سلیمانی

سلیمانی

توحید کا عقیدہ صرف ایک مسلمان کے ذہن اور فکر پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ یہ عقیدہ اس کے تمام حالات شرائط اور تمام پہلوؤں پر اثر ڈالتا ہے۔ خدا کون ہے؟ کیسا ہے؟ اور اس کی معرفت و شناخت ایک مسلمان کی فردی اور اجتماعی اور زندگی میں اس کے موقف اختیار کرنے پر کیا اثر ڈالتی ہے؟ ان تمام عقائد کا اثر اور نقش مسلمان کی عملی زندگی میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
ہر انسان پر لازم ہے کہ اس خدا پر عقیدہ رکھے جو سچا ہے اور سچ بولتا ہے، اپنے دعووں کی مخالفت نہیں کرتا ہے جس کی اطاعت فرض ہے اور جس کی ناراضگی جہنمی ہونے کا موجب بنتی ہے ۔ ہر حال میں انسان کے لئے حاضرو ناظر ہے، انسان کا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اس کے علم و بصیرت سے پوشیدہ نہیں ہے.... یہ سب عقائد جب ”یقین “ کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں تو ایک انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ مؤثر عنصر بن جاتے ہیں۔ توحید کا مطلب صرف ایک نظریہ اور تصور نہیں ہے بلکہ عملی میدان میں” اطاعت میں توحید “ اور” عبادت میں توحید“ بھی اسی کے جلوہ اور آثار شمار ہوتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام پہلے ہی سے اپنی شہادت کا علم رکھتے تھے اور اس کے جزئیات تک کو جانتے تھے۔ پیغمبر نے بھی شہادت حسین علیہ السلام کی پیشینگوئی کی تھی۔ لیکن اس علم اور پیشین گوئی نے امام کے انقلابی قدم میں کوئی معمولی سا اثر بھی نہیں ڈالا اور میدان جہادو شہادت میں قدم رکھنے سے آپ کے قدموں میں ذرا بھی سستی اور شک و تردید ایجاد نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ سے امام کے شوق شہادت میں اضافہ کیا،امام اسی ایمان اور اعتقاد کے ساتھ کربلاآئے اور جہاد کیا اور عاشقانہ انداز میں خدا کے دیدار کے لئے آگے بڑھے، جیسا کہ امام سے منسوب اشعار میں آیا ہے :
ترکت الخلق طرّا فی هواکا
واٴیتمت العیال لکی اراکا
کئی موقعوں پر آپ کے اصحاب اور رشتہ داروں نے خیرخواہی اور دلسوزی کے جذبہ کے تحت آپ کو عراق اور کوفہ جانے سے روکا اور کوفیوں کی بے وفائی اور آپ کے والد اور برادر کی مظلومیت اور تنہائی کو یاد دلایا گرچہ یہ سب چیزیں اپنی جگہ ایک معمولی انسان کے دل میں شک و تردید ایجاد کرنے کے لئے کافی ہیں لیکن امام حسین علیہ السلام روشن عقیدہ، محکم ایمان اور اپنے اقدام و انتخاب کے خدائی ہونے کے یقین کی وجہ سے ناامیدی اور شک پیدا کرنے والے عوامل کے مقابلے میں کھڑے ہوئے آپ فقاء الٰہی اور مشیت پروردگار کو ہر چیز پر مقدم سمجھتے تھے، جب ابن عباس نے آپ سے درخواست کی کہ عراق جانے کے بجائے کسی دوسری جگہ جائیں اور بنی امیہ سے ٹکر نہ لیں تو امام حسین نے بنی امیہ کے مقاصد اور ارادوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ” انی ماض فی امر رسول اللهصلی الله علیه وآله وسلم و حیث امرنی وانا لله وانا الیه راجعون“ اور یوں آپ نے رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی پیروی اور خدا کے جوار رحمت کی طرف بازگشت کی جانب اپنے مصمم ارادہ کا اظہار کیا، اس لئے کہ آپ کو اپنے راستے کی حقانیت اور خدا کے وعدوں کے صحیح ہونے کا یقین تھا۔
