سلیمانی

سلیمانی

افغانستان کے قصبے دشت برچی میں ہولناک دہشت گردانہ حملے کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ اس حملے میں 35 نوجوان بچے اور بچیاں شہید ہو گئی تھیں۔ یہ بچے اور بچیاں کاج تعلیمی مرکز میں یونیورسٹی کا داخلہ امتحان دینے کی غرض سے آئے تھے۔ البتہ اس سے پہلے بھی سیدالشہداء گرلز کالج اور کئی دیگر اسپتال اور تعلیمی مراکز ایسی بربریت کا شکار ہو چکے تھے۔ اسی طرح کئی مساجد اور امامبارگاہوں کو بھی انسان سوز دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ان تمام دہشت گردانہ اقدامات میں شہید ہونے والے افراد کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع ہزارہ برادری سے ہے۔ دشت برچی میں رونما ہونے والا واقعہ تازہ ترین سانحہ ہے۔ یہ دہشت گردانہ حملہ کرنے والا صرف ایک دہشت گرد تھا جس نے نہتے بچوں اور بچیوں پر فائرنگ کرنے کے بعد خودکش دھماکہ کر دیا۔
 
جمعہ کے روز سے ہی جب یہ حملہ انجام پایا ہے، عوام کی جانب سے وسیع ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس حملے کے بعد ایک بار پھر "ہزارہ برادری کی نسل کشی" کا ایشو میڈیا میں سامنے آ گیا ہے۔ افغانستان میں مختلف قومی اور مذہبی گروہوں کی جانب سے شیعہ اقلیت کے حقوق کی پامالی اور ان پر دھونس جمانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ان دنوں افغانستان میں جو حالات حکمفرما ہیں ان کی روشنی میں "ہزارہ کشی" کی اصطلاح رائج ہو چکی ہے۔ ان سب کا اشارہ ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کرنے میں موجودہ افغان حکومت کی ناکامی کی جانب ہے۔ اگرچہ دشت برچی میں رونما ہونے والے حالیہ خودکش دھماکے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی لیکن ماضی میں اسی قصبے میں انجام پانے والے دیگر دہشت گردانہ اقدامات کی ذمہ داری تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی شاخ امارت خراسان قبول کر چکی ہے۔
 
دشت برچی میں کاج تعلیمی مرکز پر ہونے والے اس خودکش دھماکے میں 82 بچے اور بچیاں زخمی بھی ہو گئی ہیں جن میں سے زیادہ تعداد بچیوں کی ہے۔ خون میں لت پت ان بچیوں کی تصاویر اور شہید ہونے والے بچوں اور بچیوں کی خون آلود کتابوں اور کاپیوں کی تصاویر نے اس واقعے کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی سوگوار فضا حاکم ہے لیکن افغانستان کی خواتین نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا اور سڑکوں پر نکل کر احتجاج بھی کر رہی ہیں۔ گذشتہ ہفتے کابل، ہرات اور مزار شریف سمیت افغانستان کے مختلف شہروں میں خواتین کی ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے منعقد ہوئے ہیں۔ مظاہرین نے منظم منصوبہ بندی کے ذریعے ایک ہی قوم کے افراد کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنانے کو نسل کشی قرار دیا اور اس کی شدید مذمت کی ہے۔
 
افغانستان پر طالبان کے برسراقتدار آئے ایک برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور اس تمام عرصے میں لڑکیوں کو کالج لیول پر تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسی طرح لڑکیوں کے پرائمری اسکولوں کی تعداد بھی بہت کم کر دی گئی ہے جبکہ یونیورسٹی میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کو علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سماجی سطح پر بھی خواتین کی موجودگی اور فعالیت پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ مزید برآں، گذشتہ چند دنوں سے افغانستان کے مختلف شہروں میں کاج تعلیمی مرکز پر دہشت گردانہ حملے کے خلاف نکلنے والی خواتین کی ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں پر بھی طالبان نے حملہ کیا ہے۔ اسی طرح طالبان نے رپورٹرز کو ان مظاہروں کی کوریج دینے کی اجازت بھی نہیں دی۔
 
حملے میں شہید ہونے والی ایک بچی کی والدہ نے الجزیرہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس کی بچی حال ہی میں مارشل آرٹس اور انگلش کی کلاسز میں شرکت کرنا شروع ہوئی تھی۔ ایک اور شہید ہونے والی بچی کی کاپی میں لکھا ہوا تھا کہ وہ ناول نگار بننے کا شوق رکھتی ہے۔ حملے میں زخمی ہونے والی 17 سالہ بچی مریم فاروز کہتی ہے: "میں ریاضی کا ایک سوال حل کر رہی تھی کہ اچانک فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ ہم سب اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور اتنے میں ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ ہم نے قلم اور کاپیاں چھوڑ کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی۔ ہم سب اپنی جان بچانے کی کوشش میں تھے کہ اتنے میں خودکش دھماکہ ہو گیا۔"
 
دوسری طرف عالمی سطح پر بھی افغانستان میں جاری اس نسل کشی پر مجرمانہ خاموشی اور بے حسی پائی جاتی ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی نظر میں افغانستان میں کھیلی جانے والی اس خون کی ہولی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ افغانستان کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر رچرڈ بینٹ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہزارہ خواتین کے تعلیمی مراکز پر حملے بند ہونے چاہئیں۔ لیکن اس حد تک موقف کا اظہار قابل قبول اور کافی نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت بننے کے بعد سے اب تک ہزارہ برادری سمیت اہل تشیع شہریوں پر متعدد دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں جن میں سے صرف 13 کی ذمہ داری داعش کی شاخ امارت خراسان نے قبول کی ہے۔ مجموعی طور پر ان حملوں میں 700 افراد شہید اور زخمی ہوئے ہیں جبکہ عالمی سطح پر بہت کم ردعمل سامنے آیا ہے۔

تحریر: فاطمہ کریم خان

کراچی: مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی صدر علامہ باقرعباس زیدی نے کہا ہے کہ جشن ولادت باسعادت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے موقع پر ملک بھر کی طرح سندھ بھر میں بھی 12 تا 17 ربیع الاول بفرمان امام خمینی ہفتہ وحدت منایا جائیگا۔ اس سلسلے میں مشترکہ اجتماعات منعقد کر کے عظیم وحدت کا پیغام دینگے، تمام مکاتب فکر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان اجتماعات میں شرکت کرکے عملی وحدت کا مظاہرہ کریں اور دشمن کی سازش کو ناکام بنا دیں،ملک کے چپے چپے میں شیعہ سنی ملکر میلاد النبی ﷺکے جلوس نکالیں،ایم ڈبلیوایم کے کارکنان سبیلیں لگائیں اور شرکائے جلوس کا استقبال کریں،انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شیعہ، سنی متحد ہیں کوئی فرقہ واریت نہیں، چند عناصر ملک کے امن کو غارت کرنا چاہتے ہیں جنہیں ہم اپنے اتحاد سے ناکام بنا دیں گے،عالم اسلام معاشرتی مشکلات اور عالم کفر کی سازشوں سے نبردآزما ہونے کیلئے سیرت پیغمبر ختمی مرتب ﷺسے استفادہ کرے۔

سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ہم سب کلمہ بولتے ہیں اور ہمارا کلمہ ایک ہے اور ہم ایک لفظ پر یقین رکھتے ہیں، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ خدا کی وحدانیت اور یہ کہ ہم سب خدا کے ہیں اور خدا کی مخلوق کی اپنی کوئی چیز نہیں ہے اور یہ کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی دونوں جہانوں کی کامیابی اور فلاح کا باعث ہے، اس اقرار کی تجدید کی جائے۔

میں محب وطن یوتھ آرگنائزیشن کا سیکرٹری جنرل معراج خان کاکڑ ہوں، میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ایوان ثقافت کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے ہمیں یہاں مدعو کیا اور ہمیں بولنے کا موقع دیا، اور میں شرکاء کا بھی بے حد مشکور ہوں۔ 

سب سے پہلے، مجھے یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم، تنظیم اور اس کے اراکین، ایک ملک اور ایک قوم کے لیے کام کرتے ہیں۔ ایک ملک اور ایک قوم، ایک قوم کیسے بنتی ہے۔ قوم کی تعمیر کا طریقہ یہ ہے کہ ہمارے دشمن، جو اسلام پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، سب سے پہلے ہمارے درمیان تفرقہ اور فرقہ واریت کو ہوا دیں۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فرقے نہیں تھے۔ اس وقت شیعہ یا سنی کا کوئی تصور نہیں تھا، ہم سب مسلمان تھے اور اتحاد و اتفاق سے رہتے تھے۔ ہم سب کا ایک لفظ تھا لیکن اس کے بعد ہمارے مذہب پر حملہ کرنے والے ہمارے دشمن عناصر نے ہمارے درمیان فرقے پیدا کر کے ہمارے اتحاد کو تباہ کر دیا اور اس کے بعد دشمن نے فرقہ واریت اور لسانیت کی بنیاد پر تفرقہ پیدا کرنے کی بہت کوششیں کیں۔

