سلیمانی

سلیمانی

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاوس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کے صدر جو بایڈن مشرق وسطی میں کسی قسم کا خلا باقی رکھنا نہیں چاہتے تا کہ روس یا ایران اور چین اسے پر کرسکیں۔

رپورٹ کے مطابق جیک سلیوان نے ان خیالات کا اظہار کولوراڈو میں ایسپین سیکورٹی فورم کے سالانہ اجلاس سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے یوکرین جنگ کے متعلق دعوی کیا کہ روس اپنے ان اصلی اسٹریٹیجک مقاصد کو عملی جامہ پہنانے پر قادر نہیں رہا ہے کہ جو یوکرین کے حوالے سے صدر ولاڈیمر پیوٹن کی طرف سے طے کئے گئے ہیں۔

سلیوان نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ امریکہ، یوکرین کے صدر ولاڈیمر زیلنسکی کی سلامتی کے حوالے سے بھی پریشان ہے کیونکہ بقول زیلنسکی انہیں ایک بے رحم دشمن کا سامنا ہے۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے اس سے پہلے بھی ایران اور روس کے معمول کے دو طرفہ تعاون کے خلاف مختلف دعوے کئے تھے اور کہا تھا کہ دنیا کو تہران اور ماسکو کے مابین گہرے ہوتے تعلقات کو ایک سنجیدہ اور گہرا خطرہ تصور کرنا ہوگا۔

جیک سلیوان نے روسی صدر پیوٹن کے حالیہ دورہ ایران کو بھی غیر معمولی کہتے ہوئے مزید دعوی کیا تھا کہ روس اور ایران کے یوکرینیوں کو ہلاک کرنے کی غرض سے گہرے ہوتے تعلقات ایسا مسئلہ ہے کہ جسے دنیا کو ایک گہرے خطرے کے طور پر دیکھنا ہوگا۔

حوزہ / ایران کے شہر سنندج کے اہل سنت امام جمعہ نے کہا: اہل سنت اور اہل تشیع مسلمانوں کا ایک مشترکہ دشمن ہے اور وہ عالمی صیہونزم ہے۔ اس منحوس اور جعلی حکومت سے مقابلے کے لئے عالم اسلام کی حقیقی وحدت کی ضرورت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے شہر سنندج کے اہل سنت امام جمعہ مولوی محمد امین راستی نے اہل سنت دینی طلاب کو درس اخلاق دیتے ہوئے کہا: گزشتہ ہفتے کردستان میں وحدت اسلامی کے موضوع پر ایک قابلِ تحسین کانفرنس منعقد ہوئی۔

انھوں نے کہا: اس قسم کی کانفرنسز کا انعقاد دنیائے اسلام کی بیداری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

شہر سنندج میں اہل سنت امام جمعہ نے مزید کہا: اس کانفرنس میں اہل سنت اور اہل تشیع کے علماء نزدیک سے ایک دوسرے کے ساتھ آشنا ہوئے اور ایک دوسرے کو مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے لیے تجاویز دیں۔

اس اہلسنت عالم دین نے کہا: اس کانفرنس میں جو فیصلے کیے گئے دنیائے اسلام میں انہیں عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔

مولوی محمد امین راستی نے کہا: آج دشمن جدید روشوں سے استفادہ کر کے دنیائے اسلام کی ثقافتی اور اعتقادی بنیادوں کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔

انہوں نے کہا: امید ہے کہ عالم اسلام بہت جلد بصیرت حاصل کرتے ہوئے دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے۔

سنندج میں اہل سنت امام جمعہ نے کہا: ایک طرف دشمن نے اسلامی تشخص کو نشانہ بنایا ہوا ہے اور دوسری طرف عرب ممالک نے غاصب اسرائیل کے مقابلے میں بچوں والی سیاست اپنا رکھی ہے کہ اس سے عالم اسلام کو بہت زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: اہل سنت اور اہل تشیع مسلمانوں کا ایک مشترکہ دشمن ہے اور وہ عالمی صیہونزم ہے۔ اس منحوس اور جعلی حکومت سے مقابلے کے لئے عالم اسلام کی حقیقی وحدت کی ضرورت ہے۔

یکنا نیوز- قرآنی کے انیسویں سورے کا نام «مریم» ہے جسمیں ۹۸ ایات ہے اور یہ سولویں پارے میں موجود ہے۔ یہ مکی سورہ ترتیب میں چوالیسواں پارہ ہے جو رسول گرامی(ص) پر نازل ہوا۔

حضرت مریم(س) کی زندگی کی داستان آیات ۱۶ سے ۲۷ اور ۳۴ میں بیان کی گیی ہے اور اسی وجہ سے اس سورہ کو «مریم» کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔

سوره مریم میں دو خصوصیات ہیں: ایک یہ کہ عظیم انبیاء اور داستان مریم بیان کرتے ہوئے لفظ

«اُذْکُر» یعنی یاد کرو استعمال کیا گیا ہے اور دوم یہ کہ لفظ «رحمان» خدا کی صفت اس سورہ میں ۱۶ بار آیا ہے جو خدا کی وسیع رحمت کی عکاسی کرتا ہے اور بالخصوص انبیاء اور مومنین پر خدا کی رحمت کی کھلی نشانی ہے۔

علامه طباطبایی تفسیر المیزان میں اس سورے کی تفسیر میں خوشخبری اور انتباہ کو اہم ترین حصہ قرار دیتے ہوئے بیان کیا ہے۔ سورہ مریم میں لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

نعمتوں کے حامل گروہ جسمیں انبیاء، خدا کے منتتخب بندے اور ہدایت یافتہ لوگ ہیں اور ان میں عمل صالح بجا لانے اور توبہ کرنے والوں کو شامل کیا گیا ہے اور تیسرے گروہ میں گمراہ اور شیطانی عمل کرنے والے لوگ شامل ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے غاصب صہیونی فوج کی جانب سے دمشق کے مضافات میں گزشتہ رات ہونے والے وحشیانہ میزائل حملوں کی شدید مذمت کی۔ ان حملوں میں دس افراد شہید و زخمی ہوئے۔  

 وزارت خارجہ کے ترجمان نے شہدا کے خاندانوں کو تعزیت پیش کرتے ہوئے شام کی حکومت اور عوام سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی رجیم کی شام پر مسلسل جارحیت اور حملے اس ملک کی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی اور تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی سرے عام خلاف ورزی ہے۔

ناصر کنعانی نے عالمی برادری، ذمہ دار بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کے دعویداروں کی صہیونی رجیم کے غیرقانونی اقدامات کے سامنے سوالیہ خاموشی پر حیرت اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ عالمی برادری خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر لازم ہے کہ صہیونی رجیم کے پے در پے جرائم اور پرخطر طرز عمل کے مقابلے میں اپنی ذمہ داری پر عمل کریں۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے زور دے کر کہا کہ شام پر صہیونی رجیم کے مسلسل حملے اس ملک کی سلامتی اور قومی اقتدار کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ مسلح دہشت گردوں کی مدد اور انہیں شام کی سرزمین میں تحفظ فراہم کرنے اور تقویت دینے کی کوشش ہے۔ یہ امر پورے خطے کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،خودکشی مغربی ممالک کے بڑے مسائل میں سے ایک بن چکی ہے، کیونکہ سالانہ ہزاروں لوگ خودکشیاں کرتے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا میں سالانہ تقریباً 800,000 افراد خودکشی کے ذریعے اپنی جانوں کو گنوا بیٹھتے ہیں۔

مثال کے طور پر؛ اسپین میں سالانہ تقریباً 4000 افراد خودکشی کرتے ہیں جو کہ دیگر اعدادوشمار کے مقابلے میں ایک قابل ذکر تعداد ہے اور یہ تعداد اسپین میں ٹریفک حادثات سے دوگنا، قتل سے 11 گنا اور گھریلو تشدد سے 80 گنا زیادہ ہے۔

ریاستہائے متحدہ امریکہ میں 2017ء میں روزانہ کی بنیاد پر 129 افراد یعنی 47,000 خودکشیاں ریکارڈ کی گئیں۔ مغربی ممالک کے نوجوانوں میں خودکشی موت کی ایک بڑی وجہ بن گئی ہے۔

اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں کلینیکل کونسلر اور خودکشی سے بچاؤ کی ماہر لورا لیوس کے مطابق، خودکشی ایک پیچیدہ، حساس اور مشکل مسئلہ ہے۔ وہ مرکز برائے دماغی صحت کی ایک ماہر کے عنوان سے کہتی ہیں کہ ہمیں اس مسئلے کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور اس سے نمٹنے کی کوشش کرنی چاہئے، کیونکہ خودکشی کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی۔

وہ کہتی ہیں کہ خودکشی کی وجوہات کئی طریقوں سے پیدا ہوتی ہیں، ممکن ہے کچھ وجوہات احساسِ ناامیدی یا بے بسی کی بنا پر وجود میں آئیں، کچھ وجوہات زیادہ ٹنشن کی وجہ سے ہو سکتی ہیں اور کچھ وجوہات مالی مسائل سے وجود میں آ سکتی ہیں، لیکن جس طرح سے ہمیں خودکشی کے اسباب کو جاننا جتنا ضروری ہے، اسی طرح اس کی روک تھام کے عوامل کو جاننا بھی ضروری ہے۔وہ خصوصیات جو لوگوں میں خودکشی کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہیں، ان میں سماجی اور خاندانی تعاون، ثقافت و تمدن وغیرہ شامل ہیں۔

اس ماہر کے مطابق، خودکشی کی روک تھام میں ایمان کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔ درحقیقت، خودکشی کی روک تھام میں سب سے اہم عوامل معنویت اور مذہب ہے، جو کہ خودکشی کو روکنے کے لئے ایک اہم عنصر ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ایمان اور معنویت،ایک ایسا معنی اور مقصد فراہم کرتے ہیں، جو تمام لوگوں کو امید اور ایک لذت بخش زندگی کی تشکیل میں مدد فراہم کرتے ہیں۔جب کوئی شخص کسی بھی واقعے کا اعتماد اور یقین کے ساتھ سامنا کرتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ زندہ رہنے کی وجوہات باقی ہیں تو اس میں خودکشی کا امکان بہت کم ہو جائے گا۔

 
ایران کے دارالحکومت تہران میں ترکی، روس اور تہران کے درمیان سہ فریقی سربراہی اجلاس منعقد ہونے والا ہے۔ سیاسی ماہرین اس اجلاس کو کئی لحاظ سے خطے کیلئے انتہائی اہم اور اسٹریٹجک قرار دے رہے ہیں۔ ایران، ترکی اور روس گذشتہ ایک عرصے سے خطے میں امن و امان کے قیام کیلئے باہمی تعاون کرتے آ رہے ہیں۔ یہ تعاون آستانہ مذاکرات کے نام سے انجام پانے والے مذاکراتی سلسلے کی روشنی میں انجام پا رہا ہے۔ اس وقت خطے کے اہم ترین ایشوز میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے شدت پسندانہ اقدامات اور شام میں موجود سکیورٹی بحران شامل ہیں۔ تہران میں منعقد ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے مختلف ممکنہ اہداف و مقاصد بیان کئے جا رہے ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔
 
1)۔ بیرونی مداخلت کے مقابلے میں علاقائی تعاون
حال ہی میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے مقبوضہ فلسطین اور سعودی عرب سمیت مشرق وسطی خطے کا دورہ کیا ہے۔ اس دوران ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اپنی توجہ ایک بار پھر مشرق وسطی یا مغربی ایشیا خطے پر مرکوز کرنا شروع ہو گیا ہے۔ جو بائیڈن یہ تصور کر رہے تھے کہ وہ اپنے اس دورے کے ذریعے خطے کے سکیورٹی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے ایک نئی لہر ایجاد کریں گے۔ انہوں نے غاصب صہیونی رژیم اور عرب ممالک میں قربتیں بڑھانے کی کوشش بھی کی جبکہ دوسری طرف انرجی کے سستے ذخائر حاصل کرنے کیلئے بھی کوشاں رہے۔ اس تناظر میں تہران میں منعقد ہونے والا حالیہ سربراہی اجلاس خودمختار خارجہ پالیسی اور علاقائی سطح پر باہمی تعاون کی بہترین مثال پیش کرے گا۔
 
2)۔ شام سے متعلق ترکی کی پالیسیاں
خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک شروع ہونے سے پہلے ترکی اور شام کے درمیان بہت اچھے اور دوستانہ تعلقات استوار تھے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ چند عشروں سے شدید سیاسی اور جغرافیائی تنازعات بھی پائے جاتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے تعلقات دوستانہ ہی رہے۔ اسی تناظر میں بیسویں صدی کے آخری عشرے میں ترکی اور شام کے درمیان دوستانہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کیلئے چند اہم اقدامات انجام پائے جن میں سے ایک انقرہ اور دمشق کے درمیان آدانا معاہدہ طے پانا تھا۔ کچھ عرصے بعد رجب طیب اردگان نے ترکی کے پہلے وزیراعظم کے طور پر شام کا دورہ کیا۔ ان کے علاوہ ترکی کے وزیر خارجہ داود احمد اوگلو نے بھی دسیوں بار دمشق کا دورہ کیا۔ یاد رہے داود احمد اوگلو ترکی اور شام کے درمیان دوستانہ تعلقات کے ماسٹر مائنڈ جانے جاتے تھے۔
 
