سلیمانی

سلیمانی

مدیر حوزہ علمیہ خواہران سقز "طوبی فرداد" نے 36ویں اسلامی اتحاد کانفرنس کے مجلس عامہ کے اجلاس میں کہا: ہفتہ وحدت 6 مسائل سے نمٹنے اور دو پر غور کرنے کا بہترین موقع ہے۔

سنیوں اور شیعوں کی مشترکات پر توجہ دینا، مذاہب اسلامی کے اتحاد و اتفاق کو مضبوط کرنے کے طریقوں کا جائزہ لینا، اسلامی معاشروں میں دشمنوں کے گھسنے کے طریقوں پر توجہ دینا، دشمن کے تسلط کو کچلنے کے لیے حل فراہم کرنا، ان کی قابل تعریف کوششوں کی یاد کو زندہ رکھنا۔ اتحاد کے علمبردار اور انسانی وسائل کی تربیت کے لیے حالات پیدا کرنے والے۔اتحاد کا دینے والا اور محافظ ان چیزوں میں سے ایک تھی۔

انہوں نے اپنی تقریر کے تسلسل میں تاکید کی: امن کا قیام اور تنازعات سے اجتناب اور مسلمانوں کے اتحاد کو معاشرے اور دنیا میں اسلام کی حکمرانی کی طرف راغب کرنا ان نکات میں سے ہے جن پر اتحاد کانفرنس میں غور کیا جانا چاہیے۔

طوبی فرداد نے اپنے خطاب کے آخر میں یہ بیان کیا کہ بہت سے علماء اور سائنسدانوں نے اتحاد کے حصول کے لیے بہت کوششیں کیں اور کہا: اختلاف رائے کے باوجود وہ اتحاد اور ہمدردی کو ضروری اور اہم سمجھتے تھے۔

مولوی غلام نبی توکلی، امام حمعہ اہل سنت تایباد نے 36ویں بین الاقوامی اتحاد اسلامی کانفرنس کے اجلاس میں تاکید کی:مسلمانوں کے اتحاد کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اہم محور ہیں۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پیغمبر اکرم (ص) سے زیادہ اہم کوئی محور نہیں ہے، وضاحت کی: اگر پیغمبر نہ ہوتے تو قرآن اور قبلہ نہ ہوتا۔

مولوی غلام نبی توکلی نے مزید کہا: اگر پیغمبر اسلام (ص) قطب بن جائیں تو نہ منافقین اور نہ ہی کوئی اور شخص مسلمانوں کے ساتھ دشمنی میں کچھ کر سکے گا کیونکہ وہ وحی سے متصل تھے .

انہوں نے مزید کہا: "عیسائیوں میں بہت سے اختلافات ہیں، لیکن انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم (ص) کو مرکزی حیثیت دی ہے، اور ہمیں بھی پیغمبر اکرم (ص) کو دنیا کی عظیم ترین شخصیت کے طور پر رکھنا چاہیے۔

مولوی توکلی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے خانہ خدا میں 360 بت تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے یہ بت ختم ہو گئے اور مکہ خوبصورت اور پاکیزہ ہو گیا۔ 
http://www.taghribnews
 
شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد چین، روس، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور قازقستان نے جون 2001ء میں رکھی تھی۔ اس تنظیم کی تشکیل اس مذاکراتی سلسلے کا نتیجہ تھا جو 26 اپریل 1996ء میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان کے درمیان شروع ہوا اور اس کا مقصد اپنی اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا اور باہمی اعتماد قائم کرنا تھا۔ چونکہ پہلی نشست چین کے شہر شنگھائی میں منعقد ہوئی لہذا اس تنظیم کا نام شنگھائی تعاون تنظیم رکھ دیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے آغاز سے ہی اس تنظیم میں شمولیت کی کوششیں شروع کر دیں جن کے نتیجے میں 2005ء میں ایران کو ناظر کی حیثیت سے اس تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دے دی گئی۔ اسی سال پاکستان، انڈیا اور افغانستان کو بھی ناظر رکن کی حیثیت سے تنظیم کے اجلاس میں شرکت کا موقع دیا گیا۔
 
2017ء میں پاکستان اور انڈیا کو اس تنظیم کی مستقل رکنیت عطا کر دی گئی جبکہ 16 ستمبر 2022ء کے دن ایران کو بھی مستقل رکن کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ یوں اس وقت شنگھائی تعاون تنظیم 9 مستقل اراکین پر مشتمل ہے یعنی ایران، پاکستان، انڈیا، چین، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان۔ دوسری طرف تین ممالک افغانستان، بیلارس اور منگولیہ ناظر رکن جبکہ چھ ممالک آذربائیجان، آرمینیا، کیمبوج، نیپال، ترکی اور سری لنگا مذاکرات میں شریک کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں مستقل رکنیت اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے مختلف پہلووں سے انتہائی اہم تصور کی جاتی ہے۔ امریکہ اور اس کی اتحادی مغربی طاقتوں نے گذشتہ چالیس برس سے ایران کے خلاف شدید ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ دوسری طرف خطے اور دنیا کے بدلتے سیاسی حالات کے تناظر میں بھی یہ رکنیت اہم ہے۔
 
1)۔ امریکی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے غیر فوجی تنظیم
شنگھائی تعاون تنظیم کی تشکیل کا مقصد فوجی میدان کے علاوہ سکیورٹی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں باہمی تعاون کو فروغ دے کر خطے میں امریکی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا تھا۔ یہ ایسی چند محدود تنظیموں میں سے ایک ہے جس کی تشکیل، مدیریت، فیصلہ سازی اور اراکین میں مغربی ممالک کا کوئی عمل دخل شامل نہیں ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد ہی مغرب اور اس سے وابستہ اداروں جیسے نیٹو کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم نے 2005ء میں امریکہ کی جانب سے رکنیت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ یہ چیز سکیورٹی، سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں مغربی طاقتوں کا مقابلہ کرنے سے متعلق اس تنظیم کے رکن ممالک کی وسیع نگاہ کو ظاہر کرتی ہے۔
 
2)۔ دنیا میں سب سے زیادہ انرجی پیدا کرنے اور استعمال کرنے والے ممالک
شنگھائی تعاون کونسل کے رکن اور ناظر ممالک دنیا میں انرجی پیدا کرنے اور استعمال کرنے کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہیں۔ لہذا یہ تنظیم دنیا بھر میں انرجی کی برآمدات اور درآمدات کیلئے رکن ممالک کے درمیان گہرا تعاون قائم کر سکتی ہے جبکہ دوسری طرف عالمی سطح پر انرجی کی قیمت اور منڈی پر بھی بہت زیادہ اثرانداز ہو سکتی ہے۔ ایران بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل رکن کی حیثیت سے تیل اور گیس کی برآمد سے متعلق بہت زیادہ فائدے حاصل کر سکتا ہے۔ اس تنظیم کے ذریعے ایران بہت آسانی سے اپنا تیل اور گیس عالمی منڈی میں فروخت کر کے زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ البتہ امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیاں کچھ حد تک رکاوٹ ضرور بن سکتی ہیں۔
 
3)۔ دنیا کی نصف آبادی پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم
شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کی مجموعی آبادی دنیا کی نصف آبادی پر مشتمل ہے۔ اسی طرح ان ممالک کا کل رقبہ دنیا میں موجود خشکی کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔ یہ امور اقتصادی لحاظ سے عالمی سطح پر بہت بڑی منڈی تشکیل دیتے ہیں جس کی بدولت رکن ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے وسیع افق ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں آبادی اور رقبے کی یہ صلاحیت عالمی سطح پر موجود طاقت کی مساواتیں تبدیل کر کے طاقت کا توازن برقرار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی مستقل رکنیت اس کی تیل کے علاوہ دیگر مصنوعات کی برآمدات کیلئے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ اس وقت مشرقی ایشیائی اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ایران کی تجارت بہت کم سطح پر ہے۔
 
