سلیمانی

سلیمانی

اسلامی جمہوریہ ایران کے ادارۂ اوقاف اور امور خیریہ کے ڈائریکٹر حجت‌ الاسلام محمد نوروزپور نے کہا ہے کہ اس سال اربعین حسینی کے موقع پر زائرین کی خدمت اور ان کے قیام و طعام کیلئے ایران اور عراق میں 370 کیمپ لگائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نجف اشرف، کربلائے معلیٰ، سامرا، کاظمین اور دوسرے مقامات مقدسہ کیلئے جانے والے زائرین کو ہر قسم کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ زائرین کو اربعین حسینی سے ایک ہفتے قبل ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہو جائیگا۔

20 صفر نواسۂ رسول، سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے با وفا اصحاب و انصار کا چہلم ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر سے زائرین بڑی تعداد میں عراق کا سفر کرتے ہیں اور نجف و کربلا کے مابین انجام پانے والے میلین مارچ میں شریک ہوتے ہیں۔ اس سال بھی اربعین میلین مارچ میں دسیوں لاکھ عراقی اور غیر ملکی زائرین کی شرکت متوقع ہے۔

 ایرانی وزیر صحت نے کہا ہے کہ ایران کورونا کے کنٹرول میں دنیا کے 7 ٹاپ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔

یہ بات بہرام عین اللہی نے گزشتہ رات ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ایرانی موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح کورونا کا کنٹرول تھی۔ ان دنوں لوگ گھروں میں محصور تھے، اسکول، یونیورسٹیاں، بازار اور کاروبار بند تھے،اور ایرانی صدر مملکت نے ذاتی طور پر کورونا ویکسین کی تیاری اور ویکسینیشن کا پہلا قدم اٹھایا جس کے بعد وزارت خارجہ، ہلال احمر اور عوام نے بھی اس کی پشت پناہی کی۔

عین اللہی نے کہا کہ ایران کورونا کے کنٹرول میں دنیا کے 7 ٹاپ ممالک میں شامل ہے اور جنیوا کےاجلاس میں میں کہا کہ ایران ویکسینیشن کے عمل میں کامیاب رہا  اور ایران نے معاشی کےشعبے میں اچھی ترقی کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب کورونا کو ملک مین اچھی طرح سے کنٹرول کیا گیا ہے اور ہم متاثرین اور جاں بحق ہونے والوں کی لہر بھی بہت کم ہو رہی ہے۔

تہران، ارنا – پاکستانی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہم ہمیشہ تمام مشکل لمحوں میں پاکستانی کی حمایت پر ایران کا مشکور ہیں۔

یہ بات محمد شہباز شریف نے حالیہ تباہ کن سیلاب کے بارے میں ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے کے چند گھنٹے بعد اپنے ٹویٹر اکاونٹ میں کہی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ میں پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ حمایت اور یکجہتی کے پیغام پر اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اس مشکل وقت میں ایران کی جانب سے ہمدردی اور حمایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

المیادین ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق، سید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کے قیام کے 40 ویں سالگرہ کی تقریبات؛ "اربعون ربیعا" کے فیسٹیول کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 1982 کی مزاحمتی فرنٹ کی سرگرمیوں اور اس کے بعد کی سرگرمیوں کے درمیان گہرا رشتہ ہے؛ ہم تحریکیں، دھاروں، علمائے کرام، دانشور، جہادی اور میدانی رہنماؤں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مزاحمتی فرنٹ اور شامی افواج نے 1982 میں قابض صہیونی افواج کیخلاف مقابلہ کیا۔

حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ 2000ء میں مزاحمت کی فتح نے بڑا سرائیل کے منصوبے کو ناکام کردیا اور ہار نہ ہونے والی افواج کو خاک میں ملا دیا۔

نصراللہ نے کہا کہ حزب اللہ کے اہلکار، بانی اسلامی انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) کے عقائد کی پیروی کرتے ہیں اور آپ کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور آپ کو موجودہ دور میں حزب اللہ کا سب سے بڑا الہام سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2006 کی جنگ میں حزب اللہ کی بڑی کامیابی، لبنانی گیس اور آئل کے حقوق کی فراہمی تھی اور لبنان کے دیگر مقبوضہ علاقوں کی رہائی، ہماری قومی ذمہ داری ہے۔

حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ فوج، عوام اور مزاحمت کی مساوات ایک طے شدہ مساوات بن چکی ہے چاہے یہ وزیر کے بیان میں کہا گیا ہے یا نہیں۔ ویسے بھی 2006 کی فتح اس کے طویل سفر میں مزاحمت کی اہم ترین کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ اس جنگ نے صہیونی دشمن کے ساتھ تصادم کے اصول بدل دیے۔

سید حسن نصر اللہ نے مزید کہا کہ  مستقبل میں ہماری ذمہ داریوں میں سے ایک لبنانی سرزمین، قوم اور دولت کے تحفظ کیلئے دفاعی معاملات بنانے کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سمندری سرحدوں کا تعین کرنے پر صہیونی ریاست کی دہمکی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہمارا فیصلہ اور موقف واضح ہے اور ہم آئندہ دنوں کا انتظار کر رہے ہیں تا کہ ان کے مطابق اپنے کام بڑھائیں گے۔

حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ مسئلہ فلسطین اس قوم کے دین، ثقافت، ساکھ اور عزت کا حصہ ہے اور اس سے دست بردار ہونے، غیر جانبداری اور پسپائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شام مزاحمتی فرنٹ کا محور، پائیداری کا محاذ اور ناجائز صہیونی ریاست کے شروط کے سامنے سر نہ جھکانے کی بنیاد ہے۔

نصر اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ کی تنظیم بدستور علاقے کے مظلوم عوام بالخصوص یمن، عراق اور افغانستان کے ساتھ رہی ہے اور ان کی حمایت کا سلسلہ جاری رہے گی۔

انہوں نے لبنان کے اندورنی معاملات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اندرونی جنگ کے خواہاں نہیں اگر چہ بعض لبنان میں خانہ جنگی کے درپے ہیں۔

نصر اللہ نے کہا کہ ہم نے گزشتہ 40 سالوں سے اب تک ہماری ار فوج کے درمیان کسی بھی کوشش سے دوری کی ہے۔

نصر اللہ نے کہا کہ اگلے مرحلے میں حزب اللہ تحریک کا بنیادی منصوبہ ایک منصفانہ اور طاقتور حکومت کے قیام کے لیے سیاسی گروہوں کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسی حکومت بنانے کے خواہاں ہیں جو امریکی سفارت خانے سے وابستہ نہ ہو۔ ہم ایک ایسے آزاد ملک کی تلاش میں ہیں جو پیروی اور انحصار سے دور ہو۔ اگلے مرحلے میں، سب کو لبنان کو بچانے کا حل فراہم کرنا ہوگا، اور گیس اور تیل نکالنا ہی لبنان کو بچانے کا واحد راستہ ہے۔

حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہم علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں پر مثبت نقطہ نظر رکھتے ہیں اور ہم اپنے شامی اور ایرانی بھائیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے 30، 40 سالوں کے دوران، ہماری حمایت کی ہے اور ہم بالخصوص پاسداران اسلامی انقلاب کے بھائیوں کے شکرگزار ہیں جو پہلے دن ہی سے کمیپوں میں ہمارے ساتھ رہیں۔

نصر اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ ہم اسلامی جمہوریہ ایران اور قائد اسلامی انقلاب کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے پہلے دن ہی اور حتی کہ بانی انقلاب حضرت امام خیمنی (رہ) کے جیتے جی میں ہماری حمایت کی۔

انہوں نے کہا کہ حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ہمیشہ حزب اللہ پر خصوصی توجہ دی ہے اور ہمیں ان 40 سالوں میں ایک مہربان، عقلمند اور بہادر باپ ہونے پر ان کا شکریہ ادا کرنا ہوگا۔