شام میں سکیورٹی بحران جنم لینے کے بعد ترکی اور شام کے درمیان تعلقات کی نوعیب میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں۔ رجب طیب اردگان اور ان کی ٹیم نے شام سے متعلق انتہائی خطرناک پالیسیاں اختیار کر لیں۔ ترک حکومت نے وسطی ایشیا، یورپ اور امریکہ سے آنے والے تکفیری دہشت گرد عناصر کو شام میں داخلے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی اور یوں دنیا بھر سے شام کیلئے جانے والے داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کیلئے ترکی بہترین روٹ میں تبدیل ہو گیا۔ ترک حکومت سلفی تکفیری دہشت گرد عناصر کی مدد سے شام میں ایک وابستہ حکومت برسراقتدار لانے کی خواہاں تھی۔ اس مقصد کیلئے انقرہ نے بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا۔ لیکن آخرکار داعش کے خاتمے کے بعد یہ منصوبہ ناکامی کا شکار ہو گیا۔ اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ترکی شام سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے گا۔
 
تہران میں سربراہی اجلاس کے انعقاد سے پہلے شام کے کرد نشین علاقے میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جس نے امید کی کرن روشن کر دی ہے۔ ترکی کی سرحد کے قریب عین العرب یا کوبانی نامی ایک کرد نشین قصبہ واقع ہے۔ گذشتہ کچھ دنوں سے ترکی کی جانب سے اس قصبے پر ممکنہ فوجی چڑھائی کی خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ حال ہی میں ترکی کے ذرائع ابلاغ نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کوبانی قصبے میں واقع ایک پہاڑی پر شام کا قومی پرچم لہرا دیا گیا ہے۔ شام میں سکیورٹی بحران رونما ہونے کے بعد کرد نشین علاقے میں قومی پرچم لہرائے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ دوسری طرف اس اقدام کے نتیجے میں ترکی کا فوجی حملہ بھی ٹل گیا ہے۔ لہذا اسے مقامی کرد انتظامیہ کی جانب سے ترکی کے فوجی حملے سے بچنے کیلئے ایک سکیورٹی حکمت عملی قرار دیا جا رہا ہے۔
 
روس کے اعلی سطحی حکومتی عہدیدار اس سے پہلے کئی بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ کرد نشین علاقوں پر ترکی کے فوجی حملوں سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہاں شام کا قومی پرچم نصب کر دیا جائے۔ یوں ترکی ان علاقوں پر فوجی حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ ایران اور روس شام کے اتحادی ممالک ہیں۔ شام کے کرد نشین قصبے عفرین کی انتظامیہ نے یہ بات نہیں مانی جس کے نتیجے میں اسے ترکی کی فوجی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اب یوں دکھائی دیتا ہے کہ عین العرب یا کوبانی میں کرد انتظامیہ اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کی خواہاں ہے۔ ترکی اور شام کے درمیان 900 کلومیٹر سے زیادہ مشترکہ سرحد پائی جاتی ہے۔ ترکی کی جانب سے شام کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور حق خود ارادیت کا احترم ہی خطے میں پائیدار امن کا باعث بن سکتا ہے۔

