سلیمانی

سلیمانی

تہران، ارنا- فلسطینی خبررساں ذرائع نے مغربی کنارے کے الخلیل شہر کے شمال میں صہیونی فوجیوں کی فائرنگ سے ایک فلسطینی لڑکی کی شہادت کی خبر دی ہے۔

فلسطین الیوم نیوز ویب سائٹ کے مطابق، اسرائیلی فوج نے "غفران وراسنہ" نامی 31 سالہ فلسطینی لڑکی کو آج صبح الخلیل شہ کے شمال میں العروب کیمپ کے داخلی دروازے پر گولی مار کرکے شہید کر دیا۔

رپورٹ کے مطابق صہیونی غاصبوں نے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی لڑکی ان پر حملے کا ارادہ رکھتی تھی۔

 

اس حوالے سے فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی کا کہنا تھا کہ قابض فوج نے فلسطینی لڑکی کو العروب کیمپ کے داخلی دروازے پر 20 منٹ تک مدد نہیں کرنے کی اجازت نہیں دی لیکن آخر کار اسے فلسطینی ہلال احمر کے حوالے کر دیا گیا اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا تاہم وہ دیر سے پہنچنے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں ہی شہید ہو گئیں۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان "سعید خطیب زادہ" نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نئی رپورٹ کے مطابق فرانس کی وزارت خارجہ کے موقف کے جواب میں کہا کہ جیسا کہ سب نے پہلے کہا ہے، اگرچہ  آئی اے ای اے کی نئی رپورٹ کسی بھی طرح سے ایران اور اس بین الاقوامی ادارے کے درمیان بات چیت کی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاہم، اس طرح کے عجلت اور سیاست پر مبنی تبصرے، جو آئی اے ای اے کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے وسیع اور تعمیری تکنیکی تعاون کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہیں، دخل اندازی اور بیکار ہیں۔

خطیب زادہ نے کہا کہ آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاسوں کے موقع پر نفسیاتی کارروائیوں کو انجام دینے اور اسلامی جمہوریہ ایران پر دباؤ فراہم کرنے کے لیے ہم اس قسم کے بیانات اور اقدامات کی نوعیت اور نوعیت سے بخوبی واقف ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلاشبہ جعلی صیہونی ریاست کی حالیہ تحریکوں کے ساتھ اس طرح کے بیانات کا اتفاق اور مطابقت؛ اس طرح کے اقدامات میں صہیونی ریاست کے کردار کو مزید ظاہر کرتے ہیں۔

خطیب زادہ نے مزید کہا کہ جیسا کہ ہم نے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کو ہمیشہ تکنیکی تعاون کے راستے پر وفادار رہنے کا مشورہ دیا ہے، ہم فرانس جیسے ممالک کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ایسی پوزیشنیں لینے اور مداخلت کرنے سے گریز کریں جو تعاون کو اس کے صحیح راستے سے ہٹانے کا سبب بنیں اور اس کے بجائے، انہیں جوہری تخفیف اسلحہ کے لیے اپنے تحفظات کے مطابق رہنا ہوگا اور اسرائیل کی نسل پرست ریاست کو جوابدہ ہونا ہوگا، جس کے پاس سینکڑوں جوہری وار ہیڈز ہیں۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پُرامن ہے اور یہ معمول کی بات ہے کہ ہم بورڈ آف گورنرز میں کسی بھی غیر تعمیری اقدام کا سخت اور مناسب جواب دیں گے اور جو لوگ بورڈ آف گورنرز اور ڈائریکٹر جنرل کی رپورٹ کو ایران کے خلاف سیاسی کھیل کا فائدہ اٹھانے اور اوزار کے طور پر دیکھتے ہیں وہ ان اقدامات کے نتائج کے ذمہ دار ہیں۔

خاتون، معاشرے کی تربیت کنندہ

معاشرے میں خواتین کا کردار مردوں کے کردار سے زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ خواتین ، تمام پہلوؤں میں ایک متحرک گروہ ہونے کے علاوہ ، اپنے دامن میں فعال گروہوں کی تربیت کرتی ہیں۔ معاشرے میں ماں کی خدمت اساتذہ کی خدمت سے بالاتر ہے ، اور سب کی خدمت سے بالاتر ہے۔

انبیاء الہی اور معاشرے میں خواتین کا کردار

یہ وہی کام جو انبیاء کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ خواتین کی طرح کا ایک طبقہ بنیں کہ وہ معاشرے کو تعلیم دیں ، اور معاشرے میں شجاع خواتین اور مرد تربیت کریں۔

