سلیمانی

سلیمانی

امریکی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے غزہ میں تل ابیب کی وحشیانہ جارحیت کو، دفاعی عمل قرار دیا ہے۔ اس بیان میں واشنگٹن کی جانب سے غاصب صیہونی حکومت کی مکمل حمایت اور صیہونیوں کی بمباری کو نظرانداز کرتے ہوئے فریقین سے کشیدگی سے دور رہنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے بھی غزہ پٹی پر غاصب اسرائیلیوں کے حملے کو اپنی حفاظت اور حق کا دفاع قرار دیا تھا۔

ادھر، روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے غزہ پر بمباری کے سلسلے کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان کی جانب سے جاری شدہ بیان میں زور دیکر کہا گیا ہے کہ غزہ پر صیہونی حکومت کے حملوں کا کوئی جواز نہیں ہے اور اسے فورا روکنے کی ضرورت ہے۔

دریں اثنا، غزہ کی صورتحال کے پیش نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بعض ارکان نے اس ادارے کی ہنگامی نشست کا مطالبہ کیا ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل رکن چین بھی ان ممالک میں شامل ہے جس نے اس نشست پر زور دیا ہے۔ فرانس، آئرلینڈ، ناروے اور چین سمیت متحدہ عرب امارات نے بھی ہنگامی نشست کا مطالبہ کیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق سلامتی کونسل کی یہ نشست پیر کے روز متوقع ہے ۔

واضح رہے کہ اب تک ایران، عراق، سعودی عرب، ترکی، الجزائر، تونس، اردن، قطر اور کویت نے غزہ کے مظلوم عوام پر صیہونیوں کے بھیانک حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔امریکہ اور بین الاقوامی اداروں کی خاموشی کی آڑ میں غاصب صیہونی حکومت نے غزہ پر حملے جاری رکھے ہیں۔ صیہونی فضائیہ کے حملوں میں مظلوم فلسطینی عوام کے گھر مسمار اور عام شہری اور معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران اور برصغیر پاک و ہند سمیت پوری دنیا میں نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری عروج پر پہنچ چکی ہے۔

کربلائے معلی سے ہمارے نمائندے نے بتایا ہے کہ نواسہ رسول حضرت امام حسین اور علمدار کربلا حضرت ابوالفضل العباس علیہم السلام کے روضہ ھای مبارک ، بین الحرمین اور اطراف کی سڑکیں ماتمی دستوں، زائرین اور عزاداروں سے مملو ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر سے بہت بڑی تعداد میں زائرین کربلائے معلی پہنچے ہیں جن میں ہندوستان اور پاکستان کے ہزاروں زائرین بھی شامل ہیں۔

ایران اسلامی میں آج اتوار کو نو محرم ہے اور اس مناسبت سے مشہد مقدس، قم اور دارالحکومت تہران سمیت پورے ملک میں مجالس اور نو محرم کے مخصوص جلوسہائے عزا نکالے جانے کا سلسلہ جاری ہے ۔

دوسری جانب پاکستان اور ہندوستان میں آج آٹھ محرم کے مخصوص ماتمی دستے اور جلوس برآمد ہورہے ہیں ۔

کراچی، لاہور، ملتان، کوئٹہ، اور پشاور سمیت پاکستان کے تقریبا سبھی چھوٹے بڑے شہروں میں آٹھ محرم کے مخصوص ماتمی جلوس برآمد ہوئے ہیں جو اپنے مخصوص راستوں سے ہوتے ہوئے، مختلف امام بارگاہوں اور مساجد کی جانب رواں دواں ہیں جہاں پہنچ کے یہ جلوس عظیم الشان حسینی اجتماع میں تبدیل ہوجائیں گے ۔

ادھر ممبئی، حیدرآباد، بنگلور، دہلی، لکھنؤ، پٹنہ اور کولکتہ سمیت ہندوستان کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں سے بھی آٹھ محرم کے مخصوص جلوس برآمد کئے جارہے ہیں ۔ ہندوستان کے مختلف شہروں میں آٹھ محرم کے ماتمی جلوسوں میں بہت بڑی تعداد میں غیر مسلم عزاداروں کے دستے بھی شامل ہیں۔

سپاہ پاسداران نے اتوار کے روز اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ناجائز صیہونی ریاست کی غلط فہمی فلسطین کی اسلامی مزاحمت کو مضبوط اور قابض صہیونیوں کے خاتمے کو مزید قریب تر بنا دے گی۔

بیان میں اسرائیل کو جعلی، نسل پرست اور بچوں کی قاتل حکومت قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ نئی فوجی کارروائی اور فلسطینی مزاحمتی کمانڈروں کے قتل، جو کہ امریکہ اور دیگر غیر انسانی حکومتوں کی حمایت سے ہو رہے ہیں، نے ایک بار پھر صیہونیوں اور ان کے حامیوں کی خطے اور اس سے باہر جارحانہ نوعیت، مجرمانہ اور غیر انسانی حکومتوں کا بے نقاب کر دیا ہے۔

سپاہ پاسداران نے اپنے بیان میں غزہ کے خلاف جاری اسرائیلی جارحیت کو ایک غلط اندازہ اور اقدام قرار دیا ہے جس کا مقصد مزاحمت کی طاقت اور فلسطینی قوم کے خلاف ہمہ گیر جنگ کی صورت میں اس کے ردعمل کے معیار کا جائزہ لینا ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جرائم کا تسلسل بعض عرب ریاستوں کی جانب سے حکومت کے ساتھ روابط کو معمول پر لانے اور استکباری طاقتوں کی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا نتیجہ ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ معمول پر آنا نہ صرف ناجائز صیہونی ریاست کی سلامتی کو یقینی بنانے میں ناکام رہے گا بلکہ اس سے فلسطین کے غاصبوں کے خلاف مسلم ممالک کی مزاحمت میں بھی اضافہ ہوگا۔

سپاہ پاسداران نے القدس شہر کی آزادی کے ساتھ ساتھ تمام گروہوں کی شرکت والی ایک آزاد فلسطینی حکومت کی تشکیل کے لیے ایرانی قوم سمیت عالم اسلام کی طرف سے ہر طرح کی حمایت کی اہمیت پر زور دیا۔

بیان میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ناجائز صیہونی ریاست کے جرائم پر بے عملی کو روکیں اور فلسطینی عوام کے حقوق کی پاسداری میں مدد کریں۔

سپاہ پاسداران نے ناجائز صیہونی ریاست کے خلاف فلسطینیوں کی بغاوت کی حمایت کا اظہار کیا جسے انتفاضہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور کہا کہ فلسطینی عوام بلاشبہ نسل پرست صیہونیوں کے خلاف فتح حاصل کر کے ابھریں گے اور اپنی سرزمین کو آزاد کرائیں گے۔

توحید کا عقیدہ صرف ایک مسلمان کے ذہن اور فکر پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ یہ عقیدہ اس کے تمام حالات شرائط اور تمام پہلوؤں پر اثر ڈالتا ہے۔ خدا کون ہے؟ کیسا ہے؟ اور اس کی معرفت و شناخت ایک مسلمان کی فردی اور اجتماعی اور زندگی میں اس کے موقف اختیار کرنے پر کیا اثر ڈالتی ہے؟ ان تمام عقائد کا اثر اور نقش مسلمان کی عملی زندگی میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
ہر انسان پر لازم ہے کہ اس خدا پر عقیدہ رکھے جو سچا ہے اور سچ بولتا ہے، اپنے دعووں کی مخالفت نہیں کرتا ہے جس کی اطاعت فرض ہے اور جس کی ناراضگی جہنمی ہونے کا موجب بنتی ہے ۔ ہر حال میں انسان کے لئے حاضرو ناظر ہے، انسان کا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اس کے علم و بصیرت سے پوشیدہ نہیں ہے.... یہ سب عقائد جب ”یقین “ کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں تو ایک انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ مؤثر عنصر بن جاتے ہیں۔ توحید کا مطلب صرف ایک نظریہ اور تصور نہیں ہے بلکہ عملی میدان میں” اطاعت میں توحید “ اور” عبادت میں توحید“ بھی اسی کے جلوہ اور آثار شمار ہوتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام پہلے ہی سے اپنی شہادت کا علم رکھتے تھے اور اس کے جزئیات تک کو جانتے تھے۔ پیغمبر نے بھی شہادت حسین علیہ السلام کی پیشینگوئی کی تھی۔ لیکن اس علم اور پیشین گوئی نے امام کے انقلابی قدم میں کوئی معمولی سا اثر بھی نہیں ڈالا اور میدان جہادو شہادت میں قدم رکھنے سے آپ کے قدموں میں ذرا بھی سستی اور شک و تردید ایجاد نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ سے امام کے شوق شہادت میں اضافہ کیا،امام اسی ایمان اور اعتقاد کے ساتھ کربلاآئے اور جہاد کیا اور عاشقانہ انداز میں خدا کے دیدار کے لئے آگے بڑھے، جیسا کہ امام سے منسوب اشعار میں آیا ہے :
ترکت الخلق طرّا فی هواکا
واٴیتمت العیال لکی اراکا
کئی موقعوں پر آپ کے اصحاب اور رشتہ داروں نے خیرخواہی اور دلسوزی کے جذبہ کے تحت آپ کو عراق اور کوفہ جانے سے روکا اور کوفیوں کی بے وفائی اور آپ کے والد اور برادر کی مظلومیت اور تنہائی کو یاد دلایا گرچہ یہ سب چیزیں اپنی جگہ ایک معمولی انسان کے دل میں شک و تردید ایجاد کرنے کے لئے کافی ہیں لیکن امام حسین علیہ السلام روشن عقیدہ، محکم ایمان اور اپنے اقدام و انتخاب کے خدائی ہونے کے یقین کی وجہ سے ناامیدی اور شک پیدا کرنے والے عوامل کے مقابلے میں کھڑے ہوئے آپ فقاء الٰہی اور مشیت پروردگار کو ہر چیز پر مقدم سمجھتے تھے، جب ابن عباس نے آپ سے درخواست کی کہ عراق جانے کے بجائے کسی دوسری جگہ جائیں اور بنی امیہ سے ٹکر نہ لیں تو امام حسین نے بنی امیہ کے مقاصد اور ارادوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ” انی ماض فی امر رسول اللهصلی الله علیه وآله وسلم و حیث امرنی وانا لله وانا الیه راجعون“ اور یوں آپ نے رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی پیروی اور خدا کے جوار رحمت کی طرف بازگشت کی جانب اپنے مصمم ارادہ کا اظہار کیا، اس لئے کہ آپ کو اپنے راستے کی حقانیت اور خدا کے وعدوں کے صحیح ہونے کا یقین تھا۔
” یقین“ دین خدا اور حکم شریعت پر محکم اعتقاد کے ظہور کا نام ہے گوہر یقین جس کے پاس بھی ہو اس کو مصمم اور بے باک بنا دیتا ہے عاشورہ کا دن جلوہ گاہ یقین تھا اپنے راستہ کی حقانیت کا یقین، دشمن کے باطل ہونے کا یقین ،قیامت و حساب کے برحق ہونے کایقین، موت کے حتمی اور خدا سے ملاقات کا یقین، ان تمام چیزوں کے سلسلے میں امام اور آپ کے اصحاب کے دلوں میں اعلی درجہ کا یقین تھا اور یہی یقین ان کو پایداری، عمل کی کیفیت ،اور راہ کیانتخاب میں ثابت قدمی کی راہنمائی کرتا تھا۔
کلمہ ”استرجاع“ ( انا لله وانا الیه راجعون) کسی انسان کے مرنے یا شہید ہونے کے موقع پر کہنے کے علاوہ امام حسین کی منطق میں کائنات کی ایک بلند حکمت کو یاد دلانے والا ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ ” کائنات کا آغاز و انجام سب خدا کی طرف سے ہے “ آپ نے کربلا پہونچنے تک بارہا اس کلمہ کو دہرایا تا کہ یہ عقیدہ ارادوں اور عمل میں سمت و جہت دینے کا سب بنے۔
