سلیمانی

سلیمانی

افغانستان میں دہشتگردوں کے حملے میں 43 طالبات کی شہادت پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ افغانستان کے مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعہ کے روز کابل کے کاج تعلیمی سینٹر میں ہونے والے دہشت گردانہ خودکش دھماکے میں شہید ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر انچاس ہوگئی ہے، جبکہ 100 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں تینتالیس لڑکیاں اور دو لڑکے شامل ہیں جبکہ چار افراد کی شناخت ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ جس کی وجہ سے شہداء کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ابھی تک کسی بھی گروہ نے اس دہشت گردانہ بم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ گذشتہ مہینوں کے دوران افغانستان کے مختلف علاقوں خاص طور پر کابل میں دہشت گردانہ حملوں اور دھماکوں میں تیزی آئی ہے اور طالبان انتظامیہ سکیورٹی برقرار کرنے کے اپنے تمام دعوؤں کے باوجود اس طرح کے حملوں کو نہیں روک سکی ہے۔ کابل میں زیادہ تر دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری داعش دہشت گرد گروہ نے قبول کی ہے، جبکہ طالبان اس گروہ کو افغانستان کے لئے خطرہ نہیں سمجھتے۔

ادھر افغان طالب علموں کی خواتین اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد نے کابل کے مغرب میں دشت برچی کے علاقے میں ایک مظاہرہ کرکے ہزارہ برادری کے خلاف ٹارگٹڈ دہشت گردانہ حملوں کے خاتمے اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ طالبان حکومت کی افواج نے گولیاں مار کر مظاہروں کو کچل دیا۔ کئی صحافی بھی موقع سے بھاگ گئے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ انسانی حقوق کے نام نہاد محافظوں بالخصوص خواتین نے اس بھیانک جرم کے خلاف خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس کا شکار زیادہ تر لڑکیاں ہیں۔ بے شک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا جو بیس سال سے زائد عرصے سے افغانستان میں جرائم کا ارتکاب کرتے رہے ہیں، یہ اس کا نتیجہ ہے۔ سیاسی امور کے ایک افغان ماہر سید عیسیٰ حسینی کہتے ہیں: “امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے جرائم اور دہشت گردی معمول کی بات ہے۔ خیال رہے کہ امتحان کے دوران طالبات کا قتل امریکی ایجنٹوں نے کیا تھا۔ اس لیے امریکہ کا عدم ردعمل اتنا حیران کن نہیں ہے۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی پامالی کے بارے میں امریکہ کی خاموشی صرف افغانستان تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جیسا کہ یوکرین سے خواتین اور لڑکیوں کی یورپی ممالک میں سمگلنگ، جرائم اور عصمت دری کے بارے میں امریکہ کی بے حسی ہے۔ شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق خواتین کے جنسی استحصال سے سالانہ منافع 7 ارب یورو بنتا ہے اور یوکرین سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے اسمگل ہونے والی لاکھوں خواتین اور لڑکیوں سے حاصل ہونے والا منافع مغربی ممالک کے سرمایہ داروں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ سیاسی امور کے ماہر سوروش امیری کہتے ہیں: “دنیا کے مختلف خطوں میں خواتین مغربی منافع خوروں کی لالچ کا شکار ہیں۔ جنسی استحصال کے بھرپور منافع نے اس سمت میں ایک صنعت کو جنم دیا ہے اور خواتین کے حقوق کے دفاع کے بارے میں ان کا کوئی بھی دعویٰ جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔”

بہرحال افغان لڑکیوں اور خواتین کا اپنی حفاظت کے لیے مظاہرہ ان مظلوموں کی فریاد ہے، جو تاریخی طور پر افغانستان میں حکومتی رویوں اور مختلف گروہوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار رہی ہیں، اس لیے عوام بالخصوص افغان خواتین، طالبان گروپ سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ عوام کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ضروری اقدامات کرتے ہوئے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں۔ افغان عوام کے مخالفین کی طرف سے نسلی اور مذہبی تفریق پیدا کرنے کی کوششوں کے پیش نظر یہ مسئلہ اہم اور مزید قابل توجہ ہے۔

واضح رہے کہ خواتین کے حقوق کے بارے میں مغربی میڈیا کے بیانات زیادہ تر بیان بازی اور سیاسی مقاصد کے لیے ہوتے ہیں اور ان ممالک کا میڈیا دوہرا معیار اپناتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں خواتین کے خلاف جرائم، افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ یوکرین میں بے گھر ہونے والی خواتین کے مصائب اور ان کے جنسی استحصال کو میڈیا میں قابل ذکر کوریج نہیں ملتی اور ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ وہ  ممالک جو مغرب کے اتحادی نہیں، وہاں خواتین کے معاملے کو سیاسی نظام پر کسی دباؤ کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ایران میں حالیہ صورت حال مغربی میڈیا کے دوہرے معیار کی ایک مثال ہے۔ ایران میں مرنے والی مہسا امینی اور افغانستان میں جاں بحق ہونے والی بیسیوں لڑکیوں کے بارے میں مغربی میڈیا کا منافقانہ رویہ روز روشن کی طرح واضح ہے۔

 

 تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

بیروت :حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ امریکا ایران میں اختلافات کے بیج بونے اور دراڑیں ڈالنے کی شیطانی سازشوں پر عمل پیرا ہے۔بیروت سے براہ راست نشر ہونے والے ٹیلی ویژن خطاب میں حسن نصر اللہ نے کہا کہ امریکا ایران میں کسی بھی واقعے کا فائدہ اٹھاتا ہے تاکہ قوم کو اسلامی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اکسایا جا سکے، جسکی مثال ایرانی خاتون کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والا احتجاج ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حمایت یافتہ غنڈوں نے مہسا کی موت سے متعلق غیر واضح حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کو چیلنج کیا کیونکہ ان کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی نام نہاد مہم بری طرح ناکام ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایرانیوں کے خلاف امریکا کی ظالمانہ پابندیوں کا مقصد لوگوں کو اسلامی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا کرنا ہے تاہم ایران اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ امریکی انتظامیہ نے محسوس کیا ہے کہ ایران ایک مضبوط، باوقار اور قابل ملک ہے۔ اور یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے. امریکا اندرونی تنازعات کو ہوا دینے کے بجائے ملک اور بینکوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کی ہمت کیوں نہیں کرتا، ایران کے پاس بڑی صلاحیتیں ہیں، اس لیے امریکا اسلامی جمہوریہ کے خلاف اشتعال انگیزی کے لیے تمام ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ مغربی اور خلیج فارس کے ذرائع ابلاغ اسلامی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لوگوں کو اکسانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

Monday, 03 October 2022 06:41

ہزاروں خواب

اولاد والدین کی آنکھوں کا تارا ہوتی ہے، جسے ماں جیسی عظیم ہستی ایسے پالتی ہے کہ اس کی اپنی ساری خوبیاں اور اچھائیاں اسکی اولاد میں بھی نظر آنے لگتی ہیں اور باپ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے زندگی بھر کا سرمایا اور اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔ یہ ساری قربانیاں اپنی اولاد سے والدین کے بے تحاشا محبت کا نتیجہ ہے۔ وہ اپنے بچوں کو دنیا کا ایک کامیاب انسان دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی شخصیت بنانا چاہتے ہیں کہ جس پر نہ صرف انہیں، بلکہ پوری قوم کو فخر ہو۔ مگر ایک لمحہ کیلئے تصور کیجئے کہ اپنی اولاد کی کامیابی کا خواب دیکھنے والے ایک ایسی ریاست میں کس طرح زندگی گزارتے ہونگے، جہاں کسی کی زندگی کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ان پر تعلیمی اداروں پر بھی حملہ ہو سکتا ہے، مذہبی اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے، مساجد اور عبادت گاہوں کو بھی دھماکے سے اڑایا جا سکتا ہے اور انکے گھروں پر بھی حملے ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں زندگی بسر کرنے والی ہزارہ شیعہ قوم بھی کچھ ایسی ہی صورتحال میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
 
طالبان نے حکومت سنبھالتے ہوئے جس نرم رویہ کا مظاہرہ کیا تھا، اس سے بعض حلقوں میں یہ گمان پایا جا رہا تھا کہ شاید حالات کشیدگی سے بہتری کی طرف نکلنے لگیں گے کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان میں مقیم شیعہ ہزارہ قوم کو مختلف تعصبات کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ان پر حملوں کا تسلسل تو برطانوی راج سے ہی جاری ہے۔ برطانیوی دور حکومت میں ہی افغانستان کے امیر عبدالرحمان نے افغان سنی مفتیوں سے شیعہ کو کافر قرار دینے کے فتوے حاصل کئے تھے، جس کی بنیاد پر انہیں واجب القتل قرار دے کر انکے خلاف جہاد کا نعرہ بلند کر دیا گیا تھا اور اپنی بقاء کی جنگ لڑنے والی ہزارہ شیعہ قوم اپنی سرزمین کو چھوڑ کر دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے پر مجبور ہوگئی۔ عبدالرحمان کے افکار کی پیروی کرنے والوں نے انکا پیچھا پاکستان میں بھی نہیں چھوڑا۔ کوئٹہ میں سانحہ امام بارگاہ کلاں، سانحہ عاشورہ، سانحہ علمدار روڈ، سانحہ ہزارہ ٹاؤن، سانحہ عیدگاہ سمیت مختلف دیگر سانحات، دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں شہادت پانے والوں کی قبروں سے بھرا ہزارہ قبرستان اس کی گواہی دیتا ہے، افغانستان میں بھی جہالت کے مارے لوگ آج بھی شیعہ ہزارہ قوم کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
 
طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھی ایسا لگا کہ شاید برسوں سے جاری رہنے والے اس سلسلے کا خاتمہ ہوگا۔ لوگ اپنے بچوں کی بہتر مستقبل کا خواب پھر سے دیکھنے لگے تھے۔ مگر ان پر حملوں کا تسلسل نہ رک سکا، بلکہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد تو ان حملوں میں مزید اضافہ ہوا۔ تقریباً ہر چند ہفتوں بعد جمعہ کے روز ہزارہ شیعہ قوم کے کسی نہ کسی اجتماع کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جمعہ کے دن کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ یہ حملے مذہبی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ طالبان ظاہراً تو ایک اچھا امیج بنانے کی کوشش کر رہا ہے، مگر ہزارہ شیعہ قوم پر حملوں کا طریقہ کار عین وہی ہے جو طالبان کا طریقہ کار ہوا کرتا تھا۔ ممکن ہے کہ انہی میں سے کسی گروہ کا کام ہو، بہرحال اگر افغانستان پر حکمرانی کرنے والے چاہیں تو اس تسلسل کو روک سکتے ہیں۔ مسلسل دھماکوں کا سلسلہ اور اس پر فقط مذمتی بیانات کے بعد خاموشی یہ ثابت کرتی جارہی ہے کہ افغان حکمران اور عالمی ادارے ہزارہ شیعہ قوم کے خون کو اہمیت دینے اور ان کی حفاظت کو اہمیت ہی نہیں دیتے ہیں۔
 
دو روز قبل کابل کے ہزارہ نشین علاقہ دشت برچی کے ایک تعلیمی ادارے کو بھی جنت کے چکر میں مدہوش خودکش حملہ آوروں نے حملے کا نشانہ بنایا اور 40 کے قریب مستقبل کے معماروں کو شہید کردیا۔ دھماکے کے بعد والدین کی آنکھوں میں آنسوؤں اور بکھرے تمناؤں کو بیان کرنا خود کسی کرب سے کم نہیں ہے۔ جگہ جگہ بکھری لاشوں میں چیخ کر اپنے جگر کا ٹکڑا تلاش کرنے والوں کا درد کوئی اور کیسے سمجھ سکتا ہے۔ انہیں یہ خوف بار بار ستا رہا تھا کہ کہیں انکا جوان کسی ظالم کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔ کابل میں ہر دھماکے کی آواز یا اطلاع پر وہ اپنے بچوں کو فون کرکے انکی خیریت دریافت کیا کرتے ہونگے اور جلدی گھر آنے کا کہتے ہونگے۔ اگر کوئی کسی اور علاقہ سے تعلیم حاصل کرنے کے غرض سے کابل آیا ہوگا اور اس کا فون بند جا رہا ہوگا تو پریشانی کے اس عالم کو بھی قلم بند کرنا آسان نہیں ہے۔ انکے والدین انہیں درسگاہ بھیجتے ہوئے اس سوچ میں تھے کہ انکے بچے مستقبل کی امید ہیں۔ یہ دنیا کو فکر اور شعور سے روشن کردیں گے۔
 
درسگاہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرنے اور بہتر انسان بن کر اپنی سرزمین کے لئے کام کرنا چاہتے تھے۔ ان طلباء نے تعلیم حاصل کرنے کے لئے ساری عمر کتنی جدوجہد کی ہوگی۔ طالبان حکمرانوں کے زیر تسلط کتنی مشکلات کا سامنا کیا ہوگا، مگر انہوں نے کتاب کا دامن نہیں چھوڑا۔ کاش کوئی کفر کے فتوؤں کے ٹھیکیداروں کو یہ بھی سمجھا دے کہ دین اسلام امن کا نام ہے، انہیں کوئی پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں بتائے کہ حضرت محمد (ص) کا رویہ کیسا تھا اور افغانستان کے ان جاہل دہشتگردوں کا رویہ کیسا ہے، حملہ آوروں نے صرف دلوں میں علم حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے طلباء کو نہیں، بلکہ پوری قوم کے مستقبل کو بھی قتل کردیا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے والوں کے بے شمار خواب اور ان کے خوابوں سے وابسطہ نہ جانے کتنے ایسے خواب تھے جو کابل کی جامعہ میں دھماکے کے ساتھ چور چور ہو کر زمین پر بکھر گئے۔ اپنی تعبیر کو ترسنے والے ہزاروں خواب بھی طلباء کے ساتھ کابل کے دھماکے میں شہید ہوگئے۔

پیغمبر اکرم ۖ کی حاکمیت از نظر قرآن

 
مقدمہ :
 اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو انسانی معاشرہ کی فلاح اور اصلا ح کی غرض سے اپنے حبیب حضرت محمد ۖ کے ذریعے نازل کیا ،دین درحقیقت ایسے قوانین کا مجموعہ ہے جو خالق کائنات کی جانب سے انسان کی ہدا یت کے تمام پہلوئوںپر مشتمل ہے ، قرآن مجید میں انسانی ضرورت کے تمام اصول و ضوابط کو بیان کیا گیا ہے ،انسان چونکہ اجتماعی اور معاشرتی زندگی کا حامل ہے بنا بریں قرآن مجید کا اکثر و بیشتر حصہ بلکہ مکمل طورپر اجتماعی وسیاسی مسائل پر مشتمل ہے ،مباحث قرآن کا محور و مرکز توحید ہے،توحید کی اقسام میںسے جہاںتو حید ذاتی ،صفاتی ،افعالی اور عبادی پر بحث و تفسیر کی ضرورت ہے وہیں ''توحید ربوبیت ' ' بھی حائز اہمیت ہے جو تو حید افعالی کی ایک قسم شمار ہو تی ہے جس سے انسان کو یہ درس ملتا ہے کہ جس طرح خدا کے علاوہ ''خالق''کو ئی نہیں ہو سکتا اس طرح اللہ کے بغیر پورے عالم کے امور کی مدیریت کے لا ئق بھی کوئی نہیں ہو سکتا ،نظام کائنات کو چلانے میں خدا کا شریک تسلیم کر نے والا بھی اُسی طرح مشرک ہے جس طرح تخلیق کائنات میں خدا کا شریک ٹھہرانے والا مشرک ہے ۔
حقیقت میںتوحید خالقیت پر اعتقاد کا لازمی نیتجہ یہ ہے کہ تمام امور کی تدبیر کا مالک بھی ''ایک خدا ہے ''انسانی معاشرہ کی تدبیر کو عملی صورت دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کو زمین پر اپنا خلیفہ اور نمائندہ بنا کر بھیجا ،انبیا ء کی بعثت کا مقصد انسانوں کی تربیت اور معاشرے پر عادلانہ نظام کا قیام تھا ۔
''هوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُ مِّينَ رَسُوْلاًمِّنْهمْ ےَتْلُوْ عَلَيهمْ اٰيتِه وَيزَکِّيهمْ '' ١
''وہی (خدا )ہے جس نے ناخواندہ لو گوں میں انہی میںسے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پا کیزہ کر تا ہے ۔۔۔۔ ''

نیز فرمایا
''لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَينٰتِ وَاَنْزَلْنَامَعَهمُ الْکِتٰبَ وَالْمِبزَانَ لِبقُوْمَ النَّاسُ بِا لْقِسْطِ۔۔۔'' ٢
''اور ہم نے اپنے انبیاء کو واضح نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب (قانون ) اور میزان (عدالت )کو بھی نازل کر دیا تاکہ لو گوں میں انصاف کو قائم کریں ''
اسلام کا بنیادی مقصد انسان کو اندرونی اور بیرونی سطح پر تربیت کر نا ہے۔ بنا بریں تز کیہ نفس کے بعد معاشرتی تزکیہ (اصلاح) کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام انبیا کو ایک مشترکہ لا ئحہ عمل دے کر بھیجاتاکہ کہ لوگوں کو خدا کے نظام کے تحت زندگی گزارنے اور ہر قسم کے غیر متعادل نظام سے پرہیز کرنے کا درس دیں ۔
''وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُ وااللّٰه وَاجْتَنِبُواالطَّاغُوْتَ'' ٣
''یعنی ہم نے ہر زمانہ میں رہنے والے لوگوں کے لیے جو رسول بھیجا اس کا ایک ہی شعار تھا کہ اللہ کی بندگی و عباد ت کرو اور ظالم طاغوت سے دور رہو ''
اس آیہ اوردیگر بہت سی آیات سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ ہر نبی نے اپنے زمانہ میں موجود غیر الٰہی حکمرانوں کے تسلط سے قوموںکو آزاد کرانے کے لیے نہ صرف زبانی تبلیغ کی ہے بلکہ طاغوتی حاکمیت کے خاتمہ کے لیے عملی جدوجہد کی اور بعض نے کامیابی کے بعد اللہ کی حاکمیت کو معاشرے پر نافذ بھی کیا ہے حضرت دائود اور حضرت سلیمان کی حکومت کا واضح ذکر قرآن میں موجود ہے ،اسی طرح دیگر انبیاء جن میں حضرت موسیٰ و حضرت ابراہیم کی طاغوت شکن جدوجہد کا ذکر بھی اس بات کی دلیل ہے کہ انسانوں پر صرف اللہ کی حکومت ہونے کی صورت میںہی توحید عملی شکل اختیار کر سکتی ہے ۔ حضرت پیغمبر ۖ کی سیاسی حاکمیت میںعقلی اعتبار سے تو کو ئی شک وشبہ نہیں ہے ، اس لیے کہ ایک طرف انسان کا بغیر حکومت کے زندگی گزارنا، نا ممکن ہے اور دوسری طرف خالق انسان کے علاوہ حکومت کا کامل نظام دینے کا کوئی اہل نہیں ہے نیز دیگر انبیا ء کی بعثت کا مقصد معاشرے پر اللہ کی حاکمیت کا نفاذ ہے تو خاتم الا نبیا ء ۖ کو صرف تبلیغ وارشاد کی ذمہ داری تک محدود کرنا کس طرح ممکن ہے ؟
لیکن قرآنی آیات کے تناظر میںہم ثابت کر نا چاہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖمبلغ احکام ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی حاکمیت کے حامل بھی تھے جو در حقیقت خلافت کی شکل میں الٰہی حاکمیت ہے ، البتہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عقلی ادلہ اور بہت سی آیات کے باوجود بعض علما ء ٤ پیغمبر اکرم ۖ کے سیاسی منصب اورآپ ۖ کی سیاسی حاکمیت کا انکار کرتے ہیں اور آنحضرت ۖکا تعارف اس طرح پیش کر تے ہیں کہ آپ ۖ صرف مبدا ومعاد کی تبلیغ پر مامور تھے اوران کا معاشرے کی سیاسی قیادت و راہبری سے کو ئی تعلق نہ تھا جس کی وجہ سے اس موضوع کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو جا تا ہے ۔