مثال کے طور پر، فارسی بولنے والا مسلمان پشتو بولنے والے مسلمان سے بہتر ہے، یا اس کے برعکس، اور مسلمانوں کو ان مسائل کی بنیاد پر الگ کر دیا گیا تھا۔ پہلے فرقہ واریت اور پھر زبان کے فرق کی بنیاد پر تقسیم۔ انہوں نے لوگوں میں نفرت پیدا کی اور لوگ بھول گئے کہ ان کا کلمہ ایک ہے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ ہم مذہب اور اسلام کو بھول گئے جس کے لیے ہم کوشش کر رہے تھے اور ہم فرقہ واریت میں پڑ گئے جہاں ایک فرقہ اچھا ہے اور دوسرا فرقہ برا ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کے خلاف فتوے جاری کرنا شروع کر دیے۔

میں اور میری تنظیم لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی سنی شیعہ کو خارج کرنے کا فتویٰ دیتا ہے تو وہ درحقیقت دشمن کی چکی میں پسنے والا اور کرائے کا دشمن ہے، اگر کوئی شیعہ کسی سنی کو خارج کرتا ہے تو وہ درحقیقت کرائے کا دشمن ہے اور ہمارے مذہب اور اسلام پر حملہ کرے گا۔ اگر کوئی اہل حدیث کسی فرقے کے خلاف فتویٰ دے کر تفرقہ پیدا کرے اور لوگوں کو جنگ پر اکسائے اور مسلمانوں کو دوسرے مسلمانوں کو قتل کرنے پر اکسائے تو یہ دراصل دشمن کا کرائے کا قاتل ہے۔ ہم ایسے لوگوں اور ان کی سوچ کے خلاف کام کر رہے ہیں اور سب سے درخواست ہے کہ ان کی بات نہ سنیں۔ وہ ہمارے مذہب اور اسلام پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہم نے ایک ربط کے ذریعے ایران کے  اور آپ دونوں کو اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی تجویز پیش کی۔ جیسا کہ ہم پاکستان میں کام کرتے ہیں، ہر مسلمان ہماری طرح اپنے ملک میں کام کر سکتا ہے۔ ہم فرقہ واریت، نسل پرستی اور لسانیت سے لڑنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ نسل پرستی کے معاملے میں وہ ایک دوسرے کے خلاف کام کرتے ہیں اور تشہیر کرتے ہیں کہ مثال کے طور پر ایک قوم کمزور ہے اور ہم بہتر ہیں، جب ایسا نہیں ہے تو ہم سب مسلمان ہیں اور ایک دوسرے پر کوئی برتری نہیں رکھتے۔ بہتر اور افضل وہ ہے جو دین اسلام اور انسانیت کے لیے کام کرے۔

میری تجویز یہ تھی کہ آپ کی صدارت کی جانب سے ایک تنظیم یا دفتر تشکیل دیا جائے اور اس دفتر کو اپنی ریاستوں کی بنیاد پر کابینہ تشکیل دی جائے، اور پھر شہر اور اضلاع اپنے لیے کابینہ تشکیل دیں اور ایک تنظیم بنائیں، اور یہ تنظیم محکمہ تعلیم میں اس کی شاخیں اور شاخیں تعلیم کی تمام شاخوں میں ہونی چاہئیں، خواہ وہ معیشت سے متعلق ہوں یا دیگر شعبوں سے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام شاخوں کے اپنے افراد اور ممبران ہوں تاکہ وہ دین، اسلام اور ملک کے لیے کام کر سکیں۔

ایک کانفرنس منعقد کریں اور فرقہ واریت، نسل پرستی اور لسانی مسائل سے لڑنے کے لیے میٹنگز جیسے دیگر طریقے استعمال کریں۔ ہمارے دشمن ہماری زندگی کی تمام شاخوں میں گھس چکے ہیں اور دین اور ملک پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دشمن کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں میں لوگوں کو اتحاد اور اسلام کا درس دیتے ہوئے داخل ہونا چاہیے اور ان کا تعارف کرانا چاہیے۔ اسلام کی روح تاکہ ہم دشمن کے پروپیگنڈے اور کوششوں کو روک سکیں۔ یہ واحد طریقہ ہے جس سے آپ اپنے دین اور ملک کو بچا سکتے ہیں۔ میں تمام اسلامی ممالک کو اس معاملے کی دعوت دیتا ہوں۔

بین الاقوامی اسلامی کانفرنس جو اس وقت جاری ہے، میں اس کانفرنس کے منتظمین کا بے حد مشکور ہوں، جو مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کے لیے اس بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں، جو 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک جاری رہے گی۔ اوول یہ ایک بہت اچھا خیال اور عمل ہے، اور جس شخص نے یہ تجویز کیا ہے وہ بہترین سوچ اور بہترین بصیرت رکھتا ہے۔ تمام ممالک کے تمام مسلمان بھائیوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ جہاں کہیں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور دوری پیدا کرنے کی بات ہو اور جہاں دوسروں کی تکفیر کی بات ہو وہاں جذباتی ہو کر کام نہ کریں اور نہایت سوچ سمجھ کر لوگوں کو ان تک پہنچایا جائے۔ اتحاد اس نے پڑھا اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ خنجر لے کر کسی کی گردن ماریں۔ ان حرکتوں کو روکنا چاہیے۔ کیونکہ اس معاملے میں ہم نے دشمن کے ایجنڈے پر عمل کیا ہے۔ تم اپنی زبان سے دشمن کے پروپیگنڈے اور کوششوں کا مقابلہ کرو، تمہاری زبان تمہاری تلوار سے زیادہ غالب آئے گی۔ اگر کوئی شخص گمراہ ہو گیا ہو، اگر تم اسے اپنی زبان سے بار بار رہنمائی کرو انشاء اللہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے اور دشمن اور دشمن کا مقصد ان شاء اللہ ناکام ہوگا۔
 

تقریب نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق 36ویں بین الاقوامی اسلامی اتحاد کانفرنس کی پریس کانفرنس بعنوان "اسلامی اتحاد، امن اور عالم اسلام میں تقسیم و تصادم سے بچاؤ، انتظامی حل اور آپریشنل اقدامات" تھی۔ اس پریس کانفرنس میں تقریب مذہب اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حمید شہریاری نے شرکت کی۔مذاہب اسلامی کا عالمی اجتماع کل صبح 10 بجے جامعہ اسلامیہ میں واقع شیخ الاسلام شہداء مموستا کانفرنس ہال میں میڈیا کی موجودگی میں منعقد ہوگا۔

واضح رہے کہ 36ویں بین الاقوامی اسلامی اتحاد کانفرنس 9 اکتوبر سے 14 اکتوبر 2022 تک منعقد ہوگی۔

بین الاقوامی اتحاد اسلامی کانفرنس 12 اکتوبر سے بذات خود شروع ہوگی جس میں کانفرنس کے شرکاء کی سپریم لیڈر سے ملاقات، امام خمینی (رہ) کے روضہ مبارک کی زیارت جیسے پروگرام شامل ہیں۔ اور امام راحل کے نظریات کے ساتھ معاہدے کی تجدید، نماز جمعہ میں شرکت وغیرہ کا سلسلہ 14 اکتوبر تک جاری رہے گا۔

نیز، بین الاقوامی اسلامی اتحاد کانفرنس 17 اکتوبر سے 14 اکتوبر تک متعدد ویبینرز کی شکل میں منعقد کی جائے گی۔
 
.taghribnews.
 
 
 
لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری نے 36ویں اسلامی اتحاد کانفرنس کے ویبینار کے دوران لبنانی الاسلامیہ کے رکن خلیل حمدان کے ذریعہ پڑھے گئے ایک پیغام کے دوران کہا کہ امل موومنٹ نے حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حمید شهریاری، دبیرکل مجمع تقریب کو  سراہتے ہوئے کہا: اسلامی اتحاد کانفرنس کے انعقاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اب بھی اتحاد کو قائم اور مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: "اتحاد کلمہ" وہی نعرہ ہے جس پر امام خمینی (رح) نے ہمیشہ مختلف مواقع پر تاکید کی ہے۔ یہ موقف آج بھی رہبر انقلاب اسلامی ایران کی تقاریر، خطبوں اور رہنما اصولوں میں جاری ہے اور خارجہ پالیسی میں اسلامی جمہوریہ کے حکام کی روش ظالم حکومتوں کا مقابلہ کرنے اور مختلف میدانوں میں استکباری لوگوں کا مقابلہ کرنے پر مبنی ہے۔ 

نبی باری نے مزید کہا: اس کانفرنس کا انعقاد مختلف اسلامی مذاہب کے درمیان مختلف سطحوں پر اختلافات اور تنازعات کو پس پشت ڈالنے کی اہمیت پر تاکید ہے اور یہ اہمیت الہی رسی کو پکڑنے اور مسلمانوں کے درمیان مشترکات پر زور دینے کے سوا حاصل نہیں ہو گی۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایک فکری تعاون کی ضرورت ہے۔ شاید استعمار، جبر اور قبضے امت اسلامیہ کے ہمارے مسائل کا حصہ ہیں، لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہم مسلمانوں کی مشترکہ اقدار سے اخذ کرنے والے نظریات کی کمی ہے۔ خاموشی اور دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کرنا۔جرائم ظالمانہ ہیں۔  

انہوں نے اشارہ کیا: تنازعہ صرف ان لوگوں کے درمیان ہونا چاہئے جن کا ایک دوسرے کے ساتھ کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔ مختلف اسلامی مذاہب کے درمیان اتحاد کے حصول کے لیے ایک مستعد اور زیادہ سے زیادہ کوشش کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اب ہمارے پاس ایسے دشمن ہیں جنہوں نے امت اسلامیہ کے بچوں کے ذہنوں کو نشانہ بنایا ہے اور امت اسلامیہ کے بچوں پر اثر انداز ہونے، حقائق کو مسخ کرنے اور ان کی یادوں کو متاثر کرنے کے لیے اپنی تمام سہولتیں اور صلاحیتیں بروئے کار لائی ہیں۔ دشمن میڈیا، معاشی اور فکری میدان میں اس میدان میں اپنے مقاصد کی تکمیل میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔

لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے مزید کہا: دشمن مزاحمت پر دہشت گردی کی حمایت اور تکفیریوں اور داعش کے جرائم پر پردہ ڈالنے جیسے الزامات لگاتے ہیں۔ گویا وہ جمہوریت کے علمبردار ہیں۔ اس ذریعے سے انہوں نے مسئلہ فلسطین کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور صیہونی حکومت کو، جس نے اپنے قیام کے بعد سے مقبوضہ علاقوں کے اندر اور باہر بہت سے جرائم کا ارتکاب کیا ہے، ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ گویا اس حکومت کی خلاف ورزی کی گئی ہے! دوسری جانب صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا ہدف بھی مسئلہ فلسطین کو تباہ کرنا ہے۔ دشمن اپنے تھنک ٹینکس، تحقیقی دفاتر اور سرکاری سیاسی عہدوں کے ذریعے امت اسلامیہ کی بصیرت اور بیداری کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے اشارہ کیا: امام موسی صدر نے جو خود بھی اتحاد کے داعی تھے، امت اسلامیہ کو صیہونی حکومت کے قریب ہونے سے خبردار کیا۔ یہ دعوت ان لوگوں کے لیے تھی جو شروع سے ہی صیہونیوں کے دھوکے میں تھے۔ انہوں نے دنیا کی صیہونیت کے خلاف بھی خبردار کیا۔

دشمن سے نمٹنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ مثال کے طور پر، لبنان اور فلسطین میں اسلامی مزاحمت کا تجربہ اب بھی امید کی کرن کو ظاہر کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے: "فتح قریب ہے اور القدس تمام عقائد اور مذاہب کے وفادار اور معزز لوگوں کے ہاتھوں آزاد ہوگا۔ " مجھے اس بات پر زور دینا چاہیے کہ آج دہشت گردی تباہی کے دہانے پر ہے۔ یہ مسئلہ بہادر شام اور وطن عزیز عراق کے ساتھ ساتھ کسی بھی دوسری جگہ پر واضح ہے جہاں تکفیر اور دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔ 

انہوں نے کہا: اسلامی علماء اور مفکرین کی طرف سے اسلامی اتحاد کی دعوت دوسروں کو نظر انداز کرنے اور انہیں خارج کرنے کی دعوت نہیں ہے۔ یہ دعوت دراصل ان مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہے جن سے امت اسلامیہ نمٹ رہی ہے۔ ان چیلنجوں میں سے دشمنوں کی طرف سے امت اسلامیہ کی سہولیات، صلاحیتوں اور دولت کو نشانہ بنانا ہے۔ اس لیے ہم سب کو ہر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اسلامی ممالک کے درمیان ارتقا کی مختلف شکلوں کو فعال کرنے پر زور دینا چاہیے۔ یہ فطری بات ہے کہ اس دوران تمام ممالک کی خصوصیات اور خصوصیات اور ان کی قومی خودمختاری کا احترام کیا جائے۔

لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے کہا: اتحاد کا تصور صرف ایک مذہبی، فقہی اور نظریاتی تصور کے طور پر مختلف اسلامی ممالک کے درمیان تعامل، ارتقا اور تعاون کی تشکیل کے لیے کافی ہے۔ قدرتی وسائل کے انتظام اور انسانی وسائل کی ترقی میں حقیقی آزادی ایک بہت اہم مسئلہ ہے جس پر غور کیا جانا چاہیے۔ خاص کر چونکہ ہم اسلامی امت میں غریب نہیں ہیں اور ہمارے پاس بہت سے وسائل ہیں۔ ہمارا مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ اسلامی ممالک کے فائدے کے لیے ان وسائل کو سنبھالنے کا مسئلہ ہے۔ وہ ممالک جو ہمیشہ دشمنوں کی لوٹ مار کا نشانہ بنے رہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: اس کے ساتھ ساتھ ہمیں امت اسلامیہ کے تمام ممالک کو مختلف اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی میدانوں میں اپنے تشخص کے اظہار کا موقع فراہم کرنا چاہیے اور یہ مشرق کے اثرات سے آزاد ہونے سے ہی حاصل ہو گا۔ 

آج لبنان کو صیہونی حکومت کی تیل اور گیس کی دولت کو لوٹنے کی کوششوں کا سامنا ہے لیکن وہ کسی بھی حالت میں اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہو گا۔ مزید برآں، اسلامی جمہوریہ ایران بہت سے دباؤ کے باوجود اپنے وسائل اور صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے حق سے پیچھے نہیں ہٹا۔

آخر میں انہوں نے تاکید کی: وحدت کے علمبرداروں اور مشنریوں نے اپنے سفر کے راستے میں بہت زیادہ قیمتیں برداشت کیں، انہیں قید اور اذیتیں دی گئیں۔ ان میں سے کچھ کو اغوا کرکے لاپتہ بھی کیا گیا۔ مغوی اور لاپتہ افراد میں ہمیں امام سید موسیٰ صدر کا ذکر کرنا چاہیے جن کا نام تمام مذاہب میں پھیل چکا ہے۔ ہم امام موسی صدر اور ان کے دو ساتھیوں شیخ محمد یعقوب اور سید عباس بدرالدین کو لیبیا کی جیلوں سے آزاد کرانے کے لیے ایک وسیع مہم شروع کرنا چاہتے ہیں۔
.taghribnews.

تہران، ارنا – ایرانی صدر، اسپیکر اور عدلیہ کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دشمن ایک متحد اور مضبوط ایران کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں؛ انہوں نے دشمنوں کی جانب سے ملک کے خلاف جو وسیع سازشیں تیار کی جا رہی ہیں ان کو بے نقاب اور ناکام بنانے میں ایرانی عوام کی دانشمندی اور بیداری کی تعریف کی۔

یہ بات تینوں حکام کے سربراہان علامہ سید ابراہیم رئیسی، محمد باقر قالیباف اور علامہ غلامحسین اژہ ای نے ہفتہ کے روز صدارتی دفتر ایک ملاقات کے دوران کہی۔

ایرانی حکام نے اس بات پر غور کیا کہ ملک کے استحکام اور سلامتی کا تحفظ اقتصادی اور زندگی کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی معاشرے کو اپنے تمام اجزاء اور تمام طبقات کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد کی ضرورت ہے اور دشمنوں کی جانب سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف اٹھنے والی تقسیم کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے گزشتہ دنوں اور ہفتوں کے دوران سیکورٹی کا دفاع کرنے والی افواج کی قربانیوں اور کوششوں کو سراہا اور اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ سلامتی اور استحکام ملک کے اندر معیشت سمیت تمام شعبوں میں ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہے۔

Friday, 07 October 2022 18:13

اخلاق کی اہمیت

تزکیہ نفس اور اخلاق کی اہمیت پر روایات اہلبیت علیہم السلام میں متعدد بار زور دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای دام ظلہ فرماتے ہیں:

 

 

 

 اخلاق کا بنیادی ہدف

معنویت کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ انسان، خدائی اخلاق کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اخلاق، دیگر امور کے لیے مقدمہ نہیں ہے بلکہ بنیادی اصل ہے۔ دیگر امور جیسے پیامبران خدا کی حاکمیت وغیرہ مقدمہ ہیں اخلاق اللہ سے متصف ہونے کے لیے۔

 

علم کے بغیر اخلاق وبال بن جاتا ہے

آج عالمی سطح پر حاکم مختلف نظاموں کی ناکامی کا بنیادی سبب اخلاق اور معنویت سے دوری ہے۔معاصر اخلاقی بحران انسانیت کو نابودی کی طرف لے جا رہا ہے۔ انسان اس بات سے غافل ہے کہ اخلاق سے عاری علم معاشرے کے لیے وبال بن جاتا ہے۔علم اس وقت مفید بن سکتا ہے جب معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی شعبہ ھای حیات پر اخلاق کی حاکمیت قائم ہوجائے۔

 

 

اخلاق کی اہمیت اور ضرورت

میری نگاہ میں جوانوں کے لیے اخلاقی اور معنوی اقدار، حصول علم کی نسبت زیادہ ضروری اور اہم ہیں۔ انقلاب اسلامی انہیں اقدار کی خاطر وجود میں آیا ہے۔ علم کو ہمیشہ عمل کے ساتھ ہونا چاہیے اور ہمیں چاہیے کہ اس سلسلے میں کام کریں تا کہ تعلیم یافتہ طبقے میں غرور اور تکبر کا خاتمہ ہوجائے اور معاشرے میں پائی جانے والی بد اخلاقی اور کج فکری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکے۔

 

 

تکبّر کے نقصانات

انسان کی زندگی سے سلامتی اور سکون چھین لینے والی منفی خصلتوں میں سے ایک انتہائی خطرناک خصلت تکبّر ہے۔ انسانی معاشرے کے اکثر نقصانات کا سبب قوموں کا تکبر رہا ہے۔ تکبر جیسی مہلک بیماری کو کچلنے کا واحد نسخہ اسلامی عبادات باالخصوس نماز ہے جو موئثراور کارآمد علاج ہے۔

 

 

ترجمہ و اقتباس از کتاب تعلیم و تربیت از دیدگاہ مقام معظم رہبری)

 1: کتاب تعلیم و تربیت از دیدگاہ مقام معظم رہبری، بہ کوشش امیرحسین بانکی پور فرد و احمد قماشچی، تہران، تربیت اسلامی، اول، 1380ش، ص 132-160.

 

اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مقصود علی ڈومکی نے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہفتہ وحدت کے سلسلے میں مرکزی امام بارگاہ جامع مسجد امام حسن مجتبی علیہ السلام جیکب آباد میں نماز جمعہ کے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سید الانبیاء کی ذاتِ گرامی میں اعلیٰ انسانی صفات جمع تھیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحب خلق عظیم ٹھہرے۔ آپ کی سیرت طیبہ بنی نوع انسان کے لئے قابل تقلید ہے کیونکہ آپ کی سیرت طیبہ پوری بشریت کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ رہبر کبیر بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ہفتہ وحدت کا اعلان کرکے اسلام دشمن استکباری قوتوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا، جو لڑاؤ اور حکومت کرو کی منحوس منصوبے کے تحت مسلمانوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ شیعہ اور سنی اسلام کے دو بازو ہیں۔ جن کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے والا نہ تو شیعہ ہے اور نہ ہی سنی، بلکہ استعمار کا ایجنٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہفتہ وحدت کے موقع پر ملک بھر میں اتحاد بین المسلمین کے عنوان سے ریلیاں نکالی جائیں گی اور برادران اہل سنت کے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوسوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جائیں گی۔ علامہ مقصود ڈومکی کی تقریر کے دوران مسجد فضاء لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مرحبا یا مصطفیٰ کے نعروں سے گونج اٹھی۔

ایکنا نیوز- قرآن مجید کے تینتیسویں سورے کا نام احزاب ہے اور اس مدنی سورے میں تہتر آیات ہیں جو قرآم مجید کے اکسویں بائیسویں پارے میں ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے یہ قرآن کے نوے نمبر پر قلب رسول گرامی اسلام پر نازل ہوا ہے۔

سوره احزاب نام رکھنے کی وجہ اس سورہ میں کلمہ احزاب کا استعمال ہے جس کا مقصود کفار کے وہ گروہ ہیں جو مختلف قبائل کی صورت میں اسلام اور  رسول گرامی کے خلاف متحد ہوئے تھے اور جنگ احزاب شروع کی تھیں۔

 

اس سورہ میں ان حوادث کا ذکر ہیں جو ہجرت کے دوسرے اور پانچویں سال پیش آئے جسوقت تازہ اسلامی حکومت قایم ہویئ تھی اور مشرکین و منافقین اس تازہ اور کمزور حکومت کو ختم کرنے کے درپے تھے اس عرصے میں رسول گرامی اسلام ایک جانب جاہلیت کے قوانین سے جنگ میں مصروف تھے اور دوسری جانب ان سازشوں کا سامنا کرنے پر مجبور تھے۔

اس سورہ میں رسول گرامی اور انکے کردار اور رویے پر نکات موجود ہیں اور رسول گرامی کی بیویوں کے بارے میں ہدایات ہیں اور ان سے توقع کی بات کی جاتی ہے کہ وہ ترک دنیا اور دوسروں سے کارخیر میں پیش قدم ہو اور گناہوں سے دوری میں سرفہرست۔

دیگر نکات میں مرد و زن کی برابری اور کسب فیض میں کوشش کی بات کی گیی ہے، سورہ کی آیت 35 میں کہا گیا ہے: «إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا:

 

یقینا خدا نے مسلمان اور با ایمان مرد و زن، عبادت کرنے والی خواتین، سچے مرد و خواتین، صدقہ دینے والے مرد و زن، روز رکھنے والے، خود کو برائیوں سے دور رکھنے والے، خدا کو بہت یاد کرنے والے اور خدا کو بہت یاد کرنے والے جنکو اجر عظیم دیا جائے گا۔».

اس آیت میں مرد و خواتین کے لیے  10 کمال کو گنا گیا ہے جنمیں عقیدے کی درستگی، درست عمل، اخلاق جنمیں سے بعض واجب اور بعض مستحب ہیں اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ فضائل کے حصول میں مرد و زن میں کوئی فرق نہیں اور اسلام نکتہ نگاہ سے دونوں برابر ہیں

 رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 3 اکتوبر 2022 کو اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کی آفیسرز اکادمیوں کے کیڈٹس کے مشترکہ پاسنگ آؤٹ پروگرام میں شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے امن و سلامتی کی اہمیت اور اس میں مسلح فورسز کے کلیدی کردار پر روشنی ڈالی۔

آپ نے ایک نوجوان لڑکی کی موت کے بعد ایران میں ہونے والے فسادات کے تمام اہم پہلوؤں کا جائزہ پیش کیا۔ آپ نے امریکہ و اسرائیل کی سازش کا پردہ فاش کرتے ہوئے عدلیہ اور اداروں کو اہم ہدایات دیں۔ (1) رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

والحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللّہ فی الارضین.

مجھے بڑی خوشی ہے اور میں خداوند عالم کا شکر گزار ہوں کہ ایک لمبے وقفے کے بعد اس سال اس دن آپ عزیز جوانوں، فوجی کیڈٹس اور فوجی رینکنگ حاصل کرنے والے افسروں سے بالمشافہ ملاقات کی ایک بار پھر توفیق حاصل ہوئي۔ کئي ہزار جوانوں کا مسلح فورسز میں شامل ہونا ایک خوشخبری ہے، ایک نوید ہے، جو ہر سال دوہرائي جاتی ہے، چاہے وہ کیڈٹس ہوں جو فوجی کالجوں میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد فوجی افسر کا درجہ حاصل کر کے فورسز میں شامل ہو رہے ہیں اور کام میں مصروف ہو جائیں گے، چاہے وہ جوان ہوں جو فوجی کالج میں داخل ہو رہے ہیں اور کیڈٹ بن پر تعلیم شروع کرنا چاہتے ہیں، یہ سبھی کسی نے کسی طرح مسلح فورسز میں ایک نیا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ جوانوں کا یہ داخلہ اپنے اندر تعمیر نو اور استحکام کے پیغام لیے ہوئے ہے۔ جوان جہاں بھی جاتے ہیں، جس ادارے میں، جس تنظیم میں، در حقیقت وہ اپنے ساتھ اس مرکز کی تعمیر نو اور استحکام کا پیغام ساتھ لیے ہوتے ہیں۔ تمام میدانوں میں جوانوں کی موجودگي، امید افزا ہے، یعنی مختلف علمی و سائنسی، معاشی، سیاسی، تنظیمی، عسکری اور دیگر میدانوں میں جہاں بھی جوان پہنچتے ہیں، اپنے ساتھ امید، تعمیر نو اور نئی ایجادات کی خوش خبری لے کر آتے ہیں۔

اس وقت پروپیگنڈہ کرنے والا ایک گمراہ کن دھڑا موجود ہے جو اس کے بالکل برخلاف پروپیگنڈہ کرنا چاہتا ہے، پروپیگنڈہ کرنے والے اس دھڑے کی کوشش یہ ہے کہ لوگوں پر یہ ظاہر کرے کہ ایرانی جوان اقدار سے دور ہو چکا ہے، مستقبل کی طرف سے مایوس ہے اور اس میں ذمہ داری کا احساس نہیں ہے، پروپیگنڈہ کرنے والا یہ دھڑا ان باتوں کو پھیلانے کی پوری شدت سے کوشش کر رہا ہے، یہ حقیقت کے برخلاف ہے، ہمارے ملک میں پائی جانے والی حقیقت کے پوری طرح خلاف ہے۔ ہماری جوان نسل آج تک تمام میدانوں میں درخشاں کردار کی حامل رہی ہے، ان شاء اللہ آکے بھی ایسا ہی رہے گا۔ چاہے ملک کا دفاع ہو، چاہے سیکورٹی کا دفاع ہو، چاہے پورے خطے میں استقامتی محاذ کی مدد کا مسئلہ ہو، مقدس مقامات کے دفاع کا یہی عظیم اور مقدس مشن، چاہے سماجی خدمات ہوں، چاہے سائنسی پیشرفت ہو، آپ دیکھتے ہیں کہ ہر معاملے میں سائنسی پیشرفت، جوانوں کے کندھوں پر ہے، وہی ہیں جو اس راہ پر آگے بڑھنے والے ہیں، چاہے تمام مذہبی پروگرام ہوں، یہی اربعین مارچ، دسیوں لاکھ ایرانی جوان تھے جو گئے اور نجف اور کربلا کا راستہ پیدل طے کیا اور دسیوں لاکھ جوان جنھوں نے یہیں اپنے ملک میں، مختلف شہروں میں اربعین کے نام پر، اس منزل بشارت و معنویت سے پیچھے رہ جانے والوں کی حیثیت سے پیدل مارچ کیا، چاہے پیداوار اور ایجادات کا میدان ہو جس کی خبریں آپ ٹیلی ویژن پر دیکھتے رہتے ہیں کہ ہر دن ملک میں پیداوار کے کسی نہ کسی شعبے میں، ملک کی صنعت میں ہمارے نوجوان کوئی نئی کامیابی حاصل کر رہے ہیں، چاہے وبائي بیماری سے مقابلہ ہو، چاہے مومنانہ امداد کی تحریک ہو، چاہے ثقافتی جہاد ہو، چاہیے سیلاب اور زلزلے وغیرہ جیسی قدرتی آفات میں امداد کی ذمہ داری ہو، جہاں کہیں بھی آپ دیکھیں گے، جوانوں کی بھرپور موجودگي نظر آئے گي۔ یہ جوان مایوس نہیں ہو سکتا، یہ جوان، اقدار سے دور نہیں ہو سکتا، یہ جوان، محاذ کے مرکز میں موجود اور نہ تھکنے والا ایک سپاہی ہے، ان تمام میدانوں میں انقلاب اور مومن جوان آگے آگے رہے ہیں، ہمارے جوان ایسے ہیں۔

تو اگر آپ کی موجودگي کو، جو امام حسن مجتبی کیڈٹ کالج میں اکٹھا ہوئے ہیں اور دوسرے کیڈٹ کالجز میں یہ باتیں سن رہے ہیں، ہم اس نظر سے دیکھیں تو مسلح فورسز میں آپ کی آمد اور آپ کی موجودگي، ایک سرمایہ ہے، آپ کی موجودگي ایک بڑی دولت ہے۔ البتہ سینیر فوجی اہلکاروں اور کمانڈروں کے تجربے کے ہمراہ۔

مسلح فورسز کو مضبوط بنانا، ملک کو مضبوط بنانا ہے۔ ملک کی تقویت میں مسلح فورسز ایک مضبوط ستون ہیں۔ البتہ ملک کی تقویت صرف مسلح فورسز تک محدود نہیں ہے، اور دوسرے مضبوط ستون بھی ہیں، سائنسی پیشرفت، ملک کی پیشرفت کا سبب ہے، عوام کا عمومی عقیدہ، دلوں میں ایمان کی مضبوط بنیادیں، قومی استحکام کا باعث ہیں، عوام سے نکلی ہوئي حکومت اور عوام کے سہارے بننے والی حکومت کسی بھی ملک کی سربلندی کا سبب ہوتی ہے، یہ ساری چیزیں ہیں لیکن مسلح فورسز بھی، مسلح فورسز کی موجودگي بھی، فوجی طاقت بھی ملک کی بنیادوں کی تقویت کا اہم ذریعہ ہیں۔ یہ ملک کو خطروں اور دشمنیوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں، اس کی حفاظت کر سکتی ہیں۔ البتہ یہ چیز تمام ملکوں کے لئے ہے، ہمارے ملک سے مخصوص نہیں ہے۔ تمام ملکوں کو ان وسیلوں کی ضرورت ہے لیکن ہمارے وطن عزیز جیسے ملک کے لیے، جسے امریکا وغیرہ جیسے منہ زور اور غنڈہ صفت دشمنوں کا سامنا ہے، اس چیز کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ لہذا دفاعی طاقت میں اضافہ ہونا چاہیے۔

میں نے یہ بات ہمیشہ کہی ہے اور ایک بار پھر دوہرا رہا ہوں، دفاعی طاقت میں اضافہ ہونا چاہیے۔ اس ذمہ داری کا کچھ حصہ مسلح فورسز کے باہر سے انجام پانا چاہیے اور کچھ حصہ مسلح فورسز کے اندر سے، میں مؤخر الذکر پر روشنی ڈالوں گا۔ مسلح فورسز کے ذمہ داروں کو نئے اور اپ ٹو ڈیٹ طریقے اختیار کر کے آرمڈ فورسز کو مزید مضبوط بنانا چاہیے جس کے لئے ایک کام تعلیم  اور ٹریننگ اور فوجی آلات کو اسمارٹ بنانا ہے۔ بحمد اللہ ہماری مسلح فورسز میں یہ کام شروع ہو چکا ہے لیکن کام کا میدان ابھی بہت کھلا ہوا ہے۔ آج فوجی ساز و سامان، ہتھیاروں یہاں تک کہ گولہ بارود سمیت مسلح فورسز کے تمام امور کو اسمارٹ بنانا اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ یا مسلح فورسز میں سائنسی و تحقیقاتی پیشرفت کا مسئلہ ہے، یہ مسلح فورسز کی تقویت ہے، یا ہائيبرڈ وار کے پیچیدہ کھیلوں کی ڈیزائننگ۔ آپ جانتے ہیں کہ آج دنیا کی جنگیں، صرف ایک پہلو کی نہیں ہوتیں، ہارڈ وار، سافٹ وار، فکری جنگ، ثقافتی جنگ، مختلف ہتھیاروں سے جنگ اور  اسی طرح کی دوسری جنگيں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کسی قوم یا ملک پر حملے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ وار گیم کو ان شاء اللہ ان تمام مراحل کو نئے طریقوں سے اور اپ ٹو ڈیٹ روشوں سے طے کرنا چاہئے۔

خیر تو مسلح فورسز کی اصلی ذمہ داری کیا ہے؟ قومی سلامتی کی حفاظت، یہ وہ چیز ہے جس پر آپ جوانوں کو، جنھوں نے تازہ تازہ اس راہ میں قدم رکھا ہے، فخر کرنا چاہیے، ناز کرنا چاہیے، سربلند ہونا چاہیے۔ مسلح فورسز کی ذمہ داری، ملک کی عمومی سلامتی کی حفاظت ہے۔ 'سیکورٹی یا سلامتی' کا مطلب کیا ہے؟ سیکورٹی، کسی بھی معاشرے کی زندگي کے تمام پہلوؤں کا بنیادی ڈھانچہ ہے، ایک عمومی انفراسٹرکچر ہے، ذاتی مسائل سے لے کر، سماجی مسائل، اجتماعی مسائل اور خارجی مسائل تک، سیکورٹی، ان سب کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ ذاتی زندگی میں، سیکورٹی کا مطلب یہ ہے کہ آپ رات کو اپنے گھر میں اطمینان سے سو سکیں، صبح کو پورے سکون کے ساتھ اور بغیر کسی تشویش کے اپنے بچے کو اسکول بھیج سکیں، اپنے کام کی جگہ پر جا سکیں، بغیر کسی تشویش کے نماز جمعہ میں جا سکیں۔ دیکھیے، ان ملکوں پر نظر ڈالے جن میں یہ سکون اور خیال کی آسودگي نہیں ہے، ان میں سے کسی بھی مرحلے میں نہیں ہے، نہ رات کو اطمینان سے سو سکتے ہیں، نہ صبح کو کام پر جا سکتے ہیں، نہ آسودہ خاطر ہو کر اسپورٹس کے میچ دیکھنے جا سکتے ہیں، نہ نماز جمعہ جا سکتے ہیں، نہ سفر پر جا سکتے ہیں۔ یہ چیز چھوٹے ملکوں سے ہی مخصوص نہیں ہے، بڑے ملکوں میں، سب سے بڑھ کر امریکا میں، ریستوراں میں سیکورٹی نہیں ہے، یونیورسٹی میں سیکورٹی نہیں ہے، بچوں کے اسکول میں سیکورٹی نہیں ہے، دکان میں سیکورٹی نہیں ہے۔ ذاتی زندگی میں سیکورٹی کا مطلب یہ ہوتا ہے، یعنی آپ خود، آپ کے بچے اور آپ کے گھر کے افراد، سیکورٹی کے احساس کے ساتھ زندگي گزار سکیں، آپ کا کام، آپ کی نوکری، آپ کا سفر اور آپ کی تفریح، سیکورٹی کے ساتھ ہو۔

عمومی اور اجتماعی مسائل میں، یونیورسٹی یا دینی تعلیمی مرکز میں یا تحقیقی مرکز یا پھر انسٹی ٹیوٹ میں آپ بیٹھ کر غور کر سکیں، کام کر سکیں، تحقیق کر سکیں، مطالعہ کر سکیں، یہ سیکورٹی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اگر سیکورٹی نہ ہوتی تو یہ پیشرفت حاصل نہیں ہو سکتی تھی، جہاں بھی ترقی و پیشرفت ہوئي ہے وہ سیکورٹی کے وجود کی برکت سے ہوئي ہے، سیکورٹی کے بغیر کام دشوار ہو جاتا ہے، سخت ہو جاتا ہے۔ معاشی سرمایہ کاری تک میں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک کی معاشی پیشرفت کے لیے سرمایہ کاری کریں تو یہ بغیر سیکورٹی کے ممکن نہیں ہے، سیکورٹی کے بغیر ٹرانزٹ ممکن نہیں ہے، سیکورٹی کے بغیر پیداوار نہیں ہو سکتی، سیکورٹی ان سبھی چیزوں کے لئے انفراسٹرکچر کا درجہ رکھتی ہے۔

مسلح فورسز، ملک اور سماج کے عام افراد کی اس دائمی اور ہمہ گير ضرورت کی تکمیل کرنے والی  ہیں، یہ کم فخر کی بات نہیں ہے۔ فوج ایک طرح سے، سپاہ (پاسداران) کسی دوسری طرح سے، پولیس فورس ایک اور طرح سے، ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طرح سیکورٹی فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔ جو کوئي پولیس تھانے پر حملہ کرتا ہے، وہ ملک کی سیکورٹی پر حملہ کرتا ہے، جو کوئي رضاکار فورس کے مرکز پر حملہ کرتا ہے، وہ ملک کی سلامتی پر حملہ کرتا ہے، وہ جو اپنے بیان میں، تقریر میں، گفتگو میں فوج یا سپاہ پر لعن طعن کرتا ہے، وہ ملک کی سیکورٹی کی توہین کرتا ہے۔ مسلح فورسز کو کمزور بنانا، ملک کی سلامتی کو کمزور بنانا ہے۔ پولیس کو کمزور بنانے کا مطلب ہے مجرموں کو مضبوط بنانا۔ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ مجرم کے سامنے ڈٹ جائے، لوگوں کی سیکورٹی کو یقینی بنائے، جو شخص پولیس پر حملہ کرتا ہے، اصل میں وہ لوگوں کو مجرموں کے مقابلے میں، غنڈوں اور اوباشوں کے مقابلے میں، چور کے مقابلے میں، منہ زور کے مقابلے میں نہتا کر دیتا ہے۔ ہمارے ملک کا بڑا امتیاز یہ ہے کہ ہماری جو سیکورٹی ہے وہ پوری طرح سے ملک کے اندر سے پیدا ہونے والی ہے۔ بڑا فرق ہے کہ اس ملک اور اس قوم میں جو اپنے اندر سے، اپنی فورسز کے ذریعے، اپنی طاقت سے، اپنی سوچ سے اور اپنے نظریات سے اپنے لیے سیکورٹی پیدا کرے اور اس ملک اور قوم میں جسے باہر سے آ کر کوئي کہے کہ میں تمھارے لیے سیکورٹی فراہم کروں گا، تمھاری حفاظت کروں گا، اس شخص کی طرح جو اپنی دودھ دینے والی گائے کی حفاظت کرتا ہے، ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ ہماری سیکورٹی، ملک کے اندر سے حاصل ہونے والی سیکورٹی ہے۔ ہم اپنی سیکورٹی کے لیے کسی پر بھی منحصر نہیں ہیں۔ ہم نے خداداد طاقت، اللہ کے لطف و کرم، خداوند عالم کی توفیق، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی حمایت، قوم کی پشت پناہی، مسلح فورسز کے ذمہ داروں کی استقامت سے یہ سیکورٹی پیدا کی ہے اور اس کی حفاظت کی ہے۔ جو، باہری فوج کے سہارے پر ہے اسے وہی غیر ملکی فوج سخت ایام میں اکیلا چھوڑ دے گي، وہ نہ تو اس کی حفاظت کر سکتی ہے اور نہ ہی کرنا چاہتی ہے۔ خیر تو یہ کچھ جملے، مسلح فورسز کے مسائل کے بارے میں تھے، انھیں ذہن نشین رکھیے گا، فخر کیجیے، اسی کے نقش قدم پر چلیے، اپنے کام کو، خداوند عالم کی مرضی کے مطابق کیا جانے والا کام سمجھیے اور خدا کی خاطر اس کام کو انجام دیجیے۔

اب کچھ جملے حالیہ واقعات کے بارے میں۔ پہلی چیز جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حالیہ کچھ دنوں کے واقعات میں سب سے زیادہ ظلم ملک کی پولیس فورس پر ہوا، رضاکار فورس پر ظلم ہوا، ایرانی قوم پر ظلم ہوا۔ ظلم کیا گيا۔ البتہ قوم اس واقعے میں بھی، پچھلے واقعات کی طرح مضبوطی سے سامنے آئي، پوری طرح مضبوط، ہمیشہ کی طرح، ماضی کی طرح۔ آگے بھی ایسا ہی ہوگا۔ مستقبل میں بھی، جہاں بھی دشمن، خلل ڈالنا چاہیں گے تو جو سب سے زیادہ مضبوطی سے ڈھال بن کر سامنے آئے گا اور سب سے زیادہ موثر واقع ہوگا، وہ ایران کی بہادر اور مومن قوم ہے، وہ میدان میں آئے گي اور میدان میں آ گئي ہے۔ جی ہاں! ایرانی قوم مظلوم ہے لیکن مضبوط ہے، امیر المومنین کی طرح، مولائے متقیان کی طرح، اپنے آقا علی علیہ السلام کی طرح جو سب سے زیادہ طاقتور بھی تھے اور سب سے زیادہ مظلوم بھی تھے۔

یہ واقعہ جو رونما ہوا، اس میں ایک نوجوان لڑکی کی موت ہو گئي، ایک تلخ واقعہ تھا، ہمیں بھی دلی تکلیف ہوئي لیکن اس واقعے پر سامنے آنے والا ردعمل، کسی بھی تحقیق کے بغیر، کسی بھی ٹھوس ثبوت کے بغیر، یہ نہیں ہونا چاہیے تھا کہ کچھ لوگ آ کر سڑکوں پر بدامنی پھیلا دیں، لوگوں کے لیے بدامنی پیدا کر دیں، سیکورٹی کو درہم برہم کر دیں، قرآن کو آگ لگا دیں، پردہ دار خاتون کے سر سے چادر چھین لیں، مسجد اور امام باڑے کو نذر آتش کر دیں، بینک میں آگ لگا دیں، لوگوں کی گاڑیوں کو جلا دیں۔ کسی واقعے پر جو افسوسناک بھی ہے، سامنے آنے والا رد عمل اس بات کا سبب نہیں بن جاتا کہ اس طرح کی حرکتیں کی جائيں، یہ کام نارمل نہیں تھے، فطری نہیں تھے، یہ بلوے، پہلے سے طے شدہ تھے۔ اگر اس لڑکی کا قضیہ نہیں ہوتا تب بھی وہ لوگ کوئي نہ کوئي بہانہ پیدا کر لیتے تاکہ اس سال، مہر مہینے کے اوائل (ستمبر مہینے کے اواخر) میں اس دلیل کے تحت، جو میں عرض کروں گا، ملک میں بدامنی اور فسادات پھیلا سکیں۔ کن لوگوں نے یہ سازش تیار کی ہے؟ میں واضح الفاظ میں اور کھل کر کہتا ہوں کہ یہ دنگے اور بدامنی امریکا اور غاصب و جعلی صیہونی حکومت اور ان کے زرخرید پٹھوؤں کی سازش تھی، انھوں نے بیٹھ کر یہ سازش تیار کی ہے۔ ان کے لیے کام کرنے والوں اور زرخریدوں اور غیر ممالک میں موجود کچھ غدار ایرانیوں نے ان کی مدد کی۔

جیسے ہی ہم کہتے ہیں "فلاں واقعہ غیر ملکی دشمن کی کارستانی ہے۔" بعض لوگوں کو گویا اس "غیر ملکی دشمن" لفظ سے چڑ ہے، جیسے ہی ہم کہتے ہیں: "یہ غیر ملکیوں کا کام تھا، بیرونی دشمن کا کام تھا" یہ لوگ فورا امریکی حفیہ ایجنسی اور صیہونیوں کی ڈھال بن کے کھڑے ہو جاتے ہیں! طرح طرح کے تجزیے، مغالطے میں ڈالنے والے طرح طرح کے بیان دینے لگتے ہیں تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ نہیں، اس معاملے میں غیر ملکی کردار، غیر ملکیوں کا ہاتھ نہیں تھا۔ دنیا میں بہت سے ہنگامے اور بلوے ہوتے ہیں اور یورپ میں، فرانس میں، ہر کچھ عرصے بعد پیرس کی سڑکوں پر بڑے ہنگامے ہوتے ہیں، میں پوچھتا ہوں کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ امریکی صدر اور امریکی ایوان نمائندگان نے بلوائیوں کی حمایت کی ہو؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ وہ پیغام دیں کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ امریکی سرمایہ داری اور امریکی حکومت سے وابستہ ذرائع ابلاغ اور افسوس کہ سعودی حکومت سمیت خطے کی بعض حکومتوں جیسے ان کے پٹھو ان ملکوں میں ہنگامہ کرنے والوں کی حمایت کے لیے دوڑ پڑے ہوں؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ انھوں نے یہ اعلان کیا ہو کہ ہم فلاں ہارڈ ویئر یا انٹرنیٹ کا سافٹ ویئر دنگے پھیلانے والوں کو دیں گے تاکہ وہ آرام سے ایک دوسرے سے رابطہ اور اپنا کام کر سکیں؟! کیا ایسا دنیا کی کسی بھی جگہ پر اور کسی بھی ملک میں ہوا ہے؟ لیکن یہاں ہوا ہے، ایک بار نہیں، دو بار نہیں، بارہا، بار بار ہوا ہے۔ تو کس طرح آپ غیر ملکی ہاتھ نہیں دیکھ پا رہے ہیں؟ کس طرح کوئي ہوش و حواس والا انسان یہ نہ سمجھ پائے کہ ان واقعات کی پشت پر کچھ دوسرے ہاتھ ہیں، کچھ دوسری پالیسیاں کام کر رہی ہیں؟

البتہ وہ لوگ دروغگوئي کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایک انسان دنیا سے چلا گيا لیکن وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ انھیں کوئی دکھ نہیں ہے، بلکہ وہ خوش ہیں، مسرور ہیں، اس لیے کہ انھیں ہنگامہ آرائی کے لیے ایک بہانہ مل گيا ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ 

یہاں پر حکومت، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے سربراہوں نے افسوس کا اظہار کیا، لوگوں سے ہمدردی ظاہر کی، اس کے بعد کچھ خاص عناصر نے، جن کی طرف میں اشارہ کروں  گا، کچھ دوسرے لوگوں کو قتل کر دیا، بغیر کسی جرم کے۔ عدلیہ نے وعدہ کیا کہ وہ  معاملے کی تہہ تک جائے گی، تحقیق کا مطلب یہی تو ہے، یعنی وہ کام کو بیچ میں نہیں چھوڑیں گے، آخر تک جائيں گے تاکہ نتیجہ سامنے آ جائے، دیکھیں کہ کوئي قصوروار ہے یا نہیں ہے اور قصوروار کون ہے. آپ کس طرح ایک ادارے کے خلاف، ایک بڑے خدمت گزار ادارے کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں، اس کی اہانت کرتے ہیں، اس بات کے امکانات کی وجہ سے کہ کسی ایک آدمی سے یا دو لوگوں سے کوئي غلطی ہو گئي ہوگي جبکہ وہ بھی یقینی نہیں ہے، اس کی تحقیق ابھی نہیں ہوئي ہے؟ اس بات کے پیچھے کوئي منطق نہیں ہے، کوئي ٹھوس وجہ نہیں ہے، اس کی، غیر ملکی جاسوسی کی تنظیموں اور خبیث و دشمن سیاستدانوں کی چال کے علاوہ اور کوئي وجہ نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ غیر ملکی حکومتوں کا محرک کیا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ ان کا محرک یہ ہے کہ وہ محسوس کر رہی ہیں کہ ایران ہمہ گیر طاقت کے حصول کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے اور یہ انھیں برداشت نہیں ہے، وہ یہ محسوس کر رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ بحمد اللہ بعض پرانی گرہیں کھلتی جا رہی ہیں۔ البتہ ملک میں بہت سے مسائل ہیں، بعض مسائل کو تو برسوں گزر چکے ہیں لیکن ان مسائل کو برطرف کرنے کے لیے، ان گرہوں کو کھولنے کے لیے سنجیدگي سے کام ہو رہا ہے۔ وہ لوگ ملک میں آگے کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو دیکھ رہے ہیں جن میں تیزی آ گئي ہے، یہ ایک حقیقت ہے۔ تمام میدانوں میں انسان تیزی سے آگے بڑھتے قدموں کا مشاہدہ کر سکتا ہے، محسوس کر سکتا ہے، وہ لوگ بھی اسے محسوس کر رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ بند پڑا کارخانہ چلنے لگا ہے، نالج بیسڈ کمپنیاں سرگرم ہو گئي ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ بعض میدانوں میں پیشرفتہ پیداوار روز بروز سامنے آنے لگي ہے، وہ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ ایسے کام ہو رہے ہیں جو 'پابندیوں کے ہتھیار' کو – اس وقت دشمن کا واحد ہتھیار پابندیاں ہیں – ناکام بنا سکتے ہیں، وہ اس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان بڑھتے قدموں کو روکنے کے لیے انھوں نے بیٹھ کر سازش تیار کی ہے، یونیورسٹی کے لیے سازش تیار کی ہے، سڑک کے لیے سازش تیار کی ہے، دشمن نے سازش تیار کی ہے کہ یونیورسٹی بند ہو جائے، جوان نسل (ہنگاموں میں) مصروف ہو جائے، ملک کے ذمہ داروں کے لیے نئے مسائل پیدا ہو جائيں، ملک کے شمال مغرب میں، ملک کے جنوب مشرق میں کچھ مسائل پیدا ہو جائيں، یہ سب بھٹکانے والی باتیں ہیں، یہ کام اس لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ ملک کی ترقی اور اس کی پیشرفت کو روک سکیں۔ البتہ انھیں غلط فہمی ہے، وہ شمال مغرب میں بھی غلط فہمی کا شکار ہیں اور جنوب مشرق میں بھی غلط اندازے لگا رہے ہیں۔ میں بلوچ قوم کے درمیان رہ چکا ہوں، وہ لوگ دل کی گہرائي سے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے وفادار ہیں۔ کرد قوم، ایران کی پیشرفتہ ترین اقوام میں سے ایک ہے، اپنے ملک سے پیار کرنے والی، اپنے اسلام سے پیار کرنے والی اور اپنے اسلامی نظام سے پیار کرنے والی۔ دشمنوں کی سازش ناکام رہے گي، لیکن وہ اپنا کام کرتے رہیں گے، زہر گھولنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

یہ کام ہمارے دشمنوں کے باطن کو بے نقاب کرتے ہیں۔ وہ دشمن جو اپنے سفارتی بیانوں میں کہتا ہے کہ ہم ایران پر حملے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہم اسلامی جمہوری نظام کو بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہماری آپ سے کوئي دشمنی نہیں ہے اور ہم ایرانی قوم کے حامی ہیں، اس کی اصلیت یہی ہے جس کا آپ مشاہدہ کر رہے ہیں، اس کے باطن میں سازش کی نیت ہے، اس کے باطن میں ہنگامے بھڑکانے اور دنگے کروانے کی نیت ہے، اس کے باطن میں ملک کی سلامتی کو تباہ کرنے کی نیت ہے، اس کے باطن میں ان لوگوں کو ورغلانا ہے جو ممکنہ طور پر معمولی سی بات پر ہیجان میں آ کر سڑکوں پر آ جائيں، اس کی اصلیت یہ ہے۔

وہ صرف اسلامی جمہوریہ کے مخالف نہیں ہیں، وہ سرے سے ایران کے مخالف ہیں۔ امریکا، مضبوط ایران کا مخالف ہے، خود مختار ایران کے خلاف ہے۔ ان کی ساری بحث اور ان کا سارا جھگڑا اسلامی جمہوریہ پر نہیں ہے، البتہ وہ اسلامی جمہوریہ کے کٹر دشمن ہیں، اس میں کوئي شک نہیں ہے، لیکن اسلامی جمہوریہ کے بغیر بھی وہ اس ایران کے مخالف ہیں جو مضبوط اور طاقتور  ہو، اس ایران کے مخالف ہیں، جو خود مختار ہو۔ وہ پہلوی دور کے ایران کو پسند کرتے ہیں: ایسی دودھ دینے والی گائے جو ان کے احکام کی تعمیل کرے اور ملک کا بادشاہ ہر فیصلے کے لیے انگریز سفیر یا امریکی سفیر کو بلانے اور اس سے احکامات لینے پر مجبور ہو! اس عار کو ایرانی قوم کس طرح برداشت کر سکتی ہے؟ وہ یہ چاہتے ہیں، وہ ایران کے مخالف ہیں۔

خیر تو ہم نے عرض کیا کہ منہ زور، یہ لوگ ہیں، بٹن ان کے ہاتھ میں ہے جو پس پردہ ہیں۔ بنابریں جھگڑا باحجاب اور بدحجاب پر نہیں ہے، جھگڑا ایک جوان لڑکی کی موت پر نہیں ہے، جھگڑا یہ ہے ہی نہیں۔ ایسی بہت سی خواتین، جن کا پردہ مکمل بھی نہیں ہے، اسلامی جمہوری نظام کی کٹّر حامی ہیں، آپ دیکھتے ہیں وہ مذہبی رسومات میں، انقلابی تقریبات میں، شرکت کرتی ہیں، بحث ان کی ہے ہی نہیں۔ بحث اسلامی ایران کی خودمختاری، استقامت، مضبوطی اور طاقت کی ہے، اصل بحث اس پر ہے۔

میں ایک دو نکات عرض کر کے اپنی بات ختم کروں۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے سڑکوں پر ہنگامے اور تخریب کاری کی اور کر رہے ہیں، ان سب کو ایک ہی قطار میں نہیں رکھا جا سکتا، ان سب کا حکم یکساں نہیں ہے۔ ان میں بعض وہ بچے اور نوجوان ہیں جنھیں مثال کے طور پر کسی انٹرنیٹ پروگرام سے پیدا ہونے والا ہیجان سڑک پر لے آتا ہے، جوشیلے ہیں، جذباتی ہیں، جذبات میں آ کر سڑک پر آ جاتے ہیں۔ البتہ یہ سب کے سب، مجموعی طور پر بھی، ایرانی قوم اور ایران اسلامی کے مومن اور غیور جوانوں کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں لیکن یہ اتنے سے لوگ بھی جو ہیں، ان میں بھی بہت سے ایسے ہیں جنھیں جوش اور ہیجان سڑکوں پر لے آتا ہے، ان کے مسئلے کو ایک وارننگ اور انتباہ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، یعنی انھیں سمجھایا جا سکتا ہے کہ وہ غلط کر رہے ہیں اور غلط فہمی کا شکار ہیں لیکن ان میں سے بعض ایسے نہیں ہیں، ان میں سے بعض اسلامی جمہوریہ سے چوٹ کھائے افراد کی باقیات ہیں: منافقین، علیحدگي پسند، منحوس پہلوی حکومت کے بچے کھچے عناصر اور نفرت انگیز اور دتکارے گئے ساواک (شاہ کی خفیہ تنظیم) کے ایجنٹوں کے رشتہ دار ہیں، وزارت انٹیلی جنس کے حالیہ بیان نے ان میں سے بعض باتوں کو بڑی حد تک واضح کر دیا ہے۔(2) البتہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔ عدلیہ کو ان کی تخریبی کارروائيوں اور سڑکوں پر امن و امان کو نقصان پہچانے میں ان کے رول کی سطح کے مطابق ان کے خلاف مقدمہ چلانا چاہیے اور ان کی سزا طے کرنی چاہیے۔

ایک دوسری بات یہ ہے کہ ہنگاموں کی ابتدا میں ہی بعض سرکردہ لوگوں نے، ہمدردی کے جذبے کے تحت - انھیں تکلیف ہوئي ہوگي - بغیر کسی تحقیق کے بیان دیا، بیان جاری کیا، بات کی، اظہار خیال کیا - البتہ بغیر تحقیق کیے ہوئے - ان میں سے بعض نے پولیس اور رضاکار فورس پر الزام لگایا، بعض نے پورے نظام کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا، ہر کسی نے الگ طریقے سے کچھ نہ کچھ کیا۔ خیر اس کا حساب الگ ہے لیکن جب انھوں نے یہ دیکھ لیا کہ معاملہ کیا ہے، جب یہ سمجھ گئے کہ دشمن کی سازش کے ساتھ ان کی باتوں کے نتیجے میں سڑک پر اور لوگوں کے راستے میں کیا ہو رہا ہے، تو انھیں اپنے اس کام کی تلافی کرنی چاہیے تھی، انھیں صحیح موقف اختیار کرنا ہوگا، انھیں کھل کر واضح الفاظ میں اعلان کرنا چاہیے کہ جو کچھ ہوا ہے، وہ اس کے خلاف ہیں، انھیں عوام کو یہ باور کرانا چاہیے کہ وہ غیر ملکی دشمن کی سازش کے خلاف ہیں۔ معاملے کی حقیقت واضح ہو گئي ہے۔ جب آپ دیکھتے ہیں امریکا کے سیاسی عناصر ان معاملوں کو برلن کی دیوار سے تشبیہ دے رہے ہیں تو آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ مقصد کیا ہے؟ آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ معاملہ ایک نوجوان لڑکی کی موت پر افسوس کا نہیں ہے، یہ آپ کو سمجھ جانا چاہیے تھا، اگر نہیں سمجھے تو سمجھ جائيے اور اگر سمجھ گئے ہیں تو اپنے موقف کا اعلان کیجیے۔ یہ دوسرا نکتہ تھا۔

اسپورٹس اور آرٹس کے شعبے کے بعض لوگوں نے بھی کچھ اظہار خیال کیا ہے، میری نظر میں اس کی کوئي اہمیت نہیں ہے، اس سلسلے میں حساس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری اسپورٹس کمیونٹی، ایک صحیح و سالم کمیونٹی ہے، ہمارے آرٹسٹوں کا معاشرہ بھی ایک صحیح و سالم معاشرہ ہے۔  اس اسپورٹس اور آرٹس کی کمیونٹی میں مومن، ملک سے پیار کرنے والے اور عزت دار لوگ کم نہیں ہیں، بہت ہیں۔ اگر دو چار لوگ کچھ کہہ دیتے ہیں تو ان کی بات کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اب رہی یہ بات کہ ان کے بیان مجرمانہ فعل کے دائرے میں آتے ہیں یا نہیں تو یہ طے کرنا عدلیہ کے ذمے ہے، لیکن بادی النظر میں تو اس کی کوئي اہمیت اور وقعت نہیں ہے۔ آرٹس اور اسپورٹس کی ہماری کمیونٹی، اس طرح کی باتوں اور دشمن کو خوش کرنے والے اس طرح کے رویوں سے آلودہ نہیں ہوگی۔

میری آخری بات، پولیس اور رضاکار فورس کے شہیدوں، مسلح فورسز کے شہیدوں، سیکورٹی کے دفاع کے شہیدوں، حالیہ شہیدوں اور راہ حق کے تمام شہیدوں پر بے شمار درود و سلام ہے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس پروگرام کے آغاز میں، جو امام حسن مجتبی علیہ السلام آفیسرز اینڈ پولیس ٹریننگ اکیڈمی میں منعقد ہوا، مسلح فورسز کے جنرل اسٹاف کے چیف بريگيڈیئر جنرل محمد باقری، ایرانی فوج کے کیڈٹ کالجوں کے کمانڈر سیکنڈ ایڈمرل آریا شفقت، امام حسین کیڈٹ کالج کے کمانڈر بریگيڈیئر نعمان غلامی اور امام حسن آفیسرز اینڈ پولیس ٹریننگ اکیڈمی کے کمانڈر سیکنڈ بريگيڈیئر پرویز آہی نے رپورٹیں پیش کیں۔

(2) وزارت انٹیلی جنس کے بیان میں جو 30/9/2022 کو جاری ہوا، ملک کے بعض حصوں میں حالیہ دنوں ہونے والے ہنگاموں کی تفصیلات بیان کی گئي ہیں اور بتایا گيا ہے کہ ان ہنگاموں کے دوران منافقین (دہشت گرد تنظیم مجاہدین خلق) کے گروہ سے وابستہ 49 ایجنٹوں، کومولہ، ڈیموکریٹ، پاک اور پژاک جیسے گروہوں سے تعلق رکھنے والے 77 عناصر، تکفیری اور دہشت گرد گروہوں کے پانچ اراکین، بہائي فرقے کے پانچ افراد، منحوس پہلوی حکومت سے وابستہ اور سلطنتی نظام کے خواہاں 92 افراد، 9 غیر ملکیوں، غیر ملکی میڈیا سے وابستہ بعض افراد اور ہسٹری شیٹر 28 غنڈوں اور بدمعاشوں کو حراست میں لیا گيا ہے۔h

t.taghribnews.