سلیمانی

سلیمانی

دمشق: انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والے امریکا نے شام میں تباہ کن زلزلے سے متاثرین کے لئے کسی بھی قسم کی امداد دینے سے انکار کردیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نے بدھ کو نامہ نگاروں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ہم شام میں جاری امدادی کارروائیوں کے دوران کسی بھی طرح کی مدد نہیں کریں گے۔ شام میں ہمارے انسان دوستانہ مراکز ہیں اور ہم انہیں بجٹ فراہم کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم ایک بار پھر یہ کہہ رہے ہیں کہ زلزلے سے متاثرین کو نجات دلانے کے عمل میں ہم شام کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔ انٹونی بلنکن نے یہ ایسے وقت کہا ہے جب متاثرین کو فوری طور پر عالمی سطح کی انسان دوستانہ امداد کی اشد ضرورت ہے ۔

﴿1﴾ وَالْفَجْرِ
(1) قسم ہے فجر کی


﴿2﴾ وَلَيَالٍ عَشْرٍ
(2) اور دس راتوں کی

ایران کے تمام شہروں اور قصبوں و دیہاتوں میں گیارہ فروری کے جشن انقلاب کا ملین مارچ ہفتے کی صبح  شروع ہو جائے گا جس میں کروڑوں کی تعداد میں ایرانی عوام شرکت کرکے اسلامی انقلاب کی امنگوں اور اقدار سے اپنی وفادار کا بھر پور اعلان کریں گے 
اسلامی تبلیغات کی کوآرڈینیشن کونسل کے چیئرمین نے اعلان کیا ہے کہ جشن انقلاب کی ریلیاں  ایران کے ایک ہزار چار سو سے زائد شہروں اور اڑتیس ہزار قصبوں اور دیہاتوں میں نکالی جائیں گی۔
دارالحکومت تہران میں بھی ہمیشہ کی طرح عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت سے ایک اور تاریخی کارنامہ رقم کیا جائے گا۔
اسلامی تبلیغات کی کوآرڈینیشن کونسل کے چیئرمین موسی پور نے کہا کہ جشن انقلاب کی ریلیوں  کے راستوں میں واقع اسٹالوں میں ایرانی ہنری اور دستکاری صنعتوں کی نمائش کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے۔
تہران میں جشن انقلاب کے  اجتماع سے صدر رئیسی  خطاب کریں گے 

سحرنیوز/عالم اسلام: شام کے صدر بشار اسد نے خاتون اول کے ساتھ حلب کا دورہ کیا جہاں انہوں نے حلب میڈیکل یونیورسٹی کے ہسپتال میں زلزلے میں زخمی ہونے والوں اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات اور گفتگو کی۔
اس کے علاوہ انہوں نے امدادی کارروائی کا قریب سے جائزہ لیا اور ضروری اقدامات کی ہدایات دیں۔
اس درمیان، بشار اسد نے عراق کی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے سربراہ ابوفدک المحمداوی سے بھی ملاقات کی جو شامی زلزلہ زدگان تک امداد پہنچانے کے لئے پوری ٹیم کے ساتھ حلب پہنچے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ دنیا بھر سے ترکی اور شام میں آنے والے زلزلے کے لئے تعزیتی پیغامات تو جاری ہو رہے ہیں لیکن امریکہ کے دباؤ اور عائد پابندیوں کے نتیجے میں دمشق تک امداد کا سلسلہ انتہائی محدود پیمانے پر انجام دیا گیا ہے۔ ایران، عراق لبنان  روس اور چند گنے چنے ممالک، ان تمام پابندیوں کے باوجود دمشق کو امدادی سامان فراہم کر رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے   ریسکیو اور میڈیکل ٹیمیں بھی شام کے مختلف شہروں کی جانب روانہ کر دی ہیں۔

