سلیمانی

سلیمانی

مشرق کی رپورٹ کے مطابق صیہونی تجزیہ نگار تال لو رام نے لکھا کہ اسرائیلی فوج کو مستقبل میں پانچ بڑے چیلنجوں کا سامنا ہوگا جن میں سے پہلا چیلنج ایران ہے۔ صیہونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ امریکہ، اس کے یورپی اتحادیوں اور ایران کے درمیان ایٹمی معاملات پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور ممکن ہے اس معاہدے سے ایران کے سر سے فوجی حملے کا خطرہ ٹل جائے، آج اسرائیل کے پاس ایران پر حملہ کرنے کا کوئی قابل اعتماد  آپشن موجود نہیں ہے لیکن غاصب صیہونی فوج آنے والے سالوں میں ایران سے ممکنہ جنگ کے لئے خاموش طیاری جاری رکھے گی۔

وہ مزید لکھتا ہے: دوسرا چیلنج صیہونی فوج کو اپنے فوجی اداروں میں انسانی فورس کے بحران سے شکار ہونے کا ہے، اعلی افسروں پر اعتماد گزشتہ برسوں میں بہت کم ہوگیا ہے اور اس کے لئے بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

تیسرا چیلنج  اور شاید سب سے خطرناک حزب اللہ کا ہے۔ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان لبنان اسرائیل آبی سرحدوں کے معاملے پر حالیہ کشیدگی جاری ہے، کاریش کے تیل کے علاقے میں اسرائیلی فوج  نے مقابلے کے لئے اسپیشل فورسز کی تریبت کا سلسلہ شروع کیا ہے اور ساتھ ہی فضائیہ کے لئے نئے ہتھیار ہیں اور حزب اللہ سے جنگ کا احتمال کافی زیادہ ہے۔

اس صیہونی تجزیہ نگار کے مطابق چوتھا بڑا چیلنج صیہونی فضائیہ کی کھلم کھلا آزادی کے دور کا خاتمہ ہے۔ مخالف فریق کے پاس فضائی دفاع کی توانائیوں نے اس آزادی کا خاتمہ کر دیا ہے، آج اسرائیل ہمسایوں کی فضائی حدود میں ڈرون طیارہ بھیجتے ہوئے بھی کئی دفعہ سوچتا ہے کیونکہ اس طیارہ کو نشانہ بنائے جانے کی صورت میں  معاملات کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے جو اسرائیل موجودہ صورتحال میں نہیں چاہتا۔

مشرق نے صیہونی تجزیہ نگار کے حوالے سے مزید لکھا کہ صیہونی فوج کو پانچواں بڑا چیلنج غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے ہیں۔ صیہونی فوج نے دراز مدت کے جنگ بندی کی بات کی ہے لیکن شاید یہ صرف ایک آرزو کے طور پر ہی باقی رہ پائے کیونکہ آج مغربی کنارے کی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

 فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے رکن محمود الزہار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطین کی تحریک استقامت کے لئے ایران کی حمایت قابل قدر ہے اور اس وقت ہم  وعد الآخرہ جنگ کے قریب پہنچ چکے ہیں جس کے لئے مسلسل تیاری کی جا رہی ہے۔
انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ تمام عرب و اسلامی اور دنیا کے سبھی ملکوں کے ساتھ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے رابطے فلسطین کی آزادی کی کوششوں پر استوار ہیں جبکہ مصر کے ساتھ بھی حماس کے رابطے مکمل واضح ہیں اور یہ کہ مسئلہ فلسطین میں مصر کا کردار بہت اہمیت کاحامل ہے۔
فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے رکن محمود الزہار نے غرب اردن میں صیہونیت مخالف استقامت اور کارروائیوں کے بارے میں بھی کہا کہ غرب اردن کے علاقوں میں فلسطینیوں کی تحریک استقامت ترقی و پیشرفت اور صیہونی حلقوں میں ہلچل مچانے کے اعتبار سے غزہ میں تحریک استقامت کا ہی نمونہ ہے اور ہم غرب اردن  میں استقامت کی تصدیق وحمایت اور ایک وسیع قومی جذبے اور جدوجہد جاری رکھے جانے کی صورت حال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
دریں اثنا فلسطینیوں کی استقامتی کمیٹیوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو نذر آتش کئے جانے کی ترپن ویں برسی کے موقع پر کہا کہ مسجد الاقصی کے دفاع کا واحد طریقہ پورے علاقے میں غاصب صیہونی سرطانی غدہ کا صفایا کیا جانا ہے۔

