سلیمانی

سلیمانی

مہر نیوز کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ روز تہران ایمرجنسی سینٹر کے اہلکار اربعین کے زائرین کی خدمت کے لئے ۴ سرحدی نقاط؛ مہران، چذابہ، شلمچہ، قصر شیرین کی طرف روانہ ہوگئے۔ اہلکاروں کی روانگی کے موقع پر ایران کی ایمرجنسی آرگنائزیشن کے سربراہ جعفر میعاد فر، تہران ایمرجنسی سینٹر کے سربراہ یحیی صالح طبری اور دیگر اہلکار موجود تھے۔ 

تہران ایمرجنسی سینٹر نے اپنے ۷۰ اہلکاروں کو روانہ کیا جن کے ساتھ ۲١ ایمبولینسز، ۲ ایمبولینس بسیں، ۷ موٹر لانسز، ایک ریڈیو کمیونیکیشن گاڑی، ایک بیک اپ گاڑی اور ایک موبائل ریپیرنگ گاڑی بھی زائرین کی خدمت کے لئے روانہ کی ہے۔ 

مرکزی اربعین کمیٹی میں ایک ہیلتھ کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جو ایران کی ایمرجنسی آرگنائزیشن کے سرابرہ جعفر میعادفر کے زیرِ نگرانی کام کر رہی ہے۔ 

مہر کے نامہ نگار نے ہیلتھ کمیٹی کے اقدامات کی اپڈیٹس معلوم کرنے کے لئے جعفر میعاد فر سے بات کی۔ 

انہوں نے اس سلسلے میں بتایا کہ اربعین کی ہیلتھ کمیٹی دو مشرقی ﴿میرجاوہ اور ریمدان﴾ اور چھ مغربی سرحدوں پر زائرین کی طبی ضرورتوں کے لئے خدمات انجام دے رہی ہے۔ 

معیاد فر کا کہنا تھا کہ صوبہ سیستان و بلوچستان کے میرجاوہ اور ریمدان باڈر پر پاکستانی زائرین کی میزبانی کر رہے ہیں اور زائرین کے ایران میں محض داخل ہوتے ہی ان کا طبی معائنہ اور ضروری اقدامات ہو رہے ہیں۔ وہاں سے زائرین کو شلمچہ باڈر بھیجا جا رہا ہے جہاں سے وہ عراق میں داخل ہو جائیں گے۔ 

ایرانی ایمرجنسی آرگنائزیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سرحدی نقاط پر ایمرجنسی آرگنائزیشن کے ٹیکنشنز بھی موجود ہیں اور طبی سہولیات فراہم کرنے کے لئے تمام صوبوں کے عملے سے بھی مدد لی جار رہی ہے۔ 

انہوں نے کہا طبی ٹیمیں موکبوں کی نگراںی کر رہی ہیں اور ساتھ ہی سینڈرومک بیماری، ہنگامی طبی سرگرمیاں اور زخمیوں کی اسپتالوں اور فلیڈ ہاسپٹلز منتقلی بھی ہیلتھ کمیٹی کے فرائض میں شامل ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ عراق میں طبی سہولیات کی ذمہ داری حلال احمر کے ذمے ہے تاہم ایمرجنسی آرگنائزیشن کا طبی عملہ اور ڈاکٹرز حلال احمر کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور وزارت صحت کے تمام کارکن عراق میں حلال احمر کے تحت زائرین کو طبی اور صحت کے حوالے سے خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ 

میعادفر نے کہا کہ ملک کے ۴ سرحدی نقاط پر دو سے زائد ہیلی کاپٹرز زائرین کو خدمات فراہم کرنے کے لئے تیار رکھے گئے ہیں جبکہ ۲ ہوائی جہازوں کو بھی تعینات کیا گیا ہے تا کہ اگر عراق یا باڈرز پر زخمیوں کی تعداد زیادہ ہوجائے اور ایمبولینس نہ بھیج سکیں تو ان جہازوں کے ذریعے ذخمیوں کو منتقل کیا جاسکے۔ 

آخر میں میعاد فر نے کہا کہ چاروں سرحدی نقطے اور عراق میں وزارت صحت کے اہلکار نگرانی کر رہے ہیں جبکہ ہم نے مناسب تعداد میں ایئر ایمبولنس کی پیش بینی کی ہے تا کہ ممکنہ زخمیوں کو طبی مراکز میں منقل کرنے کے لئے ایک سیکنڈ بھی ضائع نہ ہو۔