آپ نے مقام ثعلبیہ پر مسلم اور ہانی کی خبر شہادت سننے کے بعد مکرر ان کلمات کو دوہرایا اور پھر اسی مقام پر خواب دیکھا کہ ایک سوار یہ کہہ کر رہا ہے کہ ” یہ کاروان تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور موت بھی تیزی کے ساتھ ان کی طرف بڑھ رہی ہے“ جب آپ بیدار ہوئے تو خواب کا ماجرا علی اکبر کو سنایا تو انھوں نے آپ سے پوچھا ” والدگرامی مگر ہم لوگ حق پر نہیں ہیں؟ “ آ پ نے جواب دیا ” قسم اس خدا کی جس کی طرف سب کی بازکشت ہے ہاں ہم حق پر ہیں“ پھر علی اکبر نے کہا ” تب اس حالت میں موت سے کیا ڈرنا ہے؟ “ آپ نے بھی اپنے بیٹے کے حق میں دعا کی۔[1]
طول سفر میں خدا کی طرف بازگشت کے عقیدہ کو بار بار بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اپنے ہمراہ اصحاب اور اہل خانہ کو ایک بڑی قربانی وفداکاری کیلئے آمادہ کریں، اس لئے کہ پاک و روشن عقائد کے بغیر ایک مجاہد حق کے دفاع میں آخر تک ثابت قدم اور پایدار نہیں رہ سکتا ہے۔
کربلا والوں کو اپنی راہ اور اپنے ہدف کی بھی شناخت تھی اور اس بات کا بھی یقین تھا کہ اس مرحلہ میں جہاد و شہادت ان کا وظیفہ ہے اور یہی اسلام کے نفع میں ہے ان کو” خدا“ اور ”آخرت“ کا بھی یقین تھا اور یہی یقین ان کو ایک ایسے میدان کی طرف لے جارہا تھا جہاں ان کو جان دینی تھی اور قربان ہونا تھا جب وہب بن عبد اللہ دوسری مرتبہ میدان کربلا کی طرف نکلے تو اپنے رجز میں اپنا تعارف کرایا کہ میں خدا کی پر ایمان لانے والا اور اس پر یقین رکھنے والا ہوں۔[2]
مدد و نصرت میں توحید اور فقط خدا پر اعتماد کرنا، عقیدہ کے عمل پر تاثیر کا ایک نمونہ ہے اور امام کی تنہا تکیہ گاہ ذاکردگار تھی نہ لوگوں کے خطوط، نہ ان کی حمایت کا اعلان اور نہ ان کی طرف آپ کے حق میں دیئے جانے والے نعرے، جب سیاہ حر نے آپ کے قافلہ کا راستہ روکا تو آپ نے ایک خطبہ کے ضمن میں اپنے قیام یزید کی بیعت سے انکار اور کوفیوں کے خطوط کا ذکر کیا اور آخر میں سے گلہ کرتے ہوئے فرمایا ” میری تکیہ گاہ خدا ہے اور وہ مجھے تم لوگوں سے بے نیاز کرتا ہے ” سیغنی اللہ عنکم“[3] آگے چلتے ہوئے جب عبد اللہ مشرقی ملاقات کی اور اس نے کوفہ کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگ آپ کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تو آپ نے جواب میں فرمایا ” حسبی الله ونعم الوکیل“[4]
عاشور کی صبح جب سیاہ یزید نے امام کے خیموں کی طرف حملہ کرنا شروع کیا تو اس وقت بھی آپ کے ہاتھ آسمان کی طرف بلند تھے اور خدا سے مناجات کرتے ہوئے یوں فرمارہے تھے ”خدایا! ہر سختی اور مشکل میں میری امید اور میری تکیہ گاہ تو ہی ہے، خدایا! جو بھی حادثہ میرے ساتھ پیش آتا ہے اس میں میرا سہارا تو ہی ہوتا ہے، خدایا! کتنی سختیوں اور مشکلات میں تیری درگاہ کی طرف رجوع کیا اور تیری طرف ہاتھ بلند کئے تو تو نے ان مشکلات ک دور کیا“[5]
امام کی یہ حالت اور یہ جذبہ آپ کے قیامت اور نفرت الٰہی پر دلی اعتقاد کا ظاہری جلوہ ہے اور ساتھ ہی دعا و طلب میں توحید کے مفہوم کو سمجھاتا ہے۔
دینی تعلیمات کا اصلی ہدف بھی لوگوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے چنانچہ یہ مطلب شہداء کربلا کے زیارتناموں خاص کر زیارت امام حسین میں بھی بیان ہوا ہے ۔ اگر زیارت کے آداب کودیکھا جائے توان کا فلسفہ بھی خدا کا تقرب ہی ہے جو کہ عین توحید ہے امام حسین کی ایک زیارت میں خدا سے مخاطب ہو کے ہم یوں کہتے ہیں کہ ”خدایا! کوئی انسان کسی مخلوق کی نعمتوں اور ہدایا سے بہرہ مند ہونے کے لئے آمادہ ہوتا ہے اور وسائل تلاش کرتا ہے لیکن خدایا میری آمادگی اور میرا سفر تیرے لئے اور تیرے ولی کی زیارت کے لئے ہے اور اس زیارت کے ذریعہ تیری قربت چاہتا ہوں اور انعام وہدیہ کی امید صرف تجھ سے رکھتا ہوں۔[6]
اوراسی زیارت کے آخر میں زیارت پڑھنے والا کہتا ہے ! خدایا! صرف تو ہی میرا مقصود سفر ہے اور صرف جو کچھ تیرے پاس ہے اس کو چاہتا ہوں ” فالیک فقدت وما عندک اردت“
یہ سب چیزیں شیعہ عقائد کے توحیدی پہلو کا پتہ دینے والی ہیں جن کی بنا پر معصومین علیہم السلام کے روضوں اور اولیاء خدا کی زیارت کو خدا اور خالص توحید تک پہونچنے کے لئے ایک وسیلہ اور راستہ قراردیا گیا ہے اور حکم خدا کی بنا پر ان کی یاد منانے کی تاکید کی گئی ہے۔
[1] بحار الانوار،ج/۴۴،ص/۳۶۷
[2] بحار الانوار،ج۴۵،ص/۱۷، مناقب،ج/۴،ص/۱۰۱
[3] موسوعہ کلمات امام حسین،ص/۳۷۷
[4] موسوعہ کلمات امام حسین،ص/۳۷۸
[5] بحار الانوار،ج/۴۵،ص/۴
[6] تہذیب الاحکام، شیخ طوسی،ج/۶،ص/

