حوزہ نیوز ایجنسی | حقیقت، حقیقت ہوتی ہے چاہے مانی جائے یا نہ مانی جائے مگر اس کی واقعیت و حقانیت میں فرق آنے والا نہیں ہے۔ توحید ایک حقیقت ہے اگر کوئی وحدانیت خدا کا اقرار کرے گا تو وہ یکتا پرست کہلائے گا اور انکار کرنے والا منکر و باطل خداؤں کا طرفدار کہلائے گا، مگر کسی کے اقرار و انکار سے خدا کی الوہیت و وحدانیت میں ذرہ برابر بھی فرق آنے والا نہیں ہے، باپ، باپ ہے، بیٹا اگر باپ کو باپ تسلیم نہ کرے تو باپ کی ابوبیت میں کوئی فرق آنے والا نہین ہے ہاں بیٹا نالائق ضرور کہلایے گا، حقیقت ہمیشہ اپنا ثبوت پیدا کر لیتی ہے کیوں کہ حقیقت نے ثبوت کو پیدا کیا ہے نہ کہ ثبوت نے حقیقت کو، اٹھتے ہوئے دھویں دور سے پتہ دیتے ہیں کہ فلاں جگہ آگ روشن ہے، دن کی روشنائی یہ ظاہر کرتی ہے کہ آسمان میں آفتاب روشن ہے، اگر کوئی ان حقائق کا منکر ہو جائے تو وہ اھل منطق و عقلاء کی نظر میں بے وقوف و احمق کہلائے گا، پس اگر کوئی چیز "اظہر من الشمس" ہو تو اس کا انکار کرنے والا کیا کہلائے گا؟
دربار خلافت میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسلم الثبوت ملکیت کا سراسر انکار کرکے بنت رسول الثقلین بی بی فاطمہ زھرا صلوات اللہ علیہا کے حق میں آنے والے وراثت پدری کو جھٹلانے والے کیا کہلائیں گے؟
فدک حضرت زہرا (س ) کا حق تھا یہ کوئی ہوائی فائرنگ نہیں نہ کوئی من گڑھت داستان کہ جس کی بنیاد خیالات پر مبنی ہو اور اسے افسانہ کا نام دے دیا جائے بلکہ کتب تاریخ بھری پڑی ہیں کہ فدک صدیقہء طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا حق تھا جسے حضور اکرم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم الھی کے اشارے پر اپنی چہیتی بیٹی کو تحفہ میں عطا فرمایا تھا۔(1)
فدک
خیبر کا سرسبز و شاداب، پربہار علاقہ جہاں کھجوروں کے درختوں کی قطاریں پربار ثمرات کیساتھ لگی ہوئی تھیں، جس سے خیبر کے یہودی فائدہ اٹھاتے تھے، جس کا مالک فتح خیبر کے موقع پر "یوشع بن نوح" تھا، اس سرزمین کو "فدک بن ھام" بھی کہتے ہیں کہ جس نے پہلی بار اس زمین پر سکونت اختیار کیا تھا-(2)
فدک کا علاقہ مدینہ منورہ سے دو یا تین دن کے فاصلہ پر تقریبا ایک سو چالیس کیلو میٹر کی دوری پر حجاز میں واقع تھا، جہاں خرموں کے دختوں کی کثرت اور پھونٹتے چشموں کے حسین نظارے تھے۔(3)
فدک فقط نبی و علی نے فتح کیا
ساتویں ہجری کا سال تھا جب خیبر کے قلعے یکے بعد دیگرے علی(ع) کے ہاتھوں فتح ہو رہے تھے حتی کہ دو یا تین قلعہ باقی رہ گئے تھے اسکو محاصرہ میں لے کیا گیا تھا۔(4)
یہودیوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امان چاہی کہ آپ ان تینوں قلعوں کو چھوڑ دیں ہم اپنے تمام مال آپ کے ہاتھوں سپر کر دیں گے، حضور پر نور نے ان کی درخواست منظور فرمالی، اس کے بعد جب یہ خبر فدک کے یہودیوں تک پہونچی کہ لشکر اسلام نبی(ص) و علی(ع) کے ہاتھوں فتح کر چکا ہے تو وہ بہت خوف زدہ ہوئے اور مرسل اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عرض کیا ہم ایمان نہیں لائیں گے بلکہ اس کے عوض مصالحت کرکے ہم سے آدھا فدک لے لیں اور ہمیں اپنے سابقہ دین پر چھوڑ دیں۔(5)
اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب امیر حضرت علی علیہ السلام کو یہودیوں کی جان کی ضمانت اور مصالحت کی غرض سے بھیجا تاکہ ان سے اس شرط پر مصالحت انجام پائے کہ جو بھی فدک کے یہودیوں میں سے اسلام لائے گا وہ پانچواں حصہ اپنے مال سے دیگا اور جو اپنے سابقہ دین پر باقی رہے گا وہ اپنے سارے مال ہمیں سپرد کر دے گا۔(6)
از روئے قرآن فدک مملوک رسول
یہ ظاہر ہیکہ بانئ اسلام و دین اسلام کو کم و بیش جو بھی علاقہ ملا، وہ کفار و یہودیوں کے قبضہ سے برآمد ہوکر ملا اور اس کے حصول کے دو طریقہ رہے ایک تو یہ کہ کفار یا یہودیوں کی مسلمانوں سے جنگ ہوئی اور جہاد و قتال سے وہ علاقہ یا مال حاصل کیا تو قرآن کریم نے اسکو غنیمت کہہ کر اس میں پانچواں حصہ رسول(ص)و آل رسول(ص) کا حصہ قرار دیا اور جو علاقہ یا مال بغیر جنگ و جدال کے حاصل ہوا تو اس کو "انفال" اور "فئ" کے لفظوں سے تعبیر کیا اور اس کا کل حصہ رسول اکرم کی ملکیت کاملہ قرار دیا اور بتا دیا کہ اس میں رسول(ص) و اقرباء رسول(ص) کے سوا عامة المسلمین کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