” یقین“ دین خدا اور حکم شریعت پر محکم اعتقاد کے ظہور کا نام ہے گوہر یقین جس کے پاس بھی ہو اس کو مصمم اور بے باک بنا دیتا ہے عاشورہ کا دن جلوہ گاہ یقین تھا اپنے راستہ کی حقانیت کا یقین، دشمن کے باطل ہونے کا یقین ،قیامت و حساب کے برحق ہونے کایقین، موت کے حتمی اور خدا سے ملاقات کا یقین، ان تمام چیزوں کے سلسلے میں امام اور آپ کے اصحاب کے دلوں میں اعلی درجہ کا یقین تھا اور یہی یقین ان کو پایداری، عمل کی کیفیت ،اور راہ کیانتخاب میں ثابت قدمی کی راہنمائی کرتا تھا۔
کلمہ ”استرجاع“ ( انا لله وانا الیه راجعون) کسی انسان کے مرنے یا شہید ہونے کے موقع پر کہنے کے علاوہ امام حسین کی منطق میں کائنات کی ایک بلند حکمت کو یاد دلانے والا ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ ” کائنات کا آغاز و انجام سب خدا کی طرف سے ہے “ آپ نے کربلا پہونچنے تک بارہا اس کلمہ کو دہرایا تا کہ یہ عقیدہ ارادوں اور عمل میں سمت و جہت دینے کا سب بنے۔
آپ نے مقام ثعلبیہ پر مسلم اور ہانی کی خبر شہادت سننے کے بعد مکرر ان کلمات کو دوہرایا اور پھر اسی مقام پر خواب دیکھا کہ ایک سوار یہ کہہ کر رہا ہے کہ ” یہ کاروان تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور موت بھی تیزی کے ساتھ ان کی طرف بڑھ رہی ہے“ جب آپ بیدار ہوئے تو خواب کا ماجرا علی اکبر کو سنایا تو انھوں نے آپ سے پوچھا ” والدگرامی مگر ہم لوگ حق پر نہیں ہیں؟ “ آ پ نے جواب دیا ” قسم اس خدا کی جس کی طرف سب کی بازکشت ہے ہاں ہم حق پر ہیں“ پھر علی اکبر نے کہا ” تب اس حالت میں موت سے کیا ڈرنا ہے؟ “ آپ نے بھی اپنے بیٹے کے حق میں دعا کی۔[1]
طول سفر میں خدا کی طرف بازگشت کے عقیدہ کو بار بار بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اپنے ہمراہ اصحاب اور اہل خانہ کو ایک بڑی قربانی وفداکاری کیلئے آمادہ کریں، اس لئے کہ پاک و روشن عقائد کے بغیر ایک مجاہد حق کے دفاع میں آخر تک ثابت قدم اور پایدار نہیں رہ سکتا ہے۔
کربلا والوں کو اپنی راہ اور اپنے ہدف کی بھی شناخت تھی اور اس بات کا بھی یقین تھا کہ اس مرحلہ میں جہاد و شہادت ان کا وظیفہ ہے اور یہی اسلام کے نفع میں ہے ان کو” خدا“ اور ”آخرت“ کا بھی یقین تھا اور یہی یقین ان کو ایک ایسے میدان کی طرف لے جارہا تھا جہاں ان کو جان دینی تھی اور قربان ہونا تھا جب وہب بن عبد اللہ دوسری مرتبہ میدان کربلا کی طرف نکلے تو اپنے رجز میں اپنا تعارف کرایا کہ میں خدا کی پر ایمان لانے والا اور اس پر یقین رکھنے والا ہوں۔[2]
مدد و نصرت میں توحید اور فقط خدا پر اعتماد کرنا، عقیدہ کے عمل پر تاثیر کا ایک نمونہ ہے اور امام کی تنہا تکیہ گاہ ذاکردگار تھی نہ لوگوں کے خطوط، نہ ان کی حمایت کا اعلان اور نہ ان کی طرف آپ کے حق میں دیئے جانے والے نعرے، جب سیاہ حر نے آپ کے قافلہ کا راستہ روکا تو آپ نے ایک خطبہ کے ضمن میں اپنے قیام یزید کی بیعت سے انکار اور کوفیوں کے خطوط کا ذکر کیا اور آخر میں سے گلہ کرتے ہوئے فرمایا ” میری تکیہ گاہ خدا ہے اور وہ مجھے تم لوگوں سے بے نیاز کرتا ہے ” سیغنی اللہ عنکم“[3] آگے چلتے ہوئے جب عبد اللہ مشرقی ملاقات کی اور اس نے کوفہ کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگ آپ کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تو آپ نے جواب میں فرمایا ” حسبی الله ونعم الوکیل“[4]
عاشور کی صبح جب سیاہ یزید نے امام کے خیموں کی طرف حملہ کرنا شروع کیا تو اس وقت بھی آپ کے ہاتھ آسمان کی طرف بلند تھے اور خدا سے مناجات کرتے ہوئے یوں فرمارہے تھے ”خدایا! ہر سختی اور مشکل میں میری امید اور میری تکیہ گاہ تو ہی ہے، خدایا! جو بھی حادثہ میرے ساتھ پیش آتا ہے اس میں میرا سہارا تو ہی ہوتا ہے، خدایا! کتنی سختیوں اور مشکلات میں تیری درگاہ کی طرف رجوع کیا اور تیری طرف ہاتھ بلند کئے تو تو نے ان مشکلات ک دور کیا“[5]
امام کی یہ حالت اور یہ جذبہ آپ کے قیامت اور نفرت الٰہی پر دلی اعتقاد کا ظاہری جلوہ ہے اور ساتھ ہی دعا و طلب میں توحید کے مفہوم کو سمجھاتا ہے۔
دینی تعلیمات کا اصلی ہدف بھی لوگوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے چنانچہ یہ مطلب شہداء کربلا کے زیارتناموں خاص کر زیارت امام حسین میں بھی بیان ہوا ہے ۔ اگر زیارت کے آداب کودیکھا جائے توان کا فلسفہ بھی خدا کا تقرب ہی ہے جو کہ عین توحید ہے امام حسین کی ایک زیارت میں خدا سے مخاطب ہو کے ہم یوں کہتے ہیں کہ ”خدایا! کوئی انسان کسی مخلوق کی نعمتوں اور ہدایا سے بہرہ مند ہونے کے لئے آمادہ ہوتا ہے اور وسائل تلاش کرتا ہے لیکن خدایا میری آمادگی اور میرا سفر تیرے لئے اور تیرے ولی کی زیارت کے لئے ہے اور اس زیارت کے ذریعہ تیری قربت چاہتا ہوں اور انعام وہدیہ کی امید صرف تجھ سے رکھتا ہوں۔[6]
اوراسی زیارت کے آخر میں زیارت پڑھنے والا کہتا ہے ! خدایا! صرف تو ہی میرا مقصود سفر ہے اور صرف جو کچھ تیرے پاس ہے اس کو چاہتا ہوں ” فالیک فقدت وما عندک اردت“
یہ سب چیزیں شیعہ عقائد کے توحیدی پہلو کا پتہ دینے والی ہیں جن کی بنا پر معصومین علیہم السلام کے روضوں اور اولیاء خدا کی زیارت کو خدا اور خالص توحید تک پہونچنے کے لئے ایک وسیلہ اور راستہ قراردیا گیا ہے اور حکم خدا کی بنا پر ان کی یاد منانے کی تاکید کی گئی ہے۔
[1] بحار الانوار،ج/۴۴،ص/۳۶۷
[2] بحار الانوار،ج۴۵،ص/۱۷، مناقب،ج/۴،ص/۱۰۱
[3] موسوعہ کلمات امام حسین،ص/۳۷۷
[4] موسوعہ کلمات امام حسین،ص/۳۷۸
[5] بحار الانوار،ج/۴۵،ص/۴
[6] تہذیب الاحکام، شیخ طوسی،ج/۶،ص/

