سلیمانی

سلیمانی

 امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے مسجد خدیجة الکبری بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں استقبال ماہِ محرم کی مجلس سے خطاب کیا۔انہوں نے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر محزون ہونے اور گریہ کرنے کی وجوہات واثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ تاریخِ انسانی ظلم کی داستانوں سے بھری پڑی ہے، یہاں تک کہ کئی انبیاء کو ان کی امت کے افراد نے دردناک طریقہ سے قتل کیا لیکن ان کے قتل پر ہم گریہ و ماتم نہیں کرتے؛تو پھرامام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے کی وجہ کیاہے، کیوں ہماری حالت دگرگوں ہوتی ہے اور ایام عزا کے دوران ہم ایک خاص قسم کی کیفیت کے زیرِ اثر رہتے ہیں ۔ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت وہ غم ہے کہ جس نے پورے انسانی معاشرہ کو متغیر کیا ہے اور اس کے اثرات ہر گزرتے دن کے ساتھ عمیق تر نظر آتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی موت پر غمزدہ ہونا انسانی فطرت ہے۔عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام سینکڑوں سال قبل انتقال کر چکے ہیں ۔آج بھی ان کے یومِ وصال پر ویٹی کن سٹی میں لاکھوں کی تعداد میں عیسائی جمع ہوتے ہیں اور سکوت کے ذریعہ ان سے وابستگی اور احترام کا اظہار کرتے ہیں لیکن اس عمل کے نتیجہ میں ان کے اندر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا سوگ منانے کا مطلب محض سیاہ لباس میں ملبوس ہو کر کھڑے رہنے کا نام نہیں!

 ماہِ محرم کے آغاز سے ہی ہمارا قلب درد و حزن کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ ہماری روح اس درد سے متصل ہو جاتی ہے اور جی نہیں چاہتا کہ خوشی کا اظہار کریں۔ غمِ حسینؑ وہ کیفیت ہے جس سے انسان کی زندگی کا اسلوب تبدیل ہو جاتا ہے۔اس بات کی وضاحت کے لئےنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام بہترین مثال ہے جو ہماری احادیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہے۔آپؐ فرماتے ہیں: ان لقتل الحسین حرارۃ فی قلوب المؤمنین لا تبرد ابدا۔اللہ نے ایک ایسا شعلہ اہلِ ایمان کے قلوب میں پیدا کر دیا ہے کہ جب کسی صاحبِ ایمان شخص کو قتلِ حسینؑ کی خبر پہنچتی ہے تو اس کی حرارت اُس کے دل میں ہمیشہ کے لئےزندہ ہو جاتی ہے۔یعنی اللہ تعالی نے حسینؑ ابن علیؑ کے لئے ایک خاص اہتمام کیا ہےجس کی وجہ سے نبی کریمؐ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔

علامہ امین شہیدی نے"مودتِ حسینؑ "کوانسان کے ارتقاء کا معیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ روح کے زندہ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان باتوں پر ردِ عمل ظاہر کرے جن میں اللہ کی چاہت شامل ہو۔جسم کی نسبت روح کی ضروریات کا تعلق انسانیت سے ہے۔ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ جسمانی طور پر زندہ لیکن روحانی طور پر مردہ ہوں۔ انسانی زندگی دراصل الہی زندگی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کہا ہےکہ وہ لوگ جو ان باتوں پر ایمان لائے، جن کی اللہ کے رسولؐ نے دعوت دی ہے تویہ دعوت انہیں زندہ کر دے گی۔ یہ خطاب دراصل زندہ انسانوں سے ہے، مُردوں سے نہیں۔ اسی طرح حسینؑ ابن علیؑ کو دل میں بسانے کے لئے جس زندگی کی ضرورت ہے وہ مادی و بدنی زندگی نہیں ہے۔یہ وہ زندگی ہے جس میں روح زندہ ہواورجس کی روح زندہ ہے، وہ امام حسینؑ سے وابستہ ہے۔ جس شخص کی زندگی ملکوتی ہے، اس کا عشق اور محور و مرکز حسینؑ ابن علیؑ کی ذات ہے۔اس پاکیزہ زندگی کا اثر مادی زندگی سےیکسر مختلف ہے۔ یاد رکھئے کہ ارتقائی منازل طے کرنے کے لئےحسینؑ ابن علیؑ سے عشق کرنا ضروری ہےاور اس سفرکی پرواز کے لئے جو پَر درکار ہیں ان کا نام "مودتِ علیؑ و آلِ علیؑ" اور "مودتِ حسینؑ" ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تحریک منہاج القرآن پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شان اہلبیت اطہارؑ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیدنا فاروق اعظمؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سوا ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا“ یعنی ہر ایک کے نسب اور آل کو فنا ہے مگر نسب فاطمہ اور آلِ فاطمہ دائمی ہے۔ اس لئے کہ نسب فاطمہ نسب مصطفیؐ ہے اور آلِ فاطمہ آلِ مصطفیؐ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسین ؑکا نبی کریم ؐ کے ساتھ رشتہ نانا اور نواسے کا ہے مگر حضور نبی اکرمؐ نے اس رشتے کی نوعیت بدل دی۔ حضرت فاطمۃ الزہرہ سے روایت ہے کہ آقاؐ نے فرمایا ”ہر ماں کی اولاد اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے سوائے فاطمہ کی اولاد کے، پس میں ان کا ولی ہوں اور میں ان کا نسب ہوں“۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ اسی پاکیزہ نسبت کی وجہ سے رب کائنات نے نماز جیسی عبادت جو خالصتاً اللہ کے لئے ہے اس میں بھی آلِ محمد ؐ پر درود پڑھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ اہلبیت اطہارؑ کی فضیلت یہ ہے کہ نماز اللہ کی عبادت ہے اس میں کسی غیر کا ذکر بھی روا نہیں، کسی غیر کا ذکر اگر نماز کے دوران آ جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا شخص، کوئی پیر طریقت، کوئی قطب کوئی غوث بھی آ جائے تو ہم حالت نماز میں ادباً دھیان کر کے اُسے اسلام علیکم نہیں کہہ سکتے ایسا کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے مگر دوران نماز آلِ محمد ؐپر سلام نہ بھیجیں تو نماز نہیں ہوتی۔

،رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایران میں حالیہ دنوں سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصان پر ایک پیغام جاری کیا۔

پیغام کا متن، درج ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ملک کے بہت سے مقامات پر خوفناک اور تباہ کن سیلاب نے بہت سے لوگوں کو جانی و مالی اور جذباتی نقصان پہنچایا ہے۔ میں اس حادثے کے تمام غم رسیدہ لوگوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں اور ملک کے محترم عہدیداروں سے ان نقصانات کی تلافی کے لیے ضروری تدابیر اختیار کرنے کی سفارش کرتا ہوں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بڑی تیزی سے عہدیداروں کے پہنچنے اور سیلاب زدہ افراد کی مدد کے لیے عوامی یا سرکاری امدادی ٹیموں کی کوششوں کا شکریہ ادا کرنا بھی میں ضروری سمجھتا ہوں۔ ان دردناک آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اس طرح کے خدا پسندانہ اقدامات اور لگاتار کوششیں، ہم سب کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ میں خداوند عالم سے سبھی کے لیے توفیق کی دعا کرتا ہوں۔

سید علی خامنہ ای
30 جولائي 2022

یاد رہے ایرانی ہلال احمر سوسائٹی کے سربراہ کے مطابق، ایران میں حالیہ سیلاب کے نتیجے میں 56 افراد جاں بحق اور 18 افراد لاپتہ ہوگئے ہیں۔گزشتہ ہفتے سے اب تک ملک کے 21 صوبوں میں سیلاب آیا ہے اور کل رات سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے لرستان، چہارمحل اور بختیاری، اصفہان، یزد اور تہران تھے۔

رپورٹ کے مطابق، صوبہ مازندران میں سیلاب میں جاں بحق ہونے والے تین افراد کے ساتھ مجموعی طور پر جان کی بازی ہارنے والے ہم ایرانیوں کی کل تعداد 56 اور لاپتہ افراد 18 تک پہنچ گئی ہے۔