پہلی صورت کا تذکرہ خدا وند متعال اس طرح فرماتا ہے:
"واعلموا انما غنمتم من شئ فإن الله خمسه و للرسول و لذى القربى و اليتامى والمساكين وابن السبيل......." (7)
" جان لو! جو چیز بھی تم بطور غنیمت پاؤ اس کا پانچواں حصہ اللہ و رسول اور ان کے اقرباء کا اور یتیموں و مسکینوں و مسافروں کا ہے۔۔۔۔"
طبری مختلف روایات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ جب بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مال غنیمت لایا جاتا تھا تو آپ اسکو پانچ حصوں میں تقسیم فرماتے تھے، چار حصہ مجاہدوں کیلئے مخصوص کرتے اور جو ایک حصہ بچتا اس میں سے ایک مشت اٹھاتے اسے بیت اللہ خانہء کعبہ کے نام سے مخصوص کرتے اور اسی طرح بقیہ حصہ تقسیم کرتے تھے جس میں اپنے لئے اور اپنے قرابتداروں سے مخصوص فرماتے اسی طرح یتیموں و مسافروں کا برابر کا حصہ قرار دیتے تھے۔(8)
وہ مال اور علاقہ جو بغیر جنگ و جدال کے حاصل ہوا اس کے بارے میں ارشاد ہو رہا ہے:
"افاءالله على رسوله منهم فما او جفتم عليه من خيل ولا ركاب ولكن الله يسلط رسله على من يشاء والله على كل شئ قدير" (9)
"جو جائداد اللہ نے اپنے رسول کو ان لوگوں(یہودیوں) سے دلائی ہے پس تم لوگوں نے نہ چڑھائی کی تھی نہ گھوڑے دوڑائے تھے نہ اپنے اونٹ دوڑائے تھے (اس میں تمہارا حق کیوں ) یہ تو اللہ کا کرنا ہے جس پر چاہتا ہے اہنے رسولوں کو مسلط کر دیتا ہے اور اللہ ہر شئ پر قادر ہے۔"
فخر رازی " فئ" کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ صحابہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امید ظاہر کی کہ آپ "فئ" مال ان کے درمیان تقسیم کریں جس طرح مال غنیمت تقسیم فرماتے ہیں، لیکن خدا وند عالم نے آیت فئ نازل کرکے "فئ" اور " غنیمت" کے مابین فرق ڈال دیا، حضور نے فرمایا: "غنیمت کیلئے تم نے مشقت و زحمت کا سامنا کیا ہے اپنی سواریوں پر سوار ہوکر جہاد کیا ہے، لیکن "فئ" میں تم نے کوئی زحمت و مشقت نہیں اٹھائی ہے لہذا پروردگار "فئ" کے تصرف کا پورا حق اپنے پیامبر کے سپرد فرمایا ہے تاکہ جہاں چاہے اپنے مصرف میں استعمال کرے۔"(10)
علماء اھل سنت کا اقرار:
بلاذری "فتوح البلدان" میں لکھتے ہیں: " فكان نصف فدك خالصا لرسول الله صلى الله عليه وآله."(11)
"آدھا فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے مخصوص تھا"
ابن ھشام رقمطراز ہیں: "فكانت فدك لرسول الله صلى الله عليه وآله خالصة لانه لم يوجف عليها بخيل ولا ركاب" (12)
"پس آدھا فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے مخصوص تھا اس لئے کہ نہ اس پر چڑھائی کی گئی تھی نہ گھوڑے دوڑائے گئے نہ اونٹ"
ابن کثیر کہتے ہیں: "کانت ھذہ الاموال لرسول اللہ(صلیہ اللہ علیہ وآلہ ) خاصة"(13)
"پورا فئ کا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخصوص قرار پایا"
امام بخاری بھی لکھتے ہیں: "فان ذالك كله كان لنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ ) خاصة" (14 )
جب ان تمام صراحت صریحہ سے واضح ہے کہ فدک خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق تھا تو آپ جسکو چاہیں اپنے مال میں تصرف کا حق دیں اللہ کے رسول(ص) کے معاملہ میں کسی امتی کا کیا حق بنتا ہے کہ ملکیت پیغمبر اکرم(ص ) کے حصول کیلئے پوری ایڑی چوٹی کازور لگائے۔
خوبصورت تحفہ نزول آیت فدک کی روشنی میں
جب حضور سرور کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کا معرکہ سر کر لیا اور اس کے ضمن میں فدک جیسی سر زمین بھی مل چکی تو فاتحانہ انداز میں مدینہ کی طرف رواں دواں ہیں، ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا ، نگاہ رسالت نے نونہال رسالت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت نہیں کیا ہے ، ادھر ٹوٹ کر محبت کرنے والی چہیتی بیٹی بھی بابا کی زیارت کیلئے دل فرش راہ بنائے انتظار کر رہی ہے، معمول کے مطابق سرکار رسالت مآب(ص) داخل مدینہ ہوتے ہی در سیدہ زہرا (س) کا رخ کیا پہونچ کر دق الباب کیا بیٹی نے دروازہ کھولا بابا کو پاتے ہی بہت خوشحال ہوئیں اور اپنے مرکز سکون سے جا لگیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیر تک بیٹی کو سینے سے لگائے رہے، ایک نظر صحن خانہ کی طرف دوڑاتے ہیں دیکھا کہ ام ایمن تشریف فرما ہیں وہ فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا سے ملاقات کرنے آئی ہیں، یہ ام ایمن ان خواتین میں سے ہیں جنھیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے، یہ خاندان رسالت سے بے انتہا محبت کرنے والی ہیں۔(15)
حضور پرنور اپنی بیٹی کے پاس بیٹھ جاتے ہیں، حسن و حسین (علیہما السلام) نانا کے زانو پہ بیٹھ جاتے ہیں، خوشیوں کی سماں چھائی ہوئی ہے انھیں خوسیوں کے ماحول میں حضرت جبریل وحی الہی لیکر خدمت مرسل اعظم(ص) میں حاضر ہوتے ہیں کہ ارشاد خدا وندی ہے: "وآت ذالقربى حقه"(16) یعنی اپنے قرابتداروں کے حق کو ادا کر دیجئے، پیامبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوال کیا: جبریل "ذي القربى" سے کون لوگ مراد ہیں جبریل امین دوبارہ بارگاہ رب العزت سے وحی لیکر آتے ہیں عرض کرتے ہیں اللہ کے پیارے رسول(ص) فدک فاطمہ(س) کو ہدیہ کر دیجئے آپ(ص) نے بی بی زہرا(س) کے سامنے منشاء الہی کا اظہار فرمایا: اے میری پارہء جگر خدا یہ چاہتا ہے کہ فدک میں تم کو تحفہ میں دے دوں۔(17)
صدیقہء طاہرہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا بابا آپ مجھ پر ولایت رکھتے ہیں جب تک آپ کا سایہء مبارک ہم پر باقی ہے ہم اس میں تصرف کا حق نہیں رکھتے حضور(ص) نے فرمایا بیٹی میرے بعد مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا ہو سکتا ہے تم سے فدک لے لیا جائے بی بئ دو عالم نے عرض کیا: منشأ خدا و رسول(ص) کو قبول کرتی ہوں۔(18)
تبھی عصمتی نطاہیں مستقبل میں پیش آنے والے پروپیگنڈے کو دیکھ رہی تھیں، تشویش ظاہر ہوئی، بیٹی سے کاغذ قلم طلب فرمایا، علی مرتضی( ع) سے عرض کیا اے علی(ع )! فدک کیلئے سند تیار کرو، لکھو کہ میں نے فدک زھرا(س)کو تحفہ میں دیا ہے،امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے تحریر تیار کیا، ام ایمن گواہی دیتی ہیں ، اللہ کے پیغمبر(ص) ام ایمن کے ایمان و صداقت پر فخر کرتے ہوئے جنت کی بشارت دیتے ہیں، حضرت زھرا(س) نے تحریر کو سنبھال کر رکھ لیا، جب غصب فدک کا مسئلہ سامنے آیا تو آپ نے ابوبکر کے سامنے بابا کی طرف سے ملنے والی تحریر کو پیش کیا تھا۔(19)
آیت "ذی القربی" کے شان نزول پر فریقین کا اتفاق:
تمام علماء اھل تشیع کے نزدیک یہ امر مسلم الثبوت ہے کہ آیت "ذی القربی" میں خدا وند متعال نے حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ فدک اپنی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کو تحفہ میں دے دیں۔(20)
اکثر مفسرین اھل سنت نے ذی القربی" کی آیت کا موضوع فدک کے بارے میں بیان کیا ہے کہ فدک زہرا(س ) کو اپنے بابا کی طرف سے تحفہ میں ملا تھا۔(21)
احسان ایک باغ کا:
جب فدک کا باغ جود وسخاوت کی سلسبیل حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے دست مبارک میں آیا تو آپ کے کارگزاران ہر سال پوری آمدنی آپ کی خدمت میں پیش کرتے تھے، جس کی کل سالانہ آمدنی تقریبا ستر ہزارسے ایک سو بیس طلائی سکہ تھے۔(22 )
بی بی دو عالم اس حاصل والی رقم سے اپنے گھر کا خرچ پورا کرنے کے علاوہ فقراء و مساکین میں تقسیم فرماتی تھیں،جس سے بھوکوں کا پیٹ بھرتا تھا، بیواؤں کا گھر چلتا تھا، نہ جانے کتنے یتیم بچوں کی پر امید نگاہیں زہرا(ص ) کی طرف سے پوری ہونے والی ضرورتوں کیلئے بندھی رہتی تھیں۔(23)
وفات رسول(ص ) تک بنت رسول کے ہاتھ میں تھا: فدک؛
تا حیات مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فدک کا علاقہ زھرا علیہا السلام کی تصرف میں رہا، حضرت علی مرتضی علیہ السلام فرماتے ہیں: "بلى كانت في أيدينا فدك من كل ما أظلته السماء، فشحت عليها نفوس قوم و سخت عنها نفوس قوم آخرين....."
یعنی ہمارے پاس کبھی مالی ذخیرہ نہیں رہا، ہاں آسمان کی تمام وسعتوں کے نیچے محض ایک فدک ہمارے ہاتھوں میں تھا لیکن افراد قوم نے ہمارے حق کے بارے میں بخل اختیار کیا، مگر ہم۔نے کبھی اس کو اپنی سیر چشمی کی بنا پر خیر باد کہہ دیا، اتمام حجت کرنے کے بعد بزور حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، اس کا بہترین فیصلہ اللہ کرے گا۔۔۔۔(24 )
مولائے کائنات کے ان جملوں سے صاف ظاہر ہوتا ہیکہ فدک تا وفات رسول اعظم(ص )، حضرت زہرا (س) کے دست مبارک میں تھا۔(25)
بعد وفات رسول(ص) بوستان زھرا(س) پر حملہ:
جب کر چکا جہاں سے سفر آخری رسول
بدلی ہوا تو دین کے بدلے گئے اصول
اختر مرحوم
ابھی نبئ رحمت نے اس دارفانی سے آنکھ بند کیا تھا، جسد مبارک بھی سپر لحد نہیں ہونے پایا تھا تبھی بہت سی للچاتی نظروں نے الھی منصب کو ہتھیانے کی کوشش کرنے لگے، جس کے حصول کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، انسانیت سوز کارنامے انجام دیئے گئے، کوئی بھی دہشتگردی نہیں چھوڑی گئی، ایسے جانی دشمن کہ بنت رسول (ص) کا گھر پھونک تماشا دیکھا جا رہا تھا، پھر ان مظالم کے درمیان باغ فدک پر بھی ٹوٹ پڑنا ستم بالائے ستم، ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ رحلت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دس روز بعد حضرت ابوبکر کے مأمور کئے گئے چند خاص افراد باغ فدک کی طرف بھیجے گئے اور حضرت زہرا(س) کے معین کئے گئے سارے کارگزاران کو باہر نکال کر دیا پھر اپنے کارندوں اور مزدوروں کو مأمور کر دیا، اسکی پوری آمدنی اپنی غاصبانہ حکومت کی بنیاد مضبوط کرنے کیلئے پانی کی طرح بہائے، وہ باغ جو امر خداوندی و دست پیغبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےحضرت زھرا(س) کے دست مبارک میں آیا تھا، جو فقط ایک باپ بیٹی کے درمیان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اللہ کے رسول(ص) نے لوگوں کو بلاکر بھی گواہ بنا دیا تھا۔(26)
صادق آل محمد امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: " جب ابو بکر تخت نشین ہوا تو ایک جماعت فدک کی طرف روانہ کرکے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے تمام ذمہ داروں کا اخراج کر دیا۔(27 )
غصب فدک پر حضرت زہرا (ص)کا احتجاج:
جب غاصبین حکومت و خلافت نے باغ فدک کو بھی غصب کر لیا تو صدیقہء طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا (ص ) دفاع حق ولایت امیر المؤمنین (ع ) کیساتھ ساتھ غصب فدک پر بھی صدائیں احتجاج بلند کرتی رہیں، تین طریقہ سے فدک کا مطالبہ فرمایا، ایک گھر سے کسی کو بھیج کر، دوسرا آپ خود خلیفہء وقت کے پاس گئیں، تیسرا علنی طور پر مسجد میں ولولہ انگیز جطبہ ارشاد فرمایا۔
پہلا مرحلہ: حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ دختر پیمبر(ص ) نے میرے باپ کے پاس کسی کو بھیج کر تین چیزوں کا مطالبہ کیا، ایک حوائطہ مدینہ(28)، ایک فدک، تیسری چیز خیبر کا بچا ہوا خمس، لیکن میرے باپ نے جواب میں کہلوایا کہ بنت رسول(ص ) سے کہہ دو کہ پیغمبر(ص )نے فرمایا: ہم کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے، ہم جو مال چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے:
آخر کار میرے باپ نے حضرت زہرا (ص )کو کچھ نہ دیا ۔(29)
دوسرا مرحلہ: متعدد بار بی بی زہرا(ص ) نے فدک کے مطالبہ کیلئےاپنا پیام ابوبکر کے پاس بھیجتی رہیں لیکن جب اس پر خلیفہء وقت نے کوئی توجہ نہ دیا تو عزتوں کی شاہزادی حضرت فاطمہ زہرا(ص ) ابو بکر کے پاس خود گئیں اور اپنے حق کا مطالبہ کیا تو خلیفہء وقت دوبارہ وہی پیغمبر (ص ) کی طرف منسوب کرکے جھوٹی حدیث پیش کرتا ہے کہ رسول(ص ) نے فرمایا ہے کہ ہم وارث نہیں بناتے، پھر خلیفہ کہتا ہے کہ پیغمبر(ص )نے یہ بھی فرمایا: جب ہم اس دنیا سے جائیں گے تو میرا پورا کا پورا مال، بیت المال میں شمار کیا جائے گا"-(30 )
مرحوم شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "جس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جہان سے رحلت فرما گئے تو آپ(ص ) کی مسند پر ابوبکر بیٹھ کر آپ(ص ) کی جانشنی کا دعویدار ہوگیا، اس کے بعد فدک میں حضرت زہرا(ص )کے معین کئے گئے کارگزاروں کو باہر نکال کر دیا، حضرت زہرا (ص) ابو بکر کے گھر گئیں اور فرمایا: تم جانشینئ پیغمبر(ص ) کے دعویدار ہو، میرے بابا کی مسند پہ بیٹھنے کو اپنا حق سمجھتے ہو؟ اور باغ فدک سے میرے وکیلوں و کارگزاروں کا بھی اخراج کر دیا ہے جبکہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اسے میرے بابا نے عطا کیا تھا اور اس سلسلے میں میرے پاس گواہ بھی موجود ہیں ، بنت رسول (ص ) کو جب پھر جھٹلایا گیا آپ بیت الشرف کی طرف پلٹتی ہیں امیر المؤمنین علی (ع ) سے سارا ماجرا بیان کرتی ہیں، امام علی(ع ) نے فرمایا: اے دختر رسول(ص ) دوبارہ جائیں اور کہیں: "تم سمجھتے ہو کہ پیغمبر(ص ) وارث نہیں بناتے جبکہ سلیمان، داؤد کے وارث قرار پائے(31 ) اور یحیی، زکریا کے وارث بنے(32 )، شہزادئ کونین نے دوبارہ آکے یہ استدلال پیش کیا تو عمر نے کہا: یہ تمکو کس نے سکھایا ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے شوہر نامدار نے، ابوبکر نے کہا: عائشہ اور عمر گواہی دیتے ہیں کہ رسول اسلام (ص ) نے فرمایا کہ پیامبر کا کوئی وارث نہیں ہوتا، حضرت زہرا(ص ) نے فرمایا: یہ اسلام میں پہلی جھوٹی گواہی دی گئی ہے پھر فرماتی ہیں کہ پیغمبر اعظم (ص ) نے فدک مجھکو عطا کیا تھا، میرے پاس گواہ بھی موجود ہیں، ابوبکر نے کہا گواہوں کو لے آؤ، حضرت زہرا(ص ) امام علی (ع ) اور ام ایمن کو گواہ بنا کر پیش کرتی ہیں، ابوبکر نے کہا: ام ایمن کیا تم نے رسول اسلام (ص ) سے کچھ ایسا سنا ہے ؟ ام ایمن اور مولائے کائنات نے ایک زبان ہوکر جواب دیا: ہم نے پیغمبر اسلام (ص ) سے سنا ہیکہ فاطمہ، خواتین جنت کی سردار ہیں، اس کے بعد ام ایمن نے فرمایا: کیا خواتین جنت کی سردار اگر کسی مال کا دعوی کرے کہ وہ میرا ہے تو کیا وہ مال اس کا نہیں گا؟ اور میرے لئے بھی رسول اکرم(ص ) نے فرمایا ہے کہ میں اہل بہشت میں سے ہوں، لہذا میں نے جیسا پیغمبر اسلام (ص ) سے سنا ہے ویسے ہی بیان کرتی ہوں ، میں حقیقت کو چھپانے والی نہیں ہوں ، عمر نے کہا: ام ایمن ان تمام باتوں کو الگ رکھو تم کس سلسلے میں گواہی دینے آئی ہو؟ ام ایمن نے فرمایا: میں خانہء زہرا (ص ) میں بیٹھی تھی اسوقت پیغمبر اسلام(ص ) بھی تشریف فرما تھے کہ تبھی جبریل امین وحی لیکر نازل ہوئے اور پیغمبر اسلام(ص ) سے فرمایا: فدک زہرا(س ) کو دے دیں، رسول اسلام نے فدک حضرت فاطمہ (س ) کو عطا کردیا، اس کے بعد رسول اعظم (ص ) نے مجھکو اور علی(ع ) کو مخاطب کرکے فرمایا: اے ام ایمن اور علی(ع ) گواہ رہنا کہ میں نے فدک، حکم خداوندی سے زہرا کو دیا ہے، عمر نے کہا اے ام ایمن تم تنہا ہو ایک عورت کی گواہی کافی نہیں ہے اور علی کی گواہی بھی نہیں مانی جائے گی کیوں کہ اس میں ان کا فائدہ ہے، بنت رسول(س ) غضبناک ہو کر اٹھیں اور فرمایا: "خدایا ان دونوں (ابو بکر و عمر ) نے تیری نبی زادی پر ظلم کیا ہے ان پر اپنی سختی اور عتاب زیادہ کر"۔ (33 )
اس کے بعد خلیفہ اول نے زہرا (س ) کو فدک واپس کرنےکیلئے سند لکھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سند فدک کیلئے دے رہا ہوں فدک کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ نہ کرنا تبھی عمر داخل دربار ہوتا ہے کہتا ہے کیا لکھے ہو خلیفہ نے کہا فدک واپس کرنے پر سند تحریر کیا ہوں، عمر نے کہا پورا عرب ہم سے جنگ کرنے کیلئے آمادہ ہے اگر فدک واپس کر دیئے تو ہمارے پاس کیا بچے گا یہ کہہ کر عمر نے حضرت فاطمہ زھرا (س ) سے وہ تحریر لیکر پارہ پارہ کر دیتا ہے۔(34 )
