سلیمانی

سلیمانی

 حجۃ الاسلام مہدی جاودان نے آج صبح ایران کے شہر خنداب میں مدرسہ علمیہ مہدیہ میں ایام فاطمیہ کے موقع پر منعقدہ مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کہا:حضرت زہرا سلام اللہ علیہا تمام ائمہ (ع) پر حجت ہیں، اور مظلومیت کے اعتبار سے بھی آپ تمام ائمہ (ع) پر فضیلت رکھتی ہیں۔

انہوں نے کہا: حضرت زہرا (س) نبوت اور امامت کے درمیان ایک حلقہ اتصال ہیں اور معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے لیے کامل نمونہ عمل ہیں اور علم و عصمت اس عظیم خاتون کی عظیم خصوصیات میں سے صرف ایک ہے ۔

انہوں نے کہا:اگر لوگ، خصوصاً طلاب اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں حضرت زہرا (س) کو اپنا نمونہ عمل قرار دیں تو دنیا و آخرت کی سعادت ضرور نصیب ہوگی۔

حجۃ الاسلام مہدی جاودان نے مزید کہا: پیغمبر اکرم (ص) کے وصال کے بعد حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے خطبہ فدک کے ذریعہ عالم اسلام کی ہدایت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے رپورٹر کے مطابق، آیت اللہ سعیدی نے ایران کے شہر قم المقدسہ میں نماز جمعہ کے خطبہ کے دوران کہا: تقویٰ ہی وہ عنصر ہے جو ہمیں شیعیانِ اہلبیت علیہم السلام میں سے قرار دلوا سکتا ہے۔ حضرت زہراسلام اللہ علیہا کا ولایت سے دفاع کرنا اور دشمنوں کا مقابلہ کرنا ان کی زندگی کے اہم ترین امور میں سے تھا۔

انہوں نے مزید کہا: موجودہ حالات میں دشمن حجاب کے بہانے نوجوانوں کو بہکانا چاہتا ہے اور اپنے تئیں حجاب نہ پہننے کو قومی احتجاج کی علامت بنانا چاہتا ہے اور اسے ثقافتی اور سماجی زمرے سے سیاسی زمرے میں بدلنا چاہتا ہے۔ لوگوں کے جذبات کو ابھارنا اور معاشرے کے مذہبی ماحول کو حساس بنانے وغیرہ جیسے امور کے ذریعہ دشمن چاہتا ہے کہ معاشرتی بحران وجود میں لائے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہونے پر مجبور کرے۔

خطیب جمعہ قم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ان ایام میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت اور تدبر سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے قیام کی اولین ترجیح وحدتِ ملّی کا تحفظ تھا۔

