سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی نے سومریہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ عراقی پارلیمنٹ نے تاریخ ساز قانون میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کو جرم قرار دیتے ہوئے خلاف ورزی کرنے پر سزائے موت یا عمر قید کی سزا کا اعلان کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق عراق کی پارلیمان میں ایک قانون کی منظوری دی گئی ہے جس کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا جرم ہوگا۔

329  ارکان پارلیمنٹ میں سے 275 نے اس قانون کے حق میں ووٹ دیا، بیان میں کہا گیا کہ یہ قانون عراقی عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔

عراق نے کبھی بھی اسرائیل کو علیحدہ ریاست تسلیم نہیں کیا اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

پارلیمنٹ سے فیصلہ آنے کے بعد سیکڑوں افراد بغداد کے تحریر اسکوائر پہنچے اور جشن مناتے ہوئے اسرائیل مردہ باد  کے نعرے لگائے۔  ذرائع کے مطابق عراقی پارلیمنٹ نے اسرائیل کے خلاف تاریخ ساز قانون کو منظور کرکے علاقائی سطح پر خائن اور غدار عرب حکمرانوں کو بے نقاب کرتے ہوئے مشکل میں ڈالدیا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کو موجوہ حکومت کی جانب سے بیرونی دباؤ قبول کرنے کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ جب ہندوستان روس سے سستا تیل خرید سکتا ہے تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ کو قبول کرلیا ہے اور آئی ایم ایف کو امریکہ کنٹرول کرتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بیرونی قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ انہوں نے امریکہ کا نام لیکر کہا کہ واشنگٹن کو کبھی پاکستان کے مفاد کی کوئی پرواہ نہیں رہی ہے۔

تحریک انصاف کے چیرمین نے کہا کہ اگر امریکہ کو ہمارے مفادات کا خیال ہوتا تو وہ دیکھتا  کہ ہم نے اس ملک میں چیزوں کو بڑی مشکل سے بہتر بنایا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیراعظم نے ایک بار پھر اپنے اس الزام کو دوہرایا کہ ان کی حکومت دورہ روس کے باعث امریکہ کے دباؤ کے نتیجے میں ختم کرائی گئی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ واشنگٹن سے جو مراسلہ آیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان روس کیوں گئے، اس لیے انہیں ہٹاو بصورت دیگر پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔انہوں نے ان خبروں کو سختی کے ساتھ مسترد کیا کہ تحریک انصاف کا لانگ مارچ انتظامیہ کے ساتھ کسی ڈیل کے نتیجے میں ختم گیا گیا ہے۔

عمران خان نے نئے انتخابات کا مطالبہ دوہراتے ہوئے کہا کہ اگر انتخابات کا اعلان نہیں کیا گیا تو ہم پوری تیاری کے ساتھ دوبارہ نکلیں گے ۔

الجزیرہ ٹی وی چینل نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی نامہ نگار شیرین ابو عاقلہ کے قتل کے تعلق سے صیہونی حکومت کے خلاف قانونی جنگ عالمی فوجداری عدالت میں لڑی جائے گی۔ 

 الجزیرہ  نے کہا ہے  کہ اس کی فلسطینی نامہ نگار شیرین  ابو عاقلہ کے قتل کے کسی بھی ذمہ دار کو چھوڑا نہیں جائے گا۔ 

الجزیرہ ٹی وی چینل کے مطابق اسرائیل کے خلاف دائر کئے جانے والے اس مقدمے میں شیرین ابو عاقلہ قتل کے علاوہ مئی ٢٠٢١ میں غزہ میں الجزیرہ کے دفتر پر صیہونی حکومت کی بمباری کا مجرمانہ اقدام بھی شامل کیا گیا ہے۔

دنیا کے بیشتر ملکوں اور بین الاقوامی اداروں نیز تنظیموں نے الجزیرہ کی فلسطینی نامہ نگار کے قتل کی شدید مذمت کی ہے اور اس سلسلے میں شفاف تحقیقات نیز صیہونی حکومت کو اس وحشیانہ جرم کا جواب دہ قرار دیئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ صیہونی فوجیوں نے کچھ دن قبل الجزیرہ ٹی وی کی فلسطینی نامہ نگار شیرین ابو عاقلہ کو ایسی حالت میں فائرنگ کا نشانہ بناکر شہید کیا ہے کہ وہ پریس جیکٹ پہنے ہوئے تھیں۔

تہران، ارنا- سپاہ پاسداران انقلاب نے خلیج فارس کے پانیوں میں دو یونانی آئل ٹینکر قبضے میں لیا۔

سپاہ نیوز  کے مطابق؛ آئی آر جی سی کے شعبہ تعلقات عامہ نے اعلان کیا کہ جمعہ کے روز خلیج فارس میں دو یونانی آئل ٹینکر کو خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے ضبط کیا گیا۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ سپاہ پاسداران کی بحریہ نے جمعہ کے روز خلیج فارس کے آبی پانیوں میں خلاف ورزیوں کی وجہ سے یونان کے دو آئل ٹینکرز کو قبضے میں لے لیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مصر کے شیخ الازہر جناب احمد الطیب نے ایک اجلاس میں برٹش اسکول آف ڈیفنس اسٹڈیز اور برطانوی وزارت دفاع سے منسلکہ بورڈ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی ایک سیاسی رجحان ہے نہ کہ مذہبی۔

انہوں نے کہا: دہشت گردی کو بعض مغربی سیاسی دھڑوں نے تخلیق کیا اور اسے دنیا میں پھیلایا ہے اور پھر اسے یہودیت، عیسائیت اور اسلام سے منسلک کر دیا تاکہ اس طرح ان کی انتہائی پیچیدہ سرگرمیوں اور مذموم منصوبوں کو پورا کیا جا سکے۔

شیخ الازہر جناب احمد الطیب نے مزید کہا: الازہر یونیورسٹی نے اپنے نصاب میں انتہا پسندی اور تکفیر سے مقابلہ کرنے جیسے مسائل کو شامل کرتے ہوئے "دارالسلام اور دارالحرب" کے تصور، مسلمانوں کےایک دوسروں کے ساتھ تعلقات اور تعصب اور نفرت اور انتہا پسند گروہوں کی طرف سے پیش کیے جانے والے مسائل کو بیان اور پیش نظر اظہارات و خیالات کے ساتھ موجودہ دور کے حقائق کا جواب دیا ہے۔

انہوں نے کہا: الازہر نے اپنے طالب علموں کو کم عمری میں ہی ایک علمی طریقہ کے ساتھ ذہنی اور فکری طور پر تربیت کرنے کے لیے اقدام کیا ہے جس کے ذریعے انہیں ان گروہوں کے نظریات سے آشنا کرایا جاتا ہے اور پھر ان کے باطل نظریات کو رد کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے اشارہ کیا: الازہر نے انتہا پسندانہ فکر کے خلاف جنگ میں مذہبی رہنماؤں کے درمیان یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا ہے اور ایک مصری ادارے کے قیام کے ذریعہ معاشرے کے وہ مسائل جو مسلم و عیسائی تعلقات کو نقصان پہنچاتے ہیں، کے حل کے لئے ایک پروگرام اور طرز فکر تیار کو کیا ہے۔

تہران، ارنا – ایرانی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بعض علاقائی اور غیرعلاقائی ممالک تکفیری دہشت گردوں کو افغانستان منتقل کر رہے ہیں۔

یہ بات ایڈمیرل علی شمخانی نے جمعہ کے روز تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں منعقدہ افغانستان پر علاقائی سلامتی کے مذاکرات کے چوتھے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے خطے کی صورتحال بالخصوص افغانستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہونے والی پیش رفت اور اس ملک سے امریکی افواج کی شکست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے افغان عوام اور خطے کے عوام کی ضرورت کے طور پر افغانستان میں سلامتی، امن اور استحکام کے قیام پر زور دیا ہے۔
ایڈمیرل شمخانی نے کہا کہ ایران کئی دہائیوں سے تقریباً 50 لاکھ افغانوں کی میزبانی کر رہا ہے جو کہ بین الاقوامی امداد کی عدم موجودگی اور ہمارے ملک  پر عائد غیر منصفانہ پابندیوں کی وجہ سے ملک کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں 20 سال سے جاری جنگ کے ساتھ ساتھ یوکرائن کی حالیہ جنگ کی سب سے بڑی وجہ امریکہ کی غلط توسیع پسندانہ پالیسیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ افغان عوام کا پیسہ نہ صرف جاری کرے بلکہ افغانستان کو ہونے والے نقصانات کی تلافی بھی کرے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خطے کی سلامتی کی صورتحال ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے لہذا افغانستان میں سلامتی، امن اور استحکام کا حصول خطے کے تمام ممالک کے لیے ضروری ہے۔
انہوں نے خطے کے ممالک پر زور دیا کہ وہ اس بات پر توجہ دیں کہ جو سلامتی کی صورتحال کو بہتر بناتی ہے اور سلامتی اور استحکام کو غیر مستحکم کرنے والے فوکس کی تشکیل کو روکنے کے لیے مشترکہ مزاحمتی موقف اختیار کریں۔
ایرانی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نے کہا کہ افغانستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک مستحکم اور جامع حکومت کی ضرورت ہے، اگر افغان قومیتیں اور جماعتیں یہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ ملک کے انتظام و انصرام میں موثر شراکت دار ہیں، تو بہت سے مسائل دور ہو جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں امریکی مداخلت کو محدود کرنے کے لیے خطے کے ممالک کو افغان عوام کے مسائل بالخصوص اقتصادی مسائل کے حل کے لیے تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔

 یونانی پانیوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے پرچم تلے مال بردار جہاز کو پکڑے جانے کے بعد تہران میں یونانی سفارت خانے کے ناظم الامور (سفیر کی غیر موجودگی میں) کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا اور انہیں ایران کی حکومت کے شدید احتجاج سے آگاہ کیا گیا۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، اس ملاقات میں محکمہ خارجہ کے سربراہ برائے بحیرہ روم کے امور نے تکنیکی خرابی کی وجہ سے مذکورہ جہاز کے ہنگامی طور پر رکنے کی وجہ سے یونانی حکومت کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو یاد دلاتے ہوئے امریکہ کے غیر قانونی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کو ناقابل قبول قرار دیا اور اس کی مذمت کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے جھنڈے تلے جہاز کو پکڑنا؛ بین الاقوامی بحری قزاقی کی ایک مثال ہے، جس کی ذمہ داری یونانی حکومت اور غیر قانونی قبضے کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے  کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے قانونی حقوق سے دستبردار نہیں ہو گا اور یونانی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ جہاز رانی کے میدان میں اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پاسداری کرے۔

در این اثنا یونانی سفارت خانے کے ناظم الامور نے کہا کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے احتجاج کو فوری طور پر اپنے ملک کے حکام تک پہنچائیں گے۔

 تہران کے آزادی اسٹیڈیم میں 2 لاکھ 40 ہزار سے زائد افراد نے ترانہ سلام فرماندہ کمانڈر پڑھ کر ریکارڈ درج کردیا۔ ایک لاکھ افراد کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں 2 لاکھ 40 ہزار سے زائد افراد نے اپنے بچوں اور فیملی کے ساتھ حصہ لیا۔ اس موقع پر بچوں اور ان کے والدین کا جوش و جذبہ دیکھنے کے قابل تھا۔یہ تاریخی ترانہ فرزند رسول امام مہدی علیہ السلام سے اظہار عقیدت اور آپؑ سے اعلان وفاداری کے لئے تیار کیا گیا ہے جس کو ایران کے معروف مداح ابوذر روحی نے بڑے منفرد انداز میں پڑھا ہے۔ اس ترانے نے منظر عام پر آتے ہی سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچا دیا اور اب یہ ترانہ ایران کی سرحدیں پار کرتا ہوا دنیا کے مختلف ممالک تک جا پہنچا ہے

اسلامی قوانین اور احکام الٰہی کی روح اور بقا کا اصلی راز فکری آزادی ہے۔ بحث و مباحثہ اور احکام الٰہی پر تحقیقات سے افکار اور کمالات کے چشمے پھوٹتے ہیں اور محققین کے لئے مزید علمی دریچیت روشن ہو جاتے ہیں۔ علم و دانش اور دانشمندوں کے افکار سے صحیح استفادہ کی روش امام صادقؑ کے علمی درسگاہ کی ایک عظیم خصوصیت ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں ’’لو علم الناس ما فی طلب العلم لطلبوہ ولو بسفک الدماء‘‘ (۱) اگر لوگوں کو حصول علم کے فضائل معوم ہو جائیں تو وہ ضرور علم حاصل کریں گے،چاہے اس کے لئے خون سل بہانا پڑے۔
امام صادقؑ کی وسعت علہمی دوسرے مکلاتب فکر کے مقابلے میں امامؑ کے کارنامہ علمی سے واضح ہو جاتی ہے۔ کیونکہ حضرت نے علمی  دریا اس طرح بہائے کہ ہر صاحب عقل و منطق آپ کے ادلۂ علمیہ کے سامنے سر بسجو نظر آتا ہے۔ آپ نے مکتب امامت و فقاہت کے علمی و اعتقادی اصول کی تشریح کے ذریعے اسلام کے سچے اعتقادات واضح کئے اور اسلام کی فکری تحریک کو آفات و حوادث سے محفوظ رکھا۔ انحرافات کے حدود کی تعیین اور ایسے اصول پیش کئے جو اسلامی قانون کا منبع قرار پایا۔ آج بھی فقہ اور اصول فقہ میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ایسے قواعد موجود ہیں جن دے ہزاروں فقہی مسائل کا استخراج کیا جاتا ہے ان میں زیادہ تر قواعد ایسے ہیں جو امام جعفر صادقؑ کے ان ارشادات سے مأخوذ ہیں جن کا سلسلہ رسول خداؐ تک پہونچا ان قواعد کی کامل تشریح ’’القواعد الافقہیۃ‘‘ کے نام سے چھپنے والی کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ (۲)
امام جعفر صادقؑ کے زمانہ میں اسلامی فقہ کی تدوین ہوئی۔ ایسے قواعد فقہی وضع کئے گئے جو ہر زمانہ میں فقہی مشکلات کو برطرف کر سکتے ہیں۔ مثلاً احکام میں قاعدۂ ’’عدم عسر و حرج‘‘ قاعدۂ ’’الضرورات قبیح المحذورات‘‘ قاعدۂ ’’دفع‘‘ وغیرہ۔
اسلامی قوانین میں قاعدۂ فراغ، تجاوز، اوفوا العقود․․․ ان کے علاوہ متعدد قواعد ہیں جن کی قواعد فقہی سے متعلق کتب میں بحث ہوتی ہے۔
علم حدیث و رجال میں امام صادقؑ نے بخاری و مسلم  اور دوسرے اسلامی محدثین سے ایک صدی پہلے حدیث کی صحت کو پرکھنے کے لئے ایک کامل معیار قائم کرتے ہوئے فرمایا: ’’جو حدیث قرآن کے مطابق ہو اسے قبول کرو اور اس پر عمل کرو اور جو قرآن کے خلاف ہو اسے ٹھکرا دو۔ (۳)
آپ کے علمی مکتب کے مطالعہ سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت کا وسیع علمی و عریض علمی مکتب صرف فقہ و اصول، حدیث و کلام اور اس کے فروعات کی تعلیمی حد تک محدود نہ تھا بلکہ فقہ و حدیث وغیرہ کے پہلو بہ پہلو فلسفہ اور علوم ما وراء طبیعت پر بھی توجہ دی گئی۔ چنانچہ فلسفہ میں آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ ’’ہر شئی کی حقیقت اس کی صورت ہے نہ کہ مادہ یا ہر دو۔ (۴)
اسی طرح آپ کے تربیت یافتہ شاگردوں نے مختلف علوم و فنون (جیسے فزکس، کیمیا، الجبرا، اور جومیٹری وغیرہ) میں تبحر اور تخصص پیدا کر کے کتابیں لکھیں۔ جیسے جابر بن حیان کی ’’المیزان‘‘ ’’الرحمۃ‘‘ اور ’’مختار رسائل جابر‘‘ وغیرہ۔
علم کلام میں مفضل بن عمر جعفی نے ’’توحید مفضل‘‘ پیش کی ہے جو اپنے موضوع میں بے نظیر کتاب ہے۔
حدیث شناسی اور فقہ میں زرارہ بن اعین، ابان بن تغلب، جابر جعفی، برید عجلی، ابن ابی یعفور، محمد بن مسلم، ان ابی عمیر، ابو بصیر اسدی، فضیل بن سیارہ معلیٰ بن خنیس، جمیل بن دراج، حمار بن عثمان اور ہشام بن سالم وغیرہ جیسے نامور افراد کی تربیت فرمائی۔
مذہب جعفری سے دفاع کے لئے، فن مناظرہ میں حمران بن اعین شیبانی جیسے مناظر کی تربیت فرمائی۔ (۵)
امام جعفر صادقؑ کے دوسرے بزرگ شاگردوں کے تذکرہ کی اس مختصر مقالہ میں گنجائش نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے شائقین حضرات کتب تراجم و رجال کی طرف رجوع فرمائیں۔ (۶)
مختصر یہ کہ امام صادقؑ نے اسلام و مسلمین کے مرکز ’’مدینۃ الرسولؐ‘‘ میں جس یونیورسٹی کی بنا رکھی اس میں ہزاروں کی تعداد میں تشنگان علم، مختلف علوم سے سیراب ہوئے۔
جہاں پر ظلم و بربریت اور آل محمدؐ کے خلاف مسلسل سازشیں ہوں وہاں امام صادقؑ کا اتنیہ کثیر تعداد میں شاگردوں کی تربیت کرنا معجزہ اور کرامت سے کم نہیں ہے۔ گویا اپنے جد امجد حضرت محمد مصطفےٰؐ کی طرح صداقت میں اس قدر مشہور و معروف ہوئے کہ آپ کے زمانہ کے تمام لوگوں نے متفقہ طور پر آپ کو صادق آل محمدؐ کا لقب دیا۔ (۷)
آفاق عالم نے آپ کی شہرت کا قدم چوما، علمی اور فکری نشستوں میں آپ کو غیر معمولی احترام سے دیکھا جاتا تھا، دوست اور دشمن سبھی آپ کے فضائل کے معترف ہو گئے، سخت سے سخت دشمن بھی آپ کے فضائل و مکارم کا انکار نہیں کر سکے ’’والفضل ما شھدت بہ اعداء‘‘ اور فضیلت وہی ہے جس کی گوہی دشمن دیں۔
حضرت کی علمی شخصیت کے بارے میں دانشمندوں کے اعترافات کا ایک ذخیرہ موجود ہے جس کا ذکر اس مختصر مقالہ میں ممکن نہیں ہے صرف چند اقوال قارئیں کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ کی علمی شخصیت اجاگر ہو سکے:
(۱) مالکی مذہب کے امام مالک بن انس کہتے ہیں:’’و لقد کنت أتیٰ جعفر بن محمّد و کان کثر المزاح․․․‘‘ جب میں امام جعفر صادقؑ کی خدمت با برکت میں حاضر ہوتا تھا تو دیکھتا تھا کہ آپ مزاح فرما رہے ہیں لبوں پہ مسکراہٹ رہتی تھی جب بھی آپ کے سامنے رسول اللہؐ کا نام لیا جاتا تھا آپ کا چہرہ پہلے سبز پھر زرد ہو جاتا تھا۔ اپنی تمام زندگی میں حضرت کو تین حالتوں میں سے کسی حال میں پاتا تھا، یا تا حضرت نماز پڑھتے ہوتے، یا روزہ رکھے ہوتے، یا قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے۔ میں نے عبادت و ریاضت میں اور علم و دانش کے حوالے سے کسی کو امام جعفر صادقؑ سے بہتر نہیں دیکھا۔ (۸)
(۲) اہل سنت کے امام اعظم ابو حنیفہ کہتے ہیں: ’’ما رأیت افقہ من جعفر بن  محمّد و انہ اعلم الامۃ‘‘ میں نے امام جعفر بن محمد(صادقؑ) سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا بے شک آپ امت محمدیؐ میں سب سے  زیادہ علم و فضل کے مالک ہیں۔ (۹)
مزید لکھتے ہیں ’’ایک مرتبہ منصور دوانیقی نے مجھ سے کہا: ’’لوگوں کو جعفر بن محمدؑ سے عقیدت ہو گئی ہے کہ لوگ جوق در جوق ان کی خدمت میں شرفیاب ہوتے ہیں اور تم کو یہاں اس لئے لایا ہوں کہ تم جعفر بن محمدؑ سے مناظرہ و مباحثہ کے لئے اپنے کو آمادہ کرو، اور کچھ اہم اور مشکل مسائل تیار کرو مجھے امید ہے کہ جعفر بن محمدؑ تمہارے سوالات کا جواب نہیں دے پائیں گے تو خود بخود لوگوں کی نظروں سے ان کا وقار ختم ہو جائے گا۔ ابو حنیفہ لکھتے ہیں: میں نے منصور کے کہنے پر چالیس اہم اور مشکل مسائل تیار کئے پھر حیرہ کے مقام پر خلیفہ  (منصور) کے سامنے حضرت کی خدمت میں پیش کیا تو حضرت نے ہر مسئلہ کے جواب میں فرمایا: اس مسئلے کے بارے میں اہل عراق کا نظریہ یہ ہے، اہل مدینہ کا جواب یہ ہے اور ہم اہل بیت کی نظر میں اس کا جواب یہ ہے۔ یعنی حضرت نے اختلاف اقوال کے تمام موارد ذکر کرتے ہوئے ان مسائل کے ایسے جواب دئے کہ سب کو آپ کی علمی شخصیت کا اعتراف کرنا پڑا اور ابو حنیفہ کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا ’’ان اعلم الناس، اعلمہم باختلاف الناس‘‘ (۱۰) یعنی سب سے بڑا دانشمند وہ ہے جو لوگوں کے اختلاف آراء کو سب سے زیادہ جانتا ہو۔
اسی لئے تو وہ ہمشیہ کہا کرتے تھے ’’میں نے جعفر بن محمد صادقؑ سے بڑا کوئی فقیہ نہیں دیکھا۔ (۱۲)
(۳) سفیان ثوری (جو اپنے زمانہ کے مشہور فقہاء میں سے ایک ہیں اور اہل سنت کے یہاں علم و زہد و پرہیزکاری کے حوالے سے بہت مشہور ہیں) نے بھی امام جعفر صادقؑ کی شاگردی اور آپ سے علمی اور اخلاقی میدان میں کسب فیض کیا ہے ۔(۱۲) اور امام صادقؑ سے حدیثیں بھی نقل کی ہیں۔ (۱۳)
(۴) عمر بن مقدام کہتے ہیں کہ ’’جب بھی جعفر بن محمدؑ کو دیکھتا تھا تو مجھے یقین ہو جاتا تھا کہ آپ رسول اللہؐ کی نسل سے ہیں۔ (۱۴)
(۵) ابن حجر ہیثمی، امام کی علمی شخصیت کے بارے میں لکہتے ہیں: ’’یحییٰ بن سعید بن جریح، امام مالک، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ اور ایوب فقیہ جیسی شخصیتوں نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ (۱۵)
(۶)جاحظ، تیسری صدی کے نامور علما میں جن کا شمار ہوتا ہے لکھتے ہیں ’’امام صادقؑ ایک ایسی علمی شخصیت تھی جن کے علم و فقاہت کا چرچا پوری دنیا میں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری آپ کے شاگردوں میں سے تھے جو آپ کی عظمت علمی کے بیان کے لئے کافی ہے۔ (۱۶)
(۷)ابو زہرہ، ’’الامام الصادقؑ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’علماء اسلام باوجودیکہ مختلف نظریات اور مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے اختلاف رأی رکھنے کے باوجود امام صادقؑ کے علمی مقام و عظمت اور بزرگی کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں۔ (۱۷)
(۱۲) قاہرہ یونیورسٹی، میں شعبہ ادبیات کے پروفیسر ڈاکٹر حامد حنفی، عراقی دانشمند اسد حیدری کی کتاب ’’الامام اصادقؑ والمذاہب الاربعۃ‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں ’’بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا کہ میں تاریخ فقہ و علوم اسلامی میں محقق کی حیثیت رکھتا ہوں ار زمانۂ تحقیق سے نسل نبوت کی پاک و پاکیزہ اور با کرامت اور علمی شخصیت حضرت امام جعفر صادقؑ نے مجھے بے حد متأثر کیا۔ میرا عقیدہ ہے حضرت ترقی پسند رہبروں میں سے تھے اور آپ اسلامی علوم کے موجد اور سب سے ذمہ دار مفکر ہیں جو ہمیشہ شیعہ اور سنی دانشمندوں کا مرکز رہے ہیں اور رہیں گے۔ (۱۸)
(۹) حسن بن وشاء، ایک مشہور اسلامی متکلم اور فلسفی کہتے ہیں: میں نے اس مسجد کوفہ میں نو سو سے زیادہ ایسے اساتذہ دیکھے ہیں جو کہا کرتے تھے ’’حدثنی جعفر بن محمدؑ‘‘ہم سے جعفر بن محمدؑ نے حدیث بیان کی ہے(۱۹)
(۱۰)  قاموس الاعلام، کے مؤلف ’’امسترش‘‘ دائرہ المعارف نامی کتاب میں لکھتے ہیں جعفر بن محمدؑ شیعوں کے بارہ اماموں میں سے ایک ہیں آپ امام محمد باقرؑ کے سب سے بڑے فرزند تھے علم و فضل میں یگانۂ زمان تھے آپ کے درس میں امام ابو حنیفہ نے زانوئے ادب تہہکیا اور آپ کے ظاہری اور باطنی علوم سے فیض حاصل کیا امام جعفر صادقؑ علم الجبرا و کیمیا اور ان کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی تبحر رکھتے تھے جن وگوں نے آپ کی صحبت سے کسب فیض کیا ہے ان میں ’’الجبرا‘‘ کے مشہور ماہر جابر بن حیان بھی تھے۔ (۲۰)
(۱۱) فرید و جدی، لکھتے ہیں امام جعفر صادقؑ کا خانۂ علم و دانش روزانہ عظیم دانشوروں سے پر رہتا تھا علماء اور دانشمند حضرات آپ سے حدیث، تفسیر، فلسفہ و علوم کلام کا درس حاصل کرتے تھے اکثر اوقات ان کی تعداد دو ہزار ہوتی تھی اور بعض اوقات چار ہزار مشہور علماء آپ کے درس میں شرکت کرتے تھے۔ (۲۱)
(۱۲) بطرس بستانی، کا بیان ہے کہ ’’امام جعفر صادقؑ سادات اور بزرگان اہل بیتؑ میں سے تھے۔ راستگوئی کی وجہ سے آپ کا لقب صادق قرار پایا۔ ان کا فضل و شرف بہت عظیم ہے۔ علم کیمیا اور جبر میں آپ کے خاص نظریات ہیں۔ آپ کے مشہور شاگرد جابر بن حیان نے ایک کتاب لکھی ہے جو ایک ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔ (۲۲)
(۱۳) منصور دوانیقی، جو امام کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا لیکن اسے بھی اعتراف ہے کہ امام صادقؑ خیر و برکات اور نیکیوں کے ویسے ہی پیشرو تھے جس طرح قرآن نے فرمایا ہے۔ (۲۳)
(۱۴) شیخ مفید، لکھتے ہیں ’’امام جعفر صادقؑ رسول اکرمؐ کے پر وقار اور با عظمت فرزندوں میں سے تھے آپ کے مانند کسی دوسرے سے اس قدر علوم و آثار و احادیث نقل نہیں ہوئے۔ آپ سے جن لوگوں نے حدیث نقل کی ہے ان کی تعداد چار ہزار افراد بتائی جاتی ہے۔ (۲۴)
حضرت کے بارے میں دانشمندوں کے تمام اقوال نقل کرنے کیل لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہم اسی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں۔
پوری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ امام صادقؑ جیسی علمی شخصیت نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں یہ خطور ہوا کہ علم و عمل اور فقہ و فقاہت میں ان سے بڑا بھی ہوگا۔
حوالے:
۱) اصول کافی، ج،۱ ،ص،۹۸، محمد یعقوبی کلینی ترجمہ و شرح محمد باقر کمرہ ای انتشارات اسوہ چاپ سوم، ۳۷۵ش ’’کتاب فضل العلم، باب ثواب العالم و المتعلم۔
۲)جیسے القواعد الفقہیہ میرزا حسین بجنوردی، والقواعد والفواید، شہید اول
۳)اصول کافی ج،۱ ص،۲۰۰-۲۰۲، کتاب فضل العلم باب الأخذ بالسنّہ و شواہد الکتاب
۴) امام صادقؑ پیشوا و رئیس مذہب ص،۱۰۸، عقیقی بخشایشی، سازمان تبلیغات اسلامی چاپ ۸ ۱۳۹۰؁ھ
۵) اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی) ص،۱۲۵
۶)  اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی) ص،۱۲۸، رجال طوسی ص،۱۴۲- ۳۴۲ مطبعہ حیدریہ نجف اشرف ۱۳۸۰؁ھ
۷) عقایقی بخشایشی، امام صادقؑ پیشوا و رئیس مذہب ص،۳۰
۸) الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ ج،۱، ص،۵۳، دار الکتاب العربی، بیروت، چاپ،۲ ۱۳۹۰؁ھ؛ الامام المالک (ابو زہرہ) ص۹۴-۹۵ دار الفکر العربی، بی تا، مصر
۹) تذکرۃ الحفاظ، ذہبی، ج،۱ ص،۱۶۶، دار احیاء التراث العربی، بی تا؛ الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ، ص،۲۲۴ج،۱، بحوالہ جامع اسانید ابی حنیفہ، ج،۱ ص،۲۲۲؛ والامام ابو حنیفہ (ابو زہرہ) ص،۷۰ دار الفکر العربی، چاپ مصر، بی تا
 ۱۰) امام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ ج،۲ ص،۵۳
۱۱) الامام الصادقؑ(ابو زہرہ) ص،۲۲۴، الامام ابو حنیفہ (ابو زہرہ) ص،۷۰
۱۲) تذکرۃ الحفاظ ج،۱ ص۱۹۷
۱۳) ادوار فقہ ج،۳ ص،۵۷۶ محمود شہابی چاپ دوم وزارت ارشاد و فرہنگ اسلامی ۱۳۶۸؁ھ
۱۴) تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی ج،۲ ص،۸۸ دار الفکر بیروت چاپ اول  ۱۴۰۴؁ھ
۱۵) الصواعق المحرقہ ابن حجر ھیثمی ص،۱۰۲ مکتبۃ القاہرہ مصر چاپ دوم ۱۳۸۵؁ھ
۱۶) رسائل الجاحظ ص،۱۰۶،الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ ج،۱ ص،۵۵، الامام الصادقؑ (ابو زہرہ ص،۳۶
۱۷) مام الصادقؑ (ابو زہرہ) ص،۶۶
۱۸)الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ اسد حیدری ج،۲ ص،۵۳
۱۹) الملل و النحل عبد الکریم شہرستانی ج،۱ ص،۱۳۲ بحوالۂ تاریخ کوفہ
۲۰) دائرۃ المعارف ج،۳ ص،۱۸۲۱، سترش
۲۱) دائرۃ المعارف فرید وجدی ج،۳ ص،۱۰۹
۲۲)دائرۃ المعارف، فریدی وجدی ج،۶ ص،۴۶۸
۲۳) تاریخ یعقوبی، ج،۳ ص، ۱۱۷، دار صا بیروت، بی تا
۲۴) الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی عبادہ، محمد بن محمد بن نعمان (شیخ مفید) ج،۲ص،۱۷۹ مؤسسہ آل البیتؑ قم ۱۴۱۳؁ھ ، الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ ج،۱ ص،۶۹۔

 


٭٭٭٭٭

 

 

مہر خبررساںایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پارلیمنٹ کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات میں فرمایا: موجودہ مسائل اور مشکلات  کو خلوص ، مجاہدت اور تلاش و کوشش سے حل کیا جاسکتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ایرانی پارلیمنٹ کے نمائندوں نے آج حسینہ امام خمینی (رہ) میں ایرانی پارلیمنٹ کی تاسیس کی مناسبت سے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ ملاقات کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے انقلابی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ کی اکثریت انقلابی افراد پر مشتمل ہے۔ انقلابی ہونا اور انقلابی بننا آسان ہے لیکن انقلابی باقی رہنا بڑا مشکل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم حقیقت بیان کرتے ہیں بعض لوگ اس سے خوشحال ہوتے ہیں اور بعض ناراض ہوتے ہیں۔ ہم نے سپر انقلابی افراد کو بھی دیکھا ہے جو بعد میں منحرف ہوگئے اس لئے نمائندوں کے لئے انقلابی باقی رہنا اہمیت کا حامل ہے۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی تینوں قوا کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد کو اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: گذشتہ برسوں میں تینوں قوا کے درمیان عدم ہم آہنگی رہی ہے جس سے ملک کو نقصان پہنچا ہے۔ قوہ مقننہ ، مجریہ اور عدلیہ کے درمیان ہم آہنگی بہت ضروری ہے اس سے ملک کی پیشرفت اور ترقی میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے فرعی اور اصلی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جب تک اصلی مسائل موجود ہیں تب تک فرعی مسائل کی نوبت نہیں آتی ۔ پہلے اصلی مسائل کو حل کرنے پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ ملکی مسائل کو اصلی اور فرعی میں تقسیم کرنا چاہیے۔ اصلی مسائل کے ہوتے ہوئے فرعی مسائل کی طرف جانا جائز نہیں ہے۔ ملک کے موحودہ مسائل اور مشکلات کو خلوص ، مجاہدت اور تلاش و کوشش کے ساتھ حل کیا جاسکتا ہے۔