امام مظلوم(ع) کی مجالس عزا کہ جو عقل کے جہل پر، عدل کے ظلم پر، امانت کے خیانت پر اور اسلامی حکومت کے طاغوتی حکومت پر غالب آنے کا ذریعہ ہیں کو حتی المقدور پورے ذوق شوق کے ساتھ منعقد کیا جائے۔ عاشورا کے خون سے رنگین پرچموں کو ظالم سے مظلوم کے انتقام کی علامت کے طور پر بلند کیا جائے۔
آئمہ اطہار علیھم السلام اور خاص کر کے امام مظلوم سید الشھداء (ع) کی عزاداری کے پرگراموں سے ہر گز غفلت نہیں کی جائے۔
مجالس عزا کو اسی طریقے سے جیسے اس سے پہلے انجام پاتی تھی برپا کیا جائے۔
مجالس عزا کو ، ماتمی دستوں کو جیسا سزاوار ہے محفوظ رکھا جائے۔
آئمہ اطہار (ع) کی مجالس عزا کی حفاظت کریں۔ یہ ہمارے مذہبی شعائر بھی ہیں اور سیاسی شعائر بھی، ان کو محفوظ رکھا جائے۔ یہ اہل قلم آپ کو بازیچہ نہ بنائیں۔ یہ لوگ آپ کو بازیچہ نبائیں اپنے مختلف انحرافی مقاصد کے ذریعے ، یہ لوگ چاہتے ہیں آپ سے ہر چیز کو چھین لیں۔
مجالس کو اپنی جگہ پر ہی برپا ہونا چاہیے۔ مجالس کو عمل میں لانا چاہیے اور اہل منبروں کو چاہیے کہ شہادت امام حسین (ع) کو زندہ رکھیں۔ قوم کو ان دینی شعائر کی قدر جاننا چاہیے۔ خاص کر کے عزاداری کو زندہ رکھیں عزاداری سے ہی اسلام زندہ ہے۔
ہمیں ان اسلامی سنتوں کی، ان اسلامی دستوں کی کہ جو روز عاشورا یا محرم اور صفر کے دوسرے دنوں میں سڑکوں پر نکل کر عزاداری کرتے ہیں حفاظت کرنا چاہیے۔ سید الشھداء کی فداکاری اور جانثاری ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا ہے۔ عاشورا کو زندہ رکھنا اسی پرانی اور سنتی روایتوں کے ساتھ، علماء اور خطباء کی تقاریر کے ساتھ، انہیں منظم دستوں کی عزاداری کے ساتھ بہت ضروری ہے۔ یہ جان لو کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری تحریک باقی رہے روایتی عزاداری کو محفوظ رکھو۔
علماء کی ذمہ داری ہے کہ مجالس پڑھیں۔ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ منظم دستوں میں گھروں سے باہر نکلیں۔ اور ماتم سید الشھدا کریں۔ البتہ جو چیزیں دین کے خلاف ہیں ان سے پرہیز کریں۔ لیکن ماتم کریں اپنے اجتماعات کی حفاظت کریں یہ اجتماعات ہیں کہ جو ہماری حفاظت کر رہے ہیں یہ آپسی اتحاد ہے جس نے ہمیں زندہ رکھا ہے۔
وہ لوگ ہمارے پاک دل جوانوں کو دھوکہ دیتے ہیں ان کے کانوں میں آکر کہتے ہیں اب رونے کا کیا فائدہ؟ اب گریہ کر کے کیا کریں گے؟
یہ جلوس جو ایام محرم میں سڑکوں پر نکلتے ہیں انہیں سیاسی مظاہروں میں تبدیل نہ کرنا۔ مظاہرے اپنی جگہ ہیں۔ لیکن دینی جلوس سیاسی جلوس نہیں ہیں بلکہ ان سے بالاتر ہیں، وہی ماتم، وہی نوحہ خوانی،وہی چیزیں ہماری کامیابی کی علامت ہیں۔
پورے ملک میں مجالس عزا برپا ہونا چاہیے، سب مجلسوں میں شریک ہوں سب گریہ کریں۔
انشاء اللہ روز عاشورا کو لوگ گھروں سے نکلیں گے امام حسین (ع) کے تعزیانے اٹھائیں اور جلوس میں صرف عزاداری کریں گے۔
خدا ہماری قوم کو کامیابی عطا کرے کہ وہ اپنی پرانی روایتوں کے ساتھ عاشورا میں عزاداری منائے۔ ماتمی دستے اپنے زور و شور کے ساتھ باہر نکلیں اور ماتم اور نوحہ خوانی بھی شوق و ذوق کے ساتھ ہو اور جان لو کہ اس قوم کی زندگی اسی عزاداری کے ساتھ ہے۔

