سلیمانی

سلیمانی

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل حسین سلامی نے ہفتہ کے روز حضرت شاہ چراغ کے حرم پر دہشت گردی کے واقعہ میں شہید ہونے والوں کی نماز جنازہ کی میں شرکت اور عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔
جنرل سلامی نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای جہاد کے مرکز میں کھڑے ہیں اور ایران کے عوام نے ہر قسم کی دشمنی کے مقابلے میں امام خامنہ ای کو تنہا نہیں چھوڑا اور اپنے امام کی پشت پناہی کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے اس واقعے کے شہداء نے ایک خاص اور عظیم مقصد کے لیے اپنی پیاری جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

سردار سلامی نے اس بات پر زور دیا کہ اگر اسلامی ایران کے عوام امام حسین (ع)کے زمانے میں ہوتے تو کسی کو بھی فرزند رسول (ع) کی توہین کی اجازت نہ دیتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ایران کے عوام کو امام کے برحق نائب کی حفاظت اور حمایت کرنی چاہیے اور دشمن کو ایرانیوں کے چہرے سیاہ ظاہر کرنے اجازت نہیں دینی چاہیے۔

انہوں نے شیراز حملے کے شہداء کی نماز جنازہ میں شاندار شرکت پر ایرانی عوام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آج کا واقعہ حقیقی ایران کو ظاہر کرتا ہے جو شاندار اسلامی انقلاب کی نمائندگی کرتا ہے اور چند فریب خوردہ عناصر کی شرارتوں سے اسے کبھی نقصان نہیں پہنچے گا۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ اپنی منصوبہ بندیوں، سازشوں اور فتنہ انگیزیوں کے ذریعے ایرانی عوام کا دین اور مذہب چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے دشمنوں کی سازشوں کے فریب میں نہ آنے اور انہیں ناکام بنانے پر ایرانی عوام کی بھی تعریف کی۔

میجر جنرل سلامی نے مزید کہا کہ ہماری سرزمین پر ان دنوں اور راتوں میں جو سازشیں چل رہی ہیں، وہ امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔

فلسطین کی مزاحتمی تنظیموں کے مشترکہ کمیٹی کے جاری کردہ بیان میں ،شیرازشہرمیں واقع شاہ چراغ کے روضے پر دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس طرح کے گھناونے فعل کا ارتکاب اور اس کا حکم دینے والوں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ 
بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کی مشترکہ کمیٹی ایران کی سلامتی کو نشانہ بنانے والے ہر اقدام کی مذمت کرتی ہے اور مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ایرانی بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
بیان میں دہشت گردی کے مقابلے میں ایران کی حکومت اور عوام سے مکمل یکجہتی کا اعلان کیا گیا ہے۔ 

طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالنافع تکور نے بتایا ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملہ شیخ محمد روحانی نام کی مسجد میں ہوا ہے جو کہ کابل کے پانچویں ڈسٹرکٹ میں واقع ہے۔ عبدالنافع تکور نے بتایا ہے کہ اس حملے میں سات لوگ زخمی ہوئے ہیں تاہم مقامی ذرائع نے دس لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے۔ 
یاد رہے کہ اگست دو ہزار اکیس میں جب طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو داعش سمیت مختلف دہشت گرد گروہوں اور عناصر کے حملوں کو روکنے کا عہد کیا تھا تاہم اب تک یہ وعدہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

پچھلے مہینوں کے دوران داعش نے کابل سمیت افغانستان کے مختلف شہروں میں انتہائی خوفناک دہشت گردانہ حملے کرکے سیکڑوں افغان شہریوں کو خاک و خون میں غلطاں کردیا ہے۔

داعش کی طرف سے خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کے مقدس مقامات اور اسی طرح تعلیمی مراکز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