 

ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں ولی فقیہ کے نمائندے آیت اللہ مصطفی محامی نے مہر کے نامہ نگار کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہماری عزیز ہمسایہ قوم پر جو سیلاب کی مصیبت آئی ہے اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اپنے پیاروں کو کھودیا ہے اور سیلاب نے وسیع تباہی پھیلائی ہے، میں پاکستان کے مصیبت زدہ اور غم زدہ لوگوں کو ان سانحات پر تعزیت پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام نقصانات کا جلد ہی ازالہ کیا جائے اور تمام مسلم اقوام اور ایران عوام سے اپیل کی کہ پاکستان میں اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کو نکلیں اور اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کریں۔  

ولی فقیہ کے نمائندہ سیستان و بلوچستان نے زور دے کر کہا کہ اربعین حسینی کے موقع پر صوبہ سیستان و بلوچستان کے شریف عوام کو پاکستانی زائرین کی میزبانی کی توفیق ملی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سالوں میں میرجاوہ باڈر پر پاکستانی زائرین کی میزبانی کی جاتی تھی اور سہولیات کم تھیں جبکہ اس سال الحمد للہ صورتحال بہت بہتر ہے، خاص طور ایک وسیع زائر سرا تعمیر ہوچکی ہے جس میں زائرین کی پذیرائی کے تمام سہولیات فراہم ہیں۔ 

آیت اللہ محامی نے مزید کہا کہ صوبے کے حکام، مذہبی تنظیموں اور موکب چلانے والوں نے گزشتہ سالوں سے جو تجربات حاصل کئے ہیں وہ سبب بنے ہیں کہ پاکستانی زائرین کی پذیرائی کے لئے سہولیات کو بہتر انداز میں منظم کیا جائے۔ 

انہوں نے کہا کہ کرونا سے پہلے والے والے سالوں میں بھی نہ صرف میر جاوہ بلکہ خود زاہدان شہر، ریمڈان باڈر اور مشہد مقدس کے راستوں میں بھی زائرین کی خدمت کے موکب اور متعدد مراکز قائم کئے جاتے رہے تھے۔

ایڈمیرل شہرام ایرانی نے اتوار کے روز جنوبی شہر بندرعباس میں آرمی کی اسٹریٹجک بحریہ میں بہتر سطح اور زیر زمین جنگی سازوسامان شامل کرنے کے نئے آلات میں ہتھیاروں کی رفتار اور استحکام کو بہت اہم قرار دیا۔

انہوں نے سطحی اور زیر زمین سازوسامان کی ترقی یافتہ صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ بحری جہاز جو آج ایرانی بحریہ کے ساتھ دو مختلف سطحوں، سطح اور زیر زمین پر شامل ہوئے ہیں، پہلے سے زیادہ صلاحیتوں کے حامل ہیں اور یہ کہ ان بحری جہازوں کی نقل و حرکت کا نظام جدید ہتھیاروں کی رفتار اور استحکام سے لطف اندوز ہوں۔

ایرانی ایڈمیرل نے کہا کہ تمام آلات کو جدید بنا دیا گیا ہے اور میزائل طاقت کے میدان میں جنگی طاقت کو بہتر بنانے کے لحاظ سے اسے دوگنا کر دیا گیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سائنسی بنیادوں کے تازہ ترین تجربات جو اس میدان میں ہمارے سائنسدانوں کے ہاتھ پہنچ چکے ہیں، اس سازوسامان پر لاگو کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آبدوزوں کے میدان میں غدیر آبدوز جو کہ ہمارے علاقے میں مکمل طور پر کام کرنے والی آبدوز ہے، بحریہ کی جنگی افواج میں شامل ہو گئی ہے۔

انہوں نے اسٹرٹیجک بحریہ کے ڈرون بردار جہازوں کے بیڑے کا حوالہ دیا اور کہا کہ ڈرون بردار بحری جہازوں کے بیڑے کو شمالی بحر ہند میں فوج کے کمانڈر انچیف کی موجودگی میں ایک مشق کے دوران ظاہر کیا گیا اور اس کا آپریشنل کام شروع ہوا اور اس علاقے میں موجود بحری بیڑے کو پہلے سے زیادہ صلاحیتوں کے حامل نئے تیار شدہ ڈرونز سے لیس کیا گیا ہے۔

ایکنا نیوز- انسان سختیوں میں خلق ہوا ہے اور زندگی کی مشکلات سے انکا سامنا قدرتی امر ہے تاہم درست مینجمنٹ اور ترتیب سازی سے ان مشکلات میں سکون حاصل کرنا ممکن ہے۔

اس طرح کی مشکلات سے رہائی کے لیے صرف خدا کی مدد سے انسان خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے:«قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ:

کون تمھیں سمندر اور خشکی کی وحشت سے بچا سکتا ہے؟ اس کا منت و سماجت اور چپھکے سے پکارتے ہو کہ ہمیں نجات دی  تو ہم شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔» (انعام/ 63).

آرام سکون اور بے نیازی انسان کو غفلتوں میں ڈال سکتی ہے اور اسی وجہ سے خدا جو ارحم الراحمین ہے اور انتہائی مہربان و شفیق، انسان کو سختیوں میں گرفتار کرتا ہے تاکہ گمراہی و غفلت سے باخبر رہ سکے۔

خدا مشکلات میں گرفتار انسان کو تاکید کرتا ہے کہ ایسی حالت میں خداوند بزرگ سے مدد لے تاکہ اسکے سختی سے نکال دیں۔

بعض مشکلات انسان کو ناتوان کردیتی ہے اور ہر قسم کی راہ اس پر بند ہوجاتی ہے اور کبھی تو کفر تک کی نوبت آتی ہے، یہاں وہ مقام ہے کہ خدا انسان کو محکم پناہ گاہ کی طرف ہدایت کرتا ہے:

«وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ: صبر و نماز سے مشکلات کے مقابل مدد لو اور شرک کی آلودگی سے پاک رہنے کے لیے خدا کی مدد لو اور یقینا حق طلب افراد کے علاوہ دوسروں کے لیے یہ کام مشکل ہے» (بقره/ 45).

نماز جو انسان کو خدا کی لامحدود طاقت کی طرف متوجہ کرتی ہے اور تمام چیزوں کو رب کے برابر ناچیز دکھاتی ہے رب کی محبت کو بڑھاتی ہے اور توکل کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور مادیات سے رہائی دلا کر مشکلات کے مقابل مضبوط کرتی ہے۔

تاہم قرآن مجید حقیقی سختی کو قیامت کی سختی قرار دیتا ہے اور تمام دنیا کی مشکلات کو حقیر شمار کرتا ہے لہذا حقیقی مومنین کو بشارت دیتا ہے کہ وہ قیامت میں غم سے رہا ہوگا اور شادماں بہشت بریں میں سکونت پذیر ہوگا: : بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ:

جی ہاں جو خود پورے وجود سے خدا کے برابر تسلیم کرے گا اور نیکو کار ہوگا پس اس کا اجر خدا کے ہاں محفوظ ہے اور اسے کوئی غم نہ ہوگا» (بقره/ 112).

 
 

ایکنا نیوز، اسلام میں مسجد ایک عبادت گاہ اور اجتماعی مقام کے عنوان سے انتہائی اہمیت کی حامل جگہ شمار ہوتی ہے جہاں اہل فن کوشش کرتے ہیں کہ اس مکان میں اپنے آرٹ کی نمائش پیش کرسکے لہذا قسم قسم کی تزئین  و آرائش کا جلوہ یہاں نظر آتا ہے۔

جنوب مشرقی ممالک میں مساجد میں اسلامی فن معماری اور ہندی طرز معماری کی امتزاج نمایاں ہیں اور انڈونیشیاء اور ملایشیاء میں کافی مساجد اس کی گواہ ہیں۔

ملایشیاء کے شہر ملاکا کی مسجد تنگه ملاکا (Malacca Straits Mosque) مذہبی طرز تعمیر کی شاہکار مسجد سمجھی جاتی ہے جو عبادت کے علاوہ تفریحی حوالے سے سیاحوں کے لیے پرکشش جگہ بھی ہے۔

یہ مسجد مصنوعی جزیرہ ملاکا میں واقع ہے جو 24 نومبر 2006 کو ملایشیاء کے بادشاہ «یانگ دی‌پرتوان آگونگ» کے ہاتھوں افتتاح کیا گیا. اس مسجد پر ۱۰ میلین رینگیٹ (۲,۲۴۶ ملین ڈالر) لاگت آئی تھی، یہ مسجد تیرتی مسجد ہے۔

اس مسجد کو گھریلو دست کاریوں سے تزئین کی گیی ہے جو میڈل ایسٹ اور مالائی ثقافت کی امتزاج کی نمونہ ہے اور جب پانی زیادہ ہوتا ہے تو مسجد تیرتی نظر آتی ہے۔

اس مسجد میں دو کمرے ہیں جہاں رنگ برنگے شیشوں سے تعمیر شدہ ہے اور مسجد کے صحن میں ایک مینار ہے جو تیس میٹر بلند ہے جس کو سمندری فانوس کا درجہ حاصل ہے۔/

 

 

4072930

 
 
Sunday, 04 September 2022 07:24

اربعین مقدمہ ظہور

انسان کو آزاد خلق کرکے عدل و انصاف سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدل و انصاف کا تقاضا انسان کی فطرت کا جزء لاینفک ہے۔ جہاں ظلم و زیادتی اپنے اوج پر ہوگی، وہاں عدل و انصاف کی طلب و تڑپ کا احساس بھی زیادہ ہوگا اور یہی احساس بہت سی تحریکوں کو جنم دیتا ہے، کیونکہ انسانی فطرت ہمیشہ انسانی اقدار اور حق و حقانیت کی حاکمیت چاہتی ہے اور اظہر من الشمس ہے کہ فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی اور انہی انسانی اقداروں اور حق و حقانیت کی حاکمیت کی خاطر حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام نے قیام کیا اور اپنے خون کے ذریعے انسان کو بیدار کیا کہ اٹھو اپنی فطرت کی آواز پر لبیک کہو اور یہ مختصر قیام، ایک طرف تمام انسانی اقدار کی تجلی اور مظہر صفات خداوندی سے بھرا پڑا ہے تو دوسری جانب ظلم و بربریت اور شقاوت سے لبالب ہے، کیونکہ کربلا اقدار کی جنگ ہے۔

انقلاب کربلا وجود میں آنے کا سبب، انسانی اقدار اور حق و حقانیت کی پامالی تھی۔ اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: “دیکھ نہیں رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے روکا نہیں جا رہا، میں خروج کر رہا ہوں، تاکہ امر بالمعروف کے ذریعے جد امجد اور پدر کی سیرت کی احیاء کروں۔” اور ان کی سیرت بھی یہی تھی کہ انسان کو جہالت کی ظلمتوں سے نکال کر فطرت اور حق و حقانیت کے خورشید سے ملائیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر بیان کروں تو قیام کربلا کا مقصد و ہدف اسلامی تہذیب و تمدن کی تعمیر نو تھی، جس کے لیے امام حسین علیہ السلام اور ان کے پاک اصحاب نے اپنی جان کی قربانی پیش کی اور حضرت امام سجاد اور حضرت زینب علیھما السلام نے قید و بند اور اسیری کی صعوبتیں جھیلی۔

کربلا مقدمہ مہدویت ہے اور اربعین حسینی زمینہ ظہور امام کے لئے خیمہ گاہ کی تعمیر اور تربیت کا گہوارہ ہے۔ جس کا آغاز امام زین العابدین علیہ السلام اور جناب زینب علیھما السلام کی رہبری میں عصر عاشور کے بعد ہوا اور اب تک جاری و ساری ہے اور ظہور تک جاری رہے گا۔ اسی لیے آئمہ معصومین علیھم السلام نے جہاں انتظار فرج کو افضل ترین عبادت قرار دیا ہے، وہاں زیارت اربعین کے لئے پیادہ روی کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے چنانچہ روایت میں یوں وارد ہوا ہے، رسول اللہ فرماتے ہیں “میری امت کی افضل ترین عبادت انتظار فرج ہے۔” محمد بن فضیل کہتا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے انتظار فرج کے بارے میں سوال کیا تو نے فرمایا:” خداوند متعال فرماتا ہے، “وَ انۡتَظِرُوۡا ۚ اِنَّا مُنۡتَظِرُوۡنَ "اور تم انتظار کرو ہم بھی انتظار کریں گے۔"

بشير دهان کہتے ہیں: میں نے امام صادق (عليہ السلام) سے سنا ہے، جب آپ ایک شیعہ جماعت کے ساتھ حيره کی طرف جا رہے تھے؛ آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: اے بشير، کیا اس سال حج کیا؟ عرض کی: آپ پر قربان ہو جاؤں، نہیں کیا، امام (ع) عرفہ کے دن قبر حسين (عليه السلام) کے پاس موجود تھا؛ فرمایا: اے بشير خدا کی قسم، کوئی چيز جو اصحاب مكہ کے لئے مكہ میں تھی، تیرے ہاتھ سے نہیں گئی؛ کہا: آپ پر قربان، وہاں عرفات کا میدان بھی تو ہے، (کیسے ممکن ہے کہ میں ان سے برابری کروں اور کوئی چیز ثواب کے اعتبار سے ان کے مقابلے میں کم نہ ہوئی ہو)‌ میرے لئے وضاحت فرمائیں؛ امام نے فرمایا: اے بشير، جب تم میں سے کوئی شخص فرات کے پانی سے غسل کرتا ہے پھر امام حسين بن علی (علیہ السلام) کی قبر مطھر و منور کی سمت آپ کی معرفت کا جو حق ہے، اس کے ساتھ چلتا ہے تو اللہ اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھاتا ہے، یا رکھتا ہے، سو مقبول حج اور سو مقبول عمرہ کا ثواب عطا فرماتا ہے اور سو جہاد کا ثواب جو دشمنان خدا اور دشمنان رسول اللہ کے خلاف کسی مرسل نبی کے ساتھ کیا ہو، کا ثواب بھی اسے دیتا ہے؛ اے بشير سنو اور اس (روایت) کو اس شخص کے لئے بیان کرو، جس کا دل اسے برداشت کرسکے! جو حسين (عليه السلام) کی زيارت كرے، وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے عرش پر اللہ کی زیارت کی ہو۔

جو شخص پیدل زیارت قبر حضرت امام حسین (علیه السلام) کی طرف چلے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھائے گا، ہزار نیکی و حسنات اس کے لئے لکھے گا اور اس کے ہزار گناہ مٹا دے گا اور اس کے لئے ہزار درجات و مراتب کو بلند فرمائے گا۔ پھر فرمایا: جب فرات پر داخل ہوں تو ابتداء غسل کرو اور اپنے جوتے آویزاں کرو اور پابرہنہ راستہ چلو اور ذلیل عبد کی طرح راہ چلو۔ امام صادق (علیہ السلام) ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں: "جو شخص پیدل امام حسین (علیه السلام) کی قبر کی زیارت کے لئے آتا ہے تو اللہ اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھاتا اور رکھتا ہے، اولاد اسماعیل (علیہ السلام) سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھتا ہے۔" یہ سفر اربعین اقدار دینی اور اقتدار دینی کی ایک حسین تجلی ہے، جو ظہور کی آمادگی کی مشق ہے۔

بنی امیہ و بنی عباس کے دور سے لیکر اب تک دشمن کی یہی کوشش رہی کہ مختلف روشوں سے یہ پیادہ روئ اربعین ختم کرے، تاکہ اپنے اقتدار کی کرسی باقی رہے۔ اس کے لئے کبھی ہاتھ قطع کیے تو کبھی بم بلاسٹ کے ذریعے سے راستہ بند کیا تو کبھی وائرس پھیلا کر۔۔۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ جو شعائر الہیٰ کو زندہ کرنے کی خاطر اس کی راہ میں قدم بڑھاتے ہیں، خدا ہمیشہ اسی کی مدد کرتا ہے۔ "یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ"، "یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ (کی پھونکوں) سے اللہ کے نور کو بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، خواہ کفار برا مانیں۔" "یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ"، "یہ لوگ اپنی پھونکوں سے نور خدا کو بجھانا چاہتے ہیں، مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے کے علاوہ کوئی بات نہیں مانتا، اگرچہ کفار کو ناگوار گزرے۔"
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیوں بجھے جسے روشن خدا کرے

اربعین حسینی تجلی اقدار انسانی کا نام ہے۔ اربعین حسینی ظہور امام زمان علیہ السلام کی زمینہ سازی کا ایک مقدمہ ہے۔ اربعین حسینی خدا و اہلبیت سے اظہار عشق کا نام ہے۔ اربعین حسینی ایک ایسی تحریک ہے، جو تمام اختلافات سے مبرا ہو کر زندہ ضمیر انسانوں کو ایک لڑی و سلاسل میں پروتی ہے۔ اربعین حسینی مہدوی معاشرے کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ اربعین حسینی عاشقان صلح و دوستی کی میقات ہے۔ اربعین حسینی عشق و جنون کا دوسرا نام ہے۔ اربعین حسینی ایک ایسی تربیت گاہ ہے، جہاں سے انسان عدالت خواہی کی طرف سفر کرتا ہے۔ اربعین حسینی وہ دانشگاہ و مدرسہ ہے، جہاں سے انسان خدائی بن کر آتا ہے۔ اربعین حسینی ظہور کی طرف ایک حرکت ہے۔ اربعین کے دن دنیا بھر سے کروڑوں زندہ ضمیر لوگ جمع ہوتے ہیں اور ہو بہو کسی ماہتاب کی مانند دکھائی دیتے ہیں کہ جو آسمان کربلا میں خورشید عشق و انسانیت کے گرد جمع ہوکر محو گردش ہوں۔ یہ لوگ وقت کے حسین علیہ السلام، یوسف زہراء (عج) سے تجدید عہد کرتے ہیں کہ اب ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، کیونکہ باقی آئمہ معصومین علیہم السلام لوگوں کی غفلت اور بے وفائی سے شہید ہوگئے ہیں۔

اربعین حسینی انسانیت کی خدمت، ایثار و قربانی اور فداکاری کا دن ہے۔ اس کی بہترین مثالیں کربلا سے نجف تک کی پیادہ روی میں دیکھی جاسکتی ہیں کہ جن کو دیکھ کر انسان انگشت بدندان ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اتنا منظم و وسیع ہے کہ اس میں کروڑوں انسانوں میں سے کوئی بھی بھوکا پیاسا نہیں رہتا بلکہ ہر کسی کو اپنی مرغوب و من پسند چیزیں میسر ہیں۔ اگر یوں کہیں کہ پیادہ روئ اربعین بہشت برین کی ایک جھلک ہے۔ افسوس اس سال عاشقان راہ خدا پیادہ روی میں شرکت تو نہیں کرسکے لیکن “گرچہ دوریم بہ یاد تو سخن می گوییم” اور “عالمی جہانی خواہد شد” کے موقف پر کاربند ہوتے ہوئے آج پوری دنیا میں چھ ماہ کے بچے سے لی کر اسی سالہ پیر مرد، ? *لبیک یا حسین* ? کی صدا بلند کرتے ہوئے اپنے گھروں سے نکل رہے ہیں۔

تاکہ پیادہ روی اربعین کی اس ثقافت کو عراق کی سرزمین سے نکال کر ایک عالمی ثقافت میں تبدیل کرسکیں۔ البتہ دشمن بھی اپنی تمام تر کاوشوں کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے، تاکہ اس پیادہ روی میں مختلف چپقلشیں، تفرقہ بازی اور نفرت انگیز شعائر کے ذریعے خرابی پیدا کرے۔ لہذا تمام عاشقان راہ خدا کو اس بات کی طرف متوجہ رہنے کی ضرورت ہے کہ آپ کو بصیرت کا دامن تھام کر حضرت امام سجاد (ع) اور حضرت زینب علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے دشمن کے تمام ناپاک عزائم کو غرق خاک کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمال الدین و تمام النعمہ جلد 2، باب55، ح3،4
ابن قولويه (متوفاى367هـ)، كامل الزيارات، ص320)۔
کامل الزیارات134
سورہ صف آیت 8
سورہ توبہ 32

ایکنا نیوز کے مطابق نجف اشرف کے گورنر ماجد الوائلی نے چہلم امام کے حوالے سے منعقدہ خصوصی اجلاس کی صدارت کی۔

 

اجلاس میں نائب گورنر، پولیس سربراہ، آستانہ علوی کے نمایندے، مسجد کوفہ ترجمان اور اعلی سیکورٹی افیسر شریک تھے جہاں انتظامات کا جایزہ لیا گیا۔

 

گورنر نجف کا کہنا تھا: سیکورٹی پروگرام میں خصوصی دستوں کو اہم مقامات پر متعین کرنے اور پیدل روی میں شریک زائروں کی حفاظت یقینی بنانے پر غور کیا گیا۔

 

الوائلی کا کہنا تھا: کورنا بحران کے خاتمے پر اس سال بڑی تعداد میں زائرین کی شرکت متوقع ہے اور تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ بیس ملین یعنی دو کروڈ افراد اربعین میں حاضر ہوں گے اور اس میں ساٹھ فیصد لوگ نجف سے ہوسکتے ہیں۔

 

میسان صوبہ کے اعلی سیکورٹی افیسر جنرل محمد جاسم الزبیدی کے مطابق اربعین کے لئے خصوصی انتظامات مکمل ہوچکے ہیں۔

 

الزبیدی کا ایک ویڈیو پیغام میں کہنا تھا: سیکورٹی پروگرام میں فوج، پولیس اور تمام انٹلی جنس اداروں کے افراد شامل ہیں۔

 

صوبہ میسان جنوب مشرقی عراق میں ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے. اس صوبے کا مرکز اماره ہے کو چھ ڈسٹرکٹ پر مشتمل ہے۔

صیہونی حکومت نے 2009 سے لے کر اب تک فلسطینیوں کی تقریباً 9 ہزار عمارتوں اور انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ کے دفتر (OCHA) نے ہفتے کی رات اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا کہ اسرائیلی فوج نے 8,746 فلسطینی عمارتوں کو تباہ اور 13,000 شہریوں کو بے گھر کیا اور 152,000 کو بے گھر کر دیا۔ 

اس رپورٹ کے مطابق مکانات اور انفراسٹرکچر کی تباہی سے 1559 مکانات اور دیگر عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔

تباہ ہونے والی عمارتوں میں رہائشی، انفراسٹرکچر، سروس یا کاروباری گھر شامل ہیں جنہیں مکینوں نے براہ راست تباہ کیا یا ان کے مالکان انہیں تباہ کرنے پر مجبور ہوئے۔

ان میں سے اکثر صورتوں میں عمارت کی تباہی کی وجہ اسرائیل کی طرف سے اجازت نامے کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے فلسطینیوں کے لیے ایسا اجازت نامہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ کرنے کی پالیسی 1948 سے اسرائیل کی منصوبہ بند پالیسیوں میں سے ایک ہے اور اس تاریخ سے اب تک 500 سے زائد فلسطینی دیہات اور بستیاں تباہ ہو چکی ہیں
.taghribnews

ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے سماجی رابطے کی سائٹ انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ۳ ستمبر استعمار سے مقابلے کا دن اور مجاہد، شجاع اور جارح استعماری طاقتوں سے مقابلے کی علامت شہید رئیس علی دلواری کی شخصیت کی یاد دلاتا ہے۔ 

انہوں نے مزید لکھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اور عوام ملک کی خودمختاری، عزت اور کرامت کی راہ کے شہدا کے خون کی برکت سے استعمار کے وارثوں کے زور و زبردستی کے سامنے ڈٹے رہیں گے اور اپنے جائز حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے 3 ستمبر 2022 کو اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی کے ارکان اور اس اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے شرکاء سے ملاقات کی۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شرکاء سے اپنے خطاب میں عالم اسلام میں اہلبیت کی عظمت و عقیدت کو بے نظیر بتایا اور زور دے کر کہا: آج اسلامی معاشروں کو تمام میدانوں میں اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات کی اشد ضرورت ہے چنانچہ اہلبیت ورلڈ اسمبلی کو چاہئے کہ صحیح پروگرام تیار کرکے اور منطقی اور مؤثر وسائل سے استفادہ کر کے، اس سنگین ذمہ داری کو ادا کرے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کو یکجہتی اور تعاون کا علمبردار ہونا چاہیے، انہو نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے پہلے دن سے کہا ہے، اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی، غیر شیعوں سے مقابلے اور دشمنی کے لئے ہرگز نہیں ہے اور ابتدا سے ہی ہم نے غیر شیعہ برادران کا، جو صحیح راستے پر بڑھ رہے ہیں، ساتھ دیا ہے. 

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق عالم اسلام میں فاصلوں اور تقسیم کرنے والے خطوط کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا سامراج کی موجودہ سازش ہے آپ نے کہا: شیعہ اور سنی، عرب اور عجم، شیعہ کے ساتھ شیعہ اور سنی کے ساتھ سنی کی جنگ کے لیے سازشیں تیار کرنا اور انھیں ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کرنا بڑے شیطان یعنی امریکا کی چال ہے جو بعض ملکوں میں دیکھی جا رہی ہے جس سے ہوشیار رہنا چاہیے۔

انھوں نے عالمی سامراج کے مقابلے میں اسلامی جمہوری نظام کے لہراتے پرچم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں اور شیعوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ اسلامی نظام، تسلط پسندانہ نظام کے سات سروں والے اژدہا (ڈریگن) کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑا ہے اور خود سامراجی طاقتیں اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ ان کی بہت سی سازشیں کو اسلامی جمہوریہ نے شکست سے دوچار کر دیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ کے استحکام کا راز اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات کی پیروی ہے۔ آپ نے کہا: ان درخشاں ستاروں نے اپنی فکری اور عملی تعلیمات سے ہمیں سکھایا ہے کہ کس طرح قرآن مجید پر غور و فکر اور عمل کے ذریعے، اسلام عزیز کے راستے پر چلا جائے۔

انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے پرچم کو انصاف و روحانیت کا پرچم بتایا اور کہا: واضح سی بات ہے کہ سامراجی دنیا، جس کے تمام افکار و اعمال ظلم و زیادتی اور مادہ پرستی و دولت پرستی پر مبنی ہیں، اس پرچم سے ٹکراؤ اور دشمنی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگئی۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکا کو استکباری اور سامراجی خیمے کا سرغنہ بتایا اور کہا: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن سے الہام حاصل کر کے سبھی کو سکھایا کہ اسلامی معاشروں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی لائنوں کو کنارے کر دیں اور فاصلے کی صرف ایک لائن کو قبول کریں جو عالم اسلام اور کفر و سامراج کے درمیان حدبندی کی لائن ہے۔

آپ نے کہا: اسی گہرے عقیدے کی بنیاد پر، بالکل ابتدائي دنوں سے فلسطین کی حمایت، اسلامی انقلاب کے ایجنڈے میں شامل ہو گئي اور امام خمینی نے پورے وجود سے فلسطین کا ساتھ دیا اور اسلامی جمہوریہ ایران آج بھی عظیم الشان امام خمینی کے ذریعے طے پانے والے خطوط پر گامزن ہے اور مستقبل میں بھی فلسطین کے ساتھ رہے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ایرانی قوم سے پورے عالم اسلام کی تمام اقوام کی یکجہتی کا سبب، امام خمینی کی حکمت عملی یعنی عالم اسلام میں مذہبی، فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ خطوط کی ایرانی قوم کی طرف سے نفی کرنا ہے۔ انھوں نے کہا: اسی بنیاد پر ہم نے ہمیشہ اسلامی ممالک کو شیعہ اور سنی، عرب اور عجم اور اسی طرح کے دوسرے فاصلہ پیدا کرنے والے خطوط کو نظر انداز کرنے اور اصولوں اور بنیادی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دی ہے۔

انھوں نے دیگر اقوام کو منہ زوری کے مقابلے میں استقامت کی ترغیب دلانے کو، تسلط پسندانہ نظام کی ناراضگی اور دشمنی کی ایک اور وجہ بتایا اور کہا: مختلف ملکوں میں امریکا کی مجرمانہ سازشوں کو ناکام بنانا، جس کا ایک نمونہ (دہشت گرد گروہ) داعش تھا، ایرانوفوبیا اور شیعہ فوبیا کے زہریلے پروپیگنڈوں اور ایران پر دیگر ملکوں میں مداخلت کا الزام عائد کیے جانے کا سبب بنا ہے۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، دوسرے ممالک میں مداخلت نہیں کر رہا ہے، کہا کہ تسلط پسند طاقتوں کی یہ الزام تراشی اسلامی نظام کی حیرت انگیز پیشرفت کے مقابلے میں ان کی بے بسی کا نتیجہ ہے لیکن سبھی کو سامراج کی ان چالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور اس کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔

انھوں نے عالم اسلام کی فکری اور عملی گنجائشوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عالم اسلام کے پاس دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی بھرپور توانائی موجود ہے۔

آپ نے کہا کہ حقائق اور اسلامی تعلیمات، اللہ پر توکل، تاریخ پر پرامید نظر اور مہدویت کا عقیدہ، عالم اسلام کی فکری توانائياں ہیں. 

رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب اور لبرل ڈیموکریسی کے نظام کے فکری تعطل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: البتہ عملی میدان میں سامراجی طاقتوں نے، مختلف حیلوں سے عالم اسلام کے ذخائر سے استفادہ کر کے اور طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر کے اپنے آپ کو مضبوط بنا لیا ہے لیکن پیشرفت کے لیے عالم اسلام کے قدرتی وسائل بہت زیادہ ہیں جن میں سے ایک یعنی تیل اور گیس کی اہمیت آج سب کے لیے پوری طرح واضح ہو چکی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ عالم اسلام کا مستقبل بہت روشن ہے اور شیعہ مکتب اس میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

اس ملاقات کے آغاز میں اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی کے سیکریٹری جنرل حجۃ الاسلام و المسلمین رمضانی نے 117 ملکوں کی اہم شخصیات کی شرکت سے منعقد ہونے والے اس اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی جو "اہلبیت، عقلانیت، انصاف اور وقار کے محور" کے عنوان سے منعقد ہوا۔