سلیمانی
آیت الله فاطمی نیا ؛ زندگی اور کارنامہ
حضرت آیت الله فاطمی نیا ایک مدت تک بستر بیماری پر رہنے کے بعد دوشنبہ کی صبح اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ، اپ کے انتقال پر جمھوری اسلامی ایران کی برجستہ شخصیتوں اور دیگر ممالک کے علمائے کرام نے تعزیت پیش کرتے ہوئے حوزہ علمیہ کے لئے عظیم خسارہ جانا ہے ۔
مختصر زندگی نامہ:
حضرت آیت الله سیدعبد الله فاطمی نیا، 1946عیسوی میں شھر تبریز [ایرن کی ترک نشین سرزمین] پر پیدا ہوئے ، اپ کے والد میر اسماعیل تبریز کے عظیم علمائے کرام اور عرفاء میں سے تھے ، انہوں نے آیت الله فاطمی نیا کو بچپنے ہی سے اپنی خاص تربیت اور توجہ کا مرکز قرار دیا اور ایک مدت بعد انہیں تعلیم اور تربیت کی غرض سے آیت الله مصطفوی تبریزی (حضرت آیت الله سید علی قاضی کے شاگرد اور عظیم عارف) کے سپرد کردیا ، اس عظیم شخصیت نے تقریبا ۳۰ سال تک اپ کی ظاھری و باطنی تربیت کرکے اپ کو خوب نکھارا اور ایک عظیم شخصیت کا مالک بنا دیا ۔
آیت الله فاطمی نیا نے آیت الله مصطفوی کے علاوہ مفسر کبیرالمیزان حضرت علامہ محمد حسین طباطبائی، حضرت آیت الله الهی تبریزی (علامہ طباطبائی کے بھائی)، حضرت آیت الله محمد تقی آملی، حضرت آیت الله سید رضا بهاء الدینی، حضرت آیت الله بہجت اور دیگر بزرگ علمائے کرام سے ملاقاتیں کی ۔
ایت اللہ فاطمی نیا فقیہ ، حوزات علمیہ کے استاد ، علوم اسلامی کے ماہرین میں سے جو پیوستہ تحقیق و ریسرچ میں مشغول رہا کرتے تھے ، اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام میں بھی مقرر اور میزبان کے عنوان سے موجود رہتے اور دینی و سیاسی مراکز ، حوزات علمیہ اور یونیورسٹیز میں مسلسل تقریر کے لئے مدعو کئے جاتے ۔
اپ کو اگر چہ علم رجال اور عرفان میں خاص مہارت حاصل تھی مگر مسلسل تقریروں کی وجہ سے زیادہ تر اپ کو ایک عظیم خطیب اور ماہر مقرر کے عنوان سے پہچانتے رہے ہیں اور عوام اپ کی علمی توانائیوں سے لاعلم و بے خبر ہے ، اپ صحیفہ سجادیہ اور نہج البلاغہ کے عظیم المرتبہ مفسر ہیں ۔
فروری ۲۰۱۹ عیسوی میں ڈاکٹرس کی تشخیص کے مطابق آیت الله فاطمی نیا کینسر کی بیماری کا شکار ہوئے ، کیمو وغیرہ کے وسیلہ اپ کی طبیعت میں کچھ بہتری ائی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپ کی طبیعت مزید بدتر ہوتی چلی گئی اور اخر کار اج مورخہ 16/ مئی/ 2022 عیسوی کو انتقال کرگئے ۔
اپ کی تالیفات :
۱: شرح و تفسیر زیارت جامعہ کبیره ۔
۲: مجالس استاد فاطمی نیا
۳: ثقافت انتظار
۴: فرجام عشق (حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے غزل کی شرح)
۵: ہزاروں میں ایک نکتہ
۶: ارمغان غدیر ( غدیر کے سلسلہ میں شیعہ و سنی منابع سے چالیس حدیثوں کا مجموعہ)
۷: نغمہ عاشقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: ایمنا نیوز ایجنسی ، نیوز کوڈ 575388 ۔
۲: فارسی ویکیپیڈیا ، زندگی نامہ استاد فاطمی نیا ۔
ایرانی وزیر خارجہ اور متحدہ عرب امارات کے نئے صدر کے درمیان ملاقات
وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان، جنہوں نے متحدہ عرب امارات کے آنجہانی صدر کے انتقال پر تعزیت پیش کرنےکے لیے ابوظہبی کا دورہ کیا ہے، نے گزشتہ روز متحدہ عرب امارات کے نئے صدر محمد بن زاید سے ملاقات کر کے مشترکہ مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔
فریقین نے متحدہ عرب امارات میں مقیم ایرانیوں کے مسائل کا حل کے ساتھ ساتھ دلچسپی کے بعض موضوعات اور مشترکہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔
قابل ذکر ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ نے دورہ امارات سے واپسی کے بعد اپنے ٹوئیٹر بیان میں کہا کہ ایران اور امارات کے سیاسی تعلقات میں نئے باب کا آغاز ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور امارت کے تعلقات میں نئے باب کا آغاز ہوگیا ہے۔ ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ گرم اور دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہے اور علاقائی ممالک باہمی اتاد اور یکجہتی کے ساتھ غیر علاقائی اور سامراجی طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں اور علاقہ کے دشمنوں کو مایوس کرسکتے ہیں۔
خلیفہ بن زاید کے انتقال کے بعد متحدہ عرب امارات کی اعلی کونسل نے محمد بن زاید کو متحدہ عرب امارات کا نیا حاکم منتخب کیا ہے۔
مرحوم فاطمی نیا , انقلاب اسلامی اوررہبر معظم کی مخالفت کو معصیت اور گناہ سمجھتے تھے
إنا لله وإنا إليه راجعون
العلماء باقون مابقي الدهر اعيانهم مفقودۃ و امثالهم في القلوب موجودۃ
مرحوم آیت اللہ سید عبداللہ فاطمی نیا بہترین معلم اخلاق، عارف ، خطیب توانا ، اسلامی مؤرخ ہونے کے علاوہ علم رجال اور عرفان میں صاحب نظربھی تھے۔ مرحوم آیت اللہ فاطمی نیا 1325 شمسی میں تبریز کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مرحوم سید عبداللہ فاطمی نیا نے تبریز کے بزرگ عارف آیت اللہ مصطفوی تبریزی سے 30 سال تک علوم ظاہری و باطنی حاصل کیا۔ مرحوم مصطفوی تبریزی ، عارف بزرگ مرحوم آیت اللہ قاضی کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے۔ مرحوم آیت اللہ فاطمی نیا نے مکتب اہل بیت(ع) کی ترویج اور تبلیغ کے سلسلے میں شاندار اور گرانقدر کردار ادا کیا۔ مرحوم آیت اللہ فاطمی نیا نے علمی، عملی اور اخلاقی میدانوں درخشاں اور عظیم الشان نمونے قائم کئے ،جو آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ مرحوم متقی، پرہیزگار، بےباک ، نڈر اور مخلص خطیب تھے۔
عوام اور خاص طور پر جوانوں کا مرحوم آیت اللہ فاطمی نیا سے خاص اور والہانہ لگاؤ تھا ۔ وہ ایسے توانا خطیب تھے جو آسانی کے ساتھ عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لیتے تھے۔مرحوم آیت اللہ فاطمی نیا کو انقلاب اسلامی اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ بھی والہانہ محبت تھی ۔ وہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کی مخالفت کو معصیت اور گناہ سمجھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے قریبی اور دیرینہ دوست آقائ امجد کے انقلاب اسلامی سے انحراف کے بعد ان سے دوری اختیار کرلی۔ مرحوم ذمہ دار ، وظیفہ شناس ، دیندار اور مخلص انسان تھے اور اخلاقی اور معنوی اقدار کے اعلی مدارج پر فائز تھے۔ اللہ تعالی مرحوم پر اپنی رحمت اور مغفرت نازل فرمائے اور اہلبیت(ع) کے ساتھ محشور فرمائے اور مرحوم کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
معلم اخلاق، عارف آیت اللہ سید فاطمی نیا 75 برس کی عمر میں دنیائے فانی سے کوچ کرگئے
تبریز : معلم اخلاق ، عارف ، خطیب توانا اور اسلامی مؤرخ آیت اللہ سید عبداللہ فاطمی نیا 75 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ آیت اللہ فاطمی نیا تبریز میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بزرگوار بھی تبریز کے معروف علماء اور عرفا میں شامل تھے۔ مرحوم سید عبداللہ فاطمی نیا ، تبریز کے بزرگ عارف آیت اللہ مصفوی تبریزی سے 30 سال تک علوم ظاہری و باطنی حاصل کرتے رہے ۔ مرحوم مصطفوی تبریز ، عارف بزرگ مرحوم آیت اللہ قاضی کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے۔مرحوم آیت اللہ فاطمی نیا علم رجال اور عرفان میں صاحب نظر تھے۔
برطانیہ میں معاشی ابتری، اخراجات میں کمی کے لیے 90 ہزار سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے پر غور
لندن : برطانوی حکومت نے اخراجات میں کمی کے لیے 90 ہزار سرکاری ملازمین کو فارغ کرنےکا فیصلہ کرلیا۔ وزیراعظم بورس جانسن نے کابینہ کے وزراء کو خصوصی ہدایات جاری کردی ہیں۔ بورس جانسن نے وزرا سے کہا ہے کہ وہ مختلف محکموں سے ملازمین کی تعداد میں کمی لائیں۔ ملازمین کی تعداد میں کمی سے حکومتی اخراجات میں واضح کمی آئے گی اور اس سے بچنے والا پیسہ عوام کی فلاح و بہبہود کے لیے خرچ کیا جائے گا۔ ملازمین کی تعداد میں کمی لانے کیلئے تجاویز ایک ماہ میں پیش کریں۔ سرکاری اخراجات میں کمی لا کر معیارِ زندگی کی بڑھتی قیمتوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔ٹیکس دہندگان سے وصول کیا گیا ہر پائونڈ ترجیحی طور پر عوام پر خرچ کرنا ضروری ہے۔
۱۶ مئی یوم مردہ باد امریکہ از رہبر انقلاب
بحران زدہ امریکہ!
دنیا کے تمام اہم فیصلہ کن ادارے یہاں تک کہ امریکی بھی یہی بات کہہ رہے ہیں کہ امریکی ریاست بحران کا شکار ہے.امریکہ اقتصادی بحران،بین الاقوامی بحران،سیاسی اور اخلاقی بحران کا شکار ہے.آج،امریکہ کے قرضے،اور اسکے پورے خام مال کی پروڈکشن تقریبا برابر ہے.یہ بحران کی علامت ہے.
امریکی اقتصادی بحران!
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ایک حکومت کے قرضے اور واجبات اسکے raw material کی production کے قریب ہوجائیں تو یہ بحران کی علامت ہے.آج امریکہ کی یہی حالت ہے.اسکے قرضوں کی مقدار اسکی 66% raw material production کے برابر ہے.یہ ملک کس کی مدد کرنا چاہے گا؟ایسا ملک تو صرف دوسروں سے چھیننا چاہے گا تاکہ اپنی مرمت کر سکے۔
امریکی سیاسی بحران!
امریکہ نہ صرف اقتصادی بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی بحران کا شکار ہے.آج دن کے ہر کونے میں کسی استثناء کے بغیر یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی قوم ظلم و بربریت کے خلاف قیام کرتی ہے اسکا نعرہ "مردہ باد امریکہ” ہے۔
ہر مظلوم کا نعرہ،مردہ باد امریکہ!
ایک زمانے میں”مردہ باد امریکہ”صرف ایرانی قوم کا نعرہ تھا لیکن آج ہر جگہ،مغربی ایشیاء سے لیکر مشرقی ایشیاء تک،یورپ سے لیکر لیٹن امریکہ اور افریقہ تک جہاں بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھتی ہے ان سب کا نعرہ”مردہ باد امریکہ” ہے.یہ امریکہ کی سیاسی حالت ہے.اس سے بڑھ کہ کیا بحران ہوگا۔
عہد بصیرت ، رھبر معظم
معرفت انبیا از امام خمینی
انبیا اور اولیا دین حقہ کے محافظ!
میں مختصرا عرض کروں گا کہ انبیا شروع سے آخر تک اور اولیا کرام،طول تاریخ میں اول سے آخر تک یہ تمام ھستیاں اسلام کی محافظ رہی ہیں اور دین حقہ کی بھی نگہبان رہی ہیں.تمام ادوار میں دین حقہ سے مراد اللہ کی بارگاہ میں سرتسلیم خم کرنا ہے۔
انبیا کا راستہ،عملی تبلیغ!
انبیا اور اولیا نے دین کی حفاظت کے لئے فقط زبان سے تبلیغ نہیں کی،بلکہ انکا مھم کام انکی عملی تبلیغ تھی.انکے اعمال کو طول تاریخ میں ہمارے لئے اور اھل تاریخ کے لئے مشعل راہ ہونا چاہئے۔
سید الشھدا اور انبیا کا موازنہ!
جب ہم سیرت انبیا کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ دین کی بقا کے لئے سب کچھہ لٹا دیتے تھے. انبیا مشکلات جھیلنے کے لئے مامور کئے گئے تھے اور اگر سید الشھدا جیسی صورتحال کسی بھی ولی اللہ کے سامنے آتی تو وہ بھی ویسی ہی فداکاری کرتے۔
انبیا کا ہدف!
البتہ تمام انبیا اور اولیا کی صورتحال مختلف تھی.ہدف اسلام کی حفاظت،احکام خدا کی حفاظت اور اللہ کی معرفت اور توحید کو پھیلانا،یا دوسرے الفاظ میں انسان سازی انبیا انسان سازی کے لئے آئے تھے.انبیا کے آنے کا ہدف یہ تھا کہ جس انسان کو شیطان نے فریب دینے کی قسم کھائی ہے،اسکو شیطان کے مکر سے نجات دیں اور اسے صراط مستقیم کی دعوت دیں۔
امام خمینی ، عہد معارف
ایک طرف یوم خاندان، دوسری طرف آج ہی کے دن فلسطینی خاندانوں پر قیامت ڈھادی گئی، علامہ ساجد نقوی
حوزہ/ قائد ملت جعفریہ پاکستان: سامراجی قوتوں کا اسرائیل بارے ہمیشہ دہرا معیار رہا، اسرائیلی مظالم اور بین الاقوامی میڈیا کے گھناﺅنے کردار کو بے نقاب کرنیوالی صحافی کو بھی شہید کردیاگیا، مسئلہ فلسطین کو حل کئے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہوگا۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں سامراجی قوتوں کا اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کے حوالے سے ہمیشہ دہرا معیار رہاہے، یوم نکبہ جو ہر فلسطینی کےلئے تباہی ، بربادی اور قتل وغارت گردی کے سوا کچھ نہ لایا، ایک طرف پوری قوم اور خاندان اجاڑ دیئے گئے دوسری جانب آج کے روز یوم خاندان منایا جارہاہے ، اسرائیلی افواج نے ہاتھوں مظلوم شہریوں اور ان کی املاک سمیت میڈیا ہاﺅسز اور صحافی بھی محفوظ نہیں، خاتون صحافی شیریں ابوالخیل کی شہادت بھی اس سفاکیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ان خیالات کا اظہار قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے یوم نکبہ 1948 (یوم المیہ ) ، خاندانوں کے عالمی دن اور فلسطینی صحافی کی شہادت پر اپنے پیغام میں کیا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ 7دہائیاں قبل اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کو دنیا خصوصاً اسلامی دنیا میں خنجر کی طرح پیوست کیاگیا اور آج تک اس زہر آلود صیہونی و استعماری خنجر سے مظلوم و محکوم عوام کے ساتھ ساتھ اس کی سازشوں کا ہمسائے اور دیگر ممالک بھی شکار ہیں، خود ناجائز ریاست کا پشتی بان سامراج بھی اس کی سازشوں سے اب محفوظ نہیں رہا جس نے اسے خود اندرونی طور پر کمزور ترین کردیاہے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ یوم نکبہ(یوم المیہ)ہر فلسطینی ، ہر ذی شعور و درد دل رکھنے والے کےلئے تباہی، بربادی ، قتل غارت گری اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی یاد تازہ کرتاہے ایک ایسا دن جب قابض افواج اور مسلح صیہونی جھتوں کے ذریعے لگ بھگ ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو گھروں سے، ان کی زمینوں سے اور ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کردیاگیا مگر صد افسوس آج ہی کے دن کو یوم خاندا ن کے طور پر بھی منایا جاتاہے جو عالمی قوتوں اور سامراج کے اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ کے حوالے سے دہرے معیار کا عکاس ہے ، ایک طرف یوم خاندان دوسری طرف مظلوم فلسطینیوں کے خاندانوں کو اجاڑ دیاگیا ان پر قیامت ڈھادی گئی مگر کسی کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقو ی نے الجزیرہ کی فلسطینی صحافی شیریں ابوالخیل کی اسرائیلی قابض افواج کی فائرنگ سے شہادت پر بھی گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ انہیں اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی کے دوران نشانہ بنایاگیا اور پھر الزام بھی کسی اور پر تھونپے کی کوشش کی گئی کیونکہ مذکورہ صحافی اسرائیل اور سامراج کے دہرے معیار ،مظالم، اور عالمی میڈیا کے گھناﺅنے کردارکو دنیا کے سامنے آشکار کررہی تھیں ۔ اس ظالم و قابض افواج نے معصوم بچوں ، مظلوم شہریوں اور املاک سمیت میڈیا ہاﺅسز اور صحافیوں کو بھی نہیں بخشا ، کاش بعض ممالک جو اسرائیل کےساتھ نام نہاد ”ابراہم معاہدہ“ کے ذریعے پینگیں بڑھا رہے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں انہیں یہ حقیقت نظر آجائے ۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہاکہ جب تک ممسئلہ فلسطین حل نہیں ہوگا پائیدار امن کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
غاصب صہیونی رژیم کے ہاتھوں صحافیوں کے قتل میں امریکہ کا کردار
حال ہی میں مقبوضہ فلسطین میں الجزیرہ نیوز چینل کی سینیئر خاتون صحافی جن کا اپنا تعلق فلسطین سے ہی تھا صہیونی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئی ہیں۔ ان کا نام شیرین ابوعاقلہ تھا اور وہ گذشتہ تقریباً چند عشروں سے صحافت کے پیشے سے وابستہ تھیں۔ شیرین ابوعاقلہ پہلی صحافی نہیں جو غاصب صہیونی فورسز کی جانب سے شہید کی گئی ہیں بلکہ گذشتہ چار عشروں میں اب تک تقریباً 80 کے قریب صحافی مقبوضہ فلسطین میں صہیونی فورسز کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔ سیاسی ماہرین کی نظر میں صہیونی رژیم کے اس مجرمانہ اقدام کی ایک بڑی وجہ اپنے غیر انسانی اقدامات اور مظلوم فلسطینی شہریوں کے خلاف ظلم و ستم پر پردہ ڈالنا ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں غاصب صہیونی فورسز نے شیرین ابوعاقلہ کو شہید کرنے کے بعد ان کی نماز جنازہ کو بھی شدید جارحیت اور بربریت کا نشانہ بنایا ہے۔
شیرین ابوعاقلہ کی شہادت کے بعد ایک بار پھر رائے عامہ کی توجہ امریکی حکومت کی جانب مرکوز ہو گئی ہے جو ابتدا سے ہی غاصب صہیونی رژیم کی غیر مشروط حمایت اور مدد کرتی آئی ہے۔ اگرچہ خود امریکہ میں ہی غاصب صہیونی رژیم کے نسل پرستانہ اور مجرمانہ اقدامات کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے اور کئی حلقوں کی جانب سے امریکی حکومت پر صہیونی رژیم کی غیر مشروط مدد ختم کرنے کیلئے دباو بھی ڈالا جا رہا ہے لیکن امریکی حکومت اپنی پرانی ڈگر پر گامزن ہے۔ حتی بعض اوقات صہیونی رژیم کا غیر انسانی اقدام اس قدر واضح اور بھیانک ہوتا ہے کہ خود امریکی حکومت اس کی مذمت کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے لیکن یہ صرف ظاہری حد تک ہوتا ہے اور صہیونی رژیم کی غیر مشروط حمایت اور مدد جوں کی توں باقی رہتی ہے۔
شیرین ابوعاقلہ کی شہادت کے بعد صہیونی فورسز کی جانب سے ان کی نماز جنازہ پر بھی جارحیت انجام دینے کا اقدام ایسی ہی ایک مثال ہے جس نے امریکی حکومت کو بھی اعتراض کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جمعہ 13 مئی کے دن امریکہ کی وزارت خارجہ نے شیرین ابوعاقلہ کی نماز جنازہ پر صہیونی فورسز کی یلغار کو "تشویش ناک" قرار دیا اور اس خاتون صحافی کے قتل کے بارے میں تحقیق کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی مقبوضہ فلسطین میں صہیونی فورسز کے ہاتھوں اس خاتون صحافی کے قتل کی خبر سن کر اس کی تفصیلات سے لاعلمی کا اظہار کیا اور مذمت کرنے سے گریز کیا۔ امریکہ میں مقیم صہیونی مخالف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے تشویش کا اظہار کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور وہ بدستور اس ظالم رژیم کی مدد کرنے میں مصروف ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی کابینہ میں شامل سینیئر حکومتی عہدیدار بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو فراہم کی جانے والی سالانہ 3.8 ارب ڈالر پر مبنی مالی امداد میں نہ تو کوئی کمی لائیں گے اور نہ ہی اسے کسی چیز سے مشروط کریں گے۔ "عرب امریکن اینٹی ڈسکریمینیشن کمیٹی" نامی ادارے کی رکن جینان ڈنا اس بارے میں کہتی ہیں کہ شیرین ابوعاقلہ فلسطینی نژاد امریکی شہری تھیں اور وہ مقبوضہ فلسطین میں صہیونی فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے والی دوسری امریکی صحافی ہیں۔ اس سے پہلے امریکی شہریت کے حامل 78 سالہ صحافی عمر اسد بھی جنوری میں مغربی کنارے میں صہیونی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد پراسرار انداز میں قتل کر دیے گئے تھے۔ یاد رہے خود جینان ڈنا بھی فلسطینی نژاد امریکی شہری ہیں۔
جینان ڈنا کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی جب اپنے اہلخانہ اور قریبی رشتہ داروں سے ملنے مقبوضہ فلسطین جاتی ہیں تو انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ان کی حکومت ان کی حمایت کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "ہم امریکی شہری ہیں اور ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن ہم سے وصول کیا گیا ٹیکس ہمارے ہی اہلخانہ اور فلسطینیوں کے خلاف ان کی سرزمین پر ظلم و ستم کیلئے خرچ کیا جاتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر افراد اس سال فلسطین جانے سے خوفزدہ ہیں۔" جمعہ کے روز صہیونی فورسز نے شیرین ابوعاقلہ کی نماز جنازہ پر بھی رحم نہیں کیا اور اس میں شامل افراد کو جارحیت کا نشانہ بنایا۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلینکن کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس واقعے کی ویڈیو دیکھی ہے اور اسے دیکھ کر انہیں شدید دکھ ہوا ہے۔
مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل نامی ناجائز ریاست کی تشکیل کے آغاز سے ہی امریکہ اس کا اصلی ترین اور اسٹریٹجک اتحادی رہا ہے۔ اسی طرح امریکی حکومت نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ مشرق وسطی میں اسرائیل اس کا اصلی ترین اتحادی ملک ہے۔ ہر آنے والا امریکی صدر اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت اور مدد جاری رکھے گا۔ واشنگٹن میں امریکن عرب فاونڈیشن نامی تھنک ٹینک کی ڈائریکٹر مایا بیری اس بارے میں کہتی ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعہ میں ایک بے طرف اور منصف کھلاڑی نہیں ہے۔ انہوں نے الجزیرہ نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا: "امریکی حکام نے اس ظلم و ستم میں مصروف اسرائیل کی بھرپور حمایت کا عہد کر رکھا ہے۔"
تحریر: علی احمدی
امریکہ میں نسل پرستانہ فائرنگ کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہو گئے ہیں
امریکی میڈیا نے اتوار کی صبح خبر دی ہے کہ ریاست نیویارک کے شہر "بھینس" میں اندھی فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے۔
نیویارک پولیس کا کہنا ہے کہ ایک شخص جس نے خود کو "سفید بالادستی" کے طور پر شناخت کیا تھا، ایک سپر مارکیٹ میں فائرنگ شروع کر دی۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ابتدائی اطلاعات کے مطابق کم از کم نو افراد کو گولیاں ماری گئیں جن میں متعدد افراد کے سروں پر بھی گولیاں لگیں۔ دو متاثرین سٹور کے باہر زمین پر دم توڑ گئے اور کم از کم ایک شخص کو ڈسٹرکٹ ہسپتال لے جایا گیا۔
اسٹور کے اندر موجود افراد کی حالت ابھی تک معلوم نہیں ہے۔
شوٹر کی حالت کے بارے میں متضاد اطلاعات موصول ہوئی ہیں، کچھ میڈیا آؤٹ لیٹس نے کہا کہ وہ جائے وقوعہ پر ہی مارا گیا۔ بفیلو پولیس نے تاہم کہا کہ مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس سے ایک نیم خودکار رائفل ضبط کر لی گئی ہے۔
حملہ آور نے شوٹنگ کو Twitch پر براہ راست نشر کیا، جس میں پرتشدد مناظر کے ریکارڈ شدہ اسکرین شاٹس دکھائے گئے، جن میں ایک خاتون کو ایک اسٹور کے باہر چہل قدمی کے دوران سر میں گولی ماری گئی تھی۔
اس نے انٹرنیٹ پر 106 صفحات پر مشتمل ایک آن لائن بیان بھی پوسٹ کیا، جس میں وضاحت کی گئی کہ اس کا محرک ایک "سازشی مفروضے" کی وجہ سے تھا کہ دوسری نسلیں گوروں کی جگہ لے رہی ہیں۔ دستاویز میں، اس کا کہنا ہے کہ اس کی عمر 18 سال ہے اور وہ خود کو سفید فام اور "یہود مخالف" کے طور پر بیان کرتا ہے۔
چند منٹ بعد، امریکی میڈیا نے بفیلو پولیس کے حوالے سے اطلاع دی کہ فائرنگ میں کم از کم 10 افراد مارے گئے۔
"یہ ایک ہارر فلم دیکھنے جیسا ہے، سوائے اس کے کہ سب کچھ حقیقی ہے،" بفیلو پولیس کے ایک اہلکار نے شوٹنگ کے مقام پر میڈیا کو بتایا۔ "یہ واقعی ایک apocalyptic منظر ہے!"
یو ایس آرمڈ وائلنس ریسرچ آرکائیو سے پتہ چلتا ہے کہ 2022 کے آغاز سے لے کر اب تک پورے امریکہ میں کم از کم 140 بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات ہو چکے ہیں۔
://www.taghribnews.