سحر نیوز/ ایران: وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے یوکرینی ہم منصب دیمتری کولبا سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور جنگ یوکرین میں ایرانی ڈرون طیاروں کے استعمال کے دعو ے کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا۔ 
وزیر خارجہ نے ایک بار پھر یہ بات زور دے کرکہی کہ ایران کی خارجہ پالیسی مکمل طور سے واضح اور واحد معیار پر استوار ہے اور تہران یوکرین سمیت دنیا کے کسی بھی خطے میں جنگ کا حامی نہیں ۔
انہوں نے اپنے یوکرینی ہم منصب کو نصیحت کی کہ وہ بعض انتہا پسند مغربی سیاستدانوں کے بیانات سے ہرگز متاثر نہ ہوں ۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ تہران ، دونوں ملکوں کے فوجی ماہرین کے درمیان براہ راست بات چیت اور مشترکہ تحقیقات کے لیے آمادہ ہے۔ 
یوکرین کے وزیر خارجہ دی متری کولبا نے اس موقع جنگ یوکرین کے بارے میں ایران کے موقف کو سراہتے ہوئے کہا کہ کی ایف دونوں ملکوں کے فوجی ماہرین کے درمیان براہ راست بات چیت کی پیشکش کا خیر مقدم کرتا ہے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہر سیریک کے اہلسنت امام جمعہ شیخ علی ماہیگیر نے ولایت فقیہ اور ایران کی حمایت میں بندر عباس میں شیعہ سنی طلبہ اور علماء کے اجتماع میں ایران میں حالیہ بلوائیوں کے حملوں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا: حضرت احمد موسی شاہچراغ (ع) کے حرم میں دہشت گردی کے المناک واقعہ نے ہر ایرانی کے دل کو رنجیدہ کردیا ہے جس پر میں ولی امر اور ملت ایران کی خدمت میں تعزیت عرض کرتا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا: دشمن کے پروپیگنڈے کے برخلاف ہمارے ملک کے اہلسنت گزشتہ چار دہائیوں سے مقاومتی (مزاحمتی) محاذ کا ناقابل انکار حصہ ہیں۔

شہر سیریک کے اہل سنت امام جمعہ نے کہا: اہل سنت نے انقلاب اسلامی کے آغاز سے لے کر اب تک مسلط کردہ جنگ سمیت ملکی تمام بحرانوں میں اپنا مؤثر کردار ادا کیا ہے اور یہ چیز جماعت اہلسنت کے لیے افتخار کا باعث ہے۔

شیخ علی ماہیگیر نے کہا: میں ولی امر اور پائیدار ایران کی حمایت کو اپنی عقلی اور شرعی ذمہ داری سمجھتا ہوں اور امام راحل بانیٔ انقلاب اسلامی کے بیانات سے الہام لیتے ہوئے ولایت فقیہ کی حمایت کو ولایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت قرار دیتا ہوں۔

انہوں نے کہا: ولایت فقیہ وہ عظیم میراث ہے کہ جس کا دفاع اور حمایت ضروری ہے تاکہ ہم اسلامی اہداف کو حاصل کرسکیں۔

اہل سنت کے اس امام جمعہ نے کہا: دشمن مضبوط اور طاقتور ایران سے خائف ہے۔

انہوں نے کہا: اسلامی سرزمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ دشمن مسلمانوں کے درمیان اختلافات ایجاد کر کے ان وسائل کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے۔

ایران میں امام زادہ شاہ چراغ کے مزار پرفائرنگ, 20 زائرین شہید، 40 زخمی

شیراز : ایران کے شہر شیراز میں امام علی رضا کے بھائی امام زادہ احمد بن موسی کاظم علیہ السلام المعروف شاہ چراغ کے مزار پر فائرنگ سے 20 زائرین شہید اور 40 زخمی ہوگئے. عینی شاہدین کے مطابق تین تکفیری دہشت گردوں نے مزار میں زائرین پرگولیاں برسائیں حملے میں 20 زائرین شہید 40 زخمی ہوئے.شہید ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔حملہ آوروں نے گاڑی میں سے مزار کے داخلی دروازے پر زائرین اور اسٹاف کو نشانہ بنایا۔
دو حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ تیسرے کی گرفتاری کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔حکام کے مطابق حملہ آوروں کا تعلق انتہا پسند تکفیری گروہ سے تھا جنہوں نے ملک میں پھیلی بدامنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ کیا صدر ابراہیم رئسی نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے پس پردہ عناصر کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا۔

تہران، ارنا – ایرانی وزارت خارجہ نے گزشتہ روز شیراز میں ہونے والے دہشتگردانہ واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس جنایت نے ایران میں دہشت گردی اور تشدد کو ہوادینے والوں کے مذموم عزائم کو بالکل واضح کر دیا۔

یہ بات حسین امیر عبداللہیان نے اپنے ٹوئیٹر پیج میں کہی۔

انہوں نے اس جنایت سے ایران میں دہشت گردی اور تشدد کو ہوا دینے والوں کے مذموم عزائم کو بالکل واضح ہوگیا۔

امیر عبداللیان نے کہا کہ میں اور اپنے تمام ساتھی شیراز میں شاہ چراغ کے مقدس مزار میں دہشت گردی کے جرم میں مظلوم زائرین کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ کچھ قابل اعتماد معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ دشمنوں نے ایران کو غیر محفوظ بنانے کے لیے ایک کثیر الجہتی منصوبہ تیار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلاشبہ ہم دہشت گردوں اور غیر ملکی مداخلت پسندوں جو انسانی حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں، کے ذریعے ایران کی قومی سلامتی اور مفادات کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

تفصیلات کے مطابق، ایک مسلح شخص نے بدھ کے روز مقامی وقت کے مطابق 17:45 کے بجے کو حضرت شاہچراغ کے روضے پر تکفیری دہشت گردوں کے انداز میں فائرنگ شروع کر دی اور اندر سے حملہ کر دیا۔
بعض ذرائع کے مطابق، اس دہشت گردی واقعے میں اب تک 15 افراد شہید اور 40 زخمی ہوگئے ہیں۔
ارنا کے رپورٹر کو عینی شاہدین کے مطابق، مسلح شخص نے پیوجو گاڑی میں شاہ چراغ کے مزار پر گئے اور "9 دی" دروازے سے داخل اور خادمین اور زائرین پر فائرنگ کی۔

رائٹرز نے ایک خبر میں اعلان کیا ہے کہ شیراز میں شاہ چراغ کے مزار پر حملے کی ذمہ داری داعش گروپ نے قبول کی ہے۔

 رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے جمعرات کے روز اپنے ایک پیغام میں جنوب مغربی ایرانی صوبے فارس کے شہر شیراز میں حضرت احمد بن موسیٰ (شاہ چراغ) کے مزار پر گزشتہ شب ہونے والے مہلک دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی۔

رہبر معظم کے پیغام میں کہا گیا کہ حضرت احمد بن موسیٰ (ع) کے روضہ اقدس میں ہونے والا گھناؤنا جرم جس کے نتیجے میں درجنوں بے گناہ مرد، خواتین اور بچے شہید اور زخمی ہوئے، ہمارے لیے بہت دکھ اور افسوس کا باعث ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید کہا کہ اس المناک جرم کے مرتکب فرد یا افراد کو ضرور سزا دی جائے گی تاہم اپنے عزیزوں کے داغ مفارقت اور حرمِ اہل بیت علیہم السلام کی بے حرمتی کی تلافی سوائے اس امر کے نہیں ہوسکے گی کہ ان گھناونی حرکتوں کو پیدا کرنے والا اصلی ماخذ تلاش کیا جائے اور اس کے متعلق فیصلہ کن اور دانشمندانہ اقدام اٹھایا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم سب پر آگ لگانے والے دشمن اور اس کے غدار یا جاہل اور غافل آلہ کاروں سے نمٹنے کے لیے کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتی اہلکاروں سے لے کر افکار اور میڈیا کے میدان میں سرگرم عمل افراد (اسکالرز اور صحافیوں) تک اور عوام کے فرد فرد تک ہمارے تمام لوگوں کو اس موجودہ حرکت کے مقابلے میں متحد ہونا ہوگا جو عوام کی زندگیوں، ان کی سلامتی اور ان کے مقدسات کی بے حرمتی اور بے توقیری کو روا رکھے ہوئے ہے۔

رہبر معظم نے مزید کہا کہ قوم اور ذمہ دار ادارے ان شاء اللہ دشمنوں کی مذموم سازش پر ضرور قابو پالیں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے تعزیتی پیغام کے آخر میں لکھا کہ میں اس واقعے کے سوگوار خاندانوں، شیراز کے عوام اور پوری ایرانی قوم کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے زخمیوں کی صحت یابی کی دعا کرتا ہوں۔

 
سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد جنوبی قفقاز خطے میں تین خودمختار ریاستیں، جمہوریہ آذربائیجان، آرمینیا اور جارجیا ابھر کر سامنے آئیں۔ ان تین ریاستوں کے قیام کے باوجود جنوبی قفقاز خطہ ہمسایہ ممالک ایران، ترکی اور روس سے تعلقات اور خطے کی سلامتی سے متعلق عالمی سطح پر ایک جیسی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ سیاست میں جنوبی قفقاز خطہ تین مختلف سطح پر توجہ کا مرکز ہے:
1)۔ دوطرفہ تعلقات: اس میدان میں ایران اس خطے کی تینوں ممالک یعنی آذربائیجان، آرمینیا اور جارجیا کے ساتھ خوشگوار دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ جنوبی قفقاز کے دو ممالک آذربائیجان اور آرمینیا کی ایران کے ساتھ مشترکہ سرحد بھی پائی جاتی ہے۔
 
2)۔ علاقائی تعلقات: مذکورہ بالا تین ممالک سے ایران کے تعلقات خطے کی سطح پر جاری مقابلہ بازیوں اور اہم واقعات سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ ان مقابلہ بازیوں کے نتائج صرف جنوبی قفقاز خطے کے ممالک تک محدود نہیں بلکہ وہ ہمسایہ ممالک کی سلامتی اور مفادات کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ مذہب، قومیت، قرہ باغ جیسے علاقائی تنازعات اور بحران، اوستیا، آبخازیا اور چچنیا کے علاوہ بحیرہ کیسپین کے قانونی مسائل، تجارت، انرجی کی مصنوعات، تیل اور گیس کی سپلائی لائنیں، ٹرانسپورٹ کے نیٹ ورکس، ٹرانزٹ، بجلی کی لائنیں اور ٹیلی کمیونیکیشن وغیرہ ایسے شعبے ہیں جو دوطرفہ تعلقات میں اہمیت کا حامل ہونے کے باوجود خطے کی سطح پر جاری حالات و واقعات سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
 
3)۔ عالمی سیاست: قفقاز خطہ، براعظم ایشیا اور یورپ کے درمیان پل کی طرح ہے۔ یہ خطہ اسلامی اور مسیحی ممالک کا ملاپ تصور کیا جاتا ہے جو ثقافتی اور تہذیب و تمدن کی نگاہ سے بھی دو مختلف انسانی تہذیبوں کی مشترکہ سرحد سمجھا جاتا ہے۔ قفقاز خطے سے متعلق اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی اس اہم خصوصیت سے بھی متاثر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ لہذا تین قسم کی حکمت عملی یعنی اسلام پسندی، ایٹلنٹک پسندی اور یوریشیا پسندی کے علاوہ اس تناظر میں تشکیل پانے والے اتحادوں نے بھی ایران کیلئے اس سطح کی اہمیت دو چندان کر دی ہے۔   
جنوبی قفقاز خطے میں آزربائیجان اقتصادی اور فوجی لحاظ سے سب سے زیادہ طاقتور ملک تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف آرمینیا کو روس کی فوجی حمایت حاصل ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات بھی پائے جاتے ہیں۔
 
آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان موجود تنازعات کے حل کیلئے مختلف راہ حل پیش کئے گئے ہیں۔ اس بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران نے جو راہ حل پیش کیا ہے وہ کسی کی ثالثی کے بغیر دونوں ممالک کے درمیان گفتگو اور مذاکرات انجام پانے پر مشتمل ہے۔ گذشتہ 28 برس میں جمہوریہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان مستقل امن کیلئے کئی پرامن راہ حل سامنے آئے ہیں جن میں سے بعض دونوں جانب سے قبول بھی کئے گئے تھے لیکن شدت پسند عناصر کی مداخلت کے نتیجے میں ان پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ایسا ہی ایک راہ حل قرہ باغ کو جمہوریہ آذربائیجان کی زیر سرپرستی فیڈریشن کی صورت میں زیادہ سے زیادہ خودمختاری عطا کرنے پر مبنی تھا۔ یہ راہ حل حیدر علی اف اور لئون ٹرپٹروسیان کے زمانے میں انتہائی پرامید دکھائی دیا لیکن آرمینیا میں رونما ہونے والے بعض واقعات نے اسے ناکام بنا دیا۔
 
دوسری طرف بعض علاقائی اور عالمی طاقتیں جنوبی قفقاز میں موجود اس متنازعہ فضا کو اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے استعمال کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ جنوبی قفقاز کا خطہ ایک چھوٹا سا خطہ ہے جہاں بڑے پیمانے پر جنگ اور تباہی پھیلانا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح دونوں ممالک میں ایسے عناصر بھی پائے جاتے ہیں جو سرحدی تنازعات کو سیاسی ایشو بنا کر اقتدار حاصل کرنے کے موقع کی تلاش میں ہیں۔ اسی طرح علاقائی اور عالمی سطح پر اسلحہ کے ڈیلرز بھی خطے میں جنگ کی آگ بھڑکانے کے درپے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں چھوٹی سے چنگاری فورا پراکسی جنگ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ 2008ء میں بھی قفقاز خطے میں امریکہ کے اشتعال انگیز سرگرمیاں روس اور جارجیا کے درمیان جنگ کا باعث بنی تھیں۔ ایسے حالات مسائل کو مزید پیچیدہ کرنے کے علاوہ خطے کو سکیورٹی بحران سے روبرو کر دیتے ہیں جس کا اثر سب سے زیادہ ہمسایہ ممالک پر پڑتا ہے۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو بیرونی طاقتوں کی جانب سے جنوبی قفقاز خطے میں اشتعال آمیز سرگرمیوں کو بے اثر کر کے جنگ جیسی صورتحال پیدا نہ ہونے دے۔ ایران ماضی میں یعقوب محمد اف اور ٹرپٹروسیان کے دور میں کامیابی سے ثالثی کا کردار ادا کر چکا ہے۔ اسی طرح جب آرمینیا نے آذربائیجان کی سرحدوں میں پیشقدمی شروع کی تو حیدر علی اف کی درخواست پر ایران نے آذربائیجان کی بھرپور حمایت بھی کی تھی۔ 1994ء میں جب مینسک گروپ نے راہ حل پیش کیا تو آذربائیجان اور آرمینیا دونوں نے اس مسئلے کو فریز کر دینے کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح آذربائیجان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر رسول قلی اف نے ایرانی حکام کو خط لکھ کر ایران کے کردار کی قدردانی کی اور ایرانی مشیروں کو واپس بلانے کی درخواست کی۔ اس وقت سے لے کر آج تک ایران نے یہ اصول موقف اپنا رکھا ہے کہ قرہ باغ تنازعہ گفتگو اور مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔

تحریر: علی رضا بیکدلی

کچھ عرصہ پہلے ایرانی وزیر خارجہ کا انٹرویو دیکھ رہا تھا، وہ بتا رہے تھے کہ ایران عراق جنگ کے دوران میں اقوام متحدہ میں ایران کا سفیر تھا، میں ہر اس ملک کے پاس گیا، جہاں سے کچھ امید کی جا سکتی تھی کہ وہ مجھے ایرانی عوام کے تحفظ کے لیے کچھ میزائل دے دے گا، مگر کہیں سے بھی کوئی مثبت جواب نہیں ملا اور ہر طرف سے مایوسی ہوئی۔ دوسری طرف پوری دنیا کی اسلحہ ساز فیکٹریاں صدام کو اسلحہ فراہم کر رہی تھیں اور عرب سرمائے سے اسلحہ ایران کے خلاف استعمال کیا جا رہا تھا۔ واقعاً یہ ایک بے بسی کی سی صورتحال ہوتی ہے، جس سے انقلابی حکومت اپنی حکمت اور ایرانی عوام کے جذبہ دفاع وطن سے ہی نکلی اور دشمن ناکام ہوا۔ اس وقت امریکہ اور مغرب نے مختلف الزامات لگا کر ایران پر پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں کہ کوئی بھی ریاست ایران کو اسلحہ نہیں بیچ سکتی۔ جنگ ختم ہوئی اور ایرانی ریاست نے ہر میدان کے ساتھ اسلحہ میں خود انحصاری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے بڑی تعداد میں جامعات میں تحقیقی شعبے قائم کیے گئے اور الگ سے ادارے کھڑے کیے گئے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب شروع شروع میں ایرانی ڈرونز کی تصاویر منظر عام پر آئیں تو بہت سے لوگوں نے انہیں فوٹو شاپ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایران جیسا پابندیوں کا شکار ملک ایسی جدید ترین مشین کو خود سے بنا سکے، کیونکہ اس میں کئی جدید سسٹمز بیک وقت کام کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کی آنکھیں اس وقت کھلی کی کھلی رہ گئیں، جب ایران نے امریکہ کا براڈ ایریا میری ٹائم سرویلینس (BAMS-D) ڈرون گرا دیا تھا۔ اس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملے تک کی دھمکی دی تھی، جو بعد میں خود ہی واپس لے لی تھی۔ یہ ایک بہت بڑی پیش رفت تھی، جس نے تبدیل ہوتی سکیورٹی صورتحال میں ایران کے وزن کو کافی بڑھا دیا۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک اس طرف متوجہ ہوئے کہ ایران ٹیکنالوجی اور بالخصوص ڈرون ٹیکنالوجی میں کافی آگے جا چکا ہے۔

ابھی مغربی میڈیا خوب پروپیگنڈا مہم پر ہے کہ یوکرین جنگ میں گیم چینجز ثابت ہوتے ڈرونز جو کیف میں پہنچ کر پھٹ رہے ہیں، وہ ایران دے رہا ہے بلکہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ وہ ایران کے مشہور ڈرونز شاہد ہیں۔ یورپ نے روس کے خلاف یوکرین میں جنگ چھیڑ رکھی ہے اور بڑے پیمانے پر لڑائی جاری ہے۔ اس کا شکار یوکرین کے نہتے عوام ہیں، جو بین الاقوامی استعمار کی اجارہ داری کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ یوکرین کو امریکہ اور پورا یورپ بڑی تعداد میں اسلحہ فراہم کر رہا ہے، وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ امریکہ اور مغربی میڈیا نے یہ پرپیگنڈا شروع کر دیا کہ یہ ایرانی ڈرونز ہیں۔ ایران نے آفیشلی اس بات کی تردید کی اور کہا کہ اس کے ڈرونز کیف حملے میں استعمال نہیں ہو رہے، پھر بھی پروپیگنڈا جاری رہا کہ بڑی تعداد میں ایران روس کو ڈرونز برآمد کر رہا ہے۔

یورپی یونین کے ممالک نے پہلے انفرادی طور پر اور پھر اجتماعی طور پر ایرانی ڈرونز کی فراہمی پر تنقیدی بیانات دینے شروع کر دیئے اور ابھی یورپی یونین نے کچھ ایرانی کمپنیوں اور شخصیات پر پابندی کی بھی بات کی ہے۔ امریکہ تو خیر اس محاذ میں آگے تھا، اس نے پہلے ڈرونز کی بات تسلسل سے کی اور پھر یہ بیان داغ دیا کہ ایرانی ماہرین بھی کریمیا میں موجود ہیں، جو ان ڈرونز کو اڑانے میں معاونت کر رہے ہیں۔ اس کے بعد پروپیگنڈا ٹیمز حرکت میں آئیں اور ایرانی ماہرین کی حملے مین اموات کا واویلا شروع ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ ایک قدم آگے بڑھا اور کہا "ایران ڈرون سسٹموں کے ساتھ یوکرین کو ہدف بنا رہا ہے: امریکہ وزارت دفاع" یعنی بڑی حکمت عملی سے ایران کو جنگ میں ڈرونز فراہم کرنے سے شروع  ہونے والے پروپیگنڈے کو ایران کو جنگ میں شریک ملک تک لے  آیا۔

اب یورپ کیونکہ اس جنگ کے حقوق اپنے نام کرچکا ہے تو جو اس جنگ میں روس کے شانہ بشانہ جنگ میں شریک ہو، یورپ اس کے خلاف ہوگا۔ اس طرح پہلے یورپین سے کچھ پابندیاں لگوائیں اور اب برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی طرح سے اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ ایرانی ڈرونز روس میں استعمال ہوئے ہیں اور اسے 2015ء کے ایران اور عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دے کر ایران کے خلاف مزید کارروائیوں کا مطالبہ کیا جا سکے۔ اگر اس پوری صورتحال کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نیٹو اور اس کے اتحادی ایران پر پابندیاں عائد کرتے تھے کہ وہ کسی سے اسلحہ نہ خرید سکے، اب صورتحال اس سے بہت آگے جا چکی ہے۔ اب معاملہ برعکس ہوچکا ہے۔ ایران ایک فوجی طاقت بن چکا ہے، جو دنیا کی بڑی طاقتوں کو اسلحہ فروخت کر رہا ہے۔ یورپ اور امریکہ نے مل کر دنیا کی اسلحہ کی مارکیٹ پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ کوئی اور طاقت جو مغربیت کے خلاف بھی ہے، وہ اس میدان میں آئے۔

امریکہ اور یورپ صرف اسلحہ فروخت نہیں کرتے، اسے کنٹرول بھی کرتے ہیں۔ ہم نے پیسے دے کر ایف سولہ طیارے لے رکھے ہیں، مگر ہم انہیں انڈیا کے خلاف استعمال نہیں کرسکتے تو کیا ہم نے یہ اچار ڈالنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں؟ استعماری قوتیں آہستہ آہستہ بے نقاب ہو رہی ہیں۔ ایران کے ڈرونز تو انسانوں کو قتل کرتے ہیں اور سول آبادیوں کو گراتے ہیں، بہت ہی برے ڈرونز ہیں۔ ہاں یہ یورپ اور امریکہ کا بنایا اسلحہ تو عراق، افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پھول برساتا رہا، جہاں ایک ایک واقعہ میں دو دو سو  قرآن حفظ کرتے ہوئے بچوں کو شہید کیا گیا۔ ویسے کوئی ایران کو اسلحہ نہ بیچے سے ایران اسلحہ نہ بیچے تک پہنچانے میں امریکی اور مغربی پابندیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
 
 
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس