سلیمانی

سلیمانی

 علیہ وسلم کی بیداری تحریک کی کاوشوں سے آج شام کو دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوا۔

پاکستان میں ایرانی سفارتخانے کے ایک وفد نے، جس میں ایران کے ثقافتی مشیر "احسان خزاعی" بھی شامل تھے، "وحدت،دین کی پکار؛ تفرقہ، دشمن کا ہتھیار" کے عنوان سے اس کانفرنس میں شرکت کی۔

پاکستانی شیعی شخصیات کے ساتھ ممتاز سنی رہنماؤں کی بڑے پیمانے پر موجودگی، ہال میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) اور قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی تصاویر کی تنصیب؛ اس اجلاس کا ایک دلچسپ نکتہ تھا۔

اس اجلاس کے مقررین نے امام خمینی کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں اتحاد کا رہبر قرار دیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کو اسلامی اقوام کے درمیان بھائی چارے اور ہم آہنگی کی مضبوطی کے لیے اہم قرار دیا۔

پاکستانی شخصیات نے قرآن پاک کی تعلیمات، پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل پیرا ہونے، انتہا پسندی سے نمٹنے اور معاشرے بشمول نوجوان نسل کی عالم اسلام کے مشترکہ دشمنوں کی طرف سے مسلمانوں کے ایمان اور حوصلے کو نشانہ بنانے کی دھمکی سے متعلق روشن خیالی پر زور دیا۔

ایکنا- قرآن ہاور نیوز کے مطابق وارثان امت اخلاص فاونڈیشن (Yayasan Warisan Ummah Ekhlas )  کے تعاون سے عصر حاضر کے مسائل پر قرآن کے رو سے نشست منعقد کی جارہی ہے۔

مذکورہ فاونڈیشن کی ویب سائٹ پر لکھا ہے: مشکل ہے کہ کورونا بحران کے بعد دنیا پہلی حالت پر لوٹ جایے جنوری 2020 ے اس بحران کی وجہ سے دنیا کی اقتصادی صورتحال ابتر ہوچکی ہے۔

 

دنیا میں مختلف سطح پر مختلف انداز میں لوگ متاثر ہوئے ہیں جنمیں مالی، خاندانی اور اجتماعی امور کے ساتھ معنوی انداز میں مسائل پیدا ہوچکے ہیں، کیا ہم جانتے ہیں اس حوالے سے قرآن میں راہ حل بتایا گیا ہے بالخصوص سورہ سجدہ میں۔


وارثان امت اخلاص کے تعاون سے سیمینار بعنوان «بحرانوں سے مقابلہ: سوره سجده کے رو سے» کا  اہتمام کیا جارہا ہے تاکہ اس حوالے سے ایک مناسب راہ حل نکالا جاسکے آئیے اور اس میں شرکت کیجیے.
فاونڈیشن کے ڈائریکٹر مرهینی یوسف کا کہنا تھا: یہ عالمی سیمینار اس سال کا آخری اور سب سے بڑا سیمینار ہوگا جسمیں قرآنی ماہرین کو دعوت دی گئی ہے.

 

اس بین الاقوامی کنونشن میں ملایشیاء، انڈونیشیاء، بنگلہ دیش، فلسطین، مصر اور امریکہ سے دانشور حضرات شریک ہوں گے۔

یہ عالمی کنونشن آج صبح ساڑھے آٹھ بجے سے شروع ہوگا جو ملایشین وقت کے مطابق شام ساڑھے چھ بجے تک کوالالمہور کے پردانا ہال MITI میں جاری رہے گا۔/

 

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے آج صبح (ہفتہ 3 دسمبر کو) آئین کے نفاذ کی ذمہ داری کے موضوع پر قومی کانفرنس میں کہا کہ آئین قومی عہد، عظیم الشان اسلامی انقلاب کی تشکیل کا مجسم نمونہ اور جمہوریت، اسلامیت اور جائز آزادیوں کا ضامن ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ میں نے افریقہ کا دورہ کیا تھا، اس دوران قانون کے ایک ممتاز پروفیسر نے جن کی منڈیلا سے بہت گہری دوستی تھی، مجھ سے کہا کہ جنوبی افریقہ میں منڈیلا کی حکومت کے بعد مجھے اور چند لوگوں کو آئین مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور ہم نے دنیا کے تمام ملکوں کے آئین کا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ دنیا کا سب سے ترقی یافتہ آئین اسلامی جمہوریہ ایران کا آئین ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمارے آئین میں اسلامیت، جمہوریت، آزادی اور نظام کی خودمختاری جیسے متعین اور ناقابل تغیر اصول ہیں۔

اصل اور بنیاد یہ قانون ہے جبکہ قانون کے نفاذ کے لیے موجود طریقے اور طریقہ کار پر بحث کی جا سکتی ہے۔ طریقہ کار کو ضرورت کے مطابق تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن قدر کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ طریقہ تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن قدر کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت کے مطابق میکانزم اور طریقوں کی جانچ کی جاسکتی ہے۔ 

صدر رئیسی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں کوئی تعطل نہیں ہے مزید کہا کہ آئین کی تیاری، تشکیل اور اسے حتمی شکل دینے کا کام اس طرح کیا گیا ہے کہ آپ کو آئین اور اس کے نفاذ اور ملکی معاملات کو چلانے میں کسی تعطل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کی آئین سے واقفیت اور ان کے حقوق سے آگاہی انہیں ان حقوق کا مطالبہ کرنے اور حکام کی طرف سے ان حقوق کی صحیح تکمیل کی نگرانی کرنے کا احساس دلاتی ہے۔

