سلیمانی

سلیمانی

تہران، ارنا – ایرانی صدر، اسپیکر اور عدلیہ کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دشمن ایک متحد اور مضبوط ایران کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں؛ انہوں نے دشمنوں کی جانب سے ملک کے خلاف جو وسیع سازشیں تیار کی جا رہی ہیں ان کو بے نقاب اور ناکام بنانے میں ایرانی عوام کی دانشمندی اور بیداری کی تعریف کی۔

یہ بات تینوں حکام کے سربراہان علامہ سید ابراہیم رئیسی، محمد باقر قالیباف اور علامہ غلامحسین اژہ ای نے ہفتہ کے روز صدارتی دفتر ایک ملاقات کے دوران کہی۔

ایرانی حکام نے اس بات پر غور کیا کہ ملک کے استحکام اور سلامتی کا تحفظ اقتصادی اور زندگی کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی معاشرے کو اپنے تمام اجزاء اور تمام طبقات کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد کی ضرورت ہے اور دشمنوں کی جانب سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف اٹھنے والی تقسیم کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے گزشتہ دنوں اور ہفتوں کے دوران سیکورٹی کا دفاع کرنے والی افواج کی قربانیوں اور کوششوں کو سراہا اور اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ سلامتی اور استحکام ملک کے اندر معیشت سمیت تمام شعبوں میں ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہے۔

Friday, 07 October 2022 18:13

اخلاق کی اہمیت

تزکیہ نفس اور اخلاق کی اہمیت پر روایات اہلبیت علیہم السلام میں متعدد بار زور دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای دام ظلہ فرماتے ہیں:

 

 

 

 اخلاق کا بنیادی ہدف

معنویت کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ انسان، خدائی اخلاق کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اخلاق، دیگر امور کے لیے مقدمہ نہیں ہے بلکہ بنیادی اصل ہے۔ دیگر امور جیسے پیامبران خدا کی حاکمیت وغیرہ مقدمہ ہیں اخلاق اللہ سے متصف ہونے کے لیے۔

 

علم کے بغیر اخلاق وبال بن جاتا ہے

آج عالمی سطح پر حاکم مختلف نظاموں کی ناکامی کا بنیادی سبب اخلاق اور معنویت سے دوری ہے۔معاصر اخلاقی بحران انسانیت کو نابودی کی طرف لے جا رہا ہے۔ انسان اس بات سے غافل ہے کہ اخلاق سے عاری علم معاشرے کے لیے وبال بن جاتا ہے۔علم اس وقت مفید بن سکتا ہے جب معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی شعبہ ھای حیات پر اخلاق کی حاکمیت قائم ہوجائے۔

 

 

اخلاق کی اہمیت اور ضرورت

میری نگاہ میں جوانوں کے لیے اخلاقی اور معنوی اقدار، حصول علم کی نسبت زیادہ ضروری اور اہم ہیں۔ انقلاب اسلامی انہیں اقدار کی خاطر وجود میں آیا ہے۔ علم کو ہمیشہ عمل کے ساتھ ہونا چاہیے اور ہمیں چاہیے کہ اس سلسلے میں کام کریں تا کہ تعلیم یافتہ طبقے میں غرور اور تکبر کا خاتمہ ہوجائے اور معاشرے میں پائی جانے والی بد اخلاقی اور کج فکری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکے۔

 

 

تکبّر کے نقصانات

انسان کی زندگی سے سلامتی اور سکون چھین لینے والی منفی خصلتوں میں سے ایک انتہائی خطرناک خصلت تکبّر ہے۔ انسانی معاشرے کے اکثر نقصانات کا سبب قوموں کا تکبر رہا ہے۔ تکبر جیسی مہلک بیماری کو کچلنے کا واحد نسخہ اسلامی عبادات باالخصوس نماز ہے جو موئثراور کارآمد علاج ہے۔

 

 

ترجمہ و اقتباس از کتاب تعلیم و تربیت از دیدگاہ مقام معظم رہبری)

 1: کتاب تعلیم و تربیت از دیدگاہ مقام معظم رہبری، بہ کوشش امیرحسین بانکی پور فرد و احمد قماشچی، تہران، تربیت اسلامی، اول، 1380ش، ص 132-160.

 

اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مقصود علی ڈومکی نے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہفتہ وحدت کے سلسلے میں مرکزی امام بارگاہ جامع مسجد امام حسن مجتبی علیہ السلام جیکب آباد میں نماز جمعہ کے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سید الانبیاء کی ذاتِ گرامی میں اعلیٰ انسانی صفات جمع تھیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحب خلق عظیم ٹھہرے۔ آپ کی سیرت طیبہ بنی نوع انسان کے لئے قابل تقلید ہے کیونکہ آپ کی سیرت طیبہ پوری بشریت کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ رہبر کبیر بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ہفتہ وحدت کا اعلان کرکے اسلام دشمن استکباری قوتوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا، جو لڑاؤ اور حکومت کرو کی منحوس منصوبے کے تحت مسلمانوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ شیعہ اور سنی اسلام کے دو بازو ہیں۔ جن کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے والا نہ تو شیعہ ہے اور نہ ہی سنی، بلکہ استعمار کا ایجنٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہفتہ وحدت کے موقع پر ملک بھر میں اتحاد بین المسلمین کے عنوان سے ریلیاں نکالی جائیں گی اور برادران اہل سنت کے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوسوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جائیں گی۔ علامہ مقصود ڈومکی کی تقریر کے دوران مسجد فضاء لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مرحبا یا مصطفیٰ کے نعروں سے گونج اٹھی۔

ایکنا نیوز- قرآن مجید کے تینتیسویں سورے کا نام احزاب ہے اور اس مدنی سورے میں تہتر آیات ہیں جو قرآم مجید کے اکسویں بائیسویں پارے میں ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے یہ قرآن کے نوے نمبر پر قلب رسول گرامی اسلام پر نازل ہوا ہے۔

سوره احزاب نام رکھنے کی وجہ اس سورہ میں کلمہ احزاب کا استعمال ہے جس کا مقصود کفار کے وہ گروہ ہیں جو مختلف قبائل کی صورت میں اسلام اور  رسول گرامی کے خلاف متحد ہوئے تھے اور جنگ احزاب شروع کی تھیں۔

 

اس سورہ میں ان حوادث کا ذکر ہیں جو ہجرت کے دوسرے اور پانچویں سال پیش آئے جسوقت تازہ اسلامی حکومت قایم ہویئ تھی اور مشرکین و منافقین اس تازہ اور کمزور حکومت کو ختم کرنے کے درپے تھے اس عرصے میں رسول گرامی اسلام ایک جانب جاہلیت کے قوانین سے جنگ میں مصروف تھے اور دوسری جانب ان سازشوں کا سامنا کرنے پر مجبور تھے۔

اس سورہ میں رسول گرامی اور انکے کردار اور رویے پر نکات موجود ہیں اور رسول گرامی کی بیویوں کے بارے میں ہدایات ہیں اور ان سے توقع کی بات کی جاتی ہے کہ وہ ترک دنیا اور دوسروں سے کارخیر میں پیش قدم ہو اور گناہوں سے دوری میں سرفہرست۔

دیگر نکات میں مرد و زن کی برابری اور کسب فیض میں کوشش کی بات کی گیی ہے، سورہ کی آیت 35 میں کہا گیا ہے: «إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا:

 

یقینا خدا نے مسلمان اور با ایمان مرد و زن، عبادت کرنے والی خواتین، سچے مرد و خواتین، صدقہ دینے والے مرد و زن، روز رکھنے والے، خود کو برائیوں سے دور رکھنے والے، خدا کو بہت یاد کرنے والے اور خدا کو بہت یاد کرنے والے جنکو اجر عظیم دیا جائے گا۔».

اس آیت میں مرد و خواتین کے لیے  10 کمال کو گنا گیا ہے جنمیں عقیدے کی درستگی، درست عمل، اخلاق جنمیں سے بعض واجب اور بعض مستحب ہیں اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ فضائل کے حصول میں مرد و زن میں کوئی فرق نہیں اور اسلام نکتہ نگاہ سے دونوں برابر ہیں

 رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 3 اکتوبر 2022 کو اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کی آفیسرز اکادمیوں کے کیڈٹس کے مشترکہ پاسنگ آؤٹ پروگرام میں شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے امن و سلامتی کی اہمیت اور اس میں مسلح فورسز کے کلیدی کردار پر روشنی ڈالی۔

آپ نے ایک نوجوان لڑکی کی موت کے بعد ایران میں ہونے والے فسادات کے تمام اہم پہلوؤں کا جائزہ پیش کیا۔ آپ نے امریکہ و اسرائیل کی سازش کا پردہ فاش کرتے ہوئے عدلیہ اور اداروں کو اہم ہدایات دیں۔ (1) رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

والحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللّہ فی الارضین.

مجھے بڑی خوشی ہے اور میں خداوند عالم کا شکر گزار ہوں کہ ایک لمبے وقفے کے بعد اس سال اس دن آپ عزیز جوانوں، فوجی کیڈٹس اور فوجی رینکنگ حاصل کرنے والے افسروں سے بالمشافہ ملاقات کی ایک بار پھر توفیق حاصل ہوئي۔ کئي ہزار جوانوں کا مسلح فورسز میں شامل ہونا ایک خوشخبری ہے، ایک نوید ہے، جو ہر سال دوہرائي جاتی ہے، چاہے وہ کیڈٹس ہوں جو فوجی کالجوں میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد فوجی افسر کا درجہ حاصل کر کے فورسز میں شامل ہو رہے ہیں اور کام میں مصروف ہو جائیں گے، چاہے وہ جوان ہوں جو فوجی کالج میں داخل ہو رہے ہیں اور کیڈٹ بن پر تعلیم شروع کرنا چاہتے ہیں، یہ سبھی کسی نے کسی طرح مسلح فورسز میں ایک نیا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ جوانوں کا یہ داخلہ اپنے اندر تعمیر نو اور استحکام کے پیغام لیے ہوئے ہے۔ جوان جہاں بھی جاتے ہیں، جس ادارے میں، جس تنظیم میں، در حقیقت وہ اپنے ساتھ اس مرکز کی تعمیر نو اور استحکام کا پیغام ساتھ لیے ہوتے ہیں۔ تمام میدانوں میں جوانوں کی موجودگي، امید افزا ہے، یعنی مختلف علمی و سائنسی، معاشی، سیاسی، تنظیمی، عسکری اور دیگر میدانوں میں جہاں بھی جوان پہنچتے ہیں، اپنے ساتھ امید، تعمیر نو اور نئی ایجادات کی خوش خبری لے کر آتے ہیں۔

اس وقت پروپیگنڈہ کرنے والا ایک گمراہ کن دھڑا موجود ہے جو اس کے بالکل برخلاف پروپیگنڈہ کرنا چاہتا ہے، پروپیگنڈہ کرنے والے اس دھڑے کی کوشش یہ ہے کہ لوگوں پر یہ ظاہر کرے کہ ایرانی جوان اقدار سے دور ہو چکا ہے، مستقبل کی طرف سے مایوس ہے اور اس میں ذمہ داری کا احساس نہیں ہے، پروپیگنڈہ کرنے والا یہ دھڑا ان باتوں کو پھیلانے کی پوری شدت سے کوشش کر رہا ہے، یہ حقیقت کے برخلاف ہے، ہمارے ملک میں پائی جانے والی حقیقت کے پوری طرح خلاف ہے۔ ہماری جوان نسل آج تک تمام میدانوں میں درخشاں کردار کی حامل رہی ہے، ان شاء اللہ آکے بھی ایسا ہی رہے گا۔ چاہے ملک کا دفاع ہو، چاہے سیکورٹی کا دفاع ہو، چاہے پورے خطے میں استقامتی محاذ کی مدد کا مسئلہ ہو، مقدس مقامات کے دفاع کا یہی عظیم اور مقدس مشن، چاہے سماجی خدمات ہوں، چاہے سائنسی پیشرفت ہو، آپ دیکھتے ہیں کہ ہر معاملے میں سائنسی پیشرفت، جوانوں کے کندھوں پر ہے، وہی ہیں جو اس راہ پر آگے بڑھنے والے ہیں، چاہے تمام مذہبی پروگرام ہوں، یہی اربعین مارچ، دسیوں لاکھ ایرانی جوان تھے جو گئے اور نجف اور کربلا کا راستہ پیدل طے کیا اور دسیوں لاکھ جوان جنھوں نے یہیں اپنے ملک میں، مختلف شہروں میں اربعین کے نام پر، اس منزل بشارت و معنویت سے پیچھے رہ جانے والوں کی حیثیت سے پیدل مارچ کیا، چاہے پیداوار اور ایجادات کا میدان ہو جس کی خبریں آپ ٹیلی ویژن پر دیکھتے رہتے ہیں کہ ہر دن ملک میں پیداوار کے کسی نہ کسی شعبے میں، ملک کی صنعت میں ہمارے نوجوان کوئی نئی کامیابی حاصل کر رہے ہیں، چاہے وبائي بیماری سے مقابلہ ہو، چاہے مومنانہ امداد کی تحریک ہو، چاہے ثقافتی جہاد ہو، چاہیے سیلاب اور زلزلے وغیرہ جیسی قدرتی آفات میں امداد کی ذمہ داری ہو، جہاں کہیں بھی آپ دیکھیں گے، جوانوں کی بھرپور موجودگي نظر آئے گي۔ یہ جوان مایوس نہیں ہو سکتا، یہ جوان، اقدار سے دور نہیں ہو سکتا، یہ جوان، محاذ کے مرکز میں موجود اور نہ تھکنے والا ایک سپاہی ہے، ان تمام میدانوں میں انقلاب اور مومن جوان آگے آگے رہے ہیں، ہمارے جوان ایسے ہیں۔

تو اگر آپ کی موجودگي کو، جو امام حسن مجتبی کیڈٹ کالج میں اکٹھا ہوئے ہیں اور دوسرے کیڈٹ کالجز میں یہ باتیں سن رہے ہیں، ہم اس نظر سے دیکھیں تو مسلح فورسز میں آپ کی آمد اور آپ کی موجودگي، ایک سرمایہ ہے، آپ کی موجودگي ایک بڑی دولت ہے۔ البتہ سینیر فوجی اہلکاروں اور کمانڈروں کے تجربے کے ہمراہ۔

مسلح فورسز کو مضبوط بنانا، ملک کو مضبوط بنانا ہے۔ ملک کی تقویت میں مسلح فورسز ایک مضبوط ستون ہیں۔ البتہ ملک کی تقویت صرف مسلح فورسز تک محدود نہیں ہے، اور دوسرے مضبوط ستون بھی ہیں، سائنسی پیشرفت، ملک کی پیشرفت کا سبب ہے، عوام کا عمومی عقیدہ، دلوں میں ایمان کی مضبوط بنیادیں، قومی استحکام کا باعث ہیں، عوام سے نکلی ہوئي حکومت اور عوام کے سہارے بننے والی حکومت کسی بھی ملک کی سربلندی کا سبب ہوتی ہے، یہ ساری چیزیں ہیں لیکن مسلح فورسز بھی، مسلح فورسز کی موجودگي بھی، فوجی طاقت بھی ملک کی بنیادوں کی تقویت کا اہم ذریعہ ہیں۔ یہ ملک کو خطروں اور دشمنیوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں، اس کی حفاظت کر سکتی ہیں۔ البتہ یہ چیز تمام ملکوں کے لئے ہے، ہمارے ملک سے مخصوص نہیں ہے۔ تمام ملکوں کو ان وسیلوں کی ضرورت ہے لیکن ہمارے وطن عزیز جیسے ملک کے لیے، جسے امریکا وغیرہ جیسے منہ زور اور غنڈہ صفت دشمنوں کا سامنا ہے، اس چیز کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ لہذا دفاعی طاقت میں اضافہ ہونا چاہیے۔

میں نے یہ بات ہمیشہ کہی ہے اور ایک بار پھر دوہرا رہا ہوں، دفاعی طاقت میں اضافہ ہونا چاہیے۔ اس ذمہ داری کا کچھ حصہ مسلح فورسز کے باہر سے انجام پانا چاہیے اور کچھ حصہ مسلح فورسز کے اندر سے، میں مؤخر الذکر پر روشنی ڈالوں گا۔ مسلح فورسز کے ذمہ داروں کو نئے اور اپ ٹو ڈیٹ طریقے اختیار کر کے آرمڈ فورسز کو مزید مضبوط بنانا چاہیے جس کے لئے ایک کام تعلیم  اور ٹریننگ اور فوجی آلات کو اسمارٹ بنانا ہے۔ بحمد اللہ ہماری مسلح فورسز میں یہ کام شروع ہو چکا ہے لیکن کام کا میدان ابھی بہت کھلا ہوا ہے۔ آج فوجی ساز و سامان، ہتھیاروں یہاں تک کہ گولہ بارود سمیت مسلح فورسز کے تمام امور کو اسمارٹ بنانا اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ یا مسلح فورسز میں سائنسی و تحقیقاتی پیشرفت کا مسئلہ ہے، یہ مسلح فورسز کی تقویت ہے، یا ہائيبرڈ وار کے پیچیدہ کھیلوں کی ڈیزائننگ۔ آپ جانتے ہیں کہ آج دنیا کی جنگیں، صرف ایک پہلو کی نہیں ہوتیں، ہارڈ وار، سافٹ وار، فکری جنگ، ثقافتی جنگ، مختلف ہتھیاروں سے جنگ اور  اسی طرح کی دوسری جنگيں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کسی قوم یا ملک پر حملے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ وار گیم کو ان شاء اللہ ان تمام مراحل کو نئے طریقوں سے اور اپ ٹو ڈیٹ روشوں سے طے کرنا چاہئے۔

خیر تو مسلح فورسز کی اصلی ذمہ داری کیا ہے؟ قومی سلامتی کی حفاظت، یہ وہ چیز ہے جس پر آپ جوانوں کو، جنھوں نے تازہ تازہ اس راہ میں قدم رکھا ہے، فخر کرنا چاہیے، ناز کرنا چاہیے، سربلند ہونا چاہیے۔ مسلح فورسز کی ذمہ داری، ملک کی عمومی سلامتی کی حفاظت ہے۔ 'سیکورٹی یا سلامتی' کا مطلب کیا ہے؟ سیکورٹی، کسی بھی معاشرے کی زندگي کے تمام پہلوؤں کا بنیادی ڈھانچہ ہے، ایک عمومی انفراسٹرکچر ہے، ذاتی مسائل سے لے کر، سماجی مسائل، اجتماعی مسائل اور خارجی مسائل تک، سیکورٹی، ان سب کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ ذاتی زندگی میں، سیکورٹی کا مطلب یہ ہے کہ آپ رات کو اپنے گھر میں اطمینان سے سو سکیں، صبح کو پورے سکون کے ساتھ اور بغیر کسی تشویش کے اپنے بچے کو اسکول بھیج سکیں، اپنے کام کی جگہ پر جا سکیں، بغیر کسی تشویش کے نماز جمعہ میں جا سکیں۔ دیکھیے، ان ملکوں پر نظر ڈالے جن میں یہ سکون اور خیال کی آسودگي نہیں ہے، ان میں سے کسی بھی مرحلے میں نہیں ہے، نہ رات کو اطمینان سے سو سکتے ہیں، نہ صبح کو کام پر جا سکتے ہیں، نہ آسودہ خاطر ہو کر اسپورٹس کے میچ دیکھنے جا سکتے ہیں، نہ نماز جمعہ جا سکتے ہیں، نہ سفر پر جا سکتے ہیں۔ یہ چیز چھوٹے ملکوں سے ہی مخصوص نہیں ہے، بڑے ملکوں میں، سب سے بڑھ کر امریکا میں، ریستوراں میں سیکورٹی نہیں ہے، یونیورسٹی میں سیکورٹی نہیں ہے، بچوں کے اسکول میں سیکورٹی نہیں ہے، دکان میں سیکورٹی نہیں ہے۔ ذاتی زندگی میں سیکورٹی کا مطلب یہ ہوتا ہے، یعنی آپ خود، آپ کے بچے اور آپ کے گھر کے افراد، سیکورٹی کے احساس کے ساتھ زندگي گزار سکیں، آپ کا کام، آپ کی نوکری، آپ کا سفر اور آپ کی تفریح، سیکورٹی کے ساتھ ہو۔

عمومی اور اجتماعی مسائل میں، یونیورسٹی یا دینی تعلیمی مرکز میں یا تحقیقی مرکز یا پھر انسٹی ٹیوٹ میں آپ بیٹھ کر غور کر سکیں، کام کر سکیں، تحقیق کر سکیں، مطالعہ کر سکیں، یہ سیکورٹی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اگر سیکورٹی نہ ہوتی تو یہ پیشرفت حاصل نہیں ہو سکتی تھی، جہاں بھی ترقی و پیشرفت ہوئي ہے وہ سیکورٹی کے وجود کی برکت سے ہوئي ہے، سیکورٹی کے بغیر کام دشوار ہو جاتا ہے، سخت ہو جاتا ہے۔ معاشی سرمایہ کاری تک میں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک کی معاشی پیشرفت کے لیے سرمایہ کاری کریں تو یہ بغیر سیکورٹی کے ممکن نہیں ہے، سیکورٹی کے بغیر ٹرانزٹ ممکن نہیں ہے، سیکورٹی کے بغیر پیداوار نہیں ہو سکتی، سیکورٹی ان سبھی چیزوں کے لئے انفراسٹرکچر کا درجہ رکھتی ہے۔

مسلح فورسز، ملک اور سماج کے عام افراد کی اس دائمی اور ہمہ گير ضرورت کی تکمیل کرنے والی  ہیں، یہ کم فخر کی بات نہیں ہے۔ فوج ایک طرح سے، سپاہ (پاسداران) کسی دوسری طرح سے، پولیس فورس ایک اور طرح سے، ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طرح سیکورٹی فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔ جو کوئي پولیس تھانے پر حملہ کرتا ہے، وہ ملک کی سیکورٹی پر حملہ کرتا ہے، جو کوئي رضاکار فورس کے مرکز پر حملہ کرتا ہے، وہ ملک کی سلامتی پر حملہ کرتا ہے، وہ جو اپنے بیان میں، تقریر میں، گفتگو میں فوج یا سپاہ پر لعن طعن کرتا ہے، وہ ملک کی سیکورٹی کی توہین کرتا ہے۔ مسلح فورسز کو کمزور بنانا، ملک کی سلامتی کو کمزور بنانا ہے۔ پولیس کو کمزور بنانے کا مطلب ہے مجرموں کو مضبوط بنانا۔ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ مجرم کے سامنے ڈٹ جائے، لوگوں کی سیکورٹی کو یقینی بنائے، جو شخص پولیس پر حملہ کرتا ہے، اصل میں وہ لوگوں کو مجرموں کے مقابلے میں، غنڈوں اور اوباشوں کے مقابلے میں، چور کے مقابلے میں، منہ زور کے مقابلے میں نہتا کر دیتا ہے۔ ہمارے ملک کا بڑا امتیاز یہ ہے کہ ہماری جو سیکورٹی ہے وہ پوری طرح سے ملک کے اندر سے پیدا ہونے والی ہے۔ بڑا فرق ہے کہ اس ملک اور اس قوم میں جو اپنے اندر سے، اپنی فورسز کے ذریعے، اپنی طاقت سے، اپنی سوچ سے اور اپنے نظریات سے اپنے لیے سیکورٹی پیدا کرے اور اس ملک اور قوم میں جسے باہر سے آ کر کوئي کہے کہ میں تمھارے لیے سیکورٹی فراہم کروں گا، تمھاری حفاظت کروں گا، اس شخص کی طرح جو اپنی دودھ دینے والی گائے کی حفاظت کرتا ہے، ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ ہماری سیکورٹی، ملک کے اندر سے حاصل ہونے والی سیکورٹی ہے۔ ہم اپنی سیکورٹی کے لیے کسی پر بھی منحصر نہیں ہیں۔ ہم نے خداداد طاقت، اللہ کے لطف و کرم، خداوند عالم کی توفیق، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی حمایت، قوم کی پشت پناہی، مسلح فورسز کے ذمہ داروں کی استقامت سے یہ سیکورٹی پیدا کی ہے اور اس کی حفاظت کی ہے۔ جو، باہری فوج کے سہارے پر ہے اسے وہی غیر ملکی فوج سخت ایام میں اکیلا چھوڑ دے گي، وہ نہ تو اس کی حفاظت کر سکتی ہے اور نہ ہی کرنا چاہتی ہے۔ خیر تو یہ کچھ جملے، مسلح فورسز کے مسائل کے بارے میں تھے، انھیں ذہن نشین رکھیے گا، فخر کیجیے، اسی کے نقش قدم پر چلیے، اپنے کام کو، خداوند عالم کی مرضی کے مطابق کیا جانے والا کام سمجھیے اور خدا کی خاطر اس کام کو انجام دیجیے۔

اب کچھ جملے حالیہ واقعات کے بارے میں۔ پہلی چیز جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حالیہ کچھ دنوں کے واقعات میں سب سے زیادہ ظلم ملک کی پولیس فورس پر ہوا، رضاکار فورس پر ظلم ہوا، ایرانی قوم پر ظلم ہوا۔ ظلم کیا گيا۔ البتہ قوم اس واقعے میں بھی، پچھلے واقعات کی طرح مضبوطی سے سامنے آئي، پوری طرح مضبوط، ہمیشہ کی طرح، ماضی کی طرح۔ آگے بھی ایسا ہی ہوگا۔ مستقبل میں بھی، جہاں بھی دشمن، خلل ڈالنا چاہیں گے تو جو سب سے زیادہ مضبوطی سے ڈھال بن کر سامنے آئے گا اور سب سے زیادہ موثر واقع ہوگا، وہ ایران کی بہادر اور مومن قوم ہے، وہ میدان میں آئے گي اور میدان میں آ گئي ہے۔ جی ہاں! ایرانی قوم مظلوم ہے لیکن مضبوط ہے، امیر المومنین کی طرح، مولائے متقیان کی طرح، اپنے آقا علی علیہ السلام کی طرح جو سب سے زیادہ طاقتور بھی تھے اور سب سے زیادہ مظلوم بھی تھے۔

یہ واقعہ جو رونما ہوا، اس میں ایک نوجوان لڑکی کی موت ہو گئي، ایک تلخ واقعہ تھا، ہمیں بھی دلی تکلیف ہوئي لیکن اس واقعے پر سامنے آنے والا ردعمل، کسی بھی تحقیق کے بغیر، کسی بھی ٹھوس ثبوت کے بغیر، یہ نہیں ہونا چاہیے تھا کہ کچھ لوگ آ کر سڑکوں پر بدامنی پھیلا دیں، لوگوں کے لیے بدامنی پیدا کر دیں، سیکورٹی کو درہم برہم کر دیں، قرآن کو آگ لگا دیں، پردہ دار خاتون کے سر سے چادر چھین لیں، مسجد اور امام باڑے کو نذر آتش کر دیں، بینک میں آگ لگا دیں، لوگوں کی گاڑیوں کو جلا دیں۔ کسی واقعے پر جو افسوسناک بھی ہے، سامنے آنے والا رد عمل اس بات کا سبب نہیں بن جاتا کہ اس طرح کی حرکتیں کی جائيں، یہ کام نارمل نہیں تھے، فطری نہیں تھے، یہ بلوے، پہلے سے طے شدہ تھے۔ اگر اس لڑکی کا قضیہ نہیں ہوتا تب بھی وہ لوگ کوئي نہ کوئي بہانہ پیدا کر لیتے تاکہ اس سال، مہر مہینے کے اوائل (ستمبر مہینے کے اواخر) میں اس دلیل کے تحت، جو میں عرض کروں گا، ملک میں بدامنی اور فسادات پھیلا سکیں۔ کن لوگوں نے یہ سازش تیار کی ہے؟ میں واضح الفاظ میں اور کھل کر کہتا ہوں کہ یہ دنگے اور بدامنی امریکا اور غاصب و جعلی صیہونی حکومت اور ان کے زرخرید پٹھوؤں کی سازش تھی، انھوں نے بیٹھ کر یہ سازش تیار کی ہے۔ ان کے لیے کام کرنے والوں اور زرخریدوں اور غیر ممالک میں موجود کچھ غدار ایرانیوں نے ان کی مدد کی۔

جیسے ہی ہم کہتے ہیں "فلاں واقعہ غیر ملکی دشمن کی کارستانی ہے۔" بعض لوگوں کو گویا اس "غیر ملکی دشمن" لفظ سے چڑ ہے، جیسے ہی ہم کہتے ہیں: "یہ غیر ملکیوں کا کام تھا، بیرونی دشمن کا کام تھا" یہ لوگ فورا امریکی حفیہ ایجنسی اور صیہونیوں کی ڈھال بن کے کھڑے ہو جاتے ہیں! طرح طرح کے تجزیے، مغالطے میں ڈالنے والے طرح طرح کے بیان دینے لگتے ہیں تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ نہیں، اس معاملے میں غیر ملکی کردار، غیر ملکیوں کا ہاتھ نہیں تھا۔ دنیا میں بہت سے ہنگامے اور بلوے ہوتے ہیں اور یورپ میں، فرانس میں، ہر کچھ عرصے بعد پیرس کی سڑکوں پر بڑے ہنگامے ہوتے ہیں، میں پوچھتا ہوں کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ امریکی صدر اور امریکی ایوان نمائندگان نے بلوائیوں کی حمایت کی ہو؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ وہ پیغام دیں کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ امریکی سرمایہ داری اور امریکی حکومت سے وابستہ ذرائع ابلاغ اور افسوس کہ سعودی حکومت سمیت خطے کی بعض حکومتوں جیسے ان کے پٹھو ان ملکوں میں ہنگامہ کرنے والوں کی حمایت کے لیے دوڑ پڑے ہوں؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ انھوں نے یہ اعلان کیا ہو کہ ہم فلاں ہارڈ ویئر یا انٹرنیٹ کا سافٹ ویئر دنگے پھیلانے والوں کو دیں گے تاکہ وہ آرام سے ایک دوسرے سے رابطہ اور اپنا کام کر سکیں؟! کیا ایسا دنیا کی کسی بھی جگہ پر اور کسی بھی ملک میں ہوا ہے؟ لیکن یہاں ہوا ہے، ایک بار نہیں، دو بار نہیں، بارہا، بار بار ہوا ہے۔ تو کس طرح آپ غیر ملکی ہاتھ نہیں دیکھ پا رہے ہیں؟ کس طرح کوئي ہوش و حواس والا انسان یہ نہ سمجھ پائے کہ ان واقعات کی پشت پر کچھ دوسرے ہاتھ ہیں، کچھ دوسری پالیسیاں کام کر رہی ہیں؟

البتہ وہ لوگ دروغگوئي کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایک انسان دنیا سے چلا گيا لیکن وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ انھیں کوئی دکھ نہیں ہے، بلکہ وہ خوش ہیں، مسرور ہیں، اس لیے کہ انھیں ہنگامہ آرائی کے لیے ایک بہانہ مل گيا ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ 

یہاں پر حکومت، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے سربراہوں نے افسوس کا اظہار کیا، لوگوں سے ہمدردی ظاہر کی، اس کے بعد کچھ خاص عناصر نے، جن کی طرف میں اشارہ کروں  گا، کچھ دوسرے لوگوں کو قتل کر دیا، بغیر کسی جرم کے۔ عدلیہ نے وعدہ کیا کہ وہ  معاملے کی تہہ تک جائے گی، تحقیق کا مطلب یہی تو ہے، یعنی وہ کام کو بیچ میں نہیں چھوڑیں گے، آخر تک جائيں گے تاکہ نتیجہ سامنے آ جائے، دیکھیں کہ کوئي قصوروار ہے یا نہیں ہے اور قصوروار کون ہے. آپ کس طرح ایک ادارے کے خلاف، ایک بڑے خدمت گزار ادارے کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں، اس کی اہانت کرتے ہیں، اس بات کے امکانات کی وجہ سے کہ کسی ایک آدمی سے یا دو لوگوں سے کوئي غلطی ہو گئي ہوگي جبکہ وہ بھی یقینی نہیں ہے، اس کی تحقیق ابھی نہیں ہوئي ہے؟ اس بات کے پیچھے کوئي منطق نہیں ہے، کوئي ٹھوس وجہ نہیں ہے، اس کی، غیر ملکی جاسوسی کی تنظیموں اور خبیث و دشمن سیاستدانوں کی چال کے علاوہ اور کوئي وجہ نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ غیر ملکی حکومتوں کا محرک کیا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ ان کا محرک یہ ہے کہ وہ محسوس کر رہی ہیں کہ ایران ہمہ گیر طاقت کے حصول کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے اور یہ انھیں برداشت نہیں ہے، وہ یہ محسوس کر رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ بحمد اللہ بعض پرانی گرہیں کھلتی جا رہی ہیں۔ البتہ ملک میں بہت سے مسائل ہیں، بعض مسائل کو تو برسوں گزر چکے ہیں لیکن ان مسائل کو برطرف کرنے کے لیے، ان گرہوں کو کھولنے کے لیے سنجیدگي سے کام ہو رہا ہے۔ وہ لوگ ملک میں آگے کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو دیکھ رہے ہیں جن میں تیزی آ گئي ہے، یہ ایک حقیقت ہے۔ تمام میدانوں میں انسان تیزی سے آگے بڑھتے قدموں کا مشاہدہ کر سکتا ہے، محسوس کر سکتا ہے، وہ لوگ بھی اسے محسوس کر رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ بند پڑا کارخانہ چلنے لگا ہے، نالج بیسڈ کمپنیاں سرگرم ہو گئي ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ بعض میدانوں میں پیشرفتہ پیداوار روز بروز سامنے آنے لگي ہے، وہ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ ایسے کام ہو رہے ہیں جو 'پابندیوں کے ہتھیار' کو – اس وقت دشمن کا واحد ہتھیار پابندیاں ہیں – ناکام بنا سکتے ہیں، وہ اس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان بڑھتے قدموں کو روکنے کے لیے انھوں نے بیٹھ کر سازش تیار کی ہے، یونیورسٹی کے لیے سازش تیار کی ہے، سڑک کے لیے سازش تیار کی ہے، دشمن نے سازش تیار کی ہے کہ یونیورسٹی بند ہو جائے، جوان نسل (ہنگاموں میں) مصروف ہو جائے، ملک کے ذمہ داروں کے لیے نئے مسائل پیدا ہو جائيں، ملک کے شمال مغرب میں، ملک کے جنوب مشرق میں کچھ مسائل پیدا ہو جائيں، یہ سب بھٹکانے والی باتیں ہیں، یہ کام اس لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ ملک کی ترقی اور اس کی پیشرفت کو روک سکیں۔ البتہ انھیں غلط فہمی ہے، وہ شمال مغرب میں بھی غلط فہمی کا شکار ہیں اور جنوب مشرق میں بھی غلط اندازے لگا رہے ہیں۔ میں بلوچ قوم کے درمیان رہ چکا ہوں، وہ لوگ دل کی گہرائي سے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے وفادار ہیں۔ کرد قوم، ایران کی پیشرفتہ ترین اقوام میں سے ایک ہے، اپنے ملک سے پیار کرنے والی، اپنے اسلام سے پیار کرنے والی اور اپنے اسلامی نظام سے پیار کرنے والی۔ دشمنوں کی سازش ناکام رہے گي، لیکن وہ اپنا کام کرتے رہیں گے، زہر گھولنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

یہ کام ہمارے دشمنوں کے باطن کو بے نقاب کرتے ہیں۔ وہ دشمن جو اپنے سفارتی بیانوں میں کہتا ہے کہ ہم ایران پر حملے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہم اسلامی جمہوری نظام کو بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہماری آپ سے کوئي دشمنی نہیں ہے اور ہم ایرانی قوم کے حامی ہیں، اس کی اصلیت یہی ہے جس کا آپ مشاہدہ کر رہے ہیں، اس کے باطن میں سازش کی نیت ہے، اس کے باطن میں ہنگامے بھڑکانے اور دنگے کروانے کی نیت ہے، اس کے باطن میں ملک کی سلامتی کو تباہ کرنے کی نیت ہے، اس کے باطن میں ان لوگوں کو ورغلانا ہے جو ممکنہ طور پر معمولی سی بات پر ہیجان میں آ کر سڑکوں پر آ جائيں، اس کی اصلیت یہ ہے۔

وہ صرف اسلامی جمہوریہ کے مخالف نہیں ہیں، وہ سرے سے ایران کے مخالف ہیں۔ امریکا، مضبوط ایران کا مخالف ہے، خود مختار ایران کے خلاف ہے۔ ان کی ساری بحث اور ان کا سارا جھگڑا اسلامی جمہوریہ پر نہیں ہے، البتہ وہ اسلامی جمہوریہ کے کٹر دشمن ہیں، اس میں کوئي شک نہیں ہے، لیکن اسلامی جمہوریہ کے بغیر بھی وہ اس ایران کے مخالف ہیں جو مضبوط اور طاقتور  ہو، اس ایران کے مخالف ہیں، جو خود مختار ہو۔ وہ پہلوی دور کے ایران کو پسند کرتے ہیں: ایسی دودھ دینے والی گائے جو ان کے احکام کی تعمیل کرے اور ملک کا بادشاہ ہر فیصلے کے لیے انگریز سفیر یا امریکی سفیر کو بلانے اور اس سے احکامات لینے پر مجبور ہو! اس عار کو ایرانی قوم کس طرح برداشت کر سکتی ہے؟ وہ یہ چاہتے ہیں، وہ ایران کے مخالف ہیں۔

خیر تو ہم نے عرض کیا کہ منہ زور، یہ لوگ ہیں، بٹن ان کے ہاتھ میں ہے جو پس پردہ ہیں۔ بنابریں جھگڑا باحجاب اور بدحجاب پر نہیں ہے، جھگڑا ایک جوان لڑکی کی موت پر نہیں ہے، جھگڑا یہ ہے ہی نہیں۔ ایسی بہت سی خواتین، جن کا پردہ مکمل بھی نہیں ہے، اسلامی جمہوری نظام کی کٹّر حامی ہیں، آپ دیکھتے ہیں وہ مذہبی رسومات میں، انقلابی تقریبات میں، شرکت کرتی ہیں، بحث ان کی ہے ہی نہیں۔ بحث اسلامی ایران کی خودمختاری، استقامت، مضبوطی اور طاقت کی ہے، اصل بحث اس پر ہے۔

میں ایک دو نکات عرض کر کے اپنی بات ختم کروں۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے سڑکوں پر ہنگامے اور تخریب کاری کی اور کر رہے ہیں، ان سب کو ایک ہی قطار میں نہیں رکھا جا سکتا، ان سب کا حکم یکساں نہیں ہے۔ ان میں بعض وہ بچے اور نوجوان ہیں جنھیں مثال کے طور پر کسی انٹرنیٹ پروگرام سے پیدا ہونے والا ہیجان سڑک پر لے آتا ہے، جوشیلے ہیں، جذباتی ہیں، جذبات میں آ کر سڑک پر آ جاتے ہیں۔ البتہ یہ سب کے سب، مجموعی طور پر بھی، ایرانی قوم اور ایران اسلامی کے مومن اور غیور جوانوں کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں لیکن یہ اتنے سے لوگ بھی جو ہیں، ان میں بھی بہت سے ایسے ہیں جنھیں جوش اور ہیجان سڑکوں پر لے آتا ہے، ان کے مسئلے کو ایک وارننگ اور انتباہ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، یعنی انھیں سمجھایا جا سکتا ہے کہ وہ غلط کر رہے ہیں اور غلط فہمی کا شکار ہیں لیکن ان میں سے بعض ایسے نہیں ہیں، ان میں سے بعض اسلامی جمہوریہ سے چوٹ کھائے افراد کی باقیات ہیں: منافقین، علیحدگي پسند، منحوس پہلوی حکومت کے بچے کھچے عناصر اور نفرت انگیز اور دتکارے گئے ساواک (شاہ کی خفیہ تنظیم) کے ایجنٹوں کے رشتہ دار ہیں، وزارت انٹیلی جنس کے حالیہ بیان نے ان میں سے بعض باتوں کو بڑی حد تک واضح کر دیا ہے۔(2) البتہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔ عدلیہ کو ان کی تخریبی کارروائيوں اور سڑکوں پر امن و امان کو نقصان پہچانے میں ان کے رول کی سطح کے مطابق ان کے خلاف مقدمہ چلانا چاہیے اور ان کی سزا طے کرنی چاہیے۔

ایک دوسری بات یہ ہے کہ ہنگاموں کی ابتدا میں ہی بعض سرکردہ لوگوں نے، ہمدردی کے جذبے کے تحت - انھیں تکلیف ہوئي ہوگي - بغیر کسی تحقیق کے بیان دیا، بیان جاری کیا، بات کی، اظہار خیال کیا - البتہ بغیر تحقیق کیے ہوئے - ان میں سے بعض نے پولیس اور رضاکار فورس پر الزام لگایا، بعض نے پورے نظام کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا، ہر کسی نے الگ طریقے سے کچھ نہ کچھ کیا۔ خیر اس کا حساب الگ ہے لیکن جب انھوں نے یہ دیکھ لیا کہ معاملہ کیا ہے، جب یہ سمجھ گئے کہ دشمن کی سازش کے ساتھ ان کی باتوں کے نتیجے میں سڑک پر اور لوگوں کے راستے میں کیا ہو رہا ہے، تو انھیں اپنے اس کام کی تلافی کرنی چاہیے تھی، انھیں صحیح موقف اختیار کرنا ہوگا، انھیں کھل کر واضح الفاظ میں اعلان کرنا چاہیے کہ جو کچھ ہوا ہے، وہ اس کے خلاف ہیں، انھیں عوام کو یہ باور کرانا چاہیے کہ وہ غیر ملکی دشمن کی سازش کے خلاف ہیں۔ معاملے کی حقیقت واضح ہو گئي ہے۔ جب آپ دیکھتے ہیں امریکا کے سیاسی عناصر ان معاملوں کو برلن کی دیوار سے تشبیہ دے رہے ہیں تو آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ مقصد کیا ہے؟ آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ معاملہ ایک نوجوان لڑکی کی موت پر افسوس کا نہیں ہے، یہ آپ کو سمجھ جانا چاہیے تھا، اگر نہیں سمجھے تو سمجھ جائيے اور اگر سمجھ گئے ہیں تو اپنے موقف کا اعلان کیجیے۔ یہ دوسرا نکتہ تھا۔

اسپورٹس اور آرٹس کے شعبے کے بعض لوگوں نے بھی کچھ اظہار خیال کیا ہے، میری نظر میں اس کی کوئي اہمیت نہیں ہے، اس سلسلے میں حساس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری اسپورٹس کمیونٹی، ایک صحیح و سالم کمیونٹی ہے، ہمارے آرٹسٹوں کا معاشرہ بھی ایک صحیح و سالم معاشرہ ہے۔  اس اسپورٹس اور آرٹس کی کمیونٹی میں مومن، ملک سے پیار کرنے والے اور عزت دار لوگ کم نہیں ہیں، بہت ہیں۔ اگر دو چار لوگ کچھ کہہ دیتے ہیں تو ان کی بات کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اب رہی یہ بات کہ ان کے بیان مجرمانہ فعل کے دائرے میں آتے ہیں یا نہیں تو یہ طے کرنا عدلیہ کے ذمے ہے، لیکن بادی النظر میں تو اس کی کوئي اہمیت اور وقعت نہیں ہے۔ آرٹس اور اسپورٹس کی ہماری کمیونٹی، اس طرح کی باتوں اور دشمن کو خوش کرنے والے اس طرح کے رویوں سے آلودہ نہیں ہوگی۔

میری آخری بات، پولیس اور رضاکار فورس کے شہیدوں، مسلح فورسز کے شہیدوں، سیکورٹی کے دفاع کے شہیدوں، حالیہ شہیدوں اور راہ حق کے تمام شہیدوں پر بے شمار درود و سلام ہے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس پروگرام کے آغاز میں، جو امام حسن مجتبی علیہ السلام آفیسرز اینڈ پولیس ٹریننگ اکیڈمی میں منعقد ہوا، مسلح فورسز کے جنرل اسٹاف کے چیف بريگيڈیئر جنرل محمد باقری، ایرانی فوج کے کیڈٹ کالجوں کے کمانڈر سیکنڈ ایڈمرل آریا شفقت، امام حسین کیڈٹ کالج کے کمانڈر بریگيڈیئر نعمان غلامی اور امام حسن آفیسرز اینڈ پولیس ٹریننگ اکیڈمی کے کمانڈر سیکنڈ بريگيڈیئر پرویز آہی نے رپورٹیں پیش کیں۔

(2) وزارت انٹیلی جنس کے بیان میں جو 30/9/2022 کو جاری ہوا، ملک کے بعض حصوں میں حالیہ دنوں ہونے والے ہنگاموں کی تفصیلات بیان کی گئي ہیں اور بتایا گيا ہے کہ ان ہنگاموں کے دوران منافقین (دہشت گرد تنظیم مجاہدین خلق) کے گروہ سے وابستہ 49 ایجنٹوں، کومولہ، ڈیموکریٹ، پاک اور پژاک جیسے گروہوں سے تعلق رکھنے والے 77 عناصر، تکفیری اور دہشت گرد گروہوں کے پانچ اراکین، بہائي فرقے کے پانچ افراد، منحوس پہلوی حکومت سے وابستہ اور سلطنتی نظام کے خواہاں 92 افراد، 9 غیر ملکیوں، غیر ملکی میڈیا سے وابستہ بعض افراد اور ہسٹری شیٹر 28 غنڈوں اور بدمعاشوں کو حراست میں لیا گيا ہے۔h

t.taghribnews.

حوزہ نیوز ایجنسی | روسی صدر ولادیمیر پوتین نے یوکرین کے بعض علاقوں کے روس میں انضمام کا باضابطہ اعلان کردیا ۔اس اعلان کے ساتھ یہ بھی واضح ہوگیاکہ اس وقت دنیا میں جاری اکثر جنگوں کا مقصد اپنے جغرافیائی حدود میں توسیع کرناہے ۔توسیع پسندی کی ضد نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیاہے ۔جوہری ہتھیاروں کا فروغ عالمی سطح پر اپنی چودھراہٹ کو منوانے اور توسیع پسندانہ فکر کو تقویت پہونچانے کے لئے ہوا تھا ۔آج دنیا کا ہر ملک اپنے حدود میں توسیع کا خواہاں ہے۔خاص طورپر استعماری طاقتیں اپنی توسیع پسندانہ خوابوں کی تعبیر کے لئے دنیا کو جہنم بنانے پر تلی ہوئی ہیں ۔ضروری نہیں ہے کہ روس کی طرح یوکرین کے علاقوں کی طرز پر کسی دوسرے ملک کے علاقے کو اپنے ملک کے حدود میں ضم کرکے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کیاجائے بلکہ موجودہ عہد سرحدی حدود سے آزاد توسیع پسند انہ نظام کا عہد ہے ۔مغربی طاقتوں نے جس طرح شام ،افغانستان ،عراق،یمن اور فلسطین میں خوں ریزی کی اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے عوام کو جنگ کی بھٹّی میں دھکیل دیا گیا،اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اپنی سرحدوں سے ہزاروں میل کے فاصلے پر بھی اپنے نظام کے ماتحت کالونیاں قائم کی جاسکتی ہیں ۔مذکورہ ممالک میں مغربی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے اس لئے ان ملکوں میں استعماری کالونی قائم نہیں ہوسکی ،البتہ ان میں سے بعض ممالک میں نیٹو افواج کی موجودگی اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ مغرب سرحدوں سے بالاتر توسیع پسندی کا قائل ہے ۔

مغرب نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مشرق وسطیٰ کو جنگ کا اکھاڑہ بنادیا۔عالمی استعماری طاقتوں کے خلاف جس طرح مشرق وسطیٰ میں مزاحمتی جدوجہد جاری ہے اس کی نظیر دنیا کے کسی علاقے میں نہیں ملتی ۔افغانستان کے عوام کو دہشت گردی کے گرداب میں چھوڑکر امریکہ فرار کرگیا اور آج پورا ملک داخلی خلفشار کا شکار ہے ۔آئے دن خودکش حملوں کا ہونا یہ بتلارہاہے کہ طالبان حکومت کے لئے نااہل ہیں ۔ایک انتہا پسند تنظیم کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور سونپنے کافیصلہ بغیر کسی حکمت عملی کے نہیں تھا ۔امریکہ افغانستان میں رہتے ہوئے اپنے اہداف کے حصول کے لئے معذورتھا ،اس لئے اس نے بعض ممالک کی ایجنسیوں کے ساتھ ساز باز کرکے طالبان کے خونی ہاتھوں میں افغانستان کا نظام سونپ دیا ۔امید یہ کی جارہی تھی کہ امریکہ طالبان کے ذریعہ ایران اور دیگر سرحدی ممالک کو رام کرنے کی کوشش کرے گا مگر اب تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا ۔طالبان کسی کے وفادار نہیں ہیں ،تاریخ اس کی گواہ ہے ۔

یمن کے حالات بھی افغانستان سے الگ نہیں ہیں ۔اپنے وفادار کو اقتدار سونپنے کی ہوس میں سعودی عرب نے امریکہ کی حمایت سے یمن کو تباہ و برباد کردیا ۔آج یمنی عوام بھکمری اور وبائی امراض کی زد میں ہیں ۔لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے ۔سرچھپانے کے لئے چھت نہیں ہے ۔اسی طرح شام میں خونی کھیل کھیلا گیا ۔بشارالاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے شامی عوام کے سروں پر جنگ تھوپ دی گئی ۔آج حالات یہ ہیں کہ شام میں عجب افراتفری کا عالم ہے ۔کچھ ماہ قبل جب میں شام کے سفر پر تھا ،اس وقت میں نے ملاحظہ کیاکہ شامی عوام کس درجہ کس مپرسی کی زندگی گذاررہے ہیں۔بازار بند پڑے ہیں ۔مہنگائی اور بھکمری شباب پر ہے ۔جابہ جا سڑکوں پر بھیک مانگنے والوں کی فوج امڈ پڑتی ہے ۔لوٹ مار عام بات ہے ۔پولیس کا محکمہ آج بھی عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہے ۔ان حالات کی ذمہ داری استعماری طاقتوں پر عائد ہوتی ہے مگر ان کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔اقوام متحدہ جیسا ادارہ ان کا مرہون منت ہے اس لئے آج تک استعماری نظام کے خلاف کوئی موثر قرارداد پاس نہیں ہوسکی ۔عراق کی موجودہ صورتحال شام اور یمن سے بہت مختلف نہیں ہے ۔البتہ یمن اور شام کے مقابلے میں عراق میں حالت قدرے پرسکون ہیں ۔اس کے باوجود استعماری آلۂ کار آئے دن عراق میں بدامنی کے فروغ کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔

فلسطین کی موجودہ صورتحال ناگفتہ بہ ہے ۔استعماری میڈیا کے ہزار ہا حیلوں اور پروپیگنڈوں کے باجود فلسطینی عوام کی مظلومیت چھپ نہیں سکی ۔اسرائیل فلسطین کے وجود کا منکر ہے اور اس کے اکثر علاقے پر قابض ہوچکاہے ۔مغربی کنارہ پر اسرائیلی مظالم کی داستان انتہائی دلخراش ہے مگر اس داستان کو سننے والا کوئی نہیں ۔’’صدی ڈیل ‘‘ کے ذریعہ یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کرلیا گیا تھا جبکہ یروشلم پر مسلمانوں کا پہلا حق ہے،دنیا اس حقیقت کی معترف ہے ۔’’صدی ڈیل ‘‘ میں اسرائیل اور امریکہ کے منصوبوں کو بعض عرب ممالک نے بھی تقویت پہونچائی تھی ،جس کے شواہد منصہ شہود پر ہیں ۔اسرائیل چاہتاہے کہ فلسطین اس کے زیر اثر رہے ۔اس کے لئے ’’صدی ڈیل ‘‘ کا نفاذ کیا گیا تاکہ فلسطینی عوام سے شہریت کے بنیادی حقوق سلب کرلیے جائیں ۔اس معاہدہ کے تحت فلسطینی عوام کو میونسپلٹی سے لے کر شہری دفاع کے لئے بھی اسرائیل سے مدد طلب کرنی ہوگی اور اس کا معاوضہ ادا کرنا ہوگا ۔افسوس یہ ہے کہ عالم اسلام کے سربراہ ممالک اس معاہدہ میں شامل تھے ۔حماس کے ساتھ اسرائیل کی گیارہ روزہ جنگ میں بھی عرب ممالک کا کردار افسوس ناک رہاتھا۔البتہ حماس نے اس جنگ میں یہ ثابت کردیا کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے جیساکہ اس سے قبل لبنان میں اسرائیل کو پے درپے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔اس کے باوجود اسرائیل اپنے ہم نوا ممالک کے ساتھ مل کر فلسطین کی زمین پر مسلسل اپنے قبضے کو فروغ دے رہاہے اور فلسطینی عوام کو اپنی جارحیت کانشانہ بناتا رہتاہے ۔
واقعیت یہ ہے کہ عالمی استعماری طاقتیں مسلمان ممالک کو اپنے ماتحت دیکھنا چاہتی ہیں ۔ڈونالڈ ٹرمپ نے اس منصوبے کو بہت حد تک پایۂ تکمیل تک پہونچایا تھالیکن عراق اور افغانستان جیسے ملکوں میں اسے بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔یہی صورتحال دیگرجنگ زدہ ممالک میں دیکھی گئی ۔مسلمان ممالک کو اپنے زیر اثر رکھنےکا ایک مقصد ایران جیسی طاقت کو رام کرنا ہے ۔لبنان ،شام ،عراق ،افغانستان ،یمن اور فلسطین پر تسلط قائم کرنے کی تگ و دو اسی لئے تھی تاکہ ایران کو چوطرفہ گھیرلیا جائے لیکن ایرانی جدوجہد کے آگے ہر ملک میں استعماری طاقتوں کو منہ کی کھانی پڑی ۔

ایران میں مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد جس طرح استعماری آلۂ کاروں نے تشدد کو ہوا دی ،اس سے یہ ثابت ہوگیاکہ دشمن اسلامی نظام سے کتنا خوف زدہ ہے ۔مظاہرین نے پولیس اورفوج کے ساتھ زورآزمائی کی ۔سرکاری و ذاتی املاک کو آگ لگادی ۔یہاں تک کہ اسپتالوں اور اسکولوں کو بھی آگ کے حوالے کردیا ۔خواتین نے سرکے بال کاٹ کر آزادی اور خودمختاری کا مطالبہ کیا ۔سوال یہ ہے کہ ایک آزاداور خودمختار ملک میں آزادی اور خودمختاری کا مطالبہ کیوں کیا جارہاہے ؟ظاہر ہے ان مطالبات کے پس پردہ دیگر عوامل کارفرماہیں جن کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے ۔اس سے پہلے بھی ایران میں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف پُر تشدد احتجاج ہوتے رہے ہیں ۔احتجاج کرنا عوام کا جمہوری حق ہے لیکن جب عوام کے درمیان دشمن کے آلۂ کار نفوذ پاجاتے ہیں تو جمہوری حق بھی جمہوریت کے لئے خطرہ میں تبدیل ہوجاتاہے۔

مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں جس طرح تشدد بھڑکایا گیا اس سے ظاہرہوتاہے کہ استعماری طاقتیں ایرانی نظام سے کس قدر خوف زدہ ہیں ۔یہ طاقتیں نہیں چاہتی ہیں کہ ایران دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ اتحاد قائم کرے۔سعودی عرب نے جب جب ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ،استعماری طاقتوں نے اس دوستی میں نفرت کا زہر گھولنے کی کوشش کی ۔کیونکہ استعمار بخوبی جانتاہے کہ اسلامی ممالک کا اتحاد اس کے وجود کے لئے خطرہ بن جائے گا ۔آج روس یوکرین کے بعض علاقوں کے انضمام پر خوشیاں منارہاہے ۔ایسے حالات میں یہ سوال کیا جاسکتاہے کہ آیا اسلامی ممالک کا فکری انضمام ممکن ہے ؟ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے اتحاد سے خوف زدہ رہتی ہیں ۔اس لئے اس اتحاد کو روکنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈنےاستعمال کئے جاتےہیں ۔اگر تمام اسلامی ممالک خاص طورپر ترکی ،سعودی عرب اس کے حلیف ممالک اور ایران باہم متحد ہوجائیں تو استعماری طاقتوں کا وجود خطرے میں نظر آئے گا۔اس طرح توسیع پسندانہ نظام کی جڑیں اکھڑسکتی ہیں ،لیکن اس راہ میں عملی پیش رفت کی ضرورت ہے ،فقط وحدت اسلامی کے زبانی نعروں سے کام نہیں بنے گا۔

تہران : ولی امر المسلمین آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران کے حالیہ واقعات لڑکی کی موت کا فطری ردعمل نہیں بلکہ پیشگی منصوبہ بندی سے کیے گئے مہلک فساد تھے جس کی منصوبہ بندی امریکا اور صیہونی حکومت نے کی تھی۔ فوجی اکیڈمیز میں زیر تعلیم کیڈٹس کی مشترکہ گریجویشن تقریب سے خطاب میں ولی امر مسلمین نے کہا کہ نوجوان لڑکی کی موت تلخ واقعہ تھا، ہمیں بھی دلی تکلیف ہوئی لیکن ردعمل میں یہ نہیں ہونا چاہیے تھا کہ کچھ لوگ آ کر سڑکوں پر بدامنی پھیلا دیں، سیکیورٹی کو درہم برہم کردیں، قرآن کو آگ لگا دیں، پردہ دار خواتین کے سروں سے چادر چھین لیں، مساجد،امام بارگاہیں، بینک اور لوگوں کی گاڑیوں کو جلا دیں۔ یہ واقعات فطری نہیں تھے، یہ دنگے، پہلے سے طے شدہ تھے۔ تازہ ترین پیش رفت کے دوران قانون نافذ کرنے والی فورسز، بسیج اور ایرانی قوم کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔ لیکن حالیہ واقعات کے دوران ایرانی قوم کافی مضبوط ثابت ہوئی ہے اور مستقبل میں جہاں بھی ضرورت پڑی بہادری کے ساتھ منظرعام پر آئے گی۔

افغانستان میں دہشتگردوں کے حملے میں 43 طالبات کی شہادت پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ افغانستان کے مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعہ کے روز کابل کے کاج تعلیمی سینٹر میں ہونے والے دہشت گردانہ خودکش دھماکے میں شہید ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر انچاس ہوگئی ہے، جبکہ 100 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں تینتالیس لڑکیاں اور دو لڑکے شامل ہیں جبکہ چار افراد کی شناخت ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ جس کی وجہ سے شہداء کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ابھی تک کسی بھی گروہ نے اس دہشت گردانہ بم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ گذشتہ مہینوں کے دوران افغانستان کے مختلف علاقوں خاص طور پر کابل میں دہشت گردانہ حملوں اور دھماکوں میں تیزی آئی ہے اور طالبان انتظامیہ سکیورٹی برقرار کرنے کے اپنے تمام دعوؤں کے باوجود اس طرح کے حملوں کو نہیں روک سکی ہے۔ کابل میں زیادہ تر دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری داعش دہشت گرد گروہ نے قبول کی ہے، جبکہ طالبان اس گروہ کو افغانستان کے لئے خطرہ نہیں سمجھتے۔

ادھر افغان طالب علموں کی خواتین اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد نے کابل کے مغرب میں دشت برچی کے علاقے میں ایک مظاہرہ کرکے ہزارہ برادری کے خلاف ٹارگٹڈ دہشت گردانہ حملوں کے خاتمے اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ طالبان حکومت کی افواج نے گولیاں مار کر مظاہروں کو کچل دیا۔ کئی صحافی بھی موقع سے بھاگ گئے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ انسانی حقوق کے نام نہاد محافظوں بالخصوص خواتین نے اس بھیانک جرم کے خلاف خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس کا شکار زیادہ تر لڑکیاں ہیں۔ بے شک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا جو بیس سال سے زائد عرصے سے افغانستان میں جرائم کا ارتکاب کرتے رہے ہیں، یہ اس کا نتیجہ ہے۔ سیاسی امور کے ایک افغان ماہر سید عیسیٰ حسینی کہتے ہیں: “امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے جرائم اور دہشت گردی معمول کی بات ہے۔ خیال رہے کہ امتحان کے دوران طالبات کا قتل امریکی ایجنٹوں نے کیا تھا۔ اس لیے امریکہ کا عدم ردعمل اتنا حیران کن نہیں ہے۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی پامالی کے بارے میں امریکہ کی خاموشی صرف افغانستان تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جیسا کہ یوکرین سے خواتین اور لڑکیوں کی یورپی ممالک میں سمگلنگ، جرائم اور عصمت دری کے بارے میں امریکہ کی بے حسی ہے۔ شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق خواتین کے جنسی استحصال سے سالانہ منافع 7 ارب یورو بنتا ہے اور یوکرین سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے اسمگل ہونے والی لاکھوں خواتین اور لڑکیوں سے حاصل ہونے والا منافع مغربی ممالک کے سرمایہ داروں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ سیاسی امور کے ماہر سوروش امیری کہتے ہیں: “دنیا کے مختلف خطوں میں خواتین مغربی منافع خوروں کی لالچ کا شکار ہیں۔ جنسی استحصال کے بھرپور منافع نے اس سمت میں ایک صنعت کو جنم دیا ہے اور خواتین کے حقوق کے دفاع کے بارے میں ان کا کوئی بھی دعویٰ جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔”

بہرحال افغان لڑکیوں اور خواتین کا اپنی حفاظت کے لیے مظاہرہ ان مظلوموں کی فریاد ہے، جو تاریخی طور پر افغانستان میں حکومتی رویوں اور مختلف گروہوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار رہی ہیں، اس لیے عوام بالخصوص افغان خواتین، طالبان گروپ سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ عوام کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ضروری اقدامات کرتے ہوئے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں۔ افغان عوام کے مخالفین کی طرف سے نسلی اور مذہبی تفریق پیدا کرنے کی کوششوں کے پیش نظر یہ مسئلہ اہم اور مزید قابل توجہ ہے۔

واضح رہے کہ خواتین کے حقوق کے بارے میں مغربی میڈیا کے بیانات زیادہ تر بیان بازی اور سیاسی مقاصد کے لیے ہوتے ہیں اور ان ممالک کا میڈیا دوہرا معیار اپناتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں خواتین کے خلاف جرائم، افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ یوکرین میں بے گھر ہونے والی خواتین کے مصائب اور ان کے جنسی استحصال کو میڈیا میں قابل ذکر کوریج نہیں ملتی اور ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ وہ  ممالک جو مغرب کے اتحادی نہیں، وہاں خواتین کے معاملے کو سیاسی نظام پر کسی دباؤ کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ایران میں حالیہ صورت حال مغربی میڈیا کے دوہرے معیار کی ایک مثال ہے۔ ایران میں مرنے والی مہسا امینی اور افغانستان میں جاں بحق ہونے والی بیسیوں لڑکیوں کے بارے میں مغربی میڈیا کا منافقانہ رویہ روز روشن کی طرح واضح ہے۔

 

 تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

بیروت :حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ امریکا ایران میں اختلافات کے بیج بونے اور دراڑیں ڈالنے کی شیطانی سازشوں پر عمل پیرا ہے۔بیروت سے براہ راست نشر ہونے والے ٹیلی ویژن خطاب میں حسن نصر اللہ نے کہا کہ امریکا ایران میں کسی بھی واقعے کا فائدہ اٹھاتا ہے تاکہ قوم کو اسلامی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اکسایا جا سکے، جسکی مثال ایرانی خاتون کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والا احتجاج ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حمایت یافتہ غنڈوں نے مہسا کی موت سے متعلق غیر واضح حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کو چیلنج کیا کیونکہ ان کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی نام نہاد مہم بری طرح ناکام ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایرانیوں کے خلاف امریکا کی ظالمانہ پابندیوں کا مقصد لوگوں کو اسلامی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا کرنا ہے تاہم ایران اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ امریکی انتظامیہ نے محسوس کیا ہے کہ ایران ایک مضبوط، باوقار اور قابل ملک ہے۔ اور یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے. امریکا اندرونی تنازعات کو ہوا دینے کے بجائے ملک اور بینکوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کی ہمت کیوں نہیں کرتا، ایران کے پاس بڑی صلاحیتیں ہیں، اس لیے امریکا اسلامی جمہوریہ کے خلاف اشتعال انگیزی کے لیے تمام ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ مغربی اور خلیج فارس کے ذرائع ابلاغ اسلامی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لوگوں کو اکسانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

Monday, 03 October 2022 06:41

ہزاروں خواب

اولاد والدین کی آنکھوں کا تارا ہوتی ہے، جسے ماں جیسی عظیم ہستی ایسے پالتی ہے کہ اس کی اپنی ساری خوبیاں اور اچھائیاں اسکی اولاد میں بھی نظر آنے لگتی ہیں اور باپ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے زندگی بھر کا سرمایا اور اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔ یہ ساری قربانیاں اپنی اولاد سے والدین کے بے تحاشا محبت کا نتیجہ ہے۔ وہ اپنے بچوں کو دنیا کا ایک کامیاب انسان دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی شخصیت بنانا چاہتے ہیں کہ جس پر نہ صرف انہیں، بلکہ پوری قوم کو فخر ہو۔ مگر ایک لمحہ کیلئے تصور کیجئے کہ اپنی اولاد کی کامیابی کا خواب دیکھنے والے ایک ایسی ریاست میں کس طرح زندگی گزارتے ہونگے، جہاں کسی کی زندگی کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ان پر تعلیمی اداروں پر بھی حملہ ہو سکتا ہے، مذہبی اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے، مساجد اور عبادت گاہوں کو بھی دھماکے سے اڑایا جا سکتا ہے اور انکے گھروں پر بھی حملے ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں زندگی بسر کرنے والی ہزارہ شیعہ قوم بھی کچھ ایسی ہی صورتحال میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
 
طالبان نے حکومت سنبھالتے ہوئے جس نرم رویہ کا مظاہرہ کیا تھا، اس سے بعض حلقوں میں یہ گمان پایا جا رہا تھا کہ شاید حالات کشیدگی سے بہتری کی طرف نکلنے لگیں گے کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان میں مقیم شیعہ ہزارہ قوم کو مختلف تعصبات کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ان پر حملوں کا تسلسل تو برطانوی راج سے ہی جاری ہے۔ برطانیوی دور حکومت میں ہی افغانستان کے امیر عبدالرحمان نے افغان سنی مفتیوں سے شیعہ کو کافر قرار دینے کے فتوے حاصل کئے تھے، جس کی بنیاد پر انہیں واجب القتل قرار دے کر انکے خلاف جہاد کا نعرہ بلند کر دیا گیا تھا اور اپنی بقاء کی جنگ لڑنے والی ہزارہ شیعہ قوم اپنی سرزمین کو چھوڑ کر دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے پر مجبور ہوگئی۔ عبدالرحمان کے افکار کی پیروی کرنے والوں نے انکا پیچھا پاکستان میں بھی نہیں چھوڑا۔ کوئٹہ میں سانحہ امام بارگاہ کلاں، سانحہ عاشورہ، سانحہ علمدار روڈ، سانحہ ہزارہ ٹاؤن، سانحہ عیدگاہ سمیت مختلف دیگر سانحات، دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں شہادت پانے والوں کی قبروں سے بھرا ہزارہ قبرستان اس کی گواہی دیتا ہے، افغانستان میں بھی جہالت کے مارے لوگ آج بھی شیعہ ہزارہ قوم کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
 
طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھی ایسا لگا کہ شاید برسوں سے جاری رہنے والے اس سلسلے کا خاتمہ ہوگا۔ لوگ اپنے بچوں کی بہتر مستقبل کا خواب پھر سے دیکھنے لگے تھے۔ مگر ان پر حملوں کا تسلسل نہ رک سکا، بلکہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد تو ان حملوں میں مزید اضافہ ہوا۔ تقریباً ہر چند ہفتوں بعد جمعہ کے روز ہزارہ شیعہ قوم کے کسی نہ کسی اجتماع کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جمعہ کے دن کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ یہ حملے مذہبی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ طالبان ظاہراً تو ایک اچھا امیج بنانے کی کوشش کر رہا ہے، مگر ہزارہ شیعہ قوم پر حملوں کا طریقہ کار عین وہی ہے جو طالبان کا طریقہ کار ہوا کرتا تھا۔ ممکن ہے کہ انہی میں سے کسی گروہ کا کام ہو، بہرحال اگر افغانستان پر حکمرانی کرنے والے چاہیں تو اس تسلسل کو روک سکتے ہیں۔ مسلسل دھماکوں کا سلسلہ اور اس پر فقط مذمتی بیانات کے بعد خاموشی یہ ثابت کرتی جارہی ہے کہ افغان حکمران اور عالمی ادارے ہزارہ شیعہ قوم کے خون کو اہمیت دینے اور ان کی حفاظت کو اہمیت ہی نہیں دیتے ہیں۔
 
دو روز قبل کابل کے ہزارہ نشین علاقہ دشت برچی کے ایک تعلیمی ادارے کو بھی جنت کے چکر میں مدہوش خودکش حملہ آوروں نے حملے کا نشانہ بنایا اور 40 کے قریب مستقبل کے معماروں کو شہید کردیا۔ دھماکے کے بعد والدین کی آنکھوں میں آنسوؤں اور بکھرے تمناؤں کو بیان کرنا خود کسی کرب سے کم نہیں ہے۔ جگہ جگہ بکھری لاشوں میں چیخ کر اپنے جگر کا ٹکڑا تلاش کرنے والوں کا درد کوئی اور کیسے سمجھ سکتا ہے۔ انہیں یہ خوف بار بار ستا رہا تھا کہ کہیں انکا جوان کسی ظالم کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔ کابل میں ہر دھماکے کی آواز یا اطلاع پر وہ اپنے بچوں کو فون کرکے انکی خیریت دریافت کیا کرتے ہونگے اور جلدی گھر آنے کا کہتے ہونگے۔ اگر کوئی کسی اور علاقہ سے تعلیم حاصل کرنے کے غرض سے کابل آیا ہوگا اور اس کا فون بند جا رہا ہوگا تو پریشانی کے اس عالم کو بھی قلم بند کرنا آسان نہیں ہے۔ انکے والدین انہیں درسگاہ بھیجتے ہوئے اس سوچ میں تھے کہ انکے بچے مستقبل کی امید ہیں۔ یہ دنیا کو فکر اور شعور سے روشن کردیں گے۔
 
درسگاہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرنے اور بہتر انسان بن کر اپنی سرزمین کے لئے کام کرنا چاہتے تھے۔ ان طلباء نے تعلیم حاصل کرنے کے لئے ساری عمر کتنی جدوجہد کی ہوگی۔ طالبان حکمرانوں کے زیر تسلط کتنی مشکلات کا سامنا کیا ہوگا، مگر انہوں نے کتاب کا دامن نہیں چھوڑا۔ کاش کوئی کفر کے فتوؤں کے ٹھیکیداروں کو یہ بھی سمجھا دے کہ دین اسلام امن کا نام ہے، انہیں کوئی پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں بتائے کہ حضرت محمد (ص) کا رویہ کیسا تھا اور افغانستان کے ان جاہل دہشتگردوں کا رویہ کیسا ہے، حملہ آوروں نے صرف دلوں میں علم حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے طلباء کو نہیں، بلکہ پوری قوم کے مستقبل کو بھی قتل کردیا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے والوں کے بے شمار خواب اور ان کے خوابوں سے وابسطہ نہ جانے کتنے ایسے خواب تھے جو کابل کی جامعہ میں دھماکے کے ساتھ چور چور ہو کر زمین پر بکھر گئے۔ اپنی تعبیر کو ترسنے والے ہزاروں خواب بھی طلباء کے ساتھ کابل کے دھماکے میں شہید ہوگئے۔