مغرب اور حقوقِ نسواں کا ہنگامہ

لیکن وہ لوگ جو کسی ملک کو اسلامی ، اخلاقی ، نیک سمت سے محروم اور بدعنوانی کے مراکز کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ، وہ لوگ دیکھتے ہیں کہ اب جبکہ آپ معاشرے میں داخل ہوچکی ہیں اور معاشرے کی خدمت کر رہی ہیں [اور] خواتین اور مردوں کے لئے ان کے منصوبے کالعدم ہو چکے ہیں ، لہذا ان کا چیخیں بلند ہے کہ کچھ تبدیل نہیں ہوا اور یہ دور بھی سابقہ دور کی طرح ہے۔

دنیا سے لگاؤ یا دنیا سے اجتناب کا موضوع قدیم زمانے سے محتلف ادیان و مذاہب اور انسانی ثقافتوں میں زیر بحث رہا ہے۔ بعض انسانی مکاتب فکر یا الہیٰ ادیان نجات اور سعادت کو دنیا سے اجتناب، تہجد اور زہد میں تلاش کرتے ہیں۔ حتی کہ ریاضت اور عبادتگاہ میں رہنے کو دین داری، خود سازی، عرفان اور تزکیہ نفس قرار دینے لگے۔ اس کے مقابلے میں بعض آئيڈیالوجیز اور ثقافتوں مثلاً سرمایہ داری میں دنیا پرستی کو سراہا گيا ہے اور یہی چیز ان سماجوں کے زوال کا سبب بنی ہے۔ دین اسلام کی ایک ممتاز اور منفرد خصوصیت دنیا سے متعلق اس کا زاویۂ نگاہ ہے۔ دنیا کے بارے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا پرستی سے بھی اجتناب کیا جائے اور رہبانیت سے بھی۔ اسلام کا ایسے مکاتب فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو انسانوں کو خانقاہوں اور عبادتگاہوں تک محدود اور انہیں انسانی زندگی کے امور اور سماجی ذمے داریوں سے دور کر دیتے ہیں۔ اسلام اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ تمام انسانوں اور مومنین کی ذمے داری ہے کہ وہ دنیوی امور پر توجہ اور ان کو اہمیت دیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ دنیا اور مادیات کی چمک دمک کو انسان کے تکامل اور اس کی پیشرفت سے مانع جانتا ہے۔

قرآن کریم کی مختلف آیات میں تاکید کی گئی ہے کہ دنیوی نعمتوں سے وابستگی اور دنیا پرستی انسان کے اخلاقی زوال کا سبب ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے بارے میں اسلام کا نظریہ افراط و تفریط سے پاک اور ایک جامع نظریہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ دنیوی نعمتوں سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہیئے، لیکن ان کے ساتھ لگاؤ نہیں ہونا چاہیئے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں اور مومنین کو سب سے پہلی تاکید یہی کی ہے کہ وہ دنیوی نعمتوں سے بہرہ ور ہوں۔ اسلام کے نزدیک الہیٰ نعمتوں سے ہمکنار ہونا انسان کے معنوی تکامل کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ اس نظریئے کی اہمیت اس وقت کھل کر سامنے آتی ہے، جب ہم اس بات کو جان لیں کہ صدر اسلام میں اور بعض سابقہ ادیان الہیٰ مثلاً عیسائیت کی پیروی میں یا صوفیا کی ثقافت سے متاثر ہو کر بعض مومنین رہبانیت اور الہیٰ نعمتوں سے استفادہ نہ کرنے کو اللہ تعالیٰ سے قرب کا راستہ سمجھتے تھے۔

ایک مسلمان رات دن عبادت میں مصروف رہتا تھا اور عبادت کی وجہ سے وہ زندگی اور گھر والوں کے امور سے غافل ہوچکا تھا، رسول اکرم (ص) نے اس سے فرمایا کہ جان لو کہ خدا نے مجھے رہبانیت کے لئے نہیں بھیجا ہے۔ میری شریعت فطری اور آسمانی شریعت ہے۔ میں خود نماز پڑھتا ہوں، روزے رکھتا ہوں، اپنی زوجہ کے ساتھ ہمبستری کرتا ہوں۔ جسے میرے دین کی پیروی کرنی ہے، اسے میری سنت کو قبول کرنا ہوگا، شادی اور میاں بیوی کی ہمبستری میری سنت میں سے ہے۔" قرآن کریم نے الہیٰ نعمتوں سے استفادہ کرنے کو خدا کو نہ بھلانے اور شیطان کی پیروی نہ کرنے سے مشروط کیا ہے اور مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے: "اور جو اس نے رزق حلال و پاکیزہ دیا ہے، اس کو کھاؤ اور اس خدا سے ڈرتے رہو، جس پر ایمان رکھنے والے ہو۔" ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے: "اے انسانو! زمین میں جو کچھ بھی حلال و طیب ہے، اسے استعمال کرو اور شیطانی اقدامات کی اتباع نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔"

