سلیمانی

سلیمانی

ارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے 2001 میں نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردانہ حملوں اور اسی سال 11 ستمبر کو پینٹاگون کو ہونے والے شدید نقصان کے بہانے افغانستان پر حملہ کیا۔ امریکہ نے اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر القاعدہ کے عناصر کو تلاش کرنے اور ان کے طالبان حامیوں کا تختہ الٹنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا، لیکن 21 سالہ حملے نے افغانستان کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ اس طرح امریکی افواج کو 15 اگست 2021 کو جنگ زدہ ملک سے انخلا کرنا پڑا۔

گزشتہ سال اگست کے اوائل میں مختلف صوبوں میں طالبان کی افواج کی تیزی سے پیش قدمی نے نہ صرف علاقائی اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں بلکہ امریکی اور افغان سیاستدانوں میں بھی شدید صدمہ پہنچایا۔

پھر، افغانستان کے سابق صدر محمد اشرف غنی کے متنازعہ فرار کے صرف 48 گھنٹے بعد، 13 اگست کو صوبہ ہرات کے سقوط پر بات کرنے کے لیے مختلف اعلیٰ حکام نے ان سے ملاقات کی، جب تمام اعلیٰ عہدے داروں نے اس صورت حال پر ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے اور وہ فوجیوں کا طالبان سے لڑنے سے انکار حیران رہ گئے۔

بعد ازاں اشرف غنی نے ایک انٹرویو میں اعلان کیا کہ افغانستان میں امریکی سفیر زلمای خلیل زاد نے تمام افغان سیاست دانوں کو تقسیم کر دیا۔

افغانستان کی تعمیر نو کے لیے خصوصی انسپکٹر جنرل (سیگار) نے گزشتہ افغان حکومت کے آخری دنوں پر ایک رپورٹ جاری کی، جس میں اس وقت کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے حوالے سے کہا گیا کہ کسی نے بھی دارالحکومت کابل کے دفاع کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس دن صدر غنی نے اجلاس کے شرکاء پر زور دیا کہ وہ دلائل بند کریں اور طالبان کے دارالحکومت تک پہنچنے پر توجہ دیں اور انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں قوم سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا کہ افغان حکومت طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے مزاحمت کرے گی۔

غنی کو توقع تھی کہ کابل حکومت کو آسانی سے سونپنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے اگلے دو ہفتوں میں طالبان کے خلاف کھڑا ہو جائے گا، لیکن طالبان کی پیش قدمی واپس نہیں جا سکی۔

سابق افغان عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بھی بتایا کہ بعض اعلیٰ حکام اب بھی یہ سوچ رہے تھے کہ طالبان کابل میں داخل نہیں ہوں گے کیونکہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا تک دارالحکومت میں داخلے کو روک دیا جائے لیکن طالبان نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی، شہر میں داخل ہوا.

ممتاز امریکی صحافی اور تجزیہ کار ڈیویڈ ایگناٹیوس نے 21 دسمبر 2021 کو واشنگٹن پوسٹ میں لکھا کہ بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی بدترین غلطی افغانستان سے انخلاء کا مؤثر انتظام تھا اور بائیڈن طویل ترین امریکی جنگ کو ختم کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ عمل امریکہ کے وقار کے لیے مہنگا تھا۔

نیویارک ٹائم نے 22 ستمبر 2021 کو رپورٹ کیا کہ بائیڈن نے دعویٰ کیا کہ جنگ ختم ہو گئی ہے لیکن امریکی جنگیں ابھی بھی جاری ہیں۔

گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس میں، بائیڈن نے الزام لگایا کہ گزشتہ 20 سالوں میں پہلی بار، امریکہ کسی جنگ میں شامل نہیں ہوا۔ تاہم، حقیقت میں تقریر سے صرف ایک دن پہلے، ایک امریکی ڈرون نے شمال مغربی شام میں ایک دور دراز سڑک پر ایک کار کو نشانہ بنایا اور اس موقع سے تین ہفتے قبل، امریکی فوج نے صومالیہ میں الشباب گروپ پر حملہ کیا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق افغانستان میں شاید امریکی فوجی دستے موجود نہ ہوں لیکن امریکی جنگیں اب بھی دنیا کے مختلف حصوں میں تباہی مچا رہی ہیں۔