4)۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں ایران کی رکنیت کی تسہیل
شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت کا ایک اور بڑا فائدہ عالمی تجارت کی تنظیم ڈبلیو ٹی او میں مستقل رکنیت کی راہ ہموار ہو جانا ہے۔ ایران گذشتہ طویل عرصے سے اس تنظیم میں شامل ہونا چاہتا ہے جبکہ اب تک اسے صرف ناظر کی حیثیت سے ڈبلیو ٹی او کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔ اس تنظیم کی مستقل رکنیت حاصل کرنے میں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف ڈبلیو ٹی او کے کچھ قوانین ایران میں موجود اقتصادی ڈھانچے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اب جبکہ ایران شنگھائی تعاون کونسل کا مستقل رکن بن چکا ہے یقیناً اس کا اقتصادی انفرااسٹرکچر بھی ترقی کرے گا اور دھیرے دھیرے ڈبلیو ٹی او میں رکنیت کا زمینہ بھی فراہم ہو جائے گا۔ 
 
 
 

، ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے پارلیمنٹ کے اجلاس کی رسمی کاروائی شروع ہونے سے پہلے اپنے خطاب میں دنیا بھر کے مسلمانوں میلاد النبی ﴿ص﴾ کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی اور کہا کہ میں آج کے دن کی مناسبت سے تمام اہل سنت برادران سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو ہفتہ وحدت کے آغاز کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ کہ ہفتہ وحدت تمام شعبوں میں شیعہ سنی کے درمیان ہمدردی اور ایک دوسرے کے دوش بدوش آگے بڑھنے کے عینی مظاہرے کی علامت ہے۔

قالیباف نے مزید کہا کہ ملک میں سنی اور شیعہ دونوں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہر موڑ پر جہاں باہر نکلنے، جانثاری اور شہید قربان کی ضرورت پڑی ایران کو روز بروز مضبوط بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا عملی مظاہرہ ہم نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگے کے دوران مقدس دفاع میں بھی دیکھا اور دیگر اندرونی حالات اور مواقع پر۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کامیابی کا راز بھی مختلف فرقوں میں یکجہتی اور اتحاد میں میں ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ رہبر معظم کے بقول جو برطانوی شیعہ یا امریکی سنی ہیں، دونوں ایک ہی قینچی کے دھارے شمار ہوتے ہیں اور اس طرح کام کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑوا سکیں۔

ایرانی اسپیکر نے مزید کہا کہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے والے صہیونی حکومت اور امریکہ کی چکی گھوما رہے ہیں جبکہ وہ ہمارے قسم خوردہ دشمن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج مسلمانوں کا اتحاد قرآن کریم کی اصل تعلیمات اور بنیادی احکامات میں سے ہے اور پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ اور قرآن کریم کے سائے میں ہم دین کے تمام دشمنوں سے برائت کے خواہاں ہیں۔ خدا کے احکامات کی تکمیل کے لیے ایک ناقابل تردید شرط کافروں، مشرکوں اور منافقوں سے برائت اور بے زاری کا اظہار کرنا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے 11 ستمبر 2022 کو اسپورٹس کے شعبے کے شہداء پر دوسرے قومی سیمینار کے منتظمین سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں انھوں نے جو تقریر کی تھی وہ آج پیر 10 اکتوبر 2022 کو اس سیمینار میں نشر کی گئي۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس تقریر میں کھیل اور کھلاڑیوں کے اخلاقیات اور سماج میں ان کے اثرات کے بارے میں اہم گفتگو کی۔

خطاب حسب ذیل ہے:

بسم ‌اللّہ الرّحمن الرّحیم. و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃاللّہ فی الارضین.

اس کانفرنس کا انعقاد کرنے والوں اور "لال مستطیل" فلم بنانے والوں کا شکریہ

آپ کا خیر  مقدم ہے عزیزو! اور جو یہ رپورٹیں دی گئيں، آپ اپنے ساتھ اچھی خبریں بھی لائے ہیں۔ میں اس کے لیے بہت شکر گزار ہوں کہ آپ یہ بڑا اور اہم سیمینار منعقد کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کی یہ کوششیں اور اور سچی نیت، جو پورے گروپ میں دکھائي دیتی ہے، ان شاء اللہ خداوند عالم کی توجہ اور حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی تائيد حاصل کرے گي۔ اسی طرح میں ان عزیز بھائيوں کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے اپنے میڈل مجھے عطا کیے۔ میں "لال مستطیل"(2) فلم بنانے والوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، حالانکہ میں نے فلم نہیں دیکھی ہے، لیکن سنا ہے، بحمد اللہ اسے بنانے والے یہاں تشریف رکھتے ہیں۔ یہ کام ہونا ہی چاہیے، یعنی فن و ہنر کا پروڈکشن اور ان حقائق کا بیان جسے آپ نے بتایا، بہت اہم ہے، اسے انجام پانا چاہیے۔ ان دو حضرات نے یہ کام کیا اور میں نے سنا ہے کہ ٹیلی ویژن پر بھی کچھ شہید چیمپینز کے بارے میں بعض پروڈکشنز آئے ہیں۔ بہرحال یہ کام، بہت اہم ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے۔

اسپورٹس، ذیلی نہیں بلکہ مرکزی حیثیت کا حامل کام

میں آج دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں: ایک بات، شہیدوں، شہادت اور اسپورٹس کے عزیز شہیدوں کے اس پرشکوہ قافلے کے بارے میں اور دوسری بات خود ورزش اور اسپورٹس کے بارے میں۔ ورزش اور اسپورٹس کا معاملہ، ایسا معاملہ ہے جسے حاشیے پر نہیں رکھا جانا چاہیے، بلکہ اصل اور مرکزی موضوع کی حیثیت سے اس پر توجہ دی جانی چاہیے، میں اس سلسلے میں کچھ جملے عرض کروں گا۔

شہیدوں کے زندہ ہونے کے بارے میں قرآن مجید کی صراحت

شہیدوں کے بارے میں قرآن مجید میں دو جگہوں پر واضح الفاظ میں کہا گيا ہے کہ شہید مردہ نہیں، زندہ ہیں۔ یہ بات پوری صراحت سے کہی گئي ہے۔ ایک جگہ سورۂ بقرہ میں کہا گيا ہے: وَ لا تَقولوا لِمَن يُقتَلُ فی سَبيلِ اللَّہِ اَمواتٌ بَل اَحياء(3) یہ لوگ جو خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں، انھیں مردہ نہ کہو، یہ زندہ ہیں۔ اس سے زیادہ واضح اور صاف بات کیا ہو سکتی ہے؟ دوسری جگہ سورۂ آل عمران میں کہا گيا ہے: وَ لا تَحسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلوا فی سَبيلِ اللَّہِ اَمواتًا بَل اَحياء(4) صراحت کے ساتھ کہا گيا ہے۔ رہی یہ بات کہ شہیدوں کی حیات کس طرح کی ہے؟ تو یہ ایک الگ موضوع ہے، یقینی طور پر وہ ہماری مادی زندگي سے الگ ہے، برزخی زندگي سے الگ ہے کہ بہت سے دوسرے لوگوں کی روح بھی برزخ میں ایک معنی میں زندہ ہوتی ہے، فعال ہوتی ہے، یہ بھی نہیں ہے، وہ زندگي ایک تیسری چیز ہے اور بہرحال ایک اہم حقیقت ہے، جسے قرآن مجید پوری صراحت سے کہہ رہا ہے۔

شہیدوں کی طرف سے ہمارے لیے خوشخبری: اللہ کی راہ میں جہاد کے راستے میں خوف اور غم نہیں ہے

