سلیمانی

سلیمانی

سنی مکاتب فکر کی منصوبہ بندی کونسل کے رکن اور امام جمعہ تربت جام مولوی شرف الدین جامی احمدی نےتقریب خبر رساں ایجنسی کے شعبہ فکر کے نامہ نگار سے گفتگو میں اتحاد و یکجہتی کے دشمن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب فتنہ و تفرقہ کا وائرس کہ عالم اسلام اور صیہونیت کا دیرینہ دشمن جو اسلام کے آغاز سے لے کر اب تک عالمی استکبار کے ساتھ اس کی پیروی کر رہا ہے، فتنہ و فساد اور تفرقہ کو فروغ دے رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: خدا تعالی ایک ہے اور امت اسلامیہ اور عالم انسانیت کو اتحاد و اتفاق کی دعوت دیتا ہے۔ لہٰذا خدائے بزرگ و برتر، پیغمبر اکرم، ائمہ، بزرگان اسلام، صحابہ کرام اور مجتہدین امت اسلامیہ کے اتحاد کی رہنمائی اور تاکید کرتے ہیں۔

مولوی احمدی نے اپنی بات جاری رکھی: خدا تعالیٰ قرآن پاک کی سورہ آل عمران میں فرماتا ہے: "اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ مت ڈالو۔" تم سب خدا، قرآن، اسلام اور اتحاد کے کسی بھی ذریعہ کی رسی کو تھام لو اور بکھرو مت! عام طور پر اللہ تعالیٰ نے سورہ توحید میں توحید اور قربت کی وضاحت اس طرح کی ہے: "قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ" کہو کہ وہ واحد خدا ہے، اور مندرجہ ذیل آیات میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو بیان کیا ہے۔

انہوں نے بیان کیا: ابتدائے اسلام میں پیغمبر اکرم (ص) نے بھی اپنی امت کو بلایا اور نصیحت فرمائی کہ ہم متحد رہیں اور وحی الٰہی کے احکامات پر عمل کریں اور اس وقت یہ واحد ملک ایران ہے جس کی متحد قیادت ہے۔ اور عالم اسلام اور امت کے لیے نمونہ ہو سکتا ہے تو وہ اسلامی ایران ہے۔

مولوی احمدی نے مزید کہا: اسلامی ممالک، اتحاد اور ہم آہنگی کو مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف قبائل اور نسلوں پر مشتمل "اسلامی ایران" کہلانے والی واحد قوم کے سپریم لیڈر کی رہنمائی اور حکم کے تحت اچھی طرح زندگی بسر کرے۔

انہوں نے بیان کیا: محاصرے کے دور میں بہت سے اشرافیہ اور دانشور ایسے ہیں جنہیں اسلامی ممالک کے قائدین کے درمیان تقسیم کی وجہ سے اکٹھا نہیں کیا جا سکتا اور ان کے افکار و اختراعات کو اسلام اور مسلمانوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مولوی احمدی نے آخر میں تاکید کی: مجھے امید ہے کہ جو واقعات رونما ہوئے ہیں اور جو نقصان امریکہ، صیہونیت اور کفریہ محاذ نے تمام اقوام بالخصوص ملت ایران کو پہنچایا ہے، اس سے قوموں اور حکومتوں کی بیداری واقع ہو گی۔ خوش قسمتی سے اب وہ یہ جان چکے ہیں کہ عالم اسلام کے مسائل کا حل مسلمانوں کا اتحاد ہے اور امریکہ اور صیہونیت نے انسانیت اور اسلام کے معاشرے کے لیے فتنہ و بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔
http://www.taghribnew

"کاظم غریب آبادی" نے یورپی یونین کیجانب سے ایران کے بعض اداروں اور افراد کیخلاف انسانی حقوق کیخلاف ورزی کے الزام پر عائد کی گئی پابندیوں کے رد عمل میں کہا کہ "یورپی یونین، ایک طرف ایران کیخلاف امریکی ظالمانہ پابندیوں کا ساتھ دینے سے کئی ملین ایرانی شہریوں کے حقوق کی پامالی کر رہی ہے اور وہ دہشتگرد جن کے ہاتوں 17 ہزار نہتے ایرانی شہریوں کے خون سے رنگین ہیں، کی پناہ دیتی ہے اور ان کی حمایت کرتی ہے اور دوسری طرف، وہ طرف مغرب کی حمایت یافتہ باغیوں کیخلاف ایرانی عوام کی حفاظت فراہم کرنے والوں کیخلاف پابندیاں عائد کرتی ہے"۔

واضح رہے کہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی کونسل نے انسانی حقوق کے مسائل کے بہانے سے کئی ایرانی شخصیات اور 4 ادراہ بشمول اخلاقی پولیس اور ایرانی پولیس فورس کیخلاف پابندیاں عائد کی ہیں۔

اس حوالے سے ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان  "ناصر کنعانی" نے یورپی یونین کے وزارئے خارجہ کی کونسل کیجانب سے بعض ایرانی اداروں اور افراد کیخلاف یکطرفہ پابندیوں کے نفاذ کی شدت سے مذمت کرتے ہوئے ان کو بین الاقوامی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اندورنی معاملات میں مداخلت کی واضح مثال قرار دے دیا۔

ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بڑی افسوس کی بات ہے کہ خاص سیاسی عزائم سمیت بے بنیاد معلومات اور ایرانی قوم کے دشمن عناصر اور ان سے منسلک میڈیا کیجانب سے دعوے کیے گئے بیانات، اس غیر تعمیری اور غلط فیصلے کی بنیاد ہوئی ہے۔

کنعانی نے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے ایران کیخلاف پابندیاں لگانے کے فیصلے کو ایک جانبدارانہ نقطہ نظر کے تسلسل اور سیاسی اہداف کے حصول کے لیے انسانی حقوق کے غلط استعمال کے سلسلے میں قرار دیتے ہوئے اس طرح کے فیصلے کو بنیادی طور پر مسترد اور غیر موثر اور غلط قرار دیا۔

محکمہ برائے صنعت، کان کنی اور تجارت کیجانب سے شائع کیے گئے سروے کے مطابق،1401 کے ابتدائی 6 مہینوں کے دوران، صنعت، کان کنی اور تجارت کے شعبوں میں 382 ملین 400 ہزار ڈالر کی مالیت پر مشتمل 73 کیسز پر غیر ملکی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

ان تعداد میں سے 39 غیر ملکی سرمایہ کاری جن کی مالیت کی شرح 285 ملین 800 ہزار ڈالر ہے، آپریشنل کے مرحلے میں ہیں اور دیگر 34 تعداد جن کی مالیت کی شرح 96 ملین 600 ہزار ڈالر ہے، کا نفاذ ہوگیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، صنعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے حجم کا حصہ 8۔93 فیصد (اسٹیبلشمنٹ لائسنس کیلئے 8۔285 ملین ڈالر اور آپریٹنگ لائسنس کیلئے 8۔72 ملین ڈالر)، کان کنی  کا حصہ 2۔2 فیصد (آپریٹنگ لائسنس کیلئے 5۔8 ملین ڈالر) اور تجارت کاحصہ 4 فیصد (پروڈکشن گلڈز کیلئے 2۔15 ملین ڈالر) ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق منظور شدہ سرمایہ کاری کی قدر کے لحاظ سے پہلے پانچ ممالک افغانستان، چین، ترکی، بھارت اور متحدہ عرب امارات ہیں۔ اس کے علاوہ، سب سے زیادہ سرمایہ کاری افغانستان میں 30 کیسز کے ساتھ کی گئی، اس کے بعد متحدہ عرب امارات، ترکی، عراق اور چین ہیں۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، ایران اسٹیٹ ٹریڈنگ کمپنی کے سی ای او نے کہا ہے کہ رواں سال کے دوران، 7 ملین 200 ہزار ٹن گندم کی اندروں ملک میں پیداوار کیے گئے گندم سے فراہمی ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ملکی مصنوعات کی خریداری کی وجہ سے اب تک 3 ملین 800 ہزار ٹن گندم کی درآمدات بھی ہوئی ہیں اور اس طرح گرشتہ سال کے مقابلے میں گندم کی درآمدات میں 40 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

سید "سعید راد" نے روٹی کی تیاری اور تجارت اور صنعت میں گندم کی ضروریات کی شرح کو تقریبا 11 ملین ٹن اعلان کیا اور کہا کہ گزشتہ سال کے دوران، 5۔4 ملین ٹن گندم، ملکی پیداوار سے خریداری کی گئی اور 6 ملین 400 ہزار ٹن گندم کی درآمدات ہوئیں۔

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ صہیونی حکومت نے بیت المقدس کو دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے فیصلے کی منسوخی کے متعلق آسٹریلیا کے سرکاری اعلان پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ صہیونی آرمی ریڈیو نے اس معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ تل ابیب نے یروشلم ﴿بیت المقدس﴾ کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کی باضابطہ منسوخی کے ردعمل میں آسٹریلوی سفیر کو طلب کیا ہے۔

درایں اثنا قدس کی غاصب حکومت کے وزیر اعظم "یائر لپیڈ" نے کینبرا کے اس اقدام کے ردعمل میں دعویٰ کیا کہ یروشلم ﴿بیت المقدس﴾ اسرائیل کا ابدی دارالحکومت رہے گا اور اس مسئلے کو کوئی چیز تبدیل نہیں کر سکتی۔

واضح رہے کہ آسٹریلوی حکومت نے یروشلم کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ باضابطہ طور پر منسوخ کر دیا ہے۔

