سلیمانی

سلیمانی

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کے کمانڈر ریئر ایڈمرل علی تنگسیری نے کہا ہے کہ اگر دشمن نے کوئی غلطی یا احمقانہ اقدام کیا یا اسلامی نظام کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کی کوشش تو ہم اس کو اور ان کے آلہ کاروں کو سخت سبق سکھائیں گے اور ہم اس سازش کے مرکز کو تہس نہس کر دیں گے۔

ایڈمیرل تنگسیری نے مسلمانوں کے مابین اتحاد اور بھائی چارے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس کے اہم علاقے کی سلامتی کو برقرار کرنے کی ہمسایہ ممالک میں صلاحیت موجود ہے اور علاقے میں سکیورٹی کی فراہمی کیلئے غیر علاقائی ممالک کی موجودگی کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اب سے کچھ ہی دیر قبل تہران میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی ۔

ہونے والی ملاقات کی تفصیلات تھوڑی دیکر بعد۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان آستانہ عمل کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے گزشتہ شب تہران پہنچے اور آج صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے اُن کا سعدآباد کلچرل کمپلیکس میں باضابطہ استقبال کیا۔

روس، ترکی اور ایران کے صدور کی موجودگی میں سہ فریقی سربراہی اجلاس تہران میں منعقد ہوگا۔ اس اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوتین، ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی شرکت کریں گے۔

-آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے

﴿آیه ۳ سوره مبارکه مائده ﴾

ایکنا نیوز- حضرت محمد(ص) ساٹھ سال عمر شریف گزار چکے اور اور آخری حج انجام  سال 632 میں انجام دیں رہے ہیں. اس سفر میں ایک لاکھ بیس ہزار کے لگ بھگ مسلمان رسول گرامی کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کررہے ہیں، مدینہ کی طرف واپسی کا سفر شروع ہے۔

 

 رسول گرامی حج سے واپسی جس کو حجةالوداع (حج خداحافظی) کا عنوان دیا جاتا ہے،مدینہ کی طرف محو سفر ہے اور ذیحجہ کی اٹھارہ تاریخ جمعرات کا دن ہے  کہ قافلہ غدیرخم کے علاقے میں پہنچتا ہے اچانک اس مقام پر رسول گرامی پر ایک آیت نازل ہوتی ہے کہ کچھ یوں ہے:

«يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ؛ اے پیغمبر! جو تمھارے رب کی طرف سے نازہ ہوا ہے اس کو بیان کر؛ اگر انجام نہ دیا تم نے خدا کا پیغام ہی نہیں پہنچایا۔ خدا تمھیں [آسیب و نقصان] عوام سے محفوظ رکھے گا؛ یقینا خدا کافروں کو ہدایت نہیں کرتا.»(مائده، 67)

اس آیت کی طرف توجہ کی جائے تو بہت اہمیت کی حامل ہے کہ رسول گرامی کی رسالت کی  مدت 23 سال کو اشارہ کرکے کہتی ہے کہ اگر یہ کام نہ ہوا تو پوری رسالت ناقص رہے گی۔

رسالت پیغمبر کے برابر اہم کام

رسول گرامی فرمان جاری کرتا ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار کے قافلے میں شامل حجاج کو روکا جایے اور تمام حجاج کو یکجا کرکے روکنے کا حکم دیا جائے کہا جاتا ہے کہ اس کام میں آدھا دن لگا تاکہ آگے جان والے پیچھے آجائے اور سب ایک مقام پر یکجا ہوں۔

 

بڑی تعداد میں حجاج کی وجہ سے اس واقعے کو سب نے مستند طریقے سے محفوظ کرلیا اور تمام مفسّروں، محدثوں اور مورخوں نے اس آیت کو«غدیر» سے مربوط قرار دیا ہے. علّامه امینی اس واقعے کو تیس احادیث کے منابع جنمیں اہل سنت کی معروف کتاب الولایة - ابن جریر طبری، تفسیر الثعلبی، کتاب ما نزل من القرآن فی علی از ابو نعیم اصفهانی، أسباب النزول واحدی و... سے نقل کیا ہے اس واقعے کا اہم پیغام کیا تھا؟

پیام غدیر اور جانشینی علی‌بن ابیطالب(ع)

سب یکجا ہوئے تو نماز ظهر ادا کی گئی اور پھر آپ نے خطبہ شروع کیا: «خدائے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ میں جلد آپ سب سے جدا ہوجاونگا... لہذا دیکھو کیسے مجھ سے ثقلین(دو اہم اور قابل توجہ مسئله)  بارے کیا کروگے؛ ثقل اکبر کتاب خدا (قرآن) ہے...  اور ثقل دوم میری عترت  (اهل بیت) ہے».

پھر سب کے سامنے  على بن ابى طالب کے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ؛ جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کا مولا ہے، علی‌بن ابیطالب سب کے مولا ہے، خدا انکو دوست کو دوست اور دشمن کو دشمن رکھ».

لوگ ابھی موجود تھے کہ دوبارہ جبرئیل نازل ہوئے اورسوره مائده کی تیسری آیت نازل ہوئی: «الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دیناً؛ آج دین مکمل ہوا اور میری نعمت تم پر تمام ہوئی اور میں نے اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیا».

عبدالحسین امینی نجفی (1902-1970) جو علامه امینی، معروف مرجع تقلید اور صاحب کتاب دائرةالمعارف 11 جلدی الغدیر  ہے جو عربی زبان میں ہے.  انہوں نے اس کتاب کے لکھنے کے لیے درجنوں شہروں اور هندوستان، مصر کا شام کا سفر کیا، 10 هزار کتاب کو مکمل مطالعہ کیا اور 100 هزار کتب سے استفا

ارنا رپورٹ کے مطابق، شامی بحران کے سیاسی حل نکالنے اور جنگ بندی کے قیام کے سلسلے میں ابتدائی نشستوں کا متحارب فریقین سمیت ایران، روس اور ترکی کے نمائندوں کی شرکت سے قازقستان میں انعقاد کیا گیا اور "آستانہ امن عمل کے ضامن ممالک" کے پہلے اجلاس کا دسمبر 2017 میں ان تینوں ممالک کے صدور کی شرکت سے روسی شہر سوچی میں انعقادد کیا گیا۔

واضح رہے کہ اسی سلسلے میں ترک صدر ر"جب طیب اردوغان"، روسی صدر "ولادیمیر پیوٹین" پیر کی شام کو دورہ تہران کریں گے اور منگل کی صبح کو صدر ابراہیم رئیسی کی شرکت سے سعدآباد کے ثقافتی کمپلیکس میں ان کی استقبالیہ تقریب کا انعقاد ہوگا۔

امریکہ نے روس کے خلاف جنگ کے کھیل میں مختلف قسم کے اہداف کا تعین کر رکھا تھا جن میں روس کو عالمی سیاست سے نکال باہر کرنا اہم ترین اور پہلی ترجیح کا حامل مقصد تھا۔ پراکسی جنگ پر مبنی اس منصوبے کا ایک اور مقصد یورپ کو روس کے مقابل لا کھڑا کر کے اور اسے شدید بحرانی حالات سے دوچار کر اپنے ساتھ وابستہ کرنا اور اپنے اوپر اس کا انحصار قائم کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے یہ کوشش کی گئی کہ روس اور یوکرائن جنگ کی بابت یورپ کو بھاری تاوان ادا کرنا پڑ جائے۔ اس طرح یورپ اور روس کے درمیان تعلقات امریکہ کی مرکزیت میں قائم مغربی نظام کے کنٹرول میں رہ سکیں گے اور یورپ بھی عالمی سطح پر چین کے خلاف جاری طاقت کی رسہ کشی میں امریکہ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔
 
لیکن امریکی حکمرانوں کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ روس اپنے پاس موجود انرجی کے کارڈ کے ذریعے مغربی دنیا کو معیشت، صنعت اور حتی غذائی مواد کے میدانوں میں انتہائی وسیع اور سنگین بحران سے روبرو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس وقت امریکی نظام اور انرجی کے شعبے میں اس سے وابستہ مراکز منافع جمع کرنے میں مصروف ہیں جبکہ مغربی عوام کی معیشت روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہے اور ان کیلئے زندگی ناقابل برداشت ہو رہی ہے۔ امریکہ نے روس کو مزید بحرانوں سے روبرو کرنے کیلئے مغربی ایشیا، وسطی ایشیا اور برصغیر کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا خطے کا حالیہ دورہ اسی حکمت عملی کے تناظر میں انجام پایا ہے۔ امریکہ ساتھ ساتھ اسلحہ ساز کمپنیوں کے مالکین کے ذریعے اقتصادی مفادات کے حصول کیلئے بھی کوشاں ہے۔
 
طالبان کو نگل کر افغانستان اور وسطی ایشیا میں اپنی فوجی مداخلت کا زمینہ فراہم کرنے کی امریکی حکمت عملی تقریباً مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ عنقریب ازبکستان میں افغانستان سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہونے والی ہے اور سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ یوں داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں پر مشتمل امریکی کارڈ بھی تقریباً ناکارہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر جو بائیڈن اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ مغربی ایشیا خطے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مغرب کو درپیش انرجی کے بحران میں ان کی زیادہ مدد نہیں کر سکتے بلکہ اس خطے میں اگر کوئی ملک ان کیلئے مددگار ثابت ہو سکتا ہے تو وہ عراق ہے۔ یاد رہے عراق کے تیل کی خرید و فروش مکمل طور پر امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔
 
لہذا عراق کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں اسرائیل کی مرکزیت میں تشکیل پانے والے بلاک کی جانب دھکیلنا اور اسے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے پر مجبور کرنا، امریکہ کیلئے سعودی عرب سے بھی کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ان ہتھکنڈوں میں عراق کو جیوپولیٹیکل ایشوز کے ذریعے بلیک میل کرنا اور معیشت اور سکیورٹی کے شعبوں میں نت نئے بحرانوں سے روبرو کرنا شامل ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ سعودی حکمران اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ اپنے خفیہ تعلقات کو منظرعام پر لانے کی جرات نہیں رکھتے لیکن انہوں نے جیوپولیٹیکل، جیوگرافیکل، انرجی، سکیورٹی اور دیگر شعبوں میں اپنی تمام تر صلاحیتیں صہیونی حکمرانوں کے سپرد کر رکھی ہیں۔ اسی طرح آل سعود رژیم غاصب صہیونی رژیم کو بھرپور انداز میں سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون فراہم کرنے میں مصروف ہے۔
 
جو بائیڈن کے مشرق وسطی کے حالیہ دورے کا نتیجہ جنگ طلب اتحاد سازی کی صورت میں ظاہر ہو گا جس کا خاص نشانہ یمن بنے گا اور اس کا مقصد امریکہ اور اسرائیل کی اسلحہ ساز کمپنیوں کی معیشت کی بحالی ہو گی۔ عراق میں انرجی کے ذخائر امریکہ کے کنٹرول میں ہیں اور امریکہ انہیں یورپ کو درپیش انرجی کے بحران سے نمٹنے کیلئے استعمال کرے گا۔ اسی طرح عراق کو خطے میں اسرائیلی بلاک میں دھکیلنے کی کوششوں میں تیزی آئے گی۔ امریکہ مغربی ایشیا میں بھی براہ راست جنگ کا خطرہ مول لینے کیلئے تیار نہیں ہے لہذا خطے میں اپنی پٹھو عرب حکومتوں کو اسرائیل سے معاہدوں پر اکسا رہا ہے تاکہ یوں اسرائیل کی بدمعاشی اور شدت پسندی کے اخراجات ان عرب ممالک کے ذریعے پورے کئے جا سکیں۔
 
حقیقت یہ ہے کہ جو بائیڈن خطے اور دنیا میں امن و استحکام کی خاطر سرگرم عمل نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد پراکسی جنگوں اور دہشت گردانہ اقدامات کے ذریعے سکیورٹی بحران ایجاد کر کے دنیا کے مختلف حصوں میں موجود قدرتی ذخائر کی لوٹ مار اور اپنا فوجی اور سیاسی اثرورسوخ بڑھانا ہے۔ اگرچہ مغربی ایشیا، وسطی ایسیا، افغانستان اور پاکستان میں امریکہ کی پوزیشن انتہائی متزلزل ہے لیکن ہمیں کسی صورت امریکی اقدامات اور سازشوں سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنی حالیہ تقریر میں امریکی اور مغربی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے بڑے پیمانے پر ذہانت آمیز کھیل کھیلنے پر زور دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حکمت عملی اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت اور اثرورسوخ میں اضافے کا باعث بنے گی۔

تحریر: ہادی محمدی
 

ہفتۂ امامت و ولایت سے متعلق امور کی مرکزی کمیٹی کے ڈائریکٹر حسین ظریف منش نے کہا ہے کہ اس سال دنیا کے 140 ممالک میں عید غدیر اور عید مباہلہ کی تقریبات منعقد ہو رہی ہیں اور دنیا کے 140 ممالک میں ولایت و غدیر کا پرچم   لہرایا جائیگا۔

عید غدیر کے موقع پر گزشتہ برسوں کی مانند جہاں دنیا بھر میں زبردست تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے وہیں ایران میں بھی ملکی سطح پر عظیم الشان جشن ولایت و امامت کی تیاری عروج پر ہے۔ عید غدیر کے روز ایران میں عام تعطیل ہے۔

دارالحکومت تہران میں 18 ذی الحجہ بروز پیر کو جشن عید غدیر کے موقع پر غدیر واک کا بھی اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت  شمع ولایت کے پروانے تہران کے ولی عصر( عج) اسکوائر سے دس کلومیٹر کی مسافت طے کر کے پارک وے  اسکوائر پہنچیں گے۔ یہ پروگرام شام 6 بجے سے رات 10 بجے تک منعقد ہو گا اور دس کیلو میٹر کے راستے میں ہر جگہ غدیری مہمانوں کی پذیرائی کے لئے کھانے پینے اور شربت کی سبیلوں کے علاوہ بچوں کے مخصوص اسٹالز، مذہبی و ثقافتی مصنوعات کے اسٹالز، خصوصی تحائف اور گروہی ترانوں کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ غدیر واک کا اہتمام بھی اربعین حسینی واک کی طرح مخیر حضرات، مذہبی اور ثقافتی مراکز، انجمنوں اور رضاکاروں کے تعاون سے کیا جا رہا ہے۔ 

بایڈن نے غاصب صیہونی حکومت کے مرکز تل ابیب سے جدہ جاتے وقت کہا کہ وہ ایسے پہلے امریکی صدر ہیں جو مقبوضہ فلسطین سے براہ راست سعودی عرب جا رہے ہیں۔

تل ابیب سے ریاض تک بایڈن کے اس سفر کا مقصد غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کی قباحت و کراہت کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ بایڈن کے اس سفر سے قبل گزشتہ روز سعودی عرب نے غاصب ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی باضابطہ بحالی کے تناظر میں صیہونیوں کی غیر فوجی پروازوں کے لئے اپنے فضائی حدود کھولنے کا اعلان کیا تھا۔

بایڈن کے دورۂ تل ابیب اور پھر اسکے بعد دورۂ جدہ پر علاقائی عوام اور فلسطین کی طرف سے منفی ردعمل سامنے آیا ہے۔

فلسطین لبریشن فرنٹ کے سربراہ احمد خریس نے ایران پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بایڈن کے اس سفر سے عرب اقوام کی ویرانی و تاراجی کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

ایران کے نائب وزیر خارجہ محمد صادق فضلی نے بھی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ بایڈن کے اس شیطانی سفر کا تلخ نتیجہ فتنہ پروری، جنگ، برادر کُشی، خون خرابا اور سازش ہے۔

 

قابل ذکر ہے کہ آل سعود مخالف صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے معاملے نے بایڈن کے دورۂ جدہ پر بڑے سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔ ماضی میں امریکی صدر جوبایڈن اپنی انتخابی مہم کے دوران خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے سلسلے میں ریاض حکومت بالخصوص ولیعہد بن سلمان کو سخت ہدف تنقید بناتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات محدود کرنے کی بات کر چکے ہیں مگر اب وہ اپنے سابق موقف سے پسپائی اختیار کرنے کے بعد سعودی حکام سے دوستانہ ماحول میں ملاقات کے لئے جدہ پہنچ چکے ہیں جہاں ایئرپورٹ سے محل پہنچنے پر خود ولیعہد بن سلمان نے اُن کا استقبال کیا ہے۔

امریکہ، ترکی اور اقوام متحدہ کی مختلف تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق سعودی ولیعہد بن سلمان براہ راست جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں اور انہی کے حکم سے خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر نہایت بہیمانہ انداز میں قتل کیا گیا۔ اس عمل کو ولیعہد بن سلمان کے بھیجے گئے ایک خصوصی ڈیتھ اسکواڈ نے انجام دیا تھا۔

Saturday, 16 July 2022 08:18

جناب هاجر

گرم ہوا چل رہی تھی اور ہاجرہ کا معصوم فرزند اسماعیل پیاس کی شدت سے تڑپ رہا تھا ادھر ماں اطراف خانہ کعبہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑرہی تھی۔ صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں سرگرداں و حیران ہاجرہ جب بھی دور سے بیایان کی طرف دیکھتیں تو انہیں پانی کا چشمہ نظر آتا تھا لیکن جب قریب پہنچتیں تو وہ سراب نکلتا ہاجرہ سات مرتبہ پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑیں مگر انہیں پانی میسر نہ ہوا لیکن پروردگارعالم نے ان کی سعی و کوشش کو ضائع نہیں کیا بلکہ اس کا اجر انہیں عظیم طریقے سے دیا ۔جب آپ تھک ہار کر اسماعیل کے قریب پہنچیں تاکہ انہیں بہلائیں تو اچانک ان کی نگاہ اس چشمے پر پڑی جو اسماعیل کے پیروں تلے جاری تھا آپ فورا سجدہ شکر بجا لائیں اور حضرت ابراہیم کی دعا کے بارے میں سوچنے لگیں کہ انہوں نے بیایان میں چھوڑ کر جاتے وقت انہیں اور اسماعیل کو خدا کے سپرد کیا تھا اور خداسے دعا کی تھی کہ خدایا لوگوں کے قلوب کو ان کی طرف موڑ دے اور پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم کی دعا کو قبول کرلیا تھا اور پھر یہی چشمہ آب ” زمزم ” کے نام سے مشہور ہوگیا ۔

تاریخ انسانیت میں بہت سی ایسی خواتین گذری ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی صلاحیتوں ، تقوی و ایمان ، تہذیب نفس اور خود سازی کے ساتھ کامیاب زندگی بسر کی ہے۔انہیں عظیم و گرانقدر خواتین میں سے ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریک حیات اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مادر گرامی جناب ہاجرہ ہیں اگر چہ ابتدائی دور میں وہ قصر میں ایک کنیز کے عنوان سے زندگی بسر کررہی تھیں لیکن عیش و عشرت کی زندگی کی خواہشمند نہ تھیں کیونکہ ان کا دل معنوی اور الہی جلوؤں سے سرشار تھا اسی لئے آپ دنیاکی زرق و برق سے بیزار تھیں وہ دنیا کی فریبی اور فانی چمک دمک کو معنوی درجات کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ تصور کرتی تھیں گویا اس مادی زندگی سے نکلنے کے لئے لمحات شمار کررہی تھیں اور ایک دن ان کی امیدوں میں بہار آگئی اور ان کے نصیب جاگ اٹھے اور انہیں خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھروالوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم ہوگیا اور پھر انہیں پیغمبر خدا حضرت ابراہیم کی شریک حیات بننے کا موقع بھی نصیب ہوا آپ اپنے شوہر نامدار کی پاکیزہ زندگي کی پیروی کرتے ہوئے ہدایت و کامرانی کی اعلی منزلوں پر فائز ہوئیں۔

جناب ہاجرہ ایک متقی و پرہیزگار ، سیاہ فام کنیز تھیں کہ جنہیں مصر کے ایک حاکم نے حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کو بطور تحفہ دیا تھا ۔ جناب سارہ جو بے اولاد اورحضرت ابراہیم کے وارث نہ ہونے کی بناء پر مضطرب و پریشان تھیں انہوں نے حضرت ابراہیم سے خواہش ظاہر کی کہ آپ اس متقی و پرہیزگار کنیز سے شادی کرلیں اور پھر اس طرح حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی سارہ کی خواہش کا احترام کرکے ہاجرہ سے عقد کرلیا اب ہاجرہ ایک کنیز نہ تھیں بلکہ وہ اللہ کے خلیل ابراہیم کی شریک حیات بن چکی تھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑھاپے کا سکون و سہارا بن گئیں۔ وقت گذرتا رہا ، ہاجرہ کے یہاں ایک معصوم بچہ پیدا ہوا حضرت ابراہیم نے اس کا نام اسماعیل رکھاایک دن جناب سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے درخواست کی کہ ہاجرہ اور ان کے فرزند کو کسی دوسری جگہ منتقل کردیں ۔

خداوندعالم نے حضرت ابراہیم کو وحی فرمائی کہ اسماعیل اور ان کی ماں کو شام سے باہر لے جائیں حضرت ابراہیم نے کہا “خدایا میں انہیں کہاں لے جاؤں ؟” ارشاد ہوا اے ابراہیم انہیں امن و امان کی جگہ یعنی میرے حرم اور کرہ ارض کے پہلے مرکز پر لے جاؤ جسے میں نے خلق کیا ہے اور وہ مکہ ہے حضرت ابراہیم نے پیغام وحی الہی اور اس بے آب و گیاہ صحرا میں حضرت ہاجرہ نے اور اسماعیل کے محل سکونت کے بارے میں ہاجرہ کو خبر دی ہاجرہ جو اس سے پہلے سرسبز وشاداب اور بہترین آب وہوا سے سرشار سرزمین پر رہ چکی تھیں بغیر کسی چوں چرا کے مشیت الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور خدا پر مکمل یقین و اعتماد رکھتے ہوئے شدید مصیبت و آلام کی وادی میں قدم رکھنے پر راضی ہوگئیں جب حضرت ابراہیم نے ہاجرہ میں صبر واعتماد کا مشاہدہ کیا تو ان کے خلوص و اعتماد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے چنانچہ حضرت ابراہیم اپنے اہل وعیال کے ساتھ سرزمین مکہ پر پہنچے تو وہاں ایک درخت موجود تھا جناب ہاجرہ نے اپنی عبا اس درخت پر ڈال دی اور اپنے بچے کو اس کے سائے میں لے کر بیٹھ گئیں جب حضرت ابراہیم نےوہاں سے واپس جانے کا ارادہ کیا تو ہاجرہ نے کہا : اے ابراہیم آپ ہم لوگوں کو ایسی جگہ چھوڑ کر جارہے ہیں جہاں نہ پینے کے لئے پانی ہے اور نہ ہی کو ئی مونس و ہمدم بلکہ یہ تو ایک بے آب وگیاہ صحرا ہے ؟ ابراہیم نے کہا ” جس خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو یہاں چھوڑ دوں وہی خدا تمہاری مشکلیں آسان کردے گا ” ابراہیم نے اتنا کہہ کر دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور اپنی بیوی اور معصوم بچے کو مکہ کے بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑ کر شام واپس چلے گئے ۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کوہ ذی طوی پر پہنچے تو انہوں نے بارگاہ خداوندی میں اس طرح دعا کی ” پروردگارا میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ دیا ہے تا کہ نمازیں قائم کریں اب تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تا کہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں۔” ( ابراہیم :۳۷)

اب اس گرم تپتی ہوئی زمین پر صرف دو انسان موجود ہیں ایک عورت اور دوسرا چھوٹا سا بچہ، ماں اور بیٹے کو پیاس لگی۔ ماں صفا اور مروہ پہاڑوں کے درمیان پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ کر رہی ہیں ارشاد رب العزت ہوتا ہے۔ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ مِنْ شَعَائِرِ اللہ “بے شک صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔” (بقرہ :۱۵۸)

ہاجرہ اور اسماعیل سرزمین وحی پر رہنے لگے ہاجرہ معنویت و پاکیزگی میں اس درجے پر فائز تھیں کہ ایسے حالات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ذرہ برابر بھی خوفزدہ نہیں ہوئیں کیونکہ آپ جانتی تھیں کہ پروردگار عالم کا وعدہ بر حق ہے اور فرشتہ وحی نے جس چیز کی خبر دی ہے کہ نسل ابراہیمی میں اضافہ ہوگا تو وہ یقینا پورا ہوگا کسی طرح رات گذری اور صبح ہوگئی اسماعیل کو شدید پیاس لگی اور ہاجرہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑنے لگیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا ادھر پروردگار عالم نے اسماعیل کے قدموں تلے چشمہ جاری کردیا جو ہزاروں برس گذرنے کے باوجود آج بھی اسی طرح جاری اور رحمت الہی کی عظیم نشانی ہے اور پھر رفتہ رفتہ پرندے ، جانور اور مختلف قبیلوں کے لوگ اس کے اطراف میں رہنے لگے اور ہاجرہ اور اسماعیل سے مانوس ہو گئے جب حضرت ابراہیم ان سے ملنے کے لئے تشریف لائے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ وہاں آباد ہوگئے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔

روایات کے مطابق جب حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو حضرت ابراہیم نے اللہ کے حکم اور ان کی مدد سے خانہ کعبہ کی تعمیر کی ۔فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ابراہیم ، کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے اور اسماعیل کوہ ذی طوی سے پتھر لاتے تھے اور جب ابراہیم و اسماعیل کعبہ کی تعمیر کرچکے تو جناب ہاجرہ نے اپنی عبا کعبہ کی دیوار پر آویزاں کردی “

جناب ہاجرہ فضائل و کمالات کے اعلی مقام پر فائز تھیں وہ حلیم و بردبار ، متقی و پرہیزگار، مادیات سے مبرہ اور صرف خالق کائنات سے لو لگائے تھیں اسی وجہ سے آپ نے وطن اور شوہر سے دوری اور ہر طرح کی سختی و آلام کو برداشت کیا اور اپنے معصوم بیٹے اسماعیل کے ساتھ برسہا برس زندگی بسر کی ۔ہاجرہ نے پرودگار عالم کے خاص بندے اور اس کے پیغمبر کی اپنے آغوش عطوفت میں پرورش کی اس دوران حضرت ابراہیم کبھی کبھی انہیں دیکھنے آیا کرتے تھے اس کے علاوہ ان کا کوئی مونس و ہمدم بھی نہ تھا ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جناب ہاجرہ کی لیاقت و صلاحیت دیکھتے ہوئے جناب اسماعیل کی تربیت کی ذمہ داری کہ جو مشیت الہی تھی کہ انہی کی ذریت طاہرہ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوں گے انہیں سپرد کردی جناب ہاجرہ نے اپنے فرزند کی تربیت و پرورش بڑے ہی اچھے طریقے سے کی ۔ حضرت اسماعیل ابھی جوانی کی تیرہویں بہار ہی میں تھے لیکن معرفت الہی میں اس قدر غرق تھے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کے بارے میں حکم پروردگار سنایا تو اسماعیل نے حکم الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ۔خداوند عالم سورہ صافات کی آیت نمبر ایک سو دو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اسماعیل نے اپنے بابا کو مخاطب کرکے کہا: بابا آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے”

اگر اسماعیل نے امر الہی کو ہر چیز پر مقدم کیا تو یہ ان کی ماں جناب ہاجرہ کی صحیح تربیت کی بہترین دلیل ہے ۔

جناب ہاجرہ راہ خدا کی وہ عظیم مسافر ہیں جنہوں نے مصر سے فلسطین اور وہاں سے حجاز کی طرف ہجرت کی اور اس دوران بہت زیادہ اور ناقابل تحمل سختی و پریشانی سے دوچار ہوئیں یہاں تک کہ خدا پر ایمان و عقیدہ راسخ کے ساتھ اپنے بیٹے اسماعیل کے لئے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان ان کی سعی وکوشش ، شعائر الہی کا جزء اور واجبات حج کے اعمال کا ایک اہم حصہ قرارپائی اور وہ چشمہ جو ان کے فرزند اسماعیل کے پیروں کے نیچے جاری ہوا تھا وہ لوگوں کے قلوب کے لئے شفا اور نجات دہندہ قرار پایا ۔

خلاصہ یہ کہ پروردگار کی کنیز خاص ہاجرہ اس دار فانی سے ملک جاودانی کی طرف رخصت ہوگئیں اور انہیں جوار خانہ خدا میں دفن کردیا گیا جب کہ یہ امر بھی مشیت الہی سے انجام دیا گیا تھا تاکہ قیامت تک تمام خداپرست افراد اور طواف خانہ خدا کرنے والے اس عظیم کنیز کے ایثار و جذبے اور خدا پر توکل واطمینان کو ہمیشہ یاد رکھیں اور جان لیں کہ خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو سب سے زيادہ متقی و پرہیزگار ہو چنانچہ پروردگارعالم سورہ حجرات کی تیرہویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے :” تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔”

 

ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک کے مطابق سید حسن نصر اللہ نے خطاب میں عید کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے جدید اپ ڈیٹ کے تناظر میں کہا کہ  جولائی 2006 کی جنگ کے اہم نتائج میں سے ایک لبنان اور صیہونی وجود کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے۔

 

سید نصراللہ نے اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز کومخاطب کرتے ہویے کہا: آپ لبنان کو دھمکی دے رہے ہیں جب کہ آپ کی فوج ناکہ بندی ہونے کے باوجود غزہ میں چند میٹر آگے بڑھنے میں ناکام رہی ہے۔

 

سید نصراللہ نے صیہونی وزیرِ دفاع گانٹز کو کہا: بیروت، سیڈون اور صور پر حملہ کرنے کی آپ کی دھمکی کھوکھلی ہے۔