دین اور معاشرہ :
 پیغمبر اکرم ۖ کی سیاسی قیادت کے اثبات سے پہلے ''دین ''کی حقیقت کا سر سری جائزہ لینا ضروری ہے تا کہ آپۖ جس ''دین ''کے ''مبلغ ''تھے اُس کی صحیح صورت سامنے آسکے ،قرآن مجید کی نظر میں دین سے مراد ''انسانی زندگی کی عملی روش کا حدود اربعہ ''ہے جس کی ایک دلیل وہ آیات ہیں جن میں خداوند متعال نے کفارو مشرکین کے راہ و رسم اور زندگی گزارنے کی روش کو بھی ''دین '' سے تعبیر کیا ہے ۔
''لَکُمْ دِينُکُمْ وَلِیَ دِينِ ''٥
''تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میر ادین ''
اسی طرح فرعون جو اپنے علاوہ کسی کو خدا تسلیم نہیں کرتا تھا،لیکن حضرت موسیٰ ـکے مقابلے کے لیے عوام کو بھڑکا نے کی خاطر ''دین '' کاسہارا لیتے ہو ئے کہتا ہے :
''اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ يبَدِّلَ دِينَکُمْ اَوْ اَنْ يظْهرَ فِی الْاَ رْضِ الْفَسَادَ ''' ٦ ''مجھے ڈر ہے کہ یہ (موسیٰ )تمہارا ''دین '' بدل ڈالے گا یا زمین میں فساد بر پا کر ے گا ''
خداوند کریم نے بھی پیغمبر اکرم ۖ کی زبان سے زندگی گزارنے کے چند طور طریقے بیان کرنے کے بعد لوگوں کو اسی راستے(دین) پر چلنے کی تاکید فرمائی ۔
''وَاَنَّ لهذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوْه وَلَا تَتَّبِعُوالسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِيلِه ''٧
''اور بتحقیق یہی (دین )میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلو اور مختلف راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹا کر پر اگندہ کر دیں گے ''
بنابریں انسانی زندگی گزارنے کی روش اور طور طریقے دو قسم کے ہو سکتے ہیں ایک باطل راستہ ہے جو شیطان اور شیطانی حکمرانوں کا طور طریقہ ہے اور دوسر ا فطرت انسانی کا راستہ ہے کہ جس کی طرف خد انے اپنے نما ئندوں کے ذریعے دعوت دی ہے اور اسی راہ وروش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر نبی الہیٰ نے کو شش بھی کی ہے لیکن شیطانی و طاغوتی حکمرانوں کی عوام فریبی کی وجہ سے صر ف چند انبیا ء حاکمیت الہیٰ کو نافذکرنے میں کا میاب ہو ئے ہیں جس میںہمارے نبی آخر الزماں ۖ کے ہا تھوں قائم ہو نے والی حکومت ایک بہترین نمونہ ہے ،عصر حاضر کے عظیم مفسر قرآن علامہ طباطبائی نے بھی انسانی معاشرہ میں راہ و روش کو دین سے تعبیر کیا ہے اور سورئہ روم کی آیت ٣٠ کی تفسیر میں ''دین '' کو ''دین فطرت '' کے طور پر ثابت کیا ہے ۔٨
دین فطرت سے مراد یہ ہے کہ انسانی خلقت کے اندر خالق انسان نے زندگی گزارنے کے وہ طریقے جو انسان کو کمال وترقی تک لے جانے کا وسیلہ ہیں، ودیعت کر دئیے ہیں ،اسی بناپر اپنے آخری نبی ۖ کو حکم دیا کہ اسی فطری دین پر قائم رہو ،تا کہ اپنی امت کی قیادت و راہبری کر تے ہوئے انہیں کمال کی منزل پر فائز کر سکو ۔
'' فَاَقِمْ وَجْهکَ لِلدِّينِ حَنِيفًاط فِطْرَتَ اللّٰه الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَيهاطلَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللّٰه ذٰلِکَ الدِّينُ الْقَيمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا يعْلَمُوْنَ ''٩
''پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رُخ دین (خدا)کی طرف مرکوز رکھیں ،اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو خلق کیا ہے ،اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں آتی یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ''
اس آیہ مجیدہ میں بھی خدا نے نظام حیات کو دین سے تعبیر کیاہے اور فرمایا یہ ایسا نظام حیات ہے جو دیگر نظام کائنات کی طرح نظم و ضبط اور ہم آہنگی پر قائم ہے اور چونکہ تخلیقی نظا م ہے لہذا کبھی تبدیلی نہیں آئے گی یعنی، فطرت اور شریعت میں وحدت واتحاد قائم ہے اسی بنا پر ابنیا ء کو بھیجا تاکہ ظالمانہ ماحول میں رہنے کی وجہ سے اس مدفون فطری نظام کو روشن و اجاگر کریں ۔
علامہ طباطبائی کہتے ہیں :
دین فطرت سے مراد وہ قوانین و ضوابط ہیںجو انسان پسند ہیں کیونکہ یہ انسان کی خلقت کے ساتھ مربوط ہیں اور انسانی عقل سے مکمل طور پر مطابقت رکھتے ہیں ۔١٠
پیغمبر ۖ کی سیاسی حاکمیت سے مراد کیا ہے ؟
آپ ۖ کی سیاسی حاکمیت سے مراد یہ ہے کہ معاشرے کے جملہ امور کی قیادت و راہبری اور حکمرانی کا حق خداوند تعالیٰ نے اپنے معصوم نمائندے حضرت پیغمبر ۖ کو عطا کیا ہے ،یعنی پیغمبر اکرم ۖ صرف احکام الہیٰ کو بیان کر نے والے نہیں یا لوگوں کے باہمی اختلافات اور مشاجرا ت کے حل کے لیے صر ف قاضی تحکیم نہیں کہ قضاوت کر تے ہو ئے صرف فیصلہ سنا دیں بلکہ اس قضاوت اور فیصلہ پر عمل در آمد کرانے کے بھی ذمہ دار ہیں ، حاکمیت کا نقط ''حکم ''سے ماخوذ ہے اور قرآن مجید میں ''حکم '' سے مراد تشریع یعنی قانون وضع کر نا اور معاشرے پر قانون کوحاکم قرار دینا ہے ،جو کہ ذاتی طورپر اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا :
''وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيه مِنْ شَيئٍ فَحُکْمُه اِلَی اللّٰه '' ١١
''اور جس بات میں تم اختلاف کر تے ہو اس کا فیصلہ اللہ کی طرف سے ہو گا ''
لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فیصلے کوعملی طور پر نافذ کر انے کے لیے اپنا اختیار اپنے نبی ۖ کو تفویض کر تے ہو ئے اعلان فرمایا :
''اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَبکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَينَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰه '' ١٢
''(اے رسول) ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ پر نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلہ کر یں ''
اگر چہ یہ آیت شان نزول کے لحاظ سے ایک چوری کے فیصلہ سے متعلق نازل ہو ئی ہے لیکن یہ ثابت شدہ ہے کہ شان نزول مراد متکلم کومحدود ومنحصر کرنے کا باعث نہیں بنتا ،اس بناپر پیغمبر اکرم ۖ ہر قسم کے فیصلے کرنے اور انہیں عملی طور پر نافذ کر نے کے ذمہ دار ہیں با الفاظ دیگر معاشرے پر حکومت کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔

امام خمینی کا نظریہ:
 ''حکم عقل اور ضرورت ادیان کی روسے انبیا ء کی بعثت کا مقصد اور کار انبیا ء صرف مسئلہ گوئی اور بیان احکام نہیں تھا اور ایسا نہیں ہے کہ مسائل و احکام بذریعہ وحی رسول اکرم ۖ کو پہنچے ہو ں اور آنحضرت ۖ و امیر المومنین ـ اور دیگر ائمہ صرف 'مسئلہ گو ' رہے ہو ں کہ خدا و ند عالم نے ان حضرات کو صرف اس لیے معین کیا ہے کہ مسائل و احکام کو کسی خیانت کے بغیرلوگوں کے سامنے بیان کر دیں اور انہوں نے بھی اس امانت کو فقہا کے حوالے کر دیاہو کہ جو مسائل انبیا ء سے حاصل کیے ہیں کسی خیانت کے بغیر لوگوں تک پہنچا دیں اور اس طرح'الفقہا ء امناء الرسل ' کا مطلب یہ ہو کہ فقہا ء بیان مسائل میں امین ہیں ایسا ہرگز نہیں بلکہ انبیا ئ کااہم ترین فریضہ قوانین و احکام کو جاری کر کے عادلانہ اجتماعی نظام قائم کر نا ہے جو یقینا بیان احکام و نشر تعلیمات الہیٰ کے ساتھ ساتھ ایک طاقتور حکومت کا خواہاں ہے ''
نیز فرماتے ہیں کہ :
خداوند عالم نے جو خمس کے سلسلہ میں فرمایا ہے :
''وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيئٍ فَاَنَّ لِلّٰه خُمُسَه وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی۔۔'' ١٣
''اور جان لوکہ جو کچھ مال کسب کرو اس کا پانچوایں حصہ اللہ ،رسول اور اس کے قرابت دارروں کے لیے مخصوص ہے ۔۔۔۔''
یازکوة کے لیے جو فرمایا ہے :
''خُذْ مِنْ اَمْوَالِهمْ صَدَقَةً ''١٤
''آپ ان کے اموال میںسے صدقہ لیجئے''
حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم کوصرف احکام بیان کر نے کے لیے معین نہیں کیا بلکہ ان احکام کے نفاذ اوراجراء کی ذمہ داری کو بھی ان کے سپرد کر دیاہے آپ ۖ اس پر مامور تھے کہ خمس ،زکات اور خراج جیسے ٹیکسوں کووصول کر کے مسلمانوں کو نفع پہنچانے پر خرچ کر یں قوموں اور افراد کے درمیان عدالت کو وسعت دیں، حدود کو جاری کریں ،سرحدوں کی حفاظت کر یں، ملک کی آزادی کو قائم کریں اور حکومت اسلامی کے ٹیکسوں کو خوردبرد سے بچائیں ۔١٥
پیغمبر اکرم ۖکی سیاسی حاکمیت سے متعلق آیات :
اس سلسلے میں کثیر تعداد میں آیات موجود ہیں جنہیں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
١۔ ایسی آیات جن میں اطاعت پیغمبر اکرم ۖکو بیان کیا گیا ہے ۔
٢۔ جو پیغمبر اکرم ۖ کی ولایت و حکومت سے متعلق ہیں ۔
٣۔ وہ آیات جو پیغمبر اکرم ۖکو تمام امور اجتماعی میں محورومرکز قرار دیتی ہیں ۔

١۔اطاعت پیغمبر ۖسے متعلق آیات :
اس قسم کی آیات میںمختلف صورتوں میں پیغمبر اکرم ۖ کی اطاعت کو مورد تاکید قراردیاگیا ہے،بعض آیات میںبلا تفریق تمام انبیاء کی اطاعت کیے جا نے کو اہداف بعثت میں شمار گیاکیا ہے۔
''وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ رَّسُوْلٍ اَلَّا لِيطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰه '' ١٦
''ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس لیے بھیجا ہے کہ باذن خدا اس کی اطاعت کی جائے''
بعض آیات میں رسول ۖ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت کا تسلسل قرار دیا ہے
''مَنْ بطِعِ الرَّ سُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰه ''١٧
''جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ''
مندرجہ بالا آیات میں درحقیقت پیغمبر ۖکی اطاعت کی اہمیت کو مختلف انداز میں پیش کیا تاکہ لوگ دل و جان سے اپنے راہبر کی پیروی کریں ،اس کے علاوہ کچھ آیات ایسی ہیں جن میں براہ ِ راست پیغمبراکرم ۖ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ۔
''اَطِيعُوا اللّٰه وَاَطِيعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ''١٨
''اللہ کی پیروی کرو اور اس کے رسول کی اور تم میںسے جو صاحبان امر ہیں ان کی پیروی کرو ''
ایک اور مقام پر فرما یا :
''اَطِيعُوا اللّٰه وَرَسُوْلَه وَلَا تَوَ لَّوْعَنْه وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ ''١٩
''اور اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو اور تم حکم سننے کے بعد اس سے روگردانی نہ کرو ''
اگر چہ ان آیات میں اطاعت خداوند کا بھی ذکر ہے لیکن اصل مقصد پیغمبر اکرم ۖ کی اطاعت کو بیان کر نا ہے،چونکہ بعد والی آیات میں ان لو گوں کی مذمت کی گئی ہے جو رسول اکرم ۖکی بات سنتے لیکن عمل نہیں کرتے تھے ایسے لوگوں کو بدترین جانوروں سے تعبیر کیا گیا ہے ،جبکہ پیغمبر اکرم ۖ کی دعوت پر لبیک کہنے اور حضور ۖ کے نظام کے مطابق چلنے کو حیات بخش قرار دیا ہے ۔٢٠
علاوہ بریں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم علیحدہ طور پر کسی آیت میں ذکر نہیں ہوا جب کہ بہت سے آیات میں پیغمبر اکرم ۖ کی اطاعت کو علیحدہ بھی بیان کیا ہے۔
''وَاَقِيمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُواالزَّکٰوةَ وَاَطِيعُواالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ '' ١ ٢
''اور نماز قائم کرو اور زکاة ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ''
گویا جس طرح نماز و زکات یا دیگر احکام ،عملی زندگی کا حصہ ہیں اسی طرح پیغمبر ۖ کا ہر حکم بھی عملی زندگی کا حصہ ہے سینکٹروں احکام میں سے نماز وزکات جیسے دو نمونے ذکر کرنے کامقصد شاید یہ تھا کہ جس طرح نماز و زکات کے بغیر انسانی معاشرہ کمال و ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا اسی طرح حاکم اسلامی کی اطاعت اور ان کے دیگر اوامر کی پیروی کے بغیر بھی انسانی کمال کا راستہ طے کرنا نا ممکن ہے ۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ رسول کی اطاعت و پیروی کو مستقل طور پر بیان کیاہے جس کالازمی نیتجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ سے کچھ ایسے اوامر واحکام بھی صادر ہو ں گے جن کا ذکر قرآن میں درج نہیںہے وگرنہ پیغمبر کی اطاعت کی الگ سے تاکید کرنا لغوو بیہودہ قرار پائے گا نیزیہ کہ بعض انبیاء کی زبا ن سے تو خدا نے واضح طور پر بیان کیا کہ نبی کی اطاعت کے بغیر تقویٰ کامقام بھی حاصل نہیں ہو سکتا ۔حضرت نوح ـ کی زبانی نقل فرمایا :
''اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْل اَمِين فَاتَّقُوااللّٰه وَاَطِبعُوْنِ ''٢٢
''میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہو ں Oلہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو''
حضرت نوح ـ کا ''اطيعوا الله يا اطيعوا ربی ''جیسی تعبیر کی بجائے ''اطیعونی''کہنا ااس بات کی دلیل ہے کہ بہت سے احکام ''کتاب اللہ''میں موجود نہ بھی ہوں رسول کو امانت دار نمائندہ الہیٰ سمجھتے ہو ئے اطاعت کرنے میں انسان کی فلاح و سعادت مضمر ہے ۔
اس قسم کی جملہ آیات کااندازیہ بتا تا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖمعاشرتی و اجتماعی احکامات صادر کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں اور اللہ کی جانب سے ان احکام کو نافذ کرنے کا اختیار بھی انہیں کو حاصل ہے ،نیز بعض آیات کی روسے اللہ کارسول اپنے ''اختیار حاکمیت '' میں دیگر افراد کو بطور نائب منصوب کرنے کا مجاز بھی ہے ،جیسے حضرت موسی ـ نے حضرت ہارون ـ کو فرمایا :
''وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِيه هرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ ' '٢٣
''میری قوم میںمیری جانشینی کرنا اور اصلاح کر تے رہنا ۔۔۔''
حضرت ہارون ـ نے بھی قوم سے یہی کہا کہ جب ''رحمن ''پروردگار پر ایمان لے آئے ہو تو میرے راستے پر چلو اور میرے ہر حکم پر عمل کرو۔
''وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِيعُوْ اَمْرِیْ ''٢٤
''اور ہارون نے ان سے پہلے ہی کہہ دیاتھا کہ اے میری قوم ! بے شک تم اس (بچھڑے)کی وجہ سے آزمائش میں پڑگئے ہو جب کہ تمہارا پروردگار تورحمن ہے لہذا تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو ''
بعض آیات میں پیغمبر اکرم ۖ کی اطاعت بطور مطلق اور عمومیت کے ساتھ بیان ہو ئی ہے یعنی لوگوں پر واجب ہے کہ اپنے ہر قسم کے انفرادی واجتماعی امور میں پیغمبر ۖ کی پیروی کریں ۔
''وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَهى کُمْ عَنْه فَانْتَهوْ ''٢٥
''اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جا ئو''
اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ملتا ہے کہ یہ فئے (بغیر جنگ کے ہا تھ آنے والے مال )کی تقسیم کے موقع پر نازل ہو ئی جس میں مسلمانوں پر واضح کر دیا گیا کہ پیغمبر اکرم ۖ اگر کسی مصلحت کی بنا پر غیر مساوی تقسیم بھی کر تا ہے تو اس کے ہر فیصلہ پر دل وجان سے عمل کیا جا ئے۔اگر چہ ''ما ''مطلق ہے اور ہر قسم کے فرامین رسول ۖکو شامل ہے اور روایات میں بھی اس آیہ کے ضمن میں پیغمبر اکرم ۖکے تمام فرامین کو مراد لیا گیا ہے ۔جس کا معنی یہ ہے کہ آنحضرت ۖ ایک الٰہی نمائندے واسلامی معاشرے کے حکمران ہو نے کی حیثیت سے احکام صادر کرنے کا حق رکھتے ہیں اور اس ''حق حاکمیت ''کی بنا پر واجب الا طاعت بھی ہیں ۔

ایک اعتراض کا جواب :
 کچھ لوگوں نے اطاعت پیغمبر ۖ کے بارے میں اعترافات و شبھات پیدا کیے ہیں ،منجملہ یہ کہ بعض آیات میں پیغمبر اکرم ۖ سے ہر قسم کے اختیار کی نفی کی گئی ہے اور تمام امور کو خدا کی طرف نسبت دی گئی ،جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :
''لَيسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَيئ اَوْ يتُوْبَ عَلَيهمْ اَوْ يعَذِّ بَهمْ ''٢٦
''(اے رسول )اس بات میں آپ کا کو ئی دخل نہیں ،اللہ چاہے تو انہیں معاف کر دے یا چاہیے تو سزا دے''
نیز فرمایا :
''اِنَّ الْاَ مْرَ کُلَّه لِلّٰه''٢٧
''ہر قسم کا امر (اختیار )اللہ کے ساتھ مختص ہے ''
ا س کا جواب یہ ہے کہ پہلی آیت کا اس مطلب کے ساتھ کو ئی تعلق نہیں بلکہ زمانہ جاہلیت کا مزاج رکھنے والوں کے شک کے جواب میں فرمایا کہ ہر قسم کی فتح یا شکست اللہ کے ہا تھ میں ہے ،نیز جنگ احد میں شکست کے وقت کفریہ جملے کہنے والوں کی سزا یا بخشش کے بارے میں تو حید کا درس دینے کی غرض سے فرمایا ۔دوسری آیہ مجیدہ میںاگرچہ ہر قسم کے امور کو اللہ کے ساتھ مختص ہو نا بیان ہوا ہے لیکن یہ کو ئی عجیب بات نہیں اکثر امور کو خدا نے اسی طرح بیان فرمایا ہے ۔ مثال کے طورپر ہدایت کے مسئلے میں ایک مقام پر فرمایا ۔
''اِنَّکَ لَا تَهدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰه ےَهدِیْ مَنْ يشَآ ئُ''٢٨
''(اے محمد )جسے آپ چاہتے ہیں اُسے ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدا یت دیتا ہے ''
جب کہ دوسرے مقام پر فرما یا :
''اِنَّکَ لَتَهدِیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ''٢٩
''بے شک آپ ہی سیدھے راستے کی جانب راہنمائی کر رہے ہیں ''
اس قسم کی آیات ، کئی مقامات پر ملتی ہے کہ خداوند متعال بعض امور کو اپنی طرف نسبت دیتا ہے پھر انہی امورکو اپنے نمائندے کی طرف بھی نسبت بھی دیتا ہے،جس کی مفسرین نے یہ وضاحت کی ہے کہ تمام امورکا تعلق ذاتی طور پر اللہ کے ساتھ ہے لیکن اللہ اپنے اذن او ر اجازت سے یہ امور اپنے انبیا ء کو سپر د کر تا ہے اگر غور کیاجا ئے تو توحید ونبوت کی حقیقت بھی یہی ہے ،پس نیتجہ یہ نکلا چونکہ پیغمبر اکرم ۖ کی حاکمیت اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تسلسل ہے اس بنا پر آپ ۖ نہ صرف مبلغ دین ہیں ،بلکہ اسلامی حاکم ہو نے کے عنوان سے دینی احکام کو عملی طو ر پر نافذ کر نے کے ذمہ دار بھی ہیں ۔

٢۔پیغمبر اکرم ۖ کی ولایت وحکومت سے متعلق آیات :
اس قسم میں بعض آیات ولایت پیغمبر ۖ کو ولا یت خد ا کی صف میں بیان کر تی ہیں اور بعض آیات میں علیحدہ سے ولایت پیغمبر کو ذکر کیا گیا ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے :
''اِنَّمَا وَلِيکُمُ اللّٰه وَرَسُوْلُه وَالَّذِينَ اٰمَنُواالَّذِينَ ےُقِيمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَهمْ رٰکِعُوْنَ ''٣٠
''تمہار ا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیںجو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں ''
''وَمَنْ يتَوَلَّ اللّٰه وَرَسُوْلَه وَالَّذِينَ اٰمَنُوْافَاِنَّ حِزْبَ اللّٰه همُ الْغٰلِبُوْنَ ''١ ٣
''اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا ولی (سر پرست)بنائے گا (تو وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہو جائے گا )اور اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے ''
نیز فرمایا :
''اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ اَنْفُسِهمْ ''٣٢
''نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے ''
ان آیات سے واضح ہو تا ہے کہ لوگوں کے تمام انفرادی واجتماعی امور میں رسول خدا ۖکو ولایت وحاکمیت حاصل ہے یعنی پیغمبر ۖ کے احکامات کے مقابلے میں لوگوں کی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر خدا ۖ کو لوگوں کے معاشرتی و اجتماعی امور میں دخالت کا نہ صرف حق حاصل ہے بلکہ ان امور میںپیغمبر ۖ کا حکم ہی نافذ العمل سمجھا جا ئے گا ،اس ضمن میں علامہ طباطبائی فرماتے ہیں۔
''ان کے نفسوں'' (انفسھم )سے مراد خود مومنین ہیں پس آیت کا معنی یہ ہوا کہ پیغمبر اکرم ۖ مومنین پر مومنین سے زیادہ حق تصرف رکھتے ہیں''
جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کبھی پیغمبر اکرم ۖ اور عام لو گوں کی رائے میں تعارض یا اختلاف پیدا ہو جائے تو پیغمبر ۖ کی رائے کو ترجیح اور برتری حاصل ہو گی مختصر یہ کہ مومنین جن امور میںذاتی اختیار رکھتے ہیں جیسے حفاظت ،محبت عزت ،کسی کی دعوت کو قبول کرنے یا اپنے ارادے پر عمل کرنے میں، پیغمبر ۖ ان سب امور میں ان پرحق اولویت رکھتے ہیں اور ان کے مقابلے میں پیغمبر ۖکا ارادہ فوقیت رکھتا ہے ۔٣٢
ان آیات کی روشنی میں یہ نیتجہ اخذ ہوتاہے کہ معاشرتی و سیاسی امور میں جب پیغمبر اکرم ۖ کو ئی فیصلہ کردیں تو اسے مقدم سمجھا جائے گا اور اس کی روایات میںبھی وضاحت موجود ہے نیز تمام علما ء اسلام کا اتفاق ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ باذن اللہ ولا یت تشریعی (قوانین کے وضع و نفاذ)کے منصب پر فائز ہیں ۔
٣۔تمام معاشرتی و سیاسی امور میں پیغمبر ۖ کو محورقرار دینے والی آیات :
قرآن مجید میں خداوند متعال نے اپنے رسول ۖ کو معاشرے کا ایسا محور و مرکز قرار دیا ہے کہ جس کے گرد جملہ امور کی گردش ہونی چاہیے ،سورۂ نور میں مومنین کو تاکید کی گئی ہے کہ ''ایمان ''کی شرط یہ ہے کہ تمام امور میں پیغمبر ۖ کے تابع رہیں ۔
''اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِينَ اٰمَنُوْابِاللّٰه وَرَسُوْلِه وَاِذَاکَانُوْامَعَه عَلٰی اَمْرٍجَامِعٍ لَّمْ ےَذْهبُوْ حَتّٰی يسْتَاْذِنُوْه اِنَّ الَّذِينَ يسْتَاْذِنُوْنَکَ اُولٰئِکَ الَّذِينَ يؤْمِنُوْنَ بِاللَّٰه وَرَسُوْلِه ''٣٣
''مومنین تو بس وہ لو گ ہیںجو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب وہ کسی اجتماعی معاملے میں رسول کے ساتھ ہوں تو ان کی اجا زت کے بغیر نہیں ہلتے جو لوگ آپ سے اجا زت مانگ رہے ہیں یہ یقینا وہ لوگ ہیںجو اللہ اور رسول پر ایمان رکھتے ہیں ''
اس آیت سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ اجتماعی مسائل میں مومنین کے مشورے کو شامل کر کے انہیں اعتماد میں لیتے تھے لیکن آخری فیصلہ پیغمبر ۖ کا ہو تا اور مومنین آپۖ کے فیصلوں کے پا بند ہو تے تھے نیز اس آیت میں خداوند حکیم نے ایک کلی قانون بھی بیان کر دیا ہے کہ معاشرتی و سیاسی امور میں ذاتی و انفرادی رائے کی کو ئی حیثیت نہیں بلکہ ہمیشہ پیغمبر ۖ کی اجازت سے معاملات طے ہو نگے ۔اس کے بعد والی آیت میں فرمایا :
''لَا تَجْعَلُوْادُعَآئَ الرَّسُوْلِ بَينَکُمْ کَدُعَآئِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا۔۔۔۔۔۔''
''(اے مومنو!) تمہارے درمیان رسول کو پکارنے کاانداز ایسا نہ ہو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو ۔۔۔۔''
''دعاء الرسول ''کے معنی میں بعض نے دواحتمال دئیے ہیں ایک رسول ۖ کو پکارنا دوسرا رسول ۖ کا پکارنا ۔ پہلے معنیٰ کے لحاظ سے تو ایک اخلاقی نکتہ کی طرف راہنمائی ہے کہ جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو رسول ۖ کو اس طرح مت پکارو اگرچہ رسول اکرم ۖ تو اضح و انکساری ضرورفرماتے ہیں ،لیکن امت کو رسالت کی منزلت کا لحاظ رکھنا چاہیے ،جب کہ دوسرے معنی کے لحاظ سے ایک اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے یعنی رسول ۖ کے بلانے کو عام آدمیوں کے بلانے کی طرح مت سمجھو ،رسول ۖکا بلانا ،اللہ کا بلانا ہے،اس لیے کہ رسول ۖکے بلانے پر فوری لبیک کہنا ایمان کا تقاضا ہے ۔احتمال کی حد تک تو پہلا معنی بھی درست ہے اور اخلاقی دستور کے لحاظ سے صحیح بھی ہے لیکن آیت میںموجود بعض تعبیرات سے معلوم ہو تا ہے کہ یہاں پر دوسرا معنی مقصود ہے کیونکہ اس حکم کے فوری بعد فرمایا :
''فَلْيحْذَرِالَّذِينَ يخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہ '' ٣٤
''جو لو گ حکم رسول ۖ کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات کا خوف رہنا چاہیے کہ مبادا وہ کسی فتنے میں مبتلا ہوجائیں یا ان پر کوئی درد ناک عذاب آجائے ''
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں :
''دعا ء الرسول سے مراد پیغمبراکرم ۖکا لوگوں کو کسی کام کے لیے بلانا ہے جیسے ایمان و عمل صالح کی طرف بلانا ، اجتماعی کاموں میں مشورت کے لیے بلانا ،نماز جامعہ کے لیے بلانا یا دنیا وی واخروی معاملات کے سلسلہ میں احکامات صاد ر کرنے کی غرض سے بلانا ہے ،لہذا یہ سب پیغمبر ۖ کے بلانے میں شامل ہیں ''٣٥
پس معلوم ہو ا کہ اگر کبھی کسی جنگ کی طرف روانہ ہو نے کے لیے بلائیں یااجتماعی و معاشرتی زندگی کے لحاظ سے ایک نجات بخش تحریر لکھنے کے لیے بلا ئیں تواس قسم کی اجتماعی دعوت کی مخالفت کرنے والا حقیقی مومن کہلا نے کا حقد ار نہیں ہو سکتا ۔بنابریں دونوں احتمالات کے باوجود پیغمبر ۖ کی اجتماعی و سیاسی معاملات میںمرکزیت کو کسی صورت میں رد نہیں کیا جا سکتا ۔علاوہ ازیں سیاسی حاکمیت کے لیے مالی امور کو ایک اہم رکن کی حیثیت حاصل ہے اور قرآن مجید میں زکات وخمس ا ور انفال کو پیغمبر ۖ کے اختیار میں دینے سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا وند متعال اپنے نبی ۖکو اسلام کا سیاسی حاکم متعارف کرانا چاہتا ہے ،ارشاد رب العزت ہے :
''وَلَوْ اَنَّهمْ رَضُوْامَآ اٰتٰهمُ اللّٰه وُرَسُوْلُه وَقَالُوْاحَسْبُنَااللّٰه سَيؤْتِينَااللّٰه مِنْ فَضْلِه وَرَسُوْلُه اِنَّآ اِلَی اللّٰه رٰغِبُوْنَ ''٣٦
''اور کیا ہی اچھا ہو تا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انہیں دیا ہے وہ اس پر راضی ہو جا تے اور کہتے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی ،ہم تو اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں ''
اس آیت میں زکات کی تقسیم میں پیغمبر اکرم ۖ کو کلی اختیار دیاگیا ہے نیز فرمایا :
''يسْلُوْنَکَ عَنِ الْاَ نْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰه وَالرَّسُوْلِ ''٣٧
''(اے رسول )آپ ۖ سے انفال (مال غنیمت)کے متعلق پو چھتے ہیں کہہ دیجیۓ یہ انفال اللہ اور رسول کے ہیں) ''
اگر چہ انفال کا حکم جنگ بدر کی غنیمت کے بارے میں آیا ہے تاہم یہ حکم ہر قسم کے انفال یعنی اموال زائد کو شامل ہے مثلا ً متروک آبادیاں،پہاڑوںکی چوٹیاں ،جنگل ،غیر آباد زمینیںاور لا وارث املاک وغیرہ جو کسی کی ملکیت نہ ہوں اس طرح وہ اموال جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے قبضے میں آئے ہوں جنہیں ''فئی'' کہتے ہیں یہ سب اللہ اور رسول ۖ کی ملکیت ہیں یعنی اسلامی حکومت کی جائیداد میں شامل ہیں ۔٣٨
مندرجہ بالا امور کی سر پرستی رسول کے سپرد کرنا یا جہاد کے امور کی سر پر ستی کا رسول ۖکے ساتھ مختص کر نا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ کو سیاسی امور پر بھی حاکمیت حاصل تھی ۔

٭٭٭٭٭
حوالہ جات
١۔ القرآن ،الجمعہ،٢
٢۔ القرآن ،الحدید،٢٥
٣۔ القرآن ،النحل ،٣٦
٤۔ مجلہ حکومت اسلامی ۔سال اول ،شمارہ دوم ،٢٢٤
٥۔ القرآن ،الکافرون،٦
٦۔ القرآن ،الغافر،٢٦
٧۔ القرآن ،الا نعام،١٥٣
٨۔ محمد حسین ،طباطبائی ،المیزان فی تفسیر القرآن ،ج ٤،ص١٢٢،ج١٤،ص١٧٨
٩۔ القرآن ،الروم،٣٠
١٠۔ محمد حسین ،طباطبائی ،المیزان فی تفسیر القرآن،ج٦،ص١٨٩
١١۔ القرآن ،الشوری،١٠نیز
١٢۔ القرآن ،النساء ،١٠٥
١٣۔ القرآن ،الا نفال،٤١
١٤۔ القرآن ،التوبہ،١٠٣
١٥۔ روح اللہ ،امام خمینی ،حکومت اسلامی ،ص٧١۔٧٠
١٦۔ القرآن ،النساء ،٦٤
١٧۔ القرآن ،النساء ،٨٠
١٨۔ القرآن ،النساء ،٥٩
١٩۔ القرآن ،الا نفال،٢٠
٢٠۔ القرآن ،الا نفالء ،٢١۔٢٤
٢١۔ القرآن ،النور ،٥٦
٢٢۔ القرآن ،الشعرا ،١٠٧۔١٠٨
٢٣۔ القرآن ،الاعراف،١٤٢
٢٤۔ القرآن ،طٰہ،٩٠
٢٥۔ القرآن ،الحشر، ٧
٢٦۔ القرآن ،آلعمران،١٢٨
٢٧۔ القرآن ،آلعمران،١٥٤
٢٨۔ القرآن ،القصص،٥٦
٢٩۔ القرآن ،الشوریٰ ،٥٢
٣٠۔ القرآن ،المائدہ،٥٥،٥٦
٣١۔ القرآن ،المائدہ،٥٦
٣٢۔ طباطبائی ،محمد حسین ،المیزان ،ج١٦،ص٢٧٦
٣٣۔ القرآن ،النور،٦٢
٣٤۔ القرآن ،النور،٦٣
٣٥۔ طباطبائی ،محمد حسین،المیزان ،ج١٥،ص١٦٦
٣٦۔ القرآن ،التوبہ ،٥٩
٣٧۔ القرآن ،الانفال،١
٣٨۔ نجفی ،محسن علی،بلاغ القرآن ،ص٢٣٦
منبع:مجلہ نورمعرفت

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کا کہنا ہے کہ خاتم النبین ‘ رحمت اللعالمین ‘ سرورکائنات انسانیت کیلئے مرکز و محور ہیں او رسول اکرم نے قرآن و سنت کی شکل میں ایسا خزانہ چھوڑا کہ جو آپ کے وصال کے صدیوں بعد بھی عالم انسانیت کی مکمل رہنمائی کررہا ہے اور انسانیت کو ہر میدان میں انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کا طریقہ اور ترقی کا سلیقہ سکھا رہا ہے اگر امت مسلمہ بالخصوص اور عالم انسانیت بالعموم حضوراکرم کی سیرت اور فرامین پر عمل کرے تو خطہ ارض سے تمام مشکلات کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔

وصال نبوی کے بعد اہل بیت اطہار ؑ نے امت کی تمام معاملات میں رہنمائی کی، عالم انسانیت کے انفرادی‘ اجتماعی‘ روحانی‘ دینی و دنیاوی مسائل کا حل اہل بیت ؑ نے اپنے عمل و کردار سے پیش کیا اور خاتم النبین کے بعد ان کے جانشین کے طور پر فرائص انجام دیئے۔

28 صفر المظفر خاتم المرسلین کے یوم وصال اور نواسہ پیغمبر اکرم حضرت امام حسن ؑ کے یوم شہادت کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ اگر ہم خواہشمند ہیں کہ سیرت رسول اکرم کا عملی مشاہدہ کریں اور سنت نبوی کی عملی تعبیر و تشریح دیکھیں تو ہمیں سیرت امام حسن ؑ کا مطالعہ و مشاہدہ کرنا ہوگا کیونکہ نبی اکرم نے حضرت علی ؑ اور سیدہ فاطمہ زہرا ؑ کے بعد حضرت امام حسن ؑ کی تربیت اس نہج پر کی کہ حضرت امام حسن ؑ پرہر مرحلے ‘ ہر میدان‘ ہر موڑ اور ہرانداز میں شبیہ پیغمبر نظر آئے۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ رسول خدا نے اپنی احادیث میں حضرت امام حسن علیہ السلام کی شان و منزلت اور سخاوت و مرتبت کی نشاندہی فرمادی تھی ۔ جب حضرت امام حسن علیہ السلام کے دور میں فتنہ و فساد نے سراٹھایا اور مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے تو امام ؑ نے اپنے جد امجد کی سیرت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مسلمانوں کو امن و محبت کا درس دیا اور صلح کا راستہ اپناکر ثابت کردیاکہ اہل بیت پیغمبر دین اسلام کی نگہبانی کا فریضہ ادا کرنا جانتے ہیں اور کسی صورت بھی اسلام کے حصے بخرے ہونا گوارہ نہیں کرتے۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا کہ موجودہ پرفتن دور اور سنگین حالات میں ہمیں باہمی فروعی و جزوی اختلافات کو پس پشت ڈال کر سینکڑوں مشترکات کو سامنے رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم اور خاندان رسالت کے اسوہ پر عمل پیرا ہوکر امن‘ محبت‘ رواداری‘ تحمل اور برداشت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور علم و حلم‘ عقل و شعور‘ تدبر و تحمل اور اخوت و یگانگت کی راہ پر چل کر خداوند تعالی اور خاتم الانبیاءکی خوشنودی حاصل کرنا ہوگی صرف اسی صورت میں دنیوی و اخروی نجات ممکن ہے۔

جمہوری اسلامی ایران میں سابق شاہ(رضا شاہ پہلوی) اور عالمی استعماری قوتوں کے وفادار اور خدمت گزار سیکولر اور نام نہاد لبرلز نے ایک بے حجاب خاتون (مہسا امینی) کی گرفتاری کے بعد موت کو بہانا بنا کر انقلاب اسلامی کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز کیا (درحالانکہ یہ طبی موت تھی) اور پھر اس آڑ میں شعائر اسلامی و مقدسات اسلام کی توہین بھی کی اور سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے علاؤہ قتل و غارتگری بھی شروع کر دی جس میں ان شرپسندوں کے ہاتھوں متعدد شہری بھی شہید ہوئے۔

یہ غیر ملکی اشاروں پر ناچنے والے اسلام دشمن چاہتے ہیں کہ جمہوری اسلامی میں بے پردگی اور بے حیائی عام ہوجائے۔ ان کے حامی یورپی ممالک میں بیٹھے بعض ایرانی خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے ان یورپی ممالک میں مہسا امینی کی موت کو بہانہ بنا کر وہاں جو مظاہرے کیئے ہیں ان میں بے حیائی کا عملی مظاہرہ کیا ہے بے حیائی کے ان مناظر کو کوئی بھی غیرت مند انسان نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی انہیں شیئر یا پوسٹ کیا جانا مناسب ہے۔

ان اسلام دشمن سیکولرز اور لبرلز کے پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک میں بیٹھے ہمدرد (سیکولر اور لبرلز) بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ انقلاب اسلامی کے خلاف اپنی بڑھاس نکال رہے ہیں جو امریکہ، یورپ اور اسرائیلی میڈیا سے اس بارے میں بڑھا چڑھا کر نشر کی جانے والی خبروں کو لیکر انقلاب اسلامی اور اس کے قائدین کے خلاف خوب پراپگنڈا کر رہے ہیں اور خیال کر رہے ہیں ایران سے اسلامی انقلاب کا خاتمہ ہونے کو ہے۔ ان بیگانی شادی کے عبداللہ دیوانوں سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ جمہوری اسلامی ایران میں جمعہ 23 ستمبر 2022 کو حجاب اسلامی، شعائر اسلامی اور انقلاب اسلامی کے حق میں اور غیر ملکی امداد اور اشاروں پر ناچنے والے لادین سیکولر عناصر کے خلاف ہونے والے ایرانی عوام (مرد و زن) کی عظیم ریلیوں کی ویڈیوز اور تصاویر کو غور سے دیکھیں تاکہ جان پائیں کہ اس انقلاب پر دست قدرت ہے یہ الہی طاقت کے سہارے سائنسی و معنوی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے جسے ایک ایسا شخص، خاندان اور معاشرہ ہی سمجھ سکتا ہے جو حق اور عدل و انصاف کا حقیقی متمنی ہو اور پاکیزہ نفس ہو نہ کہ نجاست میں ڈوبا ہوا مادہ پرست شخص، خاندان اور معاشرہ۔

ایک الہی اور پاکیزہ نفس فرد، خاندان اور معاشرہ ہی انسانیت کے لیے نفع بخش ہو سکتا ہے نہ کہ نجس نفس رکھنے والا فرد، خاندان اور معاشرہ جو دنیا کو صرف مادہ کی آنکھ سے دیکھتا ہو۔ ایسا معاشرہ ایٹم کو انسانی نفع کے لیے استعمال کرنے کے بجائے دیگر اقوام پر اقتدار اور تسلط جمانے کے لیے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گراتا ہے تاکہ اس کا دبدبہ قائم ہو اور وہ دیگر اقوام کا استحصال کرکے اپنی تجوریاں بھر سکے ایسا فرد، خاندان اور معاشرہ کسی طور بھی انسانیت کے لیے نفع بخش نہیں ہے۔ اسے اس کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کے کسی عمل سے انسانیت کی کتنی تذلیل ہوتی ہے یا کتنے انسان ہلاک ہوتے ہیں۔

انبیا علیھم السلام کی بعثت کے مقاصد میں تزکیہ نفس اہم مقصد ہے۔

انبیا علیھم السلام کی بعثت کے مقاصد میں انسان کے نفس کی پاکیزگی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل رہی ہے اسی جانب قرآن مجید نے بھی متوجہ کیا ہے *"هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ"* (وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اُمّی قوم میں انہیں میں سے ایک رسول(ص) بھیجا جو ان کو اس (اللہ) کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاکیزہ بناتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے۔) سورہ جمعہ، آیت۔2

الہی معاشرہ کی تشکیل میں عورت کا کردار

ایک الہی اور پاکیزہ معاشرہ میں عورت کا بنیادی کردار ہے کیونکہ وہ نہ صرف نسل انسانی کو جنم دیتی ہے بلکہ اسے پروان بھی چڑھاتی ہے۔ لہذا انسانی معاشرہ میں عورت کی پاکیزگی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ گناہ میں لتھڑی ہوئی عورت ایک الہی صفات کا حامل معاشرہ کی تشکیل میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔

عورت کی پاکیزگی ہی مرد میں الہی صفات کی ضامن ہے کیونکہ انسان اس کے وجود سے جنم لیتا ہے اور اس کی گود میں پرورش پاتا ہے اور اسی سے سکون حاصل کرتا ہے "وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ" (اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت (نرم دلی و ہمدردی) پیدا کر دی۔ بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کیلئے بہت نشانیاں ہیں۔) سورہ روم، آیت۔21.

لہذا انسان کا نفع اسی میں ہے کہ اس کے خاندان اور معاشرہ کی خواتین پاکیزہ نفس ہوں نہ کہ ہوا و ہوس کی پجاری مادہ پرست ہوں کیونکہ ایسی صورت میں ایک مادہ پرست نسل و قوم پروان چڑھے گی جو انسانی اقدار اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف اپنی طاقت اور تسلط قائم کرنے کے لیے علم اور ٹیکنالوجی حاصل کرئے گی اور اپنے سے کمزور افراد و اقوام کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہی ان کی زندگی کا ہدف ہوگا اور اس معاشرہ میں خود عورت کو کوئی عزت و مقام حاصل نہ ہوگا وہ اپنی ہی گود میں پروان چڑھائے ہوئے انسانی شکل میں موجود درندوں کے نرغہ میں ہوگی اور ہر وقت خوف و دہشت میں مبتلا رہے گی نہ کسی جگہ اطیمنان و سکون سے کام کر پائے گی، نہ سفر اور نہ گھر میں محفوظ ہو گی۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کی بدترین مثالیں موجود ہیں خصوصاً یورپی ممالک میں جہاں آج بات اس حد تک جا پہنچی ہے کہ بے حیائی اور بدکاری جیسے الفاظ بہت چھوٹے رہ گئے ہیں۔ بعض یورپی ممالک میں تو باقاعدہ قانون سازی کے ذریعہ محرم رشتوں سے بھی جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

عالمی استعماری اور شیطانی قوتیں جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل سر فہرست ہیں اسی لیے یہ چاہتی ہیں کہ دنیا میں بالعموم اور جمہوری اسلامی ایران میں بالخصوص عورت کے جسم سے صرف حجاب نہیں بلکہ پورا لباس اتروا دیا جائے تاکہ بے حیائی عام ہو جائے اور وہ اس بے حیائی کو دیگر اقوام کے سامنے بطور ترقی پیش کرکے نہ صرف ان سے ان کا مذہب بلکہ ان کی تہذیب و ثقافت بھی چھین کر عجائب خانوں میں گم کرنا چاہتی ہیں۔ نیز اپنی تہذیب و ثقافت کا نفاذ کرتے ہوئے اس کے ذریعہ دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنا اور اپنا عالمی حکم (ورلڈ آرڈر) چلانا چاہتی ہیں۔ جسکی راہ میں صرف سائنس و ٹیکنالوجی میں کسی قوم کی ترقی اور اسحلہ میں طاقتور ہونا ہی رکاوٹ نہیں بلکہ دینی تہذیب اور ثقافت بھی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی تناظر میں بانی انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی رح نے فرمایا تھا کہ:

"دشمن ہمارے شہدا کے خون سے زیادہ ہماری خواتین کے حجاب سے خوف زدہ ہے۔"

تحریر طویل نہ ہو جائے بس اتنے پر اکتفا کرونگا کہ عصر حاضر میں جمہوری اسلامی ایران کا "اسلامی جمہوری نظام حکومت" نہ صرف دین اسلام بلکہ تمام ادیان الہی کی حقیقی تعلیمات کا محافظ ہے اور اگر باریک بین نگاہوں سے دیکھا جائے تو غیر الہی ادیان کی اخلاقی اقدار کا بھی محافظ ہے نیز یہ نظام حکومت کہ جس کی بنیاد دین پر ہے تمام ادیان کے ماننے والوں کے لیے ایک آئیڈیل کا درجہ رکھتا ہے۔

اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ماننے والوں کے لیے یہ فخر ہے کہ یہ حکومت اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ماننے والے پاکیزہ ترین نفوس کے ہاتھوں میں ہے جو کہ وحی الٰہی کے تابع (یعنی قرآن و سیرت محمد و آل محمد علیھم السلام کے تابع) عقل اجتماعی یعنی ایک اسلامی شورائی نظام کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔ اس لیے انشاء اللہ تعالیٰ یہ انقلاب حجت خدا امام زمانہ (امام مہدی) عجل اللہ تعالیٰ فرجہ شریف کے ظہور پر ان کے ہاتھوں برپا ہونے والے عالمی انقلاب سے متصل ہوگا۔

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!

يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ كَرِہَ الْكَافِرُونَ (سورہ صف، آیت۔8)

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (پھونکوں) سے بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو کامل کرکے رہے گا اگرچہ کافر لوگ ناپسند ہی کریں۔

تحریر: سید شجاعت علی کاظمی
بشکریہ:حوزہ نیوز ایجنسی

– ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ فلسطین میں ریفرنڈم کے انعقاد سے ناجائز صیہونی ریاست کے قبضے کے خاتمے اور مغربی ایشیا میں طویل عرصے سے جاری تنازع کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ بات حسین امیرعبداللہیان نے ہفتہ کے روز نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی خاموشی کے نتیجے میں فلسطینی عوام کو اسرائیلی قبضے اور حکومت کی جارحیت اور توسیع پسندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے غیر انسانی حالات کا سامنا ہے۔

امیرعبداللہیان نے نسل پرست صیہونیوں پر الزام لگایا کہ وہ فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق بشمول جینے اور کام کرنے کے حق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

انہوں نے مقبوضہ فلسطینی اراضی پر اپنی بستیوں کو توسیع دینے پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو قید اور ہجرت پر مجبور کیا جاتا ہے، جب کہ ان کی زمینیں ضبط کی جاتی ہیں اور ان کی کھیتی باڑی کو تباہ کیا جاتا ہے۔

ایرانی وزير خارجہ نے حالیہ برسوں میں انسانی حقوق کی اہم بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے ناجائز صہیونی ریاست کی بڑھتی ہوئی مذمت کا حوالہ دیا، جنہوں نے اسرائیل کو ایک نسل پرست حکومت قرار دیا ہے۔

انہوں نے ناوابستہ تحریک پر زور دیا کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف قابض اسرائیلی حکومت کے غیر انسانی اقدامات اور جرائم کو روکنے کے لیے اپنی سفارتی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔

انہوں نے کہا کہ آج فلسطینی نوجوان صیہونیوں کے ساتھ تنازعات کے حل میں مدد کے لیے بعض ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پیش کیے جانے والے اقدامات سے پر امید نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ تمام اقدامات تعطل کا شکار ہو چکے ہیں کیونکہ وہ بحران کی بنیادی وجہ کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

امیرعبداللہیان نے وضاحت کی کہ ایران نے یکم نومبر 2019 میں اقوام متحدہ کے سامنے اپنا اقدام پیش کیا جس میں فلسطین میں قومی ریفرنڈم کا مطالبہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جمہوری حل مغربی ایشیا کے خطے میں قبضے اور دیرینہ تنازعہ کو حل کرنے میں مدد دے گا اور فلسطین کے حقیقی باشندے جن میں مسلمان، عیسائی اور یہودی شامل ہیں، اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

– ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ فلسطین میں ریفرنڈم کے انعقاد سے ناجائز صیہونی ریاست کے قبضے کے خاتمے اور مغربی ایشیا میں طویل عرصے سے جاری تنازع کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ بات حسین امیرعبداللہیان نے ہفتہ کے روز نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی خاموشی کے نتیجے میں فلسطینی عوام کو اسرائیلی قبضے اور حکومت کی جارحیت اور توسیع پسندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے غیر انسانی حالات کا سامنا ہے۔

امیرعبداللہیان نے نسل پرست صیہونیوں پر الزام لگایا کہ وہ فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق بشمول جینے اور کام کرنے کے حق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

انہوں نے مقبوضہ فلسطینی اراضی پر اپنی بستیوں کو توسیع دینے پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو قید اور ہجرت پر مجبور کیا جاتا ہے، جب کہ ان کی زمینیں ضبط کی جاتی ہیں اور ان کی کھیتی باڑی کو تباہ کیا جاتا ہے۔

ایرانی وزير خارجہ نے حالیہ برسوں میں انسانی حقوق کی اہم بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے ناجائز صہیونی ریاست کی بڑھتی ہوئی مذمت کا حوالہ دیا، جنہوں نے اسرائیل کو ایک نسل پرست حکومت قرار دیا ہے۔

انہوں نے ناوابستہ تحریک پر زور دیا کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف قابض اسرائیلی حکومت کے غیر انسانی اقدامات اور جرائم کو روکنے کے لیے اپنی سفارتی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔

انہوں نے کہا کہ آج فلسطینی نوجوان صیہونیوں کے ساتھ تنازعات کے حل میں مدد کے لیے بعض ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پیش کیے جانے والے اقدامات سے پر امید نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ تمام اقدامات تعطل کا شکار ہو چکے ہیں کیونکہ وہ بحران کی بنیادی وجہ کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

امیرعبداللہیان نے وضاحت کی کہ ایران نے یکم نومبر 2019 میں اقوام متحدہ کے سامنے اپنا اقدام پیش کیا جس میں فلسطین میں قومی ریفرنڈم کا مطالبہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جمہوری حل مغربی ایشیا کے خطے میں قبضے اور دیرینہ تنازعہ کو حل کرنے میں مدد دے گا اور فلسطین کے حقیقی باشندے جن میں مسلمان، عیسائی اور یہودی شامل ہیں، اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

تہران، ارنا - ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ سویڈن کی عدالت کی جانب سے حمید نوری کو سنائی گئی سزا کی کوئی قانونی طاقت نہیں ہے۔

یہ بات حسین امیر عبداللہیان نے ہفتہ کے روز  اپنی سویڈش ہم منصب آن لینڈہ کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہی.

ایران اور سویڈن کے وزرائے خارجہ کی یہ ملاقات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس کے موقع پر ہوئی۔
دونوں وزرائے خارجہ نے بات چیت کے دوران دو طرفہ امور کے علاوہ دو طرفہ قونصلر امور پر تبادلہ خیال کیا۔
امیرعبداللہیان نے کہا کہ حمید نوری کے بارے میں سویڈن کی عدالت کی طرف سے سنائے گئے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
 انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تیسرے فریق کو ان کے منظم یا سیاسی مفادات کے مطابق دونوں ممالک کے تاریخی اور گہرے تعلقات پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

فارس خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روس کی جانب سے بڑے پیمانے پر افواج کو متحرک کرنے کے اعلان کے فوراً بعد روسی صدر کے سابق مشیر "ولادیمیر پوتن" نے انگلینڈ کو ایٹمی حملے کی دھمکی دی ہے۔

"دی ٹائمز آف اسرائیل" ویب سائٹ کے مطابق، پوتن کے سابق مشیر "سرگئی مارکوف" نےBBC  نیوز چینل کو بتایا کہ صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ وہ برطانیہ سمیت مغربی ممالک کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔

روس کے سابق قانون ساز اور رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ آپ کے شہروں کو نشانہ بنایا جائے گا ۔

انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن، سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور موجودہ وزیراعظم لز ٹرس کو یوکرین کی جنگ کا ذمہ دار قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ یوکرینی ہمارے بھائی ہیں، لیکن یوکرین پر مغربی ممالک کا قبضہ ہے اور یہی مغربی ممالک یوکرین کے فوجیوں کو غلام بنا کر روسی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

مارکوف نے کہا کہ روس نہیں چاہتا کہ دنیا کے تمام افراد مارے جائیں لیکن روس جو چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس جنگ کو ان مغربی ممالک کے ساتھ حل کیا جائے جو یوکرین کی سرزمین پر روس کے خلاف جنگ کر رہے ہیں اور جس پر مغربی ممالک نے دراصل قبضہ کر رکھا ہے۔

مارکوف کا یہ بیان پوتن کی جانب سے روس میں ریزرو فورسز کو متحرک کرنے کے حکم کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔

تہران: ولی امر مسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ سابق عراقی حکومت کی ایران کے خلاف آٹھ سالہ جنگ کے خلاف مقدس دفاع نے ثابت کردیا کہ وطن کی حفاظت اور دفاع صرف مزاحمت کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے، ہتھیار ڈالنے سے نہیں۔
ایران پر مسلط 8 سالہ جنگ میں ایران کے مقابل عالمی سامراج تھا جو صدام کی ہر طرح سے مدد کررہا تھا۔ ہفتہ دفاع مقدس کی مناسبت سے کمانڈروں اور جانبازوں سے ملاقات میں ولی امر مسلمین نے کہا کہ مزاحمت نے لوگوں کے حوصلے اور خود اعتمادی کو بلند کیا اور ساتھ ہی دشمن کو اپنے حساب کتاب پر نظر ثانی کرنے اور ایرانی قوم کی طاقت اور مزاحمت کے ادراک کا درس دیا۔
ایران پر مسلط کی گئی جنگ اچانک حملہ نہیں تھا بلکہ صدام کی پشت پر عالمی سامراج تھا۔ ایران کے انقلابی اور اسلامی نظام پر سامراجی حکومتوں کا حملہ غیر فطری نہیں تھا کیونکہ یہ حکومتیں ایران کے اسلامی انقلاب سے سخت چراغ پا تھیں۔ سامراجی طاقتیں سمجھ رہی تھیں کہ یہ انقلاب صرف سامراجی طاقتوں کی ایک وقتی سیاسی شکست نہیں ہے بلکہ اسلامی انقلاب تسلط پسندانہ نظام کے لئے ایک بڑا خطرہ تھا۔ ولی امر مسلمین نے کہا کہ امریکی حکام کے لئے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ ایرانی عوام امریکا جیسی بڑی طاقت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں اسی لئے امریکا نے انتقام لینے کی ٹھان لی اور اس نے طبس کے ناکام ہوائی حملے کے ذریعے بغاوت کرانے اور ایران کے اندر اقوام کو اکسانے جیسے اقدامات کئے لیکن جب اس کو کوئی نتیجہ نہیں ملا تو اس نے صدام کے ذریعے جنگ مسلط کرادی لیکن ایران کے عوام نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سبھی منصوبوں کو ناکام بنا دیا اور آج سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں ایرانی عوام پوری قوت کے ساتھ ڈٹےہوئے ہیں۔ آج ایران دفاعی میدان میں اس قدر توانا ہوگیا ہے کہ دشمن بھی جانتا ہے کہ ایران کو آنکھیں نہیں دکھائی جاسکتیں۔