آسٹریلیا کی وزیر خارجہ پینی وونگ نے منگل کو اعلان کیا کہ آسٹریلوی حکومت یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے سابقہ ​​کابینہ کے فیصلے کو منسوخ کر رہی ہے۔ آسٹریلیا کا سفارت خانہ ہمیشہ تل ابیب میں رہا ہے اور وہیں پر باقی رہے گا۔ وونگ نے صبح کی ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم "سکاٹ موریسن" نے تل ابیب کے بجائے یروشلم کو تسلیم کر کے ایک برا کھیل کھیلا اور اس کی وجہ سے آسٹریلیا کو عالمی برادری سے خارج کر دیا گیا۔ آسٹریلوی وزیر خارجہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یروشلم کی حیثیت ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر فلسطین اور تل ابیب حکام کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے۔

وونگ کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ آسٹریلیا دو ریاستی حل کے لیے پرعزم ہے جہاں اسرائیل اور فلسطینی ریاست بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر امن اور سلامتی کے ساتھ ساتھ رہیں، لہذا ہم اس نقطہ نظر کی حمایت نہیں کریں گے جو اس ویژن کو کمزور کرتا ہے۔ خیال رہے کہ اس معاملے پر آسٹریلوی وزیر خارجہ کا اعلان اور وضاحت پیر کی صبح ان خبروں کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد سامنے آئی ہے کہ آسٹریلیا نے سرکاری ویب سائٹس سے صیہونی حکومت کے دارالحکومت کے طور پر بیت المقدس کا نام ہٹا دیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیغمبر ختمی مرتبت اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے یوم ولادت اور ہفتۂ وحدت اسلامی کی مناسبت سے 14 اکتوبر 2022 کو اسلامی نظام کے سول و فوجی عہدیداران اور وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں پیغمبر اکرم، حضور کی  بعثت، آپ  کی  تعلیمات، عالم اسلام اور مسلمانوں کے مسائل اور توانائیوں پر گفتگو کی۔(1)  خطاب حسب ذیل ہے؛
     

بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم

الحمدللّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسانِ الی یوم الدین.

حاضرین محترم، ملک کے معزز عہدیداران اور ہفتۂ وحدت کے عزیز مہمانوں کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں اور یہاں تشریف رکھنے والے آپ تمام عزیزوں، پوری ایرانی قوم اور دنیا کے شرق و غرب میں پوری امت مسلمہ کی خدمت میں رسول اعظم، پیغمبر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہمیں امید ہے کہ آنحضرت اور اللہ کی توجہ کی برکتیں عظیم امت مسلمہ، امت اسلامی کے لیے ان شاء اللہ ترقی و پیشرفت کا باعث ہوں گي۔

پیغمبر اکرم اور رسول اعظم کی لاثانی شخصیت میں ایک نقطۂ عروج پایا جاتا ہے اور وہ ہے بعثت۔ رسول اکرم کی شخصیت پورے عالم وجود میں ایک منفرد اور بے نظیر شخصیت ہے۔ اس شخصیت کے عروج کا نقطہ، معدن عظمت و عزت و حکمت الہی سے آنحضرت کے قلب مطہر کے رابطے کا لمحہ ہے، بعثت کا لمحہ ہے۔ یہ صحیح ہے لیکن پیغمبر کی زندگی کا ہر لمحہ یہاں تک کہ بعثت کے بعد کی زندگي کا ہر لمحہ، بعثت کی حقیقت سے متاثر اور اسی کے مطابق ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم فرض کر لیں کہ بعثت سے پہلے مرسل اعظم کی زندگي، ایک عام انسان کی زندگي تھی، نہیں! آنحضرت کے کام، ان کی الہی برکتیں، ان کی بابرکت ذات سے مادی دنیا میں آنے والی تبدیلیاں، یہ سب غیر معمولی ہیں، سب کی سب ان کی شخصیت کی عظمت کے مطابق ہیں کہ جو بعثت سے عبارت ہے۔ پیغمبر ختمی مرتبت کی زندگي کے ہر دور میں خداوند متعال کی عظمت کی نشانیاں دیکھی جا سکتی ہیں، یہاں تک کہ ان کی ولادت کے وقت بھی۔ ہم نے آج کے دن، پیغمبر کے روز ولادت کے طور پر جشن منایا، عید کا جشن منایا، یہاں تک کہ انسان ان کے یوم ولادت میں بھی اللہ کی نشانیاں اور اس کی برکت کے آثار، جن کا اصل منبع وہی نقطۂ عروج ہے، یعنی بعثت، دیکھ سکتا ہے۔ توحید کے آثار کو اور توحید کی عملی نشانیوں کو انسان، ان کے روز ولادت میں بھی دیکھتا ہے۔ کعبے کے اندر سے لے کر، جہاں بت سر نگوں ہوئے، طاغوتی بتوں سے مقابلے تک، اس وقت کے بڑے انسانی طاغوت، یا یہ کہ کوئی مقدس جھیل سوکھ جاتی ہے، کوئی آتش کدہ، نام نہاد مقدس آتش کدہ بجھ جاتا ہے، کسری کا طاق ٹوٹ جاتا ہے، طاق کسری کے کنگورے گر پڑتے ہیں، اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ بنابریں آنحضرت کا یوم ولادت، کوئي معمولی دن نہیں ہے، بہت اہم دن ہے، بہت ہی بڑا دن ہے۔ ہم اس دن کو اس مناسبت سے عید کے طور پر مناتے ہیں۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ عید منانا، صرف جشن و سرور اور اسی طرح کی دوسری چیزیں نہیں ہے۔ عید منانا، سبق سیکھنے کے لیے ہے۔ پیغمبر کو نمونۂ عمل قرار دینے کے لیے ہے۔ ہمیں اس چیز کی ضرورت ہے، آج انسان کو اس کی ضرورت ہے، آج امت مسلمہ کو اس کی ضرورت ہے، ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ بنابریں رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک یوم ولادت کی یاد کو زندہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس آیت کے مضمون پر عمل کر سکیں جس میں کہا گيا ہے: "لَقَد کانَ لَکُم فی رَسولِ اللہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَن کانَ یَرجُو اللہَ وَ الیَومَ الآخِرَ وَ ذَکَرَ اللہَ کَثِیرًا"(2) پیغمبر اکرم اسوۂ حسنہ ہیں، بہترین نمونہ ہیں، اسے قرآن صاف لفظوں میں کہہ رہا ہے۔ اسوہ کا کیا مطلب ہے: مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ایک نمونہ اور آئیڈیل ہیں اور ہمیں اس آئيڈیل کی پیروی کرنی چاہیے، وہ چوٹی پر ہیں، ہمیں اس پستی سے اس چوٹی کی طرف جانا چاہیے، آگے بڑھنا چاہیے۔ انسان کے لیے جہاں تک ممکن ہو اس چوٹی کی طرف بڑھے، اسوہ کا مطلب یہ ہے۔

خیر، اب ہم اس اسوہ، نمونے اور آئيڈیل کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ جو سبق ہیں وہ ایک دو تو ہیں نہیں، سیکڑوں ہیں، پیغمبر کی انفرادی اور ذاتی زندگی، پیغمبر کی گھریلو زندگي میں، پیغمبر کی حکومت میں، اپنے دوستوں کے ساتھ، دشمنوں کے ساتھ، مومنوں کے ساتھ، کافروں کے ساتھ آپ کے برتاؤ میں اور پیغمبر کی سماجی شخصیت میں سیکڑوں اہم اور بنیادی سبق پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک سبق کو میں آج بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ قرآن مجید کی اس آيت کا مضمون ہے جس میں کہا گيا ہے: "لَقَد جاءَکُم رَسولٌ مِّن اَنفُسِکُم عَزیزٌ عَلَیہِ ما عَنِتُّم حَریصٌ عَلَیکُم بِالمُؤمِنینَ رَؤُفٌ‌ رَّحیمٌ"(3) میں اس "عَزیزٌ عَلَیہِ ما عَنِتُّم" کے مسئلے پر روشنی ڈالوں گا۔ آيت میں کہا گيا ہے کہ پیغمبر کے لیے تمھاری تکلیف اور پریشانی شاق ہے، تکلیف دہ ہے، جب تمھیں کوئي تکلیف ہوتی ہے تو تمھاری تکلیف سے پیغمبر کو تکلیف ہوتی ہے۔ بلاشبہ یہ بات پیغمبر کے زمانے میں موجود مسلمانوں سے مختص نہیں ہے، یہ خطاب پوری تاریخ کے تمام مومنین سے ہے، یعنی اگر آج آپ فلسطین میں تکلیف اٹھا رہے ہیں، میانمار میں، دوسری مختلف جگہوں پر مسلمان تکلیف اٹھا رہے ہیں تو انھیں جان لینا چاہیے کہ یہ تکلیف، پیغمبر کی روح مطہر کو بھی تکلیف پہنچاتی ہے، یہ بہت اہم ہے۔ ہمارے رسول اکرم اس طرح کے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حالت جو اس آيت میں بیان کی گئي ہے، دشمنوں کی حالت کے بالکل برخلاف ہے اور وہ حالت اس آيت میں بیان کی گئي ہے: "یا اَیُّھَا الَّذینَ آمَنوا لا تَتَّخِذوا بِطانَۃً مِن دونِکُم‌ لا یَالونَکُم خَبالًا وَدّوا ما عَنِتُّم"(4) یہاں دشمنوں کے لیے کہا گيا ہے: "وَدّوا ما عَنِتُّم" تمھاری تکلیف انھیں خوش کرتی ہے۔ ہم اس وقت اس طرح کے حالات میں ہیں، موجودہ دنیا میں اپنی حالت کو سمجھنے پر توجہ دیجیے۔