شہزادی دوعالم حضرت زہرا سلام اللہ علیہا روتی ہوئی بیت الشرف کی جانب پلٹتی ہیں ، اس کے بعد امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام ابو بکر کے پاس گئے اور کہا کہ اگر میں دعوی کروں کہ میرا مال فلاں مسلمان کے ہاتھ میں ہے تو تم کس سے گواہی طلب کروگے ، مجھ سے جو میں دعوی کر رہا ہوں یا اس سے جو اس میں تصرف کر رہا ہے ؟ خلیفہ جواب دیتا ہے، اس صورت میں تم سے گواہ طلب کروں گا ، کیونکہ تم دعویدار ہو، نہ کہ اس سے جو مال میں تصرف کر رہا ہے۔ امام علی(ع) نے فرمایا: یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ فدک ایک طویل عرصہ سے حضرت فاطمہ زہرا(ص) کے تصرف میں تھا اور دختر پیامبر (ص ) اس کی مالکہ تھیں، تو تم نے کیوں حضرت زہرا (ص) سے گواہی طلب کی؟ ابو بکر کچھ جواب نہ دے سکا ۔(35)
تیسرا مرحلہ: جب دختر رسول(س ) کو یقین ہو گیا کہ یہ میرا حق واپس کرنے والے نہیں ہیں تو آپ سر پر چادر ڈالتی ہیں، کچھ بنی ہاشم کی خواتین کیساتھ مسجد کی طرف اس طرح جارہی تھیں جیسے کہ پیغمبر اسلام(ص )چل رہے ہوں ، ہوبہو رسول اسلام (ص ) کی شبیہ معلوم ہو رہی تھیں، وارد مسجد ہوتی ہیں، مسجد مھاجرین و انصار سے چھلک رہی تھی اسی دوران خواتین اور مردوں کے درمیان پردہ لگایا جاتا ہے، بنت مصطفے (ص ) کی درد بھری ہوئی آواز میں ایک ایسی رونے کی چیخ نکل پڑی کی چاہنے والوں کے درمیان کہرام برپا ہو گیا تھوڑی دیر تک زہرا (س ) خاموش رہیں اس کے بعد گویا ہوئیں۔۔۔۔۔(36)
پھر ایک تاریخ ساز، پر درد، طولانی خطبہ ارشاد فرمایا جو حمد الہی ، بعثت پیغمبر اسلام(ص ) اوامر و نواہی پروردگار، فلسفہء احکام و امامت و ولایت ، نفاق کے ظہور ہو جانے، اور مطالبہء فدک وغیرہ پر مشتمل خطبہ تھا۔
سر دست، ہم فقط مطالبہء فدک کے سلسلے میں، چند جملہ خطبہء فدک سے پیش کرتے ہیں:حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ابوبکر کو مخاطب کر کے فرماتی ہیں : " بابن ابی قحافة! أفی کتاب اللہ ان ترك اباك ولا ارث أبی ؟!"
اے ابو قحافہ کے بیٹے! کیا اللہ کی کتاب میں ہے کہ تمہیں اپنے باپ کی میراث مل جائے اور مجھے اپنے باپ کی میراث نہ ملے ؟
(اس جملہ میں میراث نہ ملنے کو ایک قسم کی اہانت قرار دیا ہے ، اے مخاطب ! کیا تو اس قابل ہے کہ اپنے باپ کا وارث بن جائے لیکن میں اس قابل نہیں ہوں کہ اپنے بابا کی وارث بنوں)
"لقد جئت شیئا فریا! أفعل عمد ترکتم کتاب اللہ و نبذتموہ ورآء ظھورکم"؟
تم نے بری چیز پیش کی، کیا تم نے جان بوجھ کر کتاب اللہ کو ترک کر دیا اور اسے پس پشت ڈال دیا ہے۔
جبکہ قرآن میں ارشاد ہو رہا ہے: " وورث سلیمان داؤد" (37)
اور سلیمان داؤد کے وارث بنے۔ اور یحیی کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: "فھب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من آل یعقوب"(38)
پس مجھے اپنے فضل سے ایک ولی عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث بنے۔
نیز ارشاد ہوتا ہے: "واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ"
خونی رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔
نیز ارشاد ہو رہا ہے : " یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین" (39)
اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں ہدایت فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔
نیز ارشاد رب العزت ہو رہا ہے: "ان ترک خیرا الوصیة للوالدین والأقربین بالمعروف حقا علی المتقین"(40)
اگر مرنے والا مال چھوڑ جائے تو اسے چاہئے کہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کیلئے مناسب طور پر وصیت کرے۔
(والدین اور قریبی رشتہ داروں کے بارے میں ارث کے باوجود وصیت کی تاکید ہے، چونکہ والدین ہر صورت میں وارث ہیں تو جہاں میراث کے باوجود وصیت کا حکم ہے وہاں اصل میراث سے محروم کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ )
پھر بی بی نے فرمایا: اس کے باوجود تمہارا خیال ہے کہ میرے باپ کی طرف سے میرے لئے نہ کوئی مخصوص آیت نازل کی ہے جس میں میرے والد گرامی شامل نہیں ہیں؟۔(41)
نکات و نتائج:
فدک؛ فقط ایک سر سبز و شاداب باغ نہیں تھا بلکہ حق و باطل کو پرکھنے کا ایک انمول ترازو جس کا سر چشمہ حکمت الہی اور علوم اہل بیت ہے اور اس کے ذریعہ حقانیت آل محمد(ص) ثابت ہوتی ہے۔
سب سے پہلے مندرجہ ذیل چند نکات آیہء ذی القربی(وآت ذالقربی حقه) کی روشنی میں ملاحظہ ہو:
1۔ اس آیت میں خدا نے فاطمہ زہرا کو رسول (ص)کا ذوی القربیٰ قرار دیا ہے اور سورۂ شوریٰ کی آیت٢٣ میں اجررسالت کو ان کی مودت پر منحصر کیاہے لہٰذا اگر کوئی فاطمہ سے محبت نہ کرے تو اس نے اجر رسالت ادا نہیں کیا۔
2۔ ایک مقام پر خدا نے فرمایا کہ اگر میں نے تم سے اجررسالت طلب کیا ہے تو وہ خود تمہارے لئے ہی ہے:(مَاسَئَلْتُکُمْ مِنْ اَجْرٍ فَھُوَ لَکُمْ)(42)، ایک مقام پر فرمایا: (قُلْ مَا اَسْئَلُکُمْ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَائَ اَنْ یَتَّخِذَ اِلَیٰ رَبِّہِ سَبِیْلًا) میں تم سے اجر رسالت صرف اس لئے طلب کررہا ہوں کہ تم اپنے رب کی راہ پر گامزن ہوجاؤ ؛ (43)، یعنی خدا تک پہنچنے کا واحد راستہ فاطمہ زہرااور ان کی آل و اولادکی محبت ہے اور احادیث و روایات میں ان کی محبت کی شرط یہ بھی قرار دی گئی ہے کہ ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کیا جائے۔
3۔جب خدا تک پہنچنے کا واحد راستہ صرف محبت حضرت فاطمہ ہے تو اس کا مفہوم یہ ہواکہ شیطانی راستہ فاطمہ زہرا سے عداوت ودشمنی اور ان پر ظلم وستم روا رکھنا ہے۔
4۔اہل بیت کے حقوق کا ادا کرنا واجب ہے، چاہے وہ مادی حق ہو یا معنوی یاپھر اطاعت کا حق، جب پیغمبر(ص)کو سختی کے ساتھ حکم دیا جارہا ہے کہ اپنے اہل بیت کا حق ادا کیجئے تو ہماری کیا حیثیت ہے! بدرجۂ اولیٰ واجب ہے کہ ہم ان کے حقوق ادا کریں۔
5۔مذکورہ آیت میں لفظ ''آتِ'' کا استعمال کیا گیا ہے جو عربی گرامر کے اعتبار سے فعل امر ہے، امر کا مطلب یہ ہے کہ اس کو عملی جامہ پہنانا واجب اور مخالفت حرام ہے لہٰذا اگر حقوق اہل بیت کی ادائیگی سے قاصر رہے تو خدا کی نافرمانی صادق آتی ہے جو انسان کو کفر کے زمرے میں لے جاتی ہے۔
6۔اہل بیت ، جناب فاطمہ کی اولاد ہیں اور ان کے ذوی القربیٰ بھی ہیں لہٰذا قرآن کے اعتبار سے ان کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے ۔
7۔ صدر اسلام میں صدیقۂ طاہرہ کی مادر گرامی نے اپنی تمام دولت و ثروت کو اسلام کی حقانیت اور اس کی نشر و اشاعت کے لئے وقف کردیا تھا ، اپنی دولت کی ایک ایک پائی اسلام کی راہ میں لٹا دی تھی ...لہذا قدرت نے چاہا کہ جس دولت و ثروت کو خدیجہ نے اسلام کی راہ میں قربان کیا تھا اسے ان کی بیٹی فاطمہ کو واپس کردیاجائے ۔
غصب فدک کے چند وجوہات مندرجہ ذیل:
1۔ حکومت کی بنیاد مضبوط کرنا: اسی لئے جب بی بی زہرا نے اپنے گواہوں کو پیش کیا تو خلیفہ نے چاہا کہ فدک واپس کر دیا جائے تو عمر نے کہا کہ جب کوئی مال ذخیرہ نہیں ہوگا تو کیسے لشکر تیار کروگے جبکہ پورا عرب تم سے جنگ کے لئے آمادہ ہے۔
یاامام موسی کاظم علیہ السلام کو جب مہدی عباسی نے چاہا فدک واپس کر ے اس کے حدود پوچھے تو امام نے جب فدک کے حدود بتائے کہ ایک سرا بین النہرین ہے، ایک سرا افریقہ، ایک سرا۔۔۔۔تو اس نے کہا یہ تو ہماری پوری مملکت ہے ہمیں کیا ملے گا؟
2۔خاندان رسالت کی تضعیف: غاصبین جانتے تھے کہ علی سے بڑھ کر مسلمانوں میں کوئی صاحب حق نہیں ہے پیغمبر(ص ) سے جو معنویت آپکو حاصل ہے وہ کسی کو حاصل نہیں ہے، اگر ان کے ہاتھ میں فدک چلا گیا تو گویا حکومت بھی ہاتھ سے نکل گئی پھر علی ایک بڑا لشکر ہمارے خلاف تیار کر سکتے ہیں لہذا فدک غصب کر کے خاندان رسالت کےاقتصادی ھالت کو دبایا جا سکتا ہے۔
3۔ماضی کا کینہ: علی و زہرا (علیہما السلام ) کو خدا و رسول (ص ) کی جانب سے جو فصیلتیں ملی تھیں وہ غاصبین حکومت کو نصیب نہ ہو سکی تھیں اس لئے جو مدتوں سے سینوں میں کینہ چھپا ہوا تھا وہ اب انتقام کی صورت میں ظاہر ہو رہا تھا، اسی لئے جناب فاطمہ زہرا (ص ) خطبہء فدک میں فرماتی ہیں: " ظہر فیکم حسیکة النفاق" تمہارے دلوں میں نفاق کے کانٹے نکل آئے۔
حوالہ جات:
(1) بحار الانوار: ج 21، ص 25 و ج 19، ص105، 110، 115، 118، 121، 195 نقل از: اسرار فدک، ص 10، تألیف: محمد باقر انصاری و سید حسین رجائی۔
(2) معجم البلدان:ج 4، ص 238، نقل از: اسرار فدک: ص 9
(3) معجم البلدان:ج 4، ص 238، الکامل: ج1، ص 298، نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ ص18، تالیف: سید محمد واحدی، ناشر: قم، مسجد مقدس صاحب الزمان(جمکران)، 1375
(4) ابن اثیر، الکامل، ج 1، ص 594، تاریخ طبری ج 1، ص15، نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ ص 17
(5) فتوح البلدان: ص38 ، تاریخ طبری: ج 3،ص 15 نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ ص 18
(6) اسرار فدک، ص 10
(7) سورہء انفال/41
(8) جامع البیان، ج 10، ص 4، 5 ، انساب الاشراف،ج1،ص 516، 517، تھذیب، ج 4،ص 113، نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ،ص21
(9) سورہء حشر/6
(10) تفسیر کبیر،ج 29، ص 284، نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ، ص 22
(11) فتوح البلدان:46،نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ، ص 22
(12) سیرة ابن ھشام: ج 3 ص 301، نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ، ص 23
(13) البدایہ والنھایہ: ج 3، ص 231، نقل ا: فدک ذوالفقار فاطمہ، ص 24
(14) سیرہء حلبی: ج3 ، ص 487، نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ، ص 24
(15) طبقات الکبری: ج 8، ص 224۔ احتجاج: ج 1، ص 91۔ نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ: ص 61
(16) سورہء اسراء/26
(17) اصول کافی: ج1 ص 622، تہذیب ج4 ، ص 129،وسائل الشیعہ:ج6،ص366، نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ،ص 27
(18) مناقب ابن شہر آشوب، ج1 ص 142، نقل ا
نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ، ص 27
(19) بحار الانوار: ج 21 ، ص 23، نقل از: اسرار فدک ص11
(20) تبیان: ج 8، ص 253، مجمع البیان : ج 16، ص 189، نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ 26
(21)سواہدالتنزیل: ج 1 ،ص 339، مجمع الزوائد و منبع الفوائد: ج 7، ص 49، درالمنثور:ج 4،ص 177، کنزالعمال: ج 3 ، ص 767، تفسیر فرات الکوفی: ج1 ، ص 239، نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ:ص 25
(22) بحار الانوار: ج 29، ص 118 نقل از : اسرار فدک:ص 11
(23) بحار الانوار: ج 29،ص 123، ح 25، نقل از : اسرار فدک: ص 11
(24) نھج البلاغہ، مکتوب 45
(25) روزھای فاطمہ، ص 92، مصنف: علی صفائی حائری
(26) شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج16، ص 263، نقل از : اسرار فدک: ص11
(27) تفسیر قمی: ج2 ، ص 155، اختصاص:ص 182، بحار: ج 29 ، ص 127،128، نقل از: فدک ذو الفقار فاطمہ:ص31
(28)مدینہ کے سات باغ: مثیب ، صافیہ، دلال، حسنی، برقہ، اعواف، ام ابراہیم، جو پیغمبر اسلام(ص)کو ملے تھے، مغازی: ص 378،نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ: ص 51
(29) صحیح مسلم: ج5، ص 153، باب الجہاد، صحیح بخاری: ج 5، ص82، باب فتح خیبر، جامع الاصول، ج10،ص 384، سنن کبری:ج 6، ص 300، صواعق محرقہ: ص 14،بحار: ج 29،ص 11، نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ: ص 34
(30) معجم البلدان : مادہء فدک، فتوح البلدان: ص 238، جامع الاصول:ج 10،ص 386،نقل از فدک ذوالفقار فاطمہ:ص 34
(31) "وورث سلیمان داؤد" سورہء نمل/16
(32) "۔۔۔۔۔یرثنی و یرث من آل یعقوب" سورہء مریم /5
(33) اختصاص مفید: 183، نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ: ص 40
(34) سیرہء حلبی: ج 3 ،ص 488، شرح نھج البلاغہ،ابن ابی الحدید:ج 16 ، 274، بحار: ج 29،ص 128، البرھان : ج3، ص 263، نقل از: فدک ذو الفقار فاطمہ:ص 36
(35)بحار الانوار: ج 29 ، ص 129، نقل از: طبرسی، الاحتجاج، ماخوذ از: فدک، ص 45، تالیف: حاج شیخ رضا استادی،چاپ چہارم: 1386میلادی
(36) شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید : ص 16، 211، کشف الغمہ:ج 2 ،ص 106، نقل از: فدک ذوالفقار فاطمہ:ص 82
(37) سورہء نمل/16
(38)سورہء مریم/ 5
(39) سورہء نساء/11
(40)سورہء بقرہ/ 180
(41) خطبہء فدک، ص 80، مترجم: شیخ محسن علی نجفی، ناشر: ادارہء نشر معارف اسلامی لاہور
(42)سورۂ سبا/47
(43)سورۂ فرقان/5
تحریر: دانش عباس خان