ولی پور نے مزید کہا کہ اب تک 3700 سے زائد افراد کو ہنگامی رہائش فراہم کی گئی ہے اور تقریباً 2500 افراد کو بھی محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔

واقعہ کربلا انسانی تاریخ کا وہ واحد اور عظیم سانحہ ہے، جو نہ اس سے پہلے وجود میں آیا تھا اور نہ آئندہ آئے گا۔ اس کی عظمت اور بزرگی کی واضح دلیل یہ ہے کہ چودہ سو سال کے بعد بھی اس کی  تازگی ایسے ہی ہے جیسے کل ہی دنیا میں رونماء ہوا ہو۔ واقعہ کربلا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا اور سرزمین کربلا، شہداء کربلا کے خون سے رنگین نہ ہوتی تو تمام انبیاء کی کوششیں رائیگاں جاتیں اور انسانوں کی ہدایت کے لئے بنایا گیا الہیٰ نظام ناکارآمد ثابت ہوتا۔ واقعہ کربلا صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک عظیم انقلاب ہے، جو بشریت کی نجات، حریت اور سعادت کی ضمانت ہے۔ ہم اس عظیم انقلاب کی اہمیت کو انسانی تاریخ کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسانی تاریخ مجموعی طور پر شخص واحد کی مانند ہے، جو بچپن سے لیکر پڑھاپے تک سوچ، سمجھ اور فہم و فکر کے مختلف مراحل طے کرتا ہے۔ جس طرح انسان بچپن میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے، اس طرح انسان نے ابتدائی تاریخ میں پڑھاپے میں قدم کیوں نہ رکھا ہو، اس کی فکر کمزور اور عقل ناقص تھی۔ جوں جوں تاریخ کے ادوار بدلتے آئے ہیں، انسانوں کی عقل تکمیلی مراحل طے کرتی آئی ہے اور رسول اکرم کے دور میں انسان فہم، سوچ، سمجھ اور عقل و فکر کے اعتبار سے اس مقام تک پہنچا کہ وہ اپنی ہدایت کے وسائل خود سنبھال سکتا تھا، اس لئے اللہ نے انبیاء کے سلسلے کو ختم کر دیا۔ شریعت اور الہیٰ مکاتب بھی ان تعلیمی مراکز کی مانند ہیں، جس میں بچے کے بچپن کے دور سے لے کر اعلیٰ تعلیمی مراحل تک ہر دور کے لئے خاص تعلیمی نظام کا بندو بست کیا جاتا ہے۔

جب انسان یورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے گریجویٹ ہوتا ہے تو اس میں ہر قسم کی سوچ سمجھ آجاتی ہے، اس کو نفع اور نقصان کی پہچان ہوتی ہے، اپنی کامیابی کے تمام اسباب اور علل سے واقف ہوتا ہے اور جو چیزیں اس کی کامیابی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، ان سے آگاہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ زیادہ فائدہ اور مستقبل کے فائدے کو دیکھ کر کم فائدہ اور عارضی نفع کو نظر انداز کرنے کی صلاحیت بھی انسان کی اندر آجاتی ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں انسان، الہیٰ مکتب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکا تھا اور اس کی عقل کافی حد تک تکمیل کے مراحل میں پہنچ چکی تھی۔ انبیاء الہیٰ کی بے شمار قربانیوں اور شب و روز محنت کے نتیجے میں انسان مجموعی طور پر اپنی ہدایت کے اسباب اور سعادت کے وسائل سے مکمل آگاہ ہوگیا تھا اور ہدایت کے خواہشمند افراد کی ہدایت کی ضمانت ہوچکی تھی۔

انسانوں کی ہدایت اور سعادت کے تمام عوامل اور مقدمات فراہم ہوچکے تھے، لیکن مشکل موانع اور رکاوٹوں میں تھی، کیونکہ انسان کی ہدایت کے راستے میں دو طرح کے موانع حائل ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ موانع ہیں، جو کھل کر سامنے آتے ہیں اور انسان کو انبیاء الہیٰ کی تعلیمات کے توسط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مانع ہے اور یہ اس کو ترقی کی بلندیوں کی طرف جانے سے روکتا ہے۔ اگرچہ وہ موانع  انسان کی خواہشات نفسانی کے ساتھ سازگار ہوں اور اس کا نفس یہی چاہتا ہو، لیکن انسان کی سوچ سمجھ اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ وہ ان دلفریب چیزوں کو اپنی ترقی اور کامیابی کی خاطر نظر انداز کرسکتا ہے۔ لیکن دوسرے وہ موانع ہیں، جو معاون کی شکل میں سامنے آتے ہیں، وہ ظاہری طور پر اور بادی النظر میں انسان کی کامیابی اور سعادت کے لئے فرشتہ نجات ثابت ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں انسان کی ہدایت کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ان کی پہچان بہت مشکل کام ہے، یہ انسان کے کے لئے ایک کٹھن مرحلہ ہے۔

اب اللہ نے انسانی کی ہدایت کے تمام اسباب فراہم کرنے کے علاوہ وہ موانع جو واضح اور آشکار طور پر ظاہر ہوتے ہیں، ان کی پہچان کی بصیرت بھی دی ہے، لیکن باطل جب حق کا لباس اڑھ لیتا ہے، مانع معاون کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور فتنے کا اندھیرا فضا ہوتا ہے، اس وقت ایک ایسی عظیم قربانی کی ضرورت تھی، جو رہتی دنیا تک حق اور باطل کی شناخت انسانوں کے لئے واضح کر دے اور باطل کے چہرے سے حق کا لبادہ اٹھا لے اور باطل کے چہرے کو سب کے لئے نمایاں کر دے۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کی قربانی ایسی قربانی تھی، جس نے باطل کا چہرہ سب کے لئے واضح کر دیا، اب ہر قسم کے موانع چاہے معاون کی شکل میں سامنے آئیں، انسان کو اس کی پہچان میں مشکل نہیں ہوگی۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی شہادت نہ ہوتی تو تمام انبیاء کرام کی کوششیں رائیگاں جاتیں اور ہدایت کا الہیٰ انتظام کارآمد نہ ہوتا۔

تحریر: مولانا فدا حسین ساجدی

 محرم الحرام سن 1444 ہجری قمری کا چاند پیغمبر اسلام (ص)  کے اہلبیت (ع ) کی کربلا کے میدان میں دین اسلام کو بچانے کے سلسلے میں عظیم قربانی کی یاد لیکر نمودار ہوگیا ہے۔  نبی کریم حضرت محمد مصطفی (ص) کے نواسے کی کربلا کے میدان میں عظیم قربانی کی  یاد اسلامی جمہوریہ ایران  سمیت پورے عالم اسلام میں عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جاتی ہے جس میں لوگ بلا تفریق مذہب و ملت شرکت کرتے ہیں۔ 

 ایران میں محرم الحرام کا چاند نظر آ گیا ہے اور آج بروز ہفتہ یکم محرم ہے جبکہ پاکستان اور ہندوستان میں محرم الحرام 1444 ہجری قمری کا چاند نظر نہیں آیا ہے اس لئے پاکستان اور ہندوستان میں  کل 31 جولائی بروز اتوار کو اسلامی کلینڈر کی پہلی تاریخ یعنی یکم محرم ہے اور یوم عاشورا 9 اگست کو ہو گا۔

رپورٹ کے مطابق۔ ایران کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مختلف مساجد و امام بارگاہوں کو سیاہ پوش کر دیا گیا اور ہر طرف مجالس عزا کا سلسلہ جاری ہے اور پوری فضا یا حسینؑ یا اباالفضلؑ کے نعروں سے گونج رہی ہے۔

محرم الحرام میں ایران، عراق، پاکستان، ہندوستان، یورپ، امریکہ، سعودی عرب، خلیجی ممالک، شام، اردن، ترکی اور دیگر ممالک میں مؤمنین مذہبی جوش و جذبہ اور عقیدت کے ساتھ عزاداری میں حصہ لیتے ہیں۔

مہر خبر رساں ایجنسی، صوبائی ڈیسک: ماہ محرم کا عطر و بو مکمل طور پر چار سو پھیل چکا ہے، عشق و ولولے سے بھر پور مہینہ، وہ مہینہ جسے ہر سال پہلے سے زیادہ حرارت کے ساتھ منایا جاتا ہے اور یہ سب کچھ حضرت امام حسین ﴿ع﴾ کی ذات مقدسہ کی وجہ سے ہے۔ 

اس مہینے کی آمد پر ملک بھر میں عزاداری کی مجالس منعقد ہوتی ہیں اور لوگ دل و جان سے نواسہٴ رسول کے مصائب پر آنسو بہاتے ہیں۔ 

تاہم حسین ابن علی ﴿ع﴾ کی عظمت کا وہاں اندازہ ہوتا کہ لوگوں کی آپ سے عقیدت صرف اہل تشیع کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہم نے بارہا بار عالمی خبروں میں دیکھا اور سنا ہے کہ بقیہ ادیان کے پیروکار بھی امام حسین ﴿ع﴾ کے غم میں آنسو بہاتے ہیں۔ 

صوبہ خراسان شمالی میں بھی اہل سنت نواسہٴ رسول سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔ 

امام حسین ﴿ع﴾ نے اپنے جد امجد کے دین کا دفاع کیا

مقامی شہر کے اہل سنت امام جمعہ و جماعت رحیم آخوند صمدی نے اس سلسلے میں مہر نیوز کے نامہ نگار سے کہا کہ اہل بیت سے محبت رسول اللہ ﴿ص﴾ کی اپنے اصحاب کو سب سے اہم وصیت تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلاتردید اسلامی تاریخ کے طول و عرض میں پیغمبر اکرم کے اہل بیت ایمان کا لاینفک جزء رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ائمہ اطہار کو ہر قسم کی پلیدی سے دور اور پاک و مطہر کیا ہے۔ 
آخوند صمدی نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا یہ مؤمنوں اور مسلمانوں کا سب سے اہم عنصر اور سب سے بہتر اسوہ ہے کہ اپنی زندگی اور ایمان کو ائمہ کی پاکیزگی اور طہارت سے جانچیں اور انہیں اپنی ایمانی، دنیوی اور اخروی زندگی کے لئے اسوہ قرار دیں۔

اس اہل سنت عالم دین کا کہنا تھا کہ اہل سنت میں بے شمار بچوں کے نام علی، حسن، حسین، رضا اور فاطمہ کے مبارک ناموں پر رکھے جاتے ہیں اور یہ دین مبین اسلام کی ان عظیم ہستیوں سے مودت و محبت کی علامت ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کے اہل بیت اور ان کی اولاد صدر اسلام اور تاریخ کے مختلف ادوار میں ہمیشہ مسلمانوں کے مرجع رہیں ہیں، لہذا اس بنا پر ہم اہل سنت پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کے اہل بیت میں سے سید الشہدا حضرت امام حسین ﴿ع﴾ سے خاص محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ کیونکہ آپ ﴿ع﴾ نے اس دور کے ظالموں اور جارح قوتوں کے خلاف قیام کیا اور اپنے جد امجد کے دین کا دفاع کیا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دیا۔  

امام حسین ﴿ع﴾ اسلامی معاشرے کی وحدت کا سبب ہیں

ایک اور مقامی اہل سنت امام جمعہ و جماعت محمد آخوند خادمی نے بھی مہر نیوز کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﴿ص﴾ نے امام حسن اور امام حسین ﴿ع﴾ کو جنت کے جوانوں کا سردار قرار دیا ہے۔ امام حسین نے پوری دنیا کے لوگوں کو حریت، پائیداری، شہادت اور عشق کا درس دیا ہے، اس انداز میں کہ موت کے بارے میں فرمایا کہ میرے نزدیک موت، ظلم و ستم کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔

آخوند خادمی نے مزید کہا کہ امام حسین ﴿ع﴾ کسی صرف کسی ایک خاص فرقے یا مذہب سے مخصوص نہیں ہیں اور یہ امر خود اسلامی معاشرے میں وحدت و اتفاق کا باعث بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ علما اور دین کا درد رکھنے والے تمام افراد کو چاہئے کہ جدید نسل کو امام حسین کے کردار و سیرت اور اخلاق سے آگاہ کریں کیونکہ آپ کا قیام انسانوں اور خاص طور پر جدید نسل کو بے شمار درس دیتا ہے۔

 روسی خبر رساں ادارے اسپوٹنگ کے نامہ نگار نے رپورٹ دی ہے کہ آج بدھ کے روز علی الصبح شام کے صوبہ الحسکہ میں موجود امریکہ کا سب سے بڑا فوجی بیس کیمپ متعدد شدید دھماکوں سے لرز اٹھا۔

رپورٹ کے مطابق دھماکوں کے بعد امریکی اتحاد کے ہیلی کاپٹروں نے علاقے کی فضائی حدود میں وسیع پیمانے پر پروازیں شروع کردیں۔

مقامی ذرائع کے اعلان کے مطابق یہ دھماکے آج علی الصبح تیل سے مالا مال شہر الشدادی کے شمالی اور مغربی مضافات میں ہوئے جہاں پر صوبہ الحسکہ میں امریکی افواج کا سب سے بڑا فوجی بیس کیمپ ہے۔ امریکی افواج اس بیس کیمپ کو تیل کے اخراج کو کنٹرول کرنے اور البتہ شام کا تیل چوری کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ 

اس رپورٹ کے مطابق دھماکوں کے بعد آگ کے شعلے آسمان کی جانب اٹھے جس کے متعلق قوی امکان ہے کہ اس فوجی بیس کیمپ پر میزائل حملے کا نتیجہ تھے۔

قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکی افواج نے صوبہ الحسکہ میں اپنے غیر قانونی بیس کیمپ کی سیکورٹی کو مزید مضبوط کیا تھا۔ شامی ذرائع نے علاقے میں مزید دو امریکی فوجی دستوں کی آمد کی خبری دی تھی۔ 

حالیہ دنوں میں مقامی ذرائع نے امریکی افواج کی صوبہ الحسکہ کے شمال مغربی علاقوں فوجی مشقیں بڑھانے کی خبر دی تھی۔ ان علاقوں میں امریکی افواج کے علاوہ کرد ڈیموکریٹک فورسز ﴿قسد﴾ کے کمانڈ بیس بھی موجود ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملک بھر کے آئمہ جمعہ و جماعات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران اسلامی نے دین و سیاست کی جدائی کے نظریے کو جو مغربی تمدن کی شناخت کا مرکزی نقطہ تھا، باطل کر دیا ہے اور یہ اسلامی جمہوریہ ایران کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔

رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران نے اسلامی جمہوریت کے نعرے کو نہ صرف زندہ رکھا ہے بلکہ وہ اپنی ترقی و پیشرفت کی منزلیں طے کرکے، دین و سیاست کو ناسازگار بناکر پیش کرنے کی طویل مغربی کوششوں کے سامنے مضبوط رکاوٹ بن گیا ہے۔ 

آپ نے امریکہ کو صیہونیوں اور سرمایہ دارانہ نظام کا شوکیس قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مغربی طاقتوں کی مافیا جس میں صیہونی اور صیہونی سرمایہ دار سر فہرست ہیں، جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں اور اسلامی جمہوریہ نظام پر ضربیں لگانے کی مسلسل ناکام کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے حالیہ دنوں میں عید غدیرخم کے تہوار میں مختلف فرقوں اور طبقوں سے کروڑوں افراد کی شرکت کو ایک عجیب و غریب واقعہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس جشن میں ہر قسم کے لوگ موجود تھے اور سب ظاہری اختلافات کے باوجود دین کے حامی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ایران کے عظیم کام کو مغربی تہذیب کے تشخص کا مرکزی نقطہ یعنی(سیاست کو دین سے الگ کرنا) کو باطل کرنا قراردیتے ہوئے کہا کہ ایران نے دین کے نعرے کے ساتھ نہ صرف اپنے آپ کو محفوظ رکھا بلکہ اس نے ایران کی ترقی کے ساتھ دین اور سیاست کو متضاد ظاہر کرنے کے لیے مغرب کی طویل المدتی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ اسی لیے مغربی طاقتوں کا مافیا جس کی سربراہی صیہونیوں اور ان کے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے اور امریکہ ان کا شوکیس ہے۔ اس حقیقت پر غصے میں ہیں اور ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران پر ضربہ لگانے کی مسلسل منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

انہوں نے ایک سوال اٹھایا کہ کیوں امریکہ اور برطانیہ کے سرکاری میڈیا بیک وقت حجاب کے بہانے سے خواتین کے موضوع پر حملہ آور ہوتے ہیں؟ اور کیا مغرب حقیقی طور پر ایرانی خواتین کے حقوق کا مدافع ہے؟ مغرب اگر حتی پانی کو ایرانی عوام پر ممنوع کر سکتا تھا، کرتا تھا۔ جیسا کہ اس نے ایپی ڈرمولیس بلوسا کا شکار ایرانی بچوں کیلئے دوا پر پابندی عائد کی ہے، اب مغرب ایرانی خواتین کے خیرخواہ ہیں؟

آیت اللہ خامنہ ای نے بتایا کہ مغرب بہت سالوں سے کہتا ہے کہ جب تک عورت اخلاقی اور مذہبی اقدار سے آزاد نہ ہوجائے تب تک وہ ترقی نہیں کر سکتی اور اعلیٰ سائنسی، سیاسی اور سماجی درجے پر نہیں پہنچ سکتی ہے۔ لیکن ایرانی خواتین نے گزشتہ 40 سالوں میں اپنے اسلامی حجاب کے ساتھ سائنسی ، سماجی، کھیلوں، سیاسی، انتظامی، معاشی اور ثقافتی میدانوں میں کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔

سحر نیوز/ عالم ا سلام: واضح رہے کہ پیر کے روز حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کاریش آئل اور گیس فیلڈ پر اسرائیل کے قبضے کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بارے میں  حزب اللہ کا رد عمل، اسرائیل اور امریکا کے رویہ پر منحصر ہوگا۔

انہوں نے کہا تھا کہ حزب اللہ، اس آئل فیلڈ سے اسرائیلا کو تیل نکالنے سے روکنے کے لئے ہر قیمت چکانے کو  تیار ہے۔

المیادین ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اس چینل سے گفتگو کرتے ہوئے سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ صرف کاریش ہی نہیں بلکہ ہر فیلڈ تک حزب  اللہ کی رسائی ہے اور اسرائیل میں کوئی ایسا نکتہ نہیں ہے جو اسلامی مزاحمتی گروہوں کے گائیڈیڈ میزائلوں کی رینج میں نہ ہو۔

حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کے انتباہ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے جنرل عاموس گلعاد کا کہنا تھا کہ سید حسن نصر اللہ کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہمیں تیار رہنا ہوگا۔

ایران کے ادارۂ ایٹمی توانائی کے سربراہ محمد اسلامی نے اقوام متحدہ کی ایٹمی ایجنسی آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی کے حالیہ بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 2015 کو ہوئے ایٹمی معاہدہ کی بحالی تک ایرانی ایٹمی تنصیبات میں لگے اقوام متحدہ  کے ایٹمی نگراں ادارے کے کیمرے بند رہیں گے، ایران پر الزامات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، اگر الزامات کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ان کیمروں کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔

اس سے قبل اقوام متحدہ کے ایٹمی توانائی کے نگران ادارے کے سربراہ  نے  جون میں یو این کو خبردار کیا تھا کہ 27 نگرانی کرنے والے کیمرے ایجنسی کے بورڈ آف گورنر میں مغربی ممالک کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کے بعد اتارے جا رہے ہیں۔

محمد اسلامی نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اعتراضات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تہران نے کبھی بھی آئی اے ای اے کی طرف سے بنائے  گئے طریقہ کار کی مخالفت کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی نہیں کی اور یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔

اس سے  پہلے ایران کی وزارت خارجہ  کے ترجمان ناصر کنعانی نے گروسی  کے بیان پر ردعمل میں کہا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران آئی اے ای اے اور این پی ٹی کا کئی برسوں سے رکن ہے اور اس نے بین الاقوامی ایجنسی کے نمائندوں کو اپنی تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت دی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ادارے کے سربراہ رافائل گروسی نے ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے۔