انہوں نے کہا: رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حرم شاہ چراغ (ع) کے شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات میں فرمایا کہ "یہ واقعہ تاریخ میں باقی رہے گا اور انہوں نے اس واقعہ کے پس پردہ محرکات کی رسوائی پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ثقافتی اور ہنری اداروں کو اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے اور اسے آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا چاہیے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے نیروبی (کینیا) میں ایام فاطمیہ کے سلسلہ کی پہلی مجلس سے خطاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے حوالہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ کا رویہ، خلوص اور احترام ان کے علاوہ کسی اور ہستی سے مخصوص نہیں تھا۔ اس ادب کی وجہ ان دونوں کے درمیان محض باپ اور بیٹی کی نسبت نہیں تھی۔ اگر کچھ دیر کے لئے اہلِ سنت کی نبی کریمؐ کی دیگر بیٹیوں کے حوالہ سے روایات کو درست تسلیم کر لیا جائے، تو پھر اس نسبت سے نبی کریمؐ کو دیگر بیٹیوں کے ساتھ بھی یہی روش اختیار کرنی چاہیے تھی لیکن ہمیں تاریخ کے کسی حصہ یا روایت میں ایسی بات نہیں ملتی جس میں نبی کریمؐ کا فاطمہ سلام اللہ علیھا کے علاوہ دیگر بیٹیوں سے بھی ایسا اخلاق بیان کیا گیا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو آپؐ کی اس روش کو امت کے لئے سنت قرار دے دیا جاتا۔ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نبی کریمؐ کی طرح صاحبِ مقامِ عصمت، حجتِ خدا، نورِ خدا کا مظہر اور شفیعہ دنیا و آخرت ہیں، پس ان مراتب کی وجہ سے اللہ کے آخری رسولؐ نے ان کا اس قدر احترام کیا کہ سب کو پتا چل جائے کہ آپ (س) اللہ کی حجت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بعض لوگ دین دار یا اہلِ قرآن بننے کی کوشش میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی حیثیت کا انکار کرتے ہیں۔ قرآن  مجید کی تفسیر کے باب میں معصومؑ نے بیان کیا ہے کہ سورہ القدر میں لیلة القدر سے مراد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں جن پر خدا تعالی نے آئمہ اطہار علیہم السلام کی شکل میں گیارہ قرآن اتارے۔ خدا کا کلام قرآنِ صامت اور اہل بیت علیہم السلام قرآنِ ناطق ہیں اسی لئے رسولِ خداؐ نے وصیت فرمائی تھی کہ اگر ہدایت کے راستہ پر چلنا چاہتے ہو تو قرآنِ صامت و قرآنِ ناطق دونوں سے تمسک اختیار کیے رکھنا۔  اللہ تعالی نے چہاردہ معصومین علیہم السلام کو جن کمالات و خصوصیات سے نوازا ہے، ان کا ادراک کرنا عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ ہر انسان اپنے ذہن اور قلب کی ظرفیت کے مطابق ان ذواتِ مقدسہ کو سمجھتا ہے۔ اہل بیت علیہم السلام کی مجالس ان  کی معرفت کو بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ انسان کے قلب میں معرفتِ اہل بیتؑ بڑھتی ہے تو ان کی مودت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ جب ہم ان ہستیوں سے مخاطب ہوتے ہیں یا انہیں سلام کرتے ہیں تو ان کی طرف سے جواب بھی آتا ہے لیکن جسم اور مادی دنیا کی رکاوٹوں کی وجہ سے ہم ان کے کلام کو سن نہیں سکتے۔ مادی دنیا سے کٹ کر ہی ہماری روح تکامل کی طرف سفر کرے گی اور تمام پردے ہٹ جائیں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں جمعہ کو ہونے والے حملے میں کردوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کرنے والوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان تصادم آج ہفتہ کو شروع ہوا اور شدت کے ساتھ جاری ہے۔

الجزیرہ کے مطابق پولیس نے گزشتہ روز پیرس میں مسلح حملے میں 3 افراد کی ہلاکت کی مذمت میں ہونے والے مظاہروں کو منتشر کرنے کے لیے مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے فائر کیے۔ میڈیا کی طرف سے نشر کی گئی فوٹیج میں کل اور آج کے مظاہروں میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاون میں پولیس کے تشدد کو دکھایا گیا ہے۔

 
 

خیال رہے کہ جمعہ کو فرانس کے دارالحکومت پیرس کی ایک سڑک میں فائرنگ ہوئی تھی جس سے دارالحکومت کے اس حصے میں دکانوں اور چھوٹے کیفے سے بھری گلی میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

کردش کلچرل سینٹر کے ایک وکیل نے پہلے اعلان کیا تھا کہ اس حادثے میں تمام 3 زخمی افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

پولیس نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک مشتبہ 69 سالہ ٹرین ڈرائیور کو  گرفتار کیا گیا ہے۔ پیرس کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس شخص کو حال ہی میں حراست سے رہا کیا گیا تھا جب وہ پیرس میں مہاجر کیمپ پر حملے کے مقدمے کے فیصلے کا انتظار کر رہا تھا اور تفتیش کار اس فائرنگ کا ممکنہ نسلی مقصد ڈھونڈ رہے تھے۔

 
 
 

فرنچ حکام کا اہم اور اصلی سوال یہ ہے کہ مہاجر کیمپ پر حملہ کرنے کا ریکارڈ رکھنے والا مشتبہ شخص آزاد کیوں تھا۔

علاوہ ازیں واقعے کے بعد درجنوں مظاہرین فائرنگ کی جگہ سے کچھ ہی فاصلے پر سڑکوں پر نکل آئے اور پیرس حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔ بتایا جارہا ہے کہ پولیس نے مشتعل ہجوم کو پیچھے دھکیلنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ پیرس سے الجزیرہ کے رپورٹر نے کہا: یہاں کے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ یہ فائرنگ ان کے خلاف اور ان کی برادری کے خلاف تھی۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے بھی گزشتہ روز ایک ٹویٹ میں کہا کہ اس حملے میں فرانسیسی کردوں کو نشانہ بنایا گیا۔