العہد ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق فلسطین کی استقامتی کمیٹیوں نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو بدستور صیہونی سازشوں سے خطرہ لاحق ہے اور اس مسجد کا دفاع متحد ہوکر ہتیھاروں کو استعمال کرکے ہی کیا جا سکتا ہے اور اس کام  کے لئے پورے علاقے سے صیہونی سرطانی غدے کا صفایا کیا جا نا ضروری ہے۔
دریں اثنا فلسطینیوں کی استقامتی کمیٹیوں کے ترجمان ابو مجاہد نے کہا ہے کہ صیہونی منصوبوں کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے دائرے میں بیت المقدس کے خلاف تیار کی جانے والی سازش کو سمجھتے ہوئے اور اسے ناکام بنانے نیز مسجد الاقصی کو نجات دلانے کے لئے پوری امت مسلمہ کو چاہئے کہ متحد ہواور غاصب صیہونی حکومت کی ساری سازشوں اور منصوبوں پر پانی پھیر دے۔
فلسطینیوں کی استقامتی کمیٹیوں کے ترجمان نے غزہ و غرب اردن، بیت المقدس اور مقبوضہ علاقوں میں موجود تمام فلسطینیوں سے اپیل کی ہے کہ مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد الاقصی کو بچانے کے لئے وسیع پیمانے پر میدان عمل میں اپنی موجودگی سے زمان و مکان کے لحاظ سے مسجد الاقصی کی تقسیم سمیت ساری سازشوں کو ناکام بنادیں۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران ایک حساس جغرافیائی پوزیشن کے حامل اور قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے جس کی خاطر مغربی ممالک نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اس جیوپولٹکس علاقے پر اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے ایران میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت کی ہے۔

28 مرداد 1332 شمسی ( 19 اگست 1953ء) میں ایرانی حکومت کیخلاف بغاوت بھی ملک میں مغربی ممالک کی مداخلت کی ایک واضح ہے مثال ہے اور اس کا مقصد ڈاکٹر مصدق کی برطرفی اور بغاوت کے ایجنٹ فضل اللہ زاہدی کے عہدہ سنبھالنا تھا۔

اگرچہ یہ بغاوت پہلے ہی کامیاب نظر آئی لیکن 1357 شمسی سال میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس طرح کی کوششیں ناکام ثابت ہوگئیں اور ایرانی عوام نے قومی خودمختاری حاصل کرکے اسلامی جمہوریہ ایران مکمل آزادی کی راہ پر گامزن ہوا۔

رپورٹ کے مطابق 1324 شمسی سال میں ایران کی چودھویں قومی اسمبلی میں ایک ایسا قانون منظور کیا گیا جس کے تحت حکومت کو پارلیمنٹ کے ساتھ بغیر مشاورت کے خام تیل کے حوالے سے غیر ملکیوں کیساتھ مذاکرات کرنے کی اجازت نہیں دیا گیا۔

یہ قانون ایرانی تیل کا نیشنلائزیشن اور ایران کے تیل کے ذخائر پر غیر ملکی ممالک بالخصوص برطانیہ کے تسلط کو ختم کرنے کا پہلا قدم تھا۔

برطانیہ نے اس اقدام سے ناراض ہوکر عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کیخلاف مقدمہ چلایا لیکن اس وقت کے ایرانی وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق نے ان دونوں تنظیموں میں ایران مخالف برطانوی مقدمے کیخلاف اچھے انداز میں دفاع پیش کیا اور اسی طرح برطانیہ کا اس اقدام کو شکست کا سامنا ہوا۔

دراین اثنا لندن اور واشنگٹن نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ایرانی حکومت کیخلاف بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایک ایسے وقت جب اسلامی جمہوریہ ایران، ملک کے قدرتی وسائل پر اپنے تسلط کو مکمل کرنے کیلئے تیل کا نیشنلائزیشن کی کوشش کر رہا تھا 19 اگست 1953ء میں برطانیہ کے خفیہ انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی (ایس آئی ایس) اور امریکی خفیہ ایجنسی (سی آئی اے) کے زیر حمایت "آژاکس" کاروائی کے تحت ایرانی حکومت کیخلاف بغاوت کیا گیا.

امریکہ اور برطانیہ نے ایرانی حکومت کیخلاف اس بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عملی جامہ پہنانے کیساتھ اسلامی جمہوریہ ایران میں یک نو آبادیاتی نظام حاکم کرنے کی کوشش کی تا کہ اس طرح ایرانی تیل کے ذخائز سمیت ایران کے جیوسٹریٹجک اور جیو پولیٹیکل پوزیشن پر بھی قابو پالیں۔

لیکن 11 فوریہ 1979 ( 22 بہمن 1357ء) میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے برطانیہ اور امریکہ کے سارے خوابوں کو برباد کرتے ہوئے ایران میں ان کی بالواسطہ یا بلا واسطہ مداخلت کو خاتمہ دے دیا اور اسلامی جمہوریہ ایران ایک بار پھر آزادی کی راہ پر گامزن ہوا اور ایرانی عوام کو بھی قومی خودمختاری حاصل ہوئی۔

آژاکس کاروائی ایران کیخلاف امریکی اور برطانوی سیاسی اقدامات کے سیاہ کارنامہ کا ایک شیٹ ہے جو کبھی ایرانی عوام کی یادوں اور تاریخ کی یادداشت سے نہیں مٹ جائے گا۔