تحریر: علی احمدی

اسلام ٹائمز۔  روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنے وفد کے ساتھ رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے ایران اور روس کے درمیان ہونے والے سمجھوتوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، مغرب کی فریبکارانہ پالیسیوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان طویل المیعاد تعاون، دونوں ملکوں کے انتہائی مفاد میں ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کہ عالمی تغیرات ایران اور روس کے روز افزوں باہمی تعاون کی ضرورت کی نشاندہی کرتے ہیں، تیل اور گیس کے شعبے سمیت مختلف میدانوں میں دونوں ملکوں کے درمیان متعدد سمجھوتے موجود ہیں جنہیں پوری طرح سے انجام تک پہنچانا اور عملی جامہ پہنانا چاہیئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایران اور روس کے معاشی تعاون کو خاص طور پر مغرب کی پابندیوں کے بعد نہایت ضروری اور دونوں ملکوں کے مفاد میں بتایا اور یوکرین کے واقعات کے بارے میں کہا کہ جنگ ایک سخت اور تشدد والی چیز ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران اس بات سے کسی بھی صورت میں خوش نہیں ہوتا کہ عوام الناس جنگ میں پھنسیں لیکن یوکرین کے معاملے میں اگر آپ نے پہل نہ کی ہوتی تو فریق مقابل آگے بڑھ کر جنگ شروع کردیتا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مغرب والے طاقتور اور خودمختار روس کے پوری طرح خلاف ہیں، نیٹو کو ایک خطرناک تنظیم بتایا اور کہا کہ اگر نیٹو کا راستہ نہ روکا جائے تو پھر وہ ہر حد کو پار کردیتی ہے اور اگر یوکرین میں اسے روکا نہ جاتا تو کچھ عرصے بعد وہ کریمیا کے بہانے یہی جنگ شروع کردیتی۔ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ البتہ آج امریکا اور مغرب، پہلے سے زیادہ کمزور پڑ چکے ہیں اور بے انتہا کوشش اور حد سے زیادہ پیسے خرچ کرنے کے باوجود، شام، عراق، لبنان اور فلسطین سمیت ہمارے علاقے میں ان کی پالیسیوں کی رینج بہت محدود ہو چکی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے شام کے مسئلے کو بہت اہم بتایا اور اس ملک پر فوجی حملے کی مخالفت اور اسے روکے جانے کی ضرورت پر مبنی اسلامی جمہوریہ کے موقف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شام کے سلسلے میں ایک اور اہم بات، امریکیوں کا شام کے مشرقی فرات علاقے کے زرخیز اور تیل سے مالامال علاقوں پر غاصبانہ قبضہ ہے، اس مسئلے کو انہیں اس علاقے سے باہر نکال کر ختم کیا جانا چاہیئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کے معاملات میں صیہونی حکومت کی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے صیہونیوں کے خلاف روس کے صدر کے حالیہ مؤقف کی قدردانی کی۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، آرمینیا کے ساتھ مشترکہ سرحدوں کے بند ہونے کا باعث بننے والی پالیسیوں اور پروگراموں کو قطعی برداشت نہیں کرے گا۔ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ایران اور روس کے طویل المیعاد تعاون کو پوری طرح سے دونوں ملکوں کے مفاد میں بتایا اور صدر پوتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اور ہمارے صدر جمہوریہ دونوں ہی عملی اقدام کرنے والے اور سنجیدگی سے کام کرنے والے افراد ہیں اس لئے اس عرصے میں دونوں ملکوں کا تعاون اپنے عروج پر پہنچ جانا چاہیئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب کی فریب کاریوں کے مقابلے میں چوکنا رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکی منہ زور بھی ہیں اور عیار بھی ہیں اور سابق سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کا ایک سبب، امریکی سازشوں سے دھوکا کھا جانا تھا، البتہ آپ کے دور حکومت میں روس نے اپنی خودمختاری کی حفاظت کی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح دونوں ملکوں کے تعلقات میں قومی کرنسی کو استعمال کئے جانے اور ڈالر کی جگہ دوسری کرنسیوں کے متبادل بنانے کی پالیسی کی تائيد کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کو رفتہ رفتہ عالمی تجارت سے باہر کردینا چاہیئے اور تدریجی طور پر یہ کام ممکن ہے۔

اس ملاقات میں، جس میں ایرانی صدر سید ابراہیم رئيسی بھی موجود تھے، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کے واقعات کے بارے میں کہا کہ کوئی بھی جنگ کا حامی نہیں ہے اور عام لوگوں کی جانیں جانا بڑا المیہ ہے لیکن مغرب کے رویے کے سبب ہمارے پاس ردعمل دکھانے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ انہوں نے روس اور یوکرین کے اختلافات کے اسباب و علل خاص طور پر حالیہ برسوں میں امریکا اور مغرب کے اشتعال انگیز اقدامات منجملہ یوکرین میں بغاوت اور اسی طرح روس کی جانب نیٹو کی ہر طرح کی پیش قدمی سے پرہیز کے وعدوں کے باوجود نیٹو کے پھیلاؤ کی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بعض یورپی ملکوں نے کہا کہ ہم نیٹو میں یوکرین کی رکنیت کے خلاف تھے لیکن امریکا کے دباؤ کی وجہ سے ہم نے اسے تسلیم کرلیا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان ملکوں میں اقتدار اعلی اور خودمختاری نہیں ہے۔ روس کے صدر نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کو امریکیوں کی شرانگیزی کا ایک اور نمونہ بتایا اور روس کے خلاف مغرب کی پابندیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندیاں مغرب کے لئے نقصان دہ ہیں اور ان کا نتیجہ تیل کی قیمت میں اضافے اور غذائی اشیاء کے بحران جیسی مشکلات کی صورت میں سامنے آيا ہے۔

ولادیمیر پیوٹن نے امریکا کی جانب سے دوسرے ملکوں پر پابندی لگائے جانے اور لوٹ مار کے لئے ڈالر کو حربے کے طور پر استعمال کئے جانے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ روش آخرکار امریکا کے لئے ہی نقصان دہ ثابت ہوگی، اس کرنسی کا عالمی اعتبار کم ہوگا اور دیگر ممالک متبادل کرنسیوں کی جانب قدم بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ روس اور ایران، اپنے آپسی تعلقات میں قومی کرنسی کے استعمال کے لئے نئے طریقہ ہائے کار تیار کر رہے ہیں۔ انہوں نے قفقاز کے علاقے کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے شام کے شمالی علاقے پر فوجی حملے کی مخالفت سمیت اس ملک کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے موقف کو ایک دوسرے سے پوری طرح ہماہنگ بتایا اور کہا کہ مشرقی فرات کا علاقہ، شامی افواج کے کنٹرول میں ہونا چاہیئے۔ صدر پیوٹن نے تمام میدانوں اور منصوبوں میں دونوں ملکوں کے تعاون کو آگے کی جانب گامزن بتایا اور کہا کہ ایران اور روس، شام میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ طور پر لڑ رہے ہیں اور فوجی میدان میں بھی ہم کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعاون اور اسی طرح چین کے ساتھ سہ فریقی تعاون اور فوجی مشقوں کو فروغ دیں۔

تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ آپس میں متحد رہیں، آج کا دور نہایت حساس اور نازک دور ہے، ہم لوگ موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہیں۔اگر باہمی اتحاد کو فروغ نہیں دیں گے تو ہمیشہ کے لیے  اغیار کے تسلط میں گرفتار رہیں گے۔ 

 
 

اتحٓاد بین المسلمین واجب ہے

اگر مسلمان باہم متحد ہوجاتے تو بیگانے ان پر کبھی تسلط حاصل نہیں کر پاتے، مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اس بات کا باعث بنا کہ غیر مسلم طاقتیں ہم پر مسلط ہوجائیں۔ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ نے ابتداء میں جاہل افراد کے ہاتھوں سر اٹھایا اور آج بھی ہم اس کے شکار ہیں۔

   شیعہ اور سنی تفرقہ سے گریز کریں

اسلام میں شیعہ اور سنی کے درمیان کبھی بھی تفرقہ وجود نہیں رکھتا، شیعہ اور سنی کے درمیان ہرگز تفرقہ نہیں ہونا چاہیے۔ باہمی وحدت کو محفوظ رکھیں، ائمہ اطہار نے ہمیں یگانگت اور باہمی میل جول کی سفارش کی ہے، جو شخص( شیعہ سنی) اتحاد کو ٹھیس پہنچانا چاہتا ہے وہ یا تو (اسلام اور عالمی تقاضوں سے) جاہل ہے یا پھر فتنہ پرور ہے۔

دشمنان اسلام کے پروپیگنڈے میں نہ آئیں

ہمارے سنی بھائیوں کو دشمنان اسلام کے پروپیگنڈوں کا اثر نہیں لینا چاہیے، ہم آپس میں بھائی ہیں۔ شیعہ اور سنی کے مابین اختلاف صدر اسلام سے چلا آرہا ہے، اس زمانے میں اموی اور بالخصوص عباسی خلفاء تفرقہ پھیلانے کے درپے تھے، محفلیں ( مناظرہ کے نام پر) سجا کر متنازعہ مسائل کو ہوا دیتے تھے۔

اس مذموم عمل نے شیعہ اور سنی کو اپنے عقیدے کی برتری اور باہمی رقابت پر ابھارا۔ہمارے ائمہ اطہار ع کی کوشش رہی کہ شیعہ، اہل سنت کے ساتھ نماز پڑھیں، تشییع جنازہ کریں( معاشرتی میل جول رکھیں)۔ 

استعمار اور شیعہ سنی تفرقہ

وقت گزرنے کے ساتھ عالمی طاقتوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر شیعہ سنی کو آپس میں لڑا دیا، ان طاقتوں نے شیعہ سنی عوام کے جذبات کو سامنے رکھ کر اپنے منصوبون کو آگے بڑھایا۔

انہوں نے دوہرا فائدہ اٹھایا ہے، تفرقہ کے ذریعے مادی مفادات سمیٹے ہیں جو کہ واضح ہے۔ اسکتبار نے مسلم اختلافات کو ہوا دے کر روحانی بھی اٹھایا ہے، وہ یہ کہ تفرقہ پھیلا کر مسلمانوں کو کے درمیان نفرتوں کی خلیج حائل کردی ہے اور مسلمانوں کے بیچ جدائی ڈال کر انتشار سے دوچار کر دیا ہے۔

بیرونی حکومتیں مسلمانوں کے اختلافی مسائل کو نشریاتی اداروں کے ذریعے دنیا بھر میں منتشر کر کے منافرت پھیلاتی ہیں، یہ بیرونی طاقتیں ہی ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ اس طرز کے گھناونے کھیل کھیلتی ہیں

ترجمہ و اقتباس از کتاب: صحیفه‌ امام خمینی رح ، ج‏6، ص84 و 95۔ 

 

۱۔جہاں تک ممکن ہو آپ اپنے بچوں کے ساتھ نہایت آرام وسکوں کے ساتھ گفتگو کریں اور گفتگو کرتے وقت اچھے الفاظ کو استعمال کیا جائے ۔

۲۔ آپ اپنے بچوں کے سامنے اپنی محبت کااظہار کریں اور ان سے پیار ومحبت کریں ، انہیں آغوش میں لیں ، ان کا بوسہ لیں اور ہمیشہ محبت آمیز نگاہوں سے انہیں دیکھیں ۔

۳۔بچوں کے اعمال کو مد نظر رکھئے اور انہیں سمجھائئے کہ ہمارا یہ عمل اس وجہ سے نہیں کہ ہم تم لوگوں پہ اعتماد نہیں رکھتے بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم لوگوں کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کریں۔ آئندہ کے بارے میں اپنے بچوں سے گفتگو کیجئے ، مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے انہیں آمادہ کیجئے ۔

۴۔بچوں کو مسواک کرنے کی جانب مائل کیجئے ۔

۵۔بچوں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے انہیں وقت دیجئے تاکہ انہیں یہ محسوس ہوجائے کہ آپ انہیں بہت چاہتے ہیں۔

۶۔اپنے بچوں کے سامنے کتابوں کا مطالعہ کیجئے تاکہ ان کے اندر کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہو اور اس طریقے وہ علمی درجات پہ فائز ہوں۔

۷۔انہیں تلاش وکوشش کی جانب مائل کیجئے ۔

۸۔جدید سوالات ایجاد کرنے کے سلسلے میں ان کی رہنمائی کیجئے ۔

۹۔ادہورے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہونچانے میں ان کی مدد کیجئے اور اس امر کو انہیں تعلیم دیجئے ۔

۱۰۔اگر آپ کے بچے گناہوں کی جانب مائل ہیں تو گناہوں کے نتائج ان کے سامنے بیان کیجئے اور اس امر میں ان سے محبت آمیز رفتار سے کام لیجئے ۔

۱۱۔جو کام بچہ انجام دینے پہ قادر ہے اسے انجام دینے کے لئے اس کی رہنمائی کیجئے ۔

۱۲۔اپنے بچوں کے سوالات کا جواب دیجئے اور دینی ومذہبی کتابوں کے ذریعہ دنیاوی اور اخروی زندگی سے انہیں آشنا کیجئے ۔

۱۳۔ اپنے بچوں کو شکرگزار بننے کی تعلیم دیجئے ۔

۱۴۔ اپنے بچوں کو احتمالی مشکلات سے آشنا کیجئے اور ایسی مشکلات کا راہ حل ڈھونڈنے کا طریقہ بھی سکھائیے۔

۱۵۔اپنے بچوں کو لائق وسائشتہ بچے کہہ کر پکارئیے ۔

۱۶۔اپنے بچوں کی بعض نامناسب رفتار اور حرکات کے سامنے صبر سے کام لیجئے کیونکہ ان کے سن وسال کا تقاضا یہی ہے ۔

۱۷۔بچوں کی زندگی کا خیال رکھئے اور انہیں صحیح وسالم غذا کھلانے کی کوشش کیجئے ۔

۱۸۔ موجودہ دور میں جدید تعلیمات سے اپنے بچوں کو آراستہ کیجئے اور روز مرہ کے مسائل سے انہیں آگاہ کیجئے ۔

۱۹۔ بچوں کے سونے اور جاگنے کا وقت معین کیجئے ۔

۲۰۔اسکول یا مدرسہ کے اساتذہ سے رابطہ میں رہئے اور اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں ان سے سوال کیجئے ۔

۲۱۔بچوں کی ناسائستہ ونامناسب چال وچلن سے انہیں منع کیجئے

منبع:راھنمای خانوادہ

 


source : http://www.ahl-ul-bayt.org

شیعیت نیوز: شام میں رہبر معظم کے نمائندے حجۃ الاسلام حامد صفر ہرندی نے غدیر خم کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: امام علی علیہ السلام امت اسلامیہ کے درمیان اتحاد کے محور ہیں۔

حجۃ الاسلام حامد صفر ہرندی نے آج دمشق میں IRNA کے نامہ نگار کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا: غدیر کو دیکھ کر ہر عاقل انسان کو جو بات نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) جو خاتم النبیین ہیں، اسی وجہ سے جن کے مشن کو جاری رکھنا چاہیے، وہ امت اسلامیہ کے مستقبل کا خیال رکھنے کے پابند ہیں، اور وہ جانشین کے تقرر کی صورت میں ہے، جو خدا کے حکم سے ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح پیغمبر اکرم (ص) خود امت کے امام تھے اور الہی تقرر سے امام بنے تھے اسی طرح خداوند متعال اس امام کو اپنے بعد امت کا رہنما مقرر کرے گا۔ ایک ایسا لیڈر جو صرف ایک سیاسی رہنما نہیں ہے بلکہ وہی فرائض جو پیغمبر اکرم (ص) کے ہیں یعنی لوگوں کی تعلیم اور لوگوں کی روحوں کی سربلندی – وہی فرائض امام بھی انجام دیتے ہیں۔ .

شام میں رہبر معظم کے نمائندے نے کہا: خدا مختلف طریقوں سے اس فرمان کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان صورتوں میں سے ایک انتباہ کا دن ہے۔ جس دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دینے کے پابند تھے۔ اس مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں بتاؤں کہ کچھ لوگ تم پر حملہ کریں گے تو کیا تم اسے قبول کرو گے؟ اس کے رشتہ داروں نے جواب دیا کہ آپ ثقہ اور سچے ہیں اور ہم اسے ضرور مانیں گے۔

 

 

حجۃ الاسلام صفر ہرندی نے واضح کیا کہ اس کے بعد پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے مشن کی خبر سنائی اور فرمایا کہ سب سے پہلا شخص جو مجھ پر ایمان لائے گا وہ میرا جانشین ہوگا، حضرت علی (ع) نے اپنا ہاتھ اٹھایا۔

انہوں نے کہا: ہم سب پیغمبر اکرم (ص) کے محور کے گرد جمع ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ تمام اسلامی امت حضرت علی (ع) کی قیادت کو قبول کرتی ہے۔ اب کوئی تاخیر سے قبول کرتا ہے اور کوئی ہدیہ کرکے اور اپنی مرضی سے قبول کرتا ہے۔ ہم شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امیر المومنین (ع) پیغمبر اکرم (ص) کے فوری خلیفہ اور جانشین ہیں، لیکن دوسرے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ امیر المومنین دیگر خلفاء کے بعد امت اسلامیہ کے قائد تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام تمام امت اسلامیہ کے درمیان مشترک محور ہیں۔

شام میں رہبر معظم کے نمائندے نے مزید کہا: تمام مسلمان امیر المومنین (ع) کو پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب میں سب سے زیادہ جاننے والے مانتے ہیں اور پیغمبر (ص) کے اصحاب میں سے کوئی بھی امیر سے زیادہ علم والا نہیں تھا۔ المومنین (ع)

انہوں نے کہا کہ حضرت علی (ع) امت اسلامی کے درمیان اتحاد کا محور ہیں اور جس طرح تمام مسلمان پیغمبر اکرم (ص) کو مانتے ہیں اسی طرح حضرت علی (ع) کو بھی مانتے ہیں۔

حجۃ الاسلام صفر ہرندی نے بیان کیا: غدیر کو تمام مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غدیر کا نمایاں کردار ایک ولی ہے جسے خدا نے گورنر کے لیے منتخب کیا ہے۔

شام میں رہبر معظم کے نمائندے نے کہا کہ امام صادق (ع) کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد شیعہ نہیں تھی، بلکہ عام طور پر سنی تھی، لیکن وہ امام صادق (ع) کے حکم کی پیروی کرتے تھے، جو حضرت کے فرزند تھے۔ علی (ع) اور ان کی نسل سے ہیں، وہ بیٹھ کر کہتے تھے کہ اگر امام صادق (ع) اور امام باقر (ع) نہ ہوتے تو لوگ ان کے حج کے مناسک کو نہ جانتے اور اس حد تک وہ حج کے مناسک ہیں۔ خدا کے دین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے احیاء کرنے والے جانتے تھے۔

آخر میں، حجۃ الاسلام صفر ہرندی نے شہید لیفٹیننٹ جنرل حج قاسم سلیمانی کی اپنی یادیں شیئر کیں اور کہا: "سالوں پہلے، میں حج قاسم کے ساتھ سفر کر رہا تھا اور میں نے حج کے دوران ان سے رومانوی تنہائیاں دیکھی تھیں۔”

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ امام خمینی (رح) علمی لباس میں ملبوس تھے اور ان کی شادی کا خطبہ امام خمینی (رح) نے پڑھا تھا، فرمایا: میرے کپڑے پہننے کے بعد امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ عالم پر عزم رہو اور یہ ہے۔ میرے لیے ایک بڑا سبق اور روشنی ہے اور میں علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ پرعزم رہنے کی پوری کوشش کروں گا۔