رئیسی نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں آئین میں مطالبات اور جوابدہی کے مسئلے کا ذکر کیا اور کہا کہ ہمارے انتظامی نظام اور دنیا کے دیگر نظاموں میں فرق یہ ہے کہ اسلامی انتظامی نظام میں حکام کو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ، عوام، رجوع کنندگان اور ادارہ جاتی سلسلوں کے سامنے جوابدہ سمجھنا پڑتا ہے۔

ایرانی صدر نے ایران میں عوامی ووٹوں کے ذریعے حکومتوں کی تشکیل کو اسلامی جمہوریہ کے مقدس نظام اور اس کے آئین کے اعزازات میں سے ایک اعزاز قرار دیا اور کہا کہ اس ملک میں انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد کے سالوں کے برابر انتخابات ہوتے رہے ہیں اور ہمارا ملک انتخابات کے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم حیرت ہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعویدار ایک ایسے ملک کو اپنی دشمنی، دباو اور پابندیوں کا نشانہ بناتے ہیں اور دوسری طرف انتہائی آمرانہ اور مستبد ترین حکومتوں جو انسانی حقوق کی سب سے کھلی خلاف ورزی کرنے والوں میں سے ہیں، کی حمایت کرتے ہیں۔ دنیا میں ایسی منطق کہاں قابل قبول ہے؟

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد علی نقوی کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا اولین ترین مسئلہ ہے، جب تک ارض فلسطین کا حل فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہوتا پائیدار امن قائم نہیں ہوسکے گا، قائد اعظم کے فرمان کے مطابق اسرائیل ناجائز اور قابض ریاست ہے۔ انسان کو آزاد پیدا کیاگیا مگر ہر دور میں اسے ایک نئے انداز میں غلامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، دنیا میں سب سے خطرناک تہذیبی غلامی ہے جس نے انسان کے شعور پر حملہ کرکے اس سے سوچنے اور جینے کا حق تک چھین لیاہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے یوم فلسطین ، غلامی کے خاتمے کے عالمی دن پر اپنے الگ الگ پیغام میں کیا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا اولین معاملہ ہے، جب تک ارض فلسطین کا حل فلسطینی عوا م کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہوتا پائیدار امن قائم نہیں ہوسکے گا، قائد اعظم کے فرمان کے مطابق اسرائیل ناجائز، قابض ریاست ہے ، بابائے قوم نے مسئلہ فلسطین نہ صرف خصوصی توجہ دی بلکہ اس وقت کی فلسطینی قیادت کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں تھے، مفتی اعظم فلسطین جناب امین الحسینی اور قائد اعظم محمد علی جناح کے آپس میں گہرے مراسم تھے لندن جاتے ہوئے قاہرہ میں مفتی اعظم جناب امین الحسینی سے خصوصی ملاقات کی جس پر انہوں نے بابائے قوم کا زبردست خیر مقدم کیا تھا ، پاکستان کا مسئلہ فلسطین کے حوالے سے واضح اور دوٹوک موقف ہے جب تک مسئلہ فلسطین ارض قبلہ اول کے بیٹوں کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہوگا پائیدارامن قائم نہیں ہوسکے گا۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے غلامی کے خاتمے کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہاکہ انسان کی اپنی حریت کیلئے طویل جدوجہد ہے اور اسے سب سے بڑا راستہ بھی خدا وند متعال کی جانب فراہم کیاگیا، دین اسلام نے ہر دور میں غلامی کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اس کےلئے رہنمائی بھی فراہم کی، فرعون مصر سے کس طرح بنی اسرائیل کو نجات ملی رہتی دنیا تک کےلئے بہت بڑی مثال ہے جبکہ حضور اکرم نے اس دور کی سب سے بڑی غلامی کے دور خاتمہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ آج کی مہذب دنیا سمیت کسی بھی دین میں غلامی کا کوئی تصور نہیں، امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑکا فرمان ہے کہ ”تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنایا جبکہ خدا وند متعال نے ا نہیں آزاد پیدا کیا “۔مگر آج عالمی سرمایہ داری نظام، کیپٹل ازم اور اس جیسے دوسرے بظاہر خوبصورت نعروں نے نہ صرف افراد بلکہ معاشروں، قوموں اور ریاستوں کو غلامی کی ایسی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے جس سے فرار مشکل ترین ہوتا جارہاہے۔ آج کے دور میں انسانیت مختلف قسم کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی میں جن میں سیاسی، معاشی، معاشرتی (تہذیبی ) غلامی ہیں، ایک جانب عالمی مالیاتی اداروں نے مختلف قوموں اور ریاست کو جکڑا ہوا ہے دوسری جانب بڑی طاقتیں اپنی سیاسی چالوں کے ذریعے قوموں پر مسلط ہیں توتیسری جانب اقتصادی پابندیوں کے جال اور آئے ر وزننگی جارحیت کے ذریعے انسانیت کی تذلیل اور ان کی زمینوں کو انہی پر تنگ کردیا جاتاہے البتہ ان میں سب سے سنگین ترین و خطرناک تہذیبی غلامی ہے جس نے انسان کے شعور پر حملہ کرکے اس سے سوچنے اور جینے کا حق تک چھین لیاہے ۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے چند روز قبل گزرنے والے یوم انسداد ایڈز پر اپنے پیغام میں کہاکہ صحت مند معاشروں کےلئے ضروری ہے کہ عوام کو بہترین طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ بیماریوں بارے بہتر آگاہی بھی فراہم کی جائے تاکہ عوام ایڈز جیسے موذی امراض سے بچ سکیں ۔ طبی اصولوں پر کاربند رہنے کی کوشش کی جائےجن کی طرف اسلامی تعلیمات نے رہنمائی کی ہے ۔