عورت کے ساتھ اسلام اور اسلامی جمہوری نظام کا سلوک مودبانہ اور محترمانہ ہے، خیر اندیشانہ، دانشمندانہ اور توقیر آمیز ہے۔ یہ مرد و زن دونوں کے حق میں ہے۔ اسلام مرد و زن دونوں کے سلسلے میں اسی طرح تمام مخلوقات کے تعلق سے حقیقت پسندانہ اور حقیقی و بنیادی ضرورتوں اور مزاج و فطرت سے ہم آہنگ انداز اختیار کرتا ہے۔ یعنی کسی سے بھی قوت و توانائی سے زیادہ اور اس کو عطا کردہ وسائل سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں رکھتا۔ عورت کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ کو سمجھنے کے لئے اس کا تین زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

 

اول: ایک انسان ہونے کی حیثیت سے روحانی و معنوی کمالات کی راہ میں اس کا کردار؛ اس زاویے سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تاریخ میں جس طرح بہت سے با عظمت مرد گزرے ہیں، بہت سی عظیم اور نمایاں کردار کی حامل خواتین بھی گزری ہیں۔

 

دوم: سماجی، سیاسی، علمی اور معاشی سرگرمیاں؛ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورتوں کے لئے علمی، اقتصادی اور سیاسی فعالیت اور سرگرمیوں کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ اگر کوئی اسلامی نقطہ نگاہ کا حوالہ دے کر عورت کو علمی سرگرمیوں سے محروم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اقتصادی فعالیت سے دور رکھنے کے در پے ہے یا سیاسی و سماجی امور سے لا تعلق رکھنے پر مصر ہے تو وہ در حقیقت حکم خدا کے خلاف عمل کر رہا ہے۔ عورتیں، جہاں تک ان کی ضروریات و احتیاج کا تقاضا ہو اور جسمانی توانائی جس حد تک اجازت دے، سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ جتنا ممکن ہو وہ سیاسی و معاشی و سماجی امور انجام دیں، شریعت اسلامی میں اس کی ہرگز مناہی نہیں ہے۔ البتہ چونکہ جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورت مرد سے نازک ہوتی ہے لہذا اس کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ عورت پر طاقت فرسا کام مسلط کر دینا اس کے ساتھ زیادتی ہے، اسلام اس کا مشورہ ہرگز نہیں دیتا۔ البتہ اس نے (عورت کو ) روکا بھی نہیں ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں:

 

” المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ” یعنی عورت پھول کی مانند ہے “قہرمان” نہیں۔

 

“قہرمان” یعنی با عزت پیش کار اور خدمت گار۔ آپ مردوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: عورتیں تمہارے گھروں میں گل لطیف کی مانند ہیں ان کے ساتھ بڑی ظرافت اور توجہ سے پیش آؤ۔ عورت آپ کی خادمہ اور پیش کار نہیں ہے کہ آپ سخت اور طاقت فرسا کام اس کے سر مڑھ دیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔

 

یہ جو بعض افراد شادی سے پہلے شرط رکھ دیتے ہیں کہ عورت ملازمت پیشہ ہو، اس کی اپنی آمدنی اور کمائی ہو، بالکل غلط ہے۔ البتہ خلاف شریعت تو نہیں ہے لیکن اسلام اس چیز کا مشورہ ہرگز نہیں دیتا۔ اسلام نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے جس کو اساس بناکر ہم عورت کو معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روک دیں لیکن دوسری طرف اسلام نے یہ بھی نہیں کہا ہے کہ عورت کو محنت شاقہ اور طاقت فرسائی کی متقاضی سیاسی و سماجی و معاشی سرگرمیوں میں لگا دیا جائے۔ اسلام کا نظریہ اعتدال پسندانہ ہے۔ یعنی عورت کے پاس اگر فرصت ہے، بچوں کی پرورش اس کی راہ میں حائل نہیں ہو رہی ہے، اس میں شوق و دلچسپی اور جسمانی طاقت و توانائی بھی ہے اور وہ سماجی، سیاسی اور معاشی امور میں حصہ لینا چاہتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ کہ اسے مجبور کر دیا جائے اور اسے حکم دیا جائے کہ جاؤ جیسے بھی ممکن ہو روزگار تلاش کرو اور یومیہ اتنا کام کرو تاکہ اس آمدنی سے گھر کے خرچ کا کچھ بوجھ تم اٹھاؤ، تو یہ مناسب نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو ہرگز اس کا حکم نہیں دیا ہے۔ اسے عورت کے ساتھ ایک طرح کی زیادتی قرار دیتا ہے۔

 

میں خاندانوں سے یہ سفارش کروں گا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیں۔ یہ نہ ہو کہ کوئی ماں باپ دینداری کے جذبے کے نام پر اپنی لڑکی کو اعلی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیں! نہیں، دین نے ہرگز یہ بات نہیں کہی ہے۔ دین کی نظر میں تعلیم کے لحاظ سے لڑکے اور لڑکی میں کوئي فرق ہی نہیں ہے۔ اگر لڑکا اعلی تعلیم حاصل کرتا ہے تو لڑکی بھی اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو چاہئے کہ تعلیم حاصل کریں، علم کی منزلیں طے کریں، معلومات میں اضافہ کریں۔ اپنی اہمیت اور مقام و منزلت سے آگاہ ہوں اور اپنی قدر و قیمت کو سمجھیں، تاکہ انہیں یہ پتہ چلے کہ عورت کے سلسلے میں عالمی استکبار کے پروپیگنڈے کتنے کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ تعلیم کے ذریعے ان چیزوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔

 

سوم: عورت کو خاندان اور کنبے کی ایک رکن کی حیثیت سے دیکھنا۔ یہ سب سے اہم اور با ارزش ہے۔ اسلام میں مرد کویہ اجازت نہیں ہے کہ عورت سے جبر و اکراہ کا برتاؤ کرے اور اس پر کوئي چیز مسلط کر دے۔ خاندان کے اندر مرد کے لئے محدود حقوق رکھے گئے ہیں جو در حقیقت بڑی حمکت آمیز بات ہے۔ یہ حقوق جس کے سامنے بھی رکھے اور بیان کئے جائیں، وہ اس کی حمایت او تائید کرے گا۔ اسی طرح عورت کے لئے بھی خاندان کے اندر کچھ حقوق رکھے گئے ہیں اور ان میں بھی بڑی مصلحت اندیشی پوشیدہ ہے۔ مرد و زن دونوں کے اپنے مخصوص جذبات، مزاج، اخلاق اور خواہشات ہیں۔ وہ دونوں اگر اپنے اپنے جذبات اور خواہشات کے مطابق صحیح طور پر عمل کریں تو گھر میں بڑا اچھا ہم آہنگ اور ایک دوسرے کے لئے سازگار جوڑا وجود میں آ جائے گا۔ اگر مرد زیادتی کرتا ہے تو توازن بگڑ جاتا ہے، اسی طرح عورت کوئی زیادتی کرے تو اس سے بھی توازن ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام گھر کے اندر مرد اور عورت کو دروازے کے دو پلوں، چہرے کی دو آنکھوں، محاذ زندگی کے دو مجاہدوں اور ایک دوکان میں کام کرنے والے دو رفقائے کار کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ ان میں ہر ایک کا اپنا مزاج، اپنی خصوصیات، اپنی خصلتیں ہیں۔ جسمانی لحاظ سے بھی، روحانی لحاظ سے بھی، فکری لحاظ سے بھی او جذبات و خواہشات کے اعتبار سے بھی۔ یہ دونوں صنفیں اگر ان حدود اور معیاروں کی پابندی کرتے ہوئے جس کا تعین اسلام نے کیا ہے ایک ساتھ زندگی بسر کریں تو ایک مضبوط، مہربان، با برکت اور انتہائی کارآمد کنبہ معرض وجود میں آئے گا۔

 

اسلام ان مردوں کو جو اپنی جسمانی یا مالیاتی قوت کے بلبوتے پر عورتوں سے اپنی خدمت لیا کرتے تھے، عورتوں کو بسا اوقات اہانت اور تحقیر کا نشانہ بناتے تھے، ان کی حدود دکھائیں اور عورت کو اس کی حقیقی منزلت پر پہنچایا اور بعض چیزوں کے لحاظ سے اسے مرد کے برابر قرار دیا۔ “ان المسلمین و المسلمات و المؤمنین و المؤمنات” مسلمان مرد، مسلمان عورت، عبادت گزار مرد، عبادت گزار عورت، شبوں میں عبادت کرنے والے مرد اور راتوں کو جاگ کر عبادتیں کرنے والی عورتیں۔ معلوم ہوا کہ اسلام میں یہ تمام معنوی و روحانی مقامات اور اعلی انسانی درجات مرد اور عورت کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے عورتیں بھی مردوں کے برابر ہیں۔ جو بھی اللہ کے لئے کام کرے گا “من ذکر او انثی” خواہ وہ مرد ہو کہ عورت ” فلنحیینھ حیاتا طیبۃ” (ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے)

 

اسلام نے بعض مقامات پر عورتوں کو مردوں پر ترجیح تک دی ہے۔ مثال کے طور پر ایک مرد اور ایک عورت کسی بچے کے ماں باپ ہیں اور یہ بچہ دونوں کا ہے لیکن اولاد کے لئے ماں کی خدمت کرنا زیادہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اولاد کی گردن پر ماں کا حق زیادہ ہے اور ماں کے تعلق سے اولاد کے فرائض زیادہ سنگین ہیں۔ پیغمبر اسلام نے اس سوال کے جواب میں کہ ” من ابر” میں کس کے ساتھ بھلائی اور نیکی کروں؟ فرمایا ہے کہ “امک” یعنی اپنی ماں کے ساتھ۔ آپ نے دوبارہ اس کی تکرار کی اور تیسری بار بھی یہی جملہ دہرایا۔ جب پوچھنے والے نے چوتھی دفعہ یہی سوال کیا تب آپ نے فرمایا کہ ” اباک” یعنی اپنے باپ کے ساتھ۔ بنابریں خاندان میں بچوں پر ماں کا حق زیادہ ہے اور ماں کے تعلق سے بچوں کے فرائض بھی زیادہ ہیں۔ البتہ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کو بعض دیگر افراد پر (بے سبب) ترحیج دے دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں بہت زیادہ محنت و مشقت کرتی ہیں۔ یہ عدل الہی کا تقاضا ہے۔ جس کی زحمتیں زیادہ ہیں اس کا حق بھی زیادہ ہے۔ چونکہ (ماں) زیادہ مشقتیں برداشت کرتی ہے اس لئے اس کی قدر و منزلت بھی بالاتر ہے۔