امام مظلوم(ع) کی مجالس عزا کہ جو عقل کے جہل پر، عدل کے ظلم پر، امانت کے خیانت پر اور اسلامی حکومت کے طاغوتی حکومت پر غالب آنے کا ذریعہ ہیں کو حتی المقدور پورے ذوق شوق کے ساتھ منعقد کیا جائے۔ عاشورا کے خون سے رنگین پرچموں کو ظالم سے مظلوم کے انتقام کی علامت کے طور پر بلند کیا جائے۔
آئمہ اطہار علیھم السلام اور خاص کر کے امام مظلوم سید الشھداء (ع) کی عزاداری کے پرگراموں سے ہر گز غفلت نہیں کی جائے۔
مجالس عزا کو اسی طریقے سے جیسے اس سے پہلے انجام پاتی تھی برپا کیا جائے۔
مجالس عزا کو ، ماتمی دستوں کو جیسا سزاوار ہے محفوظ رکھا جائے۔
آئمہ اطہار (ع) کی مجالس عزا کی حفاظت کریں۔ یہ ہمارے مذہبی شعائر بھی ہیں اور سیاسی شعائر بھی، ان کو محفوظ رکھا جائے۔ یہ اہل قلم آپ کو بازیچہ نہ بنائیں۔ یہ لوگ آپ کو بازیچہ نبائیں اپنے مختلف انحرافی مقاصد کے ذریعے ، یہ لوگ چاہتے ہیں آپ سے ہر چیز کو چھین لیں۔
مجالس کو اپنی جگہ پر ہی برپا ہونا چاہیے۔ مجالس کو عمل میں لانا چاہیے اور اہل منبروں کو چاہیے کہ شہادت امام حسین (ع) کو زندہ رکھیں۔ قوم کو ان دینی شعائر کی قدر جاننا چاہیے۔ خاص کر کے عزاداری کو زندہ رکھیں عزاداری سے ہی اسلام زندہ ہے۔
ہمیں ان اسلامی سنتوں کی، ان اسلامی دستوں کی کہ جو روز عاشورا یا محرم اور صفر کے دوسرے دنوں میں سڑکوں پر نکل کر عزاداری کرتے ہیں حفاظت کرنا چاہیے۔ سید الشھداء کی فداکاری اور جانثاری ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا ہے۔ عاشورا کو زندہ رکھنا اسی پرانی اور سنتی روایتوں کے ساتھ، علماء اور خطباء کی تقاریر کے ساتھ، انہیں منظم دستوں کی عزاداری کے ساتھ بہت ضروری ہے۔ یہ جان لو کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری تحریک باقی رہے روایتی عزاداری کو محفوظ رکھو۔
علماء کی ذمہ داری ہے کہ مجالس پڑھیں۔ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ منظم دستوں میں گھروں سے باہر نکلیں۔ اور ماتم سید الشھدا کریں۔ البتہ جو چیزیں دین کے خلاف ہیں ان سے پرہیز کریں۔ لیکن ماتم کریں اپنے اجتماعات کی حفاظت کریں یہ اجتماعات ہیں کہ جو ہماری حفاظت کر رہے ہیں یہ آپسی اتحاد ہے جس نے ہمیں زندہ رکھا ہے۔
وہ لوگ ہمارے پاک دل جوانوں کو دھوکہ دیتے ہیں ان کے کانوں میں آکر کہتے ہیں اب رونے کا کیا فائدہ؟ اب گریہ کر کے کیا کریں گے؟
یہ جلوس جو ایام محرم میں سڑکوں پر نکلتے ہیں انہیں سیاسی مظاہروں میں تبدیل نہ کرنا۔ مظاہرے اپنی جگہ ہیں۔ لیکن دینی جلوس سیاسی جلوس نہیں ہیں بلکہ ان سے بالاتر ہیں، وہی ماتم، وہی نوحہ خوانی،وہی چیزیں ہماری کامیابی کی علامت ہیں۔
پورے ملک میں مجالس عزا برپا ہونا چاہیے، سب مجلسوں میں شریک ہوں سب گریہ کریں۔
انشاء اللہ روز عاشورا کو لوگ گھروں سے نکلیں گے امام حسین (ع) کے تعزیانے اٹھائیں اور جلوس میں صرف عزاداری کریں گے۔
خدا ہماری قوم کو کامیابی عطا کرے کہ وہ اپنی پرانی روایتوں کے ساتھ عاشورا میں عزاداری منائے۔ ماتمی دستے اپنے زور و شور کے ساتھ باہر نکلیں اور ماتم اور نوحہ خوانی بھی شوق و ذوق کے ساتھ ہو اور جان لو کہ اس قوم کی زندگی اسی عزاداری کے ساتھ ہے۔

منبع: قيام عاشورا در كلام و پيام امام خمينى، (تبيان، آثار موضوعى امام، دفتر سوم) تهران: مؤسسه تنظيم و نشر آثار امام خمينى، چاپ دوم، 1373.

source : www.tebyan.net

یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے سینیئر رکن محمد علی الحوثی نے فوجی تربیت کے ایک کورس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سعودی جارح اتحاد کو مخطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دسیوں ہزار بہادر فوجی سعودی، اماراتی اور امریکی طاغوتیوں کی جانب سے کسی بھی قسم کی جارحیت یا نئے حالات مسلط کر نے کے لئے ہونے والی تمام تر کوششوں کا میدان جنگ میں سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ 

الحوثی کا کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ ہم شکست قبول کرلیں۔ جنگ کو روکنا اور محاصرہ ختم کرنا ہوگا، بصورت دیگر ہم اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے تیار ہیں اور کسی بھی چیز سے اور اسی اسلحے کے ساتھ مقابلہ کرنے سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے جسے جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہاتھوں میں اٹھا کر مقابلہ کیا تھا۔  

المسیرہ کی رپورٹ کے مطابق اس تقریب میں فوجی پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا اور تربیت یافتہ فوجی جوانوں نے اپنی عسکری مہارتوں کا مظاہرہ کیا۔ محمد علی الحوثی کے علاوہ تقریب میں مرکزی عسکری علاقے کے کمانڈر محمد خالق الحوثی، قومی حکومت کے وزیر اعظم عبد العزیز بن حبتور، وزیر دفاع ناصر العاطفی، صنعا کے میئر حمود عباد اور یمنی مسلح افواج کے ترجمان یحی سریع بھی موجود تھے۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ ایٹمی جنگ میں کوئی فریق کامیابی حاصل نہیں کرسکتا اور ایسی جنگ کبھی نہیں چھڑنی چاہیے۔

 معاہدہ جوہری عدم پھیلاؤ کانفرنس کے شرکاء سے خطاب میں پیوٹن نے کہا کہ ایٹمی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوسکتا، ایسی جنگ کبھی نہیں چھڑنی چاہیے، ہم عالمی برادری کے تمام ارکان کے مکمل اور غیر منقسم سکیورٹی کے لیے پرعزم ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی نے عالمی میڈیا سے نقل کیاہےکہ امریکہ نے دعویٰ کیاہےکہ القاعدہ کا لیڈر ایمن الظواہری امریکی کے ڈرون حملے میں مارا گیا۔امریکی میڈیا کے مطابق امریکہ نے ایمن الظواہری کو اتوار کے روزکابل میں ڈرون حملے سے نشانہ بنایا۔

رپورٹ کے مطابق، ایمن الظواہری نے القاعدہ کے بانی لیڈر اسامہ بن لادن کی موت کے بعد  تنظیم کی کمان سنبھالی تھی۔

اطلاعات کے مطابق صدر جو بائیڈن کچھ دیر بعد ٹیلی وژن پرامریکی کارروائی سے آگاہ کریں گے۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔

 یہی وہ فضلِ عظیم ہے جس کی بشارت پروردگار اپنے بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے ایمان اختیار کیا ہے اور نیک اعمال کئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو اور جو شخص بھی کوئی نیکی حاصل کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کردیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدرداں ہے

آیه 23 سوره شوری 

 

 امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے مسجد خدیجة الکبری بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں استقبال ماہِ محرم کی مجلس سے خطاب کیا۔انہوں نے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر محزون ہونے اور گریہ کرنے کی وجوہات واثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ تاریخِ انسانی ظلم کی داستانوں سے بھری پڑی ہے، یہاں تک کہ کئی انبیاء کو ان کی امت کے افراد نے دردناک طریقہ سے قتل کیا لیکن ان کے قتل پر ہم گریہ و ماتم نہیں کرتے؛تو پھرامام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے کی وجہ کیاہے، کیوں ہماری حالت دگرگوں ہوتی ہے اور ایام عزا کے دوران ہم ایک خاص قسم کی کیفیت کے زیرِ اثر رہتے ہیں ۔ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت وہ غم ہے کہ جس نے پورے انسانی معاشرہ کو متغیر کیا ہے اور اس کے اثرات ہر گزرتے دن کے ساتھ عمیق تر نظر آتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی موت پر غمزدہ ہونا انسانی فطرت ہے۔عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام سینکڑوں سال قبل انتقال کر چکے ہیں ۔آج بھی ان کے یومِ وصال پر ویٹی کن سٹی میں لاکھوں کی تعداد میں عیسائی جمع ہوتے ہیں اور سکوت کے ذریعہ ان سے وابستگی اور احترام کا اظہار کرتے ہیں لیکن اس عمل کے نتیجہ میں ان کے اندر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا سوگ منانے کا مطلب محض سیاہ لباس میں ملبوس ہو کر کھڑے رہنے کا نام نہیں!

 ماہِ محرم کے آغاز سے ہی ہمارا قلب درد و حزن کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ ہماری روح اس درد سے متصل ہو جاتی ہے اور جی نہیں چاہتا کہ خوشی کا اظہار کریں۔ غمِ حسینؑ وہ کیفیت ہے جس سے انسان کی زندگی کا اسلوب تبدیل ہو جاتا ہے۔اس بات کی وضاحت کے لئےنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام بہترین مثال ہے جو ہماری احادیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہے۔آپؐ فرماتے ہیں: ان لقتل الحسین حرارۃ فی قلوب المؤمنین لا تبرد ابدا۔اللہ نے ایک ایسا شعلہ اہلِ ایمان کے قلوب میں پیدا کر دیا ہے کہ جب کسی صاحبِ ایمان شخص کو قتلِ حسینؑ کی خبر پہنچتی ہے تو اس کی حرارت اُس کے دل میں ہمیشہ کے لئےزندہ ہو جاتی ہے۔یعنی اللہ تعالی نے حسینؑ ابن علیؑ کے لئے ایک خاص اہتمام کیا ہےجس کی وجہ سے نبی کریمؐ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔

علامہ امین شہیدی نے"مودتِ حسینؑ "کوانسان کے ارتقاء کا معیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ روح کے زندہ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان باتوں پر ردِ عمل ظاہر کرے جن میں اللہ کی چاہت شامل ہو۔جسم کی نسبت روح کی ضروریات کا تعلق انسانیت سے ہے۔ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ جسمانی طور پر زندہ لیکن روحانی طور پر مردہ ہوں۔ انسانی زندگی دراصل الہی زندگی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کہا ہےکہ وہ لوگ جو ان باتوں پر ایمان لائے، جن کی اللہ کے رسولؐ نے دعوت دی ہے تویہ دعوت انہیں زندہ کر دے گی۔ یہ خطاب دراصل زندہ انسانوں سے ہے، مُردوں سے نہیں۔ اسی طرح حسینؑ ابن علیؑ کو دل میں بسانے کے لئے جس زندگی کی ضرورت ہے وہ مادی و بدنی زندگی نہیں ہے۔یہ وہ زندگی ہے جس میں روح زندہ ہواورجس کی روح زندہ ہے، وہ امام حسینؑ سے وابستہ ہے۔ جس شخص کی زندگی ملکوتی ہے، اس کا عشق اور محور و مرکز حسینؑ ابن علیؑ کی ذات ہے۔اس پاکیزہ زندگی کا اثر مادی زندگی سےیکسر مختلف ہے۔ یاد رکھئے کہ ارتقائی منازل طے کرنے کے لئےحسینؑ ابن علیؑ سے عشق کرنا ضروری ہےاور اس سفرکی پرواز کے لئے جو پَر درکار ہیں ان کا نام "مودتِ علیؑ و آلِ علیؑ" اور "مودتِ حسینؑ" ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تحریک منہاج القرآن پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شان اہلبیت اطہارؑ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیدنا فاروق اعظمؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سوا ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا“ یعنی ہر ایک کے نسب اور آل کو فنا ہے مگر نسب فاطمہ اور آلِ فاطمہ دائمی ہے۔ اس لئے کہ نسب فاطمہ نسب مصطفیؐ ہے اور آلِ فاطمہ آلِ مصطفیؐ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسین ؑکا نبی کریم ؐ کے ساتھ رشتہ نانا اور نواسے کا ہے مگر حضور نبی اکرمؐ نے اس رشتے کی نوعیت بدل دی۔ حضرت فاطمۃ الزہرہ سے روایت ہے کہ آقاؐ نے فرمایا ”ہر ماں کی اولاد اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے سوائے فاطمہ کی اولاد کے، پس میں ان کا ولی ہوں اور میں ان کا نسب ہوں“۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ اسی پاکیزہ نسبت کی وجہ سے رب کائنات نے نماز جیسی عبادت جو خالصتاً اللہ کے لئے ہے اس میں بھی آلِ محمد ؐ پر درود پڑھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ اہلبیت اطہارؑ کی فضیلت یہ ہے کہ نماز اللہ کی عبادت ہے اس میں کسی غیر کا ذکر بھی روا نہیں، کسی غیر کا ذکر اگر نماز کے دوران آ جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا شخص، کوئی پیر طریقت، کوئی قطب کوئی غوث بھی آ جائے تو ہم حالت نماز میں ادباً دھیان کر کے اُسے اسلام علیکم نہیں کہہ سکتے ایسا کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے مگر دوران نماز آلِ محمد ؐپر سلام نہ بھیجیں تو نماز نہیں ہوتی۔

،رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایران میں حالیہ دنوں سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصان پر ایک پیغام جاری کیا۔

پیغام کا متن، درج ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ملک کے بہت سے مقامات پر خوفناک اور تباہ کن سیلاب نے بہت سے لوگوں کو جانی و مالی اور جذباتی نقصان پہنچایا ہے۔ میں اس حادثے کے تمام غم رسیدہ لوگوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں اور ملک کے محترم عہدیداروں سے ان نقصانات کی تلافی کے لیے ضروری تدابیر اختیار کرنے کی سفارش کرتا ہوں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بڑی تیزی سے عہدیداروں کے پہنچنے اور سیلاب زدہ افراد کی مدد کے لیے عوامی یا سرکاری امدادی ٹیموں کی کوششوں کا شکریہ ادا کرنا بھی میں ضروری سمجھتا ہوں۔ ان دردناک آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اس طرح کے خدا پسندانہ اقدامات اور لگاتار کوششیں، ہم سب کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ میں خداوند عالم سے سبھی کے لیے توفیق کی دعا کرتا ہوں۔

سید علی خامنہ ای
30 جولائي 2022

یاد رہے ایرانی ہلال احمر سوسائٹی کے سربراہ کے مطابق، ایران میں حالیہ سیلاب کے نتیجے میں 56 افراد جاں بحق اور 18 افراد لاپتہ ہوگئے ہیں۔گزشتہ ہفتے سے اب تک ملک کے 21 صوبوں میں سیلاب آیا ہے اور کل رات سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے لرستان، چہارمحل اور بختیاری، اصفہان، یزد اور تہران تھے۔

رپورٹ کے مطابق، صوبہ مازندران میں سیلاب میں جاں بحق ہونے والے تین افراد کے ساتھ مجموعی طور پر جان کی بازی ہارنے والے ہم ایرانیوں کی کل تعداد 56 اور لاپتہ افراد 18 تک پہنچ گئی ہے۔

ولی پور نے مزید کہا کہ اب تک 3700 سے زائد افراد کو ہنگامی رہائش فراہم کی گئی ہے اور تقریباً 2500 افراد کو بھی محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔

واقعہ کربلا انسانی تاریخ کا وہ واحد اور عظیم سانحہ ہے، جو نہ اس سے پہلے وجود میں آیا تھا اور نہ آئندہ آئے گا۔ اس کی عظمت اور بزرگی کی واضح دلیل یہ ہے کہ چودہ سو سال کے بعد بھی اس کی  تازگی ایسے ہی ہے جیسے کل ہی دنیا میں رونماء ہوا ہو۔ واقعہ کربلا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا اور سرزمین کربلا، شہداء کربلا کے خون سے رنگین نہ ہوتی تو تمام انبیاء کی کوششیں رائیگاں جاتیں اور انسانوں کی ہدایت کے لئے بنایا گیا الہیٰ نظام ناکارآمد ثابت ہوتا۔ واقعہ کربلا صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک عظیم انقلاب ہے، جو بشریت کی نجات، حریت اور سعادت کی ضمانت ہے۔ ہم اس عظیم انقلاب کی اہمیت کو انسانی تاریخ کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسانی تاریخ مجموعی طور پر شخص واحد کی مانند ہے، جو بچپن سے لیکر پڑھاپے تک سوچ، سمجھ اور فہم و فکر کے مختلف مراحل طے کرتا ہے۔ جس طرح انسان بچپن میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے، اس طرح انسان نے ابتدائی تاریخ میں پڑھاپے میں قدم کیوں نہ رکھا ہو، اس کی فکر کمزور اور عقل ناقص تھی۔ جوں جوں تاریخ کے ادوار بدلتے آئے ہیں، انسانوں کی عقل تکمیلی مراحل طے کرتی آئی ہے اور رسول اکرم کے دور میں انسان فہم، سوچ، سمجھ اور عقل و فکر کے اعتبار سے اس مقام تک پہنچا کہ وہ اپنی ہدایت کے وسائل خود سنبھال سکتا تھا، اس لئے اللہ نے انبیاء کے سلسلے کو ختم کر دیا۔ شریعت اور الہیٰ مکاتب بھی ان تعلیمی مراکز کی مانند ہیں، جس میں بچے کے بچپن کے دور سے لے کر اعلیٰ تعلیمی مراحل تک ہر دور کے لئے خاص تعلیمی نظام کا بندو بست کیا جاتا ہے۔

جب انسان یورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے گریجویٹ ہوتا ہے تو اس میں ہر قسم کی سوچ سمجھ آجاتی ہے، اس کو نفع اور نقصان کی پہچان ہوتی ہے، اپنی کامیابی کے تمام اسباب اور علل سے واقف ہوتا ہے اور جو چیزیں اس کی کامیابی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، ان سے آگاہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ زیادہ فائدہ اور مستقبل کے فائدے کو دیکھ کر کم فائدہ اور عارضی نفع کو نظر انداز کرنے کی صلاحیت بھی انسان کی اندر آجاتی ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں انسان، الہیٰ مکتب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکا تھا اور اس کی عقل کافی حد تک تکمیل کے مراحل میں پہنچ چکی تھی۔ انبیاء الہیٰ کی بے شمار قربانیوں اور شب و روز محنت کے نتیجے میں انسان مجموعی طور پر اپنی ہدایت کے اسباب اور سعادت کے وسائل سے مکمل آگاہ ہوگیا تھا اور ہدایت کے خواہشمند افراد کی ہدایت کی ضمانت ہوچکی تھی۔

انسانوں کی ہدایت اور سعادت کے تمام عوامل اور مقدمات فراہم ہوچکے تھے، لیکن مشکل موانع اور رکاوٹوں میں تھی، کیونکہ انسان کی ہدایت کے راستے میں دو طرح کے موانع حائل ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ موانع ہیں، جو کھل کر سامنے آتے ہیں اور انسان کو انبیاء الہیٰ کی تعلیمات کے توسط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مانع ہے اور یہ اس کو ترقی کی بلندیوں کی طرف جانے سے روکتا ہے۔ اگرچہ وہ موانع  انسان کی خواہشات نفسانی کے ساتھ سازگار ہوں اور اس کا نفس یہی چاہتا ہو، لیکن انسان کی سوچ سمجھ اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ وہ ان دلفریب چیزوں کو اپنی ترقی اور کامیابی کی خاطر نظر انداز کرسکتا ہے۔ لیکن دوسرے وہ موانع ہیں، جو معاون کی شکل میں سامنے آتے ہیں، وہ ظاہری طور پر اور بادی النظر میں انسان کی کامیابی اور سعادت کے لئے فرشتہ نجات ثابت ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں انسان کی ہدایت کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ان کی پہچان بہت مشکل کام ہے، یہ انسان کے کے لئے ایک کٹھن مرحلہ ہے۔

اب اللہ نے انسانی کی ہدایت کے تمام اسباب فراہم کرنے کے علاوہ وہ موانع جو واضح اور آشکار طور پر ظاہر ہوتے ہیں، ان کی پہچان کی بصیرت بھی دی ہے، لیکن باطل جب حق کا لباس اڑھ لیتا ہے، مانع معاون کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور فتنے کا اندھیرا فضا ہوتا ہے، اس وقت ایک ایسی عظیم قربانی کی ضرورت تھی، جو رہتی دنیا تک حق اور باطل کی شناخت انسانوں کے لئے واضح کر دے اور باطل کے چہرے سے حق کا لبادہ اٹھا لے اور باطل کے چہرے کو سب کے لئے نمایاں کر دے۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کی قربانی ایسی قربانی تھی، جس نے باطل کا چہرہ سب کے لئے واضح کر دیا، اب ہر قسم کے موانع چاہے معاون کی شکل میں سامنے آئیں، انسان کو اس کی پہچان میں مشکل نہیں ہوگی۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی شہادت نہ ہوتی تو تمام انبیاء کرام کی کوششیں رائیگاں جاتیں اور ہدایت کا الہیٰ انتظام کارآمد نہ ہوتا۔

تحریر: مولانا فدا حسین ساجدی