حوزہ/ انہوں نے کہا: واقعہ عاشورہ کے بعد اسلامی معاشرے میں شدید گھٹن طاری ہو گئی اور اس ماحول میں امام زین العابدین علیہ السلام نے معاشرے کی رہنمائی کی، امام علیہ السلام نے لوگوں کی فکری اور سیاسی طور پر اور دعاؤں اور ثقافتی اور تعلیمی کاموں کے ذریعے رہنمائی فرمائی اور بصیرت میں اضافہ فرمایا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حوزہ علمیہ خواہران کی برجستہ محقق، نرجس شکرزادہ نے حوزہ نیوز ایجنسی کے ساتھ انٹرویو میں امام زین العابدین علیہ السلام کے مظلومانہ یوم شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا: واقعہ عاشورہ کے بعد اسلامی معاشرے میں شدید گھٹن طاری ہو گئی اور اس ماحول میں امام زین العابدین علیہ السلام نے معاشرے کی رہنمائی کی، امام علیہ السلام نے لوگوں کی فکری اور سیاسی طور پر اور دعاؤں اور ثقافتی اور تعلیمی کاموں کے ذریعے رہنمائی فرمائی اور بصیرت میں اضافہ فرمایا۔

انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ علماء اور ماہرین تاریخ کے مطابق امام سجاد علیہ السلام کا دور سیاسی اور ثقافتی زندگی کی خصوصیات اور اجزاء کے لحاظ سے سب سے تاریک اور انتہائی گھٹن کا دور تھا۔ سید الشہداء امام حسین(ع) اور ان کے با وفا اصحاب کی شہادت کے بعد امام سجاد (ع) نے کوفہ اور شام میں اپنے خطبات سے معاشرے اور غافل لوگوں کی رہنمائی فرمائی۔

انہوں نے مزید کہا: حضرت سجاد علیہ السلام کے سب سے زیادہ حساس اور موثر خطبات جنہوں نے بنی امیہ کے بارے میں لوگوں کےفہم و ادراک میں زبردست تبدیلی پیدا کی اور یزید کے تخت و تاج کو ہلا کر رکھ دیا وہ خطبہ ہے جو امامؑ نے شام میں عوامی اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان دیا تھا، یہ وہ خطبہ ہے جس نے عاشورہ کے مشن اور پیغام کو پہنچانے اور میدان کربلا کے شہداء کے سلسلے کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

نرجس شکرزادہ نےکہا: اس خطبہ میں امام سجاد (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے اہل بیت (ع) کا تعارف ان لوگوں کے درمیان کرایا جنہوں نے صرف بنی امیہ سے اسلام کو دیکھا اور سنا تھا ۔ پیغمبر اور ان کے اصحاب اور اس کے بعد امامؑ نے اپنے مقام و کردار اور اہل بیت (ع) کے مقام و منزلت بیان کرنا شروع کیا۔ امام علیہ السلام کا یہ اقدام جہاد تبیین کی ایک واضح اور روشن مثال ہے، امام ؑ نےبنی امیہ کے رخ سے پردہ اٹھا دیا اور بے نقاب کر دیا۔

Tuesday, 23 August 2022 10:30

مسجد جامع سلطان قابوس

مسجد جامع سلطان قابوس اسلامی دنیا کی معروف مسجد ہے جو عمان کے دارالحکومت مسقط میں قایم ہے ۔ اسلامی طرز معماری کی شاہکار مسجد نیشابوری کاریگروں کی کاوش کا نتیجہ ہے جو ۴۱۶,۰۰۰ مربع میٹر پر واقع ہے اور ۲۰ هزار نمازیؤں کی گنجایش ہے۔ سال ۲۰۰۱ میں اس مسجد کا افتتاح ہوا۔ مسجد کا گنبد ۳۴ میڑ اونچا ہے۔ عظیم ایرانی قالین، چمکتے لوسٹر اور فانوس اور رنگ برنگ کاشی کاری کی وجہ سے یہاں سیاح دور دراز سے آتے ہیں۔

سپاه پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے کہا ہے کہ ہم  دفاعی شعبے میں اس وقت ماضی کی نسبت بہت زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں اور اب ہم میزائل اور ڈرون  برآمد کرنے کے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں۔

جنرل حاجی زادہ نے مشہد مقدس میں فردوسی یونیورسٹی کے پروفیسروں اور طلباء و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے آج دن رات کی کوششوں کی بدولت مختلف شعبوں بشمول میزائل، ڈرونز اور دیگر شعبوں میں ہمارے پاس بھرپور صلاحیتیں اور لازمی دفاعی آلات و وسائل موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج دشمن بھی ہماری دفاعی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں اور دنیا کی بڑی طاقتیں ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ایران کی فوجی صنعت کی طاقت کو سراہتی ہیں۔

 خلائی میدان میں قابل قدر اور نمایاں کامیابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے حاجی زادہ نے کہا ہے کہ ایران فضائی شعبے میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے اس موقع پر شہید قاسم سلیمانی کی خصوصیات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ شہید راہ استقامت و جہاد پر بطور کامل ایمان رکھتے تھے۔

راہ گیر کے چلتے ہوئے قدم رک گئے۔ رُکنے کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ واعظ کے وہ کلمات تھے، جنہوں نے راہگیر کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ واعظ بیان کر رہا تھا ’’جو اسیر تھے، وہ حقیقت میں آزاد تھے اور جو کارندے ان کو قیدی بنا کر لے جا رہے تھے اور جس حاکم کے دربار میں ان قیدیوں کو پیش کرنا تھا، حقیقت میں وہ قیدی تھے۔‘‘ خطاب ایک قافلے کے بارے میں تھا۔ واعظ اس قافلے کو ’’کاروانِ حرّیت‘‘ کا نام دے رہا تھا۔ عصرِ عاشور کو یہ قافلہ ایک بڑے قافلے سے جدا ہوا تھا، جسے واعظ نے کاروانِ شہادت کا نام دیا۔ اُس قافلے کا سردار ایک عاشقِ خدا اور رسول اللہﷺ کی آنکھوں کا نور تھا۔ جسے اُمت نے کچھ اس طرح سے اجرِ رسالت ادا کیا کہ اُسے لبِ فرات بھوک و پیاس کے عالم میں شہید کر دیا۔ اس کے جسد ِاطہر کو پامال کیا۔ خاندانِ عصمت و طہارت کے خیموں کو جلایا اور لوٹا۔ اب یہ قافلہ ایک امام (امام سجادؑ) اور محافظہ ٔامامت (بی بی زینبؑ) کی راہنمائی میں کوفہ و شام کی جانب رواں دواں تھا۔ یہ اسیروں کا نہیں بلکہ ان آزاد ہستیوں کا قافلہ تھا، جنہوں نے اپنے خطبات سے کئی خواہشِ نفس کے اسیروں کو آزاد کروایا۔ واعظ نے یہاں رک کر حقیقی آزادی کی وضاحت کی۔

دین اسلام، انسان کے حقِّ حیات (زندگی) اور حقِّ آزادی کا قائل ہے۔ آزاد اور خود مختار انسان ہی کمال کا راہی بنتا ہے۔ ایسی آزادی جو اسے نفس کی ہر قید سے رہا کر دے۔ وہ خواہشات اور شہوتوں کا اسیر نہ بنے۔ اسے اقدار، مطلوب اور پاکیزہ ہدف سے دنیا کی سرکش طاقتیں نہ جھکا سکیں۔ وہ تنہاء بھی ہو، وہ بے یار و مددگار بھی ہو، زنجیروں میں جکڑا ہوا بھی ہو، لیکن وہ آزاد ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ  ہوائے نفس کا قیدی نہیں ہوتا، بلکہ دنیا کی محبت کے اسیروں کے بھرے دربار میں حق کی صدا کو بلند کرتا ہے۔ اسے ظالم کے آگے سر جھکانے میں فخر محسوس نہیں ہوتا، وہ سر کٹا کر راضیۃً مرضیہ کی معراج تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ انسانی زندگی کا اصل مقدمہ یہ معنوی آزادی ہے۔ یہی’’ فَکُّ رَقَبَہ‘‘  کا اصل مفہوم ہے، جو انسان کو حقیقی آزادی کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ دین اس آزادی کی طرف راہنمائی فرماتا ہے، جو جسم کے مرنے سے ختم نہیں ہوتی۔ اسے ایسی نورانیت نصیب ہوتی ہے، جو کئی بھٹکے ہوؤں کو صراطِ مستقیم کا راہی بناتی ہے۔

جب یہ آزادی، انسانی روح کو نصیب ہو جائے تو وہ شہوت، جاہ و حشمت، بتوں کی بندگی، ہوائے نفس کی پیروی میں سانس نہیں لیتا بلکہ اسے یہ اسارت نظر آتی ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ جو میرے مَن میں آئے، ہر قید و بند سے اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتا۔ میرا جسم میری مرضی کا قائل نہیں ہوتا بلکہ اس کا پورا وجود عظیم رب کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتا ہے اور’’لا معبود سواک‘‘ کی صدا بلند کرتا ہوا نظر آتا ہے، جس کی یہی مناجات ہوتی ہیں ’’کفی بی عزا ان اکون لک عبدًا‘‘۔ یہی وہ ایک   سجدہ ہے، جو ہزار سجدوں سے آدمی کو نجات عطا کرتا ہے۔ جو شخص معنوی آزادی سے لیس نہیں ہوتا، وہ  ’’قد خاب من دسّٰها"(سوره شمس، آیه 10) کا مصداق قرار پاتا ہے۔ بہت سی آیات و روایات اس بات کی طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ اصل آزادی کون سی ہے اور اصل غلامی کونسی ہے۔؟

قوتِ غضب و قوتِ شہوت، اگر ان کی تربیت عقل سلیم کے سائے میں نہ ہو تو انسانی روح کے لئے زوال کا موجب بنتی ہیں۔ پہلا قدم غلامی کی طرف اس وقت اٹھتا ہے، جب عقل اسیر ہو جاتی ہے اور ہواء نفس امیر بن جاتی ہے: "کم من عقل اسیر تحت هوی امیر" (نهج البلاغه، حکمت 211)۔ مولا علی (علیہ السلام ) نہج البلاغہ میں یوں فرماتے ہیں: "الدنیا دار ممر لا دار مقر والناس فیها رجلان: رجل باع فیها نفسه فاوبقها ورجل ابتاع نفسه فاعتقها"(نهج البلاغه،حکمت 133)؛ "دنیا ایک گذرگاہ  ہے، نہ کہ ٹھہرنے کا مقام، اس میں رہنے والے انسان دو طرح کے ہیں۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہے، جو اپنی جان کو ہوا و ہوس کے ہاتھوں بیچ ڈالتے ہیں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور کچھ وہ لوگ ہیں، جو ہوا و ہوس سے اپنی جانوں کو خرید لیتے ہیں، یہی لوگ حقیقت میں آزاد ہیں۔"

جدید دور میں غلامی کا تصور
ایک جاہلیت اور غلامی اُس زمانے کی تھی، جب بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ جب حق کے پیغمبرﷺ کی بات کو سننے سے منع کیا جاتا تھا۔ لوگوں کے کانوں میں روئی ٹھونسی جاتی تھی کہ حق بات ان تک نہ پہنچ سکے۔ آج کی ماڈرن جاہلیت اور  غلامی یہ ہے کہ قوموں کے وسائل کو لوٹنے والے، خود ایٹمی توانائی کو غلط استعمال کرکے ہیرو شیما اور ناگا ساکی کو خاک کا ڈھیر بنا دیتے ہیں، لیکن جب اسی ٹیکنالوجی کو کوئی انسانیت کی بھلائی کے لئے استعمال کرے تو اس پر اقتصادی پابندیاں ٹھونسی جاتی ہیں۔ پھر ہر ملک کو دھمکایا جاتا ہے کہ خبردار! جو اس ملک سے کوئی معاہدہ کیا تو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نہ اس سے گیس لو، نہ تیل اور نہ ہی آزادانہ تجارت۔ یہ غلامی اس طوق و زنجیر کی غلامی سے بدتر ہے۔ اس میں فکریں قید ہیں، عقاید و نظریات پابندِ سلاسل ہیں۔ اس میں ہدایت کا مرکز خانہ ٔخدا نہیں بلکہ وائٹ ہاؤس ہے۔ کھیل وہی ہے، بس چہرے بدل گئے ہیں۔ یہ ہے ماڈرن جہالت اور جدید اسارت۔