 

یہ سب عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ مالیاتی امور میں، کنبے کے حق کے سلسلے میں، خاندان کی سرپرستی کے سلسلے میں اور گھر کے امور کو چلانے کے تعلق سے اسلام کی روش بڑی متوازن روش ہے۔ ان امور میں بھی اسلامی قانون نے ایسا بندو بست کیا ہے کہ مرد یا عورت کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم و زیادتی نہ ہو۔ اس نے مردوں کے حقوق بھی معین کر دئے ہیں اور عورتوں کے حقوق کی بھی نشاندہی کر دی ہے۔ ایک چیز مرد کے پلڑے میں ڈالی ہے تو دوسری چیز عورت کے پلڑے میں رکھی ہے۔ جو لوگ صاحب نظر ہیں اگر وہ غور کرتے ہیں تو ان حقائق کو باقاعدہ محسوس بھی کرتے ہیں اور انہوں نے کتابوں میں یہ چیزیں لکھی بھی ہیں۔

 

اسلام کی نظر میں جنس یعنی مرد یا عورت ہونا موضوع بحث نہیں بلکہ ارتقاء انسانی پر گفتگو کی گئی ہے، اخلاق انسانی کو موضوع گفتگو بنایا گيا ہے، صلاحیتوں کو نکھارنے کی بات کی گئی ہے، ان فرائض کی بات کی گئی ہے جن کا تعلق کسی بھی جنس سے ہو سکتا ہے۔ البتہ اس کے لئے مزاج سے آشنائی ضروری ہے۔ اسلام مرد اور عورت دونوں کے مزاج کو بخوبی پہچانتا ہے۔ اسلام کی نظر میں سب سے اہم ہے توازن کا برقرار رہنا، یعنی انسانوں بشمول مرد و زن، کے درمیان عدل و انصاف کی مکمل پابندی۔ حقوق کی برابری موضوع گفتگو ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ بعض مقامات پر عورتوں اور مردوں کے سلسلے میں احکام مختلف ہوں۔ بالکل اسی طرح، جس طرح عورت اور مرد کے مزاج بعض خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں مرد اور عورت سے متعلق زیادہ سے زیادہ حقائق فطری خصائل اور طینت اور نفسیات کو دیکھا جا سکتا ہے۔

 

 جو چیز معاشرے کے امن و سکون کو برباد کرے اور انسان کو سیر وسلوک سے روکے اور کمال میں رکاوٹ بنے وہ اجتماعی گناہ شمار ہوگا۔

انسان جو ایک معاشرے میں یکجا بسر کرتے ہیں انکو جان، مال اور آبرو کی سلامتی کی ضرورت ہوتا ہے اور جو چیز امن و سکون کو برباد کرے وہ گناہ ہے، قتل، تشدد و ظلم، سقط جنین اور اغوا وغیرہ سب اجتماعی گناہوں میں شامل ہیں جس کی طرف سورہ نسا میں اشارہ کیا گیا ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ ایک انسان کو حق نہیں کہ وہ دوسرے کا قتل کرے پھر کہا گیا ہے کہ فقر کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل مت کرو چاہے وہ پیدا ہوا ہو یا شکم مادر میں ہو۔

لوگوں کے امن و امان میں خلل بھی اجتماعی گناہوں کا حصہ ہے بعنوان نمونہ قرآن کریم چوری کو ایک گناہ قرار دیتا ہے اور اسی طرح سورہ بقرہ میں سود خوری کو اجتماعی گناہ کہا گیا ہے اور خدا نے اس سے روکا ہے، زخیرہ اندوزی، کم فروشی، قمار و جوا سب ایسے گناہ ہیں جو سورہ نساء میں انکا تذکرہ کیا گیا ہے اور رب کریم نے ان سے روکا ہے کیونکہ یہ اقتصادی مسائل سے جڑے ہوئے ہیں۔

ایسے گناہ جو زبان سے سرزد ہوجائے جیسے تہمت، مسخرہ کرنا، غیبت جھوٹ بولنا ، تجسس کرنا، راز فاش کرنا سب زبان کے گناہ میں آجاتے ہیں اور اجتماعی گناہ ہیں، دوسروں کی آبروریزی، سخن چینی، زنا اور ناجایز تعلقات سب اجتماعی گناہوں میں شمار ہوتے ہیں۔

اجتماعی گناہوں کا اثر جسم و روح دونوں پر ہوتا ہے، عقیدے میں سست ہونا اور اصلی ویلیوز کی تباہی، گناہوں کا عام ہونا، حرمت پامال ہونا، خاندانی زندگی کا برباد ہونا سب اجتماعی گنا کے نتائیج میں شامل ہیں۔/

مہدی صفری جنہوں نے ترکمانستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے اس ملک کا سفر کیا ہے، کہا کہ پڑوسیوں کے ساتھ ہمہ جہتی تعلقات کو مضبوط بنانا 13ویں حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 17 سے 19 اگست تک اسلام آباد میں ایران اور پاکستان کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اکیسواں اجلاس انعقاد کیا جائے گا اور اس کمیشن میں مختلف شعبوں بشمول تجارت، سرمایہ کاری، ٹرانزٹ اور ٹرانسپورٹیشن، بجلی اور توانائی، تیل و گیس، کسٹم، بینکنگ اور فنانس، صحت پر تبادلہ خیال جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ فریقین اس اجلاس کے موقع پر تجارتی، معیاری، کھیل، سمندری تعاون کے پانچ سالہ پروگرام کے شعبوں میں دو طرفہ دستاویزات پر دستخط کریں گے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ مشترکہ کمیشن ایرانی وزارت سڑک اور شہری ترقی اور پاکستانی وزارت خزانہ کے تعاون سے منعقد ہو گا۔

دونوں ممالک کے مشترکہ کمیشن کا 20 واں اجلاس اپریل 2017میں تہران میں منعقد ہوا فریقین نے حتمی دستاویز پر دستخط کیے۔

مہدی صفری جنہوں نے ترکمانستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے اس ملک کا سفر کیا ہے، کہا کہ پڑوسیوں کے ساتھ ہمہ جہتی تعلقات کو مضبوط بنانا 13ویں حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 17 سے 19 اگست تک اسلام آباد میں ایران اور پاکستان کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اکیسواں اجلاس انعقاد کیا جائے گا اور اس کمیشن میں مختلف شعبوں بشمول تجارت، سرمایہ کاری، ٹرانزٹ اور ٹرانسپورٹیشن، بجلی اور توانائی، تیل و گیس، کسٹم، بینکنگ اور فنانس، صحت پر تبادلہ خیال جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ فریقین اس اجلاس کے موقع پر تجارتی، معیاری، کھیل، سمندری تعاون کے پانچ سالہ پروگرام کے شعبوں میں دو طرفہ دستاویزات پر دستخط کریں گے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ مشترکہ کمیشن ایرانی وزارت سڑک اور شہری ترقی اور پاکستانی وزارت خزانہ کے تعاون سے منعقد ہو گا۔

دونوں ممالک کے مشترکہ کمیشن کا 20 واں اجلاس اپریل 2017میں تہران میں منعقد ہوا فریقین نے حتمی دستاویز پر دستخط کیے۔

میدانِ مشرق وسطیٰ میں ایران اور چین کیساتھ محاذ آرائی میں امریکہ کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جو بائیڈن کے دورہ مشرق وسطیٰ میں کہیں سے بھی امریکی صدر کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں ملا۔ جو بائیڈن کو سعودی عرب سے بڑی اُمیدیں تھیں، مگر شائد سعودی قیادت زمینی حقائق اور امریکہ کے گمراہ کن پروپیگنڈے سے آشنا ہوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس بار امریکہ کا عربوں کو ایران سے ڈرانے کا "چورن" فروخت نہیں ہوا۔ ایک ماہ بعد جو بائیڈن کے دورہ مشرقِ وسطیٰ کی ناکامی کے چرچے ابھی تک چینی میڈیا میں ہیں۔ جو بائیڈن کے اس ناکام دورے سے ایک چیز تو واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ کا خطے میں اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ جہاں عربوں کو ایران اور چین کی دفاعی قوت سے ڈرا کر اپنا اسلحہ فروخت کیا کرتا تھا، اب اس بار جو بائیڈن کا یہ ڈرامہ "فلاپ" ہوگیا ہے اور اس بار پہلی مرتبہ عربوں نے امریکی مشورے پر ایران سے ڈرنے سے انکار کر دیا ہے۔

امریکہ کے کچھ مطالبات ایسے تھے، جن سے اس کی مفاد پرستی بے نقاب ہوئی۔ مثال کے طور پر امریکہ تیل کے بحران سے دوچار ہے اور سعودی عرب نے امریکی مطالبے پر تیل کی پیداوار بڑھانے سے انکار کر دیا ہے، جو امریکہ کی ناکامی ہے۔ چینی تجزیہ کار تو اسے امریکہ کی خود غرضی اور منافقت سے تعبیر کر رہے ہیں۔ امریکہ ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ روکنے اور ریاض کو تیل کی پیدوار بڑھانے کیلئے آمادہ کرنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے اور امریکی صدر کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جو بائیڈن بہت سی امیدیں لے کر دورے پر آیا تھا، مگر اسے اس دورے نے اپنی حیثیت کا احساس دلا دیا ہے۔ دیکھا جائے تو امریکہ کی مشرق وسطیٰ کیلئے پالیسی خطے کی بہتری کیلئے نہیں، بلکہ انتشار پھیلانے کی پالیسی ہے۔