بائیڈن نے جون میں کانگریس کو ایک خط بھیجا، جس میں ان تمام ممالک کا نام دیا گیا جہاں امریکہ کی فوج ہے یا فوجی آپریشن جاری ہے۔ خط کے مطابق مشرق وسطیٰ میں 40 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔ صدر نے یہ بھی تسلیم کیا کہ امریکی فوج افغانستان میں دہشت گردی کے خطرات کے خلاف مستقبل میں آپریشن کرنے جا رہی ہے۔

درحقیقت، امریکہ کے فوجی فیصلہ سازوں نے شمالی افریقہ، ایشیا اور دیگر مقامات پر داعش سے وابستہ گروہوں کے ظہور کے بہانے کچھ آپریشن جاری رکھنے کے بہانے ڈھونڈ لیے ہیں۔

افغانستان سے امریکی انخلاء کے ایک سال بعد، بائیڈن اب بھی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے شعلے کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اپنی صدارت کو بچانے کی راہ ہموار کر سکیں اور آئندہ کانگریس کے وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کی جیت میں مدد کریں۔ لہذا، اس نے 2 اگست کو اعلان کیا کہ امریکہ نے 31 جولائی 2022 کو القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو ہلاک کر دیا۔

ایسا لگتا ہے کہ امریکی بیان باز ہمیشہ اپنی حکومت کی بقا کو دنیا بھر میں گرمجوشی پیدا کرنے والی پالیسیوں سے جوڑتے ہیں، اور تاریخی ناکامیوں کے تلخ تجربات ان کے نئے تنازعات کو جنم دینے کے شوق کو نہیں روک سکتے.

 

برطانوی میگزین (سان) نے کہا ہے کہ انگلینڈ میں خشک سالی کی وراننگ کے بعد، بہت سے برطانوی عوام نے وحشت میں آکر پانی خریدنے کیلئے اسٹورز کا رخ کیا جس کے نتیجے میں ایک چین اسٹور، پانی کے راشن دینے پر مجبور ہوگیا۔

اس چین اسٹور کی ایک ذیلی شاخ (Aldi) نے ایک اعلانیہ میں کہا ہے کہ شدید گرمی کی وجہ سے صارفین کی پانی خریدنے کی مانگ میں اضافے کے پیش نظر ہر کوئی فرد صرف پانچ پانی کے بوٹل کو خرید کرسکتا ہے۔

اس علانیہ میں اس اسٹور نے بحرانی صورتحال میں موجودہ پابندیوں کے پیش نظر، اپنے صارفین کو اس صورتحال کو سمجھنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی دعوت دی ہے۔

برطانوی عوام کی خشک سالی کی وراننگ کے بعد پانی خریدنے کی رش

اسکای نیوز کی رپورٹ کے مطابق اور برطانوی محکمہ موسیمات کے تجزیات اور اعداد و شمار کے مطابق، رواں عیسوی سال کے ابتدا سے جون تک اکثر علاقوں میں کل بارش میں 1836میں ریکارڈ کی گئی اوسط کے مقابلے میں نمایاں کمی نظر میں آئی ہے۔

ڈیلی میل ویب سائٹ نے ایک رپورٹ میں برطانیہ میں شدید گرمی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج بروز ہفتے کو اس ملک کے عظیم حصے میں خشک سالی کی وراننگ دی گئی ہے اور اس حوالے سے گھروں کے لیے راشن اور نل کے پانی کے استعمال پر پابندی جیسے اقدامات کا نفاذ کیا جائے گا۔

اسی رپورٹ کے مطابق، اس شدید گرمی اور خشک سالی، آئندہ عیسوی سال تک جاری ہوسکتی ہے اور برطانیہ کے جنوب اور مشرق میں واقع شدید گرمی کا شکار بعض پانی تیار کرنے والی کمپنیاں، وسائل کی بچت سمیت لاگت کی بچت کے مزید اقدامات کرنے پر مجبور ہوں گے۔