منبع: قيام عاشورا در كلام و پيام امام خمينى، (تبيان، آثار موضوعى امام، دفتر سوم) تهران: مؤسسه تنظيم و نشر آثار امام خمينى، چاپ دوم، 1373.

source : www.tebyan.net

یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے سینیئر رکن محمد علی الحوثی نے فوجی تربیت کے ایک کورس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سعودی جارح اتحاد کو مخطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دسیوں ہزار بہادر فوجی سعودی، اماراتی اور امریکی طاغوتیوں کی جانب سے کسی بھی قسم کی جارحیت یا نئے حالات مسلط کر نے کے لئے ہونے والی تمام تر کوششوں کا میدان جنگ میں سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ 

الحوثی کا کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ ہم شکست قبول کرلیں۔ جنگ کو روکنا اور محاصرہ ختم کرنا ہوگا، بصورت دیگر ہم اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے تیار ہیں اور کسی بھی چیز سے اور اسی اسلحے کے ساتھ مقابلہ کرنے سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے جسے جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہاتھوں میں اٹھا کر مقابلہ کیا تھا۔  

المسیرہ کی رپورٹ کے مطابق اس تقریب میں فوجی پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا اور تربیت یافتہ فوجی جوانوں نے اپنی عسکری مہارتوں کا مظاہرہ کیا۔ محمد علی الحوثی کے علاوہ تقریب میں مرکزی عسکری علاقے کے کمانڈر محمد خالق الحوثی، قومی حکومت کے وزیر اعظم عبد العزیز بن حبتور، وزیر دفاع ناصر العاطفی، صنعا کے میئر حمود عباد اور یمنی مسلح افواج کے ترجمان یحی سریع بھی موجود تھے۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ ایٹمی جنگ میں کوئی فریق کامیابی حاصل نہیں کرسکتا اور ایسی جنگ کبھی نہیں چھڑنی چاہیے۔

 معاہدہ جوہری عدم پھیلاؤ کانفرنس کے شرکاء سے خطاب میں پیوٹن نے کہا کہ ایٹمی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوسکتا، ایسی جنگ کبھی نہیں چھڑنی چاہیے، ہم عالمی برادری کے تمام ارکان کے مکمل اور غیر منقسم سکیورٹی کے لیے پرعزم ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی نے عالمی میڈیا سے نقل کیاہےکہ امریکہ نے دعویٰ کیاہےکہ القاعدہ کا لیڈر ایمن الظواہری امریکی کے ڈرون حملے میں مارا گیا۔امریکی میڈیا کے مطابق امریکہ نے ایمن الظواہری کو اتوار کے روزکابل میں ڈرون حملے سے نشانہ بنایا۔

رپورٹ کے مطابق، ایمن الظواہری نے القاعدہ کے بانی لیڈر اسامہ بن لادن کی موت کے بعد  تنظیم کی کمان سنبھالی تھی۔

اطلاعات کے مطابق صدر جو بائیڈن کچھ دیر بعد ٹیلی وژن پرامریکی کارروائی سے آگاہ کریں گے۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔

 یہی وہ فضلِ عظیم ہے جس کی بشارت پروردگار اپنے بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے ایمان اختیار کیا ہے اور نیک اعمال کئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو اور جو شخص بھی کوئی نیکی حاصل کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کردیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدرداں ہے

آیه 23 سوره شوری