ایک عینی شاہد مہمت ڈیلک نے رائٹرز کو بتایا کہ اس نے پہلے گولیوں کی آوازیں سنی اور پھر ثقافتی مرکز کے سامنے ہیئر سیلون کے اندر سے رونے کی آوازیں آئیں۔
 

ارنا نے وفا نیوز ایجنسی کے مطابق رپورٹ دی ہے کہ دریائے اردن کے مغربی کنارے کے شہر نابلس کے جنوب میں اسرائیلی آباد کاروں کی جانب سے فلسطینیوں کی گاڑیوں پر حملہ اور پتھراؤ سے ایک چھوٹی بچی زخمی ہوگئی۔

 

صہیونی آباد کاروں نے اوصرین گاؤں کے قریب فلسطینی شہریوں کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا جس کے دوران ایک ڈیڑھ سالہ فلسطینی بچی زخمی ہوگئی؛ اس حملے میں فلسطینیوں کی کئی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔

دریائے اردن کے مغربی کنارے میں صہیونی آباد کار جو زیادہ تر مسلح ہیں اور انہیں صہیونی افواج کی وسیع حمایت حاصل ہے، روزانہ فلسطینی شہریوں پر حملے کرتے ہیں یا ان کی گاڑیوں، زرعی اراضی، باغات اور مکانات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

 

 صہیونی حکومت نے صہیونیوں کے لیے مغربی کنارے میں فلسطینی اراضی ہڑپ کر کے بے شمار بستیاں بنائی ہیں اور ان صہیونیوں کو وہاں آباد کیا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی طرف سے مذمت کی لہر سے قطع نظر فلسطینیوں کی بیشتر زمینوں پر قبضے کے ساتھ غیر قانونی آباد کاری کا عمل جاری ہے۔ اندازوں کے مطابق اس وقت مغربی کنارے میں 500 سے زائد صہیونی بستیاں موجود ہیں۔

Saturday, 24 December 2022 20:37

یمن میں سعودی عرب کے جرائم

اقوام متحدہ کے بچوں کا فنڈ: گیارہ ہزار یمنی بچےجنگ کے نتیجے میں ہلاک یا معذور ہو چکے ہیں، اس جنگ کے حقیقی اعدادوشمار شاید اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہزاروں بچے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ تقریباً 2.2 ملین یمنی بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، جن میں سے ایک چوتھائی پانچ سال سے کم عمر کے ہیں۔

جامع مسجد تاجیکستان بار ایکڑ پر واقع ہے جس کو وسطی ایشیاء کی سب سے بڑی مسجد شمار کی جاتی ہے۔ عربی اور ایشیائی طرز تعمیر کی شاہکار مسجد چار مینار کے ساتھ تعمیر کی گئی ہے۔

 

مسجد کے صحن اور اطراف میں ایک لاکھ بیس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ دوشنبہ کی جامع مسجد دوشنبہ کے سب سے بڑے پروجیکٹ میں شمار کیا جاتا ہے۔

سحرنیوز/عالم اسلام: اردن کے دارالحکومت امان میں ہونے والے بغداد 2 اجلاس کے دوران ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور سعودی عرب کے وزیر خارجہ کی ملاقات ہوئی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ میں نے بغداد 2 کانفرنس میں شرکت کی اور اس نشست کے دوران مجھے اپنے ہم منصب وزراء خارجہ عمان، قطر، عراق، کویت اور سعودی عرب سے ملاقات کا موقع ملا ہے۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے بھی ایران کے ساتھ مذاکرات پر اظہارِ اطمینان اور اس سلسلے کو جاری رکھنے پر اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق حسین امیر عبداللہیان نے اس سے پہلے عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السودانی، عراقی وزیر خارجہ فواد حسین، کویت کے وزیر خارجہ شیخ سالم عبداللہ الصباح، مصری صدر عبد الفتاح السیسی، فرانس کی وزیر خارجہ کیتھرین کولونا، قطری وزیر خارجہ اور وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی اور اردن کے وزیر خارجہ بدر بن سیف البوسعیدی سے ملاقات کی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے شیراز میں حضرت شاہ چراغ کے روضۂ اقدس میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے شہیدوں کے اہل ‏خانہ سے ملاقات میں کہا ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملہ، منافق اور کور دل امریکیوں کی رسوائي کا سبب بن گيا۔

آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منگل کی صبح شیراز میں حضرت احمد ابن موسی علیہ السلام کے روضۂ اقدس پر ‏دہشت گردانہ حملے میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ ‏

انھوں نے کہا کہ یہ تلخ واقعہ، بہت سے دلوں کے داغدار ہونے کا سبب بنا لیکن ایران کی تاریخ میں امر ہو گیا۔ انھوں نے اس ‏خباثت کے پس پردہ ہاتھوں یعنی کینہ پرور اور داعش کو وجود میں لانے والے امریکیوں کی رسوائي پر زور دیتے ہوئے ‏کہا: ثقافتی اداروں اور آرٹ کے حلقوں کو اس عظیم واقعے پر واقعۂ عاشورا اور دیگر تاریخی واقعات کی طرح توجہ دینی ‏چاہیے اور اسے آئندہ نسلوں تک منتقل کرنا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زائرین کے دہشت گردانہ قتل کو دیگر دہشت گردانہ واقعات سے مختلف اور دشمن کی دوہری رسوائي ‏کا سبب بتایا۔ انھوں نے کہا: حملہ انجام دینے والے اور غدار افراد کے علاوہ ان کے اصل پشت پناہ اور داعش کو وجود میں ‏لانے والے بھی اس جرم میں شریک ہیں۔ یہ لوگ اتنے جھوٹے، کور دل، ذلیل اور منافق ہیں کہ باتوں میں تو انسانی حقوق کا ‏پرچم بلند کرتے ہیں لیکن عملی طور پر خطرناک دہشت گرد گروہوں کو وجود عطا کرتے ہیں۔

آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ثقافتی اور میڈیا سے متعلق اداروں کو اس واقعے اور دیگر تاریخی واقعات کے سلسلے ‏میں آرٹسٹک پروڈکٹس تیار کرنے کی نصیحت کی اور کہا: اسلامی انقلاب کے زمانے کے واقعات اور تاریخ نیز دشمن کے ‏جرائم سے متعلق مسائل میں میڈیا اور تشہیراتی کام کے لحاظ سے ہم پیچھے ہیں اور ہماری نوجوان نسل کو دہشت گرد تنظیم ‏ایم کے او کے جرائم سمیت پچھلے بہت سے واقعات کے بارے میں معلومات نہیں ہے۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ ان حقائق کو بیان کرنا، فن و ہنر، تشہیر و تحریر اور تمام ثقافتی اداروں کی ذمہ داریوں میں ‏شامل ہے۔


قطر میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ 2022ء کے فائنل مقابلے میں ارجنٹینا نے فرانس کو ایک دلچسپ مقابلے میں شکست دے دی اور یوں قطر میں منعقدہ فٹبال ورلڈ کپ 2022ء اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس دوران قطر کے عوام، خطے کے مسلمانوں اور یہاں تک کہ دنیا کے دیگر ممالک کے عوام نے ورلڈ کپ 2022ء کے دوران فلسطین کے لیے  جس حمایت کا اظہار کیا، وہ مدتوں تک یادگار رہے گا۔ "فلسطین نے ورلڈ کپ جیت لیا" یہ وہ جملہ ہے، جو گذشتہ چند ہفتوں کے دوران عرب دنیا کے سوشل نیٹ ورکس میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوا۔ سوشل میڈیا نے فلسطین کو 2022ء کے قطر ورلڈ کپ کے چیمپئن کے طور پر اعلان کیا ہے۔ اگر آپ ورلڈ کپ سے متعلق خبریں دیکھتے اور سنتے رہے ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ فلسطین سے تھوڑی دور قطر میں  ورلڈ کپ کے دوران ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جنہوں نے صیہونیوں کو سخت مایوس کیا ہے۔

انگریزی اخبار گارجین کے مطابق اگرچہ اسرائیل اور فلسطین نے قطر ورلڈ کپ میں شرکت نہیں کی، تاہم قطر میں فلسطین کی نمایاں موجودگی بہت ہی واضح تھی۔ درحقیقت 2022ء کے ورلڈ کپ نے مسلمانوں اور فلسطینیوں کو دنیا کے اہم ترین کھیلوں کے مقابلوں میں فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے۔ مڈل ایسٹ آئی کی ویب سائٹ کے مطابق فلسطینی پرچم ایک ایسی علامت بن گیا ہے، جو 2022ء ورلڈ کپ کی سرگرمیوں کے دوران ایک مضبوط موجودگی کا حامل رہا ہے اور عرب ٹیموں کے شائقین اسٹیڈیم میں فلسطینی پرچم لہرانے کے لیے ہر وقت تیار نظر آئے۔ تیونس، سعودی عرب اور الجزائر کے شائقین نے میچوں میں فلسطینی پرچم نمایاں طور پر اٹھا رکھے تھے اور انہیں اسکارف اور مفلر کے طور پر پہنا تھا۔ ان حامیوں نے یہ نعرے لگائے: "ہم فلسطین پر اپنی جانوں اور خون کو قربان کرتے ہیں۔"

اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر عرب شائقین کی جانب سے ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے قطر جانے والے اسرائیلی صحافیوں سے گفتگو کی ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں، جن میں اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کی مذمت کی گئی ہے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو مسترد کیا گیا۔ ان شائقین کی کہانی ورلڈ کپ کے آغاز سے کچھ دیر پہلے شروع ہوئی تھی، جس میں "ورلڈ کپ میں فلسطین" مہم کا آغاز ہوا۔ اسٹیڈیم میں فلسطینی کاز سے محبت کرنے والوں کی طرف سے ٹی شرٹس اور جھنڈے تقسیم کرنے اور تماشائیوں کے اسٹینڈز میں "فلسطینی نعرے لگانے جیسی چیزوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ قطر میں 2022ء کے عالمی کپ کے دوران صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینی کوششوں کے بارے میں بین الاقوامی بیداری بڑھانے کے مقصد سے سوشل میڈیا پر کئی مہمیں چلائی گئیں، جس میں درجنوں ممالک کے شائقین کو اکٹھا کیا گیا۔

اس کے علاوہ انٹرنیٹ کے لئے اشتہارات اور پوسٹر ڈیزائن کئے گئے، ان اشتہارات کا عنوان تھا "آپ ورلڈ کپ میں فلسطین کی حمایت کیسے کرسکتے ہیں؟" ان اشتہارات کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیا گیا تھا، جس میں فلسطینی پرچم کے ساتھ اسکارف اور فلسطین کے پرچم کے رنگوں کے کپڑوں کے استعمال کی تجاویز بھی دی گئی تھیں۔، اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی پرچم کے رنگوں پر مشتمل ایک بڑا رومال اور مفلر بھی شامل تھا۔ اس مہم میں عرب عوام اور قطر کے ورلڈ کپ کے شائقین سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اسٹیڈیم کے اردگرد سیڑھیوں، پلیٹ فارمز، میدانوں اور مختلف ٹیموں کے اجتماع کی جگہ پر فلسطین کے لیے حمایت کا اظہار کریں۔ "عالمی کپ میں #Palestine" کا ہیشٹیگ بھی عام تھا۔ "آزاد فلسطین" اور "قدس العربی" کا نعرہ  بھی اکثر کی زبان پر تھا۔ فلسطین آزاد کرو کے موضوعات والے بینرز کی تقسیم بھی نہایت اہمیت کی حامل تھی۔ اس کے علاوہ شرکاء سے کہا گیا کہ وہ ورلڈ کپ میں فلسطین کے لیے اپنی حمایتی سرگرمیوں کی فلمیں اور دستاویزی پروگرام سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں۔

فلسطین کی حمایت میں ایک غیر معمولی علامتی اقدام میں، تیونس کے شائقین نے 26 نومبر کو آسٹریلیا کے خلاف تیونس کی قومی ٹیم کے میچ کے 48 ویں منٹ میں فلسطینی پرچم بلند کرکے 1948ء کے سانحے کی یاد منائی۔ مراکشی شائقین نے بھی کروشیا کے خلاف اپنی قومی ٹیم کے میچ کو انصاف کے حصول اور "شیرین ابو عاقلہ" کی شہادت کی یاد منانے کے موقع کے طور پر استعمال کیا۔ "شیرین ابو عاقلہ" ایک فلسطینی صحافی تھیں، جسے اس سال کے شروع میں جنین پر اسرائیلی فوجی حملے کی کوریج کرتے ہوئے صہیونیوں نے شہید کر دیا تھا۔ ورلڈ کپ کے دوران، فٹ بال کے شائقین نے "نو ٹو نارملائزیشن" کے تھیم والے پوسٹر اٹھا رکھے تھے اور "شیرین ابو عاقلہ" کی تصویر کی ٹی شرٹس پہنی ہوئی تھیں۔ بلاشبہ یہ اقدامات صرف عرب اور فلسطینی شائقین کے لیے نہیں تھے بلکہ غیر عرب اور اسلامی ممالک کے شائقین نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کی اور فلسطینیوں کی آزادی کی حمایت کی۔

قطر میں فٹبال ورلڈ کپ کے دوران فلسطینی قوم کی حمایت کے حوالے سے جو واقعات دیکھے گئے۔ یہ کہانی کا صرف ایک رخ ہے، اس کہانی کا دوسرا رخ بھی ہے، اور وہ صیہونیوں کی کھل کر مخالفت ہے۔ اس قابض صیہونی حکومت کی طرف سے فلسطینی زمینوں پر قبضے پر عوامی بیزاری کا اعلان بھی اس موقع پر پوری طرح سامنے آیا۔ میڈیا پرسن اور وہ صہیونی صحافی جو کئی عرب ممالک کے ساتھ  اسرائیل کے کامیاب اور امید افزا تعلقات کو معمول پر لانے کی امید کے ساتھ متعدد نیوز ٹیموں کی شکل میں قطر گئے تھے، انہیں اپنی رپورٹس کی تیاری کے دوران وہاں موجود لوگوں اور غیر ملکی مسافروں سے ایک غیر متوقع رویہ کا سامنا کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر Haaretz اخبار کے نمائندے نے 2022ء کے ورلڈ کپ کے دوران فلسطین کے لیے فٹ بال شائقین کی بھرپور حمایت کے معاملے کا ایک رپورٹ میں باقاعدہ ذکر کیا ہے۔

اس اخبار کے رپورٹر "عوزی دان" نے عالمی کپ کے دوران فلسطین کے لیے وسیع پیمانے پر حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک رپورٹ میں اس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ دوحہ کی گلیوں اور اسٹیڈیمز میں فلسطینی پرچم لہرانے تک محدود نہیں ہے، بلکہ قطر کے اسٹیڈیموں میں جلی حروف میں بینرز اور بل بورڈز نصب کیے گئے ہیں، جن پر FREE PALESTINE کے الفاظ تحریر ہیں۔ ایک ایسا عمل جس کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا ہے۔ تمام ورلڈ کپ کے شائقین اس میں شامل ہوگئے ہیں۔ اسی تناظر میں انھوں نے لکھا: "یہ تل ابیب کے رہنماؤں کے لئے واضح پیغام ہے۔ "عوزی دان" نے قطر میں لہرائے جانے والے جھنڈوں میں صیہونی حکومت کے جھنڈے کی عدم موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید لکھا: "گذشتہ ورلڈ کپ میں ہمارا جھنڈا لہرایا گیا تھا، لیکن یہاں قطر میں ہمارا جھنڈا نہیں تھا اور میرے خیال میں اسرائیلی حکام کو اس سلسلے میں پہلے سے کچھ کرنا چاہیئے تھا۔ لیکن لگتا ہے کہ اسرائیلی حکام نے موجودہ حقیقت کو صحیح طور پر سمجھ لیا تھا اور وہ جانتے تھے کہ دنیا کی رائے عامہ بالخصوص عربوں اور مسلمانوں میں اسرائیل کا کیا مقام ہے، لہذا انہوں نے خود کو زیادہ پریشان نہیں کیا۔

اس رپورٹر نے مزید کہا ہے کہ دوحہ کے تمام حصوں بشمول کافی ہاؤسز، ریسٹورانوں، دکانوں، سڑکوں اور بسوں میں فلسطینی پرچم کا نظارہ اس قدر وسیع تھا کہ ہم فلسطین کی قومی فٹ بال ٹیم کو عالمی کپ میں شرکت کرنے والی 33ویں ٹیم کے طور پر تصور کر رہے تھے۔ صیہونی حکومت کے چینل 12 نے اپنی ایک رپورٹ میں تاکید کی ہے کہ تیونس کے شہریوں کے لیے فلسطین، عالمی کپ میں کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے۔ اس  لائیو رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تیونس کی قومی فٹ بال ٹیم کو آسٹریلیا کا سامنا تھا، لیکن اس ٹیم کے شائقین دیگر مسائل میں مصروف تھے اور ان میں سے بہت سے افراد فلسطینی قوم کی حمایت میں مظاہرے میں شریک تھے، جس میں فلسطینیوں کی حمایت کا  واضح پیغام تھا۔ تیونس کے شہری اسٹیڈیم میں فلسطین کی آزادی کے موضوع پر پلے کارڈز لے کر آئے تھے، اس حد تک کہ ان میں سے کچھ نے ان میچوں کو فلسطین کے واقعات کو دنیا کے سامنے بیان کرنے کا ایک اچھا موقع سمجھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ورلڈ کپ فٹ بال میچوں کے انعقاد کو فلسطینیوں اور اسلامی ممالک کے مسلمانوں کے لیے فلسطینیوں کے نظریات کی حمایت کا اعلان کرنے کا ایک سنہری اور ناقابل تلافی موقع قرار دیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر کے فوٹو گرافروں اور صحافیوں نے ان نشانیوں اور علامتوں کی تصاویر کو دنیا بھر میں شیئر کیا۔ امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے بھی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ عالمی کپ میں فلسطین کا مسئلہ مرکزی مسئلہ بن گیا۔ اس اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں مزید کہا: "جب مراکش کی ٹیم کے ارکان گروپ تصاویر کے لیے جمع ہوئے تو کچھ کھلاڑیوں نے اپنے ملک کا جھنڈا اٹھا کر جشن منایا، لیکن وہاں ایک جھنڈا اور بھی تھا، جسے کئی کھلاڑیوں نے دکھایا اور وہ جھنڈا تھا فلسطین کا۔ ایک ایسا جھنڈا جو سٹیڈیم کے تمام حصوں میں نظر آرہا تھا، درحقیقت یہ واقعہ اس ورلڈ کپ میں ہوا، جو پہلی بار مشرق وسطیٰ میں منعقد ہوا۔

امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کی رپورٹ میں مزید آیا ہے: "اس ورلڈ کپ کو بہت سے مشکل سوالات کا سامنا رہا، ان میں سے ایک یہ ہے کہ کھیلوں کے مقابلے میں کسی قسم کی سیاسی رائے دینے کی اجازت ہوتی ہے اور کیا اس طرح کے کھیلوں کے مقابلوں میں سیاست کی کوئی جگہ ہے یا نہیں؟ بلاشبہ فیفا کے قوانین، فٹ بال اور سیاست کو ملانے سے منع کرتے ہیں، لیکن یورپیوں نے یوکرین کی وجہ سے ان قوانین کو توڑا اور انہیں سزا نہیں دی گئی، جو یقیناً مغرب کے دوہرے معیار کی ایک مثال ہے۔ حال ہی میں پولینڈ کی قومی ٹیم کے کپتان "رابرٹ لیوینڈوسکی" نے کہا ہے کہ وہ ورلڈ کپ میں یوکرین کے پرچم کے رنگ کا بازو بند باندھیں گے۔ اس کے علاوہ اوپٹاسیا Optasia جیتنے والے مصری اسکواش کھلاڑی "عمر فراج" نے مارچ 2022ء میں لندن میں ہونے والی چیمپیئن شپ کے موقع پر کہا تھا کہ "ہمیں کبھی بھی کھیلوں میں سیاست کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن اب اچانک ایسا ہوگیا۔ اس لیے اب جبکہ اجازت مل گئی ہے تو مجھے امید ہے کہ دنیا میں ہر جگہ ہونے والے ظلم و جبر پر آواز اٹھائی جائے گی اور لوگ بھی جان لیں گے کہ پچھلے 74 سالوں میں فلسطینیوں پر کتنا ظلم ہوا ہے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی