاہواور ارادہ کرلو تو اللہ تعالی کی خاطر سب کچھ چھوڑ سکتے ہو۔

3- گویا حج " اللہ اکبر " کے مفہوم کو مجسم کرکے ہمارے سامنے پیش کرتا ہے ، مسلمان قدم قدم پہ " اللہ اکبر" کا نعرہ لگاتا ہے ، دن میں پچاسوں مرتبہ اس کلمہ کی تکرار کرتا ہے۔

اذان میں " اللہ اکبر" کہتا ہے ، اقامت میں " اللہ اکبر " کہتا ہے ، ہرنماز میں دسیوں مرتبہ " اللہ اکبر " کہتا ہے۔

لیکن اسے باقاعدہ مجسم کرکے اس وقت دکھاتا ہے جب حج بیت اللہ کا ارادہ کرتا اور اس کی ادائیگی کے لئے قدم آگے بڑھاتا ہے۔

4- وہ اپنا ملک چھوڑ کے ثبوت دیتا ہے کہ ملک پست ، حقیر اور چھوٹا ہے اور اللہ ، اکبر ہے۔

جائیداد و کاروبار چھوڑ کے ثبوت دیتا ہے کہ یہ پست و حقیر ہیں اور اللہ ، اکبر ہے۔

غرضکہ سارے روابط و تعلقات کو چھوڑ کر اللہ کا بندہ عزم حج کرکے ثبوت دیتا ہےکہ ہرتعلق و رابطہ چھوٹا ہے اور اللہ عز وجل سے رابطہ و تعلق اعلی ، اعظم ، اہم اور اکبر ہے۔

5- یاد رکھئے حج کا پیغام ، اخلاص و عبودیت کا پیغام ہے۔

حج کا پیغام ، خالص بندگی کا پیغام ہے۔

حج کے اندر بندگی بھی ہے اور سلیقہ بندگی بھی ہے۔

حج کے اندر ، اخلاص بندگی بھی ہے اور اظہار بندگی بھی.

6- شائستہ ہے کہ حج کرنے والا معرفت کے ساتھ حج کرے چونکہ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے لا یقبَلُ اللہ عملا الا بمعرفۃ۔(2)

اللہ معرفت کے بغیر ، کوئی عمل قبول نہیں فرماتا۔ حاجی کو چاہیئے کہ حج پہ جانے سے پہلے حج کے فلسفہ اور اس کے پیغامات پر ضرور توجہ دے تاکہ حج کا فریضہ ، معرفت کے ساتھ انجام پاکر اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرسکے۔

7- ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ حج کے معنی ارادہ کے ہیں اور ارادہ انسان کی شخصیت کی تعمیر و تخریب دونوں میں خشت اول کی حیثیت رکھتا ہے۔

شاید اسی لئے کہا گیا ہے " الاعمال بالنیات " (3) تمام اعمال و افعال کا دار ومدار نیت اور ارداہ پر ہے۔

ارادہ انسان کو قوت پرواز عطا کرتا ہے ، جتنا بلند ارادہ ہوگا اتنی ھی بلند پرواز ھوگی۔

جتنا نیک ارادہ ہوگا اتنا ھی نیک عمل ہوگا۔

جنتا مستحکم ارادہ ہوگا اتنا ھی مستحکم اقدام ہوگا۔

سرکار امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ہے :

"المرء یطیر بہمتہ " (4)

انسان اپنے ہمت و ارادہ کی بیس پر اڑتا اور پرواز کرتا ہے۔

مولائے کائنات علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دوسری حدیث میں یوں ارشاد فرمایا ہے :

" انَّ اللهَ یُحِبُّ أَنْ تَكونَ نِیّةُ الانسانِ جَمیلةً" (5)

بیشک اللہ دوست رکھتا ہے کہ انسان کی نیت اور اس کا ارادہ خوبصورت ہو

پس خوبصورتی اور بدصورتی کا دار و مدار ظاہری شکل و صورت پہ نہیں ہے بلکہ نیت و ارادہ پر ہے۔

ارادہ چھوٹا بھی ہوتا ہے اور بہت چھوٹا بھی۔

ارادہ بڑا بھی ہوتا ہے اور بہت بڑا بھی ، البتہ بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا ارادہ وہ ہوتا ہے جو اللہ اکبر کے لئے ہوتا ہے۔

اخلاص و للہیت :

ہم بشکل حج جو ارادہ کرتے ہیں :

اسے فقط اور فقط اللہ کے لئے ہونا چاہیئے ، اس اردہ کو فقط اور فقط الہی ، دینی اور ایمانی خوشبو سے معطر ہونا چاہیئے۔

اس ارداہ میں ذرہ برابر بھی کسی اور کی شمولیت نہیں ھونی چاہیئے۔

ہمارے ارادہ میں کلمہ توحید" لا الہ الا اللہ " کو مجسم ہونا چاہیئے۔

ہمارے ارداہ کو " قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین " (6) کی تصویر ہونا چاہیئے۔

ہمارے ارادہ کو " انا للہ وانا الیہ راجعون " (7) کا آئینہ ہونا چاہیئے ۔

ایسا نہ ہوکہ اس عظیم ارادہ کو ریاکاری و شہرت اور حاجی کہلانے کی ہوس ، حقیر و بے مقدار بنا دے۔

۲ حج اور جج :

ہر حاجی کو یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ حج قیامت کے دن اس کے لئے " جج " بھی بن سکتا ہے۔

اگر یہ حج خالص اللہ کے لئے ہوگا تو جج بن کر آپ کے حق میں فیصلہ دے گا۔

لیکن اگر اللہ کے بجائے سیر و تفریح ، تبدیلئ آب وھوا ، ریا و شہرت یا زندگی بہر کے لئے حاجی کا مبارک لقب حاصل کرنے کی ہوس میں ہوگا تو یہ " جج" بن کر آپ کے خلاف گواھی دے گا۔

چونکہ قرآن حکیم کی صراحت موجود ہے قیامت کے دن زبانوں کو سیل مہر کردیا جائے۔

اور روایات کے مطابق تمام اچہے برے اعمال مجسم ہوکے سامنے آئیں گے۔

حج ، مجموعہ عبادات

حج کا امتیاز اور حج کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بظاہر دوحرفوں پر مشتمل ایک عبادت ہے لیکن حقیقتا اس دوحرفی عبادت کے اندر بہت سی عظیم عبادتیں پائی جاتی ہیں مثلا :

۱- ہجرت اس میں پائی جاتی ہے۔

۲- جہادبالمال اس میں پایا جاتا ہے۔

۳- جہاد بالنفس اس میں پایا جاتا ہے۔

۴- نماز اس میں پائی جاتی ہے۔

۵-طواف اس میں پایا جاتا ہے۔

۶- ذبح و قربانی اس میں پائی جاتی ہے۔

۷ واجبات پر نہایت سختی سے عمل اس میں ہوتا ہے ۔ ۸- محرمات سے سختی کے ساتھ پرہیز اس میں کیا جاتا ہے۔

۹- حقوق اللہ کا پورا پورا لحاظ اس میں رکھا جاتا ہے۔

۱۰- حقوق الناس بلکہ حقوق الحیوانات کا بھی پورا پورا خیال اس میں کیا جاتا ہے۔

حج ، دینی و انسانی اقدار کی مجسم تصویر :

ایسا لگتا ہے حج ، حج نہیں ہے بلکہ دینی ، اسلامی اور انسانی اقدار کی مجسم تصویر ہے اور تصویر بھی ایسی جو تمام دنیا کے لئے باقاعدہ قابل مشاہدہ ہے۔

بلاشبہ حج بشکل عبادت ، ایک ایسا عظیم دینی و انسانی باعظمت پروگرام ہے کہ جس کی ظرافتوں ، نزاکتوں ، لطافتوں ، باریکیوں ، منفعتوں ، مصلحتوں اور حکمتوں کا اندازہ لگانا کوئی آسان کام نہیں ہے اسی لئے اس سے اور آس کے مناسک و ارکان سے ملنے والے تمامتر پیغامات کو بیان کرنا بھی کوئی معمولی عمل نہیں ہے، لیکن ہم اپنی بساط کے مطابق کچھ پیغامات مختلف مناسبتوں اور زاویوں سےآپ کی خدمت میں پیش کرتے رہیں گے۔

حج اور ہجرت :

سب کے لئے ظاہر و آشکار ہے کہ حج ایک ایسی عظیم عبادت اور ایسا اہم عمل ہے جو ہجرت کے بغیر وجود میں نہیں آتا ہے۔

اور با مقصد " ہجرت " دینی و اسلامی اعتبار سے بڑا نیک اور باعظمت عمل ہے۔

ہجرت کے لئے یہ شرف کم نہیں ہے کہ اسے اسلامی تاریخ اور کلنڈر کا آغاز و مبدا قرار دیا گیا ہے۔

اسلامی و فقهی اعتبار سے کبهی هجرت واجب ہوتی ہے جیسے اس سرزمین سے ہجرت کرنا واجب ہے جہاں دین پر عمل کرنا مقدور نہ ہواور کبھی ہجرت حرام ہوتی ہے جیسے اسلامی سرزمین سے غیر اسلامی یعنی ارض کفر و شرک کی طرف ہجرت کرناکہ جہاں دین پر عمل کرنا مقدور نہ ہو، حرام ہے۔

ہجرت کے اقسام :

ہجرت کی بہت سی قسمیں ہیں :

۱۔ علم و کمال حاصل کرنے کے لئے ہجرت کرنا۔

۲۔ کفر سے اسلام کی طرف ہجرت کرنا۔

۳۔ ظلمت سے نور کی طرف ہجرت کرنا۔

۴۔ گناہ و معصیت سے الھی طاعت و عبادت کی طرف ہجرت کرنا۔

ہجرت ، حج کے لئے :

۱۔ البتہ حج کے نام پر حاجی " ملک " سے " مالک الملک کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

۲۔ وطن سے " خالق الاوطان " کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

۳۔ عزیزوں سے " رب عزیز " کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

۴۔ اقارب سے " نحن اقرب الیہ من حبل الورید " (8) کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

۵۔ احباب سے " اشد حباٌ للہ " (9) کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

۶۔ مال سے " کعبہ مآل " کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

۷۔ عیش و عشرت سے " قبلہ رشد و ھدایت " کی طرف ہجرت کرتا ہے ۔

۸۔ دنیائے معصیت سے " عالم طاعت " کی طرف ہجرت کرتا ہے۔

یقیناً یہ ہجرت ایک عظیم ہجرت ہے۔ البتہ سب سے باعظمت ہجرت ، گناہ و معصیت سے اللہ کی طاعت و عبادت کی طرف ہجرت کرنا ہے ، جیساکہ سرکار امیرالمومنین علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :

لوگ کہتے ہیں ہم نے ہجرت کی ہے حالانکہ انھوں نے ہجرت نہیں کی ہے چونکہ حقیقی ہجرت گناھوں اور برائیوں سے طاعت اور اچھائیوں کی طرف ہجرت کرنا ہے۔ (10)

الحمدللہ حج میں یہ عظیم ہجرت بھی پائی جاتی ہے۔

پیغام :

حج بیت اللہ کے پیغامات میں سے ایک پیغام ہجرت ہے۔

حج کے بجا لانے کے لئے اپنے ملک ، اپنے وطن ، اپنے اقارب و احباب ، اپنے عیش و آرام اور شغل و کاروبار سے جو ہجرت کی جاتی ہے اس کا مقصد اللہ تعالی سے رشتہ ، رابطہ اور تعلق مضبوط و مستحکم کرنا ہوتا ہے۔

لھذا اس سے یہ پیغام حاصل ہوتا ہے کہ جب بھی خدا نخواستہ زندگی میں اللہ تعالی سے ہمارا رابطہ و رشتہ کمزور ھوجائے تو ہمیں ہجرت کرنی چاہیئے۔

اب یہ رابطہ ، کسی کاروبار کی وجہ سے کمزور پڑے تو اس کاروبار سے ہجرت کرنی چاہیئے۔

کسی شہر اور ملک کی وجہ سے کمزور پڑے تو اس شہر و ملک سے ہجرت کرنی چاہیئے۔

کسی شخص کی وجہ سے کمزور پڑے تو اس شخص سے ہجرت کرنی چاہیئے۔

اور کسی عمل کی وجہ سے کمزور پڑے تو اس عمل سے ہجرت کرنی چاہیئے۔

اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد :

چونکہ فریضہ حج انجام دینے کے لئے انسان کو ہجرت کرنی پڑتی ہے اور اپنے گہربار ، کاروبار ، جاگیر و جائیداد ، فیملی خاندان سبھی کو چھوڑنا پڑتا ہے ، تو حاجی کو چاھئے کہ ان سب کو اپنے اللہ پر توکل کرتے ھوئے چھوڑے اور اللہ کو ان سب کا حافظ و محافظ قرار دے چونکہ "فاللہ خیر حافظا وھو ارحم الراحمین" (11)

یعنی حج کے لئے ھجرت خود بخود انسان کو اللہ پر توکل کرنے کی طرف متوجہ کرتی ہے۔

اور اللہ کی ذات اقدس پر توکل بہت بڑی اور عظیم نعمت ہے، توکل کا مطلب ہےاللہ تعالی کی ذات اقدس پر اعتماد اور بھروسہ کرنا ، لیکن اللہ تعالی کی ذات پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہےبلکہ اس کےلئے دل میں پختہ ایمان ھونا ضروری ہے۔

ظاھر ہےجسے اللہ تعالی کی معرفت نہیں ھوگی جسے اس کی ذات پر ایمان نہیں ھوگا وہ اللہ پر مکمل توکل اور بھروسہ نہیں کرسکتا۔

یعنی توکل وہ عظیم نعمت و دولت ہےجو بے ایمانوں کو نصیب نہیں ہوتی بلکہ فقط ایمان داروں کو عطا کی جاتی ہےشاید اسی لئے قرآن حکیم میں ارشاد ھواہے" و علی اللہ فلیتوکل المومنون " (12) اللہ پرتو اھل ایمان ھی توکل کرتے ہیں۔

اور جب اللہ تعالی کی ذات اقدس پر یقین و ایمان رکھنے والے بندے توکل اور مکمل بھروسہ کرتے ہیں تو ان سے اللہ تعالی قرآن حکیم میں کھل کر اپنی محبت کا یوں اعلان فرماتا ہے:

ان اللہ یحب المتوکلین (13)

توکل کی برکتیں اور فائدے :

۱۔ توکل سے انسان کے عزم ، ارادہ اور ھمت کو قوت حاصل ہوتی ہے۔

۲۔توکل سے اطمینان قلب حاصل ھوتا ہے۔

۳۔توکل سے اضطراب اور خوف و ھراس دور ھوجاتا ہے۔

۴۔توکل سے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔

قرآن اور کعبہ محترم :

قرآن حکیم کے سورہ حج میں خداوند سبحان نے کعبہ ، معمار کعبہ اور بیت اللہ کا طواف کرنے اور اس میں نماز پڑھنے اور رکوع و سجود بجا لانے والوں کا ذکر اس طرح فرمایا ہے:

و اذ بَوٌانا لٍابراھیمَ مکانَ البیتٍ اَن لا تٌشرکْ بی شیئاً و طھٌر بیتٍیَ للطائفین والقائمین والرکعٍ السجود۔(14)

سورہ حج ، پارہ ۱۷ آیت ۲۶۔

ترجمہ :

یاد کریں اس وقت کو جب بیت کعبہ کی جگہ ھم نے ابراھیم کے لئے آمادہ کردی تو ان سے کہا کہ کسی کو میرا شریک قرار نہ دو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے ، قیام کرنے والوں کے لئے ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک رکہیں۔

پیغامات :

اس آیہ مبارکہ سے ھم حسب ذیل پیغامات حاصل کر سکتے ہیں :

۱۔ اہم باتوں کو یاد دلانا ، اللہ تعالی اور قرآن حکیم کی سنت ہےلھذا ھمیں بھی اللہ و قرآن کی اس سنت پر عمل کرتے ھوئے اہم چیزوں کو خود بھی یاد رکھنا چاھیئے اور دوسروں کو بھی یاد دلانا چاھیئے۔

۲ ۔ کعبہ مقدس اور حضرت ابراھیم علیہ السلام دونوں کو یاد رکھاجائے۔

یعنی اھل اسلام و ایمان کو عمارت کے ساتھ ساتھ معمار کی بھی حرمت و قدر کرنی چاہیئے ۔

۳۔ مقدس مقامات کو مقدس لوگوں کے ہاتھوں میں ھونا چاہیئے۔ ایسا نہ ھو کہ مسجد متولی پیسی۰

۴۔ ان لا تشرک بی شیئا ، پہلے طھارت باطنی کی حفاظت کی جائے اس کے بعد طھارت ظاھری کا لحاظ کیا جائے۔

۵۔ اللہ کے گھر کی طھارت و قداست ، پاسداری اور اس کی خدمت کی ذمہ داری ، حضرت ابراھیم علیہ السلام کا اعزاز و افتخار ہےلھذا ھمیں بھی یہ کام عزت و شرف سمجھ کر کرنا چاھیئے۔

۶۔ طھر بیتی للطائفین والقائمین ، تنہا خود عبادت کرنا کافی نہیں ہےبلکہ دوسروں کے لئے عبادت کرنے کا انتظام و اھتمام بھی کرنا چاھئے۔

۷۔ طھربیتی ، مقدس مقامات کو ھمیشہ پاک رکھنا چاھیئے۔

۸۔ طھر بیتیَ ، ہرمسجد اللہ کا گھر ہےلیکن کعبہ کی خصوصیت یہ ہےاللہ نے اسے اپنا گھر کہکر یاد کیا ہے۔

یہ کعبہ سے اللہ کی محبت کی دلیل ہےکعبہ اللہ کو بہت محبوب ہےلھذا اللہ کا بندہ ھونے کے ناطے ھمیں بھی کعبہ سے بہت محبت کرنی چاھیئے۔

۹ ۔مسجد الحرام کا حق ، طواف ، نماز اور قیام ہےالبتہ طواف کرنا کعبہ اور مسجدالحرام کا خصوصی حق ہےلیکن قیام و نماز برپا کرنا دنیا کی ہرمسجد کا حق ہےجسے ہرمسلمان کو ادا کرنا چاہیئے ورنہ مسجدیں بارگاہ خداوندی میں شکایت کریں گی۔

حج کے شرائط :

حج بہت بڑی اور عظیم عبادت ہے، اسے بجالانا آدمی کی زندگی بدل دیتا ہے، حج کرنے سے آدمی کے وارے نیارے ھوجاتے ہیں۔

حج انسان کو نہایت پاک و پاکیزہ اور اللہ عزوجل کا محبوب و مقرب بنا دیتا ہے۔

لیکن شرط یہ ہےاس سفر و عبادت میں تین اہم چیزوں کا لحاظ رکھا جائے :

۱-حج مکمل خلوص کے ساتھ ھو۔

خلوص کیا ہے:

اس کی وضاحت سرکار امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

خالص عمل وہ ہےجس پر تم اللہ کے علاوہ کسی سے بھی تعریف نہ چاھو۔ (15)

حضرت امام صادق علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے:

الحج حجان : حج للہ و حج للناس ، فمن حج للہ کان ثوابہ علی اللہ الجنۃ ، و من حج للناس کان ثوابہ علی الناس یوم القیامۃ (16)

حج دو طرح کا ھو تا ہے:

ایک اللہ تعالیٰ کے لئے اور ایک لوگوں کے لئے۔

پس جو اللہ کے لئے حج کرے گا ، اس کا ثواب بمشکل جنت اللہ کے ذمہ ھو گا اور جو لوگوں کے لئے حج کرے گا اس کا ثواب روز قیامت لوگوں کے سر ھوگا۔

اخلاص کے ساتھ حج کرنے کی قدر ومنزلت کیا ہے، اسے سرکار امام زین العابدین علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں ارشاد فرماتے ہیں:

من حَجٌَ یرید بہ وجہَ اللہ لایرید ریاءً ولا سمعۃً غفر اللہ لہ البتہ۔۔(17)

جو حج کو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے بجا لائے اور اس کے ذریعہ ریاکاری اور شہرت نہ چاہے، اللہ یقیناً اس کی مغفرت فرمائے گا۔

۲۔ حج حلال اور پاک مال سے ادا کیا جائے۔

حضرت امام باقر علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے:

لایقبل اللہ حجا ولاعمرۃ من مال حرام۔(18)

یعنی اللہ اس حج اور عمرہ کو قبول نہیں فرمایا جو مال حرام سے کیا جائے۔

۳۔ حاجی ، حج پہ جانے سے پہلے اپنے ہرگناہ سے توبہ و استغفار کرے۔

گناہ دوقسم کے ھوتے ہیں :

۱۔ ایک وہ جن کےلئے فقط اللہ تعالی سے معافی و بخشش ھی سے طلب کی جاسکتی ہےاور اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

۲۔دوسرے گناہ وہ جن کےلئے استغفار بھی کیا جاسکتا ہےاوران کا تدارک بھی ممکن ہے۔

جیسے اگر کسی نے نمازیں قضا کی ھوں تو اللہ سے معافی بھی مانگے اور ضروری ہےکہ حتی المقدور انہیں ادا بھی کرے ، خمس نہ دیاھو تو اللہ سے معافی بھی مانگے اور اسے ادا بھی کرے ، اسی طرح کسی مومن کا حق دبایا ھو، غیبت کی ھو ، اسے ستایا ھو توحج پر جانے سے پہلے اس سے معافی مانگے اور اسے خوش کرنے کی کوشش کرے۔

اگر ایسا نہ کرے گا تو ممکن ہےحج ھزار زحمتوں اور محنتوں کے باوجود قبول نہ ھو۔

علی ابن یقطین اور ابراھیم جمال کا واقعہ :

علی ابن یقطین اور ابراھیم دونوں شیعہ اور عبد صالح سرکار امام کاظم علیہ الصلوۃ والسلام کے عقیدت مند تھے۔

علی ابن یقطین عہدہ و منصب کے لحاظ سے ھارون رشید کے وزیر اعظم تہےاور انھوں نے عباسی دربار کی ملازمت ، حضرت امام کاظم علیہ الصلوۃ والسلام کے اذن و حکم ھی سے قبول کی تھی۔

ایک دن کوفہ سے ابراھیم جمال کسی کام سے علی ابن یقطین سے ملنے ان کے گھر پہنچے تو ابن یقطین نے ملاقات سے انکار کردیا۔

کچھ دن بعد جب ابن یقطین حج بیت اللہ سے مشرف ھوئے تو غنیمت سمجھا کہ مدینہ پہنچ کر اپنے مولا و اما م حجت خداوند متعال ، فرزند رسول حضرت امام کاظم علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کا شرف بھی حاصل کریں۔

وہ بصد اشتیاق مولا کے شریعت کدہ پر پہنچے تو حضرت نے ملنے سے انکار کردیا ، دوسرے دن پھر در دولت پہ پہنچے ، جیسے ھی مولا کو دیکھا ، سوال کیا مکرے مولا : میرا گناہ کیا ہے؟ کہ آپ نے مجہےاذن زیارت مرحمت نہیں فرمایا؟

آپ نے فرمایا : تم نے اپنے بھائی ابراھیم جمال سے ملاقات نہیں کی تھی !!

خداوند متعال اس وقت تیرے اعمال کو قبول نہیں فرمائے گا جب تک ابراھیم معاف نہیں کریں گے۔

ابن یقطین نے عرض کی : اے میرے سید و آقا ! میں ابراھیم سے کیسے معذرت کروں جبکہ وہ کوفہ میں اور میں مدینہ میں ھوں؟

آپ نے فرمایا: جب رات ھو جائے تو اکیلے ، کسی کو بتائے بغیر بقیع میں جانا وہاں ایک تیار شدہ اونٹ تمہیں ملے گا ، اس پر سوار ھو کر کوفہ چلے جانا۔

ابن یقطین رات کے وقت بقیع پہنچے تو سواری تیار تھی اس پر سوار ھوئے اور چشم زدن میں کوفہ ابراھیم کے گھر پہنچ گئے ، اونٹ کو بٹھایا اور ان کے دروازہ کو کھٹکھٹایا ، ابراھیم نے پوچھا کون ہے؟

انھوں نے جواب دیا : میں علی ابن یقطین ھوں۔

ابراھیم نے کہا : علی ابن یقطین کا میرے دروازہ پر کیا کام؟

ابن یقطین نے کہا : باھر آؤ کہ ایک عظیم امر در پیش ہےاور انہیں قسم دی کہ اذن دخول عطاکریں۔

جیسے ھی داخل ھوئے ، اپنا واقعہ بیان کیا اور ان سے معافی طلب کی ، ابراھیم نے کہا : اللہ تمہیں بخشے۔

پس ابن یقطین زمین پہ لیٹے اور ابراھیم سے کہا کہ میرے چہرے کو اپنے پاؤں سے روندے ڈالو ، ابراھیم نے انکار کیا تو ابن یقطین نے انہیں ایسا کرنے کی قسم دی اور ابراھیم کو یہ کام کرنا پڑا ، جب ابراھیم یہ کام کر رہےتہےتو ابن یقطین بار بار یہ کہہ تہےتہےاے اللہ گواہ رہنا ، اے اللہ گواہ رہنا۔

ابراھیم کو راضی کرکے ابن یقطین اسی رات مدینہ لوٹ آئے اور مولا کی خدمت میں حاضر ھوئے تو مولا نے ان کی حاضری قبول فرمائی۔ (19)

جب ھم اس واقعہ کی کڑیوں پر غور کرتے ہیں تو ھمیں حسب ذیل پیغامات حاصل ھوتے ہیں :

۱۔ ہمارا ہرامام ، خداداد علم کا حامل ھوتا ہےاس لئے ھمارے تمام اعمال و افعال اس کے زیر نظر ھوتے ہیں ، لہذا ھمیں خلاف دین و شریعت کوئی عمل نہیں کرنا چاھیئے۔

۲۔ گناہ ، گناہ ہےچاہےوزیر اعظم ھی سے کیوں نہ سرزد ھو ، لہذا ھمیں بڑے لوگوں کے گناہوں کو چھوٹا اور چھوٹے لوگوں کے گناھوں کو بڑا کرکے دکھانے کی کوشش نہیں کرنی چاھیئے۔

۳۔ امام اپنے شیعوں کے گناہوں سے چشم پوشی نہیں فرماتے بلکہ ان کے سلسلہ میں زیادہ حساس ھوتے ہیں چونکہ شیعہ کے معنیٰ مطیع و فرمانبردار کے ہیں نہ معصیت کار و گناھگار کے۔

۴۔ ایک شیعہ کا دوسرے شیعہ کے دل کو توڑنا یا دکھانا ، ایسا سنگین گناہ ہےکہ حج جیسے نیک عمل پر بھی پانی پھیر سکتا ہے۔

۵۔ شیعیت ، ایسا دینی و ایمانی قوی سسٹم ہےجو ھم سب کو ھزار مادی اختلافات کے باوجود اخوت و برادری کے رشتہ میں اس طرح جوڑ دیتا ہےوہ وقت کے وزیر اعظم کو ایک جمال ( اونٹوں کے رکھوالے ) کے دروازہ پر لاکر کھڑا کر دیتا ہے، ۶۔ ابن یقطین کا لمحوں میں مدینہ سے کوفہ پہنچنا اور اسی طرح پھر وہاں سے مدینہ پلٹنا دلیل ہےکہ ائمہ طاھرین ، اللہ تعالیٰ کے اذن سے تمام عالم ھستی پر حق تصرف رکھتے ہیں۔

۷۔ اگر گناہوں کا واقعی احساس ھو جائے تو پھر انسان مادی و ظاہری عہدہ و منصب کو نہیں ، اپنی طہارت و نجات کو اہم سمجھتا ہے۔

۸۔ھم مومنین کے حقوق ضائع کرکے ، امام سے قریب نہیں ھو سکتے ۔

۹۔ اگر اھل ایمان پر زیادتی کی ہےتو صرف استغفار کرنا ، کافی نہیں بلکہ ان سے معافی مانگنا اور انہیں راضی کرنا بھی ضروری ہے۔

۱۰۔ گناہ ، ظلم ہے، اھل بیت ظلم و ظالم کی نہیں بلکہ مظلوم کی نصرت و حمایت کرتے ہیں۔

۱۱۔گنہگار شیعہ ، اگر نادم ھو جائے اور ضائع شدہ حق مومن کا تدارک کرنا چاہےتو اھل بیت اس کی مدد اور نصرت سے بھی گریز نہیں فرماتے۔

۱۲۔ بے شک اھل بیت ہرقسم کے رجس و آلودگی سے پاک و منزہ ہیں ، پس اگر ھم واقعاً ان کا تقرب چاھتے ہیں تو ھمیں ہرگناہ و آلودگی سے بچنا چاھیے اور خدانخواستہ اگر آلودہ ھو گئے ہیں تو ابن یقطین کی طرح اس آلودگی کو دور کرنا چاھیئے۔

سفرحج کے آداب :

حج کا سفر نہایت مبارک سفر ھوتا ہے، یہ سفر ظلمت سے نور کی طرف ھوتا ہے، اضطراب سے سکون و اطمینان کی طرف ھوتا ہے، اپنے گھر سے اللہ کے گھر کی طرف ھوتا ہےاور درحقیقت مادیت سے للہیت و معنویت کی طرف ھوتا ہے۔

لھذا اسمیں دین کے معین کردہ آداب و اقدار کا بہت لحاط رکھنا چاھیئے جن میں سے کچھ یہ ہیں:

۱۔ اس سفر کو خالص اللہ کے لئے انجام دے اور اپنے اوپر اللہ ، رسول ، اھلبیت کے عشق و محبت کو طاری رکھے۔

۲۔ اس سفر میں جو بھی عمل انجام دے اللہ ، رسول اور دین کے مطابق انجام دے۔

۳۔ اس سفر کو للھیت و معنویت کی خوشبو سے معطر رکہےاور ایک لمحہ کے لئے بھی اسے مادیت کی بدبو سے آلودہ نہ ھونے دے۔

۴۔ تنہا سفر کرنا مکروہ ہےاس لئے اس سفر میں بھی رفیق سفر تلاش کرے۔

۵۔ رفیق سفر کو متدین ، خوش اخلاق اور صابر و متحمل اور عقیل و فہیم ھونا چاھیئے۔

۶۔ جو بھی سفر میں رفیقان سفر کا زیادہ خیال رکہےگا ، ان کے ساتھ زیادہ نرمی و خوش اخلاقی سے پیش آئے گا اللہ تعالی کے نزدیک اس کا اجر زیادہ ھوگا۔

۷۔ سفر سے پہلے حاجی کو دورکعت نمازپڑھنی چاھیئے اور اپنے کو اور اپنے اھل و عیال ، عافیت اور دنیا و آخرت کو اللہ تعالی کے سپرد کرنا چاھیئے۔

سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں جو ایسا کرے گا اللہ تعالی اس کی حاجت پوری فرمائے گا ۔ (20)

۸۔ دوران سفر اپنے ساتھیوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے چونکہ روایت میں آیا ہے" سید القوم خادمھم فی السفر "(21)

۹۔ حدیث میں آیا ہےکہ سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص ذکر کیا گیا کہ وہ اچھا ہےاور یہ کہا گیا : یارسول اللہ وہ ھمارے ساتھ حج کے سفر میں تھا ، جہاں بھی ھم لوگ اترتے تہےوہ مسلسل نماز پڑھتا رھتا تھا یہان تک کہ ھم پھر سفر شروع کر دیتے تہے، اثناء سفر میں بھی وہ قرآن پڑھتا رھتا یا ذکرخدا کرتا رھتا تھا ، یہاں تک کہ ھم پھر رک کر پڑاؤ ڈال دیتے تھے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سوال فرمایا :

پس کون اس کے اونٹ کو گھاس کھلاتا اور کون اس کے کھانے کا انتظام کرتا تھا؟

انھوں نے عرض کی : ھم سب ، تو آپ نے فرمایا : تم سب اس سے بہتر ھو۔(22)

۱۰۔ امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں ایک حاجی آیا اور کہنے لگا کہ ھم جیسے ھی مکہ مکرمہ پہنچے ، میرے ساتھی طواف بیت اللہ الحرام کرنے چلے گئے اور مجہےسامان کی رکھوالی کے لئے چھوڑ گئے آپ نے اس کی یہ بات سن کر فرمایا : انت اعظھم اجرا۔ (23)

تمہارا آجر ان سب سے عظیم ہے۔

۱۱۔ دو دوست مدینہ منورہ گئے ایک بیمار پڑگیا دوسرا اسے چھوڑ کر مسجد میں نماز و زیارت کے لئے چلا گیا اس بیمار نے سفر سے لوٹ کر اپنے اس دوست کی شکایت اس کے والد سے کی۔

وہ اپنے باپ سے یہ شکایت سن کر مولا امام صادق علیہ السلام کی خدمت آیا اور واقعہ بیان کیا تو آپ نے اس سے فرمایا :

قعودک عندہ افضل من صلاتک فی المسجد۔(24)

تیرا اس بیمار دوست کے پاس بیٹھنا ، مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل و برتر تھا۔

۱۲۔اس سے پتہ چلتا ہےحج و زیارت انسان کی الھی ، دینی و انسانی تربیت کا ایک عظیم اھتمام و انتظام ہے۔

لھذا اس کے تمام تعلیمات اور مناسک و اعمال پر گہرائی کے ساتھ نظر کرنی چاھیئے اور پوری معرفت کے ساتھ حج کرنا چاھیئے اور حج کے ذریعہ ھمارا اللہ ھماری جیسی تربیت کرنا چاھتا ، ھمیں اس طرح اپنے نفس کو تربیت دینی چاہیے ۔

حج ، حق خداوند متعال :

حج ، بندوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا ایک حق ہےجس کا وجوب قرآن حکیم کے سورہ آل عمران کی آیت ۹۷ سے ثابت ہے، اس آیہ مبارکہ میں ارشاد ھوا ہے:

" وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلاً و من کفر فان اللہ غنی عن العالمین "

اللہ کی خاطر بندوں پر واجب ہےکہ اس کے گھر کا قصد و ارادہ کریں (البتہ) وہ لوگ جو اس راستہ کی توانائی رکھتے ہیں۔

اور جو نافرمانی کرے (استطاعت ھوتے ھوئے حج کو نہ جائے جان لے کہ) بیشک اللہ تمام عالمین سے بے نیاز ہے۔

حدیث میں آیا ہےجو استطاعت کے ھوتے ھوئے حج نہ کرے وہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ محشور ھوگا۔

پیغام :

حج ، اللہ کا وہ عظیم حق ہےکہ مستطیع ھونے کے بعد جسے ترک کرنا ، مسلمان کو اسلام سے خارج کرکے یہودیت و عیسائیت کی صف میں پہنچا دیتا ہےیعنی ھدایت و نجات سے محروم کردیتا ہے۔

میقات :

1- ابھی حاجی کئی کیلومیٹر مکہ معظمہ ، بیت اللہ الحرام اور مرکز عشق و مودت سے دور ہےاور حکم ھوتا ہےکہ اتر جاؤ ، نیچے آجاؤ سواریوں سے ، پیادہ ھوجاؤ اور ظاھری اعتبار سے بھی اپنے کو بدل ڈالو ، اتاردو اپنے زرق و برق لباس کو ، اتار دو اپنے جبہ و دستار کو

، گویا " فاخلع نعلیک " پر پوری طرح سے عمل کرو جبکہ ابھی وادئ مقدس کافی دور ہےجانتے ھو یہ کونسی جگہ ہے؟

اسے " میقات" کہتے ہیں ۔

2- میقات کسے کہتے ہیں اس کی تعریف کیا ہے؟

اھل مکہ کے علاوہ ساری دنیا سے جو لوگ حج یاعمرہ کرنے آتے ہیں انہیں اس کے لئے کچھ معین اور خاص مقامات سے احرام باندھنا پڑتا ہےانہیں مقامات کو میقات کہتے ہیں اور میقات کی جمع مواقیت ہے۔

گویا میقات سے اعمال حج کی شروعات ہوتی ہےیہاں حج و عمرہ کے لئے احرام باندھا جاتا ہے۔

3- احرام کیا ہے؟

یعنی اپنے من پسند لباس کو اتار دینا اور الھی و دینی لباس پہننا۔

احرام یعنی مردوں کو ایک لنگی اور ایک ردا پہننا جو سلی ھوئی نہ ھوں ، نقش دار نہ ھوں اور رنگ برنگی نہ ھوں بلکہ سفید ھوں۔

حاجی کو احرام سے پہلے ناخن ، بغل اور زیرناف بالوں کو نورہ سے صاف کرلینا چاھیئے اور قربت کی نیت سے احرام باندھنا چاہیئے اور اس کے بعد غسل کرنا چاھیئے۔

احرام کے کچھ محرمات اور ان کے پیغامات :

۱۔ ھرقسم کے عطر و خوشبو کا استعمال حرام ہے۔

پیغام :

حج میں انسان کو اسلام ، ایمان ، یقین ، رضا و تسلیم ، عشق خداوند متعال اور مودت اھل بیت طاھرین کے عطر سے پوری معطر ھونا چاھیئے حاجی اگر اس عطر میں ھوجائے تو پھر کسی عطر و خوشبو کی ضرورت نہیں رھتی۔

۲۔ معطر لباس پہننا بھی حرام ہےچاہےوہ پہلے سے معطر ھو۔

پیغام :

لباس تقوی پہننے کے بعد کسی معطر لباس کی ضرورت نہیں ہے۔

۳۔ آئینہ دیکھنا حرام ہے۔

پیغام :

اللہ کے گھر جاکر اور اس کا مہمان بن کر فقط الہی و دینی آئینہ میں اپنی تصویر دیکھنی چاھیئے ، اور ہمیشہ اسی آئینہ میں اپنی حقیقت دیکھنے کا عادی بن جانا چاھیئے۔

۴۔ سلا ھوا کپڑا پہننا حرام ہے۔

پیغام :

کفن کی طرح بغیر سلا اور سفید لباس پہننا ہےتاکہ اللہ سے ملاقات اور موت کا منظر ھمہ وقت نگاھوں کے سامنے رھے۔

۶۔ سرمہ لگانا۔

پیغام :

حاجی کو اللہ کے گھر کے گرد و غبار کو اپنا سرمہ چشم بنا لیناچاھیئے ،

اور پھر یہ کہ انسان سرمہ جمال و خوبصورتی کے لئے استعمال کرتا ہےپس جو آنکہیں سرزمین وحی اور کعبہ مقدس کے جمال زیارت سے منور اور حسین و جمیل ھو جائیں تو انہیں پھر مادی سرمہ کی ضرورت کہاں رہ جاتی ہے۔

طواف اور اس کے آداب :

مناسک و اعمال حج میں ایک اہم عمل طواف ہے۔طواف یعنی اللہ تعالی کے مقدس گھر کعبہ کے اردگرد سات مرتبہ گھومنا اور چکر لگانا۔

اس کا پیغام یہ ہےکہ :

1- کعبہ شمع اسلام اور یادگار معشوق ہےلھذا ہرمسلمان اور عبدٍ عاشق کو اس کے اردگرد پروانہ وار گھومنا چاھیئے اور یہ عمل معرفت اور عشق الھی میں ڈوب کر انجام دینا چاھئے۔

2- طواف کرتے وقت دعا کرنی چاھئے کہ اے اللہ مجہےتوفیق دے کہ ساری زندگی تیرے دین کے اردگرد گھومتا رھوں۔

3- طواف کے شرایط میں سے ایک شرط یہ ہےکہ حجراسود سے شروع کرے اور اسی پر ختم کرے۔

اس سے یہ پیغام حاصل کرنا چاھیئے کہ اللہ ھماری ابتداء و انتہا تیری ذات اقدس ہے، لھذا جس طرح تونے ھماری ابتدا اپنے دین اسلام پر قرار دی ہےاسی طرح ھماری انتہا یعنی موت بھی اسلام پر قرار دینا۔

4- ھمیں کسی بھی حالت میں شرق و غرب کے چکر نہیں لگانے چاھئے بلکہ مادی و معنوی دونوں قسم کے امور کی اصلاح کے لئے اللہ کے گھر کعبہ یا مسجد کے چکر لگانے چاھیئیں۔

5- طواف اس طرح کرنا ہےکہ حاجی کی بائیں طرف کعبہ مقدس کی طرف ھو ، اس اصل فلسفہ تو اللہ ، رسول اور اھل بیت ھی جانتے ہیں۔

لیکن اس سے یہ پیغام لیا جاسکتا ہےکہ انسان کا قلب و دل بائیں طرف ھوتا ہےگویا اسے کعبہ سے قریب کرکے خود اس کے سپرد کرنا ہےتاکہ اس میں اسلام و ایمان گھر کرلے اور کبھی بھی اس کے اندر کفر ، شرک اور نفاق داخل نہ ھونے پائے۔

منیٰ میں قربانی کامقصد اور پیغام :

حاجی منیٰ میں پہلا عمل جو بجا لاتا ہےاس کا نام " رمئ جمرات " ہےاور اس کے بعد منیٰ کا دوسرا عمل " قربانی " ہے۔

چونکہ " قربانی " کا عمل شیطان کے پتھر مارنے گویا اسے اپنے سے دور کرنے کے بعد انجام دیا جاتا ہے، اس لئے اس سے یہ پیغام ملتا ہےکہ دین و مذھب یا اللہ تعالی کے بندوں کےلئے اگر انسان قربانی دینا چاھتا ہےتو وہ شیطان سے دور ھونے کے بعد ھی دے سکتا ہے۔

یعنی ایثار و قربانی دینے کے لئے شیطان کو اپنے سے دور کرنا اور اسے پسپا کرنا بہت ضروری ہے۔

قربانی ، مالی ھو جانی دونوں کے لئے اپنی ھوائے نفس کو کچلنے کے ساتھ ساتھ شیطان کے وسوسوں کو کچلنا ضروری ھوتا ہے۔

منیٰ میں قربانی کرنے کی کچھ حکمتیں ہیں۔

۱۔ یہ حکم خداوند متعال کی اطاعت ہےاور عبودیت و بندگی کا اظہار ہے۔

۲۔ یہ حضرت ابراھیم و اسماعیل علیھما الصلوۃ والسلام کے جذبہ خلوص و للہیت کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔

۳۔اور ان کے اس بیمثال و گرانقدر جذبہ عشق و للہیت سے اپنے عشق وخلوص میں اضافہ کرنا ہےاور اس میں ترقی لانا ہے۔

۴۔ اس قربانی کے ذریعہ قربانئ ابراھیم و اسماعیل کوذھن میں لاکر متوجہ ھونا کہ اللہ تعالی کا حکم ، اسکا فرمان اور اس کی رضا اتنی اہم ہےکہ اس کی خاطر جان ، مال ، آل ، اولاد اور عزت و آبرو سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے۔

۵۔ اس قربانی سے ھمیں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ہے۔

۶۔ اس قربانی سے یہ درس لینا ہےکہ جو جتنا اللہ تعالی کا مطیع و فرمانبردار ھوتا ہےاسی اعتبار سے اس کی اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش ہوتی ہےاور اسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کی عظمت و اہمیت ہوتی ہے۔

۷۔ منیٰ میں جو جانور قربانی کے لئے لے جاتا ہےوہ خود ، اس کا خون اور اس کاگوشت و پوست سب اللہ تعالی کی نظر میں محترم ھوجاتا ہے۔ یہ ھمارے لئے سوچنے کامقام ہےکہ جب ایک جانور اللہ کی راہ میں قربان ھونے کی وجہ سے اتنا محترم ھوجاتا ہےتو پھر انسان اگر اس کی راہ میں قربان ھوجائے تو کتنا محترم ھوگا۔

۸۔ سرکار امام صادق علیہ الصلوۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں :

«و اذبح حنجرتی الهوی والطمع عند الذبیحة» (25)

یعنی قربانگاہ منیٰ میں جب قربانی کے جانور کو ذبح کرو تو اپنی ھواھوس اور طمع وحرص کے گلے پر بھی خنجر چلا ڈالو۔

۹۔منیٰ میں یہ قربانی دو صورتیں رکھتی ہے:

پہلی صورت ظاھری ہےاس میں ھم اللہ تعالی کی رضا کی خاطر ایک حیوان کو ذبح کرتے ہیں۔

دوسری صورت باطنی ہے۔

جسمیں ھمیں اس حیوان کی طرح اپنے اندر چھپے ھوئے حیوان اور جانور کو قتل کردینا چاھیئے۔

حلق و تقصیر :

عادت ایک ایسی شے ہےجسے ترک کرنا بہت دشوار اور مشکل ھوتا ہے، عادت کو ترک کرنا کتنا دشوار اور مشکل ھوتا ہےاسے سرکار امام حسن عسکری علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اس ارشاد میں بیان فرمایا ہے:

ردالمعتاد عن عادتہ کالمعجز۔ (26)

اھل عادت کا ، اپنی عادت کو چھوڑ دینا ، معجزہ کے مانند ہے۔

اور یہ معجزہ ھمیں موسم حج میں قدم قدم پر دیکھنے کو ملتا ہے، حج بیت الحرام میں یہ معجزہ مردوں سے بھی ظاھر ھوتا ہے، عورتوں سے بھی ظاھر ھوتا ، بوڑھوں سے بھی ظاھر ھوتا ہےاور لحیم شہیم جوانوں اور نوجوانوں سے بھی ظاھر ھوتا ہے۔

وہ جیسے ھی اپنے اپنے میقات تک پہچتے ہیں اپنے من پسند شاندار اور خوبصورت کپڑوں کو اتار کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور اپنی پسند اور ھواھوس کے گلے پر پاؤں رکھکر بالکل سادہ البتہ صاف ستھرا سفید الھی و دینی لباس زیب تن کرلیتے ہیں۔

یہ لباس ، موت اور آخرت کی یاد دلانے کے ساتھ ھرحاجی اور دیکھنے والے کو اپنے دامن کردار سے گنا ھوں کے داغوں کو آب خلوص ، آب توبہ اور اشک استغفار سے دھونے اور اسے لباس احرام کی طرح بالکل صاف ستھرا بنانے کی دعوت دیتا ہے۔

اللہ اکبر ، جب کہ لباس انسان کے لئے بہت زیادہ اہم ہے، ھم نے دیکھا ہےاگر انسان کو اسکا من پسند لباس فراہم نہیں ھوتا تو وہ بہت پروگرامس میں شرکت نہیں کرتا ، بہت سی شادیوں میں جانا کینسل کردیتا ہے۔

لیکن یہی انسان جب حج پہ جاتا ہےتو اللہ تعالی کی خاطر بالکل سادہ بلکہ زندگی میں کفن پہننے پہ تیار ھوجاتا ہے، گویا کعبۃ اللہ کی زیارت کے لئے کفن پہن کر وہ عند اللہ جانے کی تیاری کا اعلان کرتا ہے۔

جبکہ بعض معاشروں میں سفید لباس بچوں اور نوجوانوں کا پہننا مرغوب نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے موت کو دعوت دینا خیال کیا جاتا ہے، لیکن لباس احرام پہن کر تمام حجاج بالخصوص نوجوان حاجی اس خرافات اور باطل فکر و رسم کے گلے پر بھی پاؤں رکھ کر اسے کچل ڈالتےہیں۔

اسی طرح " حلق" ہے۔

" حلق " کے معنیٰ سر تراشنے کے ہیں ، جو پہلی بار حج واجب کے لئے جائے اس پر سرکا منڈانا واجب ہے۔ یہ سچ ہےکہ سر کے بال اکثر لوگوں کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ھوتے ہیں۔ اور انہیں اپنی خوبصورتی

اور زینت کا راز سمجتہےہیں۔

حقیقت بھی یہی ہےکہ سر کے بال آدمی کو ظاھری جمال و زینت عطا کرتے ہیں اور واقعا اس کے قیافہ میں خوبصورتی پیدا کر دیتے ہیں۔

اسی لئے بعض لوگوں کو سر کے بالوں سے عشق کی حد تک محبت ہوتی ہے۔

دیکھا گیا ہےکہ بعض کالجوں ، مدرسوں یا ملازمتوں میں سر منڈانے یا بال چھوٹے رکھنے کی قید ہوتی ہےتو بالوں کے عاشق افراد ان کالجوں اور ملازمتوں کو جوائن نہیں کرتے یا جوائن کرنے کے بعد اپنے بالوں کو بحال رکھنے کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں۔

یعنی بعض افراد اس حد تک بالوں سے وابستہ ھوجاتے ہیں کہ بعض اوقات اس طرح کی وابستگیاں خطرناک ثابت ہوتی ہیں اور کبھی کبھی دین و ایمان کو بھی واقعاً خطرہ میں ڈال دیتی ہے ۔

حلق اور عرب سماج :

عرب سماج میں سر کا منڈا ھونا غلامی کی علامت سمجھا جاتا تھا ، عام طور سے رواج تھا کہ عرب اپنے غلاموں کو سر منڈا رکھتے تہےگویا اس سے آقا و غلام ، آزاد و بندہ مخدوم و خادم اور مطاع و مطیع کے درمیان فرق حاصل ھو تا تھا۔

تاریخ بتاتی ہےکہ سقیفہ کے شوم و مبحوس حادثہ کے رونما ھونے کے بعد جب کچھ اصحاب رسول اور مولا علی کے طرفداروں نے آپ کو ظالم و غاصب حکومت کے خلاف قیام کی رائے دی اور اس سلسلہ میں اپنی حمایت اعلان کیا تو ان سے مولا نے یہی فرمایا تھا : اگر اس امر میں مصمم ھو تو فلاں روز فلاں ، فلاں وقت اور فلاں مقام پر سر منڈا کر حاضر ھونا۔

اس سے پتہ چلتا ہےکہ عرب میں سر کا منڈوانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن ھم موسم حج میں دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان بصد خوشی و رغبت اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لئے یہ کام انجام دینے کے لئے صف بصف کھڑے نظر آتے ہیں جو ان کے اللہ رب العزت کے سامنے سراپا تسلیم ھونے اور اس کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کی واضح دلیل ہے۔

شائستہ ہےکہ ہرحاجی اسی روح تسلیم و اطاعت کو زندگی بھر اپنے اندر باقی رکہےاور اسے فقط موسم حج سے مخصوص نہ سمجھے۔

آخرکلام میں رب کریم سے دعا ہےکہ ھمیں جلد از جلد بامعرفت حج کرنے کی توفیق عطاکرتے ھوئے دنیا و آخرت میں اس کے فیوض و برکات سے بہرہ مند فرمائے۔

 

حوالے :

۱۔ المنجد ، ج ۱ ، کلمہ حج ، بی نا ، بی تا

۲۔ اصول کافی ، ترجمہ مصطفوی ، ج ۱ ، ص۵۴ ، بی نا، بی تا۔

۳۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، موسسه الوفاء، ج67، ص 211.

۴۔ خواجه نصیر الدین طوسی، آداب المتعلمین ، ترجمه: محسن احمدوند، قم، نهاوندی، چاپ دوم، 1385، ص 27

۵۔ آمدی ، عبد الواحد ، غرر الحکم و درر الکلم , جلد۱ , صفحه۲۵۳، بی نا ، بی تا۔

۶۔ قرآن حکیم ، سورہ انعام ، آیہ ۱۶۲

۷۔ قرآن حکیم، سورہ بقرہ ، آیہ ۱۵۶

۸۔ قرآن حکیم ، سورہ ق ، آیہ ۱۶

۹۔ قرآن حکیم ، سورہ بقرہ ، آیہ ۱۶۵

۱۰۔ قمی شیخ عباس ، سفینۃ البحار ،قم ، مکتبۃ السنائی ، مادہ ھجر، بی تا۔

۱۱۔ قرآن حکیم ، سورہ یوسف ، آیہ ۶۴۔

۱۲۔ " " ، سورہ ابراھیم ، آیہ ۱۲۔

۱۳۔ " " ، آل عمران ، آیہ ۱۵۹۔

۱۴۔ " " ، سورہ حج ، آیہ ۲۶

۱۵۔ عاملی ، حر ، وسائل الشیعہ ، ج ۱ ، ص ۶۰ ، بی نا، بی تا۔

۱۶۔ محمدی ، ری شہری ، میزان الحکمہ ، ج ۲ ، انواع الحج ، بی نا، بیتا۔

۱۷۔ احسائی ، ابن ابی جمہور ، عوالي اللئالي العزيزية في الأحاديث الدينية ،جلد۴، صفحه۳۰۔

۱۸۔مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج ۹۶ ، ص ۱۲۰

۱۹۔ سید احمد مستنبط(ره) ، القطرہ ، جلد1، بخش امام موسی بن جعفر الکاظم(ع) ، صفحه 592۔

۲۰۔

۲۱۔ طبرسی ، حسن ابن فضل ، مکارم الأخلاق , جلد۱ , صفحه۲۵۱۔

۲۲۔

۲۳۔شھید مطہری ، مرتضیٰ ،داستان راستان ،ج ۱ ، ھمفسرحج ۔

۲۴۔ کلینی ، محمد ابن یعقوب ، فروع كافى، ج 4، ص 545

۲۵۔ مصباح اشریعه و مفتاح الحقیقه ، بیروت ، موسسه الاعلمی للمطبوعات ، ص ۴۹-

۲۶۔ ابن شعبہ حرانی ، تحف العقول ، ج ۱، ص ۴۸۹

۲۷.احمد ابن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی، ج2، ص 126، بی نا ، بی تا۔

تحریر : ظہور مہدی مولائی

لندن : پابندیوں کے باوجود ایران کی تیل کی پیداوار اور برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ یہ دعویٰ برطانوی کمپنی برٹش پیٹرولیم نے اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے کہ جس میں مختلف ممالک کی تیل کی پیداوار اور اسکی برآمدات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق مسلسل پابندیوں کے باوجود گزشتہ سال کے دوران ایرانی تیل کی پیداوار یومیہ 5 لاکھ 40 ہزار بیرل سے بڑھ کر 31 لاکھ اور 70 ہزار بیرل تک پہنچ گئی جو کہ دنیا کی تیل کی پیداوار کے4.1 فیصد کے برابر ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2021 میں دنیا میں روزانہ تیل کی پیداوار 77 ملین 830 ہزار تھی جس میں 2020 کے مقابلے میں تقریباً 1.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان شامی حکام کے ساتھ تبادلۂ خیال اور گفتگو کے لئے دمشق میں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے شام کے صدر بشارت اسد سے ملاقات کی۔ 

امیر عبداللہیان نے اس ملاقات میں صدر بشار اسد کو رہبر معظم انقلاب اسلامی اور صدر مملکت کا سلام پہنچایا اور شامی صدر کے حالیہ دورہ تہران کو اسلامی جمہوریہ ایران اور شام کے تعلقات میں نقطہ عروج قرار دیا کہ جو دونوں ملکوں کے دو طرفہ روابط کے مزید بڑھنے میں موثر اور نتیجہ خیز واقع ہوگا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے شام کے قومی اتحاد، ملکی کلیت و سالمیت اور حکومت کے استحکام کے لئے شامی حکومت اور صدر کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ شام کی ملکی سالمیت اور حکومت کے شناختہ شدہ مخالفین اس کوشش میں ہیں کہ ملک کے حالات خراب کریں۔ 

امیر عبداللہیان نے شام پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی اور مغربی حلقوں کی خاموشی اور دعویدار مغربی ممالک کے رد عمل نہ دکھانے کو ان ممالک کے دوہرے معیارات کی علامت قرار دیا۔

یہ امریکی جرم کی دستاویز ہے

تہران، 34 سال سے پہلے ایران ایئر ایئربس A300 B2-203 شہری راہداری پر پرواز کر رہا تھا، SM-2MR زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں سے تباہ ہو گیا، جس میں 66 بچوں اور عملے کے 16 افراد سمیت چھ ممالک کے تمام 290 مسافر ہلاک ہو گئے۔ اس طیارے میں 38 غیر ایرانی سوار تھے۔