ایک طرف وہ پاکیزہ اور مقدس ذات ہے جو "عَزیزٌ عَلَیہِ ما عَنِتُّم" اور دوسری طرف وہ محاذ ہے جو "وَدّوا ما عَنِتُّم" ہے، وہ تمھاری تکلیفوں سے خوش ہوتے ہیں، مسرور ہوتے ہیں، تمھاری پریشانیوں پر وہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ فطری طور پر جب اس محاذ کی یہ کیفیت ہے تو وہ تمھیں سختی، پریشانی اور تکلیف کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرے گا۔ ہمیں یہ کیفیت اور حالت سمجھنی چاہیے، جاننی چاہیے اور اس پر توجہ دینی چاہیے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس زمانے میں امت اسلامی کی تکلیفوں اور مصائب کا سرچشمہ کیا ہے؟ کیوں مسلم اقوام معاشی لحاظ سے، سیاسی دباؤ کے لحاظ سے، جنگ شروع کرنے، خانہ جنگیوں، غیر قانونی قبضے، سامراج اور نیو سامراج وغیرہ کے لحاظ سے اس قدر تکلیف میں ہیں؟ مسلمانوں کی اس تکلیف اور تکلیف جھیلنے کی پوزیشن میں پہنچنے کی وجہ کیا ہے؟ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ علمی میدان میں پیچھے رہ جانا اس کی ایک وجہ ہے، سامراجیوں کے تسلط کے سامنے جھک جانا اس کی ایک اور وجہ ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں اور جو لوگ سیاست سے تعلق رکھتے ہیں، سیاسی و سماجی مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں اور اسی طرح کے دوسرے افراد ہیں جنھوں نے ان میدانوں میں کام کیا ہے، انھوں نے اس سلسلے میں ہزاروں مقالے لکھے ہیں لیکن ایک وجہ جو شاید سب سے اہم ہے یا سب سے اہم اسباب میں سے ایک ہے، وہ ہے مسلمانوں کا انتشار، تفرقہ۔ ہم اپنی قدر نہیں سمجھتے، ایک دوسرے کی قدر نہیں سمجھتے، ہمارے کام میں سب سے بڑی کمی یہ ہے، ہم ایک دوسرے سے الگ ہیں، بکھرے ہوئے ہیں۔

جب ہم بکھرے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے بہی خواہ نہیں ہیں، کبھی کبھی ایک دوسرے کے بدخواہ تک ہو جاتے ہیں تو پھر نتیجہ یہی ہوگا۔ یہاں قرآن مجید ایک بار پھر بڑے صاف لفظوں میں کہتا ہے، واقعی انسانی زندگی کے ان مسائل میں، ہمیں ایسا کوئي اہم مقام نظر نہیں آتا جہاں قرآن مجید نے صاف الفاظ میں بات نہ کی ہو، یہاں بھی وہ کہتا ہے: "وَ اَطِیعُوا اللَہَ وَرَسُولَہُ وَ لَا تَنَازَعُوا فَتَفشَلُوا وَ تَذھَبَ رِیحُکُم"(5) جب تم آپس میں جھگڑوگے تو کمزوری پیدا ہو جائےگی، تَذھَبَ رِیحُکُم یعنی َتذھَبَ عِزّکم یعنی تمھاری عزت ختم ہو جائے گي، تمھاری ہوا اکھڑ جائے گي۔ جب تم آپس میں اختلاف کروگے تو پھر فطری طور پر پستی میں گر جاؤگے، ذلیل و خوار ہو جاؤگے، اپنے اوپر دوسروں کے تسلط کی راہ ہموار کر دوگے، بکھراؤ اور انتشار کا نتیجہ یہ ہے۔

امیر المومنین علیہ السلام نے خطبۂ قاصعہ میں، جو نہج البلاغہ کے سب سے اہم خطبات میں سے ایک ہے، اس بات کو کھل کر بیان کیا ہے۔ وہ اپنے سامعین کو تاریخ کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو پچھلے لوگ جب تک ایک دوسرے کے ساتھ تھے، متحد تھے تو انھوں نے کیا سربلندی حاصل کی اور کس مقام تک پہنچے لیکن جب وہ یکجہتی کی اس کیفیت سے نکل گئے "فَانظُروا اِلَى ما صاروا اِلَیہِ فی آخِرِ اُمورِھِم حینَ وَقَعَتِ الفُرقَۃُ وَ تَشَتَّتَتِ الاُلفَۃ." اس کے بعد کچھ جملے اسی مفہوم کے ہیں اور پھر آپ فرماتے ہیں جب ایسا ہو گيا، جب جدائي، انتشار اور آپسی دشمنی کا بول بالا ہو گيا "قَد خَلَعَ اللَہُ عَنھُم لِباسَ کَرامَتِہِ وَ سَلَبَھُم غَضارَۃَ نِعمَتِہ."(6) تو خداوند عالم نے عزت و کرامت کے لباس کو ان کے جسم سے اتار لیا، وہ عزت جو ان کے پاس تھی، وہ شرف جو ان کے پاس تھا، وہ نعمت جو خداوند عالم نے انھیں عطا کی تھی، وہ اختلاف اور تفرقے کے سبب ان سے لے لی گئي، چھین لی گئی۔

تو ہمیں واقعی اس کے بارے میں سوچنا چاہیے، اتحاد بین المسلمین کے اس مسئلے کے بارے میں سوچنا چاہیے، آج دشمن ٹھیک اس کے برخلاف چاہتا ہے۔ خطے میں سرطانی خلیے کا ایک گندا بیج بو دیا گيا ہے جس کا نام ہے صیہونی حکومت تاکہ وہ اسلام دشمن مغرب کی چھاؤنی بن جائے، کیونکہ انھوں نے اس وقت وسیع و عریض عثمانی حکومت کو تقسیم کر دیا، تباہ کر دیا، کئي ملکوں میں بانٹ دیا، یہاں ان کی ایک چھاؤنی بھی ہونی چاہیے تھی تاکہ وہ مسلسل قبضہ کرتے رہیں اور اس خطے میں کسی کو اعلی اہداف حاصل نہ کرنے دیں، یہ چھاؤنی، یہی مظلوم فلسطین تھا جس میں انھوں نے آکر اس کام کے لیے خبیث، فاسد، قاتل اور بے رحم صیہونیوں کو بٹھا دیا، ایک جعلی حکومت بنا دی، ایک جعلی قوم بنا دی۔ مسلمان بھی اس طرف متوجہ تھے، اب دشمن کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ضرر رساں وجود، یہ بڑھ چکا سرطانی خلیہ، دشمن تصور نہ کیا جائے اور خطے کے ممالک کے درمیان اور زیادہ اختلافات  پیدا کرے۔ ہر جگہ قبضہ کر رہے ہیں، صیہونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کا یہ عمل، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کی جا رہی سب سے بڑی غداری ہے، تفرقہ ڈالنا،  اختلاف پیدا کرنا، دشمن ایسا ہی تو ہے نا؟ دشمن، مسلسل کام کر رہا ہے۔

ہمیں اس یوم ولادت سے یہ سبق حاصل کرنا چاہیے: "لَقَد کانَ لَکُم فی رَسولِ اللہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ" اور رسول اللہ کے بارے میں ہم نے بتایا کہ ان کی کیفیت ایسی ہے۔ اسی لیے ہم نے اسلامی جمہوریہ میں اس دن کو عید کا دن قرار دیا ہے، اتحاد کا دن قرار دیا ہے، یعنی بارہ ربیع الاول سے لے کر، جو پیغمبر کے یوم ولادت کے بارے میں اہلسنت کی روایت ہے، سترہ ربیع الاول تک، جو پیغمبر کے یوم ولادت کے بارے میں شیعوں کی روایت ہے، ان دونوں کے درمیان ہم نے ایک جشن کا ہفتہ قرار دیا ہے اور اس کا نام رکھا ہے، "ہفتۂ وحدت"۔ یہ اچھا کام تھا لیکن اس نعرے کو عملی جامہ پہننا چاہیے، ہمیں اسے عملی جامہ پہنانے کی راہ میں بڑھنا چاہیے۔

شاید آپ یہ کہیں کہ "ہم ملکوں کے سربراہ تو ہیں نہیں۔" ٹھیک ہے، سربراہان مملکت کے محرکات کچھ اور ہوتے ہیں، سیاسی محرکات ہوتے ہیں، دوسرے مقاصد ہوتے ہیں لیکن کسی ملک کے مفکرین، علماء، مصنفین، شعراء، دانشور اور اہم شخصیات اس ماحول کو، دشمن کی خواہش کے برخلاف، بدل سکتی ہیں، جب ماحول بدل جائے گا تو اس نتیجے تک پہنچنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ وحدت یا اتحاد کا مطلب کیا ہے؟ وحدت سے مراد قطعی طور پر مذہبی وحدت نہیں ہے، یعنی یہ کہ وہ اس مذہب میں آ جائے اور یہ اس مذہب میں چلا جائے، صرف ایک ہی مذہب رہے، نہیں، قطعی طور پر یہ مراد نہیں ہے۔ وحدت جغرافیائي بھی نہیں ہے، اس چیز کی طرح جو انیس سو ساٹھ اور ستّر کے عشرے میں ہوئي، بعض عرب ملکوں نے اتحاد کر لیا اور اعلان کیا کہ وہ ایک ہیں، حالانکہ وہ نہیں ہو سکا اور ہو بھی نہیں سکتا، ممکن نہیں ہے، یہ بھی مراد نہیں ہے۔ وحدت سے مراد، اسلامی امت کے مفادات کی حفاظت کے لیے اتحاد ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ امت اسلامیہ کے مفادات کیا ہیں، کہاں ہیں اور پھر اقوام اس سلسلے میں ایک دوسرے سے اتفاق کریں۔ ان شاء اللہ حکومتوں کو بھی اس راستے پر لے آيا جائے، خدا ان کے دلوں کو اس راہ پر لے آئے اور وہ امت مسلمہ کے مفادات کے بارے میں اتفاق کر لیں، دیکھیں کہ آج امت کو کس چیز کی ضرورت ہے، اسے کس سے دشمنی کرنی چاہیے، کس سے کس طرح دشمنی کرنی چاہیے، کس سے دوستی کرنی چاہیے اور کس طرح دوستی کرنی چاہیے، ان ساری باتوں پر مذاکرات اور بات چیت میں اتفاق ہو جائے اور وہ اس راہ میں بڑھنے لگیں، مراد یہ ہے: سامراج کی سازشوں کے مقابلے میں مشترکہ لائحۂ عمل۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سامراجی دنیا، ہمارے اس خطے اور ممالک کے بارے میں واضح سازشیں رکھتی ہے۔ یہ اسلامی علاقہ، ایک عظیم سرمایہ ہے، ہمارا علاقہ، اگر یہ نہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ حساس ہے، تو کم از کم دنیا کے سب سے حساس علاقوں میں سے ایک تو ہے ہی، اگر یہ نہ کہا جائے کہ سب سے مالامال علاقہ تو کم از کم دنیا کے سب سے مالامال علاقوں میں سے ایک ہمارا علاقہ ہے، وسطی ایشیا، مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کہ جو اسلامی خطہ ہے، بہت ہی اہم علاقہ ہے۔ سامراج اور سامراجی پالیسیوں کے پس پشت کام کرنے والی طاقتیں یعنی بین الاقوامی کمپنیاں، کارٹلز اور ٹرسٹس نے اس خطے کے بارے میں سازشیں تیار کر رکھی ہیں۔ ان کی سازشوں کے مقابلے میں ہمارے پاس مشترکہ لائحۂ عمل ہونا چاہیے، وحدت کے معنی یہ ہیں۔ ہم نے عالم اسلام کو یہ تجویز دی اور عالم اسلام سے اس کا مطالبہ کیا۔

یہاں پر ایک بنیادی نکتہ پایا جاتا ہے جس کی طرف سے غفلت نہیں برتی جانی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ آج، روز بروز یہ بات پہلے سے زیادہ عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ عالمی سطح پر سیاسی آرڈر تبدیل ہو رہا ہے، آج روز بروز یہ بات پہلے سے زیادہ عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ دنیا کا سیاسی نقشہ بدل رہا ہے۔ ایک بڑی طاقت کی جانب سے – یا دو طاقتوں کی جانب سے، اس سے کوئي خاص فرق نہیں پڑتا – دیگر ملکوں اور اقوام وغیرہ پر رعب جمانے کا نظام اور یونی پولر سسٹم اپنی حیثیت کھو چکا ہے، یعنی اقوام بیدار ہو گئي ہیں۔ یک قطبی نظام، درکنار کر دیا گيا ہے اور بتدریج اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آج آپ دنیا میں پہلے درجے کے سیاستدانوں کی زبان سے یہ بات کافی سنتے ہیں کہ ہم یک قطبی نظام کو تسلیم نہیں کرتے۔ یک قطبی نظام کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر امریکا بیٹھ کر عراق کے لیے، یا شام کے لیے یا ایران کے لیے یا لبنان کے لیے یا کسی اور ملک کے لیے یہ پلاننگ کرے کہ "یہ کام کیجیے، یہ ہونا چاہیے، یہ نہیں ہونا چاہیے۔" کبھی کہے اور کبھی نہ کہے لیکن عملی طور پر یہی کرے۔ آج ایسا ہی ہے، وہ لوگ ملکوں کے بارے میں پلاننگ کرتے ہیں اور اپنی فورسز کو لام بند کرتے ہیں۔

تو ان کے پاس سازش ہے، سامراج کے پاس سازشیں اور چالیں ہیں لیکن یہ صورت حال بدل رہی ہے۔ ملکوں، اقوام اور مختلف علاقوں پر سامراج کا جو تسلط تھا، یہ حالت رفتہ رفتہ بدل رہی ہے، ٹھیک ویسے ہی جیسے بیسویں صدی کے اواسط میں سامراج مخالف تحریکوں کے دوران ہوا تھا، جب ملکوں نے سامراج کے خلاف لگاتار قیام کیا تھا – ایشیا میں ایک طرح سے، افریقا میں کسی اور طرح سے، لاطینی امریکا میں ایک دوسرے طریقے سے – کہ اس وقت دنیا کے سیاسی نقشے میں بڑی تبدیلی آئي تھی، آج بھی ایک بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ اقوام کے خلاف عالمی سامراج کا خاموشی سے کیا جانے والا یہ کام واضح طور پر رفتہ رفتہ اپنا جواز کھوتا جا رہا ہے، شروع سے ہی اسے قانونی جواز تو حاصل ہی نہیں تھا لیکن اس کے سلسلے میں اقوام کی رائے مزید واضح ہوتی جا رہی ہے۔ تو ایک نئي صورتحال سامنے آئے گی، ایک نئي دنیا وجود میں آئے گی۔ ممکن ہے کہ ہم پوری طرح سے اندازہ نہ لگا پائيں کہ یہ نئي دنیا کیسی ہوگي لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ تدریجی طور پر آئندہ برسوں میں ایک نئي دنیا تشکیل پائے گی۔ تو اس نئي دنیا میں امت اسلامیہ کی پوزیشن کیا ہوگي؟ یہ اہم سوال ہے۔

امت مسلمہ یعنی ڈیڑھ ارب سے زیادہ انسان، ہماری اس عظیم اور درخشاں تاریخ کے ساتھ – جی ہاں پچھلی کچھ صدیوں میں ہم علمی لحاظ سے پچھڑے ہیں لیکن اس سے پہلے علم کی چوٹی ہم مسلمانوں کے اختیار میں تھی، یہ ہمارا ورثہ ہے، ہمارے کنٹرول میں ہے – قدرتی ثروت کے ساتھ، انسانی ثروت کے ساتھ، جدیدیت کے لیے نئے محرکات کے ساتھ، ان خصوصیات کے حامل اس عالم اسلام اور امت مسلمہ کی پوزیشن کیا ہے؟ یہ جو نئي دنیا وجود میں آ رہی ہے، اس میں ہم کہاں ہوں گے؟ ہمارے قدم رکھنے اور موجودگي کا مقام کہاں ہوگا؟ یہ بہت اہم ہے، یہ وہ مسئلہ ہے جس کے بارے میں امت اسلامیہ کو سوچنا چاہیے۔ مغربی دنیا اور یورپ میں جو یہ واقعات ہو رہے ہیں، یہ عام اور معمولی حالات نہیں ہیں، یہ اہم تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

ہم بہت اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ ہم امت مسلمہ، ہم اسلامی ممالک اور اسلامی اقوام نئي دنیا میں، جو تدریجی طور پر وجود میں آ رہی ہے، اعلی مقام حاصل کر سکتے ہیں، ایک آئیڈیل کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں، علمبردار کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں لیکن اس کی ایک شرط ہے، وہ شرط کیا ہے؟ اتحاد، تفرقے سے دوری، دشمن کے وسوسوں کے شر سے نجات، امریکا کے وسوسوں، صیہونیوں کے وسوسوں، کمپنیوں کے وسوسوں سے رہائي، ان وسوسوں کے شر سے رہائی جو کبھی کبھی اپنے لوگوں کی زبان سے سنائي دیتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام میں، عالم اسلام کے اندر سے کچھ لوگ ان ہی لوگوں کی باتیں دوہراتے ہیں، وہی باتیں کرتے ہیں، اتحاد کے ذریعے، تفرقے سے دوری کے ذریعے، آپسی یکجہتی کے ذریعے ان کے شر سے نجات حاصل کریں، شرط یہ ہے۔ اگر ہم یہ شرط پوری کر سکے تو بلاشبہ امت مسلمہ، آئندہ دنیا میں اور دنیا کے آئندہ سیاسی جغرافیے میں اعلی مقام پر فائز ہوگي۔

کیا یہ ممکن ہے؟ کچھ لوگ ہیں جو تمام اہم مسائل میں، ان کا پہلا اقدام اور پہلا ردعمل، انکار اور مایوسی ہے: "ارے جناب یہ نہیں ہو سکتا، اس کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔" ہم اسے نہیں مانتے، ہم کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے، اسلامی اقوام کے درمیان اتحاد اور وحدت ممکن ہے، لیکن اس کے لیے کچھ کام کرنے ضروری ہیں، عمل ضروری ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہم اسلامی ملکوں کے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے مایوس بھی نہیں ہیں لیکن ہماری زیادہ تر امید عالم اسلام کی اہم شخصیات سے ہے، یعنی جیسا کہ ہم نے کہا، علمائے دین سے، مفکرین سے، یونیورسٹیوں کے پروفیسروں سے، روشن فکر نوجوانوں سے، دانشوروں سے، ادیبوں سے، مصنفوں سے، پرنٹ میڈیا کے ذمہ داران سے،  ہمیں ان سے امید ہے، انھیں خود مختاری محسوس کرنی چاہیے، ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے، فرض کا احساس کرنا چاہیے۔ جب اہم شخصیات کسی راستے پر چل پڑتی ہیں تو رائے عامہ بھی اسی سمت میں بڑھنے لگتی ہے۔ جب کسی ملک میں رائے عامہ تشکیل پا جاتی ہے تو اس ملک کا انتظام چلانے کی پالیسیاں بھی اسی سمت میں بڑھنے لگتی ہیں، مجبور ہیں، ناچار ہیں۔ بنابریں یہ ایک ممکن کام ہے، یہ ہو سکتا ہے، لیکن عمل کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں کسی بھی چیز کا عمل کے بغیر نہ دنیوی نتیجہ نکلتا ہے نہ اخروی و الہی نتیجہ سامنے آتا ہے: "لَیسَ لِلاِنسانِ اِلّا ما سَعىٰ"(7) کوشش کرنی چاہیے، عمل کرنا چاہیے، اگر ہم عمل کریں گے تو یہ ممکن ہے۔