رہبانیت اور دنیا سے دوری کے مقابلے میں اسلام نے اپنے پیرووں کو زہد کی دعوت دی ہے۔ بعض افراد نے زہد کا ترجمہ دنیا سے اجتناب کیا ہے جبکہ اس کا صحیح ترجمہ دنیا سے اجتناب کرنا نہیں ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک زاہد انسان دنیا پر توجہ تو دیتا ہے لیکن اسے اپنا منتہائے مقصود نہیں سمجھتا ہے، بلکہ اسے ایک اہم ذریعے جتنی اہمیت دیتا ہے۔ راہب اور زاہد دونوں ہی تارک الدنیا ہوتے ہیں، جبکہ زاہد جس دنیا کو چھوڑتا ہے، اس سے مراد نعمتوں اور دنیوی آسائشوں میں منہمک رہنا اور انہی امور کو اپنی آرزو قرار دینا ہے اور جس دنیا کو راہب چھوڑتا ہے، وہ کام، فعالیت اور سماجی ذمے داری سے عبارت ہے۔ لہذا ایک زاہد، راہب کے برخلاف اپنے تمام سماجی کام اور اجتماعی ذمے داریوں کو انجام دیتا ہے اور زہد نہ صرف سماجی ذمے داریوں کے منافی نہیں ہے بلکہ وہ ذمے داریوں سے عہدہ برا ہونے کا مناسب ذریعہ ہے۔ دنیا میں زہد کا ایک اثر معنویات کے ساتھ انسان کی محبت ہے۔ انسان جس قدر مادیات میں اپنی دلچسپی کم کرتا ہے اور دنیا سے اس کی محبت میں کمی واقع ہوتی ہے، اسی قدر اس کی معنویات کے ادراک کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو شخص مادیات اور دنیوی امور میں جکڑا رہتا ہے، وہ معنویت کے بحر بیکراں کے بارے میں نہ سوچ سکتا ہے اور نہ ہی اس سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔

امام خمینی (رہ) ایسے انسان تھے، جنہیں زہد کی صفت کا حامل قرار دے سکتے ہیں۔ آپ نہ صرف زبانی طور پر اور عقیدے کے اعتبار سے بلکہ اپنے عمل اور کردار میں بھی زہد کا مکمل نمونہ تھے۔ آپ دوسروں کو بھی اسی کی دعوت دیتے تھے۔ آیت اللہ جعفر سبحانی کا کہنا ہے کہ "جب امام خمینی (رہ) درس اخلاق دیتے تھے تو وہ دنیا پرستی کی بہت مذمت کرتے تھے، بعض اوقات درس ختم ہونے کے بعد انسان دنیا سے اس قدر بے اعتنا ہو جاتا تھا کہ دنیا اس کے نزدیک ایک ٹوٹے ہوئے کوزے جیسی ہوتی تھی، جس پر کوئی شخص توجہ ہی نہیں دیتا ہے۔" امام خمینی (رہ) نے آیت اللہ بروجردی کے انتقال کے بعد دنیوی امور کے بارے میں پریشان ہونے والے طلاب کو بلند ہمتی سے کام لینے، دنیا کو غیر اہم جاننے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی نصیحت فرمائی۔ حجۃ الاسلام زین العابدین باکویی اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ آيت اللہ بروجردی کے انتقال کے بعد حوزہ علمیہ قم میں چالیس دن تک چھٹیاں کر دی گئیں۔ تعطیلات کے بعد پہلے دن جب درسوں کا سلسلہ شروع ہوا تو امام خمینی (رہ) نے مسجد اعظم میں طالب علموں کو نصیحت کی کہ اپنے رزق کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں، طالب علموں نے کہا کہ آیت اللہ بروجردی وفات پاچکے ہیں، اب ہم کیا کریں؟ تو امام خمینی (رہ) نے فرمایا: "آپ لوگوں کی ہمت اس قدر بلند ہونی چاہیئے کہ دنیا کی اہمیت گھاس کے ایک پتے کے برابر بھی نہ ہو۔"

امام خمینی (رہ) نے دنیا کے غیر اہم ہونے کی وضاحت کرنے کے لئے اس کے لغوی معنی کی جانب اشارہ کیا اور اپنے اساتذہ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: "دنیا کی اس قدر مذمت کی گئی ہے کہ اس کا نام تک ذکر نہیں کیا گيا بلکہ کنائے سے کام لیتے ہوئے لفظ دنیا یعنی پست کے ساتھ اسے تعبیر کیا گيا ہے۔ بالکل ان برے مقامات کی طرح کہ جن کا نام نہیں لیا جاتا ہے بلکہ کنائے کے ساتھ ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔" امام خمینی (رہ) دنیا پرستی سے اجتناب کرتے ہوئے طالب علموں کو تاکید کیا کرتے تھے کہ نہ صرف اپنی آخرت کو دنیا پر قربان نہ کریں بلکہ اپنے دین کو بھی دوسروں کی دنیا پر قربان نہ کریں۔ آیت اللہ بنی فضل اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ مقدس اسلامی تحریک کی ابتدا میں جن دنوں امام خمینی (رہ) کی مرجعیت اور قیادت اپنے عروج پر تھی، آپ نے اپنے گھر کے بعض افراد کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر دنیا اور قیادت ہو بھی تو وہ تمہارے لئے نہیں ہے۔ اگر تم عقلمند ہو تو میری دنیا کے لئے اپنا دین داؤ پر نہ لگاؤ۔ اپنے دین کو مستحکم اور مضبوط رکھو. امام خمینی (رہ) طالب علموں کو زہد کی رغبت دلاتے ہوئے انہیں متنبہ کرتے تھے کہ دینی طالب علموں کا دنیا کی جانب رجحان دین پر ضرب لگنے کا سبب بنتا ہے۔ آیت اللہ حسین مظاہری نے اس سلسلے میں نقل کیا ہے کہ امام خمینی (رہ) ہمیشہ طالب علموں سے فرماتے تھے کہ اس بات کا خیال رکھنا کہ اسلام کو تم لوگوں سے کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

 
 

ویٹی کن : ایران کے حوزات علمیہ کے سربراہ آیت اللہ علی رضا اعرافی نے ویٹیکن میں کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس سے ملاقات کی۔ پوپ فرانسس نے آیت اللہ اعرافی کا پرتپاک استقبال کیا۔ آیت اللہ اعرافی نے کیتھولیک عیسائی رہنما تک قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کا زبانی پیغام پہنچایا۔
انہوں نے پوپ فرانسس سے ملاقات میں کہا کہ قائد اسلامی انقلاب نے میرے دورے کے بارے میں جاننے کے بعد آپ کو سلام کہا اور آپ کے کارنامہ اور لاطینی امریکہ کے ساتھ آپ کے تعلقات کی تعریف کی، اور اسلام اور عیسائیت کے درمیان تعلقات کو نرم کرنے اور مظلوموں کے دفاع میں آپ کے بعض موقف کی تعریف کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم آپ سے توقع کرتے ہیں کہ دنیا کے مظلوموں بالخصوص فلسطین اور یمن کے مظلوموں کے دفاع میں کام جاری رکھیں گے اور واضح اور شفاف موقف اپنائیں گے۔
اس ملاقات میں حوزات علمیہ کے ڈائریکٹر نے عصر حاضر کے انسان کی فکری، ثقافتی اور سماجی چیلنجز کو حل کرنے کے لیے اسلام، تشیع اور ادیان الٰہی کے درمیان تعامل کے لیے مدارس اور حوزات علمیہ کی فکری اور علمی صلاحیتوں پر زور دیا۔ ایران کے حوزہ علمیہ کے منتظم اعلیٰ نے عصر حاضر کی انسانیت کے چند اہم ترین چیلنجوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قوموں کے خلاف جابرانہ تشدد، غربت، بھوک، جنگ پر اکسانا، غاصبانہ قبضہ اور بین الاقوامی سطح پر منظم ظلم و جبر، ماحولیاتی انحطاط اور دنیا کی اقتصادی طاقتوں کی طرف سے لوگوں کو نظرانداز کیا جانا اور انتہا پسندی کا فروغ زمانے کے سب سے بڑے چیلنجز اور بحرانوں میں سے سب سے اہم بحران ہے۔ ان چیزوں پر ادیان الٰہی کے موثر کردار کے بغیر قابو نہیں پایا جا سکتا اور مدارس و حوزات علمیہ کیتھولک چرچ سمیت بین الاقوامی سائنسی و مذہبی اداروں کو سمجھنے اور ان سے بات چیت کے لئے تیار ہیں۔

ابوظہبی : اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ طے پاگیا ، جس کے تحت تجارتی حجم 2 ارب ڈالر سے بڑھنے کا امکان ہے، ابوظہبی میں اسرائیل کے وزیر معیشت اور صنعت اورنا باربیوا اور ان کے اماراتی ہم منصب وزیر معیشت عبداللہ بن طوق المری نے کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد معاہدے پر دستخط کیے۔معاہدہ کے تحت دونوں ممالک کے تاجروں کو مارکیٹوں تک کم ٹیرف میں تیز تر رسائی ملے گی جس سے دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان قابل تجدید اشیا، اشیائے صرف، سیاحت اور لائف سائنس کے شعبوں میں مزید تعاون بڑھایا جائے گا۔دبئی تیزی سے اسرائیلی کمپنیوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے، سال رواں کے آخر تک تقریباً ایک ہزار اسرائیلی کمپنیاں متحدہ عرب امارات میں یا اس کے ذریعے کام کر رہی ہوں گے، اور اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی.

 

 

جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف “زیادہ سے زیادہ دباو” پر مبنی حکمت عملی کا اعلان کیا تو اسی وقت متعدد تھیوریشنز، سیاست دانوں اور تجزیہ کاران نے اس کی ممکنہ ناکامی کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ یہ سب کچھ مشترکہ نکات پر تاکید کر رہے تھے جن میں مختلف شعبوں میں ایران کی صلاحیتیں، زمینی حقائق کا غلط جائزہ، عالمی سطح پر ابھرتا ہوا ملٹی پولر نظام اور مغربی ایشیا میں زوال پذیر ہوتا امریکی اثرورسوخ وغیرہ شامل تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم اس مسئلے کا گہرائی میں جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ایران کے خلاف امریکی محاذ ہر پہلو سے ناکامی اور شکست کا شکار ہو رہا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر ولید فارس، جو ایران کی مخالفت میں مشہور ہیں، نے حال ہی میں اس بارے میں اہم اعترافات کئے ہیں۔

ولید فارس کا شمار ایسے افراد میں ہوتا ہے جو گذشتہ طویل عرصے سے ایران کے بارے میں تحقیق کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ریپبلکن پارٹی سے قریب اخبار “نیوز مکس” میں ایک کالم شائع کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: “آغاز سے اب تک ایران حکومت کے بارے میں تحقیق کی ہے جس میں 1980ء میں امریکیوں کو یرغمال بنانے کا واقعہ، اسرائیل کے خلاف ایران کی پراکسی جنگ، ایران کے جوہری پروگرام میں پھیلاو وغیرہ شامل ہیں۔ میں تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کم از کم اس وقت تک ایرانی حکام فاتح قرار پائے ہیں۔ ایران نے اپنی فوجی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے، مسلح گروہوں کے ذریعے اپنا اثرورسوخ بڑھایا ہے اور جوہری معاہدے کی بدولت مغرب میں بھی اثرورسوخ حاصل کیا ہے۔”

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرگرم اور فعال رکن کے طور پر شامل رہا ہے۔ خود ایران بھی دہشت گردی کا شکار ہوا ہے۔ منافقین خلق (ایم کے او) نے امریکہ کی بھرپور مدد اور حمایت کے ذریعے ایران میں 17 ہزار سے زائد انسانوں کو قتل کیا۔ سابق امریکی وزیر دفاع مائیک پمپئو نے البانیا کے دورے میں اس گروہ کی سربراہ مریم رجوی سے ملاقات کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی حمایت اب تک جاری ہے۔ علاقائی سطح پر بھی خود ڈونلڈ ٹرمپ اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ امریکہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا خالق ہے۔ یہ ایسا گروہ ہے جو عراق، شام اور افغانستان میں لاکھوں بیگناہ انسانوں کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ لہذا امریکہ ہر گز اپنے دامن سے اس کالے دھبے کو ختم نہیں کر سکتا کہ وہ دہشت گردوں کا سرپرست ہے۔

پراکسی جنگوں کے بارے میں ایران پر جو الزام عائد کیا جاتا ہے اس کے بارے میں اتنا کہنا ہی کافی ہو گا کہ ان کے بقول عراق، شام اور یمن میں ایران کے جو حمایت یافتہ مسلح گروہ موجود ہیں وہ تو دراصل تکفیری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ان دہشت گرد عناصر کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ جیسا کہ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا ہے، امریکہ کی حکومت دراصل ایک “مافیا رژیم” ہے۔ اس رژیم نے دنیا بھر میں اپنی مخالف حکومتوں کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں دباو کا شکار کرنے کیلئے جگہ جگہ دہشت گرد گروہ پال رکھے ہیں اور انہیں اپنے پست مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے۔ اعلی سطحی امریکی عہدیدار اس حقیقت کا بھی اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ خطے میں ایران کا اثرورسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران اس وقت کئی قسم کی صلاحیتوں کا مالک بن چکا ہے۔ مزید برآں، خطے میں اسلامی مزاحمت کی بڑھتی ہوئی طاقت بھی اہم ہے۔ ان دونوں نے مل کر خطے میں امریکی اثرورسوخ کا بیڑہ غرق کر ڈالا ہے۔ امریکی حکام ایران پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ پراکسی گروہوں کی مدد سے امریکہ کے مفادات کو زک پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران بیرونی جارح قوتوں کے مقابلے میں اپنا اور خطے کی اقوام کا تحفظ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی بلاک نے ایران کی مدد سے خطے کی لوٹ مار پر مبنی امریکی اہداف و مقاصد کو خاک میں ملا دیا ہے۔ یہ اقدام حقیقت میں حب الوطنی اور اپنا دفاع کہلاتا ہے اور اسے دہشت گردی کہنا ناانصافی ہو گی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے کہیں پہلے سے امریکہ خطے میں مداخلت اور لوٹ مار میں مصروف ہے۔

اقتصادی میدان میں بھی امریکہ کو ایران کے مقابلے میں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکہ ایران پر اقتصادی دباو ڈال کر مطلوبہ اہداف و مقاصد حاصل نہیں کر پایا۔ اگرچہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں نے ایرانی عوام کی زندگی مشکل کر دی ہے لیکن امریکہ ان کے ذریعے ایران کو اپنے سامنے جھکانے میں ناکام رہا ہے۔ اسی طرح امریکہ ایران کے اندر بدامنی اور انارکی پھیلانے میں بھی ناکامی کا شکار ہوا ہے۔ بہرحال، ایران کی دفاعی اور بعض اوقات جارحانہ حکمت عملی کے نتیجے میں امریکہ کا مطلوبہ عالمی نظام شدید طور پر متزلزل ہو چکا ہے۔ امریکی اثرورسوخ کو شدید دھچکہ پہنچنے کے نتیجے میں اس کا اسٹریٹجک زوال شدت اختیار کر چکا ہے۔ اب نہ تو امریکہ ماضی کی طرح اقتصادی دباو ڈال سکتا ہے اور نہ ہی فوجی حملوں کی دھمکیاں دینے کی پوزیشن میں ہے۔

تحریر: ڈاکٹر جواد

 ایران میں شاہ خراسان حضرت امام رضا علیہ السلام کے مزار کے علاوہ ایک اور معروف زیارتگاہ انکی بہن حضرت معصومہ قم کا مزار ہے جو ایرانی شہر قم میں واقع ہے اور جہاں ہر سال لاکھوں لوگ زیارت کیے جاتے ہیں، یکم ذیعقدہ کو انکی ولادت کا دن ہے اس مناسبت سے مختصر تعارف پیش خدمت ہے:
مختصر تعارف حضرت معصومہ ع
ولادت
جناب معصومہ کی ولادت پہلی ذیقعدہ ۱۷۳ ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں ہوئی
القاب
مصومہ، طاہرہ، حمیدہ، رشیدہ، تقیہ، نقیہ، رضیہ، مرضیہ، سیدہ، اور اخت الرضا (یعنی امام رضا کی بہن) آپ کے القاب ہیں
کاتوزیان، انوار المشعشعین، ج۱ ، ص۲۱۱.
 اور آپ کے زیارت نامے میں آپ کے دو لقب صدیقہ اور سیدۃ النساء العالمین کا ذکر بھی ہے.
خوانساری، زبدة التصانیف، ج۶، ص۱۵۹
آپ کا مشہور لقب معصومہ ہے۔ یہ نام امام علی بن موسی الرضا(ع) کی اس حدیث سے اخذ کیا گیا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: جس کسی نے قم میں معصومہ کی زیارت کی، گویا اس نے میری زیارت کی.اسی طرح خود آپ نے اپنا تعارف معصومہ اور امام رضا(ع) کی بہن کے نام سے کروایا ہے۔
حضرت معصومہ ع کی زیارت و حضرت زہرا ع کی زیارت کا واقعہ
 آیت اللہ مرعشی کے والد گرامی بہت اشتیاق رکھتے تھے کہ جس طریقے سے ممکن ہو حضرت زہراء(س) کی قبر مطہر سے آگاہ ہو سکیں، اس مقصد کے لئے آپ نے ایک مجرب چلہ شروع کیا، اور چالیس رات تک اس مخصوص ذکر کا ورد کیا۔ اس امید پر کہ شاید خداوند کسی طریقے سے ان کو حضرت زہراء کی قبر مبارک سے آگاہ فرمائے، چالیسویں رات جب آپ ذکر اور توسل سے فارغ ہو کر آرام کر رہے تھے تو عالم خواب میں امام باقر(ع) یا امام صادق(ع) کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
امام(ع) نے ان سے فرمایا: علیک بکریمة اھل البیت کریمہ اہل بیت کے حضور میں جاؤ۔ آپ نے سوچا کہ کریمہ اہل بیت سے مراد حضرت زہراء(س)ہیں، اس لئے کہا: میں نے یہ ختم اسی لئے کیا ہے کہ آپ کی قبر مبارک کا نشان مل سکے تا کہ میں آپ کی زیارت سے مشرف ہو سکوں. امام(ع) نے فرمایا: میری مراد حضرت معصومہ(س) کی قبر مبارک ہے جو قم میں ہے۔ جب نیند سے بیدار ہوئے تو سفر کی تیاری کا ارادہ کیا اور حضرت معصومہ(س) کی زیارت کے لئے قم کی طرف روانہ ہوئے۔ کریمہ اہل بیت نامی کتاب کے مولف رقمطراز ہیں :آیۃ اللہ مرعشی (رہ) نے اس واقعے کو کئی بار مؤلف کے لئے بیان فرمایا ہے . . .
 
سفر قم
 
تاریخ قم کے مؤلف نے یوں لکھا ہے: سنہ200 ہجری میں مامون عباسی نے امام علی بن موسی الرضا(ع) کو مدینے سے "مرو" بلایا۔ مامون کا اصلی مقصد امام(ع) کو اپنے نزدیک رکھ کر ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا تھا لیکن اس نے افکار عمومی میں یہ مشہور کرایا کہ مامون نے امام رضا(ع) کو اپنی ولایت عہدی(جانشینی) کیلئے بلایا ہے۔ سنہ 201 ہجری میں آپ کی بہن حضرت معصومہ نے اپنے بھائی کے دیدار کی خاطر "مرو" کا سفر کیا. کہا جاتا ہے کہ فاطمہ معصومہ(س) نے اپںے بھائی کا خط دریافت کرنے کے بعد خود کو سفر کے لئے تیار کیا۔ اس سفر میں حضرت معصومہ نے اپنے خاندان اور قریبی رشتہ داروں کے ایک قافلے کے ساتھ ایران کی جانب سفر کیا۔ جب ساوہ کے مقام پر پہنچیں تو اہل بیت کے دشمنوں نے اس کاروان کے اوپر حملہ کیا ان کے ساتھ لڑائی میں آپ کے سب بھائی اور بھتیجے شہید ہو گئے
جب آپ کی بیماری کی خبر آل سعد تک پہنچی تو انہوں نے ارادہ کیا کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے قم تشریف لانے کی درخواست کریں۔ لیکن موسی بن خزرج جو کہامام رضا(ع) کے اصحاب میں سے تھے، نے اس کام میں پہل کی اور فاطمہ معصومہ کی خدمت میں جا کر آپ کے اونٹ کی مہار پکڑی، آپ کو قم کی طرف لے آئے اور اپنے گھر میں ٹھرایا۔ آخرین منابع کے مطابق آپ 23 ربیع الاول کو قم میں وارد ہوئیں. فاطمہ معصومہ 17 دن اس گھر میں عبادت اور راز و نیاز میں مشغول رہیں. آپ کی عبادت گاہ موسی بن خزرج کا گھر تھا جو کہ اب ستیہ یا بیت النورکے نام سے مشہور ہے۔ 
 
نقل ہوا ہے کہ جب قبر تیار کی گئی اور مشورہ ہو رہا تھا کہ کون قبر میں اترے اور سب نے ایک بوڑھے شخص جس کا نام قادر تھا اس کو انتخاب کیا اور کسی کو اس کی طرف بھیجا ایسے میں اچانک دو نقاب پوش آئے جنہوں نے آ کر آپکو دفن کیا اور دفن کرنے کے بعد کسی سے بات کیے بغیر گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے.
بحارالانوار، ج48، ص290
علماء نے کہا ہے کہ احتمال ہے کہ وہ در نقاب پوش امام رضا (ع) اور امام جواد (ع) تھے۔
اس وقت موسی بن خزرج نے آپکی قبر مبارک پر نشان بنایا اور سنہ 256 میں امام جواد(ع) کی بیٹی اپنی پھوپھی کی زیارت کرنے کے لیے قم آئی تو انہوں نے آپ کی قبر پر مزار بنوایا.
منتہی الآمال، ج2، ص379.
 
تاریخ شھادت
قدیمی کتابوں میں آپ کی وفات کی کوئی تاریخ ذکر نہیں ہوئی ہے لیکن آخری مآخذ کے مطابق آپ کی وفات 10 ربیع الثانی سنہ 201 ہجری قمری، 28 سال کی عمر میں ہوئی۔/
انجم فروزان، ص۵۸؛ گنجینہ آثار قم، ج۱، ص۳۸۶

صنعا : عراق کے بعد یمنی حکومت نے بھی صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خلاف قانون سازی کا فیصلہ کرلیا۔ یمنی وزیراعظم العزیز بن حبتور کہتے ہیں ہم بہت جلد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کی مخالفت میں ایک بل پاس کریں گے۔ اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے بھی تعلقات قائم نہ کرنے پر ایک قانونی مسودہ تیار کیا جائے گا۔ انہوں نے اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کو جرم قرار دینے والے قانون کو یمنی آئین کے تناظر اور یمنی عوام کی خواہشات کے مطابق قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ عالم اسلام کے اہم ترین مسئلے (فلسطین) پر یمن کا موقف بالکل واضح ہے۔ قومی نجات حکومت کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یمنی عوام ہمیشہ ملت فلسطین، فلسطینی مقاومت اور مقاومتی بلاک کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، تاکہ مسجد الاقصیٰ اور بیت المقدس کے خلاف صیہونی دھمکیوں کا مقابلہ کرسکیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ممتاز عالم دین اور قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ اسرائیلی ریاست غیر قانونی ، غاصب اور ناجائز ہے۔ پاکستان کسی بھی صورت میں اس ناجائز اور غاصب ریاست کو تسلیم نہیں کرےگا۔

اطلاعات کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ اسرائیلی ریاست جسکا وجود ناجائز ہے، عالمی استعمار مسلسل اس ناجائز ریاست کی پشت پناہی کئے ہوئے ہے،پاکستان کا اساسی موقف واضح ، کسی صورت اس ناجائز و غاصب ریاست کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا، صیہونیت نے انسانیت سوز مظالم کی تمام حدیں پار کردیں ، کچھ عرصہ سے نئے انداز میں یہ دھوکے بازریاست بین الاقوامی دنیا باالخصوص مسلم دنیا کو دھوکہ دینا چاہتی ہے ، جس نے انبیاءکی مقدس سرزمین سے اس کے اصل ورثا ءکو بے دخل کردیا ، اب یہ پرانے شکاری نئے جال کے مصداق نام نہاد " معاہدہ ابراہم " سے دھوکہ دینا چاہتے ہیں، ماضی میں کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر اسرائیل سے پینگیں بڑھانے کی کوشش کی مگر انہیں منہ کی کھانی پڑی ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے میڈیا میں ایک این جی او کے توسط سے چند افراد کے دورہ اسرائیل جس میں ایک یا دوپاکستانی شامل تھے کے حوالے سے غاصب ریاست کے حوالے سے بیان اور پاکستان کے اساسی موقف بارے مختلف شخصیات سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے اس دورے پر کہاکہ ماضی میں چند افراد نے انفرادی رابطے اور ملاقاتیں کرکے اپنی اہمیت جتانے اور ناجائز ریاست کےلئے راستہ ہموار کرنے کی ناکام کوشش کی ۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ناجائز اور غاصب ریاست کے حوالے سے واضح اور دوٹوک موقف اپنایا تھا وہی موقف پاکستان کا اساسی موقف ہے جبکہ حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ نے بھی اس حوالے سے امہ اور بالخصوص اپنی قوم کی رہنمائی فرمائی ہے پاکستان کسی صورت اپنے اس اساسی نظریہ سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا اور یہی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے۔

یادرہے کہ 1940ءمیں قرارداد پاکستان کے ساتھ دوسری قرار داد فلسطین کے بارے میں تھی ۔قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ صیہونیت نے انسانیت سوز مظالم کی تمام حدیں پار کردیں ، کچھ عرصہ سے نئے انداز میں یہ دھوکے بازریاست بین الاقوامی دنیا باالخصوص مسلم دنیا کو دھوکہ دینا چاہتی ہے ، جس نے انبیاءکی مقدس سرزمین سے اس کے اصل ورثا ءکو بے دخل کردیا ، اب یہ پرانے شکاری نئے جال کے مصداق نام نہاد ”معاہدہ ابراہم“ سے دھوکہ دینا چاہتے ہیں آج مظلوموں کے خون پر کھڑے ہوکر ”پارسائی“ کے دعوے کھلا دھوکہ ہے، بین الاقوامی دنیا اور سنجیدہ فکر حلقے کبھی بھی اس دھوکہ بازی میں نہیں آئینگے ، اسرائیل بین الاقوامی سطح پر اعتماد کھوچکا مگر نئے انداز میں دھوکہ دینا چاہتاہے جسے تمام باضمیر انسان نہ صرف ناکام بنائینگے بلکہ اسے آنے والے وقت میں مزید بے نقاب بھی کرینگے۔

اس موقع پر انہوں نے اسرائیل کے حوالے سے بین الاقوامی دہرے معیار پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ عالمی طاقتوں کا دہرا معیار عالمی امن کےلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