خیر تو اس زندہ ہونے کے کچھ تقاضے ہیں، جن میں سے ایک اثر انداز ہونا ہے، بنابریں شہداء، اثر انداز ہوتے ہیں۔ چونکہ زندہ ہیں اس لیے زندوں کی زندگي میں ان کا اثر ہوتا ہے، وہ ہم پر کام کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی قرآن مجید کی آیت میں آئي ہے، سورۂ آل عمران کی اسی آيت کے آگے کہا گيا ہے: وَ يَستَبشِرونَ بِالَّذينَ لَم يَلحَقوا بِھِم مِن خَلفِھِم اَلّا خَوفٌ عَلَيھِم وَ لا ھم يَحزَنون‏(5) اس سے کوئي فرق نہیں پڑتا کہ لفظ "علیہم" کی ضمیر کو خود شہیدوں کی طرف پلٹایا جائے یا ہماری طرف، جو اس دنیا میں ہیں، اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ ممکن ہے کہ اللہ کی راہ میں مجاہدت میں کچھ دشواریاں ہوں، یقینا دشواریاں ہیں، لیکن اس کا انجام بہت اچھا ہے، اس راہ کے اختتام پر، اس راستے کے خاتمے پر، نہ تو خوف ہے اور نہ ہی غم و اندوہ، یہ بہت اہم ہے۔ انسان کسی مشکل کو برداشت کرتا ہے، لیکن جس راستے پر آپ چل رہے ہیں، اس کے خاتمے پر "لا خَوفٌ عَلَيھِم وَ لا ھم يَحزَنون" نہ تو خوف ہے اور نہ ہی غم، یہ دو چیزیں انسان کو تکلیف پہنچانے والی ہیں، یہ ہمارے لیے قرآن مجید کے صریحی الفاظ ہیں۔ در حقیقت شہیدوں کا یہ عظیم کارواں ہماری حوصلہ افزائي کر رہا ہے، اس مومن معاشرے کی، جو خدا کی راہ میں قدم اٹھانا چاہتا ہے اور خدا کی مرضی کے مطابق کام کرنا چاہتا ہے، شہیدوں کے اس پیغام سے، اور یہ پیغام پہنچانے والا بھی خود خدا ہے، حوصلہ افزائی ہوتی ہے، وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس راہ میں امید کے ساتھ قدم بڑھائے جا سکتے ہیں اور آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ تو یہ حوصلہ افزائي بھی ہمیں قوت عطا کرتی ہے، آگے بڑھنے اور جدوجہد کا جذبہ دیتی ہے اور جن نمونوں کا آپ نے ذکر کیا، شاید میں اپنی گفتگو کے دوران ان کے بارے میں اشارہ کروں۔

اسلامی نظام کے دور میں، شہادت پسندی کا جذبہ اور شوق

اسلامی نظام کے دور میں ملک کی مجموعی کارکردگي اس طرح کی تھی کہ اللہ کی راہ میں جہاد اور اللہ کی راہ میں شہادت کا جذبہ پیدا ہوا، اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ ہم نے انقلاب سے پہلے کے دور کو اچھی طرح سے دیکھا ہے، میری عمر کا آدھا حصہ، اسی دور میں گزرا ہے اور اس وقت بھی خداوند عالم نے مدد کی تھی جو ہم اس راہ میں قدم بڑھا رہے تھے لیکن اللہ کی راہ میں جہاد اور اللہ کی راہ میں شہادت کا یہ جذبہ، جو اسلامی نظام کے دور میں پایا جاتا ہے، اس وقت نہیں تھا۔ یہ جذبہ اور یہ کشش اس بات کا سبب بنتی ہے کہ معاشرے کے سبھی طبقوں، معاشرے کے تمام افراد میں جہاد کا شوق پیدا ہو اور جن لوگوں میں صلاحیت ہے، ذہنی و روحانی آمادگی ہے، وہ جہاد کے میدانوں میں جائيں، ان ہی میں اسپورٹس کے میدان کے شہداء اور مجاہدین بھی ہیں۔

معاشرے میں اسپورٹس سے وابستہ لوگوں کا گہرا اثر

اسپورٹس کا شعبہ، ایک بااثر طبقہ ہے، کھلاڑی بااثر ہوتا ہے، معاشرے میں اس کی شخصیت، اس کے کام، اس کے اقدام، ایک عام آدمی سے بہت الگ ہوتے ہیں، خاص کر کے وہ کھلاڑی جو مشہور ہو جاتا ہے، نمایاں ہو جاتا ہے، وہ کچھ لوگوں پر اثر ڈالتا ہے۔ اب اگر اس کھلاڑی میں، جہاد کا شوق اور جذبہ پیدا ہو جائے اور وہ جہاد کی راہ میں قدم بڑھائے تو آپ دیکھیے کہ وہ سماج پر کتنے اہم اثرات ڈال سکتا ہے، کیسا جذبہ بیدار کر سکتا ہے! بحمد اللہ یہ کام ہوا، آپ کے انہی پانچ ہزار سے کچھ زیادہ شہیدوں کی برکت سے۔ ان پانچ ہزار سے کچھ زیادہ شہیدوں میں پیشہ ورانہ کھلاڑی اور چیمپین کم نہیں تھے، شاید ان میں سے ایک ہزار سے زیادہ شہید، پیشہ ور کھلاڑی، چیمپین اور اسپورٹس کی اچھی خاصی رینکنگ رکھنے والے تھے، تمام کھیلوں میں۔ یہاں جو نمائش لگائي گئي ہے، اس میں، میں نے دیکھا کہ لکھا ہوا ہے: "اسپورٹس کے 33 شعبوں میں" بہرحال جہاں تک مجھے اطلاع ہے اور جہاں تک میں جانتا ہوں، کھیل اور اسپورٹس کے مختلف شعبوں سے لوگ جہاد کے لیے گئے۔ یہ لوگ گئے اور عالم ملکوت کے چیمپین اسٹیج (پوڈیم) پر، جو دنیا کے چیمپین اسٹیجوں سے بہت اونچا ہے، پہنچ گئے، انھوں نے خود تو یہ اعلی مقام حاصل کیا ہی، ساتھ ہی دوسروں کو بھی اپنے پیچھے بلا لیا۔

ہمارے معاشرے میں اسپورٹس کا ماحول، شہید کھلاڑیوں کی روحانیت سے متاثر

آج ہمارا کھیل اور اسپورٹس کا ماحول، اسی روحانیت اور معنویت سے متاثر ہے جو اسپورٹس کے ہمارے عزیز شہیدوں نے معاشرے میں پیدا کی ہے، یہ روحانیت، آج ہمارے کھیل اور اسپورٹس کے ماحول میں پائي جاتی ہے۔ البتہ ہر ماحول میں ہر طرح کے انسان ہوتے ہیں، روحانیت اور معنویت کے ماحول میں بھی ہر طرح کے لوگ ہیں، اسپورٹس کے ماحول میں بھی ایسا ہی ہے لیکن آج ملک میں اسپورٹس کا ماحول مجموعی طور پر گزشتہ کل سے بہت الگ ہے۔ دینداری کی جھلک، شرع کی پابندی کی جھلک، روحانیت و معنویت کی جھلک اور اسی طرح کی دوسری باتیں، جنھیں میں نے مختلف مناسبتوں سے بارہا اپنی گفتگو میں کہا ہے اور اس وقت بھی بعض لوگوں نے کہا ہے، بہت زیادہ ہیں: وہ بہادر اور باایمان خاتون جو، چیمپین کے مقام پر کھڑی ہے اور جب کوئي غیر مرد اس سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ مصافحہ نہیں کرتی یا دسیوں لاکھ لوگوں کی نظروں کے سامنے، جن میں سے بہت سے لوگوں کی، حجاب کے خلاف اور عورت کی عفت کے خلاف کام کرنے اور بات کرنے کے لیے ٹریننگ ہوئي ہے، چادر پہن کر اور اسلامی حجاب کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے یا وہ جوان چیمپین جو اپنا میڈل، شہیدوں کے اہل خانہ کو دے دیتا ہے یا وہ باایمان کھلاڑی جو اپنے کھیل میں، چاہے کشتی ہو، ویٹ لفٹنگ ہو یا کوئي دوسرا کھیل ہو، جیت جاتا ہے تو حد سے زیادہ نخرہ دکھانے یا چیخنے چلانے کے بجائے زمین پر گر کر اللہ کا سجدہ کرتا ہے یا ائمۂ معصومین کا نام لیتا ہے۔ یہ سب بڑی اہم چیزیں ہیں۔ ہم لوگوں کو کبھی کبھی کسی چیز کی عادت ہو جاتی ہے اور اس چیز کی اہمیت اور عظمت ہماری نظر میں باقی نہیں رہتی لیکن آج کی دنیا میں، مادہ پرست اور بدعنوان دنیا میں یہ چیزیں بہت عجیب ہیں۔

کھیل کے میدان کی روحانیت، ایرانی قوم کی معنوی و اخلاقی گہرائی کی شناخت کی کسوٹی

میں عرض کرتا ہوں کہ جو لوگ ایرانی قوم کو صحیح طریقے سے پہچاننا چاہتے ہیں وہ اس بات پر توجہ دیں، یہ بہت اہم بات ہے کہ جب ہمارا کوئي جوان کھلاڑی دسیوں لاکھ لوگوں بلکہ کبھی کبھی کروڑوں لوگوں کی نظروں کے سامنے پوڈیم پر جاتا ہے تو اس طرح روحانیت و معنویت کا اظہار کرتا ہے، اللہ اور اولیائے خدا سے عقیدت کا اظہار کرتا ہے، ان چیزوں کو دیکھیے، یہ چیزیں ایرانی قوم کی شناخت اور ایرانی قوم کی معنوی، روحانی اور اخلاقی گہرائيوں کی پہچان کے لیے بہت معنی رکھتی ہیں۔ تو یہ ایک کسوٹی ہے اور بہت اہم کسوٹی ہے۔ اس سال اربعین مارچ میں، کھلاڑیوں کی جو انجمنیں گئي تھیں، ان کے بارے میں حقیر کو بڑی اچھی اچھی باتیں بتائی گئيں، جن میں سے ایک نجف میں امیر المومنین علیہ السلام سے ان کی عقیدت کا اظہار تھا، یہ بہت گرانقدر چیز ہے، یہ معنوی اور روحانی ماحول بہت اہم ہے۔ اللہ کی راہ میں مجاہدت کی برکتوں میں سے ایک یہی ہے کہ وہ روحانیت و معنویت کو سماج کے مختلف طبقوں کے اندر تک پہنچا دیتی ہے، یعنی جب آپ کھلاڑی یا اسپورٹس مینیجر، بعض دینی اور معنوی حدود کے پابند ہوں، تو صرف آپ اس سے بہرہ مند نہیں ہوتے، بہت سے لوگ آپ سے بہرہ مند ہوتے ہیں – پہلے مرحلے میں خود اسپورٹس کا ماحول اور پھر عوام کا عمومی ماحول – اور یہ کام استعداد رکھنے والے لوگوں کو معنویت کے میدان میں لے آتا ہے اور راستہ کھول دیتا ہے۔ بہرحال ایرانی قوم کے سامنے جہاد کا جو میدان ہے، وہ ہر دن ایک الگ طرح کا ہوتا ہے: کبھی وہ مقدس دفاع کی شکل میں تھا، کسی دن دفاع حرم اہل بیت کی صورت میں تھا، آج بھی جہاد کے میدان ہمارے سامنے مختلف شکلوں میں کھلے ہوئے ہیں، میرے خیال میں ان میں سے ہر ایک میں، معاشرے کے اہم اور مشہور لوگوں کی جہادی موجودگي کے بہت زیادہ اثرات ہیں اور یہ بہت گرانقدر ہے۔ تو یہ بات شہداء اور شہادت کے سلسلے میں تھی۔

جسمانی صحت اور روحانی تازگي کے لیے عمومی ورزش کی اہمیت

جہاں تک ورزش اور اسپورٹس کی بات ہے تو میں ورزش کی اہمیت کے پیش نظر اس بارے میں خصوصیت سے بات کرنا چاہتا ہوں، اجتماعی ورزش بھی اور عمومی ورزش بھی، – جس کی ہم سبھی کو سفارش کرتے ہیں – پیشہ ورانہ ورزش بھی اور چیمپین شپ والی ورزش بھی، یہ چیزیں سماجی زندگي کے ذیلی امور کا حصہ نہیں ہیں، سماجی زندگی کے اصلی امور میں شامل ہیں۔

میں نے اجتماعی ورزش کے بارے میں ہمیشہ زور دے کر رہا ہے، ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ سبھی ورزش کریں۔ آج کی اس مشینی اور بہت کم تحرک والی زندگي میں، ہم ضعیفوں کو تو چھوڑیے، حقیقت میں جوانوں میں بھی تحرک نہیں ہے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہیں، یہاں سے جاتے ہیں، وہاں اتر جاتے ہیں، لفٹ میں سوار ہو کر اوپر جاتے ہیں، کوئي تحرک نہیں ہے۔ اس طرح کے ماحول میں، ورزش کوئي مستحب کام نہیں ہے، سب کے لیے ایک واجب اور ضروری کام ہے۔ البتہ مجھ جیسے اور میری عمر کے لوگوں کے لیے ورزش کی ایک الگ قسم ہے، جوانوں کے لیے الگ ہے، ادھیڑ عمر کے لوگوں کے لیے الگ ہے، لیکن سبھی کو ورزش کرنی چاہیے، ورزش کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ یہ جسمانی صحت کے لیے بھی اچھا ہے – ورزش سے جسمانی صحت و سلامتی حاصل ہوتی ہے، یہ جو کبھی کبھی جوانوں کو کچھ عارضے لاحق ہو جاتے ہیں اور انسان کو تعجب ہوتا ہے کہ ایک نوجوان عارضہ قلبی یا برین ہیمریج سے گزر جاتا ہے، یہ سب اسی عدم تحرک کی وجہ سے ہے – اور ذہنی اور روحانی فرحت  و نشاط کے لیے بھی اچھا ہے۔ ورزش، فرحت بخش اور نشاط انگیز ہے، جو کام بھی آپ کر رہے ہیں، دستی کام، فکری کام، دفتری کام، علمی کام، اگر ورزش کریں تو اس کام کو بہتر طریقے سے انجام دیں گے، یعنی آپ کی ذہنی فرحت بڑھ جائے گي اور آپ اس کام کو بہتر طور پر انجام دیں گے۔ البتہ اس کے اور دوسرے فوائد بھی ہیں لیکن یہاں ہمارا مقصد انھیں بیان کرنا نہیں ہے۔

پیشہ ورانہ اور چیمپین شپ والے کھیل، اجتماعی ورزش کی ترویج اور قومی افتخار کا باعث

جہاں تک پیشہ ورانہ اور چیمپین شپ والے کھیلوں کا تعلق ہے تو یہ بھی بہت اہم ہیں۔ چیمپین شپ والے کھیلوں کی اہمیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب چیمپین شپ والا کھیل وجود میں آتا ہے تو وہ اجتماعی ورزش کی ترویج کرتا ہے؛ اس کی ایک وجہ یہ ہے۔ جب کسی کھیل کا چیمپین مشہور ہوتا ہے اور لوگوں کی نظروں کے سامنے آتا ہے تو وہ نوجوان کو ورزش کے لیے ترغیب دلاتا ہے، یہ پیشہ ورانہ اور چیمپین شپ والے کھیلوں کا ایک فائدہ ہے، البتہ صرف یہی نہیں ہے، بہت سے دوسرے فوائد بھی ہیں۔ ایک دوسرا فائدہ یہ ہے کہ چیمپین شپ والے کھیل، قومی افتخار کا باعث ہیں۔ چیمپین شپ والے کھیلوں میں جب آپ کسی عالمی ٹورنامنٹ میں حصہ لیتے ہیں اور وہاں فتح حاصل کرتے ہیں اور مشہور ہو جاتے ہیں تو پوری قوم خوشی کا احساس کرتی ہے، سربلندی محسوس کرتی ہے، یہ بہت اہم  چیز ہے۔ ان لوگوں کو جو مختلف اسپورٹس میں – چاہے وہ دنیا میں رائج انفرادی کھیل ہوں یا اجتماعی کھیل ہوں – عوام کی خوشی کا باعث بنتے ہیں، واقعی مبارکباد پیش کرنی چاہیے، ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو لوگوں کی خوشی کا باعث بنتے ہیں، لوگوں کو خوش کرتے ہیں، انھیں سربلندی کا احساس عطا کرتے ہیں۔