میں اس کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں۔ اس کا چھوٹا سا نمونہ ہم ہیں، اسلامی جمہوریہ۔ ہم بڑی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ کبھی یہ دنیا دو بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں تھی: امریکا کی طاقت اور سابق سوویت یونین کی طاقت۔ دونوں طاقتیں، جو دسیوں معاملوں میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتی تھیں، مگر ایک بات میں اتفاق رائے رکھتی تھیں اور وہ، اسلامی جمہوریہ کی مخالفت تھی۔ امریکا اور سابق سوویت یونین، اپنے ان تمام تر اختلافات کے باوجود، اسلامی جمہوریہ کی مخالفت میں اتفاق رائے رکھتے تھے، متفق تھے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ان کے مقابلے میں ڈٹ گئے، جھکے نہیں، انھوں نے صاف لفظوں میں کہا: "نہ شرقی، نہ غربی" (نہ مشرق اور نہ مغرب) نہ یہ، نہ وہ۔ کامیاب ہو گئے، لوگ سوچ رہے تھے کہ ممکن نہیں ہے، سوچ رہے تھے کہ اس پودے کو جڑ سے اکھاڑ دیں، آج وہ پودا ایک تناور درخت میں بدل چکا ہے، اب وہ اسے اکھاڑنے کے بارے میں سوچ تک نہیں سکتے! ہم ڈٹ گئے اور آگے  بڑھتے گئے۔ البتہ دشواریاں ہیں، ہر چیز میں دشواری ہے، بغیر دشواری کے تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ جو لوگ جھک جاتے ہیں، ان کے لیے بھی دشواری ہے۔ دشواری صرف استقامت میں نہیں ہے، سر جھکانے کی بھی دشواریاں ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ جب انسان استقامت کرتا ہے تو سختی اسے آگے لے جاتی ہے – ہم سختیاں اٹھاتے ہیں لیکن آگے بڑھتے ہیں – جو سر جھکا دیتا ہے وہ سختی اٹھاتا ہے اور پیچھے جاتا ہے، پیشرفت نہیں کرتا۔ بنابریں ہماری رائے میں کام کیا جا سکتا ہے، کوشش کی جا سکتی ہے، تمام تر اختلافات کے باوجود امت مسلمہ میں اسلام اور قرآن کے پیش نظر جو اتحاد ہونا چاہیے، اس کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔

کچھ فاصلے قومیتی ہیں، کچھ نسلی ہیں، کچھ لسانی ہیں، یہ اہم نہیں ہے، میرے خیال میں آج جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے وہ مسلک کا مسئلہ ہے، شیعہ اور سنی کی بحث ہے۔ ہمیں عقیدے میں اختلاف اور مسلکی اختلاف کو تنازعے میں نہیں بدلنے دینا چاہیے، یہ نہیں ہونے دینا چاہیے۔ کچھ چیزیں ہیں جو تنازعہ پیدا کرتی ہیں، انھیں روکنا چاہیے، سنجیدگي سے روکنا چاہیے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ امریکی اور برطانوی سیاستداں بھی اپنی نشستوں میں شیعہ اور سنّی کی باتیں کرنے لگے ہیں، یہ بہت خطرناک چیز ہے، بہت خطرناک ہے۔ یہ لوگ جو اسلام کے مخالف ہیں، وہ نہ شیعہ کے لیے بہتر ہیں، نہ سنّی کے لیے، یہ لوگ شیعہ اور سنی کی باتیں کر رہے ہیں۔

میں نے کبھی کہا تھا "انگریز شیعہ" اور "امریکی سنّی"(8) بعض لوگوں نے سوچا یعنی دروغگوئي سے کام لے کر یہ پروپیگنڈہ کیا کہ ہم جو کہتے ہیں انگریز شیعہ اس کا مطلب ہے  برطانیہ میں رہنے والا شیعہ، نہیں، ممکن ہے کہ انگریز شیعہ خود اسلامی ملک میں ہو، یہ برطانیہ کے اشاروں پر کام کرنے کے معنی میں ہے، یعنی ٹکراؤ پیدا کرنے والا شیعہ، جھگڑا کھڑا کرنے والا سنّی، جیسے داعش، جیسے وہابی وغیرہ جو جھگڑے کھڑے کرتے رہتے ہیں یا تکفیری جو کہتے ہیں یہ کافر ہے، وہ کافر ہے۔ ان لوگوں کا نام مسلمانوں والا ہے، ممکن ہے کہ  انفرادی طور پر اسلامی احکام کی سختی سے پابندی بھی کرتے ہوں لیکن یہ دشمن کی خدمت کی راہ پر چل رہے ہیں۔

جو اختلاف پیدا کرتا ہے، وہ دشمن کی خدمت کر رہا ہے، اس میں کوئي فرق نہیں ہے، چاہے وہ جس پوزیشن پر ہو، جس عہدے پر ہو، جس ملک میں ہو۔ ہمارا یہ ماننا ہے، ہم بھرپور طریقے سے اس بات کو مانتے ہیں۔ ہم لوگوں سے نمٹے اور بھرپور طریقے سے نمٹے جو تشیع کی حمایت کے نام پر سنّی بھائيوں کے جذبات بھڑکاتے تھے، یہ چیز ہمہ گیر ہو جانی چاہیے، اس سلسلے میں اتفاق رائے پیدا ہونا چاہیے۔ البتہ دونوں طرف شدت پسند لوگ پائے جاتے ہیں، شیعوں میں بھی ایسے افراد ہیں جو اپنے عقائد کی بنیاد پر یا کسی بھی اور وجہ سے شدت پسندی سے کام لیتے ہیں، سنّیوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو شدت پسند ہیں، شدت پسندی پائي جاتی ہے۔ شدت پسندوں کی اس شدت پسندی کو اس کا لائسنس نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم خود مذہب پر الزام تراشی کریں، ہمارا خود کا عمل اس طرح کا رہا ہے۔

ہم نے دیکھا کہ وہابیوں نے دو سو سال پہلے، ائمہ کی قبور کو مسمار کر دیا، وہ کربلا گئے اور سید الشہداء علیہ السلام کی قبر اطہر کو مسمار کر دیا، لکڑی کی ضریح  تھی، اسے جلا دیا، حرم کے اندر آگ جلائي، کافی بنائي، کافی پی، یہ سب ہوا۔ پھر وہ لوگ نجف گئے لیکن شہر کے اندر نہیں جا سکے، مرحوم شیخ جعفر کاشف الغطاء کی وجہ سے، جن کے پاس فورس تھی اور انھوں نے دینی طلباء اور دوسروں کو لام بند کر دیا، نجف شہر کے اطراف میں فصیل تھی، اس لیے وہ لوگ نجف نہیں جا سکے، کوفے چلے گئے اور مسجد کوفہ میں، بہت سارے لوگوں کا، جو شیعہ تھے، انھوں نے قتل عام کیا۔ یہ اس بات کا سبب نہیں بنا کہ شیعہ علماء، بزرگ علماء، شیعہ مراجع کرام، اہلسنت پر الزام تراشی کریں، نہیں یہ شدت پسند لوگ تھے جنھوں نے یہ کام کیا تھا۔ خود ہمارے زمانے میں داعش گروہ، عراق میں ایک طرح سے، شام میں کسی دوسری طرح سے اور حال ہی میں افغانستان میں کسی اور طرح سے بچوں کے اسکول پر بھی رحم نہیں کرتا، بچیوں کے اسکول اور بچوں کے اسکول کو دھماکے سے اڑا دیتا ہے، گھر والوں کو ان کے بچوں کا داغ دیتا ہے، وہ لوگ یہ کام کرتے ہیں لیکن ہم کسی بھی صورت میں اور کبھی بھی اہلسنت پر الزام نہیں عائد کرتے، یہ شدت پسند لوگ ہیں۔ دوسری طرف بھی ایسا ہی ہونا چاہیے، ممکن ہے کچھ لوگ شدت پسندی سے کام لیں لیکن ان کی شدت پسندی کی وجہ سے پورے شیعہ معاشرے پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں کام ہونا چاہیے، علمائے اسلام کو کام کرنا چاہیے۔

ہم اس تفرقے اور بکھراؤ کی وجہ سے چوٹ کھا رہے ہیں، فلسطین میں چوٹ کھا رہے ہیں، مختلف ملکوں میں مار کھا رہے ہیں۔ فلسطین میں صیہونی روزانہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، چھوٹے بچے کا قتل کر رہے ہیں، جوان کا قتل کر رہے ہیں، نوجوان کا قتل کر رہے ہیں، ضعیفوں کو قتل کر رہے ہیں، جیلوں میں ڈال رہے ہیں، جیلوں میں ہزاروں لوگوں کو ایذائيں دے رہے ہیں، یہ سب ہو رہا ہے اور یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ میانمار میں اس طرح سے، دوسری جگہوں پر دوسری طرح سے، یہ سب سخت ہے، یہ امت مسلمہ کے لیے سخت ہے، عَزیزٌ عَلَیہِ ما عَنِتُّم، یہ چیزیں پیغمبر اکرم کو تکلیف پہنچاتی ہیں، ان کے لیے کچھ سوچنا چاہیے، کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن مجید رسول اکرم سے کہتا ہے: قُل یا اَھلَ الکِتابِ تَعالَوا اِلىٰ کَلِمَۃٍ سَواءٍ بَینَنا وَ بَینَکُم، اہل کتاب، مسلمان بھی نہیں ہیں لیکن ان کا آپس میں ایک مشترکہ پہلو ہے اور وہ ہے توحید، کیونکہ توحید تو تمام ادیان میں ہے، توحید، تمام ادیان کی اساس ہے: اَلّا نَعبُدَ اِلَّا اللَہ۔ پیغمبر، اسلام اور دیگر ادیان کے درمیان پائے جانے والے اسی مشترکہ پہلو سے استفادہ کرتے ہیں، یعنی قرآن حکم دیتا ہے کہ کہہ دیجیے: تَعالَوا اِلىٰ کَلِمَۃٍ سَواءٍ بَینَنا وَ بَینَکُم اَلّا نَعبُدَ اِلَّا اللَہَ وَ لا نُشرِکَ بِہِ شَیئًا وَ لا یَتَّخِذَ بَعضُنا بَعضًا اَربابًا مِن دونِ اللَہ.(9) غیر مسلمانوں کے لیے اس طرح سے کہتا ہے! ہم مسلمانوں کے اتنے زیادہ مشترکہ پہلو ہیں: کعبہ ایک، قبلہ ایک، نماز ایک، حج ایک، عبادات ایک، پیغمبر ایک، پورے عالم اسلام میں اہلبیت سے محبت، یہ سب ہمارے مشترکہ پہلو ہیں۔ ہمیں ان مشترکہ پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

خیر، ہم نے اب تک کوشش کی ہے، ہماری جتنی استطاعت اور طاقت تھی، اسے ہم نے اب تک اس سلسلے میں استعمال کیا ہے، اس کے بعد بھی ہم یہی کریں گے۔ ہم نے فلسطینی بھائيوں کی، جو سبھی اہلسنت ہیں، ہر لحاظ سے حمایت کی ہے، سیاسی لحاظ سے اور عملی پہلوؤں سے حمایت کی ہے، آگے بھی حمایت کرتے رہیں گے۔ ہمارے لیے کوئي فرق نہیں ہے، یہاں ہمارے لیے جو چیز اہم ہے وہ اسلامی راہ اور اسلامی نظام ہے۔ یہ جو استقامتی محاذ ہے، جو آج بحمد اللہ عالم اسلام میں تشکیل پایا ہے، ہم اس کی حمایت کرتے ہیں، جہاں تک ہم سے ممکن ہے، جہاں تک ہماری توانائي ہے، ہم اس کی حمایت کرتے رہیں گے، پہلے بھی کرتے رہے ہیں، آگے بھی کرتے رہیں گے۔

ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ہم سب کی ہدایت کرے گا، ان شاء اللہ ہم اس راہ میں آگے بڑھ سکیں اور اس عظیم آرزو کو، جو عالم اسلام کی سر کردہ شخصیات کی بڑی آرزو رہی ہے اور قطعی طور پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پاکیزہ روح کی بھی آرزو ہے، یعنی وحدت اسلامی کو، ان شاء اللہ عملی جامہ پہنا سکیں۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں صدر مملکت حجۃ الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئیسی نے تقریر کی۔ چھتیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس، 12 اکتوبر 2022 سے تہران میں شروع ہوئي۔

(2) سورۂ احزاب، آیت 21، بے شک تمہارے لیے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات میں (پیروی کے لیے) بہترین نمونہ موجود ہے۔ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ (کی بارگاہ میں حاضری) اور قیامت (کے آنے) کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔

(3) سورۂ توبہ، آیت 128، (اے لوگو!) تمہارے پاس (اللہ کا) ایک ایسا رسول آگیا ہے جو تم ہی میں سے ہے جس پر تمہارا زحمت میں پڑنا شاق ہے، وہ تمہاری بھلائی کا حریص ہے اور ایمان والوں کے ساتھ بڑی شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔

(4) سورۂ آل عمران، آیت 118، اے ایمان والو! اپنے (لوگوں کے) سوا دوسرے ایسے لوگوں کو اپنا جگری دوست (رازدار) نہ بناؤ جو تمھیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ جو چیز تمھیں مصیبت و زحمت میں مبتلا کرے وہ اسے پسند کرتے ہیں۔

(5) سورۂ انفال، آیت 46، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم کمزور پڑ جاؤگے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔

(6) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 192

(7) سورۂ نجم، آیت 39، اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔

(8) پیغمبر ختمی مرتبت اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے یوم ولادت کے موقع پر اسلامی نظام کے عہدیداران اور وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب۔ (17/12/2016)

 

(9) سورۂ آل عمران، آیت 64، (اے رسول!) کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک اور یکساں ہے (اور وہ یہ کہ) ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب نہ بنائے۔

 

پیغمبر اعظمؐ رحمت للعالمین خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر میلاد اور وحدت امت کے عنوان سے کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے۔ خاص طور پر 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک دنیا بھر میں اسی مناسبت سے ہفتہ وحدت منایا گیا۔ یاد رہے کہ ان ایام میں ہفتہ وحدت کی بنیاد اسلام کے بطل جلیل امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے رکھی تھی، تاکہ مسلمان جو الگ الگ ایام میں آپؐ کا روز ولادت مناتے ہیں، وہ پورا ہفتہ وحدت کے عنوان سے منائیں، کیونکہ آپ ہی کی ذات والا صفات امت اسلامیہ کے لیے ایک حقیقی مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے زیراہتمام مثل سابق گذشتہ روز اسلام آباد میں ایک عظیم الشان وحدت کانفرنس منعقد ہوئی، جس کی میزبانی نہایت عمدگی سے کونسل کی رکن جماعت مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے کی۔ اس کانفرنس کا عنوان تھا ’’عشق پیغمبر اعظمؐ: مرکز وحدت مسلمین۔‘‘

اس میں شک نہیں کہ جب تک عشق مصطفیٰ ؐسے دل نہ دھڑکے اور آپ کی محبت میں آنکھوں سے آنسو نہ برسیں تو لفظی عقیدہ حقیقی تاثیر مرتب نہیں کرسکتا اور یہ عشق ہی ہے، جو دلوں کو منقلب کرتا ہے اور آپؐ کے توسط سے بندے کو خدا سے جوڑتا ہے اور آپؐ کے عشق کے نتیجے میں انسان آپؐ کے ماننے والوں سے بھی محبت کرنے لگتا ہے۔ آپؐ کو رحمت للعالمین ماننے کے بعد انسان کا وجود تمام عالمین کے لیے خود خیر کا مرکز اور مصدر بن جاتا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے وجود کا مقصد ہی امت اسلامیہ کے اندر سے افتراق و انتشار کا خاتمہ، تکفیریت اور شدت پسندی کا استیصال اور امت اسلامیہ کے مختلف موتیوں کو ایک لڑی میں پرونا ہے۔ اس کونسل کی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان میں بہت حد تک تکفیریت اور شدت پسندی کا خاتمہ ہوا ہے۔ محبت اور اخوت کی فضا عام ہوئی ہے اور اس دھرتی کے مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔

اس کونسل کے پہلے صدر مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم تھے اور ان کی رحلت کے بعد جناب قاضی حسین احمد مرحوم نے اس کے احیاء میں بنیادی کردار ادا کیا۔ قاضی صاحب مرحوم کے سانحۂ ارتحال کے بعد عبوری طور پر علامہ سید ساجد علی نقوی جو اس وقت سینیئر نائب صدر تھے، انہیں عبوری طور پر کونسل کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ بعدازاں جناب محترم صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر کو کونسل کا مرکزی صدر منتخب کیا گیا، جو جمعیت علمائے پاکستان کے بھی صدر ہیں۔ اس وقت کونسل انہی کی قیادت میں اتحاد امت کا علم لے کر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’’عشق پیغمبر اعظمؐ: مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس کا انعقاد انہی کوششوں کا حصہ ہے۔ قاضی صاحب مرحوم کے زمانے سے لے کر آج تک کونسل ہر سال ربیع الاول میں وحدت امت کے حوالے سے کانفرنسوں کا انعقاد کرتی چلی آئی ہے۔ مختلف مواقع پر کونسل کی مختلف رکن جماعتوں نے ان کانفرنسوں کی میزبانی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ گذشتہ سال بھی مجلس وحدت مسلمین نے یہ گراں قدر خدمت اپنے ذمے لی اور اب کے برس بھی اس نے اس عظیم وظیفہ الٰہی کی انجام دہی اپنے دوش پر اٹھا لی اور یہ کہے بغیر چارا نہیں کہ اس نے نہایت شاندار طریقے سے اس خدمت کو انجام دیا۔

کانفرنس کی صدارت ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ نے کی۔ مہمان خصوصی کانفرنس کے میزبان محترم جناب علامہ راجا ناصر عباس جعفری تھے۔ دیگر شخصیات میں جناب صاحبزادہ نورالحق قادری سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور، جناب حامد رضا سربراہ سنی اتحاد کونسل، جناب خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ سربراہ علماء مشائخ رابطہ کونسل، جناب سید ناصر شیرازی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین، جناب عبداللہ گل چیئرمین تحریک جوانان پاکستان، جناب صاحبزادہ محمد صفدر گیلانی مرکزی سیکرٹری جنرل جمعیت علمائے پاکستان، جناب مفتی گلزار احمد نعیمی سربراہ جماعت اہل حرم پاکستان، جناب عبدالرشید ترابی صدر ملی یکجہتی کونسل آزاد جموں و کشمیر، جناب ڈاکٹر طارق سلیم صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان شمالی پنجاب، جناب پروفیسر حافظ محمد صدیق عابد نائب ناظم اعلیٰ جماعت اہل حدیث پاکستان، جناب طاہر رشید تنولی مرکزی جوائنٹ سیکرٹری جمعیت علمائے پاکستان، جناب سینیٹر گل نصیب مرکزی راہنماء جمعیت علمائے اسلام (شیرانی)۔

جناب نسیم علی شاہ ہاشمی رکن اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان، جناب علامہ احمد اقبال رضوی مرکزی راہنماء ایم ڈبلیو ایم، جناب قاضی شفیق صدر پاکستان عوامی تحریک پنجاب، جناب مفتی عبداللہ ایڈووکیٹ صوبائی نائب امیر جمعیت علمائے اسلام پاکستان، جناب مولانا عبدالمالک مجاہد نائب ناظم اعلیٰ متحدہ جمعیت اہل حدیث، مولانا سید عبدالحسین الحسینی رکن سپریم کونسل مجلس علمائے شیعہ، جناب علامہ سید حسنین عباس گردیزی مجلس علمائے شیعہ پاکستان، جناب ڈاکٹر محمد شیر سیالوی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اہل حرم پاکستان، جناب محمد نصراللہ رندھاوا امیر جماعت اسلامی اسلام آباد، جناب غلام علی خان پاکستان عوامی تحریک شمالی پنجاب، جناب سید فدا احمد شاہ صوبائی راہنما جے یو آئی ایس، جناب مولانا شفاعت اللہ راہنما جمعیت علمائے اسلام (س)، جناب پروفیسر ممتاز دانش سیرت کمیٹی اسلام آباد اور جناب مولانا محمد حسیب احمد نظیری سینکئر نائب صدر جے یو پی شمالی پنجاب وغیرہ شامل ہیں۔

کانفرنس میں علماء، طلبہ، اساتذہ، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں کے نمایاں افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مختلف جماعتوں کے نمائندگان بھی شریک بزم تھے۔ خواتین و حضرات کی بہت بڑی تعداد سے تین بڑے بڑے ہال چھلک رہے تھے۔ لوگ پورے جوش و خروش کے ساتھ کانفرنس میں شریک تھے، جو مختلف مقررین کی باتوں پر تالیوں اور نعروں کے ذریعے سے اپنا ردعمل ظاہر کرتے تھے۔ نبی پاکؐ کا عشق پوری فضا پر چھایا ہوا تھا اور امت کے اتحاد کے جذبے سے ہر دل سرشار تھا۔ کانفرنس کے آخر میں مندرجہ ذیل اعلامیہ جاری کیا گیا: ’’عشق پیغمبر اعظم حضرت محمد مصطفیٰ، خاتم النبینﷺ امت مسلمہ میں اللہ کی رسی کی مانند مرکزیت رکھتا ہے اور اس کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہی امت اسلامیہ کی کشتی کی نجات کا ضامن ہے۔ عالم کفر کا رسول اکرمﷺ کی مقدس ہستی کو نشانہ بنانا دراصل اسی مرکزیت کو توڑنے کی سازش ہے، لیکن ان شاء اللہ اس اساس اور بنیاد پر مسلمین کی وحدت عالمی استعمار کے تمام خوابوں کو چکنا چور کر دے گی اور اغیار کے تقسیم کے ایجنڈے کو ناکام بنائے گی۔

عظیم الشان عشق پیغمبر اعظم کانفرنس ہادی برحق کے لائے ہوئے نظام کو ہی انسانیت اور اقوام کی بقاء کیلئے لازم اور ضروری سمجھتی ہے اور وطن عزیز پاکستان میں اسلام کے مقابل کسی بھی قانون کو رد کرتے ہوئے سودی نظام، کرپشن، محروم طبقات کی حق تلفی کو مسترد کرتے ہوئے عام آدمی کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ کشمیر اور فلسطین پر نظریاتی موقف سے انحراف پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں سے خیانت ہے۔ فلسطین کی آزادی اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی مسلسل حمایت جاری رکھیں گے اور وطن عزیز کے اسلامی ممالک سے ملنے والے تمام بارڈز کو پرامن بنا کر مضبوط اور مستحکم افغانستان اور ایران کے حامی ہیں، تاکہ پاکستان کے امن کی ضمانت دی جا سکے۔ اس امر کی بنیاد پر افغانستان کے امریکی انحلا کو کامیابی قرار دیتے ہیں اور ایران، پاکستان، افغانستان کے خلاف امریکی پابندیوں کو مسترد کرتے ہیں۔

کانفرنس دہشت گردی کے خلاف NACTA کے قوانین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے دہشت گردوں کے حلاف zero tolerance پالیسی پر یقین رکھتی ہے اور وطن کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے دہشت گرد گروہوں سے مذکرات کو رد کرتے ہوئے سوات کے عوام کی بیداری کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں بیرونی ایجنڈے اور دبائو کے تحت مختلف ادوار میں متعارف کرائے گئے غیر اسلامی قوانین مثلاً گھریلو تشدد بل، ٹرانس جینڈر ایکٹ، وقف املاک وغیرہ میں شامل غیر اسلامی دفعات کو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کی روشنی میں ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے فوری اصلاحات کی جائیں، تاکہ اسلامی فلاحی معاشرہ کی تکمیل کے ہدف کی طرف بڑھا جا سکے۔

کانفرنس کا اعلامیہ اس تجدید عہد کو بھی سموئے ہوئے ہے کہ ملی یکجہتی کونسل وحدت اسلامی کے اس سفر کو دوام دینے کیلئے تمام اسلامی مکاتب فکر کو ساتھ ملا کر امت واحد کی تشکیل کے لیے اپنی کوشش جاری رکھے گی اور ہر عالمی و علاقائی سازش اور فرقہ واریت کے آسیب کو کبھی پنپنے نہیں دے گی۔ اللہ کریم اس کی رضا کیلئے کی جانے والی اس خالصانہ کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ یہ کانفرنس پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق امریکی ہرزہ سرائی کو مسترد کرتی ہے اور امریکہ کو عالمی جوہری مجرم گردانتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل میں شامل تمام جماعتیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ہر قیمت پر تحفظ کرنے کا عہد کرتی ہیں۔‘‘ کانفرنس سے خطاب کرنے والے علماء اور دانشوروں کے مطالب کو اگر سمیٹ دیا جائے تو یہی اعلامیہ بنتا ہے، جو سطور بالا میں پیش کیا گیا ہے۔

’’عشق پیغمبر اعظمؐ: مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس کے دوران میں مختلف مواقع پر ہال نعرہ تکبیر، نعرہ رسالتؐ اور نعرہ حیدری کے روایتی اور محبوب عوامی نعروں سے گونجتا رہا۔ علاوہ ازیں لبیک یارسول اللہ اور سیدی مرشدی یانبیؐ یانبیؐ کے ولولہ انگیز نعروں سے فضا سرشار رہی۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے پاکستان کی جوہری طاقت کے خلاف جو واہیات کلمات کہے ہیں، ان کے خلاف بھی مقررین اور کانفرنس کے شرکاء کے جذبات بہت برانگیختہ تھے۔ چنانچہ بار بار ’’امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے‘‘ کا نعرہ بھی لگایا گیا۔ کشمیر کے مظلوموں سے اظہار یکجہتی کے لیے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کی گونج بھی سنائی دیتی رہی۔ اتحاد امت کے لیے جذبات مختلف انداز سے ظاہر ہوتے رہے اور اتحاد کے دشمنوں کے خلاف بھی نعرے لگتے رہے۔ چنانچہ شرکاء نے ’’تکفیریت مردہ باد‘‘ کا نعرہ بھی بارہا لگایا۔

تحریر: سید ثاقب اکبر

حوزہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق،سربراہ حوزہ علمیہ ایران آیت اللہ علی رضا اعرافی نے 36ویں اسلامی اتحاد کانفرنس کے چوتھے ویبینار میں اتحاد کی سائنسی اور علمی بنیادوں کے بارے میں کہا: جب ہم اتحاد و وحدت کی بات کرتے ہیں اور اتحاد، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اتحاد ایک مستحکم اتحاد ہو گا جس کی بنیاد درست سوچ اور فکر کی بنیاد پر ہو۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ظاہری اور سطحی اتحاد کسی قوم کو نہیں بنا سکتا اور نہ ہی ایک محاذ پیدا کر سکتا ہے، فرمایا: اتحاد ہمیں عظیم نظریات کی طرف لے جا سکتا ہے جن کی جڑیں علمی، فکری اور سائنسی اصولوں پر ہیں۔

آیت اللہ علی رضا اعرافی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسلامی اتحاد کی جڑیں عالم اسلام کے تعلیمی نظاموں میں ہونی چاہئیں، وضاحت کی: سائنسی مراکز جو میدان اور دینی سائنسی مراکز ہیں، عالم اسلام کی یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کے تعلیمی نظام کو بھی لازمی ہونا چاہیے۔ علمبردار اور اسکاؤٹس بنیں، اسلامی تشخص کو گہرا کریں اور امت اور نوجوان نسل میں اتحاد و یکسانیت کی تحریک کریں۔

انہوں نے کہا: سائنسی، دینی اور ثقافتی اداروں کی ترویج اور پیش قدمی اس صورت میں موثر اور پائیدار ہوسکتی ہے جب ان کی جڑیں اسلامی علوم اور اسلام کے بنیادی افکار سے وابستہ ہوں۔

آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کہا کہ امت کے اتحاد، قربت، اور ہم آہنگی اور یکسانیت کے حصول کے لیے اتحاد و یگانگت کے زمرے میں تمام اسلامی مذاہب کے فلسفے اور کلمات کی عقلی تشریح اور جواز کی ضرورت ہے، اور کہا۔ : فقہی نظام اور اسلامی مکاتب کے شرعی اور فقہ میں اس اتحاد اور ہم آہنگی کی تشریح کی گئی ہے۔

مختلف مذاہب کی اسلامی اخلاقیات میں وحدت کی جڑوں کی موجودگی اور اثر کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: اگر ہم اسلامی رویہ کے ان تین زاویوں (ان کے مذہبی اور فلسفیانہ فکر کی سطح، ان کی فقہی اور شرعی فکر کو) بنا لیں۔ ، اور ان کی اخلاقی اور قدری سوچ) اتحاد سے ہم آہنگ ہے، دیکھتے ہیں کہ یہ اتحاد مزید گہرا ہوتا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا: اگر ایسا ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں مالا کے بیج اور کنگھی کے دانتوں کی طرح اکٹھے ہوئے ہیں اور ہم ایک ہو گئے ہیں۔

اس مسلمان مفکر نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ پھر ہم اپنی فقہ میں اتحاد کو مزید گہرا کر سکتے ہیں اور گہرائی دے سکتے ہیں تاکہ ہمارے فقہ کی بنیادیں اس اتحاد، یکسانیت اور ہمدردی اور صحبت کی راہیں کھولیں، انہوں نے کہا: میرے خیال میں ہماری فقہ کئی جہتوں میں ہے۔ ایک شناخت اور قومی اتحاد کے حصول کی شاہراہ کھول دی ہے۔

انہوں نے سماجی تعلقات کو شیعہ فقہ میں ایک اہم موضوع قرار دیا اور کہا: اگر ہم سماجی تعلقات کی فقہ پر پوری توجہ دیں تو ہم دیکھیں گے کہ چھوٹے اور بڑے ماحول میں انسانی تعلقات انہی اصولوں پر مبنی ہیں جو اسلام بیان کرتا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ مسلمانوں کے درمیان فقہ، سماجی تعلقات اور ایسوسی ایشن میں اہم اصول ہیں جہاں لوگ اسلام کے عمومی احکام میں شریک ہوتے ہیں، جو ہم آہنگی اور اتحاد لاتے ہیں۔

آیت اللہ علی رضا اعرافی نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں اسلامی اتحاد کو مستحکم کرنے کے لیے اصول فقہ کی طرف واپسی کو امت اسلامیہ کے لیے ایک راستہ قرار دیا اور مزید کہا: اگر اس فقہ کو تمام مذاہب میں صحیح طور پر تسلیم کیا جائے اور اسے مشترکہ تناظر میں پیش کیا جائے تو اس کی راہ ہموار ہوگی۔ بہت سے لوگوں کے لیے راستہ یہ مذہبی تشدد کو بند کرتا ہے اور اسلامی دنیا میں اتحاد کی راہ ہموار کرتا ہے۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسی طرح کے فقہی مسائل علمی اور فلسفی مسائل اور اخلاقی اور قدری مسائل میں موجود ہیں اور تاکید کی: ہماری سائنسی بنیادوں میں امت اسلامیہ کے اتحاد اور مشترکہ شناخت کے استدلال کی بنیادوں کو پہچاننا ضروری ہے۔

اس مسلمان مفکر نے مزید کہا: اگر آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ہمارے درمیان ہوتے تو ہم سب کو ان انتشار سے بچاتے۔ بلاشبہ عالمِ اسلام کے اس ہنگامے سے رسولِ خدا کا دل مبارک ناراض ہے۔

انہوں نے عالم اسلام میں غیروں اور دنیا خوروں کے اثر و رسوخ، امت اسلامیہ کے مفادات کو لاحق خطرات، جنگ و جدل، انتشار اور اسرائیل جیسی غاصب حکومت کے ظہور کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے قلب مبارک کی وجہ قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلامی امت کے پڑھے لکھے اور اشرافیہ کو ان تکلیفوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے، بنیادی طور پر سوچیں۔

آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کہا: اگر ملت اسلامیہ پر تمام اختلافات کے ساتھ اتحاد کی ہوا چلی تو یہ دنیا کی ایک عظیم اور بااثر طاقت بن جائے گی۔

Thursday, 13 October 2022 13:27

مسجد ابن طولون- قاهره

مسجد ابن طولون یا مسجد احمد بن طولون مصری شهر قاهره کی قدیم ترین مساجد میں شمار کی جاتی ہے، احمد بن طولون بانی دولت سلسلہ طولونی‌ نے سال ۸۷۷ عیسوی کو قاہرہ کے نوساز علاقے میں قایم کرنے کا حکم دیا۔ مذکور مساجد ایک صحرائی علاقے میں قایم کی گئی ہے اور مصر کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔/

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تشخیص مصلحت نظام کونسل (ایکسپیڈیئنسی ڈیسرنمنٹ کونسل) کے سربراہ اور کونسل کے نئے ٹرم کے اراکین نے بدھ کی صبح رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔     

اس موقع پر آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی تقریر میں اس کونسل کو، اس میں موجود غیر معمولی صلاحیت کے حامل اور تجربہ کار افراد کی موجودگی اور ملک کے مسائل اور کونسل کو تفویض کی گئي ذمہ داریوں پر ہمہ گير نظر کے لحاظ سے اسلامی جمہوریہ کا بڑا اہم ادارہ قرار دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے حالیہ واقعات اور کچھ جگہوں پر پراگندہ ہنگاموں کی طرف اشارہ کیا اور زور دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ واقعات میں دشمن کا رول سب کے لیے، یہاں تک کہ بعض غیر جانبدار غیر ملکی مبصرین کے لیے بھی پوری طرح واضح اور عیاں ہے۔ یہ واقعات، داخلی سطح پر اپنے آپ وجود میں نہیں آئے ہیں بلکہ پروپیگنڈہ، سوچ کو متاثر کرنے، ہیجان پیدا کرنے، ورغلانے کی کوشش یہاں تک کہ پیٹرول بم بنانے کی راہوں کی ٹریننگ جیسے دشمن کے اقدامات اس وقت پوری طرح سے واضح ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ان واقعات کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ، دشمن کی پسپائی کی حالت اور مایوسانہ ردعمل ہے۔ انھوں نے کہا: ایرانی قوم نے بہت کم عرصے میں، بڑے نمایاں کارنامے انجام دیے جو عالمی سامراج کی پالیسیوں کے بالکل برخلاف تھے تو وہ ردعمل دکھانے پر مجبور ہو گيا اور اسی تناظر میں اس نے سازش تیار کر کے اور پیسے خرچ کر کے امریکا، یورپ اور کچھ دیگر جگہوں کے بعض سیاستدانوں سمیت بہت سے افراد کو میدان میں اتار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ایرانی قوم کے ان عظیم کارناموں نے دکھایا دیا کہ ایرانی قوم جوش و جذبے سے بھری ہوئی، دیندار اور اقدار و مذہبی اصولوں کی پابند ہے اور ملک بھی بڑی تیزی سے آگے کی طرف گامزن ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اربعین مارچ میں جوانوں کی دسیوں لاکھ کی تعداد میں شرکت اور کورونا کی وبا کے دوران انسان دوستانہ اقدامات کو ایرانی قوم کی دینداری، ایمان اور بڑے کارناموں کا نمونہ بتایا اور کہا: دراصل حالات کا کنٹرول ایرانی قوم کے ہاتھ میں ہے اور دشمن بچکانہ اور احمقانہ ردعمل دکھانے اور ہنگامہ آرائی کے لیے سازش تیار کرنے پر مجبور ہو گيا۔

انھوں نے اسی طرح اغیار کی سازشوں کے مقابلے میں استقامت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب تک ایرانی قوم، اسلام کے پرچم کو تھامے ہوئے ہے اور اسلامی نظام کے ساتھ ہے، تب تک یہ دشمنی، مختلف صورتوں میں جاری رہے گي اور اس کا واحد علاج، استقامت ہی ہے۔ شیطانوں کی سازشوں اور چالوں کے مقابلے میں ہماری استقامت، پیشرفت رک جانے کا باعث نہیں بلکہ یہ آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ جو لوگ سڑکوں پر آ رہے ہیں، ان سب کو ایک ہی زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا، ان میں سے بعض یا تو دشمن کے عناصر ہیں اور اگر دشمن کے پٹھو نہیں ہیں تب بھی اسی کی راہ پر چل رہے ہیں جبکہ بعض لوگ ہیجانی کیفیت کا شکار ہو کر اور جوش میں سڑک پر آ جاتے ہیں، اس طرح کے لوگوں کے سلسلے میں ثقافتی کام ہونا چاہیے لیکن پہلی قسم کے لوگوں کے بارے میں عدلیہ اور سیکورٹی کے ذمہ داروں کو اپنی ذمہ داری انجام دینی چاہیے۔

انھوں نے اپنی تقریر کے ایک دوسرے حصے میں، تشخیص مصلحت نظام کونسل (ایکسپیڈیئنسی ڈیسرنمنٹ کونسل) کی سب سے اہم ذمہ داری کو مصلحت کا تعین بتایا اور کہا: مصلحت کا معاملہ، نظام کے پہلے درجے کے ترجیحات میں شامل ہے اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بقول یہ اتنا اہم ہے کہ اس سے غفلت کبھی کبھی اسلام کی شکست کا سبب بن جاتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا اس سلسلے میں مزید کہنا تھا کہ "مصلحت" کے معنی "حقیقت اور شریعت کے حکم" کے خلاف کام کرنا نہیں ہے۔ آپ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ صحیح تشخیص کا لازمہ، موضوع کی شناخت کے ساتھ ہی مصلحت کی بھی شناخت ہے، آپ نے کہا: مصلحت کے تعین میں اس طرح سے کام کرنا چاہیے کہ وہ پوری طرح سے قابل اعتماد و اطمینان بخش ہو۔

انھوں نے اسی طرح کہا کہ اس کونسل میں جن قوانین کا جائزہ لیا جاتا ہے، ان کا اعتبار، اس مصلحت کے جاری رہنے تک ہے اور جنرل پالیسیز کے معاملے میں بھی افراط و تفریط سے دور رہنا چاہیے کیونکہ ملک میں کسی بھی آئیڈیل مسئلے اور ہر مفید چیز کو جنرل پالیسی کے طور پر شامل کر دینا بھی درست نہیں ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں اور حکومت اور پارلیمانی امور کی جزئيات میں دخل دینا بھی صحیح نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر سے پہلے، تشخیص مصلحت نظام کونسل (ایکسپیڈیئنسی ڈیسرنمنٹ کونسل) کے سربراہ آيت اللہ آملی لاریجانی نے تمام امور میں کونسل کے اراکین کی سنجیدگي اور مہارت اور اسی طرح مصلحت کے تعین کے سلسلے میں کونسل کے اقدامات اور نئے دور میں اس کے پروگراموں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