کاروانِ حریت نے دنیا والوں کو پیغام دیا کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی جابر و ظالم تم سے تمہارا حق چھین لے، تمہیں تمہاری سرزمین سے بے دخل کر دے۔ لیکن جو حقیقی حرُ ہوتا ہے، وہ کبھی حالات کے قدموں میں نہیں جھکتا بلکہ ابنِ زیاد و یزید جیسے فاسق کے دربار میں، اُس کے بیان ببانگ ِدہل گونجتے ہیں۔ اے یزید! تو جتنی چالیں چل سکتا ہے چل لے، جو کوششیں کرسکتا ہے کرلے، لیکن خدا کی قسم! نہ تو ہمارے ذکر کو مٹا سکو گے اور نہ ہی ہماری یاد کو دلوں سے  محو کر سکو گے۔ قیدی وہ نہیں تھے، جنہیں پابند رسن کیا گیا تھا۔ وہ آزاد تھے، کیونکہ ان کے ضمیر آزاد تھے۔ دل آزاد تھے، افکار و اعمال آزاد تھے۔ درحقیقت قیدی تو وہ تھے، جنہوں نے ان آزاد فکر ہستیوں کو پابندِ سلاسل کیا ہوا تھا، کیونکہ وہ ہوائے نفس کے قیدی تھے، شیطان کے قیدی تھے، نفسِ امارہ کے قیدی تھے۔ مقام، منصب اور لالچ کی قید میں تھے۔ حکومت اور عہدے کی قید میں تھے۔

آج بھی جب کشمیر و یمن اور فلسطین کے مظلوموں (جو نہتے ہو کر بھی ظالم کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں) کو دیکھتے ہیں اور ان عرب اور خائن شاہوں کو دیکھتے ہیں کہ جو ظالموں کو ایوارڈ سے نوازتے اور اپنی غلامی کے معاہدے کرتے ہیں۔ جب ایک ویل چیئر پر معذور شخص ظالم صیہونیوں پر پتھر برسا رہا ہوتا ہے اور عرب حکمران  ہاتھوں میں تلوار لئے رقص کر رہے ہوتے ہیں تو یہ دو تصویریں ہمیں بتا رہی ہوتی ہیں کہ حقیقی آزاد کون ہے اور اصلی قیدی کون۔؟

تحریر: مقدر عباس

 ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے عالمی یومِ مسجد کے اٹھارویں اجلاس میں شرکت کی اور کہا آج کا میڈیا ایمپائر معاشرے میں ناامیدی کا تاثر پھیلانے کے لئے دشمن کا آلہ بنا ہوا ہے اور لوگوں کو دین، اسلامی انقلاب کی اقدار و نظریات  اور جمہوری اسلامی کے نظام سے دور کرنے کے درپےہے۔ تاہم دوسری طرف رہبر معظم انقلاب نے امید آفرینی کے پرچم کو بلند کیا ہوا ہے اور مساجد بھی امید آفرینی کے مراکز کے طور پر رہبر معظم کی سوچ اور موقف کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

انہوں نے معاشرے میں اٹھنے والے شکوک و شبہات کا وقت پر اور مستحکم جواب دینے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ائمہ جماعات مساجد میں نماز پڑھانے اور دینی معارف کی ترویج کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لئے پیش آنے والے شکوک و شبہات دور کرسکتے ہیں اور معاشرے کی ذہنی گرہیں کھول سکتے ہیں۔ 

صدر رئیسی نے اپنے گفتگو کے دوسرے حصے میں عوام کی تمام مواقع پر  اور مختلف میدانوں میں موجودگی کو اسلامی جمہوریہ کی طاقت کا اہم ترین عنصر قرار دیا اور کہا کہ ہمارے ملک کی طاقت عوام کے فرد فرد کے سہارے قائم ہے۔  انہوں نے کہا کہ ملک کا مستقبل روشن ہے۔ آج جنگ ارادوں کی جنگ ہے اور ایرانی قوم  ارادہ کر چکی ہے کہ اپنے دشمنوں پر غالب آئے گی اور یقیناً اللہ تعالیٰ بھی ایرانی قوم کا مددگار ہوگا۔  

صدر رئیسی نے مزید کہا کہ عوامی حکومت کی عزتمندانہ سوچ کی بدولت بعض ملکوں سے اپنے اچھے خاصے مطالبات منوا چکے ہیں جبکہ کسی بھی اجلاس اور مذاکرات میں قوم کے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ حکومت ملک کی ترقی اور مشکلات  دور کرنے  کے لئے  اپنی کوششوں کو پوری قوت سے جاری رکھے گی۔ ہم عوام کی زندگی کو کسی بھی بیرونی عامل سے نہیں باندھیں گے اور مصمم انداز میں ملک اور عوام کی مشکلات دور کرنے کے لئے کام کرتے رہیں گے۔  

آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے ائمہ جماعات پر مختلف عوامی طبقات کے ساتھ پہلے سے زیادہ رابطہ بڑھانے پر زور دیا اور عوام کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے کو انقلاب اور اسلامی نظام کے بنیادی اصولوں میں سے قرار دیا۔ 

انہوں نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ امام جماعت عوام کا محض پیش نماز نہیں ہے بلکہ مسجد کا امام اور عوام کی مشکلات دور کرنے میں پیشرو ہے۔ 

انہوں نے آگاہی پھیلانے اور بصیرت افزائی میں مسجد کی اہمیت اور کردار کی طرف اشارہ کیا اور کہا مسجد عبادت کا مقام ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ثقافتی استقامت اور اسی طرح دشمن شناسی اور دشمن سے بیزاری کے مورچے اور مقام کے طور پر بھی  مؤثر کردار اد ا کرتی رہی ہیں۔  انہوں نے کہا کہ ہمارے شہدا کا سرچشمہ اور مجاہدین اور سپہ سالاروں کی تربیت کا مقام چاہے دفاع مقدس میں ہو یا حرم اہل بیت ﴿ع﴾ کے دفاع میں، مساجد ہی ہیں۔ لہذا اس اہم مقام کو   ائمہ جماعات، عوام اور حکام کی جانب سے  ہمیشہ عظیم اور برجستہ شمار کیا جانا چاہئے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا سے نقل کیاہےکہ مرکزی مجلس عمومی کے اختتامی سیشن سے خطاب  کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا کہ سلمان رشدی کے ساتھ جو ہوا وہ امت مسلمہ کا رد عمل ہے۔ سلمان رشدی کے خلاف سب سے پہلے آواز ہم نے 1988 میں اٹھائی ۔ نیازی بتائے سلمان رشدی پر امریکا میں ہونے والے حملے کو یہاں بلا جواز قرار دینا کس کے اشارے پر ہے ؟

انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا گیا کے پی میں مذہب کی جڑیں ختم کرنے کے لیے نیازی کو حکومت دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابر نے فتنوں کا مقابلہ گھروں میں بیٹھ کر نہیں،  بلکہ میدان عمل میں کیا۔ جو شخص کہے کہ اگر نیازی نمرود کو بھی کھڑا کرے تو میں اس کو بھی ووٹ دوں گا ، اس قسم کی باتیں فتنے کی علامت ہیں ۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جے یوآئی نیازی فتنے پر آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھ سکتی ۔ علما کی جماعت قرآن کریم کے دیے گئے احکامات کو نظر انداز نہیں کرسکتی ۔ پاکستان کی مجموعی سیاست میں تمام مسالک کے علما متفق ہیں۔ ہماری جمہوریت کا تعین ہمارا آئین کرتا ہے ۔