عالمی اداروں میں اسپورٹس کی کامیابی اور دوسری کامیابیوں کا فرق

کھیل کے میدانوں میں حاصل ہونے والی اس کامیابی اور دوسری کامیابیوں میں ایک فرق ہے۔ بہرحال ہماری قوم اور ہر قوم، زندگي کے مختلف میدانوں میں فتوحات حاصل کرتی ہے، سیکورٹی کے میدان میں ہماری کامیابیاں ہیں، علمی و سائنسی میدانوں میں کامیابیاں ہیں، سیاسی میدانوں میں کامیابیاں ہیں، تحقیقاتی میدانوں میں ہماری کامیابیاں ہیں، مختلف طرح کے میدانوں میں ہماری کامیابیاں ہیں لیکن یہ کامیابیاں دنیا کے لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں ہیں۔ بعض کامیابیوں کو ہم جان بوجھ کر چھپا دیتے ہیں، کسی ملک میں کوئي سیکورٹی کے میدان میں کامیابی حاصل کرتا ہے تو وہ اسے آشکار نہیں کرتا بلکہ سیکورٹی کی کامیابیوں کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ بعض کامیابیوں کو ہم چھپاتے نہیں ہیں لیکن دشمن اسے مشکوک بناتا ہے، جیسے علمی و سائنسی کامیابیاں۔ یہ جو علمی و سائنسی کام انجام دیے گئے، عرصے تک ہمارے دشمنوں کے سکھائے ہوئے پٹھو اپنی باتوں اور تحریروں میں ان کا انکار کرتے رہے کہ جی نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوا ہے، یعنی اسے مشکوک بنایا جا سکتا ہے۔ یا اسے تاخیر سے سمجھا جاتا ہے یا لوگوں کو اس میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ کھیل اور اسپورٹس کے میدان کی کامیابی ایسی نہیں ہے، ایک لمحے میں ملنے والی کامیابی اور اسی لمحے اس کی خبر پہنچ جاتی ہے۔ آپ کی کامیابی کے لمحے ہی دسیوں لاکھ لوگ بلکہ کبھی کبھی کروڑوں لوگ، آپ کی کامیابی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، یہ بہت اہم کامیابی ہے، یہ بہت اہم ہے اور دوسری کامیابیوں کے برخلاف اسے چھپایا نہیں جا سکتا۔ ہاں کبھی کبھی کھیل میں بے ایمانی ہو جاتی ہے، معاندانہ رویہ اختیار کیا جاتاہے، اسی میدان میں کبھی کبھی دشمن، کچھ کام کر جاتے ہیں لیکن زیادہ تر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پاتے، عام طور پر فتح، ایک دم واضح ہوتی ہے اور آپ دیکھتے ہی ہیں کہ اس کا اثر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے اور یہ جیت دنیا میں آپ کے دوستوں کو بھی مسرور کرتی ہے۔

کھیل کے میدان میں فنی کامیابی کے ساتھ ہی اخلاقی کامیابی

ہمارے کسی اسپورٹس ٹورنامنٹ میں، مجھے پتہ چلا - یعنی مجھے مصدقہ خبریں دی گئيں - کئي عرب مسلم ممالک میں، جن کا نام میں نہیں لینا چاہتا، لوگ اکٹھا ہوئے اور ٹیلی ویژن پر میچ دیکھنے لگے، جیسے ہی انھوں نے دیکھا کہ ایران جیت گيا تو انھوں نے سب کے سامنے سڑک پر جشن اور خوشی منانا شروع کر دیا کہ ایران نے فلاں موذی اور خبیث سیاسی طاقت کو دھول چٹا دی! ایسا ہوتا ہے نا! یہ سب کی آنکھوں کے سامنے والی فتح ہے۔ تو ایرانی کھلاڑی یہاں اپنے رویے سے، اس فنی فتح کو اخلاقی فتح میں بدل سکتا ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے یعنی جب آپ نے کسی میچ میں فتح حاصل کرلی اور آپ کو فنی جیت مل گئي تو آپ اسی فنی جیت کو ایک اخلاقی کامیابی سے جوڑ سکتے ہیں، جیسے جوانمردانہ کھیل، جیسے یہی کام جو ہماری خواتین کھلاڑی کرتی ہیں یعنی اسلامی حجاب اور اسلامی حدود کی پابندی اور خود اعتمادی کا مظاہرہ۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے، اگر یہ اس فنی جیت سے زیادہ اہم نہیں ہے تو اس سے کم بھی نہیں ہے۔

غاصب صیہونی حکومت کو تسلیم نہ کرنا اور اقدار کی حفاظت، میڈل کے حصول سے زیادہ اہم

لہذا میں تاکید کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمارے عزیز کھلاڑیوں کو سفارش کی جائے کہ کھیل کے میدانوں میں کامیابی کے اس پہلو کو فراموش نہ کریں، اس بات کا خیال رکھیں کہ میڈل کے لیے اقدار کو پامال نہ کیا جائے۔ کبھی کبھی انسان میڈل سے محروم ہو جاتا ہے لیکن وہ فاتح ہوتا ہے۔ اگر کسی نے اس اصول کو پامال کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے فنی اور ظاہری فتح حاصل کرنے کے لیے اس اخلاقی فتح کو پامال کر دیا۔ اگر آپ نے اس کے ساتھ میچ کھیلا تو درحقیقت اس غاصب حکومت، بچوں کا قتل کرنے والی اور اس جلاد حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا۔ بنابریں جتنا بھی فائدہ ہو، اس کی اتنی قیمت نہیں ہے کہ انسان اس کے ساتھ میچ کھیلے۔ سامراج کے سرغنہ اور ان کے پٹھو اور درحقیقت بڑی عالمی طاقتوں کے زرخرید فورا چیخنے لگتے ہیں کہ "جناب! کھیل کو سیاسی میدان کا اکھاڑا نہ بنائیے۔" بسم اللہ! آپ نے دیکھا ہی کہ خود ان لوگوں نے یوکرین کی جنگ(6) کے بعد کھیل اور اسپورٹس کے ساتھ کیا کیا! سیاسی مسئلے کے لیے بعض ملکوں کے اسپورٹس پر پابندی لگا دی(7) یعنی خود انھیں جہاں بھی ضرورت ہوتی ہے، جہاں ان کے مفادات کا تقاضا ہوتا ہے وہ بڑی آسانی سے خود اپنی ریڈ لائنز کو کراس کر جاتے ہیں اور یہی لوگ، جب ہمارا کھلاڑی صیہونی حریف سے میچ نہیں کھلیتا تو اعتراض کرتے ہیں۔

کھیل کے میدان کے باہر کے رویے میں اپنی اور قوم کی عزت و آبرو کی حفاظت

ایک اور نکتہ عرض کروں اور اپنی گفتگو کا خاتمہ کروں۔ ہمارے عزیز چیمپینز اور کھلاڑی جو کھیل کے میدانوں میں حصہ لیتے ہیں - چاہے وہ ملکی میدان ہوں یا غیر ملکی میدان ہوں - اس بات پر توجہ رکھیں کہ صرف کھیل کے میدان میں ہی کیمروں کی آنکھیں ان پر مرکوز نہیں ہیں بلکہ میدان کے باہر بھی کیمرے انھیں دیکھ رہے ہیں، رائے عامہ، مختلف آنکھیں، کبھی بری نیت والے، ان پر نظر رکھتے ہیں تاکہ ان کی کوئي اخلاقی کمزوری، کوئي کمزور رگ تلاش کر لیں اور اس کے ذریعے، اس نے میدان میں جو کامیابی حاصل کی ہے، اسے دبا دیں۔ میدان میں کامیاب ہو جاتا ہے، میدان کے باہر غلطیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، لہذا کھلاڑی میدان کے باہر بھی اپنے رویے کی طرف سے چوکنا رہیں اور جان لیں کہ انھیں اپنی حیثیت، اپنی عزت، اپنی آبرو کی حفاظت کرنی ہے، اپنی عزت و آبرو کی بھی اور ملک و قوم کی عزت و آبرو کی بھی۔ ہمارے چیمپینز کے سامنے بہت سارے جال بچھائے جاتے ہیں۔

مغربی اسپورٹس سیکھیں لیکن مغربی کلچر سے متاثر نہ ہوں

البتہ ہمارے زمانے میں، قدیم ایام میں کھیل اور ورزش کا ماحول، ملک میں مغربی اسپورٹس کی آمد سے پہلے، ہمیشہ مذہبی ماحول تھا، پرانے کھیل، یہ اکھاڑے اور کھیلوں کے یہ پرانے مراکز جو ہم نے دیکھے تھے، سب کے سب خدا کے نام اور ائمہ کے نام سے اور اسی طرح مذہبی اور اخلاقی پہلوؤں سے آراستہ تھے۔ مغرب والوں نے کوشش کی کہ ان نئے اور پیشرفتہ کھیلوں کو ملک میں داخل کرنے کے ساتھ ہی اپنی ثقافت کو بھی ملک میں گھسا دیں۔تو ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نیا کھیل جو اس فریق نے تیار کیا ہے، جیسے فٹبال، والیبال اور دوسرے کھیل، اجتماعی کھیل، ہم سیکھیں، ان میں پیشرفت کریں، پیشہ ورانہ طریقے سے کھیلیں لیکن اس کی ثقافت کو نہ اپنائيں، اس کھیل کو اس مغربی کلچر کے لیے ایک پل نہ بننے دیں، اپنی ثقافت کو اس پر غلبہ دلائیں۔ یہ وہ بنیادی جملہ ہے جس پر ہمیں کھیل اور اسپورٹس کے سلسلے میں بھرپور توجہ دینی چاہیے۔

بہرحال میں آپ سب کے لیے دعاگو ہوں۔ ہمارے اس عزیز جوان نے کہا کہ ہمارے لیے دعا کیجیے، میں ضرور آپ کے لیے اورآپ کی کامیابی کے لیے، آپ کی فلاح کے لیے، آپ کی سعادت کے لیے خداوند عالم سے دعا کروں گا۔ میں ان لوگوں کا بھی دل کی گہرائي سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس سلسلے میں کوشش کی - خواتین کھلاڑی، جوان کھلاڑی - اور کھیل کے میدان میں معنویت و روحانیت کا مظاہرہ کیا، ایرانی اور اسلامی تشخص کا مظاہرہ کیا، میں ان سب کے لیے خداوند عالم سے توفیق کی دعا کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ ہمارے کھلاڑی شہیدوں اور تمام شہیدوں کی پاکیزہ ارواح ہم سے راضی رہیں اور خداوند عالم ہمیں بھی ان سے ملحق کرے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللّہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں اسپورٹس اور نوجوانوں کے امور کے وزیر جناب سید حمید سجادی، کھلاڑیوں کی انجمن کے سربراہ جناب مہدی میر جلیلی اور ویٹ لفٹنگ کے چیمپین علی داؤدی نے رپورٹیں پیش کیں۔

(2) فلم "لال مستطیل"، جس کے ہدایتکار حسن صید خانی اور حسین صید خانی برادران اور پروڈیوسر سید علی رضا سجادپور ہیں۔ یہ فلم مقدس دفاع کے دوران ایلام کے چوار علاقے کے عوام کی بہادری اور اس علاقے کے فٹبال کے میدان پر بمباری کی حقیقی داستان پر مبنی ہے۔

(3) سورۂ بقرہ، آيت 154، اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔

(4) سورۂ آل عمران، آيت 169، اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انھیں ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں۔

(5) سورۂ آل عمران، آيت 170، اور اپنے پیچھے آنے والوں کے بارے میں بھی، جو ابھی ان کے پاس نہیں پہنچے، خوش اور مطمئن ہیں کہ انھیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی حزن و ملال۔

(6) روس اور یوکرین کے درمیان فوجی ٹکراؤ جو کئي مہینے سے جاری ہے۔

(7) عالمی اداروں میں مغربی ملکوں کے اثر و رسوخ اور ان کی طاقت کے باعث یوکرین کے خلاف روس سے تعاون کے جرم میں روس اور بیلاروس کے تمام کھلاڑیوں پر کسی بھی عالمی اسپورٹس ٹورنامینٹ میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئي ہے۔

Monday, 10 October 2022 12:52

معاہدہ توڑا نہیں جاتا

گرمی کے موسم میں ایک دن ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی دھوپ میں ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے تھے دن بہت گرم تھا دھوپ پیغمبر اسلام کے سر اور چہرہ مبارک پر پڑ رہی تھی پیغمبر اسلام کی پیشانی سے پسینہ ٹپک رہا تھا گرمی کی شدت سے کبھی اپنی جگہ سے اٹھتے اور پھر بیٹھ جاتے اور ایک جانب نگاہ کرتے کہ گویا کسی کے انتظار میں بیٹھے ہیں پیغمبر اسلام کے اصحاب کا ایک گروہ اس نظارے کو دور سے بیٹھ کر دیکھ رہا تھا وہ جلدی سے آئے تاکہ دیکھیں کہ کیا وجہ ہے سامنے آئے سلام کیا اور کہا! یا رسول اللہ اس گرمی کے عالم میں آپ کیوں دھوپ میں بیٹھے ہوئے ہیں رسول خدا نے فرمایا! صبح کے وقت جب ہوا ٹھنڈی تھی تو میں نے ایک شخص کے ساتھ وعدہ کیا کہ میں اس کا انتظار کروں گا وہ یہاں آجائے۔ اب بہت دیر ہوگئی ہے اور میں یہاں اس کے انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں دھوپ ہے اور آپ کو تکلیف ہورہی ہے۔ وہاں سایہ کے نیچے چل کر بیٹھئے اور اس کا انتظار کیجئے پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ میں نے اس آدمی سے یہاں کا وعدہ کیا ہے میں وعدہ خلافی نہیں کرتا اور اپنے پیمان کو نہیں توڑتا جب تک وہ نہ آئے میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا۔
پیارے بچو! ہمارے پیغمبر اسلام عہد و پیمان کو بہت اہمیت دیتے تھے اور پیمان کو توڑنا بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے اور ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص عہدو پیمان کی وفا نہ کرے دیندار نہیں ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ مسلمان اور مومن انسان ہمیشہ اپنے عہدوپیمان کا وفادار ہوتا ہے اور کبھی اپنے پیمان کو نہیں توڑتا اور یہ بھی فرماتے تھے کہ جو انسان سچا امانتدار اور خوش اخلاق ہواور اپنے عہد و پیمان کی وفا کرے تو آخرت میں مجھ سے زیادہ نزدیک ہوگا قرآن بھی تمام مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے عہدو پیمان کی وفا کریں کیونکہ قیامت کے دن عہد اور وفا کے بارے میں سوال و جواب ہوگا۔
مذاق اڑانا
دوستو! اگر آپ کا کوئی مذاق اڑائے تو آپ کی کیا حالت ہوگی۔ کیا آپ ناراض ہوں گے؟
اگر آپ درس پڑھتے وقت کوئی غلطی کریں اور دوسرے آپ کا مذاق اڑائیں اور آپ کی نقل اتاریں تو کیا آپ ناراض ہوتے ہیں کیا آپ کو یہ برا لگتا ہے کیا اسے ایک بے ادب انسان شمار کرتے ہیں دوسرے بھی آپ کی طرح مذاق اڑائے جانے پر ناراض ہوتے ہیں اور تمسخر و مذاق اڑانے والے کو دوست نہیں رکھتے اور خدا بھی مذاق اڑانے والے کو دوست نہیں رکھتا اور اسے سخت سزا دیتا ہے۔ خداوند عالم قرآن مجید میں انسانوں کو مذاق اڑانے اور مسخرہ کرنے سے منع کرتا ہے اور فرماتا ہے:
”اے انسانو! جو خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو خبردار تم میں سے کوئی کسی دوسرے کا مذاق نہ اڑائے کیونکہ ممکن ہے کہ اپنے سے بہتر کا مذاق اڑا رہا ہو ایک دوسرے کو برا نہ کہو اور ایک دوسرے کو برے اور بھدے(نامناسب) ناموں سے نہ بلاﺅ ایک مسلمان کے لئے برا ہے کہ وہ کسی کی توہین کرے اور اسے معمولی شمار کرے پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے! جو شخص کسی مسلمان کا تمسخر یا مذاق اڑائے اور اس کی توہین کرے یا اسے معمولی سمجھ کر تکلیف دے تو اس کا یہ کام ایسا ہی ہے جیسے اس نے مجھ سے جنگ کی ہو۔

اسلام ٹائمز۔ انصار اللہ یمن کے سربراہ سید عبدالمالک بدر الدین الحوثی نے صنعاء میں پیغمبر اکرم (ص) کے یوم ولادت باسعادت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظالم اور استکبار اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لوگوں کو نبیوں اور رسولوں اور آسمانی تعلیمات اور دین سے دور کررہے ہیں، مذہب کے نام پر بگاڑ اور فساد پھیلاتے ہیں اور رشتوں کو حرام اور ہم جنس پرستی جیسے گھناؤنے جرائم کو پھیلاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اچھے اعمال کا نہ ہونا اور ان کی جگہ سیاہ خیالات اور برے مقاصد زندگی کو ایک بڑی مصیبت میں بدل دیتے ہیں۔ عبدالمالک الحوثی نے کہا کہ انسانی مصائب کی بنیادی وجہ ہدایت اور الٰہی تعلیمات کے راستے سے انحراف ہے جبکہ ان تعلیمات کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور اس کا کوئی متبادل بھی نہیں لا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص جتنا زیادہ خدائی اقدار کو نظر انداز کرتا ہے اتنا ہی زیادہ تکلیف اٹھاتا ہے اور اپنے دشمنوں کی زیادتی کا شکار ہوتا ہے۔ تحریک انصار اللہ کے رہنما نے مزید کہا کہ استکبار کہ جو ہمارے زمانے میں امریکہ اور غاصب اسرائیل ہیں، اور ان کے اتحادیوں کی تمام کوششیں انسانوں کو روشنی کے راستے سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جانے کے لئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (ص) انسانی کمالات کی معراج پر پہنچے اور آپ (ص) سب سے بڑے رسول اور بہترین انسان تھے، رسول اللہ (ص) نے ظالموں کو کچل کر عظیم کارنامہ انجام دیا اور عربوں کو جاہلیت سے دور سے نکال کر نور کی طرف لے گئے۔ الحوثی نے کہا کہ اگر مسلمان رسول اللہ (ص) کے راستے پر چلتے تو آج انسانی معاشروں کے قائدین میں سے ہوتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں مغرب اور مغربی معاشروں کے رہنماؤں سے کہتا ہوں کہ خدا اور اس کے رسولوں کی توہین، انبیاء سے دشمنی، خدا کی کتاب کو جلانے اور خدا کی تعلیمات سے دشمنی بند کریں۔ انصار اللہ کے رہنما نے کہا کہ میں مغرب کے رہنماؤں کو دعوت دیتا ہوں کہ اقدار سے لڑنا، بدعنوانی اور برائیوں کو فروغ دینا اور قوموں میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ دیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے ممالک کے حالات اور ان کے مسائل کے بارے میں سوچیں۔

الحوثی نے مزید کہا کہ میں مغرب کے رہنماؤں کو دنیا اور آخرت کے سنگین نتائج اور عذاب الٰہی سے خبردار کرتا ہوں اور انہیں صیہونیت کے طوق سے آزاد ہونے کی دعوت دیتا ہوں، جس نے انہیں گمراہ کیا ہوا ہے اور ان پر مکمل غلبہ حاصل کر رکھا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہم امت اسلامیہ کے تمام مسائل بالخصوص مسئلہ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اپنے اصولی اور قرآنی موقف پر تاکید کرتے ہیں۔ الحوثی نے کہا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا خدا، پیغمبر اکرم (ص) اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت اور کھلی منافقت ہے۔ انہوں نے یمن پر جارحیت پسندوں کے اتحاد سے کہا کہ وہ اپنی جارحیت کو ختم کرے اور یمن کی ناکہ بندی ختم کرے، قبضہ ختم کرے اور اس جنگ کو بند کرے۔ الحوثی نے یمنی قوم سے بھی درخواست کی کہ وہ جارحیت کا مقابلہ کرتے رہیں اور اس محاذ آرائی کو مقدس جہاد سمجھیں۔
 
 
 
Monday, 10 October 2022 12:37

لبیک یارسول اللہﷺ یعنی

ہمارے لامحدود سلام اس پر کہ جسے رب العالمین نے رحمت للعالمین بنا کر بھیجا۔ سلام  اس ہستی پر کہ جو سید الانبیأ ہیں، جو مکہ و منیٰ کے وارث ہیں۔ سلام اس پر جس نے اپنی ردا میں حجرِ اسود کو اٹھایا۔ سلام ہو اس پر جس کی بُراق سواری تھی۔ جسے راتوں رات مسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی گئی۔ سلام اس پر کہ جسے جبرائیل سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے۔ سلام اس پر کہ جو مقامِ قاب قوسین او ادنیٰ کی منزل تک جا پہنچا۔ سلام اس پر کہ جس نے آسمان کے فرشتوں کو  نماز پڑھائی۔ سلام اس پر کہ جس پر ربِّ جلیل نے وحی فرمائی۔ ان پر سلام جو طبیبِ دَوّار تھے۔ جو اپنی حکمت کو لئے ہوئے، اندھے دلوں، بہرے کانوں اور گونگی زبانوں کا علاج کرتے تھے۔ وہ ایسے طبیب کی مثل کہ جس کو انسانیت کا درد ہو اور وہ  دوا لئے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہوؤں کی کھوج میں لگا رہتا ہو۔ سلام ہو اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی۔ سلام اس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی۔ جو ضعیفوں کا ملجا اور یتیموں کے لئے پناہ گاہ تھے۔

سلام اس پر جس نے آکر جاہلوں کو عالم، سود خوروں کو کسب حلال، قاتلوں اور زندہ در گور کرنے والوں کو فرزند دوستی، مشرکوں کو موحِّد، فرقوں میں منقسِم لوگوں کو منسجم، خرافات زدوں کو حقیقت کے متلاشی اور ذلّت میں پڑے ہوؤں کو عزت و عظمت کی راہ دکھائی۔ "ذرّہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب۔" سلام ہو ہادیِ برحق خدا کے صادق اور امین رسولﷺ پر۔ اس پر سلام جو انسانیت کے غم میں مصلوں سے اشکوں کو ترَ کرتا تھا۔ جو ظلمات میں گھرے ہوؤں کے لئے مشعلِ راہ تھا۔ جس کی امّتی امّتی کہتے کہتے، مناجات کرتے ہوئے سحر ہو جاتی تھی۔ اس پر سلام کہ جسے پھر بھی پتھر مار کر لہو لہان کر دیا جاتا، کبھی مجنون تو کبھی جادو گر کہا جاتا۔ سلام اس مکارم اخلاق کی بلندیوں پر فائز رسولﷺ پر۔ سلام اس پر جس نے ایسی حکومت کی بنیاد رکھی کہ جس میں کسی گورے کو کالے پر، کالے کو گورے پر، عجمی کو عربی پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں تھی۔ جہاں فضیلت کا معیار تقویٰ تھا۔

سلام ہو اس کارخانۂ تربیت پر کہ جس نے ایسے انسانوں کی تربیت کی کہ جو دنیا کے لئے باب العلم، نجات کی کشتی اور ہدایت کے چراغ بنے۔ اس پر سلام جس نے مردہ دلوں میں روحِ حیات پھونک دی۔ وہ بلال رضی اللہ عنہ کہ جو لوگوں کے کہنے پر بھاگتے تھے۔ یارسول اللہﷺ یہ آپ کا کرم تھا کہ وہی موذّن جب اذان کی صدا بلند کرتا تھا، تمام لوگ اس صدا پر لبیک کہتے ہوئے خانۂ خدا کا رخ کر لیتے تھے۔ خدا کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے اُس زمانے میں اللہ کے محبوب پیامبرﷺ کو اذیتیں دیں۔ جن کی اذیتوں پر تبت یدا ابی الہب کی آیات نازل ہوئیں۔ پیغام ہے ان ذلیل، پست فطرت اور اسفل سافلین کے مصداق لوگوں پر کہ جو آج نفس کی اسیری میں مبتلا، آزادی ٔبیاں کے نام پر محسنِ انسانیت کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔ تم کیا ہو، تم سے پہلے کتنے ابو جہل و ابولہب اس نور کے مٹنے کی آس لیکر  فی الناّر ہوئے۔ تم نے خود اپنے آپ کو شجرۂ خبیثہ کا مصداق قرار دیا ہے۔

یہ وہ نور ہے، جس کے ِاتمام کا وعدہ خود خداوند متعال نے فرمایا ہے۔ تم نہیں رہو گے، جب تک خدائی ہے، محمد مصطفیٰﷺ کا نام باقی رہے گا۔ ایھا المسلمون! آئیں سیرت و کردار میں اس صادق و امین پیامبرﷺ کے اسوہ ٔحسنہ کو عملی کریں۔ وہ جس رحمت للعلمین نے پَرایوں کو اپنا بنایا تھا۔ ہم اپنوں کو پرایا نہ بنائیں۔ خدا ایک، رسول ایک، کلمہ ایک، قبلہ ایک، قرآن ایک، لیکن ہم کیوں ایک نہیں ہیں۔؟
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیﷺ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ (جوابِ شکوہ:علامہ اقبالؒ)

ہم اپنا رول ماڈل اُس مدینہ کو قرار دیں، جس کا سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی نظام اسلامی تھا۔ لبیک یارسول اللہﷺ یعنی زبان سے بھی اور عمل سے بھی، کہ ہم ان طاغوتوں کے سامنے نہیں بلکہ الہیٰ اقدار کے سامنے سر جھکائیں گے۔ تمام اخلاقی اقدار میں دنیا کے کیلئے رول ماڈل بنیں گے۔ افسوس ہے ان نام لیوا مسلمانوں پر کہ جن کا نام تو مسلمانی ہے، لیکن آج روحِ اسلام سے خالی ہیں، جو پنجۂ یہود میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جن کا رول ماڈل اللہ کے حبیب نہیں بلکہ مغربی تہذیب کے یہ تراشے ہوئے بُت ہیں۔ جہاں دشمنِ دیں، دشمنِ رسول اللہﷺ سے بیزاری کا اعلان کرنا ہے، وہاں یہ بھی عہد کرنا ہے کہ لبیک یارسول اللہﷺ یعنی ہماری جان، مال اور اولاد آپ کی راہ پر قربان۔ لبیک یعنی یہ اقرار کہ یہود و نصاریٰ سے بیزاری کا اعلان، یعنی اس بات کا اعلان کہ تعلیم، سیاست اور معاشرت آپﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ہوگی۔ علّامہ اقبال ؒ کا پیغام
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

تحریر: مقدر عباس

افغانستان کے قصبے دشت برچی میں ہولناک دہشت گردانہ حملے کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ اس حملے میں 35 نوجوان بچے اور بچیاں شہید ہو گئی تھیں۔ یہ بچے اور بچیاں کاج تعلیمی مرکز میں یونیورسٹی کا داخلہ امتحان دینے کی غرض سے آئے تھے۔ البتہ اس سے پہلے بھی سیدالشہداء گرلز کالج اور کئی دیگر اسپتال اور تعلیمی مراکز ایسی بربریت کا شکار ہو چکے تھے۔ اسی طرح کئی مساجد اور امامبارگاہوں کو بھی انسان سوز دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ان تمام دہشت گردانہ اقدامات میں شہید ہونے والے افراد کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع ہزارہ برادری سے ہے۔ دشت برچی میں رونما ہونے والا واقعہ تازہ ترین سانحہ ہے۔ یہ دہشت گردانہ حملہ کرنے والا صرف ایک دہشت گرد تھا جس نے نہتے بچوں اور بچیوں پر فائرنگ کرنے کے بعد خودکش دھماکہ کر دیا۔
 
جمعہ کے روز سے ہی جب یہ حملہ انجام پایا ہے، عوام کی جانب سے وسیع ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس حملے کے بعد ایک بار پھر "ہزارہ برادری کی نسل کشی" کا ایشو میڈیا میں سامنے آ گیا ہے۔ افغانستان میں مختلف قومی اور مذہبی گروہوں کی جانب سے شیعہ اقلیت کے حقوق کی پامالی اور ان پر دھونس جمانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ان دنوں افغانستان میں جو حالات حکمفرما ہیں ان کی روشنی میں "ہزارہ کشی" کی اصطلاح رائج ہو چکی ہے۔ ان سب کا اشارہ ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کرنے میں موجودہ افغان حکومت کی ناکامی کی جانب ہے۔ اگرچہ دشت برچی میں رونما ہونے والے حالیہ خودکش دھماکے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی لیکن ماضی میں اسی قصبے میں انجام پانے والے دیگر دہشت گردانہ اقدامات کی ذمہ داری تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی شاخ امارت خراسان قبول کر چکی ہے۔
 
دشت برچی میں کاج تعلیمی مرکز پر ہونے والے اس خودکش دھماکے میں 82 بچے اور بچیاں زخمی بھی ہو گئی ہیں جن میں سے زیادہ تعداد بچیوں کی ہے۔ خون میں لت پت ان بچیوں کی تصاویر اور شہید ہونے والے بچوں اور بچیوں کی خون آلود کتابوں اور کاپیوں کی تصاویر نے اس واقعے کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی سوگوار فضا حاکم ہے لیکن افغانستان کی خواتین نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج بھی کر رہی ہیں۔ گذشتہ ہفتے کابل، ہرات اور مزار شریف سمیت افغانستان کے مختلف شہروں میں خواتین کی ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے منعقد ہوئے ہیں۔ مظاہرین نے منظم منصوبہ بندی کے ذریعے ایک ہی قوم کے افراد کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنانے کو نسل کشی قرار دیا اور اس کی شدید مذمت کی ہے۔
 
افغانستان پر طالبان کے برسراقتدار آئے ایک برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور اس تمام عرصے میں لڑکیوں کو کالج لیول پر تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسی طرح لڑکیوں کے پرائمری اسکولوں کی تعداد بھی بہت کم کر دی گئی ہے جبکہ یونیورسٹی میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کو علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سماجی سطح پر بھی خواتین کی موجودگی اور فعالیت پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ مزید برآں، گذشتہ چند دنوں سے افغانستان کے مختلف شہروں میں کاج تعلیمی مرکز پر دہشت گردانہ حملے کے خلاف نکلنے والی خواتین کی ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں پر بھی طالبان نے حملہ کیا ہے۔ اسی طرح طالبان نے رپورٹرز کو ان مظاہروں کی کوریج دینے کی اجازت بھی نہیں دی۔
 
حملے میں شہید ہونے والی ایک بچی کی والدہ نے الجزیرہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس کی بچی حال ہی میں مارشل آرٹس اور انگلش کی کلاسز میں شرکت کرنا شروع ہوئی تھی۔ ایک اور شہید ہونے والی بچی کی کاپی میں لکھا ہوا تھا کہ وہ ناول نگار بننے کا شوق رکھتی ہے۔ حملے میں زخمی ہونے والی 17 سالہ بچی مریم فاروز کہتی ہے: "میں ریاضی کا ایک سوال حل کر رہی تھی کہ اچانک فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ ہم سب اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور اتنے میں ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ ہم نے قلم اور کاپیاں چھوڑ کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی۔ ہم سب اپنی جان بچانے کی کوشش میں تھے کہ اتنے میں خودکش دھماکہ ہو گیا۔"
 
دوسری طرف عالمی سطح پر بھی افغانستان میں جاری اس نسل کشی پر مجرمانہ خاموشی اور بے حسی پائی جاتی ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی نظر میں افغانستان میں کھیلی جانے والی اس خون کی ہولی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ افغانستان کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر رچرڈ بینٹ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہزارہ خواتین کے تعلیمی مراکز پر حملے بند ہونے چاہئیں۔ لیکن اس حد تک موقف کا اظہار قابل قبول اور کافی نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت بننے کے بعد سے اب تک ہزارہ برادری سمیت اہل تشیع شہریوں پر متعدد دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں جن میں سے صرف 13 کی ذمہ داری داعش کی شاخ امارت خراسان نے قبول کی ہے۔ مجموعی طور پر ان حملوں میں 700 افراد شہید اور زخمی ہوئے ہیں جبکہ عالمی سطح پر بہت کم ردعمل سامنے آیا ہے۔

تحریر: فاطمہ کریم خان

کراچی: مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی صدر علامہ باقرعباس زیدی نے کہا ہے کہ جشن ولادت باسعادت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے موقع پر ملک بھر کی طرح سندھ بھر میں بھی 12 تا 17 ربیع الاول بفرمان امام خمینی ہفتہ وحدت منایا جائیگا۔ اس سلسلے میں مشترکہ اجتماعات منعقد کر کے عظیم وحدت کا پیغام دینگے، تمام مکاتب فکر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان اجتماعات میں شرکت کرکے عملی وحدت کا مظاہرہ کریں اور دشمن کی سازش کو ناکام بنا دیں،ملک کے چپے چپے میں شیعہ سنی ملکر میلاد النبی ﷺکے جلوس نکالیں،ایم ڈبلیوایم کے کارکنان سبیلیں لگائیں اور شرکائے جلوس کا استقبال کریں،انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شیعہ، سنی متحد ہیں کوئی فرقہ واریت نہیں، چند عناصر ملک کے امن کو غارت کرنا چاہتے ہیں جنہیں ہم اپنے اتحاد سے ناکام بنا دیں گے،عالم اسلام معاشرتی مشکلات اور عالم کفر کی سازشوں سے نبردآزما ہونے کیلئے سیرت پیغمبر ختمی مرتب ﷺسے استفادہ کرے۔