Friday, 10 February 2023 21:10

خوشبو کا سفر

قانونِ قدرت ہے کہ جب ظلم و ستم کا بے کراں سمندر اپنے کناروں سے بے کنار ہو جاتا ہے اور مظلوم کی داد و فریاد افلاک کے سینے کو چاک کرتے ہوئے عرشِ الٰہی کے زینے تک رساٸی حاصل کر لیتی ہے، تو ایسے میں اپنے بندوں پر حد سے زیادہ کریم ذاتِ خداوندِ متعال منصہء عالم پر اپنی کسی ایسی نشانی کو ظاہر کرتی ہے، جس کی ضیاء بار شعاٶں میں شب گزیدہ انسانیت اپنی نجات کی راہیں تلاش کرتی ہے۔ گردشِ زمانہ پر نظر رکھنے والے صاحبانِ نظر مدتِ دراز سے چودھویں صدی کے اختتام پر دنیا میں کسی بہت بڑی جوہری تبدیلی کا امکان دیکھ رہے تھے۔ بعض نے تو اس تبدیلی کو قیامت کا نام دے رکھا تھا۔ آخر چشمِ فلک نے دیکھا کہ افقِ عالم پر کوٸی ایسی شخصیت جلوہ گر ہوٸی ہے، جس نے عالمی کفر کے ایوانوں میں واقعی قیامت برپا کر دی ہے اور عالمی سیاست کے دھارے کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ روح اللہ کے نام سے قم کی مقدس سرزمین سے قیام کرنیوالے رجلِ فارس نے عیسیٰ روح اللہ کی طرح ”قم باذن اللہ“ کہہ کر دنیا کے مستضعفین کے بے جان پیکر میں ایسی روح پھونک دی، جس نے اڑھاٸی سو سالہ شہنشاہیت کے بت کو سرنگوں کرکے اس کی جگہ اسلامِ نابِ محمدی کا پرچم لہرا دیا۔

شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی چشمِ ادراک نے اس انقلابِ حقیقی کا مشاہدہ ایک صدی قبل کر لیا تھا اور اپنے ایک الہامی شعر میں اس بات کا اشارہ کر دیا تھا کہ ایران کی سرزمین سے ایک ایسا مردِ کامل ظہور کرے گا، جو اہلِ ایران کی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر رکھ دے گا۔
می رسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند
دیدہ  ام  از  روزنِ  دیوارِ  زندانِ  شما
امام خمینی نے جب ایران کی سرزمین پر اپنا قدمِ مبارک رکھا تو اس کے نتیجے میں نہ صرف عالمی سامراجی نظام کے وجود میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگٸیں بلکہ لادینی نظریات پر مبنی کمیونزم کی ہڈیوں کے چٹخنے کی آوازیں بھی دنیا کے گوش و کنار میں سنی جانے لگیں۔ امام خمینی کی پیغمبرانہ قیادت میں برپا ہونیوالا یہ انقلاب ایک ایسا نظریاتی انقلاب ہے، جو محض ایک خطے تک محدود نہیں بلکہ اس کی خوشبو ہوا کے دوش پر سفر کرتی ہوٸی جغرافیاٸی حدود سے بالا تر سوچ کی وادیوں کی پیماٸی کر رہی ہے۔

آج دنیا کی مستضعف، مظلوم اور آزادی پسند اقوام اسی انقلاب کو اپنی مقاومت کا محور بناٸے ہوٸے دنیا کے ہر میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ شام، عراق، لبنان، فلسطین، یمن اور کشمیر، جہاں بھی مظلوم و مہقور عوام دہشتگردوں، انتہا پسندوں، تکفیریوں اور ان کے سرپرستوں کیخلاف نبرد آزما ہیں، وہ سب خمینیء بت شکن کے افکار کو عمل کے سانچے میں ڈھال رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج صیہونیوں کے حاشیہ بردار اور آل سعود کے نمک خوار امام خمینی کے نقش قدم پر چلنے والے پیروانِ ولایت کے قدموں کی دھول کو اپنی جانب امڈتا ہوا ایک ایسا طوفان سمجھ رہے ہیں، جو ان کے تخت و تاج کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ ایران کا اسلامی انقلاب تقریباً اپنے نصف صدی کے سفر کے بعد آج پہلے سے زیادہ مضبوط اور توانا ہے۔

ایران آج زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ دفاعی شعبے میں اس کی ترقی حیرت انگیز ہے۔ فضاٸی برتری کو قاٸم رکھنے والی آج کی جدید ٹیکنالوجی، ڈرون ٹیکنالوجی ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی ایک امریکی ڈرون کا ہی نشانہ بنے تھے۔ آج ایرانی ڈرونز نے امریکہ اور اسراٸیل کی نیندیں حرام کی ہوٸی ہیں۔ روس جیسی اسلحہ ساز طاقت بھی آج ایرانی ڈرونز کی خریدار ہے۔ پاکستان میں آج کل معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں ہمارے حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ ملکی حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے ایران سے فوری نوعیت کے معاہدے کریں۔ تیل کی ترسیل ہو، گیس کی فراہمی ہو یا اقتصادی اور دفاعی تعاون، اس وقت جغرافیاٸی اور تزویراتی اعتبار سے ایران ہی وہ واحد ملک ہے، جو ان تمام میدانوں میں بغیر کسی کے دباٶ کے پاکستان کی مدد کرسکتا ہے۔
تہران ہو گر عالمِ مشرق کاجنیوا
شاید کرہءارض کی تقدیر بدل جاٸے
                                           (اقبالؒ)

تحریر: سید تنویر حیدر

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری ایڈمرل علی شمخانی نے بدھ کے روز افغانستان اور علاقائی سلامتی کے بارے میں ماسکو فارمیٹ مشاورت 2023 میں خطاب کیا۔ علاقائی سلامتی کے لئے مشاورت کے اس پانچویں اجلاس میں جو ماسکو میں ہو رہا ہے، افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی قومی سلامتی کے سیکرٹریز اور مشیر شرکت کر رہے ہیں۔ اجلاس میں افغانستان کے موجودہ حالات اور اس کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔

اجلاس روسی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نکولائی پیٹروشیف کی تقریر سے شروع ہوا جبکہ روس، ایران، بھارت، چین، تاجکستان، کرغزستان، ازبکستان اور ترکمانستان کی قومی سلامتی کے اداروں کے سیکریٹری، مشیر اور نمائندے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔

ایرانی قومی سلامتی کے سیکریٹری نے اپنی تقریر میں کہا کہ افغان شہری طویل عرصے سے جس عدم تحفظ کا شکار ہیں اسے خطے سے باہر کی ریاستوں کی مداخلت کی وجہ سے خطے کے تمام لوگوں کے لیے مشترکہ مصیبت نہیں بننے دیا جانا چاہیے۔

ایڈمرل علی شمخانی نے کہا کہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران اور افغانستان کے بدترین حالات میں اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ افغان عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور اس وقت ایرانی حکومت اور عوام رہبر معظم انقلاب اسلامی کی ہدایت پر اور امریکہ کی طرف سے ایرانی عوام پر عائد کی گئی سخت، یکطرفہ اور غیر قانونی پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے باوجود بھی افغان عوام کی مدد اور میزبانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے افغانستان میں سلامتی کی صورتحال کے اس کے پڑوسیوں پر براہ راست اثرات کا حوالہ دیا اور کہا کہ افغانستان میں سلامتی، امن، استحکام اور ترقی کا حصول ہماری اہم ترجیحات میں شامل ہے۔

ایرانی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نے زور دیا کہ صرف پڑوسیوں کی اجتماعی کوششیں افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کی ضمانت نہیں دے سکتیں بلکہ بد امنی، عدم تحفظ اور عدم استحکام کے شیطانی دائرے سے نکلنے کے لیے افغان گورننگ باڈی اور دیگر مقامی اسٹیک ہولڈرز کے عزم و ارادہ اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ 

شمخانی نے کہا کہ افغانستان کے قومی اتحاد کو فرقہ وارانہ اور نسلی تعصب کے بغیر سیاست اور حکومت میں اس ملک کے تمام لوگوں کی شرکت کے لیے زمین فراہم کر کے مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی اس میں مختلف شعبوں بالخصوص پڑوسیوں کے حوالے سے افغانستان کی اپنے ذمہ داریوں اور وعدوں پر مکمل وابستگی اور دہشت گرد گروہوں کو قابو کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کے ساتھ ساتھ افغانستان میں استحکام کے حصول کے لیے ضروری اقدامات بھی شامل ہیں۔

شمخانی نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کسی بھی قسم کے سیاسی نظام کا نفاذ اور بیرونی مداخلت صرف افغانستان میں عدم استحکام اور عدم تحفظ کو بڑھا دے گی اور وہاں ایک جامع حکومت کی تشکیل میں رکاوٹ بنے گی۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کہ امریکہ افغانستان کو عدم تحفظ اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے پلیٹ فارم میں تبدیل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے افغانستان کی تباہی میں سب سے بڑا کردار ادا کیا وہ اب افغانستان کے اقتصادی ڈھانچے کی تعمیر نو کے اخراجات فراہم کرنے کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں اور ہمیں انہیں اس ذمہ داری سے بچنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

شمخانی نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے منجمد اثاثے اس ملک کے عوام کے ہیں اور ان کی بحالی اس ملک کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کریں گے۔

شمخانی نے اپنی تقریر کے آخر میں ایک بار پھر افغانستان کی سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی تعمیر نو اور ترقی کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی مکمل آمادگی کا اعلان کیا اور اجلاس میں شریک ممالک پر زور دیا کہ وہ ایک آزاد، محفوظ، مستحکم اور ترقی یافتہ افغانستان بنانے کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کریں۔

شیعہ نیوز: حوزہ علمیہ جامعہ العروة الوثقیٰ لاہور میں امیر المومنین حضرت علی (ع) کی ولادتِ با سعادت اور جامعہ عروۃ الوثقی ٰکے تیرہویں یومِ تاسیس کی مناسبت سے عظیم الشان ملک گیر اجتماع بعنوان "وحدت و تفرقہ امام علی (ع) کی نگاہ میں” منعقد ہوا، جس میں ملک بھر سے ہزاروں فرزندانِ توحید، علماء اسلام اور دانشوران گرامی شریک ہوئے۔ اجتماع میں عالمی شہرت یافتہ انقلابی مداح اہلبیتؑ مہدی رسولی نے خصوصی شرکت کی، جبکہ پیر غلام رسول اویسی، مفتی زبیر فہیم، پروفیسر ظفر اللہ شفیق، ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا، میر آصف اکبر، ڈاکٹر علی وقار قادری، پیرزادہ برہان الدین عثمانی، مفتی گلزار احمد نعیمی، پیر حبیب عرفانی، مولانا عاصم مخدوم، حافظ محمد حسین گولڑوی، پروفیسر ڈاکٹر محمود غزنوی و دیگر نے خطاب کیا۔ معروف منقبت خواں زین العابدین سعیدی اور علی دیپ رضوی نے بھی عقیدت کے پھول نچھاور کئے۔

اپنے خطاب میں علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ امت مسلمہ ڈیڑھ ارب جمعیت، دولت و ثروت، منابع و معادن ذخائر و خزائن رکھنے کے باوجود غلام، محکوم، محتاج اور کمزور ہے، اور شیطانوں کے سامنے تسلیم ہے۔ اس کی واحد اور اصلی وجہ بے شعوری اور تفرقہ ہے۔ اقوام متحدہ امت متفرقہ پر مسلط ہے۔ فلسطین اور قبلہ اول مسلمانوں کے تفرقے پر سسک رہا ہے۔ کشمیر کے لاکھوں شہداء اور ہزاروں تار تار دامن مسلمانوں کی بے حسی اور تفرقہ پر گواہی دے رہے ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، لبنان تفرقے کی آگ کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمان متشدد ہندوؤں اور مودی جیسے قصائی کے سامنے قربانی کے حیوانوں کی طرح سر جھکائے مسلمانوں کے اندر تفرقے کے عینی گواہ بنے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فرقه بازی فرقہ پرستی اور تفرقے کو مٹانے کیلئے رسول اللہ کی امت رسول اللہ کی طرف پلٹے اور وحدت امت اور حفاظت دین کیلئے آل رسول کا دامن تھامے۔ انہوں نے کہا کہ امیر المؤمنین حضرت علی (ع) نے وحدت کیلئے قربانیاں دیں قیام و اقدام کیا اور توحید و وحدت کا عملی نقشہ پیش کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ زمین پر خالص قرآنی توحید کی تجلی وحدت امت کہلاتی ہے اور شرک تفرقہ و تکثر بن کر زمین میں ظاہر ہوتا ہے۔ وحدت پر کائنات کا نظام قائم ہے، وحدت پر ایمان استوار ہے اور وحدت کے ستون پر اسلام کا انحصار ہے۔

انہوں نے کہا کہ حوزہ علمیہ جامعہ عروۃ الوثقیٰ، پاکستان کے معتبر تعلیمی اداروں میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، جو ٢٠١٠ میں اپنی تاسیس کے بعد سے خدا کے لطف سے پاکستان میں قابل دید خدمات پیش کر رہا ہے اور مجمع المدارس تعلیم القرآن والحکمہ پاکستان میں ایک تعلیمی انقلاب کی بنیاد بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تعلیمی اخلاق کا ارتقاء چاہتے ہیں اور تعلیمی نظام میں دو بنیادی اراکین قائم کرنے کیلئے کوشاں ہیں، جن میں سے ایک تعلیمی عمل میں تحقیق کا فروغ ہے، اور دوسرا پاکستانی مدارس کے افکار کی تعمیر نو ہے۔

اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت مسلمین کیلئے نقطہ اتحاد ہے جن کے گرد سب جمع ہو کر ہم اپنے دامن کو الٰہی حکمتوں سے بھر سکتے ہیں ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اہلِ بیت علیہم السلام کی تعظیم اور پیروی ہی مسلمین کی پراگندہ جمیعت کو امتِ واحدہ میں تبدیل کر سکتی ہے۔

8 فروری 1979 کے واقعے اور سابق شاہی فضائيہ کے ایک خصوصی دستے 'ہمافران' کی جانب سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر بدھ کی صبح فضائيہ اور ایئر ڈیفنس کے سیکڑوں کمانڈروں اور جوانوں نے رہبر انقلاب اسلامی اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔

اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے مومن، انقلابی، عزیز، عوامی اور بہت بڑے اور حیرت انگیز کارنامے کرنے والی فوج کو سراہتے ہوئے 8 فروری 1979 کے واقعے کو اسی سال 11  فروری کے دن اسلامی انقلاب کی کامیابی کا اہم عنصر قرار دیا۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ دشمن اس کوشش میں ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے اور اختلاف و عدم اعتماد پیدا کرکے اسے ختم کر دے۔ انہوں نے کہا کہ اس مذموم سازش کے مقابلے میں سب سے اہم ذمہ داری، اتحاد کی اسٹریٹیجی کی حفاظت ہے اور خداوند عالم کی توفیق سے اس سال کی 11 فروری، قومی اتحاد و اعتماد کا مظہر بنے گی اور عوام تمام بدخواہوں کو یہ واضح پیغام دیں گے کہ بے اعتمادی پیدا کرنے اور قومی اتحاد کو ختم کرنے کی ان کی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔

انھوں نے 8 فروری 1979 کے واقعے کو 11 فروری کے دن اور ایرانی قوم کی عظمت و عزت کے اظہار کے لیے ایک مؤثر اور حوصلہ افزا واقعہ قرار دیا اور کہا: 11 فروری، ایرانی قوم کی پرافتخار تحریک کا نقطۂ عروج ہے اور اس کی تاریخ کے سب سے پرشکوہ دن کی یاد دلاتی ہے کیونکہ اس دن عوام نے، اپنی عزت، عظمت اور طاقت کو حاصل کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مختلف میدانوں میں ایرانی قوم کی جدت عمل، پیشرفت، بھرپور صلاحیت اور مضبوط بیانیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سال کے اعتکاف کے پروگرام میں سنہ دو ہزار کے عشرے کے نوجوانوں کی بھرپور شرکت کو، قومی پیشرفت کا ایک نمونہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ سنہ دو ہزار کے عشرے میں پیدا ہونے والے نوجوانوں کے بارے میں کس قدر استہزائيہ لطیفے بنائے گئے لیکن اس سال کے اعتکاف کے اعداد و شمار اور رپورٹوں میں بتایا گيا کہ اعتکاف کرنے والوں کی بڑی تعداد اسی عشرے میں پیدا ہونے والے نوجوانوں کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ انقلاب کو شکست دینا اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی واضح چال اور ہدف ہے، آپ کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں جھوٹ بولتے ہیں جیسا کہ تقریبا پندرہ سال پہلے امریکا کے اس وقت کے صدر نے مجھے ایک خط میں صاف طور پر لکھا تھا کہ ہم آپ کے نظام کو بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن اسی وقت ہمارے پاس ایسی رپورٹیں تھی کہ وہ لوگ اپنے یہاں اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنے کی سازشیں تیار کر رہے تھے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ان کی اسٹریٹیجی اختلاف پیدا کرنا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو مستقبل کے سلسلے میں امید ختم ہو جائے گي۔

انھوں نے کہا کہ سیاسی حلقوں کے درمیان بدگمانی پیدا کرنا، لوگوں کے آپسی اور حکومت پر پائے جانے والے اعتماد کو ختم کرنا اور اداروں کے درمیان بدگمانی پیدا کرنا، ایران کا برا چاہنے والوں کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کی چالوں میں شامل ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ فطری طور پر پائے جانے والے آراء میں اختلاف اور سیاسی اختلاف میں کوئي برائي نہیں ہے لیکن یہ اختلاف آپسی ٹکراؤ اور ایک دوسرے پر الزام تراشی پر منتج نہیں ہونے چاہیے اور دشمن کی چال کے سامنے سب کو اتحاد کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔

انھوں نے 8 فروری کی امام خمینی کی تصویر کو، کوہ دماوند کی چوٹی کی طرح طاقت، عزت اور پختہ ایمان کا مظہر اور اسی کے ساتھ شاہی حکومت کی فوج کے جوانوں کے سلسلے میں پیار بھری اور پدرانہ شفقت کی تصویر بتایا۔

انھوں نے کہا کہ فوج، امام خمینیؒ کے ساتھ کھڑی ہو گئي اور انقلابی بنی رہی اور یہ انقلابی باقی رہنا اہم مسئلہ ہے کیونکہ کچھ لوگ انقلابی تو بن جاتے ہیں لیکن انقلابی باقی نہیں رہ پاتے لیکن اسلامی جمہوریہ کی فوج آج پہلے دن سے کہیں زیادہ انقلابی، مومن اور مخلص ہے اور جہاں بھی ضرورت پڑی اس نے جوانمردی اور ایثار کے ساتھ عوام کے کندھے سے کندھا ملا کر کردار ادا کیا اور ملک کے دفاع کے لیے بھرپور استقامت دکھائي ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آج کی فوج کو خودمختاری و ثبات کا مظہر اور عوام و حکام کے درمیان ہر دلعزیز اور قابل اعتماد قرار دیا اور کہا: آج فوج، عوام کے ساتھ، عوام کے شانہ بہ شانہ اور عوام کا حصہ ہے اور اگر ماضی میں اسے امریکیوں سے خریدے گئے طیارے کے پرزوں کو ہاتھ تک لگانے کا حق نہیں تھا تو آج وہ پابندیوں کے باوجود طیارے بنا رہی ہے اور عوام کے لیے بڑے بڑے، حیرت انگيز اور پرافتخار کام انجام دے رہی ہے جس کے کچھ نمونوں کا کل مظاہرہ کیا گيا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ان کوششوں کا معنوی نتیجہ، سب سے بڑے افتخار یعنی پروردگار عالم کے قرب کا حصول ہے۔ انھوں نے فوجیوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا کہ عزیزو! آپ کو فخر ہونا چاہیے کہ آپ اسلامی جمہوریہ کی فوج کا حصہ ہیں۔ قوم بھی اور عہدیداران بھی فوج کی قدروقیمت سمجھتے ہیں اور آپ بھی اپنے کمزور پہلوؤں کی تقویت کرکے اور اپنے ادارے کی کمزوریوں کو دور کر کے، اپنی قدر کیجیے۔

انھوں نے اپنے خطاب کے آخر میں شام اور ترکیہ میں آنے والے حالیہ زلزلے کے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار اور جاں بحق ہونے والوں کے لیے رحمت و مغفرت طلب کرتے ہوئے کہا: بحمد اللہ ہمارے ملک کے عہدیداران نے بھی کچھ مدد کی ہے اور مزید مدد کریں گے۔

اس ملاقات کے آغاز میں فضائيہ کے کمانڈر جنرل واحدی نے، مختلف سائنسی میدانوں، نالج بیسڈ شعبوں، پرزوں اور آلات کی تیاری، دفاعی آمادگی، ٹریننگ، تعمیرات اور امدادی کارروائيوں کے میدان میں فضائیہ کے امید بخش پروڈکٹس اور مؤثر اقدامات کے بار ے میں ایک رپورٹ پیش کی۔

پوری دنیا حیران ہے کہ امن پسند ایرانیوں نے سینکڑوں سالہ شہنشاہیت کی پر شکوہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ کیوں بجادی ؟ اس شاہ ایران کا تختہ کیوں الٹ پلٹ دیا 

 

 

 

انقلاب اسلامی ایران کا عمومی اثر

1۔حکومتوں پر اسلامی انقلاب کا اثر

ایران میں حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی(ر ح) کی زیر قیادت اسلامی انقلاب برپا ہونے کے بعد دنیا بھر کے دانشمندوں، سیاست دانوں اور اہل فکرحضرات کے ذہنوں میں ایک مشترک سوال تھا جو نہ صرف مسلم دنیا بلکہ پوری مہذب دنیا کی فضا، عالمی نشریاتی اداروں، ریڈیو، ٹی وی، تعلیمی اداروں اور ثقافتی مراکز میں اس سوال کو اٹھایا جارہا تھا کہ نو مولود شیعہ و اسلامی انقلاب جس کے قائد حضرت امام خمینی (ر ح) ہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟ پوری دنیا حیران ہے کہ امن پسند ایرانیوں نے سینکڑوں سالہ شہنشاہیت کی پر شکوہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ کیوں بجادی ؟ اس شاہ ایران کا تختہ کیوں الٹ پلٹ دیا ؟

جس شاہی دور میں ان کو پوری آزادی حاصل تھی عیاشی اور آرام کرنے کے مکمل مواقع تھے۔ شراب کھلے عام پی سکتے تھے۔ کلبوں میں ننگے ناچ سکتے تھے وسائل کی فراوانی، موٹر کار، بنگلہ، کرنسی عام تھی۔ ان تمام تر آسائشوں کو چھوڑ کر ایرانی شیعہ مسلمانوں نے اللہ اکبر فقط قرآن و اسلام کی خاطر مصیبتوں اذیتوں اور قربانیوں کا راستہ کیوں اختیار کیا ؟ اس کا جواب خود امام خمینی نے دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:" پیامبران الہی اگر مبعوث بہ رسالت ہوۓ ہے تو اسکا مقصد معاشروں کی اصلاح تھی اور ان ظالم طاقتوں کے بنیادوں کو ہلانا تھا، جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ۔ اور یقیناً ہم نے ہر ایک امت میں کوئی نہ کوئی رسول (یہ پیغام دے کر) ضرور بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (کی بندگی) سے بچو پس ان (امتوں) میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی مستقر اور ثابت ہوگئی۔

اس ترقی یافتہ اور سائنسی دور میں دین اسلام بحیثیت طاقت کے طور پر کیسےابھرا ؟ جب امام خمینی (ر ح) کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا ہوا تو اقوام متحدہ کے اکثر رکن ممالک یہاں تک اسلامی حکومتوں نے بھی اس انقلاب کا استقبال نہیں کیا۔ بلکہ اکثر ممالک حیران اور پریشان اور سرگران تھےکیونکہ ایک ایسے واقعہ اور حادثہ کا رونما ہونا ان کے لئے بالکل قابل پیش بینی نہ تھا۔

دوسری طرف دنیا کے ساری حکومتیں مستقبل میں اپنے معاشرہ پر اس انقلاب کے اثرات سے خوفزدہ اور خائف تھی۔ ساری حکومتیں اپنے بقا‏ء کے لئے سوچ رہی تھی۔ اور کسی بھی ممکنہ عوامی تحریک سے خوفزدہ تھے۔ بلا ایسے انقلاب کا استقبال اور خیر مقدم نہ کرنا عادی سی بات تھی۔ خاص طور پر ایسی حکومتیں جن کے سیاسی نظام سیکولر تھے جس کی ملکی اساس دین اور سیاست کی جدایی پر مبنی تھی ۔ اس لیے اسلامی انقلاب خطرناک ہونا ایک مسلم بات تھی کیونکہ موجودہ حالات کو ختم کر کے ایک نیا سسٹم اور نیا افکار کو پیش کیا جا رہا تھا۔ یورپی ممالک اور امریکہ اس انقلاب کےمقابلے میں سخت ترین دشمن بن کر سامنے آے اور اس نومولود انقلاب کے خاتمے کیلیے اپنی تمام وسایل کو بروکار لاے اس دشمنی اور کینہ کی دو بنیادی وجہ تھی ۔

1۔کیونکہ شہنشاہی حکومت اور اسکا نظام کلی طور پر یورپ اور آمریکہ سے وابستہ تھا۔ لیکن انقلاب کے آنے کے بعد ان کے تمام مفادات خطرے میں پڑھ گئے۔
2۔ اصولی طور پر دینی اور مذہبی اعتقادات اور اصول پر مبنی انقلابات لیبرل اور سیکولر نظام کو چیلینج کرتے ہوۓ‎ ان کی آئیڈیالوجی اور مستقبل کو نابود کرتے ہیں۔

دوسری طرف ان حکومتوں کی ایران کے ساتھ جغرافیائی اعتبار سے دور اور نزدیک ہونے کو بھی نظر آنداز نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے الفاظ میں جو ممالک ایران کے ساتھ جغرافیائی اعتبار سے نزدیک اور اس ملک کے ہمساۓ تھے، وہاں انقلاب کے اثرات کو محسوس کیا جا رہا تھا اور عوام میں اس انقلاب کی مقبولیت اور نفوذ کا زیادہ خطرہ تھا لہذا ان ممالک نے انقلاب کے ممکنہ اثرات کو روکنے کیلیے سخت اقدامات کیے ۔ اسلامی حکومتوں کا رویہ بھی انقلاب کے ساتھ منفی تھا، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے رویوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، بلکہ مختلف حیلے و بہانوں سے انقلاب کو ناکام کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھا ۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر: ڈاکٹر فرمان علی سعیدی شگری

حال ہی میں امریکی کانگریس نے مسلمان رکن الہان عمر کو فارن افیئرز کمیٹی سے باہر نکال دیا ہے۔ یہ اقدام اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کا دعوی محض ایک جھوٹ ہے جس کا واحد استعمال مخالف ممالک کے خلاف کیا جاتا ہے جبکہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کیلئے یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔ الہان عمر صومالیہ نژاد امریکی شہری ہیں جو 2015ء میں امریکہ کے ایوان نمائندگان کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ وہ ہمیشہ سے ہی امریکی کانگریس میں فلسطینی شہریوں کے حق میں آواز اٹھاتی آئی ہیں اور اسرائیلی ظلم و ستم کی مذمت کرتی آئی ہیں۔ اسی وجہ سے گذشتہ ہفتے امریکی کانگریس میں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین نے ان پر یہود دشمنی کا الزام عائد کر دیا تھا۔
 
اس الزام کے تناظر میں الہان عمر کو فارن افیئرز کمیٹی سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ پیش کر دیا گیا۔ الہان عمر کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے غاصب صیہونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات پر تنقید کی تھی۔ اس وجہ سے امریکہ میں یہودی لابی ان سے سخت ناراض تھی اور انہیں اسی بات کی سزا دی گئی ہے۔ الہان عمر کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم پر تنقید نے اس قدر صیہونی لابی کو پریشان کیا کہ کانگریس کے نئے سربراہ کوئین مک کارٹی نے انہیں کانگریس سے بھی نکال باہر کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ یاد رہے مک کارٹی کے صیہونی لابی سے انتہائی قریبی اور گہرے تعلقات ہیں۔ براعظم افریقہ سے مہاجرت کرنے والی الہان عمر نے ہمیشہ سے فلسطینیوں کی حمایت کی ہے اور صیہونی جرائم کی مذمت کی ہے۔
 
انہوں نے تقریباً تین سال پہلے فلسطینیوں کے خلاف شدت پسندی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ پر قبضے اور انسانی بحران کی موجودہ صورتحال عدم استحکام پیدا کر رہی ہے۔ الہان عمر نے خود پر لگائے گئے یہود دشمنی کے الزام کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی نسل پرست صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کا یہود دشمنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب 2021ء میں غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کی پٹی کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنایا اور سیف القدس معرکے کا آغاز ہوا، تب بھی الہان عمر نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی میں تاخیر کرنے پر عالمی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے مقبوضہ فلسطین میں جنگ بندی میں تاخیر کو بے گناہ بچوں کے قتل عام اور انسانی بحران کا اصل سبب قرار دیا تھا۔
 
الہان عمر کئی بار امریکی صدر جو بائیڈن سے غاصب صیہونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات انجام دینے کا مطالبہ بھی کر چکی ہیں۔ گذشتہ برس جب مقبوضہ فلسطین میں الجزیرہ نیوز چینل کی خاتون رپورٹر صیہونی فورسز کی گولی کا نشانہ بن کر شہید ہو گئیں تو الہان عمر نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا تھا: "شیرین ابوعاقلہ ایک رپورٹر کی حیثیت سے موجود تھیں اور اسرائیلی فوج کیلئے ان کی یہ حیثیت واضح ہونے کے باوجود انہیں قتل کر دیا گیا۔ ہم سالانہ 3.8 ارب ڈالر اسرائیل کی غیر مشروط فوجی مدد کرتے ہیں۔ ہم اسے اس قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ ہونے پر مجبور کرنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟ اسرائیل کو حقیقی طور پر جوابدہ کرنے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہے؟"
 
الہان عمر نے حال ہی میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غاصب صیہونی رژیم کی مالی امداد بند کر دے۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم امریکی کانگریس میں الہان عمر کی موجودگی کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک الہان عمر کو مقبوضہ فلسطین کے دورے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ گذشتہ کچھ عرصے میں کانگریس میں موجود اسرائیل کے حامی اراکین نے بارہا الہان عمر کو دھمکیاں بھی دی ہیں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں اور انہوں نے ہمیشہ صیہونیوں کے ظلم و ستم کا شکار فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کیا ہے۔ الہان عمر گذشتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انسانی حقوق سے متعلق پالیسیوں کی بھی شدید مخالف تھیں۔ انہوں نے کئی بار ٹرمپ حکومت کی جانب سے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے پر شدید تنقید کی۔
 
الہان عمر کئی بار اس موقف کا اظہار کر چکی ہیں کہ سعودی عرب دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے زمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کو یمن میں غذائی قلت اور وبائی امراض کے پھیلاو کا ذمہ دار قرار دے کر امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسے اسلحہ فروخت نہ کرے۔ کانگریس کے ادارے فارن افیئرز کمیٹی سے الہان عمر کو نکال باہر کرنا اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ امریکی حکمرانوں اور سیاست دانوں کی نظر میں جو شخص بھی غاصب صیہونی رژیم پر تنقید کرے گا اسے اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ ریپبلکن پارٹی فارن افیئرز کمیٹی سے الہان عمر کو باہر نکال کر صیہونی لابی کو خوش کرنے کے درپے ہے تاکہ 2024ء کے صدارتی الیکشن میں صیہونی لابی کی حمایت حاصل کر سکے۔
 
 
تحریر: سیروس فتح اللہ