تہران، ارنا - ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کو جان لینا چاہیے کہ ایرانی قوم کے خلاف دھمکی کی زبان استعمال کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

یہ بات حسین امیرعبداللہیان نے ہفتہ کے روز اپنے ٹوئٹر پیج میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ نے امریکہ کو یہ سکھایا ہوگا کہ ایران اور ایرانیوں کے خلاف دھمکی کی زبان سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
امیرعبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ انحراف کی فضول کوششیں امریکہ کو ہمارے خطے میں دہشت گردی کے جرائم میں ملوث ہونے کے ہزاروں ایرانیوں اور دیگر متاثرین کی ذمہ داری سے بچنے کی اجازت نہیں دے گی۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے منگل کے روز اپنے ایک ٹویٹ میں خیام سیٹلائٹ کے خلا میں بھیجنے کو، پرامن مقاصد کے لیے ایرانی سائنسدانوں کی نئی ایرو اسپیس کامیابی اور ایران کے سائنسی اعزازات کی تاریخ میں ایک اور سنہری باب قرار دیا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ دشمن کی جانب سے عائد پابندیوں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کے باوجود ایران کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کا شاندار سلسلہ جاری ہے۔

واضح رہے کہ مقامی سیٹلائٹ خیام کو منگل کی صبح دس بجکر بائیس منٹ پر قازقستان کے بایکونور خلائی اسٹیشن سے  خلا میں روانہ کیا گیا تھا جس نے طے شدہ مدار میں پہنچنے کے بعد سکنگل بھی ارسال کرنا شروع کر دئے ہیں۔

آسمان امامت و ولایت کے درخشاں ستارے فرزند رسول اور شیعیان عالم کے چوتھے امام، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم شہادت اور اہل حرم کی اسیری کی یاد میں پورے ایران میں مجالس عزا اور نوحہ و ماتم کا سلسلہ جاری ہے۔

آپ کی تاریخ شہادت کے سلسلے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں تاہم سبھی تواریخ محرم میں ذکر ہوئی ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ۱۲ محرم، بعض کے مطابق ۱۸ محرم جبکہ بعض روایات کی بنا پر ۲۵ محرم کو آپ کی شہادت واقع ہوئی ہے۔ اسکے علاوہ بعض روایات کے آپ کے سالِ شہادت کو ۹۴ ہجری جبکہ بعض نے ۹۵ ہجری نقل کیا ہے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ستاون برس کی تھی۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے عاشورا کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم تحریک کا سنگین بار اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور بعدِ کربلا خونخوار اموی حکام  کے ایجاد کردہ گھٹن کے ماحول میں بھی آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے پیغام اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا کام انتہائی خوش اسلوبی اور باکمال طریقے سے انجام دیا اور تحریک عاشورا کے مقصد اور اس کے بنیادی فلسفے کو دنیا کے سامنے بڑے انوکھے اور منفرد انداز میں واضح فرمایا۔

مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام کے فرزند امام سجاد علیہ السلام نے واقعۂ کربلا کے بعد اپنی حیات طیبہ میں اپنے آنسو اور گریے کو تبلیغ دین کے ایک موثر ذریعے کے طور پر استعمال کیا اور دین اسلام کے عظیم معارف کو آفاقی دعاؤں کے پیرائے میں دنیا والوں کے سامنے پیش کیا۔ کثرت عبادت اور شب زندہ داری کے باعث آپ دنیا میں زین العابدین اور سید الساجدین جیسے عظیم القاب سے معروف ہوئے۔ ایک قول میں آپ فرماتے ہیں: مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جس کی اکائیاں اُس کی دہائیوں پر غالب آجائیں، آپ سے دریافت کیا گیا کہ اکائی اور دھائی سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا: اکائیاں وہ گناہ ہیں جن کے کرنے پر ایک ہی سزا مقرر ہوتی ہے مگر دہائیاں وہ نیکیاں ہیں جن کو انجام دینے پر خدا دس گنا ثواب بندے کو عطا فرماتا

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے عاشورا کے دن کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم عاشورا کے دن نائیجریا کے عزاداروں پر مسلح چڑھائی کی مذمت کرتے ہیں۔  