امریکہ کی کوشش تھی کہ خطے میں چین کے مخالفین پیدا کئے جائیں، لیکن اس میں امریکہ کو اس لئے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کہ چین کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، چین کسی ملک کی رجیم جینج کیلئے سازشوں کے جال نہیں بنتا، چین اپنا اسلحہ فروخت کرنے کیلئے جنگیں کاشت نہیں کرتا۔ چین کسی ملک سے اپنی خواہشات کے مطابق کام کرنے کا تقاضا نہیں کرتا، چین ہمیشہ دو طرفہ مفادات کے معاہدے کرتا ہے، اگر کسی ملک سے فائدہ لیتا ہے تو اس ملک کو فائدہ پہنچاتا بھی ہے۔ چین نے آج تک کسی ملک پر اقتصادی پابندی لگا کر وہاں کے عوام پر عرصہ حیات تنگ نہیں کیا۔ جب جو بائیڈن ریاض میں بیٹھ کر چین اور ایران کیخلاف لفظی گولہ باری میں مصروف تھا، عین اس وقت سعودی عرب کے وزیر خارجہ سی این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ وہ امریکہ اور چین میں سے کسی کو ایک دوسرے پر فوقیت نہیں دیتے۔ دوسرے لفظوں میں سعودی عرب نے واضح پیغام دیدیا کہ جتنا احترام ہم امریکہ کو دیتے ہیں، اتنا ہی چین کو بھی دیتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی صورتحال بدل رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یو اے ای بھی اسرائیل کو تسلیم کرکے پچھتا رہا ہے۔ یو اے ای کے خارجہ امور کے مشیر انور قرقاش کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ ایران کیساتھ کشیدگی کم کرنا اور اقتصادی امور میں تعاون بڑھانا چاہتے ہیں۔ یو اے ای کو احساس ہوا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرکے، یہاں اسرائیلی مراکز بنا کر انہوں نے اپنی خود مختاری گروی رکھ دی ہے۔ جس پر اب یو اے ای کے حکام نادم بھی ہیں اور پریشان بھی۔ یو اے ای چاہ رہا ہے کہ ایران کیساتھ تعلقات بہتر کرنے کا کوئی پلیٹ فارم ملے تو وہ اس سے استفادے کیلئے تیار ہے۔ یو اے ای ایران کیساتھ سفارتی تعلقات بھی بحال کرنا چاہتا ہے اور انور قرقاش نے اس انٹرویو میں یہ بھی واضح کیا کہ وہ ایران کیخلاف خطے میں بننے والے کسی مخالف بلاک یا اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے۔ یو اے ای کی جانب سے یہ ایک اشارہ تھا کہ  اس کا جھکاو اب ایران کی طرف ہو رہا ہے۔ ایسی ہی صورتحال کچھ سعودی عرب میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔

امریکہ اس وقت چین کے خوف کا شکار ہے، چین کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیتوں اور ایران کیساتھ بیجنگ کی قربتوں نے واشنگٹن کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ مغربی ماہرین امور خارجہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ بچانے کیلئے کبھی روس کو یوکرائن سے لڑاتا ہے تو کبھی چین کے مدِمقابل تائیوان کو ہلہ شیری دیتا ہے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ چین کو خطے میں ہی مصروف کر دے۔ مگر زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ امریکہ کی سامراجی سوچ کا سورج اب غروب ہونیوالا ہے۔ چین دفاع سمیت کئی شعبوں میں امریکہ پر غلبہ حاصل کرچکا ہے، جبکہ امریکہ کی اقتصادی پابندیاں روس اور ایران کا بھی کچھ نہیں بگاڑ پائیں، بلکہ دونوں ملک ماضی کی نسبت زیادہ معاشی طور پر مضبوط ہوئے ہیں۔ ایران، روس اور چین امریکی سازشوں کے باوجود معاشی طور پر مستحکم ہوئے ہیں اور ان کے مقابلے میں امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک میں مہنگائی، بے روز گاری اور کساد بازاری میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

امریکہ جن ملکوں کو تنہا کرنے چلا تھا، وہ آج بھی مستحکم ہیں، کویت نے چھ سال بعد ایران سے سفارتی تعلقات بحال کر لئے ہیں۔ عراق اور شام بھی ایران کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ روس کیساتھ بھی ایران کے تعلقات مضبوط ہیں اور چین بھی اس ساری صورتحال میں اہم کھلاڑی ہے۔ یہ بلاک مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ اس کے برعکس امریکہ کمزور اور تنہا ہو رہا ہے۔ یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ظلم کا سورج غروب  ہو رہا ہے۔ دنیا اب سازشوں اور سامراجیت کے چُنگل سے آزاد ہو رہی ہے۔ سویرا بہت قریب ہے۔

تحریر: تصور حسین شہزاد

قرآن کریم کا پچیسواں سورہ «فرقان» ہے یہ مکی سورہ ترتیب نزول کے حوالے سے بیالیسواں سورہ ہے جو قلب رسول گرامی پر نازل ہوا ہے اس سورہ میں 77 آیات ہیں۔

«فرقان» کا معنی حق سے باطل کو جدا کرنا ہے اور اس سورہ میں توحید، معاد، نبوت اور بت پرستی سے مقابلے پر تاکید کی گیی ہے اور آخری آیات میں حقیقی مومین کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔

سوره فرقان کو موضوع کے حوالے سے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

پہلے حصے میں مشرکوں کی دلیل کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جو بھانہ بازی سے حق کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں اور انکو عذاب بارے انتباہ کیا گیا ہے اور اس حوالے سے گذشتہ اقوامی سرگذشت پر اشارہ ہوا ہے جو پیغمبروں کی دعوت کو رد کرنے کی وجہ سخت عذاب میں گرفتار ہوئیں۔

دوسرے حصے میں توحید اور خدا کی عظمت کی نشانیوں اور کاینات میں سورج کی روشنی، رات کی تاریکی، ہوا چلنے، نزول باران، زمینیوں کے زندہ ہونے اور سیاروں اور ستاروں کے نظم و ضبط پر بات کی گئئ ہے۔

اہم حیرت انگیز چیزوں میں سے ایک آیت 53 ہے جہاں فرمایا گیا ہے: « وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَ هذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا: اور اس نے موجیں مارتے سمندر کو رواں کیا ایک میٹھا اور دوسرا نمکین اور ان میں ایک مانع قرار دیا۔

اس آیت میں دنیا کے اہم معجزے کی نشاندہی کی گیی ہے جب کہ آیات 19 سوره الرحمن اور آیت 61 سوره نمل میں نیز اس دو سمندر کے بارے میں بات ہوئی ہے. اس کی خصوصیات کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ دریائے بالٹیک شمالی دریا جو ڈنمارک کے سیاحتی شہر اسکاگن میں واقع ہے یہاں پر موجود ہے جب کہ میڈیٹرانہ اور بحر اطلس میں بھی یہ خصوصیات موجود ہیں۔

تیسرے حصے میں حقیقی مومنین کی صفات یا خصوصیات کا ذکر ہے اور انکو متعصب کفار کے برابر روبرو قرار دیا گیا ہے ان خصوصیات میں عقیدہ، عمل صالح، شہوت پرستی سے مقابلہ، آگاہی، عہد اور ذمہ داری کا احساس شامل ہے۔/

 مجلس وحدت مسلمین کے مرکزہ رہنماء سید محمد رضا (آغا رضا) نے پاکستان کی یوم آزادی کے موقع پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ آج 14 اگست ہے، یعنی یوم آزادی، اور محرم کا مہینہ بھی ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا پیغام بھی آزادی ہے، انہوں نے ہمیں حریت کا درس دیا ہے۔ ظلم کے مقابلے میں کسی بھی صورت تسلیم نہ ہونا، آزادی کی جدوجہد جاری رکھنا اور آزادی ملنے کے بعد اس کی حفاظت کرنے کا لازوال عملی درس بھی کربلا سے اور پھر کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک بے سروسامانی اور اسیری میں سفر کرنے والوں نے ہی دیا ہے۔ ہر سال چودہ اگست ہمیں اپنے آباؤ اجداد، بزرگوں اور اسلاف کی یاد دلاتا ہے۔

جنہوں نے وطن عزیز کے حصول کیلئے بے بہا قربانیاں دیں۔ پاکستان ہمیں یوں ہی نہیں ملا، بلکہ آزادی کے بدلے ہمارے بزرگوں نے اپنی جان و مال، عزت و آبرو تک کو قربان کیا۔ ہمارے آباؤ اجداد تو اس سبق کو نہیں بھولے، لیکن ہمارے دلوں سے آزادی کی قدر و منزلت وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئی۔ کربلا کے شہداء کی داستان ہائے شجاعت ہمارے لئے درس حریت و آزادی ہے۔ یہ کربلا ہی ہے جو آزادی کا پیغام دیتی ہے۔ کربلا کا درس ہے کہ بصیرت و آگاہی اور شعور و فکر کو بلند و بیدار رکھا جائے، تاکہ جہالت و گمراہی کے پروردہ لوگ دوبارہ کربلا بپا کرکے ظلم کی داستانیں رقم کرنے کا سوچ بھی ناسکیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مریوان شہر کے امام جمعہ اور اہلسنت عالم دین نے حوزہ نیوز ایجنسی کے ساتھ بدنام زمانہ اور گستاخ رسول رسلمان رشدی کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: ایک مسلم نوجوان کا مرتد سلمان رشدی پر حملہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی امام خمینیؒ کا اہم اور تاریخی فتویٰ آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔

مریوان شہر کے امام جمعہ نے مزید کہا: قرآن اور پیغمبر اکرم (ص) کی توہین کرنے والے شخص کے خلاف اس نوجوان کا جان لیوا حملہ ان لوگوں کے لیے ایک تنبیہ ہے جو کسی بھی بہانے مسلمانوں کے عقائد کی توہین کرتے ہیں۔