سحر نیوز/ ایران: انہوں نے غیر ملکی چینلز کے کچھ سرغنوں کی گرفتاریوں کی خبروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 44 سال سے حق اور باطل کے درمیان جنگ جاری ہے اور میدان جنگ میں فریق مقابل ہر وہ کام انجام دے رہا ہے جو اس کے بس میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دشمنوں کی ان ساری کوششوں کے باوجود انہیں ایک بھی کامیابی حاصل نہایں ہوئی ہے، دشمن اپنی مرضی کے مطابق کام انجام دیتے ہیں اور ہم بھی اللہ کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں تاکہ دشمن کو شکست دے سکیں۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی آئی آر جی سی کے سینئر کمانڈر کا کہنا تھا کہ ایران کے حالیہ فسادات میں ملوث دشمن چینلز کے کچھ سرغنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو عدالت میں پیش کیا جائے گا اور پھر دیکھنا ہے کہ عدالت ان لوگوں کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے کیونکہ یہ لوگ ایران انٹرنیشنل چینل کے رابطے میں نہیں تھے جو دشمنوں کی جاسوس ایجنسی کا حصہ ہے بلکہ ان لوگوں کے امریکا کی جاسوسی اور خفیہ ایجنسیوں سے بھی رابطے تھے۔  

ارنا رپورٹ کے مطابقؤ حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے آج بروز منگل کو ایران کے دورے پر آئے ہوئے عراقی وزیر اعظم "محمد شیاع السوادنی" سے ایک ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ عراق کی ترقی اور اس کے اعلی اور حقیقی مقام تک پہنچنا اسلامی جمہوریہ کے مفاد میں ہے۔ اور ہمیں یقین ہے کہ آپ ایک ایسے شخص ہیں جو عراق کے معاملات اور تعلقات کو آگے بڑھانے اور اس ملک کو اس کی تہذیب اور تاریخ کے لائق ایک آزاد مقام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

قائد اسلامی  انقلاب نے السوادانی کو عراق کے وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہیں ایک وفادار اور قابل شخص قرار دیتے ہوئے کہا کہ  وہ عراقی حکومت کے سربراہ کے طور پر ان کی تقرری خوشی کا باعث ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے عراق کو قدرتی اور انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ ثقافتی، تاریخی اور تہذیبی پس منظر کے لحاظ سے خطے کا بہترین عرب ملک قرار دیا اور کہا کہ بدقسمتی سے اتنے پس منظر کے باوجود عراق ابھی تک اپنے اعلی اور حقیقی مقام تک نہیں پہنچ سکا ہے اور امید ہے کہ آپ کی موجودگی سے عراق ترقی اور حقیقی مقام حاصل کر لے گا۔

انہوں نے عراق کے حقیقی مقام تک پہنچنے کے لیے بنیادی ضرورتوں میں سے ایک، عراق کے اندر گروہوں کی ہم آہنگی اور اتحاد کو بیان کیا اور مزید کہا کہ اس پیشرفت کے لیے ایک اور ضرورت جوان اور متحرک عراقی افواج کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہے۔

قائد اسلامی انقلاب نے کہا کہ عراق کی ترقی کے دشمن ہیں جو سطحی طور پر دشمنی کا مظاہرہ نہیں کرتے لیکن وہ آپ جیسی حکومت کو قبول نہیں کرتے لہذا آپ کو حوصلہ مند عوام اور نوجوانوں اور قوتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے دشمن کی مرضی کے خلاف ثابت قدم رہنا ہوگا جنہوں نے داعش کے عظیم اور مہلک خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے

آیت اللہ خامنہ ای نے اقتصادی، خدماتی اور حتی کہ سائبر اسپیس کے میدان میں عراق کی پیشرفت اور عراقی عوام کے سامنے حکومت کی ایک معقول تصویر پیش کرتے ہوئے عراقی نوجوانوں کی بڑی صلاحیت کو حکومت کے حقیقی حامی کے طور پر استعمال کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا عراق کی نئی حکومت اس طرح کے تعاون سے اور اس ملک میں موجود وسائل اور اچھی مالی سہولتوں کو استعمال کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں خاص طور پر لوگوں کو خدمات فراہم کرنے میں ایک سنجیدہ تبدیلی پیدا کر سکتی ہے۔

انہوں نے عراقی وزیر اعظم کے ان الفاظ کا ذکر کرتے ہوئے کہ آئین کے مطابق ہم کسی بھی فریق کو ایران کی سلامتی کو درہم برہم کرنے کے لیے عراقی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے؛ کہا کہ بدقسمتی سے عراق کے بعض علاقوں میں ایسا ہو رہا ہے اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ عراقی مرکزی حکومت ان علاقوں تک بھی اپنا اختیار بڑھائے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے اس بات پر زور دیا کہ بلاشبہ عراق کی سلامتی کے بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اگر کوئی فریق عراق کی سلامتی میں خلل ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہے تو ہم اس کے سامنے کھڑے ہوکر عراق کی حفاظت کریں گے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا "عراق کی سلامتی ایران کی سلامتی ہے، جس طرح ایران کی سلامتی بھی عراق کی سلامتی  پراثر انداز ہے"، انہوں نے آج تہران میں عراقی وزیر اعظم کی گفتگو کی طرف اشارہ کیا اور مزید کہا کہ گزشتہ ادوار میں اچھے مذاکرات اور مفاہمتیں ہوئیں لیکن وہ عمل کے مرحلے تک نہ پہنچ سکے۔ لہذا، ہمیں تمام مفاہمتوں کے حوالے سے خاص طور پر اقتصادی تعاون اور سامان کے تبادلے اور ریل مواصلات کے شعبے میں عملی اقدام اٹھانے کی طرف گامزن ہونا ہوگا۔

 انہوں نے ایران اور عراق کے درمیان مفاہمت اور تعاون کو روکنے کے لیے بعض عزائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان عزائم  پر عمل کے ساتھ قابو پانا ہوگا۔

اس ملاقات میں ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی بھی موجود تھے۔ در این اثنا عراق کے  وزیر اعظم نے ایران اور عراق کے اسٹریٹیجک اور تاریخی تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور عراق کے ایک دوسرے کے ساتھ ہونے کی واضح مثال داعش کیخلا جنگ ​​تھی، جب ایرانیوں اور عراقیوں کا خون ایک خندق میں ملا تھا۔

 انہوں نے شہداء سردار سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی یاد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان دونوں عظیم شہداء کو ایران اور عراق کی دو قوموں کے ایک دوسرے کے ساتھ ہونے کی ایک اور مثال قرار دیا۔

السودانی نے دونوں ممالک کے درمیان معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے اور مختلف شعبوں بالخصوص اقتصادی میدان میں تعلقات کو وسعت دینے کے لیے عراق کی نئی حکومت کے عزم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور عراق کی سلامتی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہے اور اس کے مطابق ہم کسی بھی فریق کو عراقی سرزمین کو کسی ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

Tuesday, 29 November 2022 22:26

عقیلہ بنی ہاشم کا جواب

حوزہ نیوز ایجنسی | امام حسین علیہ السلام اور آپ کے باوفا اصحاب کی غم انگیز شہادت اور اہل حرم کی کرب ناک اسیری کے سبب یزید اور یزیدیوں میں خوشی منائی جا رہی تھی اور فتح کے نقارے بج رہے تھے تو دوسری جانب ہر لمحہ اسیران اہل حرم کی مصیبتوں میں اضافہ ہی ہو رہا تھا۔

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی مشہور حدیث ہے’’ اَلْهَمُّ نِصْفُ اَلْهَرَمِ‘‘ یعنی غم و اندوہ آدھا بڑھاپا ہے۔ یعنی غم و الم انسان کے حوصلے پست کر دیتے ہیں، آدمی ہمت ہار جاتا ہے، اپنا دفاع تو دور مزید ظلم سہنے میں ہی عافیت تصور کرتا ہے۔ لیکن کیا کہنا شیر خدا کی شیر دل بیٹی صدیقہ صغریٰ حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کا کہ ۲۸؍ رجب سن ۶۰ ہجری کو اپنے بھائی کے ہمراہ مدینہ سے سفر مظلومیت کا آغاز کیا، مدینہ سے بلد امین پہنچیں لیکن جب یہاں بھی امن نہ ملا اور وارث انبیاء سرکار سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے حرم الہی مکہ مکرمہ کی حرمت کی پاسبانی کی خاطر عین حج کے دن ۸؍ ذی الحجہ کو جب سارے حاجی مکہ مکرمہ میں موجود ہوتے ہیں توقبلہ ایمان امام حسین علیہ السلام نے قبلہ عبادت خانہ کعبہ کو خیرباد کہا تو بھائی کے مقصد میں شریک بہن نے بھی بیت الہی الوداع کہا۔

راہ کربلا میں سفیر حسینی حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام اور دیگر وفاداروں کی شہادت کی خبر ملی تو نہ صرف امام حسین علیہ السلام ہی غم زدہ ہوئے بلکہ پورا کاروان حسینی تصویر غم بن گیا۔ ۲؍ محرم سن ۶۱ہجری کو آخر یہ کاروان اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ بھائی کے ہمراہ بہن نے بھی کربلا میں قیام کیا، کربلا میں تشنگی کی مصیبت آن پڑی تو ساقی کوثر کا گھرانہ تین دن تک پیاسا رہا۔ دسویں محرم کو تیر و کمان، نیزہ و خنجر سے پیاسے سیراب ہوئے۔ شہدائے کربلا نےشہادت پیش کر کے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا لیکن جو بچ گئے وہ اسیر محن ہوئے اور انکی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہی ہوا۔ دلوں میں عزیزوں اور چاہنے والوں کا غم تو آنکھوں سے ان گلہائے غم کی بشکل اشک خوشبو پھیلی اور ظالموں کے نہ رکنے والے مظالم کا سلسلہ تھا۔ ایسا غم کہ اگر کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار جاتا، اس کے حوصلے پست ہو جاتے، دفاع کی قوت سلب ہو جاتی، شہادت کے مشن کا تحفظ تو دور خود خدا کا انکار کر دیتا۔

درود و سلام ہو اسیران کربلا پر جنہوں نے پیغام کربلا کو نہ صرف تحفظ بخشا بلکہ اسکی تبلیغ بھی کی ۔ وہ ایسے اسیر تھے جنہوں نے رہتی دنیا تک انسانیت کو درس حریت دیا۔

لاکھوں درود و سلام ہو شیر خدا کی شیر دل بیٹی زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا پر کہ جب بارہویں محرم کو ابن زیاد ملعون اپنے جرائم اور قتل و غارت و اسارت کی خوشی کے نشے میں مست پوچھتا ہے کہ تم نے اللہ کو کیسا پایا تو زینت حیدر ؑ نے وہ جواب دیا جو قیامت تک موحدین کے لئے مشعل راہ ہے ’’وما رأیت الا جمیلا‘‘ یعنی ہم نے جمال و خوبصورتی کے سوا کچھ نہ دیکھا۔ حقیقت ہے اتنے غم و الم کے بعد خاتون تو کیا کوئی مرد بھی یہ جملہ نہیں کہہ سکتا تھا جو بی بی ؑ نے فرمایا۔ بے شک وہ اس باپ کی زینت تھیں جنہوں نے ضربت ظلم کھانے کے اپنی کامیابی کا اعلان کیا ۔ وہ اس معصوم بھائی کی شریکہ مقصد بہن تھیں جنہوں نے باوفا اصحاب اور دل کے ٹکڑوں کے لاشے اٹھانے کے بعد سر کو سجدہ آخر میں رکھ کر فرمایا : ’’خدایا میری قربانیوں کو قبول کر لے۔ ائے فریادیوں کی فریاد سننے والے میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں۔ ‘‘

حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا بھی اسی عظیم باپ کی عظیم بیٹی اور عظیم بھائی کی بہن تھیں کہ جب بھائی کے جنازے پر پہنچی تو بارگاہ خدا میں دست بہ دعا ہوئیں خدایا میری قربانی کو قبول کر لے۔ کیا کہنا اس عابدہ آل علیؑ کا جس کی عبادت کا قصیدہ زین العابدین علیہ السلام نے پڑھا کہ شام غریباں میں بھی میری پھوپھی کی نماز شب قضا نہیں ہوئی۔ شہزادیؑ نے اس ہولناک شب میں بھی جلے ہوئے خیام کی راکھ کے مصلی پر نماز شب ادا کی، غم و اندوہ ضعف کا سبب ہوئے لیکن عبادتوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جب ضعف کے سبب کھڑی نہیں ہو سکتی تھیں تو بیٹھ کر ہی نماز ادا کی۔

کوفہ میں مصائب کا سلسلہ نہیں رکا بلکہ مقاتل میں مرقوم ہے کہ اسیران اہل حرم کو کوفہ سے شام لے جایا گیا اور راہ شام میں ان دشمنان اسلام وانسانیت کے لئے جتنا ممکن تھا اتنا ظلم کیا ۔ نہ جانے کتنے کم سن بچے راہ شام میں شہید ہو گئے۔ آخر اسیروں کا قافلہ شام پہنچا۔ ایک جانب اہلبیت ؑ کی مظلومیت تھی تو دوسری جانب امویوں اور یزیدیوں میں فتح کے نقارے تھے۔

اسی عالم میں کہ جب ہر جانب خوشی منائی جا رہی تھی اسیروں کو دربار یزید میں پیش کیا گیا ۔ وہ ملعون اپنے سجے دربار میں تخت پر بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے طشت میں مظلوم کربلا کا سر تھا ۔ جیسے ہی بہن کی نظر بھائی کے سر بریدہ پر پڑی ، با آواز بلند گریہ کرتے ہوئے نوحہ پڑھا ’’یا حُسَیْناهُ! یا حَبیبَ رَسُولِ اللهِ! یَابْنَ مَکَّهَ وَ مِنی، یَابْنَ فاطِمَهَ الزَّهْراءِ سَیِّدَهَ النِّساءِ، یَابْنَ بِنْتِ الْمُصْطَفی‘‘ راوی کا بیان ہے کہ جیسے ہی بی بی ؑ نے نوحہ و فریاد کی دربار کا ماحول بدل گیا اور وہاں موجود کوئی بھی اپنے آنسو نہ روک سکا اور خود یزید پر سکوت طاری ہو گیا ۔

عالمہ غیر معلمہ فہیمہ غیر مفہمہ ؑ کے اس اقدام کا پہلا اثر یہ ہوا کہ جب یزید نے سید الشہداءؑ کے دندان مبارک کی توہین کی تو وہاں موجود صحابی رسول جناب ابوبرزہ اسلمیؓ نے اس سرکش کی سرزنش کی اور امام حسین علیہ السلام کے فضائل پڑھے کہ تاریخ نے لکھا کہ دربار تو یزید کا تھا لیکن فضائل حسینؑ کے بیان ہوئے۔ آخر اس بے حیا نے وہ کفر آمیز شعر پڑھے جسمیں توحید و وحی کا بھی انکار تھا اور نبوت کا بھی انکار تھا ۔ جس نے نہ صرف یزید بلکہ پورے سلسلہ قبل و بعد کے چہرے پر پڑی اسلام کی نقاب کو اتار دیا۔

اس موقع پرحضرت زینب سلام اللہ علیہا نے خطبہ دیا جسمیں حمد و درود کے بعد آیت ’’وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ‘‘ (’’اور خبردار یہ کفاّر یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں کوئی بھلائی ہے- ہم تو صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ جتنا گناہ کرسکیں کرلیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔ ‘‘ سورہ آل عمران، آیت ۱۷۸) کی تلاوت فرما کر اس مغرور و ملعون کے غرور کو توڑ دیا کہ اپنی حکومت و ثروت اور لشکر پر غرور نہ کرو بلکہ یہ صرف خدا کی جانب سے مہلت ہے اور عذاب و رسوائی تیرا مقدر ہے۔

اس کے بعد شہزادیؑ نے ’’ اَ مِنَ الْعَدْلِ یَابْنَ الطُّلَقاءِ‘‘ (کیا یہی عدل ہے اے آزاد شدہ کے بیٹے) فرما کر اس کے خاندان پر رسول اکرمؐ کے گئے عظیم احسان کو بیان کر دیا کہ جب لشکر اسلام نے تمہارے آباء و اجداد کو اسیر کیا تو رسول رحمتؐ نے انہیں آزاد کر دیا تھا۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید کے کفریہ شعر کہ ’’ائے کاش میرے جنگ بدر میں مارے گئےبزرگ ہوتے۔۔۔۔‘‘ کے جواب میں فرمایا: ’’تو سید الشہداء ؑ کے دندان مبارک کی توہین کرتے ہوئے اپنے بے دین بزرگوں کو یاد کر رہا ہے ۔ عنقریب تو بھی ان کے پاس چلا جائے گا ۔ ‘‘ فرما کر پورے خاندان کے انکار دین اور اسلام دشمنی کو واضح کر دیا۔

اس کے بعد شہزادی ؑ نے شہداء کے مقام و مرتبے کو بیان کیا اور یزید و یزیدیوں کو قیامت کے دن عدل الہی کی یاد دلائی ۔ آخر میں ایک ایسی حکمت آمیز بات کہی کہ پوری یزیدیت لرزہ بہ اندام ہو گئی ۔ فرمایا: مجبوراً میں نے تجھے خطاب کیا ہے ورنہ تیری حیثیت نہیں کہ تجھے خطاب کیا جائے۔ آخر میں اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی حمد فرمائی۔

شیر خدا کی شیر دل بیٹی کے جوابات آج تک لا جواب ہیں بلکہ ہمیشہ ہی لاجواب رہیں گے اور آپؑ کے یہ جوابات رہتی دنیا تک مظلوموں اور کمزوروں کے لئے چراغ راہ ہیں کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں کبھی بھی ظلم کے سامنے سر نہ جھکانا بلکہ جب بھی موقع ملے ظلم کو آئینہ ضرور دکھا دینا۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

سحر نیوز/ دنیا: علاقے میں اسرائیل کی فوجی ترجیح اس وقت پوری طرح سے ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت تک خود اسرائیلی قبضے والے علاقوں میں حالات اتنے بے قابو ہو چکے ہيں کہ صیہونی اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں جبکہ عالمی سطح پر بھی انہیں اپنے وجود کو باضابطہ قبول کروانے کے لئے لڑنا پڑ رہا ہے۔ اس پوری مدت میں فلسطینیوں نے اپنے مطالبات نہیں چھوڑے ہيں بلکہ ان کی مزاحمت بدستور تیز ہوتی جا رہی ہے۔

اگر اسرائیل کے قیام کے اہداف پر نظر ڈالی جائے اور اس کی آج کی حالت کا جائزہ لیا جائے تو صاف ہو جائے گا کہ سیاسی، اجتماعی پہلوؤں اور آبادی کی سطح پر اس کے سامنے شدید بحران ہے اور اس کا وجود پوری طرح سے خطرے میں ہے۔

اسرائیل کے قیام کا پہلا ہدف یہ تھا کہ یہودیوں کا ایک بڑا ملک بنے جو مشرق وسطی کے علاقے کی سپر پاور ہو۔ مگر آج غور کیجئے تو اندازہ ہو جائے گا کہ ان میں سے زیادہ تر اہداف ناقص رہ گئے ہیں، اسرائیل اپنی مرضی سے اپنی سرحدوں کا تعین نہیں کر پا رہا ہے جبکہ اس درمیان اس کے سامنے آبادی کا بڑا بحران کھڑا ہوا ہے۔

اس وقت اسرائیل جغرافیائی طور پر محاصرے میں ہے جس کے نتیجے میں وہ توسیع پسندانہ اسٹراٹیجی دیوار سے لگانے پر مجبور ہے۔ چالیس لاکھ فلسطینیوں کی آبادی اب بھی فلسطینی علاقوں میں بستی ہے۔

اسرائیل ان سے نجات پانے کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مار رہا تھا تاہم ناکام رہا۔ ان فلسطینیوں کی مزاحمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ امریکا کی نگرانی میں کچھ عرب حکومتوں کے ساتھ اسرائیل کے امن معاہدے بھی ہو گئے ہیںن تاہم علاقے پر تسلط قائم کرنے کا اس کا خواب آج بھی مکمل نہيں ہوا ہے۔

علاقے میں فوجی تسلط اور ترجیح بنائے رکھنا، اسرائیل کا اہم ہدف تھا وہ اپنے مخالفین کی سرحدوں کے اندر جنگوںن کو لے جانا چاہتا تھا تاہم اب اپنے قبضے والے علاقے میں جنگ لڑنے پر مجبور ہے۔

اسرائیل کی یہ کوشش تھی کہ دنیا بھر سے یہودی مہاجرت کرکے فلسطینی علاقوں میں آ جائیں تاہم سب کچھ برعکس ہو گیا اب تو فلسطینی علاقوں میں آکر بسے اسرائیلی وہاں سے واپس جانے لگے ہيں۔

اسرائیلی معاشرے میں تقسیم بہت شدید ہو گئی ہے اور پوری کمیونیٹی پوری طرح سے تقسیم ہو چکی ہے۔ اسرائیل کی ہوم لینڈ سیکورٹی کے ادارے شاباک کے سربراہ رونین بار نے کہا کہ اسرائیل کے وجود کے لئے خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے۔ اسرائیلی معاشرے میں بہت بری طرح اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔

ان حالات کی وجہ سے اسرائیلی رہنماؤں نے اب اسٹراٹیجی اہداف کے بارے میں بات کرنا بند کر دیا ہے۔ اب ان کی نظر فرعی اور چھوٹے اہداف پر ٹکی ہوئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل اور اسرائیلیوں پر ناامیدی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔

 

بحرین کی حکومت ایک خاموش سازش کے تحت طلباء کی نصابی کتابوں کے مواد کو تبدیل کرکے اور سمجھوتہ کرنے والے الفاظ اور لٹریچر متعارف کروا کر صیہونی حکومت کی طرف بحرین کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کا رویہ تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

حکومت بحرین کی جانب سے اس ملک کے طلباء کے صیہونی دشمن کے تئیں رویہ تبدیل کرنے اور اسرائیل کی قابض حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے آنے والی نسلوں کی رائے عامہ کے ذریعے قبول کرنے کی بنیاد فراہم کرنے کے اقدامات کے بارے میں۔ اس ملک میں، انہوں نے لکھا: ہر سال 29 نومبر کو آزاد فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا عالمی دن مناتے ہیں اور ہر سال 6 دسمبر کو عرب ٹیچر ڈے مناتے ہیں تاکہ دشمن کے ساتھ معمول پر مزاحمت کی جاسکے۔ یہ دو دن اسرائیل کی غاصب حکومت اور اس کے جرائم اور بربریت کے خلاف جنگجوؤں کے ساتھ تجدید بیعت کا وقت ہیں۔ لیکن عرب ممالک کے حالات دو سال پہلے بدل چکے ہیں، خاص طور پر صیہونیوں کے ساتھ خیانت کے معاہدوں کے نتیجے میں۔

شاید فلسطینی کاز کے کسی بھی حامی کو درپیش سب سے بڑا چیلنج اور دشمن کے ساتھ کسی بھی ذلت آمیز معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار معمول کی چٹان کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔ کویت کے علاوہ خلیج فارس کے نظر انداز نظام عوام کی بدقسمتی بن چکے ہیں۔

ان نظاموں کا سب سے خطرناک منصوبہ آنے والی نسلوں کی سوچ میں غداری کے الفاظ داخل کرنا ہے۔ تعلیم اس سازش کی علامت ہے جو عرب طلباء کے خلاف تیار کی گئی ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جو صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہیں، جن میں بحرین بھی ایک ہے۔ وہ شخص جسے دو روز قبل منامہ میں بحرین کے وزیر تعلیم کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، صیہونی دشمن کے ساتھ خوشامد اور اتحاد کی تاریخ رکھتا ہے۔ "محمد المبارک کے نائب وزیر رہنے سے لے کر وزیر بننے تک کی سوچ ان کے صہیونی دوستوں کی چاپلوسی سے بھری ہوئی ہے اور اس وجہ سے خدشہ ہے کہ وہ اس شوق کو بحرین میں تعلیم کے لیے اپنے تعلیمی پروگرام میں استعمال کریں گے۔ .

عرب ممالک میں لازمی نارملائزیشن ٹریننگ

بحرین کے بعض تعلیمی ذرائع نے احد نیوز سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے اس مشکل امتحان کے بارے میں بات کی جس سے اساتذہ آج ملک میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی وجہ سے گزر رہے ہیں۔ ان تعلیمی ذرائع نے ان کو معمول پر لانے کے عمل کی پیروی کرنے پر مجبور کرنے کے بارے میں بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا - اس کی وسیع پیمانے پر عوامی مخالفت کے باوجود - اور عوامی ثقافت کی ملازمتوں کی سطح پر اس معمول کے خطرے کے بارے میں۔

ان ذرائع نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے مخالفین کو بحرین کی عدالت میں طلب کیا گیا ہے، کہا: اس وقت اس سلسلے میں ایک مقدمہ چل رہا ہے۔ ان میں سے بعض ذرائع نے کہا: جب تک اس معاملے کو قانونی چھتری حاصل ہے، تعلقات کو معمول پر لانے سے نمٹنے کو جرم قرار دینا ایک حقیقی چیز رہے گی۔

والدین تعلقات کو معمول پر لانے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔

اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ والدین نسلوں کے دلوں میں درست تصورات اور مستند اقدار کی آبیاری کے ذمہ دار ہیں، ان ذرائع نے اس بات پر زور دیا کہ ابتدائی تعلیم کے بنیادی ماحول سے باہر موثر عوامل سے رابطہ اور ان کے سامنے آنے سے پہلے حقیقی تعلیم بچے کی پرورش کے ماحول میں ہونی چاہیے۔

بحرین کے تعلیمی ذرائع کے مطابق نئی نسل کی تشکیل اسی طرف لوٹے گی جسے ہم نے شعور کی تشکیل کے آغاز سے ہی ادارہ بنا رکھا ہے، اس لیے مزاحمت کے تصورات، معمول پر آنے کی مخالفت اور دشمن کو تسلیم نہ کرنا اولین چیزوں میں شامل ہیں۔ ایک بچے کو حاصل کرنا چاہئے باہر کی چیزوں سے نمٹنے کے قابل ہونا۔ ساتھ ہی اسے اس بات سے بھی آگاہ کیا جائے کہ اس کی تعلیم اس پر باضابطہ طور پر کیا مسلط کرے گی اور وہ حقیقی نہیں ہیں بلکہ گھر پر جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ حقیقی ہے۔

ان ذرائع نے، مناسب پرورش میں گھر کے کردار کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور اسکول میں بچہ سیکھنے والی ہر چیز کو جذب کرنے اور اس کے تصورات کی دوبارہ وضاحت اور انجینئرنگ میں والدین کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، بہترین طریقے سے اس بات پر زور دیا کہ جب "اسرائیل" اسکول کے نصاب میں اس کے خاندان کے بارے میں بات کی گئی ہے، وہ اسے سمجھائیں کہ یہ ’’حکومت‘‘ نہیں، بلکہ غاصب حکومت ہے۔

ہمیں بچے میں یہ بھی باور کرانا چاہیے کہ کتابوں کے مواد اور تاریخ کے حقائق میں فرق ہے تاکہ نصاب کے ذریعے برین واشنگ کے عمل سے بچا جا سکے جو مستقبل میں کردار کو تبدیل کر سکتا ہے۔

بحرین کے قوانین تعلقات کو معمول پر لانے کا حکم دیتے ہیں۔

ان ذرائع کے مطابق، بحرین میں تعلقات کو معمول پر لانے کی تعلیم ناگزیر ہے، خاص طور پر وزیر تعلیم کی تقرری کے بعد، جو زیادہ تر اس نقطہ نظر پر یقین رکھتے ہیں، مستقبل میں، کیونکہ زیادہ تر سیاست دانوں کا خیال ہے کہ وزارت کے عہدے کے لیے ان کا انتخاب اس بنیاد پر کیا گیا ہے۔ ان کے میڈیا بیانات اور بحرین حکومت کے وژن کے ساتھ ان کی تعمیل، جن میں سے سب سے اہم معمول پر لانا ہے۔

بحرین کے ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ "بحرین کے تمام کونوں میں تعلقات کو معمول پر لانے کی تربیت ایک درخواست پروگرام کے لیے بالکل ٹھیک ہو گی"۔

ان ذرائع نے مزید کہا: جو چیز ہماری باتوں کی تصدیق کرتی ہے وہ یہ ہے کہ نئے وزیر نے تعلیمی سال کے آغاز سے ہی تعلیم پر تنقید کرنے والے کو سزا دینے پر غور کیا ہے اور ان کا تعارف سیکورٹی حکام سے کرایا ہے اور ان کے خلاف تحفظ کے عنوان سے مختلف احکامات جاری کیے ہیں۔ اساتذہ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جب کوئی بھی استاد، طالب علم یا والدین تعلقات کو معمول پر لانے کی تعلیم کے موضوع پر تنقید کریں گے تو ان کے ساتھ کیا گزرے گی۔

انہی ذرائع کے مطابق بحرینی اساتذہ عام طور پر اعلیٰ سیاسی شعور رکھتے ہیں اور انہوں نے شروع سے ہی 2011 کے واقعات کی حمایت کی اور جاری رکھی۔

ان ذرائع نے اعتراف کیا کہ مطلوبہ پالیسیوں پر مبنی تعلیم و رہنمائی کے عمل پر صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والی عرب حکومتوں کا تسلط بلاشبہ نوجوان نسل اور ان کے ذہنوں اور عقائد کی تشکیل کو متاثر کرے گا اور وہ ایک ایسی نسل بن سکتی ہے جس کی وجہ سے ان کی تعلیم اور رہنمائی پر عمل درآمد ہو گا۔ تاریخ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں، ان کا نہ ماضی ہے نہ حال، ایک نسل جو ہوا میں تیر رہی ہے۔

تعلیم کے پہلے سال فلسطین سے محبت پر مبنی

تعلیم کے ان ذرائع کے مطابق بحرینی، مسئلہ فلسطین پر یقین رکھنے والی نسل کی تعلیم کو گھر یا کنڈرگارٹن یا اسکول کے ابتدائی سالوں سے لے کر یونیورسٹی تک جاری رہنا چاہیے۔ یہ جدید نصاب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے کہ یہ صرف تھیوری سیکھنے تک محدود نہیں ہے بلکہ عملی مشق کے ذریعے سیکھنا ہے۔ جیسے کہ یوم ارض منانا (فلسطینی قوم کی حمایت کے لیے) یا اسکول کے ڈراموں کا انعقاد جو مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کے استحکام سے متعلق ہوں، یا قدس، گنبد چٹان، پرچم اور ثقافتی ورثے پر توجہ مرکوز کرنے والے فلسطین کے بارے میں آرٹ کے مقابلے شامل ہوں۔
http://www.taghribnews

تہران۔ ارنا – ایرانی سپریم لیڈر نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے ہمارے مسائل کا حل نہیں کیا جائے گا۔

یہ بات ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے آج بروز ہفتہ ہفتہ بسیج کی مناسب سے ملک بھر سے آئے ہوئے بسیجی فورسز سے ملاقات میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ بعض لوگ سیاسی فہم و فراست کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے بیانات لوگوں کو غمگین کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خلفشار اور فسادات کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ کے ساتھ مسائل حل کریں!

انہوں نے کہاکہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوگا، بلکہ یہ مسئلہ مسلسل رشوت دینے سے حل ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا ایرانی رضاکارانہ فوجی فورس (بسیج)کے اہلکاروں سے خطاب بسیجی رضاکار فورسز کے ہفتے کی مناسبت سے حسینیہ امام خمینی میں آغاز کیا گیا ہے جو یہ سرکاری ٹی وی اور انٹرنیٹ پر آج بروز ہفتہ براہ راست نشر کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق 50 لاکھ کے قریب بسیجی اہلکار نے ملک بھر سے براہ راست اور ویڈیو لنک کے ذریعے اس تقریب میں شرکت کی ہے۔ 

رہبر معظم انقلاب نے مغربی ایشیا اور بالخصوص ایران کی جغرافیائی پوزیشن کی خصوصیات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: امریکیوں کا خیال ہے کہ ایران پر حملہ کرنے سے پہلے وہ پڑوسی ممالک جن کو ایران کے ساتھ گہرے تزویراتی تعاون حاصل ہے کو مفلوج کرے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ امریکیوں نے 2006 میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ایران پر حملہ کرنے کے لیے سب سے پہلے چھ ممالک بشمول عراق، شام، لبنان، لیبیا، سوڈان اور صومالیہ پر حملہ کیا جانا چاہیے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ شمالی افریقہ میں داخل نہیں ہوا لیکن ان تینوں ممالک عراق، شام اور لبنان میں ایران کی پالیسی نے کام کیا جس کا نتیجہ ان ممالک میں امریکہ کی شکست تھا۔

انہوں نے شہید قاسم سلیمانی کی بہادری کا حوالہ دیتے ہوئےحاج قاسم کا نام ایران کے دشمنوں کے لیے ناگوار ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ کی پالیسی کا پرچم جس نے دشمن کے گہرے منصوبے کو ناکام بنایا، اس شہید کے ہاتھ میں تھا۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا کہ رضاکار فورسز 'بسیج' کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عالمی استکبار سے نمٹنا بہت اہم  ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج دشمن کا سب سے اہم طریقہ جھوٹ بولنا اور جھوٹ بولنا ہے۔ وہ جھوٹی خبریں اور تجزیے دیتے ہیں، قتل کرتے ہیں، آج دشمن جھوٹ کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے مزید کہا کہ دشمن دماغوں پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اگر کسی قوم کے دماغ پر قبضہ کر لیا جائے تو وہ قوم دو ہاتھوں سے(آسانی سے) اپنی سرزمین کو دشمن کے حوالے کر دے گی۔

قائد انقلاب نے کہا کہ کل قومی فٹبال ٹیم کے کھیلاڑیوں نے ہماری آنکھوں کو روشن اور لوگوں کو خوش کیا۔ انشاء اللہ ان کی آنکھیں روشن ہو جائیں گی۔