تفصیلات کے مطابق حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے خطاب میں عوام اور رہبر انقلاب کو عاشورا کی مناسبت سے تعزیت و تسلیت پیش کی اور رواں سال عاشورا کے موقع پر لبنانی عوام کے وسیع پیمانے پر شرکت کرنے کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک مرتبہ پھر سید الشہدا امام حسین ﴿ع﴾ کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں اور آپ سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی نداء پر لبیک کہتے ہیں؛ جس طرح گزشتہ چالیس سالوں کے دوران، تمام میدانوں میں اور تمام مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں، اب بھی کہتے ہیں لیبک یا حسین۔ 
سید حسن نصر اللہ نے زور دے کر کہا کہ موجودہ حالات میں عربیت، انسانیت اور مسلمانیت کا معیار فلسطینی ملت کی مظلومیت کے مقابلے میں ہمارا موقف ہے۔ فلسطینی ملت غزہ اور نابلس میں لڑ رہی ہے اور اپنی قوت اور توازن کو صہیونی رجیم پر مسلط  کر رہی ہے، یہ لوگ اپنی ان مجاہدتوں کے ذریعے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مقاومت کے سوا کوئی دوسرا راستہ یا انتخاب موجود نہیں ہے۔  

در ایں اثنا انہوں نے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں ایک مرتبہ پھر فلسطین کے مسئلے کے ساتھ تجدیدِ عہد کرتے ہوئے اس مجاہد اور مزاحمت کی حامل قوم کے ساتھ کھڑے رہنے کا تاکید کے ساتھ یقین دلاتے ہیں۔ 

حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے موجودہ محاصرے کے حالات میں یمنی قوم کی کئی سالہ مقاومت اور پائیداری کو سراہتے ہوئے کہا کہ یمنی قوم ان تمام تکالیف اور درد و رنج کے باوجود جو وہ سہی رہی ہے، عالم اسلام کے اصلی مسائل کو نہیں بھولی ہے۔ ملتِ یمن کی جد و جہد اور مجاہدت امام حسین ﴿ع﴾ کی کربلا کا حقیقی تجسم اور عملی نمونہ ہے۔ 
سید حسن نصر اللہ نے عراق کے حالات کے حوالے سے کہا کہ ہم عراقیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان خطرات کے پیش نظر جو آپ کے ملک کو درپیش ہیں، اپنے اختلافات دور کریں۔ انہوں نے شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی محنتوں اور مجاہدتوں کو یاد دلاتے ہوئے زور دیا کہ ایران بدستور عالم اسلام کا قبلہ اور مقاومت کے محور کا قلب باقی رہے گا۔ 
انہوں نے محاصرے اور پابندیوں میں جکڑے لبنان کے سنگین حالات کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا کہ جو ہاتھ لبنان کے سمندری ذخائر کی جانب بڑھے گا اسے اسی ہاتھ کی طرح کاٹ دیا جائے گا جو لبنان کی سرزمین کی طرف بڑھا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم آنے والے دنوں میں صہیونی رجیم کے جوابات کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ سمندری حدود کی حدبندی کے معاملے میں لبنان کے مطالبات کا کیا جواب دیتے ہیں۔ ہم دشمن سے کہتے ہیں کہ لبنان اور قوم اب اپنے ملک کے قدرتی وسائل سے چھیڑ چھاڑ کو قبول نہیں کریں گے اور کسی بھی ممکنہ صورتحال کے لئے تیار ہیں۔  
سید حسن نصر اللہ نے غزہ کی حالیہ صورتحال کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا ہم نے غزہ کی پٹی سے مطلوب پیغام دریافت کیا اور ان کی مقاومت اور پائیداری کا مشاہدہ کیا، تاہم تمہارا ﴿صہیونی رجیم﴾ ہمارے ساتھ لبنان میں معاملہ، ایک الگ معاملہ ہے۔ آج مقاومت ہر دور سے زیادہ طاقتور ہے اور ہرگز لبنان اور اس کی ملت کے بارے میں غلطی نہ کرنا۔    
انہوں نے کہا کہ دشمن کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے مد مقابل کون کھڑا ہے، لبنان کی مقاومت ثابت کر چکی ہے کہ جو فوج ناقابل شکست کہلاتی تھی اسے شکست سے دوچار کردیتی ہے۔ 
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے زور دیا کہ ہم لبنان کے قومی اقتدار اور خودمختاری کے خلاف ہونے والی کسی بھی کوشش کے مخالف ہیں اور ہرگز یہ بات تسلیم نہیں کریں گے کہ ہمارے اوپر جو ہم چاہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی چیز مسلط کی جائے۔ ہم اپنے مستقبل کو خون کی تلوار پر فتح کے اصول کی بنیاد پر امید افزا، واضح اور روشن سمجھتے ہیں۔ 
انہوں نے عاشورا کے موقع پر اپنے خطاب کے ایک حصے میں کہا ہم نے سنا ہے کہ صہیونی قوتیں فلسطینی رہنماوں کی ٹارگٹ کلنک کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں، اگر یہ کاروائیاں لبنان میں انجام دی گئیں تو قطعی طور پر بغیر جواب نہیں رہیں گی۔ 

سید حسن نصر اللہ نے غزہ اور نابلس میں پیش آنے والے حالیہ واقعات اور ان کے نتیجے میں دسیوں فلسطینیوں کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا فلسطین ہمارا اصلی مسئلہ ہے۔ جو لوگ عربیت کا دعوا کرتے ہیں انہوں نے مغربی کنارے، غزہ اور قدس میں بہائے گئے خون کے مقابلے میں کیا اقدامات کئے ہیں؟ وہ لوگ کہاں ہیں؟

کیا ہمارا ذکر کرتے ہو؟

اِنَّ تلكَ المَجالِسَ اُحِبُّها و فأحْيوا أمْرَنا۔انجمن کی بنیاد ائمہ کے صحابیوں نے ڈالی اور انہوں نے اسے شروع کیا۔واقعہِ کربلا کے بعد ساتھ میں بیٹھتے تھے۔امام جعفر صادق علیہ السلام راوی سے سوال پوچھتے ہیں کہ تَجلِسونَ و تُحَدِّثونَ یعنی کیا تم ہمارے مسائل/ذکر کو مطرح کرتے ہو؟

 

ہم ان مجالس کو پسند کرتے ہیں!

وہ راوی امام کے سوال پہ جواب دیتا ہے:ہاں!ہم ایسا کرتے ہیں۔یعنی اس سے مراد یہی ماتمی دستے اور انجمنیں ہیں،اسکے بعد امام فرماتے ہیںاِنَّ تلكَ المَجالِسَ اُحِبُّهامیں ان مجالس کو پسند کرتا ہوں۔

 

 

ہمارے ذکر کو زندہ رکھو!

اس دلِ نازنیں پہ قربان، جو کہتے ہیںاِنَّ تلكَ المَجالِسَ اُحِبُّها و فأحْيوا أمْرَنا۔ہمارے ذکر کو زندہ رکھو وہ بنیادی موضوع کہ جسے ہم امر کہتے ہیں۔اگر ہم آج کل کہ زبان میں کہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ہماری راہ و مکتب کو زندہ رکھو۔صلی الله علیک یا ابا عبد الله۔

 

کائنات کا حسین ترین جوان!

یہ نوجوان اپنے باپ کے پاس آیا۔علی اکبر(ع‌)کی عمر اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان لکھی گئی ہے۔ یعنی کم از کم اٹھارہ سال اور زیادہ سے زیادہ پچیس سال۔ وہ کہتا ہے: "علی ابن الحسین باہر آئے” علی ابن الحسین لڑنے کے لیے خیمہ گاہ سے نکلے۔ یہاں ایک بار پھر راوی کہتا ہے: "یہ نوجوان کائنات کے خوبصورت نوجوانوں میں سے ایک تھا۔” خوبصورت،رشید اور بہادر۔ اس نے اپنے باپ سے جا کر لڑنے کی اجازت مانگی، امام نے بغیر تاخیر کے اجازت دے دی۔

 

 

 

علی اکبر(ع)کو اذن جنگ!

قاسم ابن الحسن کے معاملے میں،پہلے امام نے اجازت نہیں دی،اور پھر قاسم ع نے کچھ دیر تقاضا کیا یہاں تک کہ امام نے اجازت دے دی۔لیکن "علی اکبر بن الحسین” جیسے ہی آئے،کیونکہ وہ انکا اپنا بیٹا تھا،جیسے ہی اس نے اجازت مانگی،امام نے کہا کہ جاؤ۔پھر امام ع نے اپنے نوجوان کو مایوس نظروں سے دیکھا جو میدان کی طرف جا رہا ہے اور اب واپس نہیں آئے گا۔امام ع نے اپنی آنکھیں موند لیں اور بلند آواز سے رونے لگے۔یہ رونا بے صبری کے باعث نہیں تھا بلکہ یہ شدتِ جذبات کی عکاسی کررہا تھا۔اسلام ان جذبات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

 

 

شبیہ پیغمبر،اکبر!

پھر امام فرماتے ہیں: "جب بھی ہمیں نبی(ص) کی یاد آتی، ہم اس نوجوان کی طرف دیکھتے۔” لیکن یہ نوجوان بھی اب میدان کی طرف گیا۔ "پھر امام نے بلند آواز سے عمر سعد کو بد دعا دی اور کہا اے ابن سعد خدا تیری نسل قطع کرے جس طرح تو نے میری نسل قطع کی”۔

 

 

 

 

 

رسول اللہ،ساقی اکبر!

پھر راوی بیان کرتا ہے کہ علی اکبر میدان میں گئے اور بہت بہادری سے جنگ کی اور دشمن کی ایک بڑی تعداد کو قتل کیا۔ پھر وہ واپس آئے اور کہا کہ مجھے پیاس لگی ہے۔ وہ پھر میدان کی طرف پلٹے۔ جب انہوں نے اپنی پیاس کا اظہار کیا تو امام نے فرمایا: میرے عزیز! تھوڑی دیر اور لڑو اب زیادہ دیر نہیں کہ تمہیں تمہارے جد نبی ص سیراب کریں گے۔جب امام حسین نے یہ جملہ علی اکبر ع سے کہا تو علی اکبر نے آخری لمحے میں اپنی آواز بلند کی اور کہا: "اے بابا علیک السلام” بابا خدا حافظ ” رسول اللہ آئے ہیں اور آپ(ع)کو سلام دے رہے ہیں”۔ اور وہ آپ سے فرماتے ہیں کہ جلدی کرو اور ہمارے پاس آؤ۔

 


اسلام میں سیدالشہداء کا لقب کئی شخصیات کے لیے استعمال ہوا ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو شخصیات کو بعد از شہادت یہ لقب دیا۔ پہلی شخصیت حضور ؐ کے پیارے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ تھے۔ جنگ ِ احد میں شہادت کے بعد ان کے بارے میں آپ ؐ نے فرمایا "سیدالشہداء عنداللہ یوم القیامۃ حمزۃ" یعنی "اللہ کے ہاں قیامت کے دن حمزہ بن عبدالمطلب شہیدوں کے سردار (سیدالشہداء) ہیں۔" (مستدرک علی الصحیحین کتاب الجہاد حدیث نمبر ۷۵۵۲)۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت حمزہ ؓ کے جنازے کے ساتھ دوسرے شہداء کے جنازے رکھے گئے اور ہر شہید کے ساتھ حضور ؐ نے حضرت حمزہ ؓ کا جنازہ بھی پڑھایا، اس طرح حضرت حمزہ ؓ کا جنازہ ستر مرتبہ پڑھا گیا۔(طبقات ابن سعد)

ایک اور مقام پر دوسری شخصیت حضرت جعفر ابن ابی طالب ؑ کو بھی سیدالشہداء کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ قال رسول اللہﷺ "سیدالشہداء جعفر بن ابی طالب" رسول اللہ نے فرمایا کہ "جعفر ابن ابی طالب شہیدوں کے سردار ہیں۔"(کنزالعمال ۷۳۹۶۳)۔ اسی طرح مسند امام ابی حنیفہ میں عکرمہ مولی ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا: "سیدالشہداء یوم القیامۃ حمزۃ بن عبدالمطلب و رجل قام الی امام جائر فامرہ و نھاہ فقتلہ"یعنی "پر وہ شخص جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے کی وجہ سے قتل کیا جائے، وہ سیدالشہداء کہلا سکتا ہے۔"

نبی اکرم ؐ کی اس حدیث نے ایک اصول اور فارمولا طے کر دیا۔ حدیث ِرسول ؐ کی حقیقت و ماہیت اور اس کا حقیقی معانی و مفاہیم صرف وہی جان سکتا ہے، جو رسول ؐ کا حقیقی جانشین بھی ہو اور معصوم عن الخطا امام بھی ہو۔ نبی اکرم ؐ کے بعد سیدالشہداء جیسے منصب کی وضاحت بھی یہی امام کرے گا اور اس لقب کی وضاحت یہی امام دے گا، جبکہ اس لقب کے صحیح مصداق کے بارے میں یہی امام طے کرے گا۔ واقعہ کربلا کے بعد جب یہ سوال اٹھا کہ اب سیدالشہداء کون قرار پائے گا۔؟ اس کا جواب جانشین ِ رسول ؐ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرما دیا۔ اس سے پہلے کہ ہم اس جواب کی طرف جائیں، ہم پہلے امام حسین علیہ السلام کی قربانی اور شہادت کو  قرآنی حکم کے آئینے میں دیکھ لیتے ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالےٰ نے سورہ الصفت آیت ۷۰۱ اور ۸۰۱ میں جس ذبح عظیم کا تذکرہ فرمایا ہے، اس کے مصداق کے حوالے سے آئمہ اہل بیت ؑ اور فقہاء و علماء نے تشریح و تفاسیر کی ہیں۔ خصال صدوق، بحارالانوار اور عیون اخبار الرضا کی روایات اس امر کی شہادت دے رہی ہیں کہ حضرت امام حسین ؑ ہی اس ذبح عظیم کے مصداق ہیں۔ انسانی عقل و شعور اور فہم و علم کے معیار بھی یہی دلیل قبول کرتے ہیں کہ ذبح عظیم کا اشارہ کسی جانور کی طرف تو ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی بکرے یا دنبے یا مینڈھے کو ہم کبھی بھی ذبح عظیم کا مصداق نہیں کہہ سکتے۔ حتی کہ کسی انسان یا چند انسانوں کی انفرادی قربانی یا جنگ کی حالت میں شہید ہونے کو بھی ذبح عظیم کا مصداق نہیں کہا جا سکتا۔

اگر ایسا ہوتا تو شہدائے بدر، شہدائے احد  اور دیگر جنگوں کے شہداء کے بارے میں خود رسول اکرم ؐ فرما دیتے کہ یہ شہداء ہی ذبح عظیم کے مصداق ہیں۔ رسول اکرم ؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کائنات میں سب سے افضل ترین انسان ہیں اور وہ بھی پوری زندگی جہاد میں گزار کر بالآخر محراب مسجد یعنی اللہ کے گھر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے، لیکن کسی امام یا کسی صحابی نے امیرالمومنین ؑ کو ذبح عظیم کا مصداق قرار نہیں دیا۔ ان کے بعد حضرت امام حسن علیہ السلام بھی ساری زندگی امتحان اور مصیبت کے ساتھ بسر کرکے دشمن کی سازش کے تحت زہرِ قاتل سے شہید ہوئے، لیکن کسی نے انہیں ذبح عظیم کا مصداق قرار نہیں دیا۔

اسلام کے تمام شہداء کے خون سے اگرچہ اسلام کو تقویت حاصل ہوئی اور اسلام کا بول بالا ہوا، لیکن جب حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے اقرباء و اصحاب کے ساتھ میدان کربلا میں تین دن کی پیاس کے بعد چھ ماہ کے اصغر سے لے کر خود تک درجہ شہادت پر فائز ہوئے تو ان قربانیوں کے طفیل اسلام قیامت تک اور رہتی دنیا تک قائم و دائم اور مضبوط و مستحکم ہوگیا۔ کیونکہ ان قربانیوں کی نوعیت ہی اس قسم کی تھی کہ جس کی نظیر چودہ صدیاں گذرنے کے بعد بھی نہیں ملی اور لاکھوں صدیاں گذرنے کے بعد قیامت تک نہیں ملے گی۔ کیونکہ دوبارہ کسی حسین ؑ نے نہیں آنا، جو نواسہ رسول ؐ بھی ہو۔ فرزند ِعلی ؑ و بتول ؑ بھی ہو اور اس کے ساتھ رسول ؐ کے خاندان کے لوگ اور رسول ؐ کے اصحاب بھی شریک ہوں۔ اس سطح کی با وزن قربانیاں اب کبھی ہو ہی نہیں سکتیں۔ لہذا اب تا قیام ِقیامت صرف حسین ؑ کی ذات ہے، جو ذبح عظیم کا مصداق رہے گی۔

جب یہ طے ہوگیا کہ حضرت امام حسین ؑ کی ذات ذبح عظیم کا اولین اور تنہاء مصداق ہیں تو دنیا میں جتنے بھی شہداء یا سیدالشہدا ہوں گے، وہ امام حسین ؑ کے مقام کو نہیں چھو سکتے، کیونکہ حسین ؑ صرف سیدالشہداء ؑ نہیں بلکہ ذبح عظیم کے مصداق بھی ہیں۔ انہیں سیدالشہداء کہنا خود شہادت کے لیے باعث ِفخر ہے۔ عالم ِاسلام اس بات پر متفق ہے کہ جس بڑی قربانی کا اللہ تعالےٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے، اس سے یقینی مراد حضرت امام حسین ؑ کی ذات ہے۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کو اللہ تعالےٰ نے فقط صبر سے آزمایا، یعنی حقیقت میں نہ ابراہیم نے بیٹا ذبح کیا یا کرایا اور اسی طرح حقیقت میں حضرت اسماعیل بھی ذبح نہیں ہوئے، اللہ تعالےٰ نے خواب کے ذریعے انہیں آزمایا۔ اگرچہ صبر کے معاملے میں وہ پورا اترے، لیکن نہ ابراہیم نے بیٹا ذبح کیا اور نہ اسماعیل خود ذبح ہوئے، لیکن کربلا میں تو منظر ہی مختلف ہے کہ جہاں حقیقت میں امام حسین ؑ نہ صرف بیٹے، بھتیجے، بھانجے، بھائی، رشتہ دار اور اصحاب و انصار کو ذبح کرا رہے ہیں، بلکہ آخر میں خود بھی ذبح ہوگئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ذبح عظیم کو مصداق کون ہوگا۔؟

امام حسین ؑ نے اسلام کے دفاع اور دین کے استحکام کے لیے جو جدوجہد اور جہاد کیا، اس کے اثرات چودہ صدیوں سے مرتب چلے آرہے ہیں اور قیامت تک چلے جائیں گے۔ شہدائے کربلا نے اپنے خون سے جہاں 61 ھجری میں یزید کے ناپاک ارادوں کے سامنے بند باندھا، وہاں قیامت تک ہر یزید کے سامنے کلمہ حق کہنے اور اس کے نتیجے میں شہادت پانے کا حوصلہ عطاء کر دیا۔ ویسے بھی حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت امام حسین ؑ باہم متصل ہیں، ایک ہی ذریت اور ایک ہی نسل سے ہیں۔ منصب اور ذمہ داریاں بھی ایک جیسی ہیں۔ لہذا اسماعیل کا قرض ہو یا فدیہ سب حضرت امام حسین ؑ کے ذریعے اگر ادا ہو تو اس میں کسی حیرت کے بات نہیں۔ چودہ سو سال سے کربلا کی یاد کی شکل میں اسلام کے استحکام کی جدوجہد جاری ہے اور ساری دنیا کے انسان حضرت امام حسین ؑ کو بلحاظِ سیدالشہداء ؑ یاد کرتے ہیں۔ چودہ صدیوں کی یہ تازگی ہی بذاتِ خود حضرت امام حسین ؑ کے سیدالشہداء ہونے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالےٰ ہمیں سیدالشہداء کے ساتھ متصل فرما کر انہیں کے ساتھ ہی محشور فرمائے اور ہم دامن ِحسین ؑ سے وابستہ ہو کر دنیا سے اٹھیں اور اگلی دنیا میں پہنچیں۔

تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان